غزل
اندھیری رات ہے چاندنی کوتکتے ہیں
ہم تو راتوں کو بھی سوتے تھے کہ نہ سوتے تھے
ان کو چاند میں روٹی نظرآتی ہے
ہم اس میں محبوب پاکے روتے تھے
عمر بھر اس ماہ رخ کو رکھوں گا یاد
عشق میں ایسے بھی عہد و پیماں ہوتے تھے
اب کے بہار نے رنگ بدلا ہے
ورنہ ہم جیسے بھی کہاں عاشق ہوتے تھے
سرفراز بیگ ۱۹۹۲ ۔۰۳۔۰۲ راولپنڈی
درج ذیل میری زندگی کی پہلی طبع آزمائی ہے اور اس غزل کا پہلا شعر میری زندگی کا پہلا شعر ہے
اک شعر ہمارے کنے سفید،یاں ان کے نیلیاں
اک ہمیں میسر اک انھیں
ہم تو راتوں کو بھی سوتے تھے کہ نہ سوتے تھے
ان کو چاند میں روٹی نظرآتی ہے
ہم اس میں محبوب پاکے روتے تھے
عمر بھر اس ماہ رخ کو رکھوں گا یاد
عشق میں ایسے بھی عہد و پیماں ہوتے تھے
اب کے بہار نے رنگ بدلا ہے
ورنہ ہم جیسے بھی کہاں عاشق ہوتے تھے
سرفراز بیگ ۱۹۹۲ ۔۰۳۔۰۲ راولپنڈی
درج ذیل میری زندگی کی پہلی طبع آزمائی ہے اور اس غزل کا پہلا شعر میری زندگی کا پہلا شعر ہے
اک شعر ہمارے کنے سفید،یاں ان کے نیلیاں
اک ہمیں میسر اک انھیں
No comments:
Post a Comment