Sunday, May 26, 2013

بچت میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ


بچت

احمد ندیم کاظمی اپنے دوست کے ساتھ بڑی دیر سے بحث کررہا تھا کہ وہ بی ایس سی میں تین دفعہ فیل ہو چکا ہے اور اب وہ ٹیکنیکل کالج کی خاک چھان رہا ہے۔ وہاں کے چکر لگا رہا ہے۔ اگر کبھی غلطی سے ڈپلومہ کر بھی لے گا تو کیا کرے گا۔ لیکن جاوید احمد صدیقی اس بات پر مُصر تھا کہ وہ ڈپلومہ کرکے کوئی اچھی نوکری ڈھونڈلے گا۔ بی ایس سی نہ سہی ڈپلومہ ہی سہی۔ ان کی بحث کسی نتیجے پر نہ پہنچی سکی۔
ژ
جاوید احمد صدیقی کو اچانک نہ جانے کیا سوجھی، اس نے انگلینڈ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ بی ایس سی، ٹیکنیکل ڈپلومہ دونوں وہیں دھرے رہ گئے۔ کاظمی نے بہت سمجھایا کہ نہ جاؤ لیکن صدیقی جس کام کو کرنے کی ٹھان لیتا تو کرکے ہی رہتا۔ جیسے تیسے کرکے صدیقی نے انگلینڈ کا وزٹ ویزہ حاصل کرلیا۔ اب وہ انگلینڈ جانے کی تیاریاں کرنے لگا۔ کاظمی ایم ایس سی کرچکا تھا اور اب وہ نوکری کی تلاش میں تھا۔ لیکن صدیقی اپنی ادھوری تعلیم کے ساتھ انگلینڈ جارہا تھا۔ دونوں نے اپنے بہتر مستقبل کے لیے بے شمار منصوبے بنائے تھے۔ کئی خواب بُن رکھے تھے۔ کاظمی کے خواب پورے ہونے والے تھے کیونکہ وہ تعلیم مکمل کرچکا تھا۔ اس کے خواب بڑے عام سے تھے، جیسا کہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان کے ہوا کرتے ہیں۔ یعنی تعلیم، نوکری، گھر، شادی، بچے۔ لیکن صدیقی اس کے برعکس بہت زیادہ دولت کمانا چاہتا تھا، اسلیے وہ دولت کمانے کے آسان طریقے سوچتا رہتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ جی لگا کر نہ پڑھ سکا، نہ ہی بی ایس سی کرسکا اور نہ ہی ٹیکنیکل ڈپلومہ کرسکا۔ اب وہ انگلینڈ جارہا تھا۔
ژ
صدیقی کے تمام گھر والے اسے ایئر پورٹ پر چھوڑنے آئے حتیٰ کہ اس کی منگیتر بھی۔ گھر والوں کے علاوہ کاظمی بھی ایئر پورٹ پر آیا ہوا تھا۔ صدیقی بڑی مشکل سے گھر والوں اور اپنے جگری دوست کاظمی سے جدا ہوکے پردیس جارہا تھا۔ لیکن اسے انگلینڈ پہنچنے کی بھی بہت جلدی تھی۔ اس نے اپنی ماں کو بہت بہت تسلیاں دیں کہ وہ جیسے ہی تھوڑا سا مالی طور پر مستحکم ہوجائے گا تو تسنیم کو بھی بلالے گا۔ سب نے دکھ اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جاوید کو خدا حافظ کہا۔
ژ
جاوید احمد صدیقی کے دور کے چچا لندن میں رہتے تھے۔ اس نے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترتے ہی اپنے دور کے چچا کو فون کیا اور اس کے دور کے چچا نے دور سے ہی کہہ دیا کہ فلاں فلاں ٹرین پر بیٹھ کے گھر آجاؤ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ گھر پہنچا تو رات کے کھانے کا وقت تھا۔ سب نے مل بیٹھ کے کھانا کھایا اور اس کے بعد اس کے دور کے چچا نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور ایک مکان کے سامنے گاڑی روک دی اور اس سے کہا کہ اب تم یہیں رہو گے، جب تک تمہارے رہنے کا ارادہ ہو۔ جاوید اپنے اس دور کے چچا کی اس دور اندیشی سے بڑا متاثر ہوا۔
ژ
ابھی اسے یہاں رہتے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ اسے کام مل گیا اور کام ملتے ہی اس نے ان لوگوں کو، جہاں یہ رہتا تھا، کھانے پینے کا خرچہ اور کرایہ ادا کرنا شروع کردیا۔ جاوید تو یہاں مستقل طور پر رہنے آیا تھا لیکن ا س نے اپنے دور کے چچا پر اپنا ارادہ اس لیے نہ ظاہر کیا کیونکہ ایئر پورٹ سے گھر تک آنے میں وہ تمام حقائق سے آشناء ہوچکا تھا۔ آپ اسے جاوید کی قسمت کہہ لیجئے یا چالاکی کہ اسے ایک ایسی لڑکی مل گئی جو اس کے ساتھ شادیکرنے کو تیار ہوگئی۔ اس نے لڑکی کے باپ دادا کے ساتھ اپنا ڈاکخانہ ملایا۔ لڑکی والے بھی انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے (اس کے بعد یہ لوگ ہجرت کرکے انگلستان آ گئے تھے) اور جاوید کے بزرگ بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ جاوید کی قسمت اچھی تھی کہ شادی ویزے کی مدت میں ہوگئی ورنہ اسے واپس جانا پڑتا اور اس کے ساتھ ایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ وہ مرزا غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے،
’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘
جاوید نے شادی کے بعد اس لڑکی کے ہاں ہی رہنا شروع کردیا۔ لڑکی کا اپنا مکان تھااور کسی بینک میں کام کرتی تھی۔ دونوں کی اچھی گزر بسر ہونے لگی۔ جاوید کے لیے راحیلہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ کیوں نہ ہوتی، جاوید کے لیے انگلینڈ میں مستقل رہنے کی وجہ تھی۔ جیسے ہی جاوید کے پاسپورٹ پر انڈیفینٹ سٹے
(indefinite stay)
کی مہر لگی، جاوید تو خوشی کے مارے پاگل ہوگیا۔ راحیلہ امید سے تھی اس لیے پاکستان جانے کا کوئی خاص پروگرام نہ بن سکا۔ اس دوران جاوید کے دور کے چچا کو کہیں سے پتا چل گیا کہ جاوید کو انگلینڈ میں رہنے کا اجازت نامہ مل گیا ہے جسے انڈیفینٹ سٹے
(indefinite stay)
کہتے ہیں تو وہ اس کے نزدیک کے چچا بن گئے اور گاہے بگاہے جاوید کے ہاں آنے لگے۔ جاوید نے اس دوران چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیااور ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی پاس کرلیا۔ ایک سستی سی گاڑی بھی خرید لی۔ بظاہر تو ایسا لگتا تھا کہ جاوید، راحیلہ سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے، لیکن یہ خدا جانتا تھا یا وہ خو د جانتا تھا۔ جیسے ریاضی میں پرائم نمبر ہوتے ہیں جو ایک پر تقسیم ہوتے ہیں یا اپنے آپ پے۔ جاوید کو خدا نے بیٹی جیسی نعمت سے نوازاتھا۔ وہ بظاہر تو بڑا خوش تھا، مگر حقیقت میں وہ خوش نہیں تھا۔ راحیلہ کے لیے جاوید سے شادی کرنا جنت میں رہنے سے کم نہیں تھا۔ اس اثناء راحیلہ کو بینک سے چھٹیاں ملیں اور جاوید بھی کاروبار کرتے کرتے تھک گیا تھا، اس لیے انہوں نے پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔
ژ
لاہور ایئرپورٹ پر کاظمی اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ صدیقی کو رسیو کرنے آیا ہوا تھا۔جاوید کے گھر والے توآئے لیکن اس کی منگیتر نہ آئی۔ اب یہ منگنی تقریباً ٹوٹ چکی تھی اور راحیلہ کو اس بات کا قطعاً علم نہیں تھا کہ جاوید کی پاکستان میں منگنی ہوچکی تھی۔ سب نے ان دونوں میاں بیوی اور ننھی جنین کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گھر پہنچنے تک جاوید، احمد ندیم کاظمی کو تمام کہانی سنا چکا تھا۔
ژ
جاوید، راحیلہ اور جنین ایک ماہ تک لاہور میں مختلف رشتہ داروں کے ہاں دعوتیں اڑاتے رہے اور وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ اس طرح واپسی کا دن آگیا۔ سب نے جاوید، راحیلہ اور جنین کو دکھی دل کے ساتھ رخصت کیا لیکن جاوید نے جلد واپس آنے کا وعدہ کیا۔ خدا خدا کرکے جہاز کا تکلیف دہ سفر ختم ہوا اور ان کے جہاز کے پہیوں نے ہیتھرو ایئرپورٹ کے رن وے کو چھوا تو ننھی سی جنین کی آنکھ کُھل گئی۔ امیگریشن اور سامان کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ لوگ گیٹ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جاوید کے دور کے چچا (جو اب نزدیک کے چچا ہوگئے تھے۔ انہوں نے پاکستان فون کرکے ان کے آنے کی خبر حاصل کرلی تھی اس لیے وہ) انہیں لینے آئے ہوئے تھے۔ جاوید نے خدا کا شکر ادا کیا اور گھر کی راہ لی لیکن راستے میں جاوید کے دور کے چچا کہنے لگے، کھانا ہمارے ہاں کھا کے پھر چلے جانا، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے۔ جاوید کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ ان کے گھر سے کھانا کھا کر جب فراغت حاصل کرچکے تو جاوید کے دور کے چچا انہیں گھر تک چھوڑنے آئے۔
ژ
جاوید کو برٹش پاسپورٹ مل گیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے ایسا لگتا تھا جیسے اس نے بی ایس سی کرلی ہو یا ٹیکنیکل ڈپلومہ حاصل کرلیا ہو۔ جاوید کو جیسے ہی پاسپورٹ ملا، پاکستان میں اس کے والد صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی اور جاوید کو اکیلے پاکستان جانا پڑگیا۔ راحیلہ، جاوید کو پاگلوں کی طرح چاہتی تھی اور اسے اس پر مکمل اعتماد تھا۔ اس کے دل کے نہاں خانے میں کبھی بھو ل کر بھی یہ خیال نہ آیا کہ جاوید کو اس کے ساتھ شادی کرکے برٹش پاسپورٹ ملا ہے۔ ان کی چونکہ ایک عدد بیٹی بھی تھی اس لیے شک کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اس نے خوشیخوشی جاوید کو رخصت کیا اور اسے تسلی دی کہ تمہارے والد صاحب میرے والد صاحب کی طرح ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔
ژ
جاوید نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنی منگیتر کے ماں باپ کو راضی کیا اور انہیں سمجھایا کہ اس نے انگلینڈ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے شادی کی ہے۔ اگر وہ بچہ پیدا کرنے میں کوئی حیل وحجت کرتا تو اس کی بیوی کو شک ہوجاتا، اس لیے اس نے کبھی بھی اپنے دل کی کیفیت اپنی بیوی کو بھانپنے نہیں دی۔ خیر جاوید کی شادی اس کی منگیتر کے ساتھ کردی گئی اور جاوید کے والد صاحب کی طبیعت بھی ٹھیک ہوگئی۔ اس طرح ایک ماہ کی مدت گزرتے ہی جاوید نے رختِ سفر باندھا۔ اس دفعہ ایئر پورٹ پر راحیلہ اور جنین آئی تھیں۔ راحیلہ بہت روئی لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ جاوید نے کہا کہ میں بہت مجبور تھا۔ میری منگیتر کے والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا۔ اگر میں شادی نہ کرتا تو وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے اور ان کی موت کا ذمہ دار میں ہوتا، لیکن یہ بات سچ ہے کہ میں پیار تمہی سے کرتا ہوں۔ راحیلہ اسے بت بنی دیکھتی رہی۔ جاوید پھر کام پر جانے لگا اور راحیلہ نے بینک کی نوکری چھوڑ دی۔ اب وہ بہت اداس رہنے لگی تھی۔ اسے جاوید کی بات کا یقین آگیا اور جاوید کے پیار میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ ویسے بھی جاوید تو اس کے پاس تھا۔ ایک دن جاوید نے راحیلہ سے کہا، ’’اگر میں تمہیں طلاق دے دوں اور تم سنگل پیرنٹ بینیفٹ کلیم
(single parent benifite claim)
کرنا شروع کر دو۔ جس مکان میں ہم رہتے ہیں اس کا کرایہ بھی کلیم کرنا شروع کردو، ہم لوگ مفت میں رہیں گے اور جو بچت ہوگی وہ جنین کے مستقبل کے لیے رکھ چھوڑیں گے۔ راحیلہ نے جاوید کی بات مان لی کیونکہ جس طرح پیپر میرج ہوتی ہے اس طرح پیپر ڈیوورس (کاغذی طلاق) بھی ہوتی ہے، یعنی جعلی طلاق۔ ہوتی تو وہ حقیقت میں طلاق ہی ہے لیکن طلاق یافتہ میاں بیوی اکھٹے رہتے ہیں (میں یہاں اسلامی قانون کی بات نہیں کررہا بلکہ برٹش لاء کی بات کررہا ہوں) لیکن کاغذات میں وہ شادی شدہ نہیں ہوتے۔ اس طرح بیوی اور بچوں کو علیحدہ بینیفٹ ملتا رہتا ہے اور اگر خاوند کے پاس کام نہ ہوتو اسے بھی بینیفٹ ملتا رہتا ہے اور سنگل پیرنٹ کو کونسل کا گھر ملنے کے زیادہ چانسس (امکانات) ہوتے ہیں۔ یہ سارے اقدامات کرنے کے بعد جاوید نے پاکستان کے زیادہ چکر لگانا شروع کردیئے۔ برٹش
سرکار کے کاغذات میں وہ بیروزگار تھا۔ اس نے اپنا کاروبار دوبئی میں پھیلانا شروع کردیا تھا۔ اب تک جاوید کافی امیر آدمی بن چکا تھا۔ وہ پاکستانی حساب سے کروڑ پتی بن چکا تھا۔ اس کے علاوہ دو دفعہ پتی بھی بن چکا تھا۔ راحیلہ ان تمام باتوں سے نابلد و ناواقف تھی کیونکہ اسے تو یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ اس کا اور اس کی بیٹی کا مستقبل کیا ہوگا۔ کئی دفعہ جاوید نے راحیلہ کو باور کرایا کہ وہ پاکستان والی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ لیکن اس دوران اس کی پاکستانی بیوی کے ہاں بھی دو بچیاں پیدا ہوچکی تھیں۔
ژ
جنین اب بڑی ہوچکی تھی اور اچھے برے کی تمیز کرسکتی تھی۔ اس کے باپ نے جنین کے نام مکان بھی خرید لیا تھا کہ جب اس کی شادی ہوگی تو یہ اور اس کا میاں دونوں وہیں رہیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جو بیٹیاں تھیں ان کے نام بھی ایک ایک مکان تھا جن کی مالیت پچاس پچاس لاکھ تھی۔ گو وہ دونوں بھی اب برٹش نیشنل تھیں لیکن انہوں نے ابھی تک انگلستان کا سفر نہیں کیا تھا، کیونکہ جاوید نہیں چاہتا تھا کہ انگلستان کے برے ماحول کا ان پر اثر پڑے۔ اس کے نزدیک اس نے جو شادی انگلینڈ میں کی تھی، یعنی راحیلہ اور جنین تو نیشنیلٹی حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ آپ اسے ایک طرح کی انویسٹمنٹ کہہ لیجئے۔ لیکن وہ کبھی بھی اپنے احساسات و جذبات اور اپنے کسی بھی عمل سے یہ بات ظاہر نہ ہونے دیتا کہ وہ ان کے بارے میں کیا محسوس کرتا ہے۔ جاوید کے لیے وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا اور راحیلہ کے لیے وقت رینگ رہا تھا۔ وہ زندگی کو کسی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹ رہی تھی۔
ژ
جاوید نے بڑی کوشش کی کہ جنین شادی کرلے لیکن برٹش قانون کے مطابق وہ اپنی بیٹی کو مجبور نہیں کرسکتا تھا۔ جنین کی شادی نہ کرنے کی وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ جوکچھ اس کی ماں کے ساتھ ہوا، اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو۔ وہی کہانی ایک دفعہ پھر دہرائیجائے۔ ا س کے برعکس پاکستان میں دونوں بیٹیوں کی شادیاں کردیں۔ اس کے دونوں داماد جانتے تھے کہ یہ دونوں بہنیں برٹش نیشنل ہیں اس لیے انہوں نے دونوں بہنوں پر دباؤ ڈالا کہ انگلستان جانا چاہیے، یہاں کچھ نہیں رکھا۔ اور آخرکار ایک ایک کرکے دونوں بہنیں انگلستان چلی آئیں۔
ژ
جنین اپنی سوتیلی بہنوں کی وجہ سے بڑی پریشان تھی کیونکہ دونوں کے خاوندوں کو برٹش پاسپورٹ مل چکے تھے اور دونوں کو طلاق بھی ہوچکی تھی۔ جس کی وجہ سے ایک تو ایک جمیکن کے ساتھ رہنے لگی تھی اور دوسری کا مرد ذات سے اعتبار اٹھ چکا تھا اس لیے وہ ایک لڑکی کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ جنین کو بڑی حیرت ہوئی کہ میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی ہوں اور میں نے اس ملک میں آنکھ کھولی ہے جہاں کا ماحول پاکستان سے یکسر مختلف ہے، مجھ پر اس ملک کے ماحول کا رنگ نہیں چڑھا۔ لیکن اس کے برعکس اس کی سوتیلی بہنیں کتنی جلدی اس رنگ میں رنگی گئیں۔ گو کہ یہ سب کچھ ہونے میں سات سال لگے پھر بھی یہ سب کچھ بہت جلدی ہوا۔
ژ
جاوید پر فالج کا حملہ ہوا اور مستقل طور پر ہسپتال کا مہمان بن گیا۔ اس کی پاکستانی بیوی سے جو بیٹیاں تھیں وہ کبھی بھول کر بھی اپنے باپ کو دیکھنے نہ آئیں لیکن جنین کبھی کبھی آجایا کرتی۔ ہسپتال میں اسے ہر طرح کا آرام تھا لیکن اس کی آنکھیں اپنے بچوں کو دیکھتی تھیں۔ جنین کی بات الگ تھی، وہ کئی دفعہ ہسپتال آتی اور اپنے باپ کی دیکھ بھال کرتی۔ جاوید کے فالج کی وجہ سے دونوں ہاتھ نہ جڑ سکتے تھے لیکن اس کی
آنکھیں بتاتی تھیں کہ وہ معافی کا خواستگار ہے، اپنی بیوی راحیلہ سے اور اپنی بیٹی جنین سے۔ اس کی تمام دولت نہ تو راحیلہ کی جوانی واپس لاسکتی تھی، نہ جنین کے لیے باپ کی شفقت جس سے جنین محروم رہی۔ اور سب سے بڑھ کے یہ کہ اس کی دولت اسے صحت یاب بھی نہیں کرسکتی تھی۔ یہ تمام دولت، اس کی تمام پلیننگز اور چالاکیاں یہ چیزیں فراہم نہیں کرسکتی تھی۔ آخرکار ایک دن جاوید کو جبجنین سوپ پلانے لگی تو سارا سوپ منہ سے باہر گر گیا ااور اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ اس کی بیوی راحیلہ کے منہ سے صرف اتنے الفاظ نکلے،
’’جاوید تم ساری زندگی دولت بچاتے رہے، کاش تم بچوں کی تربیت کی صورت میں بچت کرتے نہ کہ دولت کی صورت میں، تو آج تمہاری
تینوں بیٹیاں تمہارے پاس ہوتیں‘‘۔

بادانتے میرا افسانہ میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے

  
بادانتے      

میں شانتی کو گزشتہ چھ سال سے جانتا ہوں۔ مجھے اریزو شہر میں رہتے ہوئے بھی چھ سال ہوچلے ہیں اس لیے میں شانتی کو چھ سال سے جانتا ہوں۔ شانتی ایک سری لنکن عورت ہے جو مذہب کے اعتبار سے ہندو ہے۔ مجھے جب پتا چلا کہ شانتی کو دل کا دورہ پڑا ہے تو میں بڑا حیران ہوا کیونکہ میں نے جب بھی اسے دیکھا وہ تیز تیز چل رہی ہوتی۔ یعنی وہ ہر وقت چاک و چوبند رہتی تھی۔ شانتی اس وقت اریزو شہر کے ہسپتال سان دوناتو
(SAN DONATO)
میں زیرِ علاج ہے۔ عین ممکن ہے کہ اُسے مزید علاج کے لیے سینا
(Siena)
یا میلانو
(Milano) بھیج دیا جائے۔ میری یہ دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائے۔
پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ بادانتے
(BADANTE)
یا کولف
(COLF)
کیا ہوتا ہے۔ اٹلی میں کسی بھی معذورشخص، بوڑھے شخص یا ذہنی مریض کی دیکھ بھال کرنے والے کو بادانتے کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈومیسٹک جاب
(domestic job)
یا بے بی سٹنگ
(baby sitting)
کا کام بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہاں کتوں کی دیکھ بھال کا کام بھی اسی شعبے کا ایک حصہ ہے۔ اب آتے ہیں شانتی کی طرف۔ آج سے کئی سال پہلے شانتی نہ جانے کس طرح یورپ پہنچی اور اس نے آکر کے ڈیرہ اٹلی میں جمایا۔ جب آئی تو زبان سے ناواقف تھی، گھر نہیں تھا، کام نہیں تھا، کاغذ نہیں تھے۔ اتنے سارے مسائل کاسامنااسے ایک ساتھ ہی کرنا پڑا۔ یہ اکیلی نہیں تھی بلکہ پورے یورپ میں ایسے کئی لوگ ہیں جن کے پاس کاغذات نہیں ہوتے اور اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال کاغذات کے حصول کے لیے صَرف کردیتے ہیں۔ میں یہاں پر ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پانچ لاکھ روپے ادا کرکے وہ یورپ آتے ہیں تو کوئی بہت بڑا معرکۃالآراء کام کرتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یورپ آنے سے پہلے انسان کو ذہن میں ایک بات بٹھا لینی چاہیے کہ یہاں کاغذات کا طریقہ رائج ہے۔ ہمارے ملکوں کی طرح نہیں کہ آپ جب چاہیں جس وقت چاہیں جہاں چاہیں کام کرلیں۔ یہاں جب آپ سیر کے ویزے پر آتے ہیں، یا پڑھنے کے لیے آتے ہیں یا کاروبار کے لیے تو آپ کی قانونی نوعیت اور ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں تو آپ کی قانونی حیثیت اور ہوتی ہے۔ اگر آپ یورپ کے کسی بھی ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہوتے ہیں تو آپ ان ملکوں کے قانون کے مطابق بنا کاغذات کے ہوتے ہیں۔ یورپ کے ہر ملک کا اپنا قانون ہے لیکن غیرقانونی کا لفظ ہر اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے پاس رہنے کا اجازت نامہ نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کسی بھی یورپین ملک میں داخل ہوں تو آپ کو آتے ہی کام مل جائے گایا کاغذات مل جائیں۔ سب سے پہلے تو سر چھپانے کی جگہ چاہیے ہوتی ہے، پھر کام اور اس کے بعد کاغذات کی تگ و دو۔ جس کے کئی طریقے ہیں۔ سیاسی پناہ، شادی کرنا، یا وہ ملک جہاں آپ رہ رہے ہیں اس کی امیگریشن کھل جائے۔
بات ہورہی تھی شانتی کی۔ شانتی کو ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ شانتی کی عمر پچاس سال ہوگی۔ جسامت، دبلی پتلی، شکل واجبی، رنگ کالا، قد چھوٹا، آنکھیں چھوٹی چھوٹی جو بمشکل کھلتی تھیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ کالے نشان، (حلقے) اس کی وجہ شاید نیند کا پورا نہ ہونا، تھکن اور ذہنی تناؤ۔ تیز تیز چلتی ہے اور باتوں میں ایک عجیب قسم کا کرب۔
شانتی جب اٹلی وارد ہوئی تو اس کی کوئی ہم وطن اریزو شہر میں رہتی تھی۔ قسمت کیماری اس کے پاس چلی آئی۔ چونکہ انگلینڈ کے علاوہ یورپ کے تمام ملکوں میں پولیس کو کاغذات چیک کر نے کی اجازت ہے اس لیے اس کی سہیلی نے اسے بہت ڈرایا دھمکایا تھا کہ یہاں پولیس کاغذات چیک کرتی ہے، اس لیے اِدھر اُدھر آوارہ نہ گھوما کرو۔ شانتی ڈرپوک تھی اس لیے اس نے اپنی سہیلی کی بات پر عمل کرتے ہوئے کبھی کسی سے زیادہ بات نہیں کی اور نہ ہی کہیں آتی جاتی۔ وہ گھر کا سارا کام کرتی، کھانا بناتی اور گھر میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی زنجیروں کو جوڑ جوڑ کے اپنے اخراجات پورے کرتی۔ اس دوران شانتی کی ہم وطن نے اس کے لیے ایک گھر میں کام ڈھونڈ لیا۔ یہاں ایک بوڑھا آدمی اور اس کی بیوی رہتے تھے۔ شانتی یہاں رہنے لگی۔ انہوں نے شانتی کو ایک کمرہ دیا۔ وہ تمام گھر کی صفائی کرتی، ان بوڑھوں کے لیے کھانا بناتی۔ اس کے بدلے شانتی کو کھانے کوملتا اور سر چھپانے کی جگہ۔ شانتی کو یہاں کام کرتے ہوئے پورا سال گزر گیا اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ اس کی سہیلی اس کی تنخواہ ایک سال سے ان بوڑھوں سے وصول کررہی ہے۔ شانتی یہی سمجھتی رہی کہ چونکہ وہ یہاں اِللیگل ہے اس لیے اسے تنخواہ نہیں مل سکتی۔ اس دوران اس بوڑھی عورت کا میاں چل بسا۔ اب شانتی کا کام بھی کم ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تنخواہ بھی آدھی ہوگئی۔ اب شانتی تھوڑی تھوڑی اٹالین بولنے لگی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ باہر کی دنیا میں قدم رکھا اور لوگوں سے جان پہچان بڑھائی۔ شانتی بہت کم گو اور محنتی تھی۔ اس لیے اِسے ایک اور جگہ بے بی سٹنگ کا کام مل گیا۔ اس بوڑھی عورت کے پاس اس نے اپنی ایک ہم وطن کو چھوڑا۔ لیکن اس نے اس کے ساتھ اپنی سہیلی کی طرح نہ کیا۔ یعنی اس کی تنخواہ کبھی وصول نہ کی۔
اب جہاں شانتی کام کرتی تھی یہ لوگ بہت امیر تھے۔ ان کا بہت بڑا گھر تھا۔ انہوں نے اریزو میں بطور مشغلہ ایک دوکان کھول رکھی تھی۔ حالانکہ ان کو لوگوں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ شانتی کو اچھا کھانے کو ملتا اور اچھا پہننے کو ملتا۔ اس کے علاوہ معقول تنخواہ بھی۔ شانتی یہاں زیادہ عرصہ کام نہ کرسکی۔ اس کی وجہ بچے تھے جن کی وہ دیکھ بھال کرتی تھی۔ بچوں کو گورے رنگ والی بے بی سٹر چاہیے تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک انٹرنیشنل ایجنسی کیذریعے ایک پولش لڑکی کا انتظام کرلیا اور شانتی کی چھٹی کردی۔ شانتی نے پہلے سے ہی کام ڈھونڈا ہوا تھا۔ اسے ایک ریٹائرڈ فوجی کے ہاں کام مل گیا جس نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ جوڑوں کے مرض میں مبتلا تھا۔ چل پھر نہیں سکتا تھا۔ زیادہ وقت وہیل چیئر پر ہی گزارا کرتا۔ رات کو شانتی اسے بستر پر لٹا دیا کرتی۔ یہاں بھی شانتی کو چوبیس گھنٹے اس کے پاس رہنا پڑتا۔ رات کو وہ سوجاتا لیکن کبھی پانی پینا ہو یا پیشاب کرنا ہو تو شانتی کو گھنٹی بجا کے بلا لیا کرتا۔ شانتی خوش تھی کیونکہ وہ اس سے زیادہ
تکلیف دیکھ چکی تھی۔ شانتی کو اٹلی آئے ہوئے ابھی بمشکل دو سال ہوئے ہوں گے کہ اٹلی کی امیگریشن کھل گئی۔ یہ ریٹائرڈ فوجی اچھا آدمی تھا، اس نے شانتی کے کاغذات جمع کروادیئے۔ حتیٰ کہ ٹیکس بھی ادا کیا۔ جسے اطالوی زبان میں کونتریبیوتی
(contributi)
کہتے ہیں۔ وہ کیوں نہ اس کی مدد کرتا، شانتی تھی ہی اتنی اچھی۔ وہ کبھی کبھی اسے خوش بھی کردیا کرتی۔ شانتی کو یہی ڈر تھا کہ اگر اس کی بات نہ مانی تو جمع کروائے ہوئے کاغذات واپس لے لے گا۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اگر مالک اس کے کاغذات واپس لے لے تو وہ مالک پر کیس کرسکتی ہے۔ اس طرح اسے چھ ماہ کی پرمیسو دی سجورنو
(permesso di soggiorno)
مل جائے گی اور اس دوران اسے نیا کام ڈھونڈنا ہوگا۔ شانتی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ٹھیک سال بعد پرفیتورا دی اریزو
(prefettura di arezzo)
نے شانتی کو پرمیسو دی سجورنو
(permesso di soggiorno)
جاری کردی۔ وہ بڑی خوش ہوئی۔ اس نے کئی خواب بُن رکھے تھے۔ سری لنکا جائے گی۔ اپنے بچوں سے ملے گی۔ اپنے خاوند کا علاج کروائے گی۔ یہ باتیں وہ دن میں کئی بار سوچتی۔ اب ایسا ممکن تھا۔ اس نے اس فوجی سے بات کی۔ وہ کہنے لگا، مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن تمہیں صرف ایک ماہ کی اجازت ہوگی۔ کیونکہ مجھے تمہاری وجہ سے کافی آرام ہے۔ اور ہاں، اپنی جگہ کسی اچھی سی لڑکی کو چھوڑ جانا۔ شانتی نے کہا، میں ایسا ہی کروں گی۔ ابھی شانتی کے جانے میں کافی دن باقی تھے۔
وہ روز کی طرح آج صبح بھی اس بوڑھے فوجی کی وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوتی جوتو پارک
(Giotto)
پہنچی۔ اس نے وہیل چیئر اس چھوٹے سے حوض کے پاس روکی جہاں سفید رنگ کی دو خوبصورت سوانز
(swans)
بھی ہوتی ہیں۔ اس نے انگلی کے اشارے سے سوانز کو بلایا۔ ایک لحظے میں شانتی نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا اور دل پر رکھ لیا۔ وہ دھڑام سے زمین پر آگری۔ وہ بوڑھا فوجی سوچنے لگا کہ وہ شانتی کی مدد کیسے کرے وہ تو خود معذور ہے۔ وہاں سے گزرتے کچھ لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو فوراً ایمبولنس کو بلایا۔ وہ لوگ شانتی کو ہسپتال لے گئے۔ اس بوڑھے فوجی کو اس کے گھر چھوڑ آئے۔ ایک عدد نرس بھی اس کے پاس رکی جب تک کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوجاتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ شانتی کو آئی این پی ایس (انپس
"INPS",
اٹلی میں یہ ایک ایسا ادارہ ہے اگر آپ بیمار پڑجائیں تو یہ ادارہ جب تک آپ ٹھیک نہ ہوجائیں آپ کو چھ ماہ تک تنخواہ دیتا رہتا ہے) والے پیسے دیں گے یا آئی این اے آئی ایل (اننائیل،
"INAIL"
یہ ایک ایسا اطالوی ادارہ ہے جو کام کے دوران اگر آپ کو چوٹ لگ جائے یا آپ کے ساتھ کام
کے دوران کوئی حادثہ پیش آجائے تو آپ کی مدد کرتا ہے۔ لیکن یہ دونوں اس صورت میں آپ کی مدد کرتے ہیں جب آپ کا مالک ایمانداری سے آپ کا ٹیکس ادا کررہا ہو) والے۔ ویسے تو یہ انفورتونی (کام کے دوران حادثہ پیش آنا یا چوٹ لگنا اطالوی زبان میں انفورتونی کہلاتا ہے) ہے لیکن اطالوی قانون کے بارے میں کچھ کہنا ذرا مشکل ہے۔ میری تو یہ دعا ہے کہ شانتی جلدی ٹھیک ہوجائے۔ انسان کے ہاتھ پاؤں سلامت ہوں تو بندا دوبارہ کام کرسکتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ شانتی اب بادانتے کا کام نہیں کرے گی۔ کیونکہ دل کا مریض تو خود دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے، وہ کسی کی دیکھ بھال کیا کرے گا۔

اھمد مرجان، میرے افسنانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ



                                                                       احمد مرجان       



اس نے چند جملے انگریزی کے بولے اور گاہک کو چلتا کیا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ گاہک زیادہ انگریزی نہیں جانتا تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اگر جان لیتا یا جانتا ہوتاتو بنی بنائی بات بگڑ جاتی کیونکہ احمد مرجان اس سے زیادہ انگریزی جانتا ہی نہیں تھا۔ وہی رٹے رٹائے جملے جو اُس نے اِدھر اُدھر سے سن لیے تھے یا یوں کہنا چاہیے یاد کرلیے تھے۔ احمد مرجان کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن قسمت نے کچھ ایسا پلٹا کھایاکہ معیارِ زندگی اوپر جانے کے بجائے نیچے ہی آتا گیا۔ جب حالات اچھے تھے اور اس کے والد صاحب زندہ تھے (جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹرتھے) یہ سب مرجان کے دادا کی ورثے میں چھوڑی ہوئی کوٹھی میں رہتے تھے۔ مرجان ایک شاندار زندگی بسر کررہا تھا۔ رنگ رنگ کی گاڑیا ں، نت نئے انداز کے کپڑے، مرجان کے دماغ کے نہاں خانوں میں بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ یہ دن دیکھے گا۔ بڑے بہن بھائی تو والد صاحب کے اچھے دنوں میں پڑھ لکھ کر کامیاب ہوچکے تھے لیکن مرجان ایف ایس سی میں کئی بار فیل ہونے کے بعد آخرکار تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوگیا۔ خاندانی اثرو رسوخ کی وجہ سے بی ایس سی میں داخلہ بھی مل گیالیکن مرجان زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ پھر اس نے بی اے کرنے کا سوچا۔ ابھی وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ والد صاحب اس دنیا سے اگلے جہان سدھار گئے۔ والد صاحب نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں، بڑے بھائیوں نے منہ پھیر لیا۔ اب بہنیں تھیں لیکن مرجان کیغیرت گوارہ نہ کرتی کہ ان کی مدد لے۔ اس طرح مرجان بی اے نہ کرسکا اور اس پر ایف ایس سی تھرڈڈویژن پاس کا لیبل لگ گیا۔ پرانے تعلقات اور خاندانی ساکھ کی وجہ سے مرجان کی شادی بھی کردی گئی لیکن مرجان کے لیے شادی کوئی خوش بختی نہ لائی۔ امارت کے دنوں کی جو عادات پڑچکی تھیں وہ کیسے جاتیں۔ گولڈ لیف پینا، ہمیشہ اچھی گاڑی رکھنا، اچھے کپڑے پہننا اور مہنگے درزی سے سوٹ سلوانا۔ اس وقت راولپنڈی شہر کا جانا مانا ٹیلر چراغ دین تھا۔ احمد مرجان، جینز ہمیشہ انگلینڈ سے منگوایا کرتا تھا۔ اب حالات بدل چکے تھے۔ شادی کے بعد اِدھر اُدھر سے اپنے اور بیوی کے اخراجات اٹھانا مرجان کو پسند نہ تھا۔ اس نے کام ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے لیکن ایف ایس سی تھرڈ ڈویژن پاس کو کون نوکری دیتا۔ ابھی وہ کام ڈھونڈنے کی کوششوں میں تھا کہ ایک اور حادثہ پیش آگیا جس میں اس کی ایک آنکھ جاتی رہی۔ سب بہن بھائیوں نے مل کر ہسپتال کا بِل چکایا اور مرجان ایک آنکھ کے ساتھ ہسپتال سے گھر آگیا کیونکہ دوسری آنکھ انہوں نے پتھر کی لگادی تھی۔ اب وہ ساری دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھتا تھا لیکن آنکھوں پر ہر وقت ایسا چشمہ لگائے رکھتا جس سے یہ پتا چلے کہ وہ دھوپ کا چشمہ لگائے ہوئے ہے۔ یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ مرجان کی ایک آنکھ پتھر کی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے قریبی رشتہ دار تھے۔ قدرت کبھی کبھی انسان کا بڑا سخت امتحان لیتی ہے۔ احمد کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس حادثے کے بعد خدا نے اسے ایک عدد بیٹے سے نوازا اور دوسری طرف اس کی آخری خیرخواہ، اس کی والدہ کو چھین لیا، جن کی وجہ اس کا گھر آباد تھا اور اس کے گھر کی دال روٹی چل رہی تھی۔ جیسے ہی والدہ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی، جس مکان میں رہتا تھا اس کو بیچنا پڑ گیاکیونکہ سب بہن بھائیوں کو ان کا حصہ چاہیے تھا۔ احمد کے حصے میں اتنی رقم آئی کہ اس نے چھوٹا سا مکان خرید لیا اور کچھ رقم بچی، اس سے اس نے چھوٹی سے دوکان کھول لی۔ اس کا معیارِ زندگی تو والد صاحب کی فوتگی کے بعد، پہلے ہی گر چکا تھا، اب مزید گر گیا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ احمد مرجان کے بڑے بھائی، جن میں ایک تو بریگیڈیئر تھے، دوسرے ڈپٹی کمشنر تھے اور دو بہنیں ڈاکٹر تھیں، اب اس کے اور ان کے سٹیٹس میں اتنا بڑا خلاء پیدا ہوچکا تھاکہ وہاس سے ملنے سے بھی اجتناب فرماتے تھے اور یہ اُن سے۔ اس طرح زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ احمد مرجان کے اب ٹھاٹھ کچھ اس طرح تھے کہ وہ لنڈے سے چھانٹ چھانٹ کے اچھی اچھی قمیصیں اور جینزلاتا۔ اس طرح وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتا۔ سگرٹ اب بھی گولڈ لیف کے پیتا لیکن روزانہ دو سگرٹ خرید کے گولڈ لیف کی ڈبیاء میں رکھ لیتا۔ جب ڈبیا تھوڑی میلی ہوجاتی یا پرانی ہوجاتی تو بدل لیا کرتا۔ اس نے کباڑی سے ایک پرانی سی گاڑی بھی خرید رکھی تھی جو بڑی مشکل سے اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ صبح سویرے اس کی بیوی ناشتہ تیار کرتی۔ وہ اچھے دنوں کے سے انداز میں غسل خانے میں بالٹی رکھ کر نہاتا۔ اس نے سلور کا ایک کٹورارکھا ہوا تھا جس سے وہ سر پر پانی بہاتااور شاور کے مزے لیتا۔ غسل خانے سے نکل کر وہ کپڑے بدلتا۔ پھر ناشتہ کرتا۔ کبھی کبھی وہ مکھن اور جیم بھی لاتا۔ کبھی کبھی انڈا بھی کھا لیا کرتا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ جوتے پہنتا جو کئی دفعہ پالش کرنے سے اب بہت خراب ہوچکے تھے۔ وہ بریف کیس میں گولڈ لیف کی ڈبیاء رکھتا، اس کے علاوہ اس بریف کیس میں کچھ نہ ہوتا۔ جب کبھی گاڑی خراب ہوجاتی وہ مستری کے پاس جاتا، بڑے ٹھاٹھ سے ایک پاؤں سٹول پر رکھتا، پھر اپنے تھائی پر بریف کیس رکھتا اور ٹھک سے اسے کھولتا۔ اس انداز سے کہ اسے کوئی دوسرا نہ دیکھ لے۔ اس میں سے گولڈ لیف کی ڈبیاء نکالتا، اس سے سگرٹ نکالتا اور بڑے ترنگ سے ڈبیاء ایک کونے میں پھینک دیا کرتا۔ اس بات کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ آخری سگرٹ تھا، حالانکہ وہ صبح دو سگرٹ خریدتا تھا۔ ایک وہ نکال کے پی لیتا اور دوسرا اس میں رہ جاتا جو ڈبیاء وہ مستری کو دکھانے کے لیے پھینکا کرتا۔ وہ مستری سے نظر بچا کے ڈبیاء دوبارہ بریف کیس میں رکھ لیا کرتا۔ مستری کو اس کی اس چالاکی کا کبھی پتا نہ چلا۔ جس محلے میں اس نے گھر خریدا ہوا تھا، سب لوگ اسے بڑی توپ چیز سمجھتے تھے۔ اور جہاں اس کی دوکان تھی آس پاس کے دوکاندار اسے اپنا سب کچھ ہی سمجھتے تھے۔ احمد اپنے تئیں اپنی ایک علیحدہ دنیا بسا چکا تھا۔ لیکن تنہائی میں اُسے اس بات کا احساس بڑی شدت سے ہوتا کہ اگر وہ والد صاحب کی زندگی میں تعلیم کی طرف توجہ دیتا تو وہ اس طرح سب سے کٹ کر نہ رہ جاتا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔
ژ
زندگی بڑی آہستگی سے گزر رہی تھی۔ احمد مرجان جیسا بھی تھا دل کا بڑا صاف تھا۔ چھوٹے چھوٹے جھوٹ اور کچھ منافقت اس میں تھی۔ لیکن اس سے کسی کی ذات کو نقصان نہ پہنچتا۔ وہ روز صبح آٹھ بجے دوکان پر جاتا اور شام کو گھر واپس آجاتا۔ اس کی بیوی اس سے زیادہ خوش نہیں تھی لیکن اس نے اپنے خاوند کی خودداری کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دی۔ اس دوران ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کا نام انہوں نے مریم رکھا۔ ان کے اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔ مکان اپنا تھا اس لیے بمشکل گزارا ہوجاتا تھا لیکن مرجان کی بیوی جب بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی تو اس کی روح کانپ جاتی۔ کبھی کبھی وہ مرجان سے شکایت بھی کرتی لیکن وہ کیا کرتا، لگی بندھی کمائی تھی۔ وہ اسے یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ ہمارے آس پاس جو لوگ رہتے ہیں وہ ہم سے بھی زیادہ غریب ہیں۔ وہ یہ جواب سن کر چپ کرجاتی۔
ژ
روز کی طرح آج بھی مرجان کام کے لیے گھر سے نکلالیکن راستے میں گاڑی خراب ہوگئی۔ اس کے موٹر میکینک کا گیراج پاس ہی تھا۔ وہ وہاں پہنچا۔ وہ کسی کی گاڑی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا۔ گاڑی بہت قیمتی تھی۔ میکینک کو زیادہ پیسے ملنے کی امید تھی اس لیے اس نے مرجان کی آمد کا اتنا خیال نہ کیا۔ مرجان کو بہت غصہ آیا لیکن کیا کرتا، انتظار کرنے لگا۔ اس نے سگرٹ سلگانا چاہا لیکن لائٹر کی گیس ختم ہوچکی تھی۔ وہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے پاس گیا جو سوٹ بوٹ میں ملبوس تھا۔ جیسے ہی پاس پہنچا تو حیران رہ گیا۔ وہ اس کے ابو کے بہترین دوست مرزا صاحب تھے۔ انہوں نے فوراً پہچان لیا۔ انہوں نے لائٹر پیش کیا تو مرجان نے احتراماًسگرٹ ڈبیاء میں واپس رکھ لیا۔
انھوں نے پوچھا، ’’ کیسے آنا ہوا‘‘؟
تو اس نے بتایا کہ،
’’گاڑی خراب ہوگئی ہے کام پر جارہا تھالیکن لگتا ہے آج دیر ہوجائے گی‘‘۔
انہوں نے کہا،
’’تم فکر نہ کرو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ یہ بتاؤ کرتے کیا ہو‘‘۔
’’انکل چھوٹی سی دوکان ہے‘‘۔ انہوں نے مرجان کی گاڑی دیکھی اور چھوٹی سی دوکان کا سنا۔ بڑے حیران ہوئے کیونکہ مرجان بڑے لاڈ و پیار میں پلا بڑھا تھا۔
انہوں نے کہا،
’’مرجان بیٹا سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے‘‘۔
مرجان نے کہا،
’’انکل کوئی بات نہیں۔ اپنا گھر ہے، کاروبار ہے، گاڑی ہے۔ سب کچھ ہے۔ دوبچے ہیں،سلیقہ شعار بیوی ہے‘‘۔
’’لیکن بیٹا! تمہارے بڑے بھائی تو بڑے ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ تمہارے بڑے بھائی جان کا نام تو جنرل بننے کے لیے پیش کیا گیا ہے‘‘۔
’’جی میں جانتا ہوں، میں نے اخبار میں پڑھا تھا‘‘۔
’’مرجان مجھے سچ بتاؤ، اتنا بڑا تضاد کیسے‘‘۔ مرجان نے تھوڑا تھوڑا انہیں بتایا لیکن ایسے کہ کسی کی عزت پر آنچ نہ آئے۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں، انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا،
’’بیٹا تمہارا پاسپورٹ بنا ہوا ہے‘‘۔
مرجان نے کہا،
’’جی ہاں‘‘۔
’’اور تمہارے بیوی بچوں کا‘‘۔
’’جی ان کا نہیں بنا ہوا‘‘۔
ابھی وہ باتوں میں مصروف تھے کہ میکینک نے آواز دی، جناب آپ کی گاڑی ٹھیک ہوگئی ہے۔ مرزا صاحب نے اس کو پیسے ادا کئے اور مرجان کو کہا،
’’چلو میں تمہیں تمہاری دوکان تک چھوڑ دوں‘‘۔ میکینک بڑا حیران ہوا۔
اس نے بلند آواز میں پوچھا،
’’مرجان صاحب آپ کی گاڑی‘‘۔
اس نے جواب دیا،
’’ٹھیک کردو، شام کو لے جاؤں گا‘‘۔
ژ
مرزا صاحب اور مرجان کی گاڑی میں تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اُسے مشورہ دیاکہ انگلینڈ کا ویزہ اپلائی کرے کیونکہ ان کا جاننے والا ایمبیسی میں کام کرتا ہے۔ احمد مرجان نے اپنے سُسر سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، کوشش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن میرا مشورہ ہے نہ دوکان بیچ کر جاؤ نہ ہی مکان اور ویزہ اپلائی کردو۔ مرزا صاحب نے فون کردیا تھااس لیے بنا کسی رکاوٹ کے ان کا ویزہ لگ گیا۔
مرجان مکان اور دوکان کی چابیاں اپنے سُسر کے حوالے کرکے انگلینڈ چلا گیا۔ وہاں وہ اپنے کالج کے دنوں کے ایک دوست کے ہاں ٹھہرا۔ اس کے کہنے پر سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے دی۔ برطانوی سرکار نے اسے گھر دیا۔ علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کیں۔ ہر ہفتے سوشل سیکیورٹی ملتی۔ بچے سکول جانے لگے۔ چھ ماہ کے عرصے میں مرجان اور اس کی بیوی، راحت ،کے چہروں پر نکھار آگیا۔ بچے بھی زیادہ گورے چٹے لگنے لگے۔ اس کی بیوی کو ٹیچر کی نوکری مل گئی اور مرجان نے ڈرائیونگ لائسنس پاس کرکے ٹیکسی چلانی شروع کردی۔ ان کے حالات بہت اچھے ہوگئے۔ مرجان نے بچت بھی شروع کردی۔
ژ
آج چھ سال ہوچلے تھے۔ مرجان کو ہوم آفس والوں کا خط آیا کہ تمہاری درخواست برائے سیاسی پناہ منظورکرلی گئی ہے۔ مرجان بڑا حیران تھاکہ یہ کیسے ہوگیا۔ حالانکہ ننانوے فیصد درخواستیں مسترد کردی جاتی ہیں۔ اب وہ سوائے پاکستا ن کے پوری دنیا گھوم سکتاتھا۔ مرجان کو تو پاکستان جانے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن اس کی بیوی اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے ملنے کو بہت تڑپا کرتی، لیکن جب وہ بچوں کی بہتر تعلیم کی طرف دیکھتی تو دل کو ڈھارس بندھ جاتی۔ انہوں نے ایک گھر اپنے رہنے کے لیے خرید لیا اور دوسرا انہوں نیکرائے پر اٹھا دیا۔ دو گاڑیاں تھیں، ایک راحت کے پاس اور ایک مرجان کے پاس۔ دنیا کی تمام
ژ
مرجان کا اپنا منی کیب آفس تھا۔ وہاں کئی لوگ کام کرتے تھے۔ اس نے اپنے بڑے بھائی کو یعنی بریگیڈیئر صاحب کو بھی کام پر لگا دیا۔ انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ کچھ عرصہ پاکستانی لائسنس کے ساتھ اور بعد میں برٹش لائسنس کے ساتھ کام کرتے رہے جو کہ انہوں نے جلد ہی پاس
کرلیا۔ پاکستانی بریگیڈیئر، انگلستان میں ٹیکسی چلانے لگا۔ وہ حقیقت پسند انسان تھے۔ آہستہ آہستہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔ اب مرجان، جو کہ ایف ایس سی تھرڈ ڈویژن پاس تھا اور اس کے بڑے بھائی جوکہ بریگیڈیئر تھے، دونوں کے سٹیٹس میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں ٹیکسی چلاتے تھے اور اچھے پیسے کماتیتھے۔ کچھ عرصے بعد بریگیڈیئر صاحب نے اپنے بچوں کو بھی بلا لیا۔ ان میں اِن کے دونوں آوارہ لڑکے بھی شامل تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہنے لگے۔ ان کے بیٹے مزید بگڑ گئے جبکہ دانیال اور مریم آکسفورڈ یونیورسٹی کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے۔ مرجان کو اس بات کا احساس تھا کہ تعلیم کتنی ضروری چیز ہے جبکہ بریگیڈیئر صاحب نے اپنے بچوں کی نہ تو تعلیم اور نہ ہی تربیت پر توجہ دی۔ یہ دونوں میاں بیوی تو راہِ راست پر آچکے تھے لیکن ان کے بیٹے مزید بگڑتے جارہے تھے۔ وہ یہی سوچتے تھے کہ شاید انہیں مرجان کی بددعا لگی ہے۔ حالانکہ مرجان تو خود ہی ان کے راستے سے ہٹ گیا تھا۔ علیحدہ رہنے لگا تھا۔ ان سے کسی چیز کا تقاضہ بھی نہ کیا، نہ ہی انہوں نے کبھی اس سے پوچھا کہ تم کس حال میں ہو۔
اب تو مرجان کے دوبھانجے بھی آچکے تھے۔ پاکستان سے جو بھی آتااس کے پاس مرجان کا فون نمبر اور ایڈریس ضرور ہوتا۔ وہ بڑا حیران ہوتاکہ جب ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو سب غائب ہوگئے۔ اب برٹش سرکار کا سایہ سر پر آیا ہے تو سب کو مرجان کی یاد آگئی ہے۔ لیکن مرجان صرف نام کا ہی مرجان نہیں تھا، بلکہ وہ تھا بھی یاقوت اور مرجان کی طرح۔