Sunday, November 20, 2011

Monday, June 27, 2011

intesab of my new novel to PASE AYENA TO MY FATHER MIRZA SULTAN BAIG



انتساب

میں اپنی یہ کتاب اپنے والد صاحب، مرزا سلطان بیگ کے نام کرتا ہوں جنھوں نے ایک ایسے ملک لائف انشورنس سے پیسے کما کے اپنے نو بچے پالے جہاں پے مولوی انشورنس کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن وہ اپنی لائف انشورنس پالیسی ضرور لیتے ہیں جو کروڑوں میں ہوتی ہے ۔جنھیں پاکستانی تعلیمی نظام پے اعتبار نہیں اس لیئے اپنے بچوں کو امریکہ پڑھنے بھیجتے ہیں۔
میرے علم میں اضافے کرنے میں جہاں تعلیمی اداروں، اساتذہ اور کتابوں کا ہاتھ وہاں میرے والد صاحب کی شخصیت کا بھی گہرا اثر ہے۔میں ان دنوں سکول میں پڑھتا تھا جب میرے والد صاحب نے مجھے انگریزی زبان کے ایسے الفاظ سے متعارف کروایا جن سے میں نابلد تھا۔ جیسے scenario, kleidoscop,fotofinish, extempore وغیرہ۔ اس کے علاوہ ریاضی میں انہوں نے مجھے ایک لفظ متعارف کروایا جو مجھے ہمیشہ کام آیا (BODMAS) اب یہ بوڈماس کیا ہوتا ہے۔ (bracket, of, division, multiplicaiton, addition and substraction) جن لوگوں نے سکول میں بریکٹوں والے سوال حل کیئے ہیں ان کو فوراً سمجھ آجائے گی۔

سرفراز بیگ

shah blot bagh (ist chapter of sanyeen internet by SARFRAZ BAIG

شاہ بلوط باغ
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پتلے سے انسان نکلتا ہے۔
میر تقی میرؔ
جی .ٹی. روڈ، راولپنڈی کینٹ کے علاقے سے جب گزرتا ہے تو مال روڈ کہلاتا ہے۔ اس طرح کے مال روڈ پورے پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فرنگیوں کے ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب ہندوستان(برصغیر پاک و ہند) غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اسی طرح کا مال روڈ راولپنڈی کینٹ کے علاقے میں بھی واقع ہے۔مال روڈ پے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کا دفتر ہے۔ اس سے ملحقLansdown Library(لینزڈاون لائبریری )ہے۔ جس کا نام بدل کر اب کینٹونمنٹ لائبریری رکھ دیا گیا ہے۔ مزید آگے آئیں تو دو cinemas (سینماز)ہیں۔جڑواں۔ اوڈین اور پلازہ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انگریزوں کے بال رومز ہوا کرتے تھے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ
یہاں گھوڑوں کا رقص پیش کیا جایاکرتا تھا۔آجکل یہاں انگریزی فلموں کے ساتھ ڈبل پروگرام چلتا ہے۔ یعنی کبھی کبھی فلموں کے ساتھ مادر زاد ننگی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ کئی دفعہ ان سینماؤں کو بند کیا گیا اور کئی دفعہ کھولا گیا لیکن انداز زندگی میں تھوڑے توقف کے بعد پھر وہی رنگ آجاتا ہے۔ انھیں جڑواں سینماؤں کے سامنے شاہ بلوط باغ واقع ہے۔ اس کا نام شاہ بلوط کے درختوں کی مناسبت سے شاہ بلوط باغ پڑگیا ہے جو کے اب ٹنڈ منڈ ہوچکے ہیں لیکن یہ باغ شاہ بلوط باغ ہی کہلاتا ہے۔
اب باغ کی بھی سنتے چلیئے۔یہ باغ ویسے تو ویران ہی رہتا ہے لیکن اس باغ کی خاص الخاص شخصیت ایک لمبے سفید بالوں والا سائیں بابا ہے۔ جس کی عمر لگ بھگ۹۰ سال ہوگی ۔ اس کی صحت اس کی عمر کے حساب سے بہتر و اچھی ہے۔ وہ تمام کام یہیں سر انجام دیتا ہے جیسا کہ کھانا، پینا حتیٰ کہ عبادت بھی۔لیکن اس نے کبھی بھی اپنے کعبے کا تعین نہیں کیا۔ جس طرف جی میں آئے منہ کرکے نماز پڑھ لیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ باغ مالشیؤں کی بھی آماجگاہ ہے۔ آپ کو یہاں کئی ادھ ننگے مرد لیٹے ہوئے نظر آئیں گے۔ سردی ہو یا گرمی۔ موسم کی پرواہ کیئے بغیر لوگ یہاں جسم کی مالش کروانے آتے ہیں۔
مالشیئے تو کئی ہیں لیکن یہاں کا خاص مالشیاء ٹیڈی ہے (ٹیڈی یا تو انگریزی کے لفظtidy کی بگڑی ہوئی شکل ہے یاteddy کوئی بھی بچوں کا کھلونا جو کہ بھس بھرا ہوا ہو)۔ ٹیڈی
درمیانے قد کا آدمی ہے۔ جس کی جوانی اب ڈھل چکی ہے۔ کبھی سانولا یا شاید گندمی رنگ ہوگا لیکن حالات نے، وقت نے اس کا رنگ سنولا دیا ہے بلکہ کالا کردیا ہے۔ اب تو وہ داڑھی بھی نہیں بناتا کیونکہ اس کا چہرہ اتنا خراب ہوگیاہے،گال اتنے پچک گئے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو ان میں کوئی چیز اٹکا سکتے ہیں۔آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور ہمیشہ پتلون ہی پہنتا ہے اور آدھی بازوؤں والی قمیص۔ کپڑے اس کے انتہائی میلے لیکن پتلون قمیص۔ اس پے طرہ یہ کہ اس کا چا ر بوتلیں رکھنے والا چھنا، جسے وہ چھن چھن کرتا آتا ہے اور ساتھ ساتھ آواز بھی لگاتا جاتا ہے، مالش!مالش!مالش!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجکل اس باغ میں ایک نئی شخصیت آکر آبا د ہوگئی ہے۔ جس کو سارے سائیں انٹرنیٹ کہہ کر پکارتے ہیں سائیں انٹرنیٹ کی وجہ سے باغ میں کافی رونق رہتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، یہ کون ہے۔ پہلے پہل خفیہ ایجنسی والوں کو شک گزرا کہ یہ کوئی جاسوس ہے لیکن BOB MARLEY (بوب مارلے)سائیں طرح سائیں انٹرنیٹ کو بھی انھوں نے تنگ کرنا چھوڑ دیا۔
یہ نام یہاں کے مقامی لوگوں نے رکھے ہیں خاص کر نوجوان طبقے ہے۔BOB MARLEY سائیں اس لیئے کیونکہ اس نوے سالہ بابے نے کبھی اپنے بال نہیں کٹوائے اور اس کے بالوں کی لٹیں بالکل DREAD LOCKERS (ڈریڈ لوکرز)جیسی بن گئی ہیں اور انٹرنیٹ سائیں کا نام اسلیئے انٹرنیٹ سائیں رکھا گیا ہے کیونکہ اسے دنیا بھر کی معلومات رہتی ہیں۔ کبھی کسی کو اپنا اصلی نام نہیں بتاتا۔ کبھی کہے گا میںLEONARDO DA VINCI (لیو ناردو دا ونچی )ہوں، کبھی کہے گا میں شکنتلا کا مہا قوی کالی داس ہوں۔کبھی خود کو MAUPASSANT (موپاساں)کہتا ہے تو کبھی GOETHE (گوئٹے)۔ چونکہ دنیا بھر کی خبر رکھتا ہے اسلیئے لڑکوں بالوں نے اس نام سائیں انٹرنیٹ رکھ دیا ہے۔ یعنی انٹرنیشنل نیٹ ورک۔
سائیں انٹرنیٹ کی عمر لگ بھگ پچاس سال یا اس سے بھی کم ہوگی لیکن وہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا نظر آتا ہے۔درمیانہ قد،پھٹی پرانی شلوار قمیص،رنگ صاف لیکن کئی کئی مہینے نہ نہانے کی وجہ سے میل کے نشان جسم پر اسطرح نمایاں ہوتے ہیں جیسے کپڑے پے جا بجا ٹھپے لگے ہوں۔BOB MARLREY (بوب مارلے)سائیں کی بالکل مخالف سمت میں اس نے اپنی جھگی بنا رکھی ہے۔
وہیں اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔جھگی کے اندر جا بجا رسائل اور کتابیں ہیں جن کو وہ ردی کی ٹوکریوں سے اٹھا کر لاتا ہے۔ ان کتابوں اور رسالوں کو شاید ہی کبھی اس نے پڑھا ہو۔ صبح اٹھ کر باغ میں موجود چھوٹے سے ڈھابے سے چائے پینی اور اس کے بعد سفید کاغذوں پے بنا لکھے اس طرح کا تاثر دینا کہ کچھ لکھ رہا ہے۔ BOB MARLEY (بوب مارلے )سائیں اور انٹرنیٹ سائیں میں کبھی بات
چیت نہیں ہوئی۔ دونوں کا طبقہء فکر الگ الگ ہے۔ سائیں انٹرنیٹ کا وضو کبھی ایک جگہ ٹھہرتاہی نہیں۔کبھی انگریزی تو کبھی فرانسیسی، کبھی اطالوی تو کبھی اردو اور جب بہت غصہ آئے تو پنجابی بلکہ پوٹھواری میں گالیاں دیتا ہے۔ اگر فزکس پے بات کرنی شروع کرے گا تو پورا دن اسی میں گزر جائے گا، اگر GENETICS(جنیٹکس) پے بات کرے گا تو اپنی تمام تر توانائیاں اسی میں صرف کردے گا۔ کوئی بھی موضوع ہو، فنون لطیفہ۔ادب۔علم الزبان یا علم البشریات، بڑی مدبرانہ گفتگو کرے گا۔ سامعین کو بالکل محسوس نہیں ہونے دے گا کہ وہ پاگل ہے۔ شاہ بلوط باغ کے علاوہ انٹرنیٹ سائیں کے ٹھکانے ہر وہ جگہ ہیں جہاں اچھی چائے ملتی ہے۔ نہ وہ سگرٹ پیتا ہے اور نہ ہی وہ کسی دوسری نشہ آور شے کو ہاتھ لگاتا ہے۔ بس اسے لت ہے تو صر ف چائے کی۔ سائیں انٹرنیٹ کے بہترین دوست دو ہیں۔ ایک EINSTEIN (آئنسٹائن )اور دوسرا FREUD (فرائڈ)۔ان دونو ں کے اصل نام سے کوئی نہیں واقف۔ EINSTEIN (آئنسٹائن)کے بارے میں لوگ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس نے فزکس میں ایم ایس سی کر رکھی تھی اور کسی بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھا۔ اس نے اپنے چھوٹے
بھائیوں کو پڑھایا لکھا کر ڈاکٹر اور انجینئر بنایا ۔ ان کے گھر آباد کیئے۔پھر اس کے چھوٹے بھائیوں کی بیویوں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا اور ایک دن اسے نہ جانے کیا پلایا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ سارا دن سگرٹ پیتا ہے اور جھاڑو کے تنکوں سے زمین پے فزکس کے فارمولے لکھتا رہتا ہے اور کبھی کبھی پنجابی میں موٹی موٹی گالیاں دیتا ہے۔
اور FREUD (فرائڈ)،یہ موصوف psychologist (سائیکالوجسٹ )ہیں۔سائیکالوجی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد راولپنڈی کے ممتاز کالج میں سائیکالوجی کے پروفیسر بھرتی ہوگئے۔ ایک دن لیکچر کے دوران طلبہء کو پڑھاتے پڑھاتے کالج سے باہر آگئے اور کہنے لگے میںFREUD (فرائڈ) ہوں میں JUNG (جْنگ )نہیں ہوں۔ڈاکٹروں نے بتایا کسی خاص گھریلو پریشانی کا شکار
تھے جس کی وجہ سے ان کے دماغ کو گہری چوٹ پہنچی ہے۔ گھر والے ان کو کمرے میں بند کر کے رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی موقع دیکھ کر باہر آجاتے ہیں۔FREUD (فرائڈ) اورEINSTEIN (آئنسٹائن)اپنے اپنے مضامین پر دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں، اس کے برعکس سائیں انٹرنیٹ ہر مضمون پر طبع آزمائی کرتا ہے۔سائیں انٹرنیٹ عمر کے لحاظ سے سب سے جواں ہے۔FREUD (فرائڈ)اور EINSTEIN (آئنسٹائن) ستر اور اسی کے پیٹے میں ہونگے جب کہ سائیں انٹرنیٹ پچاس کے لگ بھگ یا اس سے بھی کم ہوگا۔ انقلاب پسند نوجوانوں کی طرح بلند وبانگ تقریریں کرتا ہے اور اتنے دھانسو قسم کے مباحثے کرتا ہے کہ لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔لیکن سائیں کا دماغ ٹھکانے نہیں۔ویسے تو وہ باغ میں ہی رہتا ،لیکن پورے صدر میں ہر جگہ بڑی جلدی مشہور ہوگیا۔جہاں بھی جاتا اسے کھانا اور چائے مل ہی جاتی۔کبھی انوار کیفے تو کبھی تبارک ریسٹورنٹ اور کبھی مہر علی ریسٹورنٹ۔ کوئی دھتکار دیتا تو کوئی پچکار دیتا۔رنگ رنگ کی دنیا تھی۔جب بھی کسی کیفی یا ریسٹورنٹ پے بیٹھا ہوتا نوجوان لڑکے اسے گھیر لیتے اور طرح طرح کے سوالات کرتے۔ آج بھی چند لڑکوں نے اسے گھیر لیا اور ان میں
سے ایک نے سوال کیا،’سائیں جی یہ بتائیں I اور WE کے ساتھ SHALL آتا یا WILL ‘۔سائیں جی نے پھر انہیں لمبا سا خطبہ جھاڑ دیا۔’انگریز چلا گیا لیکن غلامی کے نشان چھوڑ گیا۔ تم لوگ چیز کی اصل صحت جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اب تو انگریز بھی SHALL اورWILL کے چکر سے باہر نکل آئے ہیں۔ ان کے جو جی میں آئے وہ کہتے ہیں۔جانے یہ احساس کمتری کب ختم ہوگا۔ کسی کی تعلیم کو جانچنے کا پیمانہ انگریزی رکھ دیا گیا ہے۔انگریزی زبان نہ ہوئی ترازو ہوگیا۔ انگریزی یا دوسری زبان کو اس وقت استعمال کریں جب آپ کی مادری زبان سمجھنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر زبان کو زبان سمجھ کر سیکھا جائے تو ٹھیک ہے اگر status symbol (سٹیٹس سمبل)بن جائے تو بیماری۔ اب اکثر لوگ لوٹے کا انگریزی ترجمہ پوچھ کر کسی کی تعلیمی استعداد جانچتے ہیں‘۔ ان میں سے ایک لڑکا بول پڑا، ’’پر سائیں جی انگریزی آج کے دور کی ضرورت ہے، ہمیں انگریزی آنی چاہیئے‘۔’او تو چپ کر (بہن کی گالی دیتے ہوئے) مینو وی پتا اے اج کل دی ضرورت اے، لیکن اس کو اپنی کمزوری مت بناؤ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں شرح خواندگی پچیس فیصد ہے اور ان میں پانچ فیصد سے بھی کم لوگ اس زبان سے واقف ہیں اور یہی لوگ ہماری قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہی ہمارا مستقبل لکھتے ہیں۔بس بس اب میں نہیں بولوں گا۔ مجھے چائے پلاؤ ورنہ میں اٹلی چلا جاؤں گا، فرانس چلا جاؤں گا یہ دیکھو‘ اور وہ ان کے سامنے کئی سفید کاغذ رکھ دیتا۔’ یہ دیکھو اٹلی کی permesso di soggiorno, ( پرمیسو دی سجورنو، یعنی اٹلی میں رہنے اور کام کرنے کا اجازت نامہ) اور یہ اٹلی کا carta d'identita(شناختی کارڈ)،یہ فرانس کا carte sejour (کاخت سیوغ، یعنی فرانس میں رہنے کا زجازت نامہ)،یہ جرمنی کی ausweis (آوس وائس،یعنی جرمنی میں رہنے کا اجازت نامہ)‘اور ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا، سب کہنے لگے سائیں جی کو دورہ پڑگیا ہے۔ پھر وہ اسے اس کے حال پے چھوڑ کر چلتے بنے۔ وہ چائے پیتا جاتا اور ساتھ ساتھ منہ سے کچھ بڑبڑاتا جاتا۔ سب یہی سوچتے، شاید سائیں جی کو یورپ جانے شوق
تھا۔جس کو وہ پورا نہ کر سکے اور ان کا دماغ خراب ہوگیا یا زیادہ پڑھ لکھ کر دماغ گھوم گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار کیفے کی باہر والی کرسیوں پر EINSTEIN (آئنسٹائن)سخت گرمی میں، سویٹر پہنے، میز پے چند سگرٹ کی ڈبیاں رکھے (بقول اس کے) theory of relativity (تھیوری آف ریلیٹوٹی) پر غور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے سائیں انٹرنیٹ آرہا تھا۔کالی قمیص،پیلی ٹائی اور کالا سوٹ پہنے۔ آج اسے اٹالین کا دورہ پڑا تھا۔ جیسے ہی اس کی نظر EINSTEIN پر پڑی اس کے قریب آکر کہنے لگا۔
"Buon giorno
signore,come stai?stai bene?che cosa stai facendo? sei occupato? lo sai? Sono da Vinci, Leonardo da Vinci. Oggi ho finito un'altra pittura. La Gioconda 232 gi224 fatta"
(اچھا دن مبارک ہومحترم، کیا حال ہیں؟۔ ٹھیک ہو؟کیا کررہے ہو؟ مصروف ہو؟ تمہیں پتا ہے،میں ونچی ہو،لیوناردو دا ونچی ۔آج میں نے ایک اور تصویر مکمل کرلی۔ جوکوندا، یعنی مونا لیزا پہلے ہی مکمل کرچکا ہوں)
سائیں انٹرنیٹ جب اطالوی زبان بولتا تو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ یہی سمجھتے شاید انگریزی بول رہا ہے۔اس کی باتیں سن کر EINSTEIN (آئنسٹائن)کہنے لگا۔ ’او کی بکواس کر ریا ایں تینو پتا نئی میں ای ایم سی سکویئر(E=mc square) تے کم کر ریاں واں‘ (بہن کی گالی دیتے ہوئے) کہنے لگا،’سمجھ نہیں آتی ان لوگوں کو، ساری تپسیا بھسم کر دی۔ اگر آج میرا تجربہ کامیاب ہوجاتا تو میں انسان کو الیکٹرون میں تبدیل کر کے وقت کی سیر کروا دیتا‘۔ سائیں کہنے لگا،EINSTEIN
(آئنسٹائن)صاحب clonning (کلوننگ )کے بعد انسان نے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی تو آپ کیا تبدیلی لائیں گے‘ ۔EINSTEIN (آئنسٹائن)نے ساری سگرٹ کی خالی ڈبیاں زمین پر پھینک دین۔دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ بلوط باغ میں شام کے وقت بڑی رونق ہوتی ۔خاص کر گرمیوں میں، یہاں لوگ رات کے وقت بھی آتے لیکن سائیں انٹرنیٹ اور BOB MARLEY (بوب مارلے)سائیں کے لیئے بڑی مشکل ہوجاتی۔لوگ انھیں تنگ کرتے، خاص کر نوجواں طبقہ۔ BOB MARLEY(بوب مارلے)سائیں نے تو عرصے سے چپ سادھ لی تھی لیکن سائیں انٹرنیٹ ان کی باتوں سے چڑ
جاتا۔آج پھر اسے لڑکوں نے گھیر لیا۔’سائیں جی اپنے عشق کا کوئی قصہ سنائیں‘۔ سائیں کہنے لگا،’دفعہ ہو جاؤ۔ یہ پیار ویار سب بکواس ہے۔ امیر لوگوں کے چونچلے ہیں۔جب انسان کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تو اس کی جستجو روٹی کی طرف ہوتی ہے۔پھر تن ڈھانپتا ہے۔ پھر سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتا ہے۔ جب ان تمام بنیادی ضرورتوں سے فراغت پا لیتا ہے تو پھر اس کی جبلت جاگ جاتی ہے۔جیسے کتا ہڈی ملنے کے بعد اپنے نفس کو چاٹتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد اپنی جبلتوں کی طرف بھاگتا ہے۔ روٹی کے ہی چکر سے نہ نکلا تو عشق کیا خاک کرے گا۔ یہ جو تم عشق ومحبت کے قصے پڑھتے ہو۔ لیلی مجنوں، ہیر رانجھا،سسی پنو، سوہنی مہینوال یہ ادبی شاہ پارے تو ہوسکتے ہیں لیکن ان سے سبق لینا یا ان پے عمل کرنا سراسر بیوقوفی ہوگی۔ انسان کو بدصورت لڑکی سے پیار کیوں نہیں ہوتا۔کہتے ہیں کہ لیلٰی کالی تھی۔کس نے دیکھا ہے لیلٰی کالی تھی۔ آج کل کی اس مادہ پرست دنیا میں ماں بھی اس بچے سے زیادہ پیار کرتی ہے جو کام کاج میں اچھا ہو۔جس کی کمائی زیادہ ہو۔ جاؤ جا کے RICHARD DAWKINS کی SELFISH GENES پڑھو پھر تمہیں پتا چلے گا عشق کیا ہے۔ اب میں تمہیں NECTUR CUBE (نیکٹر کیوب)تو سمجھانے سے رہا۔جب غربت آکے تمھارا دروازہ کھٹکھٹائے گی تو عشق کھڑکی کے راستے سے باہر نکل جائے گا۔ہم سب اپنی اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ وہ ADAM SMITH ٹھیک ہی کہتا ہے۔ خدا نخواستہ کوئی انڈین فلم دیکھ کر، جو عشق و محبت سے بھرپور ہو، اگر تمھارے اندر عشق کا جذبہ جاگ بھی جائے، تو جانتے ہو اس کا انجام کیا ہوگا۔ صرف
بربادی۔کبھی عاشق ومعشوق کی زندگی شادی کے بعد دیکھی ہے۔جس معشوق کے لیئے وہ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے د عوے کرتا ہے۔ شادی کے بعد وہ اس کے لیئے ایک سیب تک توڑ کر نہیں لاتا۔ اس کا تعلق جنسی تلذذ سے ہے نہ ہی جسمانی ملاپ سے ۔ یہ تو ایک مہلک بیماری ہے جو آج کل کے ہر نوجوان ہے۔ آج کل لوگ اتفاقیہ عشق نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر گھر سے نکلتے ہیں کہ میں عشق کرنے چلا ہوں،شاید کوئی لڑکی میرے جال میں پھنس جائے اور بالکل یہی حال لڑکیوں کا ہوتا ہے۔شاید کوئی لڑکا میرے جال میں پھنس جائے اور جب تک کامیابی نہیں ہوتی چیوگم کی طرح میٹھا میٹھا لگتا ہے۔جب مکمل کامیابی ہوجاتی ہے تو اس عشق کے چیوگم کو بد ذائقہ سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ جیسے اس کی کبھی طلب ہی نہیں تھی۔ عشق کا مطلب کسی چیز کو own (ملکیت) یاpossess (حاصل )کرنا نہیں ہوتا اور اگر آپ اسے own یا possess کر بھی لیں تو آپ پے بعد میں کئی راز افشاں ہوں گے، ’ہوتے کچھ ہیں کواکب اور نظر آتے ہیں کچھ‘۔ کبھی دیکھا ہے کسی ستر ۷۰یا اسی۸۰ سالہ بوڑھے کو کسی کے عشق میں گرفتار۔ اسے تو اپنی واپسی کی پڑی ہوتی ہے ۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ آپ کو کوئی پسند آجائے لیکن پسند ضد یا عشق کی صورت اختیار کر جائے تو یقیناًخرابی ہے۔عشق شادی کے بعد ایسے لگتا ہے جیسے بنا رس کے پھل،پھیکا اور بد ذائقہ۔ انسان اور جانور دونوں ہی خدا کی تخلیق ہیں لیکن ان میں اور ہم فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیئے زبان ہے۔ زبان تو ان کے پاس بھی لیکن وہ کسی لکھی ہوئی حالت میں نہیں۔ وہ بھی ایک سے دو ہوتے ہیں اور ہم بھی۔ان کے پیار کے اپنے
طریقے ہیں اور ہمارے اپنے۔ ہمارے D.N.A.(DIOXIRIBONUCLEACACID) میں،MITOSIS,MEIOSIS کے عمل میں فرق ہے۔ہمارے D.N.A.میں cytosine,adenine,guanine,thymine ہیں ۔ ہمارا cytosine 369-c ہے جبکہ ان کا ہم سے مختلف ہے۔یہی فرق ہمیں ان سے ممتاز کرتا ہے‘۔ سائیں انٹرنیٹ کی باتیں نوجوانوں کو بڑی بھلی لگتیں۔ وہ بالکل اس طرح ان کو خطبہ دیتا جیسے SAINT FRANCIS OF ASSISI (سینٹ گؤفرانسس آف اسیسی)کو نشاۃ ثانیہ کے اطالوی مصوروں نے اپنی مصوری میں دکھایا ہے، پرندوں کو تبلیغ کرتے ہوئے۔ اس دوران چائے کا دور چلتا رہتا ۔سائیں انٹرنیٹ چائے کی ٹینکی تھا۔
بولتے بولتے سائیں ایک دم خاموش ہوجاتا اور کسی سوچ میں گم ہو جاتا۔ جیسے اس کے آس پاس کوئی نہیں، وہ بالکل اکیلا ہے۔نوجوانوں کو اس کی باتیں بھلی تو معلوم ہوتیں لیکن زندگی کی سچائیوں کو جان کر ان کا ذرا بھی دل نہ کرتا کہ اس کے پاس رکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص کو اس بات کا تجسس تھا کہ سائیں انٹرنیٹ کی اصل کہانی کیا ہے۔ اس کی دیوانگی کا اصل ماخذ کیا ہے۔ لیکن یہ راز آج تک کوئی نہ جان سکا۔ لیکن جب بھی کوئی اس کے پاس آکے بیٹھتا وہ ان کو گیان کی باتیں بتاتا۔ اگر کیان کی باتیں نہ بھی ہوں لیکن دل کو چھو لینے والی ضرور ہوتیں۔ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچاتا لیکن اسے جب کوئی جسمانی طور پہ گزند پہنچاتا تو وہ ان کو گالیاں دیتا اور گالیاں بھی دنیا کی ہر زبان میں جو جو زبانیں وہ جانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس والوں کو شک گزرا کہ شاہ بلوط باغ میں منشیات کا دھندا ہوتا ہے اور اس میں سائیں کا بھی ہاتھ ہے۔ اچانک پولیس والوں نے شاہ بلوط باغ میں چھاپا مارا اور سب سے پہلے انھوں نے ان سائیوں کی جھگیوں کی تلاشی لی۔BOB MARLEY سائیں تو چپ کرکے اپنی جھگی سے باہر نکل آیا اور پولیس والوں نے جی بھر کر تسلی کی، سائیں کو گالیاں دینے لگے ،ٹھڈے مارنے لگے۔ جتنی خاطر داری کرسکتے تھے کی۔ لیکن جواب ندارد، وہ تو یگو ں کا چپ تھا۔ اس کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ نہ اس پے مار کا کوئی اثر ہوتا نہ گالیوں کا، نہ ہی پوچھ تاچھ کا۔ اب باری تھی سائیں انٹرنیٹ کی۔’’ہاں بتاؤ بھئی تم جو نوجوانوں کو لمبے لمبے لیکچر دیتے ہو ۔ تم یقیناًکسی خاص ایجنسی کے بندے ہو‘ ‘۔سائیں نے جواب دیا، "You just shut up, you fuck'in arse hole. You know? You are talking to whom. I am Shakespeare, William Shakespeare and don't you dare to touch my manuscripts. This is Merchant of Venice and that is Julius Ceaser and that is my master piece Hamlet --------- to be or not to be--------- what you think inspector-----------it's to be or------------not to be. I think it's better to be. It's not 233tre et rien".
(تم بکواس بند کروتم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں پتا ہے۔تم کس سے بات کررہے ہو۔ میں شیکسپیئر ہوں۔ولیم شیکسپیئر۔اور میرے مسودوں کو چھونے کی جرأت نہ کرنا۔یہ وینس کا سوداگر ہے اور وہ جولیئس سیزر اور یہ ہے میرا بہترین کام ہیملٹ۔ہے یا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمھارا کیا خیال ہے انسپکٹر۔۔۔۔۔یہ ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ہے۔میرا خیال ہے بہتر ہونا ہے۔۔۔۔۔یہ ہونا یا بالکل نہیں نہیں ہے)
اوئے بکواس بند کرو، تلاشی لو اس کی جھگی کی، پتا نہیں انگریزی میں کیا بکواس کر رہا ہے۔گٹ پٹ۔۔۔۔۔گٹ پٹ۔۔۔۔۔۔میری تو کچھ سمجھ میں نہیںآرہا‘ ایک بیچ میں بول پڑا، ’سر جی شیخ صاحب کا ذکر کر رہا تھا‘۔ ’اوئے بتاؤ اوئے یہ شیخ صاحب کون ہیں؟ اسے تھانے لے چلو‘۔سائیں کو انھوں نے گرفتار کرلیا۔ کینٹ تھانے میں اسے لے جاکر بند کردیا گیا۔رات کو پولیس والوں نے اس کی خوب دھلائی کی لیکن سائیں کو کیا ہوتا وہ تو شیدائی تھا۔
’’سر جی آپ اسے ایسے ہی پھڑ لے آئے ایں‘‘ ایک سپاہی نے کہا۔
’’اوئے بکواس بند کرواوئے، اوپر سے آڈر آئیں ہیں۔خانہ پری بھی تو کرنی تھی‘‘ ۔اس نے جواب دیا۔
صبح جب ایس۔ایچ۔او ۔ کے سامنے سائیں کی پیشی ہوئی تو وہ اصلیت بھانپ گئے۔ سمجھدار آدمی تھے۔سائیں جی سے مخاطب ہوئے۔’’سائیں جی کوئی اچھا سا شعر تو سنائیں پھر آپ کو چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔
Quand il fait pluie sur la ville
Il fait pleu dans mon coeur
Paul Verlaine
(جب گلی میں بارش ہوتی ہے
میرے دل میں بارش ہوتی ہے) پال ویغلین ،فرانسیسی شاعر
’سائیں جی یہ تو کسی اور زبان کا شعر ہے ہمیں کوئی اردو یا پنجابی کا شعر سنائیں‘
’’میں کسے کہوں میرے ساتھ چل
یہاں سب کے سر پے صلیب ہے‘ ‘
اس شعر کے ساتھ سائیں جی کی خلاصی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائیں انٹرنیٹ سخت گرمی میں کوٹ پتلون پہنے، ٹائی باندھے، تیز تیز قدموں سے چلتا، مال روڈ پے چلا جارہا تھا۔ہاتھ میں پھٹا پرانا اٹیچی کیس جس کو اس نے رسیوں سے باندھ رکھا تھا۔ راستے میں کسی نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو تو کہنے لگا۔’فرانس جارہا ہوں۔ جلدی اسلیئے جا رہا ہوں کیونکہ بین الاقوامی پرواز ہے تین گھنٹے پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔کسٹم کلیئرنس، بورڈنگ اور ایف۔ائی۔اے۔ کا کاونٹر۔ اب تو آرمی کا کاونٹر بھی بھگتنا پڑتا ہے‘‘۔‘
’ ’سائیں جی پاکستان میں کیوں نہیں رہتے‘‘
’’یہاں کیا رکھا ہے ۔ ہر دوسال بعد تم مارشل لاء لگا دیتے ہو۔ اسلام کے نام پے ملک بنا کر ،اس ملک کو لوٹ رہے ہو۔تم لوگوں نے اس آدمی کی قدر نہیں کی جس نے ملک بنایا تھا۔ یہ ٹھیک ہے اس نے یہ ملک، نہرو سے شرط باندھ کر بنایا تھا۔اس کی نہرو سے ضد تھی۔ نہ وہ پارسی لڑکی سے شادی کرتا نہ وہ پاکستان بناتا۔اس کے باوجود اس نے آخری دنوں میں خلوص دل سے پاکستان کے لیئے جدوجہد کی۔ جب ستر ۷۰سالہ بوڑھے کی ہڈیاں جواب دے گئیں تو جاتے جاتے اس نے پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانے کے لیئے جو کوششیں کیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ لیکن خان صاحب زیارت جب بھی جاتے تو سیب اچھال اچھال کر پوچھتے ،’ ’بابے کا کیا حال ہے‘‘ خود ا س کے ساتھ کیا ہوا۔سائیاں کتھے تے ودھایاں کتھے۔ وعدے روس کے ساتھ کیئے اور چلے گئے امریکہ۔ مروا دیا نا ا س کو باغ میں,روس والوں نے۔ پھر کیا ہوا دھاڑ دھاڑ کرتے فوجی آگئے۔ چند دن جمہوریت رہی پھر مارشل لاء ۔ تم خود ہی بتاؤ اسلام کے نام پے پاکستان بناکر تم لوگوں نے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کے بعد ایک اور خان صاحب آگئے۔ پہلے فوجی بن کے حکومت کرتا رہا جب جی نہ بھرا تو عوامی حکومت بنا کر سامنے آگیا۔ اس نے دارالحکومت بدل کر بڑا معرکتہ الاآرا کام کیا۔ ان فوجیوں کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔ کیا سن پچاس میں آئے، تو اب وقفے وقفے سے آتے ہی رہتے ہیں۔ ان کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کے حکومت چلانا۔اگر فوج ہی کا راج ہے، آمریت ہی کرنی ہے ، تو پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے پاکستان رکھو، جو کہ اب پاکستان، پاک۔۔۔۔استان(استھان) رہا ہی نہیں۔ نہ یہاں جمہوریت ہے نہ اسلام۔فوجیوں کے بعدروٹی کپڑااور مکان والے آگئے۔ ان کی تو پوچھو ہی مت۔ایک طرف اس نے خان صاحب کو کتا کہہ کر ذلیل کیا تو دوسری طرف روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا۔یقیناًاس کی کوئی ادا خدا کو پسند نہیں آئی ۔ اس کو انھوں نے تشدد کر کے مار دیا اور بعد میں لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیئے اسے پھانسی دینے کا رہس رچایا ۔ ارے جو ملک ترقی کرنے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ، تم آگے چل کے کیا امید کرتے ہو۔ جانتے ہو جب خدا کسی کو ذلت و رسوائی دکھانا چاہتا ہے تو
ایسے شخص کے ہاتھوں دکھلاتا ہے جس کو تم حقیر جانتے ہو۔ وہ اس کی نظر میں حقیر ہی تو تھا۔ اس کی مونچھوں کے وہ اپنے جوتوں کے تسمے جو بنانا چاہتا تھا۔کیا شاندار آدمی تھا۔ نوے دن کے لیئے آیا اور گیارہ سال گزار کر چلا گیا۔ اب بھی وہ نہ جاتا اگر افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلاء نہ ہوتا۔ جیسے ہی ان کا مقصد پورا ہوا اڑا دیا۔گدھے کے اوپر مخمل کی کاٹھی ڈالنا تو کوئی امریکہ سے سیکھے۔ اپنے جسم پر چار جیبوں والی جیکٹ اور چمڑے کی پٹی اس طرح باندھے گھومتا تھا جیسے کوئی ڈاکیہ ہوتا ہے۔ چلا تھا اسلامی نظام لانے۔ ارے پاکستان کو اسلامی نظام کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا۔ پہلے ہی سے اسلامی ملک ہے۔ پوری دنیا میں دو ہی تو ملک ہیں جو مذہبی بنیادوں پر معرض وجود میں آئے ہیں۔ ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان۔ ارے اسلام کے نام پے ملک بنانا تو ایک بہانہ تھا، اصل میں تو جن وڈیروں کو انگریزوں نے نوازا تھا۔سارے ہی نچلے طبقے کے تھے۔غدار تھے۔ اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا تو وہ کھل اسے کھا نہیں سکتے تھے۔اسی لیئے تو لوگ جی.ایم.سید، باچا خان(غفار خان) اور ابوء الکلام آزاد کی مخالفت کرتے ہیں ۔ کیا ہندؤستان ہزار سال کئی مذاھب کی آماجگاہ نہیں رہا اور ویسے بھی ہندؤستان ، مسلمانوں کا ملک تو ہے نہیں، ہم لوگ تو باہر سے آئے تھے ۔اور کیا ہندؤستان میں، اب مسلمان نہیں بستے؟ کیا وہاں اذانیں نہیں ہوتیں؟ ہندؤستان میں جس آدمی نے nuclear bomb (نیوکلیئر بونب )بنایا ہے وہ مسلمان ہے۔
تم نے کبھی پاکستان میں فسادات اور جھگڑوں کے اعدادو شمارپڑھے ہیں۔ پاکستان میں ۱۹۴۷کے بعد، فرقہ وارانہ فسادات میں زیادہ لوگ مرے ہیں بہ نسبت ہندو مسلم فسادات کے۔یہاں کون ہیں؟ سب مسلمان ہیں۔ کیوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اسلام تو بھائی چارے اور امن کا سبق دیتا ہے، پھر ہم کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں؟ تمہیں پتا ہے گلگت میں ایک گاؤں صرف اس لیئے جلا دیا گیا کیونکہ انھوں نے صرف ایک دن پہلے عید منائی تھی۔جلنے والے کون
تھے؟مسلمان۔جلانے والے کون تھے؟مسلمان۔ کس کے کہنے پے یہ اقدام ہوا؟ سرمے والی سرکار کے کہنے پے۔ سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ پاک و ہند پے جو افسانے لکھے ہیں انھیں پڑھ کے انسان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔لیکن اگر منٹو آج زندہ ہوتے تو خود کشی کر لیتے کیونکہ وہاں ہندو،سکھ اور مسلمان کی لڑائی تھی اور موردِ الزام انگریز کو ٹھہراتے تھے۔ اب مسلمان ، مسلمان کا گلہ کاٹ رہا ہے اور الزام دہشت گردوں پے آتا ہے۔ کون ہیں دہشت گرد؟پاکستانی۔
تو بات ہو رہی تھی پاکستانی سیاست کی تو پھر اس ملک کی باگ ڈور اتفاق والوں کے پاس آئی اور پھر روٹی کپڑا اور مکان والوں کے پاس۔ بلی چوہے کا یہ کھیل چلتا رہا۔ ایسی نااتفاقی پڑی کہ پوچھو مت۔انھوں نے میرا مطلب ہے اتفاق والوں نے پاکستان کو فونڈری سمجھ لیا تھا۔جس طرح ان کی مل میں یا فیکٹری میں کوئی مزدور جل گیا یا زخمی ہوگیا تو اس کی مالی اعانت کردی۔اسی طرح وہ صاحب ، کسی لڑکی کی عزت لٹ جانے پر اپنی سیاست کو چمکانے کے لیئے، ذرائع ابلاغ کابھرپور سہارا لے کر ان کی مدد کو پہنچ جاتا۔ کسی کو کیا معلوم خود انہی کا کوئی آدمی اس کی عزت لوٹتا ہو یا سرے سے اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہی نہ ہو۔ دیکھا نہیں انھیں خدا نے کیسی دھول چٹوا دی۔ وہی لوگ چہرے بدل بدل کر آتے ہیں۔ اٹلی بھی ۱۹۴۶ میں آزاد ہوا ہے فرق دیکھا ہے ۔ وہاں بھی بدعنوانی ہے لیکن اتنی اندھیر نگری نہیں ہے۔وہاں کے ایوانوں میں بھی کرسیاں چلتی ہیں۔ لیکن جمہوریت کا حال اتنا برا نہیں۔
تمہیں پتا ہے ہم لوگ ترقی کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ ہم لوگ حب الوطن نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی مٹی سے ، زبان سے،معاشرے سے، رہن سہن سے پیار نہیں ۔ خدا جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی مثال اس نے ہمیں کئی دفعہ دکھائی ہے لیکن ہمیں ہی سمجھ نہیںآتی نہ کبھی آئے گی۔ ہمیں لالچ نے اندھا کر دیا ہے۔ہم ہمسائے کے گھر میں جھانکتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی زندگی اچھی لگتی ہے۔ کیا اسلام ہمیں یہی سبق سکھاتا ہے؟ کہ دوسرے کی امارت سے متاثر ہوکرکچھ بھی کر گزرو۔ تمھیں پتا ہے جب باڑ آتی ہے تو اس میں سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی ، یہ چودھر ی کی حویلی ہے اور وہ غریب کی جھگی۔
ارے ہندو،مسلمان کے جھگڑے سے نکل جب پاکستان آئے تو شیعہ،سنی اور وہابی کے چکر میں پڑ گئے۔ اور اس بات کو مزید خوردبینی انداز سے دیکھو تو پھر ہم سندھی،بلوچی پنجابی اور پٹھان کے چکر میں گئے۔ اب میں تمہیں پنجاب کے ایک دیہات میں لیئے چلتا ہوں۔ یہاں سارے سنی رہتے ہیں۔مسلمان ہیں۔ پاکستانی ہیں اور اس ناطے سب بھائی بھائی ہیں۔ لیکن تمہیں پتا ہے اس دیہات میں چودھری،ملک،گجر،مراثی،کمی اور دیگر لوگ رہتے ہیں،مسلمان اور پاکستانی نہیں۔اب چودھری کے گھر میں بھی وہ راج کرتا ہے جو طاقت ور ہوتا ہے۔ وہی انسان کی جبلت۔ ایک دوسرے پر برتری لے جانا۔ بڑی مچھلی چھوٹی کو کھا جاتی ہے۔
ارے ہم انسان کیوں نہیں ہوتے۔ تمھیں پتا ہے خدا نے ہمیں اشرف المخلوقات کیوں بنایا ہے کیونکہ ہم زبان رکھتے ہیں۔ اظہار کے لیئے ، زبان۔ جسے تم language (لینگوج)کہتے ہو۔ ہم ہنستے ہیں، روتے ہیں، دکھ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں۔اس لیئے نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کرتے پھریں۔ اس لیئے نہیں کہ ہم سنی،شیعہ،پنجابی،سندھی یا چودھری بن کر لڑتے پھریں۔ انسانی تعصبات اور تفرقات ساری دنیا میں ہیں لیکن پاکستان میں برے اس لیئے لگتے ہیں کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ جو تمام انسانی تفریقات کی منافی کرتا ہے۔ ’عربی کو عجمی پر،عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں چہ
جائیکہ وہ تقوی اور پرہیزگاری میں تم سے برتر نہ ہو‘‘۔
سائیں کو باتوں باتوں میں پتا ہی نہ چلاکہ اس کی فلائٹ نکل جائے گی۔ وہ اکیلا اپنے آپ سے باتیں کرتا چلا جارہا تھا۔ وہ شخص جس نے سوال کیا تھا وہ کب کا جا چکا تھا۔اس کو گالیاں دینے لگا۔’’ادی ماں دی۔۔۔۔۔ادی پپینڑ دی۔۔۔۔۔۔فلائٹ مس کروادی۔ اب میرا ٹکٹ بھی ضائع ہوگیا۔ میرے carte sejour (کاخت سیوغ ۔فرانس میں رہنے کا اجازت نامہ)کی معیاد بھی ختم ہوگئی ہے‘‘ ۔ چلتے چلتے وہ بڑی دور نکل آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر مہر علی ریسٹورنٹ پر رات گئے تک لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ یہ راولپنڈی ، جی۔پی۔او(جنرل پوسٹ آفس) کے بالکل سامنے ہے۔اس کے سامنے سے جو سڑک گزرتی ہے اس کا نام کشمیر روڈ ہے۔ اس کا ایک سرا تو جاکے مال روڈ پے ملتا ہے اور دوسرا حیدر روڈ،بینک روڈ اور آدم جی روڈ کو کاٹتا ہواگوالمنڈی کی طرف جاتا ہے۔ کسی دور میں ان تمام صغیرہ شاہراہوں کے انگریزی میں نام ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ اب بھی عمر رسیدہ لوگ ان شاہراہوں کے نئے ناموں سے نابلد ہیں۔ انگریز دور کی بنی ہوئی پیر مہر علی ریسٹورنٹ کی عمارت مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی اب ریسٹورنٹ والوں کے پاس آ گئی ہے۔ کافی پہلے یہاں سوزوکی ہاؤس ہوا کرتا تھا۔بعد میں الیکشن آفس ٹائپ کی کوئی چیز بن گئی ۔اس کے ماتھے پے ضیاء الحق،نواز شریف اور شیخ رشید کی بڑی بڑی تصاویر لگا دی گئیں۔ جو بعد میں حکومتوں کی اوپر تلے تبدیلیوں کی وجہ سے اتار دی گئیں۔ اس کے بعد ریسٹورنٹ کا سلسلہ چل نکلا۔ گرمیوں میں یہاں رات گئے تک کافی رونق رہتی ہے۔ ایک تویہاں صدر سے tench bhatta(ٹینچ بھاٹہ)،بکرا منڈی کے لیئے سوزوکیاں چلتی ہیں اور جی۔پی۔او کی دیوار کے ساتھ اسلام آباد جانے والی ویگنوں کا اڈہ بھی یہیں ہے۔اس لیئے یہاں ڈر ائیوروں،کلینروں، کنڈکٹروں اور
سواریوں کا ہجوم رہتا ہے۔اگر حیدر روڈ کی طرف آئیں تو پھلوں کی ریڑھیاں اور گنے کا رس بیچنے والے بھی نظر آئیں گے۔ اگر کسی نے مکھیوں کی جنت دیکھنی ہو تو یہی جگہ ہے۔ مہر علی ریسٹورنٹ میں چوہے اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جس طرح روس اور امریکہ بنا کسی جواز کے دوسرے ملکوں میں دخل درمعقولات کرتے ہیں۔ رات کو سنوکر کلبوں سے فراغت پانے والے نوجوانوں کی آماجگاہ بھی یہی ریسٹورنٹ ہے۔ایک کونا ان نوجوانوں کے لیئے مخصوص ہے۔ ان میں کچھ کام کرتے ہیں ۔کچھ حالات کا رونا روتے ہیں۔کچھ بالکل فارغ تنقید برائے تنقید کے شوقین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیرا : سر کیا لاؤں؟
خالد : یار۔۔ایسا کرو چار چائے لے آؤ۔۔۔اور ہاں پتی تیز اور دودھ کم ۔۔۔۔اور ہاں میٹھا علیحدہ سے لانا۔
امجد: ارے یار سنا ہے سائیں انٹرنیٹ کر کل پولیس پکڑ کر لے گئی تھی۔
طاہر: اب کہاں ہیں؟
خالد : ہوگا انوار کیفے پے یا ڈرائیور ہوٹل پے کسی کے، کان کھا رہا ہوگا۔
امجد: نہیں یار بڑا ہی ذہین آدمی ہے۔ پتا نہیں اسے کیا ہوا ہے، لیکن باتین بڑی دلچسپ کرتا ہے۔صاحب علم آدمی ہے۔ علم والی باتیں کرتا ہے۔
طاہر: یقیناًدلچسپ و صاحب علم آدمی ہے اور باتیں بھی علم والی کرتا ہے ، لیکن ، اگر ہوش میں ایسی باتیں کرتا تو کب کا شاہی قلعے کے تہہ خانے میں پھینک دیا گیا ہوتا۔
خالد: لیکن سنا ہے وہ تو کب کا بند کردیا گیا ہے۔
طاہر: تو کہیں اور بنا دیا گیا ہوگا۔ پاکستان میں ایسے تشدد گھروں کی کمی ہے۔
اسی اثناء بیرا چائے لے آیا۔ اس طرح کے پتلونی بابوؤں سے بیراء بڑی تمیز کے ساتھ پیش آتا اور ویسے بھی نوجوان طبقہء بدتمیزی کا مظاہرہ نہ کرتا اور ان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے ہوٹل والے( پاکستان میں ریسٹورنٹ کو ہوٹل کہا جاتا ہے) کبھی کبھی ادھار بھی کر لیتے۔
امجد: یار انٹرنیٹ سائیں تو intellectual (انٹلیکچوئل) ہے، لیکن پاگل بھی۔پولیس والوں کو اس طرح کے لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیئے۔
طاہر: اگر تمھیں زیادہ ہمدردی ہے تو گھر لے جاؤ اسے۔
امجد: یار بات ہمدردی کی نہیں ہے اور ویسے اگر ہمدردی ہے بھی تو گھر لے جانے کی اس میں کیا بات ہے۔ بات کو طنزیہ رنگ نہیں دینا چاہیئے۔ مجھے تو سائیں حالات کا مارا لگتا ہے۔ پاگل نہیں لگتا۔اتنی سچی اور کھری باتیں کرتا ہے کہ انسان کے اندر انقلاب لانے کا جذبہ جاگ جاتا ہے۔
ابھی وہ ان باتوں میں مصروف ہی تھے کہ دور سے افراسیاب آتا دکھائی دیا۔ سب نے با آواز بلند کہا ’آؤ جی افراسیاب صاحب‘ اس کے لیئے چائے منگوائی گئی ، کیونکہ وہ ہر محفل کی جان ہوتا ہے۔ بال کی اتنی کھال اتارتا ہے کہ لوگوں کی جان کو آجاتا ہے۔ امجد نے آنکھ بچا کے سب کو ہاتھ جوڑے کہ اس کی سبکی نہ کی جائے ، لیکن کسی کے منع کرنے کے بنا ہی وہ خود سے شروع ہو جاتا ۔ محفل میں جو سب سے ماٹھا ہوتا، افراسیاب اس پے ٹوٹ پڑتا۔ بس کسی کی کوئی کمزوری ہاتھ لگنے کی دیر ہے۔ افراسیاب کی سب سے خاص بات ، اس کی سائیں انٹرنیٹ سے دوستی۔
خالد: افراسیاب چائے پیوؤ گے۔
افراسیاب: موتر پیوؤ گا( اس نے غصے سے کہا) کیوں نہیں پیوؤ ں گا چائے۔
خالد: یار پانچ چائے لانا۔ ارے ہاں یاد آیا افراسیاب، سائیں انٹرنیٹ کا کچھ پتا ہے۔
افراسیاب : مجھے راستے میں ملے تھے۔ اسی طرف آرہے ہیں۔
دور سے سائیں انٹرنیٹ آتا دکھائی دیا اور زور زور سے کہہ رہا تھا، ’جے منگلم شری رام ۔بھگوان کی لی لا سے پوتر اگنی کو ساکھشی مان کر پتی پتنی کی رکھشا کرے گا‘ ایک لڑکے نے لقمہ دیا ’بلکہ ٹیکسی کرے گا ویگن کرے گا‘
افراسیاب: سائیں جی ہماری پاس آکر بیٹھیں ناں۔
سائیں انٹرنیٹ: اؤ نئی او نئی! اگے وی میری فلیٹ مس ہوگئی اے۔
افراسیاب : کہاں جارہے تھے آپ۔ ارے یاد آیا کل آپ کو پولیس بھی تو پکڑ کر لے گئی تھی۔
سائیں : ہاں ہاں ۔۔۔۔لیکن تمہیں اس سے کیا؟ میں کون سا منسٹر ہوں ۔ چائے پی کے میں جرمنی جا رہا ہوں۔ میری ausweis (آوس وائس ، یعنی جرمنی میں رہنے کااجازت نامہ) ختم ہوجائے گی۔
اس دوران سارے لڑکے سائیں جی کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ خالد نے پھر آواز لگائی ،’ یار چائے چھ کر دینا۔ ایک سائیں جی کے لیئے بھی‘‘
افراسیاب: سائیں جی بچی کس طرح پھنساتے ہیں کوئی ترکیب تو بتائیں
اس دوران سارے لڑکے بول پڑے،’ ’یار افراسیاب تم بھی سائیں جی سے عجیب سوال کرتے ہو۔ کہیں ان کی بد دعا لگ گئی تو‘‘؟
افراسیاب: ارے یہ سائیں جی وہ والے سائیں تھوڑی ہی ہیں جو ازار بند یا ناڑہ کھلواتے ہیں کے بد دعا لگ جائے گی۔ یہ تو اکیسویں صدی کے سائیں جی ہیں۔ فرنچ،اطالوی،جرمن اور انگلش بولنے والے۔ سائیں جی کو مخاطب کرتے ہوئے ،’’ہاں تو سائیں جی بچی کیسے پھنساتے ہیں‘‘۔
سائیں جی: اس کا بڑا آسان طریقہ ہے، جس چیز کو حاصل کرنا ہے اس کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو، وہ خود تمھارے طرف دوڑتی چلی آئے گی۔
افراسیاب: سائیں جی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔
افراسیاب کو کسی نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا۔ ہر وقت ہنستا اور مسکراتا رہتا۔ مذاق کرنا اس کی عادت تھی وہ کسی بات کو سنجیدہ لیتا ہی نہیں تھا۔
خالد: سائیں جی آپ اسے سمجھاتے کیوں نہیں ہر بات مذاق میں ٹال دیتا ہے۔
سائیں جی:
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
یہ روز کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
افراسیاب:
چھٹی کے دنوں میں کبھی نہا بھی لیا کر
یہ روز کی گندگی تجھے بیما ر نہ کردے
سب زور زور سے ہنسنے لگے۔ شعروں کی پیروڈی، برجستہ و فلبدیہہ وہ بہت اچھی کرتا ۔ یہ تو کچھ مہذب پیروڈی تھی ورنہ وہ مغلظات سے بھرپور پیروڈی کرتا ۔
خالد: مجھے لگتا ہے اس کا حال بھی سائیں جیسا ہوگا، افراسیاب کو مخاطب کرتے ہوئے ،’ ’افراسیاب اب بھی وقت ہے، سدھر جا،ورنہ بعد پچھتائے گا ‘‘۔
ابھی وہ گفتگو میں مصروف تھے کہ دور سے افراسیاب کے والد صاحب اور اس کا چھوٹا بھائی آتے دکھائی دیئے۔
افراسیاب چلایا: ابا آپ کیوں اس طرف آگئے
افراسیاب کے ابو: ارے تم میری ہوائی چپل پہن آئے ہو۔ چلو گھر بہت دیر ہوگئی ہے
افراسیاب: ابھی آتا ہوں
اچانک اس کے والد کی نظر سائیں انٹرنیٹ پر پڑی۔ کچھ پہچاننے کی کوشش کرنے لگے پھر خیال جھٹک دیا لیکن بنا پوچھے ان سے بھی نہ بن آئی۔
افراسیاب کے ابو سرگوشی کے سے انداز میں کہنے لگے: افراسیاب یہ کون ہیں؟
افراسیاب نے آہستگی سے کہا: ابا۔۔۔یہ سائیں انٹرنیٹ ہیں ۔ لوگ انھیں پاگل سمجھتے ہیں لیکن ہم سب ان کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ intellectual (انٹلیکچوئل)ہیں۔بس ان کا ذہنی توازن
ٹھیک نہیں
انھوں نے متجسس ہوکر پوچھا: کہاں سے آئے ہیں ............افراسیاب ........یہ؟
افراسیاب: یہ کوئی نہیں جانتا ۔ نہ کبھی بتاتے ہیں۔ بس بیرون ممالک کا ذکر کرتے رہتے ہیں روز کہتے ہیں۔ آج جرمنی چلا جاؤ گا۔ کل فرانس چلا جاؤ گا اور پرسوں اٹلی۔
افراسیاب کے ابو: بس بچو یہ ضیاء صاحب کے دور میں ایسی نفسانفسی تھی۔ ہر نوجوان پر باہر جانے کا بھوت سوار تھا۔ یہ اسی کے اثرات ہیں۔ اچھے خاصے قابل نوجوان غیر ممالک کو چلے گئے۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں انجینئرز ، ڈاکٹرز اور ہنرمند آدمی باہر جارہے ہیں۔ خیر تم گھر چلو۔
افراسیاب: ابا........ میں آجاؤں گا.......آپ چلیں۔
سائیں انٹرنیٹ نے افراسیاب کے والد صاحب کو پہچان لیا تھا ۔ لیکن اس نے کوئی اظہار نہ کیا بلکہ خاموشی سے سب کی گفتگو سنتا رہا۔
رات گئے تک یہ نوجوان مختلف موضوعات پے بحث کرتے رہے پھر اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ لیکن سائیں انٹرنیٹ وہیں بیٹھا رہا۔ جب وہ ریسٹورنٹ بند کرنے لگے تو سائیں وہیں ساتھ گلی میں ایک میلی اور ٹوٹی پھوٹی چٹائی پر سو گیا۔
.............................................................................
ابرِنیسا بہرام کھرل، راولپنڈی شہر کی نئی ڈپٹی کمشنر محترمہ نادیہ بہرام کھرل کی بیٹی ہے اور دونوں میں اس حد تک مماثلت ہے کہ کئی دفعہ پہچانا مشکل ہوجاتا ہے کہ ماں کون ہے اور بیٹی کون۔ابرِنیسا کا رنگ ذرا صاف اور قد تھوڑا لمبا ہے اور دکھنے میں ذرا زیادہ خوبصورت ہے۔ اس کی وجہ عمر کا فرق بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے والد نہ صرف اسلام آباد کے بلکہ پورے پاکستان کے جانے مانے cardiologist (کارڈی آلوجسٹ))ہیں ۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف۔۱۰ کے مرکز میں ان کا "Il cuore" (ال کورے ،یعنی دل )کے نام سے اپنا میڈیکل سنٹر ہے۔
جمشید صاحب کوہاٹ کے مشہور آدمی خان بہادر کے بیٹے ہیں۔ خان بہادر صاحب خود بھی ڈاکٹر تھے۔ کوہاٹ میں اپنا میڈیکل سنٹر چلاتے تھے۔ اپنے بچوں کو انھوں نے خاندانی چپقلشوں سے بچانے کے لیئے اسلام آباد بھیج دیا تھا۔اس لیئے یہ دونوں بہن بھائی، جمشید خان اور لیل النہار ،اسلام آباد میں ہی پلے بڑھے تھے۔ دونوں ڈاکٹر تھے۔ بہن تو شادی کے بعد اپنے میاں کے ساتھ امریکہ چلی گئی لیکن جمشید صاحب یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
جوانی کے دنوں میں اسلام آباد کے انتہائی مہنگے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پرائیویٹ ٹیوشن کے لیئے جایا کرتے تھے۔ ایسے مہنگے اور جدید قسم کے ٹیوشن سنٹر چند ایک ہی ہیں، جہاں امراء اور نودولتیئے قسم کے لوگ اپنے بچوں کو مہنگی فیسیں ادا کرکے مختلف مضامین کی پرائیویٹ ٹیو شن دلواتے ہیں۔ ان میں چند طلباء و طالبات صرف اسلیئے یہاں پڑھنے آتے ہیں تانکہ انھیں اپنی کلاس کے لوگوں سے ملنے جلنے کا موقع ملے۔خاص کر کچھ نوجوان ، لڑکیوں کے قریب آنے کے چکر میں بھی یہاں آتے ہیں۔ جو اپنے پیسے کی چمک اور ظاہری آن بان سے لڑکیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ چونکہ، یہاں زیادہ تر لڑکیاں ،لڑکے آزاد خیال اور آزاد ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لیئے ان میں مڈل کلاس یعنی درمیانے طبقےء والی بات نہیں ہوتی۔پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہے ۔ یہاں discotheques (ڈسکوتھیک، یعنی ناچ گھر)اور الکوحل کا کوئی تصور نہیں اس لیئے یہ لوگ private parties (ذاتی تقر یبات) میں بالکل اس طرح کا ماحول بنا لیتے ہیں۔ ان کے لیئے شراب تک رسائی کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ یہ صرف درمیانہ اور نچلا طبقہء مشکل سے حاصل کرتا ہے۔ یا کچھ شراب کے شوقین عیسائیوں کا شراب کا پرمٹ استعمال کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے اس نئے پھلتے پھولتے سیکٹر ایف۔۱۰ میں بھی اس طرح کا ایک ادارہ ہے۔ ُٓ "ELYSIUM" (الیزیئم )اپنے نام کی مناسبت سے یہ ادارہ بالکل اس نام کی عکاسی کرتا ہے۔
جمشید خان ان دنوں میڈیکل کا طالب علم تھا۔ اس کی انگریزی اور بائیالوجی کمزور تھی۔ نہ صرف اس کی بلکہ اس کی بہن لیل النہار کی بھی یہی حالت تھی۔دونوں بہن بھائی اپنی اس کمی کوپورا کرنے کے لیئے "ELYSIUM" (الیزیئم)آیا کرتے تھے۔ ادارے کا ماحول کافی آزاد تھا لیکن یہ لوگ قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اس لیئے ان کے ذہن میں وہی عزت اور غیرت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہیں elysium (الیزیئم)میں جمشید خان کی ملاقات نادیہ بہرام کھرل سے ہوئی اور بالکل انڈین اور پاکستانی عشقیہ فلموں کی طرح پہلی ملاقات میں ہی خان صاحب ، اپنا دل دے بیٹھے۔ لیکن ان کے دل دینے سے کیا ہوتا تھا۔ نادیہ تو سب کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتی۔ نادیہ زیادہ خوبصورت تو نہ تھی لیکن اس میں بلا کی کشش تھی، جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ تقریباً سارے elysium (الیزیئم) کے لڑکے اس کے آگے پیچھے گھومتے ۔ لیکن وہ کسی کو منہ نہ لگاتی۔ جمشید کی بہن
لیل النہار نے اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر نادیہ سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی۔ اس وجہ تھی اس کی سادگی۔ نادیہ اس کو دوست تو نہ تصور کرتی لیکن اسے بہت اچھا لگتا کہ کوئی اس کے آگے پیچھے پھرے اور اس کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہے اس کام کے لیئے لیل النہار بالکل مناسب تھی لیکن لیل النہار اس نقطء نگاہ سے نہیں سوچتی تھی ۔
..........................................................
نادیہ بہرام کھرل ، اے .بی.کھرل کی تیسری بیوی سے تھی۔ اس کو کھرل صاحب نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا۔ کھرل صاحب کی دوسری بیویوں سے بھی اولاد تھی۔ پہلی شادی انھوں نے سولہ سال کی عمر میں اپنے گاؤں سے اپنے ماں باپ کی مرضی سی کی تھی۔اس کے بطن سے دو بچے پیدا ہوئے۔ دونوں گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ دوسری شادی انھوں نے اپنی مرضی سے لاہور کے ایک امیر خاندان سے کی۔ جس سے ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ ان کی پہلی بیویوں سے جو اولاد تھی وہ سب کے سب شادی شدہ تھے۔ آخری شادی انھوں نے بڑھاپے میں آکر کی۔ ان کی عمر زیادہ نہ تھی لیکن پاکستان میں پچاس سے اوپر والوں کو بوڑھا تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی بیوی کی عمر بمشکل بیس سال ہوگی۔ ہوا کچھ یوں کہ کھرل صاحب ایک دن سیر کے لیئے چترال گئے۔ وہیں لڑکی کے والدین کو پیسے ادا کیئے اور لڑکی کو اپنی منکوحہ بنا کر لے آئے۔ اسی بیوی کے بطن سے نادیہ پیدا ہوئی۔کھرل صاحب اپنی اس بیٹی کو بہت چاہتے تھے اس کی کوئی خواہش انھوں نے کبھی رد نہ کی۔ تمام کاروبار اور جائیداد پے لاہور والی بیوی اور اس کے بچوں نے قبضہ کرلیا، کیونکہ انھیں ان کی تیسری شادی پر اعتراض تھا۔ ویسے بھی کھرل صاحب حالات کے ساتھ ماٹھے پڑگئے تھے۔ لیکن نادیہ کو انھوں نے کبھی محسوس نہ ہونے دیا کہ ان کی مالی حالت مستحکم نہیں ہے۔اس پے حادثہ یہ گزرا کہ ان کی چہیتی بیوی بھی ایک حادثاتی موت کا شکار ہوگئی۔ اب تو ان کی ساری توجہ کا مرکز نادیہ تھی۔وہ "bella di papa" (باپ کی لاڈلی ،اطالوی زبان میں کہتے ہیں، بیلو دی پاپا)بن گئی تھی۔اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنا سب کچھ اپنے والد صاحب کو ہی پایا تھا۔ اس کی کوئی دوست نہ تھی۔ بچپن کو CONVENT کانونٹ) میں گزرا۔ انگریزی ماحول میں پلی بڑھی ۔ دوست ہوتا بھی کیسے ، وہ جب بھی والد صاحب کے ساتھ کہیں جاتی تو لوگ یہی سمجھتے کہ وہ کھرل صاحب کی پوتی ہے۔کھرل صاحب جھٹ سے پھر لوگوں سے اس کا تعارف کرواتے، ’یہ میری بیٹی
ہے۔ ماشااللہ بہت ذہین ہے۔
...................................................
نادیہ اور جمشید میں کوئی دوستی نہ تھی ۔ وہ سیدھا سادہ پٹھان اور یہ نازوں پلی، نک چڑھی اور مغرور لڑکی تھی۔ مغرور نہ بھی ہولیکن ناک بھوں ایسے چڑھا کے رکھتی جیسے ساری دنیا اس کے پاؤں کی ٹھوکر میں ہو۔لیکن آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہونا شروع ہوگیا ، جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو کچھ ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ یعنی اصل میں جو ہوتا ہے وہ، وہ نہیں ہوتا جو وہ ہوتا ہے بلکہ وہ، وہ ہوتا ہے جو وہ نہیں ہوتا ہے۔
اچانک کھرل صاحب انتقال کر گئے اور نادیہ کا قرعہ جمشید کے نام نکلا۔ جس طرح NEWTON (نیوٹن)کی گود میں سیب گرا تو وہ سوچنے لگا یہ زمین پرکیوں گرا ، آسمان پر کیوں نہ چلا گیا۔اسی طرح جمشید بھی حیران و پریشان تھا کہ نادیہ بہرام کھرل اس کی جھولی میں کیسے آن گری۔
جمشید خان امریکہ سے cardiology (کارڈیالوجی)میں specailisation(سپیشلائیزیشن) کرکے آیا تھا اور نادیہ بہرام سول سروسسز میں ٹاپ کرچکی تھی۔ لیکن اس کے والد صاحب کی وفات کے بعد آج وہ جو کچھ بھی تھی۔جس مقام پر تھی۔ اس میں دو لوگوں کا ہاتھ تھا۔ایک گمنام شخص تھا ۔ جس کی motivation(موٹیویشن، یعنی مائیلیت) اور moral support (مورل سپورٹ، یعنی حوصلہ افزائی) کے ساتھ اورد وسرا جمشید خان جس کی مالی اعانت سے، وہ اس مقام پر پہنچی تھی۔ عبدل بہرام کھرل وفات کے بعد صرف اور صرف قرض خواہوں کی
فہرست چھوڑ کر گئے تھے اور ان تمام مسائل سے مکتی دلانے والا شخص تھا جمشید خان۔ وہ نادیہ سے بہت پیار کرتا تھا ۔اس کے لیئے وہ کچھ بھی کرسکتا تھا اور اس نے کیا۔اس کے باوجود نادیہ اور جمشید کی ازدواجی زندگی اتنی کامیاب نہ تھی، جتنی کے ہونی چاہیئے تھی۔ دونوں کو ایسا لگتا جیسے انھوں نے کوئی بہت بڑا سمجھوتا کیا ہو۔ اسی سمجھوتے سے ابرِنیساں بہرام خان پیدا ہوئی ۔نادیہ نے اپنے باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ رہنے دیا۔خاوند کے نام کے بجائے اپنے باپ کا نام ساتھ رکھنا زیادہ پسند کیا۔ اس کے برعکس ابرِنیساں نے نہ صرف اپنے باپ کا نام ساتھ رکھا بلکہ اپنے نانا کا نام بھی ساتھ شامل رکھا، حالانکہ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔
ابرِ نیساں اسلام آباد کے اسی مہنگے علاقے میں رہتی ہے، جہاں کبھی اس کی ماں پڑھنے آیا کرتی تھی۔ان کے گھر کے داخلی دروازے میں مشہوراطالوی مصور RAFFAELLO (رافیلو)کی "la velata" (لا ویلاتا، یعنی باپردہ عورت )ٹنگی ہوئی ہے۔ ابرِنیساں کی ماں نادیہ بہرام کھرل کے کمرے میں اطالوی mediaeval painters قرونِ وسطیٰ کے مصوروں) کی بنائی ہوئی تصاویر کی imitations (امیٹیشنز، یعنی نقل کی ہوئی )ٹنگی ہوئی ہیں۔ جن میں CIMABUE,GIOTTO,RAFFAELLO,MICHELANGELO اور LEONARDO DA VINCI (چیمابوئے،جوتو، رافیلو، مائیکل اینجلو، لیوناردو دا ونچی )نمایاں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے چند مصوروں کی بھی تصاویر آویزاں ہیں ، جیسے کہVAN GOGH, DALI, CHAGALL,KADINSKY,FRIDA KOEHLO (وین گوغ، دالی، چاگال، کادنسکی، فریدہ کاہلو) وغیرہ۔
..........................................................
ابرِ نیساں قائد اعظم یونیورسٹی میں ANTHROPLOGY (اینتھروپولوجی ،یعنی علم البشریات )کی طالب علم تھی اور شام کو ALLIANCE FRANCAISE (آلیانس فغانسیز،فرانسیسی کلچرل سینٹر) فرنچ زبان سیکھنے کے لیئے جایا کرتی ۔ یہیں اس کی ملاقات افراسیاب سے ہوئی۔ دونوں میں اک قدر مشترک تھی۔ دونوں فرنچ سیکھنے کے شوقین تھے۔ کلاس کا فرق اپنی جگہ تھا۔ وہ صحافی کا بیٹا تھا اور ابرِ نیساں ڈپٹی کمشنر کی بیٹی ۔ دونوں میں دوستی ہوگئی لیکن عشق وشق کا چکر نہیں
تھا۔کیونکہ افراسیاب کوعشقیہ قصوں کو سن کر اور فلموں کو دیکھ کر بخار ہوجاتا تھا۔وہ تو آرٹ فلموں کا شیدائی تھا۔کہاں COGNITIVE SCIENCE(کوگنیٹو سائنس، یعنی گیان اور وقوف کا علم)کہاں عشق و محبت۔ANTHROPOLOGY (اینتھروپولوجی ،یعنی علم البشریات )اور COGNITIVE SCIENCE (کوگنیٹو سائنس، یعنی گیان و وقوف کا علم) کا آپس میں تھوڑا
بہت ربط تھا۔ افراسیاب کا پی.ایچ.ڈی کرنے کا ارادہ تھا اور ابرِنیساں کا بھی ANTHROPOLOGY (اینتھرو پولوجی ،یعنی علم البشریات )میں پی.ایچ.ڈی کرنے کا رادہ تھا۔ افرسیاب کو پنڈی سے عشق تھا اور ابرِنیساں اسلام آباد سے کبھی باہر نہ گئی تھی۔حالانکہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ پورا پاکستان گھوم چکی تھی۔ لیکن وہ مڈل کلاس کی نہ تھی۔ دونوں میں کئی دفعہ بحث ہوجاتی اور ہمیشہ افراسیاب ہی جیتا کرتا ،کیونکہ وہ نام نہاد طالب علم نہیں تھا۔
آج پھر دونوں بھرپور بحث ہوئی اور پھر افراسیاب جیت گیا۔ باتوں باتوں میں سائیں انٹرنیٹ کا ذکر چل نکلا۔
ابرِنیساں کہنے لگی، ’مجھے پیروں فقیروں پر یقین نہیں‘
افراسیاب کہنے لگا، ’ارے وہ جادو ٹونے والے، معجزات دکھانے والے، لعابِ دہن لگا کر زخم ٹھیک کرنے والے سائیں نہیں ہیں۔ ان کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ گزرا ہے ۔ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے وہ سڑکوں پے مارے مارے پھرتے ہیں۔لوگ انھیں پاگل کہتے ہیں لیکن میری نظر میں وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ANTHROPOLOGY,ETYMOLOGY,
LEXICOGRAPHY,ANTHROPOMORPHISM (اینتھروپولوجی،ایٹیمولوجی، لیگزیکوگرافی، اینھتروپومورفزم)
اور ناجانے کیا کیا۔ اس کے علاوہ کئی زبانیں جانتے ہیں۔ تاریخ،فلسفہ اور کیا نہیں جانتے۔ بس ایک نشہ کرتے ہیں۔چائے کا۔ہم لوگوں نے ان کا نام سائیں انٹرنیٹ رکھا ہوا ہے کیونکہ ان کے اصلی نام سے کوئی نہیں واقف۔
ابرِنیساں کہنے لگی،’ ’I would like to see him that will be interesting ‘‘(میں ان سے ملنا چاہوں گی۔ یہ بڑا دلچسپ رہے گا)
’’Oui! c'est bien,‘‘ (ہاں یہ ٹھیک ہے )افراسیاب نے کہا ۔
..................................................................
افراسیاب ، ابرِنیساں کی چمکیلی گاڑی سے، اس کے ساتھ اوڈین سینما کی پارکنگ میں اترا۔ دونوں تیزی سے چلتے ہوئے شاہ بلوط باغ میں داخل ہوئے۔ جس طرف BOB MARLEY(بوب مارلے)سائیں اور سائیں انٹرنیٹ کی جھگیاں تھیں ۔۔۔۔دونوں اس طرف مڑے۔
سائیں انٹرنیٹ پھلوں کے خالی کریٹ کو میز بناکر اس پے اپنے تمام ضروری کاغذات رکھے ان کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ لوگوں کے لیئے وہ کاغذ کے سفید پرزے تھے لیکن سائیں انٹرنیٹ کے لیئے وہ PERMESSO DI SOGGIORNO (پرمیسو دی سجورنو،یعنی اٹلی میں رہنے کا اجازت نامہ),AUSWEIS(ہاوس وائس، یعنی جرمنی میں رہنے کااجازت نامہ), CARTE SEJOUR(کاخت سجوغ، یعنی فرانس میں رہنے کا اجازت نامہ) اور جانے کیا کیا تھے۔اس کی جیسے ہی نظر افراسیاب پر پڑی تو کہنے لگا،
’اوئے تم پھر آگئے‘
’نہیں سائیں جی ،آج میں آپ کو تنگ کرنے نہیں آیا ہوں۔میرے ساتھ میری کلاس فیلو ہے۔ ہم دونوں ALLIANCE FRANCIASE(آلیانس فغانسیز، فرانسیسی کلچرل سنٹر)میں اکٹھے فرنچ پڑھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ANTHROPOLOGY (اینتھروپولوجی ،یعنی علم البشریات )پڑھتی ہے اور اس کی ایک assignment(اسائینمنٹ) رکی ہوئی ہے۔ وہ علم البشریات کے بارے میں چند سوالات پوچھنا چاہتی ہے۔
’تو اسے کسی anthropologist (اینھترو پولوجسٹ )کے پاس لے کر جاؤ‘
’نہیں سائیں جی وہ نصاب سے ہٹ کر لکھنا چاہتی ہے‘
اسے کہو، اس صدی کے مشہور PALEANTOLOGIST ,STEPHEN JAY GOULD کی کتاب WOUNDERFUL LIFE پڑھے۔ اس سے اسے کافی سوالات کے جواب مل جائیں گے اور اگر linguistics بارے میں جاننا چاہتی ہے تو STEVEN PINKER کی THE LANGUAGE INSTINCT پڑھے‘۔

یہ تمام باتیں ابرِنیساں جھگی کے باہر کھڑی سن رہی تھی۔ جھٹ سے جھگی میں داخل ہوئی۔بدبو اور تعفن کی وجہ سے ناک پر رومال رکھ لیا۔ اس نے جیسے ہی جھگی میں قدم رکھا،سائیں کو تو جیسے بجلی چھو گئی ہو۔ وہ تھوڑی دیر کے لیئے ساکت ہوگیا۔ مہبوت ہوکر اسے دیکھنے لگا اور ماضی کے نہاں خانوں میں چلا گیا۔ اچانک سائیں کو نہ جانے کیا ہوا ۔ زور زور سے چلانے لگا،
’اب آئی ہو۔۔۔اب آئی ہو۔ میری زندگی تباہ کرنے کے بعد۔ میری بربادی کا تماشہ دیکھنے۔ نکل جاؤ۔ تم جیسی self centered اور utopian girl کی میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔ سرابوں کے پیچھے بھاگنے والی۔ آگیا ہوش تمہیں اس رنگ و بو کی دنیا سے۔افراسیاب بیٹا یہ آگ ہے۔ تمہیں جلا کر راکھ کر دے گی۔ اس نے کئی لوگوں کی زندگی برباد کی ہے۔ اب تمھیں تباہ و برباد کرے گی‘
افراسیاب اور ابرِنیساں مہبوت ہوکر سائیں کو دیکھ بھی رہے تھے اور سن بھی رہے تھے۔ افراسیاب نے آج تک سائیں کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا۔ابرِنیساں سے آج تک کسی نے اتنی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی، کیونکہ وہ ڈپٹی کمشنر کی بیٹی تھی اور اس کا باپ اسلام آباد بلکہ پاکستان کے مانے ہوئے cardiologists (کارڈیالوجسٹ )میں سے ایک تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ْ ْْ

Saturday, June 25, 2011

PASE AYENA 5

بدھ کے دن صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے کچن میں برتنوں کی آواز سنی۔ میں نے اٹھ کے دیکھا تو نیائش کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا ، ’’نیائش بھائی آج کام پے نہیں گئے‘‘۔
’’ماڑا کیا بتاؤں کل رات سے طبیعت خراب تھی ۔ سارا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ اسی لیئے کھانا بھی نہ بنایا۔ اللہ بھلا کرے پری پیکر کا کہ وہ ڈونر کباب لے آیا تھا۔ میں نے صبح مالک کو فون کردیا تھا کہ آج کام پے نہیں آؤں گا۔ لگتا ہے مجھے فلو ہوگیا ہے۔ یہ بہت گندی بیماری ہے۔ بظاہر انسان بیمار نہیں لگتا لیکن انسان کا جسم اندر سے ٹوٹ کے رہ جاتا ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس میں ہڈیاں چٹخنے لگتی ہیں اور بہت زیادہ کمزوری محسوس ہوتی ہے‘‘۔
’’ماڑا تم ٹھیک کہتے ہو‘‘۔
’’آپ چھوڑٰیں ناشتہ میں بناتا ہوں‘‘۔
’’یار چائے میں میٹھا زیادہ ڈالنا، منہ کا ذائقہ بہت خراب ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کڑوا بادام کھالیا ہو‘‘۔
’’نیائش بھائی آج میرا خیال ہے کوئی چٹخارے دار چیز بنائی جائے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آج پری پیکر ضرور آئے گا میرا مطب ہے ثقلین‘‘۔
’’ماڑا تم نے اسے پتا نہیں کس نشے پے لگا دیا۔ یہ تو ہیروئن کے نشے سے بھی برا ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی میں سارا دن فارغ ہوتا ہوں کچھ نا کچھ لکھتارہتا ہوں۔ جب مکمل ہوجاتا ہے اس کو دے دیتا ہوں۔ ایساکرتا ہوں ناشتہ کرکے میں عربی کے دوکان پے جاتا ہوں ۔اس سے اچھا سا گوشت لاتا ہوں ۔ وہ چھوٹا گوشت مہنگا دیتا ہے لیکن اس کے پاس گوشت اچھا ہوتاہے‘‘۔
’’ماڑا پہلے ناشتہ تو کرلو۔ یہ توشام کا پروگرام ہے۔ ویسے بھی پری پیکر شام سات بجے آئے گا‘‘۔
میں نے ناشتہ تیار کیا ۔ نیائش تو ناشتہ کرکے کمرے میں چلا گیا اور میں ٹی وی دیکھنے لگا۔ نیائش کی نہ جانے کب آنکھ لگ گئی اور میں اریزو کی لائبریری چلا گیا۔ اریزو کی لائبریری بھی دنیا کی عجیب و غریب لائبریری ہے۔ یہاں آپ کتابوں کو سامنے دیکھ نہیں سکتے۔ آپ کمپیوٹر میں کتاب کا نام دیکھتے ہیں۔ اس کو کاغذ پے لکھ کے دیتے ہیں۔ پھر لائبریری میں کام کرنے ولا عملہ آپ کو کتاب لا کر دیتا ہے۔ یہ لائبریری ایک بہت پرانی عمارت میں بنائی گئی ہے۔ اس سے ملحق اریزو شہر میں پیدا ہونے شاعر فرانچسکو پترارکا کا گھر ہے۔ یہاں پترارکا کی لائبریری بھی ہے۔ اس کی جمع کی ہوئی کتابوں کو ایک خاص قسم کا مصالحہ لگا کر رکھا گیا ہے تانکہ خراب نہ ہوں۔
مجھے اٹالین زبان تو اتنی آتی نہیں اس لیئے میں ہمیشہ انگریزی زبان کی کوئی نا کوئی کتاب دیکھ لیتا ہوں ۔ اس کے علاوہ انساکلوپیڈیاء بریٹینیکا یہاں پے انگریزی میں بھی ہے۔ مجھے اس سے کافی مدد مل جاتی ہے۔ میں ضروری چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کی لائبریری سے گھر کے راہ لی ۔راستے یہ ویالے میکل آنجلوں(viale michelangelo) میں ایک بہت اچھا پزیریہ ہے اس سے ایک بڑا پیزا لیا۔
گھر پہنچ کے پیزے کے دو حصے کیئے ۔نیائش ابھی تک سو رہا تھا۔ شاید اس نے ناشتے کے بعد کوئی اینٹی بائیوٹک لی تھی جس کی وجہ سے اسے نیند آگئی تھی۔ جب میں میز پے تمام چیزیں سجا چکا تو نیائش کو آواز دی ۔اس نے اندر سے آوازدی، ’’ماڑا وقت کا پتا ہی نہ چلا ۔ اور یہ تم نے کیا مذاق بنا رکھا ہے۔ کبھی پیزا لے آتے ہو اور کبھی گوشت لے آتے ۔ماڑا تم ابھی کام نہیں کرتے ۔جب کام کرو گے تو میں تمہیں منع نہیں کروں گا‘‘۔
’’نیائش بھائی کام نہیں ہے تو کھانا چھوڑ دیں‘‘۔
’’خیر چھوڑو ۔ میں کھاناکھا کے بعد اپنے ڈاکٹر کے پاس جاؤں گا، ملاتی لکھوانے(میڈیکل
سرٹیفیکیٹ)۔ وہ آتا تو چار بجے ہے لیکن وہاں کافی رش ہوتا ہے۔ اس لیئے پہلے جاکے ٹوکن لوں گا۔ اس کے بعد اس کا انتظار کروں گا‘‘۔
’’نیائش بھائی ان اٹالین کا بھی عجیب نظام ہے ۔بندا بیمار ہوتو بھی تکلیف اٹھائے‘‘۔
’’یار یہ بھی ان کی مہربانی ہے۔ تین دن کا سرٹیفیکیٹ لکھ دے گا ۔ اگر سوموار کو ٹھیک ہوا تو کام پے چلا جاؤں ورنہ دوبارہ لکھوا لوں گا‘‘
میں نے اپنے حصے کا پیزا تو کھالیا لیکن نیائش نے تھوڑا سا کھا کر چھوڑ دیا۔ اور کہنے لگا، ’’ماڑا کچھ کھانے کو جی ہی نہیں چاہتا‘‘۔
پیزا کھانے کے بعد میں نے چائے بنائی او ر اس کام سے فارغ ہونے کے بعد نیائش نے گاڑی سٹارٹ کی اور ڈاکٹر کے پاس چلا گیا ۔ میں دوبارہ لکھنے میں مصروف ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کو چھ بجے نیائش گھرآیا اس کے ساتھ پری پیکر بھی تھا۔ میں نے کہا، ’’نیائش بھائی اتنی دیر کردی ، خیریت تھی‘‘۔
’’ماڑا پہلے ڈاکٹر کا انتظار کرتا رہا ۔ وہ چار بجے آیا ۔ اس سے ملاتی لکھوائی (میڈیکل سرٹیفیکیٹ) لکھوایا۔ اس کے بعد ڈاک خانے چلا گیا وہاں سے مالک کوایک کاپی رجسٹرڈ پوسٹ کی ہے۔ ان سارے کاموں میں دیر ہوگئی۔ تمہیں تو پتا ہے یہاں کے ڈاک خانے میں کتنے لوگ ہوتے ہیں‘‘۔
پھر میں پری پیکر سے مخاطب ہوا، ’’آپ سنائیں کیا حال ہیں۔ ‘‘۔
’’بالکل ٹھیک ہوں ۔آج جلدی فارغ ہوگیا تھا ۔گھر جارہا تھا راستے میں نیائش بھائی مل گئے انہوں بہت اصرار کیا تو ان کے ساتھ یہاں آگیا۔ میں نے ویسے بھی آنا تھا، آپ کو چوتھا باب واپس کرنے۔ یقیناًپانچوا ں باب مل جائے گا‘‘۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘‘۔ نیائش نے میرے ہاتھ میں لفافہ پکڑایا اور کہنے لگا، ’’اس میں دو مرغیاں ہیں۔ دو کلو چھوٹا گوشت ہے اور ایک کلو قیمہ ۔ آج پری پیکر کھانا بنائے گا‘‘
یہ کہہ کر نیائش کمرے میں جاکر لیٹ گیا ۔ ثقلین نے کھانا بنایا۔ وہ کھانا بھی بناتا جارہا تھا اور میرے ساتھ گپ شپ بھی لگاتا جارہا تھا۔ ہم تینوں نے رات کا کھانا کھایا ۔ ثقلین مجھ سے پانچواں باب لے کر چلا گیا
اور چوتھا باب چھوڑ گیا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ میرا لکھا ہوا ثقلین کو اتنا زیادہ پسند آیا کہ وہ پابندی سے آنے لگا تھا۔ کہاں تو وہ مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا اور کہاں وہ چھٹی ہوتے ہی ہمارے ہاں آجاتا۔ نیائش بھی بڑا حیران تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین نے جلدی جلدی پانچواں باب پڑھنا شروع کیا۔

اگلے دن جب میری آنکھ کھلی تو کسی کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ اٹھو ،اٹھو، ٹرانسفر ، ٹرانسپورٹ ، کنٹون۔ ان تینوں لفظوں کا مطلب تھا کہ کچھ لوگوں کو یہاں سے منتقل کیا جانا تھا، کچھ لوگوں کو کنٹون جانے کاوقت آگیا تھا اور کچھ لوگوں گاڑی میں بٹھا کے اسی جگہ لے جایا جانا تھا جہاں میں نے کل سارا دن گزارا تھا۔ چشمِ زدن میں سارے باتھ رومز بھر گئے۔ سب کے ہاتھ گھٹیا قسم کا سبز رنگ کا ٹوتھ برش تھا اور ایک چھوٹی سی منٹ والی ٹوتھ پیسٹ تھی۔ کچھ لوگ باتھ روم کے باہر اپنی باری کا انتظار کررہے تھے اور کچھ لوگ باتھ روم کے باہر ہی ٹوتھ برش کے اوپر ٹوتھ پیسٹ لگا کے ونہی کھڑے کھڑے ایسے اپنے دانتوں کو اس برش سے رگڑ رہے تھے جیسے انہوں نے ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش پہلی دفعہ دیکھا ہو۔
جن لوگوں کا آج کوئی انٹرویو نہیں، میڈیکل نہیں تھا، کنٹون ٹرانسفر نہیں تھی ان کو سب کو یہیں رہنا تھا۔ یعنی ان تمام لوگوں کو گارنیگے ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ میں ہی ناشتہ ملنا تھا جو کہ اب مہاجروں کا کیمپ بن گیا تھا۔ باقی سب کو اسی جگہ لے جایا جانا تھا جہاں وہ بدبودار نالا تھا۔ اسی بیرک نماں عمارت میں۔ اسی جیل نماں باغ میں۔ اسی نیلی ٹوئیوٹا وین میں ۔ جن لوگوں کو منتقل کیا جانا تھا ان میں میرا بھی نام تھا۔ میں نے ہمیشہ کی طرح اپنی باری کا انتظار کیا۔ وین والے نے اس دفعہ بھی دس چکر لگائے۔ آخری چکر میں ہم تھوڑے سے لوگ بچے تھے۔ اب کہ وین کا ڈراائیور کوئی اور تھا۔ اس نے مجھے انگریزی میں کہا کہ تم فرنٹ سیٹ پے بیٹھ جاؤ۔ میں اس کی ہدایت کے مطابق فرنٹ سیٹ پے بیٹھ گیا۔ یہ ڈرائیور جوان اور خوش شکل تھا۔ اس کے علاوہ خوش اخلاق بھی تھا اور انگریزی بھی جانتا تھا۔ میں اس کے سا تھ مختلف موضوعات پے باتیں کرنے لگا۔ میں اس سے پوچھا ، ’’جو ڈرائیور ہمیں رات کو لے کر آیا تھا وہ اتنے غصے میں کیوں تھا‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اسے غیرملکی پسند نہیں ۔دوسرا جب اس کی شام کی ڈیوٹی ہوتی ہے تو اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جلدی جلدی گھر جائے۔ کل ویسے بھی اتوار تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن کل اس نے مجھے اس جگہ بٹھایا تھا جہاں کتے کو بٹھاتے ہیں‘‘۔
ڈرائیور کہنے لگا، ’’یہ بہت غلط بات ہے ۔اس نے ایسا اس لیئے کیا ہوگا کیونکہ وہ صرف ایک بندے کے لیئے ایک چکر نہ لگانا چاہتا ہوگا۔ میں بہت شرمندہ ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں ۔میں نے ویسے ہی بات کی تھی‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’تم نے ویسے ہی بات نہیں کی۔ تم نے محسوس کیا ، تمہیں برا لگا اس لیئے تم نے بات کی‘‘۔اس تھوڑی سی گفتگو کے دوران ہم اسی بدبودار نالے کے پاس سے گزرے۔ مجھے پتا چل گیا کہ ہمارا مہاجر کیمپ آگیا ہے۔ اس وین والے نے ان سب کو ونہی اتار دیا جہاں میں نے کل رات کا کھانا شام کے چھ بجے کھایا تھا۔ میں نے جیسے ہی ہال میں قدم رکھا کیا دیکھتا ہوں یہاں ناشتے کی تیاری ہورہی ہے۔ کچھ لوگ یہاں پے کام کرنے والے عملے کی مدد کر رہے تھے ۔ ہر میز پے سٹین لیس سٹیل کے جگوں میں چائے کی طرح کی کوئی چیز رکھ رہے تھے۔ اس کا رنگ پیلا تھا لیکن میرے ذہن کچھ اور ہی خیال آیا جس کو میں یہاں لکھ نہیں سکتا کیونکہ جو بھی تھا رزق تھا۔ اس کے بعد ساری میزوں پر جیم ، مارملیڈ اور مکھن کی ٹکیاں رکھ دی گئیں۔ جو عورت ناشتہ تقسیم کررہی تھی اس نے گرج دار آواز میں کہا، ’’بچے اور عورتیں ایک طرف قطار بنا لیں اور چھڑے ایک طرف۔ سارے بچے اور عورتیں ایک لائن میں کھڑے ہوگئے ۔ جنگی قیدیوں کی طرح وہ سب کو ایک ایک بروڈ اور خالی پیالی دیتی جاتی۔ جب ساری عورتوں اور بچوں کو وہ بروڈ اور پیالیاں دے چکی تو اس نے انتہائی کرخت آواز میں کہا، ’’اب تم لوگ آؤ‘‘۔ میں ہمیشہ کی طرح قطار کر آخر میں کھڑا تھا۔ جب میں نے بروڈ اور پیال لی تو مجھے محسوس ہوا میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو افریقہ کے کسی ملک کا باشندہ تھا۔ اس نے انتہائی آہستگی سے کہا، ’’مجھے پتا تھا تم سب سے آخری میں کھانا لینا چاہتے تھے۔ میں ایک طرف چھپ گیا تھا۔میں اسی انتظار میں تھا کہ جب تم کھانا لے لو گے تو میں تمہارے پیچھے آکے کھڑا ہوجاؤں گا۔ میں بالکل ایسا ہی کیا ، اور آج میں سب سے آخری بندہ ہوں جس نے کھانا لیا‘‘۔
’’صبر دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ، اگر آپ کے پاس ہو تو‘‘۔
’’تم کہاں کے ہو‘‘
’’میں پاکستان کا رہنے والا ہوں اور تم ‘‘؟
میں سیرا لیون کا رہنے والا ہوں‘‘۔
’’تمہارا نام‘‘
’’میرا نام جادونے چکوچان ہے، اور تمہارا‘‘؟
’’میرا نام فرشتہ ہے‘‘۔
جو لوگ کھانا تقسیم کررہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’جلدی سے ناشتہ کرو اور اس جگہ کو صاف کرو‘‘۔
جب میں ناشتہ کرچکا تو انتظار کرنے لگا کہ اب میرے لیئے کیا حکم ہوگا۔ اسی اثناء میرا اور چکوچان کا نام پکارا گیا۔ ایک سیکیورٹی گارڈ نے ہم دونوں کو انتظار گاہ میں بیٹھنے کو کہا۔یہ سیکیورٹی گارڈ
اونچا لمبا تھا۔ اس کا رنگ گلابی تھا بالکل ایسے جیسے سالمن مچھلی کا ہوتا ہے۔ اس نے اپنے گلابی سالمن رنگ کے چہرے پے کالے شیشوں کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔ یہ اس کے چہرے پے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ اس نے باری باری اور لوگوں کو بھی بلایا۔ سب کو اس انتظار گاہ میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اس سکیورٹی گارڈ نے ہم سب کو باری باری بلایا ۔اب ہم اس بڑے ہال کے باہر کھڑے تھے جہاں ہم نے فقیروں کی طرح لائن میں کھڑے ہوکر ناشتہ وصول کیا تھا۔ یا یوں کہہ لیجئے جیسے جنگی قیدیوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ میں جہاں کھڑا تھا یہ وہی جگہ تھی جہاں میں ہفتے کی رات آکے کھڑا ہوا تھا۔ سیکیورٹی گارڈ بتا رہا تھا کہ پندرہ دن کے اندر سارے لوگ اس عمارت میں منتققل ہوجائیں گے۔ ابھی اس میں ضروری کام ہورہا ہے۔
پھر سیکیورٹی گارڈ نے کہا، ’’میرے پیچھے پیچھے آؤ‘‘۔
ہم سب اس کے پیچھے ہولیئے۔ یہ ہمیں اس جگہ لے آیا جہاں میں نے پہلی رات گزاری تھی۔ اس نے لوہے کا گیٹ کھولا اور ہمیں اندر داخل ہونے کا حکم دیا۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہویامیں دیکھا یہ وہی جگہ تھی ،وہی کمرہ تھا جہاں میں نے ہفتے کی رات گزاری تھی۔ آج سوموار تھا۔ ہم سب کو ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ اس کمرے سے سے ملحق ایک چھوٹا سا باغ تھا جس سے باہر کا سارا منظرصاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سے گندا نالہ بھی نظر آرہا تھا جس کی بو نے میرے دماغ کے اندر ہلچل مچا دی تھی لیکن اب مجھے کچھ بھی نہ ہوا۔ اتنے میں ہمارے کمرے میں ایک عورت داخل ہوئی اس نے سفید رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فہرست تھے۔ اس نے اونچی آواز میں کہا، ’’آج تم لوگوں کے فنگر پرنٹس لیئے جائیں گے، تصوریں اتاری جائیں گی اور اگر وقت بچا تو کچھ لوگوں کے انٹرویو بھی ہوں گے۔ ان کا میڈیکل چیک اپ بھی ہوگا۔ ہم لوگ ان دنوں تھوڑے سے غیر منظم ہیں۔ مہاجرین کے لیئے نئی عمارت تیار ہوگئی ہے۔ ہم لوگ اپنا تمام سامان وہاں منتقل کررہے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
جس کمرے میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔یہاں کچھ تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ یہ تصاویر کوسوا کے بچوں کے لیئے دنیاں کے مختلف ملکوں کے بچوں نے بنا کر بھیجی تھیں۔ یہاں کچھ رسالے پڑے ہوئے تھے۔ بچوں کے کھیلنے کے لیئے کچھ کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک ٹی وی دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا لیکن وہ لکڑی کے ڈبے میں بند تھا اور اس ڈبے کو تالا لگا ہوا تھا۔ جس دیوار پے ٹی وی لگا ہوا تھا اس کے مخالف سمت پے جو دیوار تھی اس پے ایک پوسٹر لگا ہوا تھا اور اس پے پلاسٹک کوٹنگ ہوئی ہوئی تھی۔ اس پوسٹر پے چار تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ چار مدارج میں کسی چیز کو بیان کرنی کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ پوسٹر اس بات کی تشہیر کر رہا تھا کہ آپ بحفاظت جنسی تسکین کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ یعنی کہ آپ مباشرت و مجامعت کے دوران جنسی بیماری سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
۱) پہلے تصویر میں کنڈوم بنا ہوا تھا اور اس کو کھولنے کا طریقہ دکھایا گیا تھا۔
۲)دوسری تصویر میں یہ دکھایا گیا کہ کیسے کنڈوم کے اوپر کے حصے کو اوپر سے کیسے دبانا ہے
۳)تیسری تصویر میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کنڈوم کو مرد کے جنسی اعضاء پے کیسے چڑھانا ہے اور اس کے اوپر کا حصہ کیسے خالی چھوڑنا ہے
۴)چوتھی تصویر میں یہ دکھایا گیا تھا جب آپ اپنے کام سے فراغت حاصل کرلیں تو اس کو کیسے اتارکے کے پھینکنا ہے۔
اس تصویر کو دیکھ کہ آپ باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بحفاظت مباشرت کے لیئے تھا۔ایک بات مجھے نہ سمجھ آئی کہ اسے یہاں مہاجرین کے کیمپ میں لگانے کا کیا مقصد تھا۔ ایسی ہوسکتا ہے یہ لوگوں کو یہ سکھانے کے لیئے لگایا گیا ہوا کہ اگر آپ کنڈوم کا استعمال نہیں کریں گے تو آپ جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جن میں ایڈز پیش پیش ہے۔ اس پوسٹر کے نیچے جرمن زبان میں لکھا ہوا جو میری سمجھ سے بالا تھا لیکن تصاویر سارا کچھ بتا رہی تھیں۔
میں کمرے میں پڑی ہوئی چیزوں کو دیکھ کے لطف اندوز ہورہا تھا۔ وہ عورت دوبارہ آئی جس نے سفید رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس نے میرا نام پکارا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ ایک شخص نے مجھے بینچ پے بیٹھنے کو کہا۔ میں اس کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے باہر پڑے بینچ پے بیٹھ گیا۔ اس نے انگریزی میں کہا، ’’یہاں بیٹھ کے اپنی باری کا انتظار کرو۔ تھوڑی دیر میں وہ تمہیں فنگر پرنٹس کے لیئے بلائیں گے اور تمہاری تصاویر بھی اتاریں گے‘‘۔
میں اس شخص کو اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا تھا ،’’او کے‘‘۔
یہ کہہ کر میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں کسی نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر بلایا۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ میرے سامنے ایک موٹی سی عورت تھی ۔اس کا رنگ گورا تھا ۔ اس نے سفید رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ مجھے نہیں پتا وہ ڈاکٹر تھی یافنگر پرنٹس کی ماہر تھی۔ اس نے مجھ سے کہا، ’’جب مشین تیار ہوجائے گی تو میں تمہارے فنگر پرنٹس بھی لوں گی اور تمہاری تصویر بھی‘‘۔
میں نے کہا، ’’اوکے‘‘۔
تھوڑی دیر میں اس کی آواز مجھ سنائی دی، ’’اوکے مسٹر فرشتہ ، مشین تیار ہے‘‘۔
یہ بہت ہی جدید قسم کی مشین تھی۔ اس میں کیمرہ بھی نصب تھا، فنگر پرنٹس لینے کی سہولت بھی موجود تھی ۔اور اس مشین کے ساتھ ایک مونیٹر بھی ملحق تھا۔ یعنی یہ کمپیوٹرائزڈ فنگر پرنٹس تھے۔
اس عورت نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس کے گورا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ مجھے فوراً وہ جملہ یاد آیا جو میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔
’’گرم ہاتھ وفا کی نشانی ہوتے ہیں۔ آج پتا چلا اس کے ہاتھ کتنے ٹھنڈے تھے‘‘۔
’’مسٹر فرشتہ تم کہاں ہو۔ تم فنگر پرنٹس لینے میں میری مدد نہیں کررہے ہو۔ مجھے تمہاری ساری انگلیوں اور انگھوٹوں کے نشان لینے ہیں‘‘۔
اس نے میرا سیدھا ہاتھ پکڑا ۔ پہلے ایک انگلی کی پھر دوسری انگلی کی رفتہ رفتہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور انگھوٹوں کے نشان لیئے۔جب وہ دونوں ہاتھوں کے نشان لی چکی تو اس نے کہا، ’’مسٹر فرشتہ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ اب میں تمہاری تصویر لوں گی۔ تم کیمرے کی طرف دیکھو۔ تم نے کیمرے کے اندر جو کاٹے کا نشان ہے اس کو دیکھنا ہے‘‘۔
مجھے ایسا لگا جیسے کوئی پتلی تماشہ ہورہا ہو۔
وہ پھر بولی، ’’مسٹر فرشتہ تمہارا بہت شکریہ۔ اب تم جاسکتے ہو‘‘۔
میں اس کمرے سے نکل کے دوبار ہ اسی کمرے میں آگیا جہاں میں پہلے بیٹھا ہوا تھا۔ اب تک قریباً آدھا دن گزر چکا تھا۔ ہمیں دوپہر کے کھانے کے لیئے بلا لیا گیا۔ ایک سیکیوڑتی گارڈ نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے سمجھایا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ ہم اس کے پیچھے ہولیئے۔ جب ہم ہال میں پہنچے تو کھانا چنا جا چکا تھا۔ آج کھانے میں چاول اور مرغی کسی ساس میں تیار کی گئی تھی۔ میں نے یہ کھانا اپنی مرغوب غذاء سمجھ کے کھایا۔ کھانے کھاتے ہوئے میری نظر ایک لڑکی پے پڑی۔ یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا ،جس کی عمر دو سال ہوگی۔ درمیانے قد کی لڑکی تھی۔ گھنگریالے کالے بال ، خوبصورت چہرے پے کنول کی پتیوں جیسی دو خوبصورت آنکھیں۔ رنگ گورا تھا نہ پتلی نہ موٹی ۔اس کے جسم میں ایک بھلا لگنے والا سڈول پن تھا۔ عمر بیس بائیس سال کے درمیان تھی۔ وہ کھانا کھاکے اپنی بچے کے پاس چلی گئی۔ وہ اس کے ساتھ عربی زبان میں کوئی بات کررہی تھی۔ وہ یقیناًمراکش، تیونس یا الجیریہ کی ہوگی۔ ایسا ببھی ہوسکتا ہے وہ عراق یا فلسطین کی ہو یا کسی اور عربی بولے والے ملک کی ہو۔ مجھے اس بات کا بڑا تجسس تھا کہ یہ لڑکی کہاں کی ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور انگریزی میں ’’ہیلو‘‘ کہا۔ اس طرح ہمارے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس نے فرنچ میں اپنی داستان سنانی شروع کی۔ جو بہت دکھ بھری تھی۔ میں جو کافی حد تک فرنچ زبان بھول چکا تھا۔ اس سے کہا کہ یہاں پے آئے ہوئے سب لوگوں کی داستان اور کہانی دکھ بھری ہے۔ یہاں پے اس ہال میں قریباً ایک سو اسی لوگ ہوں گے۔ زیادہ تر لوگ ہم دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ہم دونوں میں کیا بات چیت ہورہی ہے۔
اس کانام لیلہ بنتِ احمد تھا۔ عربی ملکوں میں اور ان کی تہذیب میں لڑکیاں شادی کے بعد اپنے خاوند کا نہیں اپنے باپ کا نام ساتھ رکھتی ہیں۔ یعنی اس لڑکی کا نام تھا لیلہ اور وہ کسی احمد نامی شخص کی بیٹی تھی۔ عربوں میں باپ کا نام نہ صرف بیٹے کے نام ساتھ آتا ہے بلکہ بیٹیوں کے نام کے ساتھ بھی آتا ہے۔ جیسے طارق بن زیاد۔ یعنی زیاد کے والد صاحب طارق ہیں ۔
افریقہ بہت بڑا برِ اعظم ہے۔ اس میں تریپن (۵۳) ملک ہیں۔ اس میں ہزاروں علاقائی اور صوبائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جیسا کہ آپ کسی ایک ملک کو لے لیں۔ ایک ملک میں تین سو سے زیادہ علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو زبانیں رائج ہیں۔ ان میں ان کی اپنے ملک کی زبان کے ساتھ ساتھ غیر ممالک کی زبانیں بھی رائج ہیں جن ملکوں نے ان پر قبضہ کیا۔ افریقہ کے کئی ممالک میں عربی بولی جاتی ہے۔ جب مسلمانوں نے افریقہ میں قدم رکھا تو انہوں جہاں ان لوگوں کو اپنے مذہب سے متعارف کروایا وہاں ان ملکوں میں عربی زبان بھی رائج کی۔ افریقہ کے ملکوں میں عربی، فرنچ، انگلش اور پرتگالی زبان رائج کی۔ اس کے علاوہ ساؤتھ افریقہ میں انگریزی اور ڈچ زبان کی امیزش سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جس کانام ہے افریکان۔ افریقہ کی پرانی زبانوں میںآمہیرک اور سواہیلی ہیں۔ یہ زبانیں دنیا کی پرانی زبانوں میں سے ایک ہیں۔
لیلہ فرنچ زبان اس لیئے بولتی تھی کیونکہ وہ مراکش کی رہنی والی تھی۔ مراکش ،تیونس اور الجیریہ یہ تین ممالک ایسے ہیں جہاں فرانس کا قبضہ تھا ۔اس لیئے یہاں عربی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان بھی رائج ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جن جن ممالک پے انگریزوں نے قبضہ کیا وہاں انگریزی زبان رائج کی۔
مجھے یہ لڑکی لیلہ بہت پسند آئی۔ مجھے اس کے چہرے پے ہلکی سی مسکراہٹ بہت بھائی۔ میں لڑکیوں کے معاملے بہت بیوقوف ہوں۔ میں ابھی سوزی کے فریب سے ہی نہ نکل سکا تھا۔ اب یہ پہلی نظر کا پیار۔ گو کہ اس لڑکی ساتھ ایک بچی بھی تھی ۔ مجھے کیسے پتا چلا کہ یہ اس کی بیٹی تھی نہ کہ بیٹا۔ جب میں نے اس پوچھا تو کہنے لگی ۔میرے پاس گلابی رنگ کے کپڑے نہیں تھے۔ مجھے مہاجر کیمپ والوں نے
جوبھی کپڑے دیئے میں نے پہنا دیئے۔ اس لیئے پتا نہیں چلتا کہ یہ لڑکی ہے یا لڑکا۔
میں نے دل ہی دل میں بے شمار خاکے بنا لیئے تھے۔ میں نے خود کو ذہنی طور پے تیار کرلیا تھا کہ میں اس سے شادی کرلوں گا۔ بھلے وہ ایک بچی کی ماں ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا جیسے ہی مجھے کوئی مناسب موقع ملا میں اسے اپنے دل کی بات کہہ دوں گا۔ میرے دل کا محل اس وقت چکنا چور ہوا جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کا شوہر اٹلی کے شہر میلانوں میں رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جیسے ہی اس کے رہنے کا انتظام ہوجائے گا وہ مجھے ملنے آئے گا۔ میں دکھیاء دل کے ساتھ ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ۔مجھے یہاں پے کام کرنی والے عملے میں سے ایک عورت نے آواز دی۔ میں اس کے پاس گیا تو کہنے لگی، ’’تم میرے ساتھ آؤ‘‘۔تھوڑے توقف کے ساتھ وہ دوبارہ مجھ سے مخاطب ہوئی، ’’تم نے ٹائیلٹ صاف کرنے ہیں۔میں تمہیں بتاتی ہوں سامان کہاں پڑا ہے‘‘۔ میں نے لیلہ کو فرنچ زبان میں ’’ایکسکیوزے موا‘‘ کہا او ر اس کے ساتھ ہولیا۔جب میں عورت کے ساتھ جارہا تھا راستے میں دو بندے کھڑے تھے۔ وہ میرے بارے میں بات کررہے تھے۔
’’پاکستانی ہے جی‘‘
’’نہیں نہیں کسی اور ملک کا ہے‘‘۔
’’نہیں جی میں نے نام دیکھا ہے اس کا‘‘۔
’’لیکن یہ تو انگریزی اور پتا نہیں کوئی اور زبان بھی بولتا ہے۔دیکھا نہیں اس لڑکی کے ساتھ کس طرح گفتگو کررہا تھا‘‘۔
میں ان کے پاس گیا اورکہا، ’’آپ کا اندازہ بالکل ٹھیک ہے میں پاکستانی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں اس عورت کے سا تھ چلا گیا کیونکہ مجھے سوئٹزرلینڈکے مہاجر کیمپ کے ٹائیلٹ صاف کرنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس مہاجر کیمپ کے باغ میں بیٹھا تھا۔ ایک ایسا باغ جو جیل نماں تھا۔ میں وہاں بیٹھے بیٹھے سوچنے لگاکہ میں کس جگہ رہ رہا ہوں۔ یہ ملک اس کانام سوئٹزرلینڈ ہے۔ جس کو لوگ زمینی جنت کہتے ہیں۔ جس ملک میں بے شمار جھیلیں ہیں۔ جس میں جنت نظیر وادیاں ہیں۔ جس میں ریلوے کا بہترین نظام ہے۔ جس ملک میں برف بوش پہاڑیاں ہیں۔ جس ملک میں جنگِ فراؤ ،مونتے روسا اور مونک جیسی پہاڑیاں ہیں۔ میں ظہیر الدین بابر کے بارے میں سوچنے لگا۔ جس نے کشمیر کو دیکھ کر کہا تھا، ’’اگر دنیا میں کہیں جنت ہے تو یہیں ہے یہیں ہے۔ کیا سوئٹزرلیند دنیا میں جنت ہے یا کشمیر جنت ہے۔ جہاں میں رہ رہا ہوں کیا جنت ہے ،دوزخ ہے یا برزخ ہے۔ میں خود کو دانتے الیگیئیری(dante allighieri) کی کتاب ڈیوینا کومیدیاء (divina commedia)کے کسی حصے میں نہیں پا رہا تھا۔ نہ میں جنت میں تھا، نہ میں دوزخ میں تھا نہ ہی میں برزخ میں تھا ۔پھر میں کہاں ہوں۔جب سے میں اس مہاجر کیمپ میں آیا تھا مجھے ہمیشہ کوئی نا کوئی اس خیالوں کے سمندر سے باہرلے آتا۔ اب بھی مجھے
کسی نے آواز دی،’’او پاکستانی، رات کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ میں نے کہا، ’’ابھی تو دن کے ساڑھے پانچ بجے ہیں‘‘۔
اس نے کہا، ’’مجھے کیمپ کے عملے نے کہاہے کہ جتنے لوگ بھی باغ میں ہے انہیں اندر بلالو‘‘۔
جون کا مہینہ تھا ۔بہت گرمی تھی۔ چونکہ اس شہر کے پاس جھیل ہے اس لیئے جسم میں ایک عجیب قسم کی چپچپاہٹ تھی۔ فضاء میں ایک عجیب قسم کی گھٹن تھی۔ کچھ تو میں اس جیل نماں باغ سے گھبرا گیا تھا کچھ گرمی تھی اور کچھ رات کے کھانے کی وجہ سے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کوئی مجھے رات کا کھانا دن کے ساڑھے پانچ بجے دے گا۔ جون کے مہینے میں سورج ویسے بھی دیر سے غروب ہوتا ہے۔ خیر مرتا کیا نا کرتا۔ میں ہال کے اندر داخل ہوا۔ دوبارہ قطار میں کھڑا ہواگیا۔ جنگی قیدیوں کی طرح، دوسری جنگِ کے یہودیوں کی طرح۔ نہ میں جنگی قیدی تھا، نہ ہی میں یہودی تھا۔ مجھے ایک بات سمجھ نہ آئی کہ سوس حکومت نے مہاجرین کو کھانا دینے کا اس طرح کا نظام کیوں رائج کیا ہوا ہے۔ یہ ان کا ملک تھا وہ جیسے چاہتے کرتے اور جیسے چاہیں کریں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مجھے درخواست دے کر تو نہیں بلایا، میں خود اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں۔ ان کا جو بھی طریقہ کار کا اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔مجھے اس عورت کی آآواز سنائی دی جو کھانا تقسیم کررہی تھی۔ ’’چھ لوگ اور اپنی اپنی پلیٹیں پیش کرو‘‘۔ اس دفعہ کوئی اٹالین انداز کا کھانا تھا۔ نوڈلز، بروڈ، ساس، سلاد اور ایک ایک سیب۔ یہ چیزیں اس نے ہم سب کی پلیٹوں میں ڈال دیں۔
اس ہال میں ہم کوئی سو قریب لوگ ہوں گے۔ سارے کے سارے لکڑی کی لمبی میزوں پے اپنی اپنی پلیٹیں رکھ کے کھانا کھا رہے تھے۔ ان میزوں کی خوبی یہ تھی کہ یہ بند بھی ہوجاتے تھے۔ میں بڑے شوق سے کھا رہا تھا حالانکہ مجھے اس وقت بالکل بھوک نہیں تھی۔ ابھی میں کھانے میں مصروف تھا ۔ جن لوگوں نے کھانا تقسیم کیا تھا ان میں سے ایک مرد بولا ، ’’تم لوگوں نے آدھے گھنٹے میں کھانا ختم کرنا ہے۔ اس
کے بعد اس جگہ کو صاف کرنا ہے۔ کچھ لوگ کچن میں صٖفائی کا کام کریں گے۔ کچھ برتن دھوئیں گے۔ کچھ ہال کی صفائی کریں گے۔ کچھ باغ کی صفائی کریں گے اور کچھ لوگ ٹائیلٹ صاف کریں گے۔ جب آپ سب لوگ اس کام سے فارغ ہوجائیں گے تو آپ سب کو گارنیگے ستراسے والے ہوٹل گارنیگے ہوٹل منتقل کردیا جائے گا‘‘۔
سب نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا۔ اس کے بعد کچھ لوگ کچن میں چلے گے۔ کچھ باغ میں، کچھ ہال میں، کچھ ٹائیلٹ صاف کرنے چلے گئے۔ میں کچن میں چلا گیا۔ وہاں تین چار عورتیں کام کررہی تھیں۔ میں نے ایک سے کہا ، ’’میں کچن میں تمہاری مدد کراؤں گا۔ انہوں نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر میں اس عورت سے اجازت لے کر برتن دھونے والی مشین میں برتن رکھے اور مشین چلا دی۔ وہ بڑے حیران ہوئے۔ ان میں سے ایک مجھے کہنے لگی، ’’تمہیں برتن دھونے والی مشین استعمال کرنی آتی ہے‘‘۔ میں نے کہا، ’’یہ کون سا مشکل کام ہے۔ پلیٹوں کا گند ، گند کے ڈبے میں پھینکوں۔ اس کے بعد پلیٹیں ترتیب سے مشین میں رکھنی والی ٹریز میں ترتیب سے رکھ دو ۔ا س کے بعد مشین چلا دو۔ میں نے اس مشین میں قریباًتین سو پلیٹیں دھوئیں۔ میں انہیں یہ نہیں بتایا کہ جب میں اٹلی آیا تو میں نے پہلا کام ہی یہی کیا تھا۔ اس کے بعد مجھے مالک نے ویٹر کے کام پے لگا دیا تھا۔ ہم روزانہ ڈھیروں برتن دھوتے۔
جب میں برتن دھو چکا تو ان میں سے ایک عورت نے مجھے ایک سیب دیا۔ کہنے لگی، ’’تم نے بہت کام کیا ہے۔ ایک سیب لے لو۔ تمہیں جب بھی بھوک لگے تو ہم سے آکے مانگ لیا کرو‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا کہ میرے ساتھ اتنی ہمدردی کیوں۔ میں کچن سے باہر آیا اور وہ سیب انگولا کے اس لڑکے کو دے دیا جس نے ا س دن مجھے کافی پلائی تھی۔ جب ہم لوگ سارے کاموں سے فارغ ہوچکے تو انہوں نے ہمیں دس دس کی ٹولی میں گارنیگے ہوٹل منتقل کرنا شروع کردیا۔ اس کا نام گارنیگ ہوٹل نہیں تھا بلکہ شلافن ہائم یعنی سونے کا گھر یا جگہ تھا لیکن چونکہ پہلے یہ ہوٹل تھا اس لیئے اسے سب اسی نام سے پکارتے تھے۔ اب بھی نئے لوگ آرہے تھے۔ روز کوئی نا کوئی آتا۔ جیسے میں ہفتے کی رات یہاں وارد ہوا تھا۔ اب دو دن بیت چکے تھے۔
جب ہمیں واپس ہوٹل لایا گیا تو شام کے ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ اتفاقاً ان دنوں موسم بہت اچھا تھا۔ آسمان صاف تھا۔ یہاں چونکہ فضاء میں آلودگی بالکل نہیں تھی اس لیئے آسمان کچھ زیادہ ہی نیلا دکھائی دے دیتا تھا۔ میں گارنیگے ہوٹل کے ٹیرس میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں ہر جگہ لوگ ہی لوگ تھے۔ ہر جگہ کوئی نا کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ جھروکے، ٹیرس، کوریڈور۔جہاں جس کو جگہ ملی تھی بیٹھا ہوا تھا۔ بچے، جوان، عورتیں مرد، گورے، کالے ہر طرح کے لوگ تھے یہاں پے۔ حتیٰ کہ ایک عورت حاملہ بھی تھی۔ اس کے بچہ ہونے میں ابھی تین ماہ باقی تھی۔ مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ اس حالت میں سفر کیسے کرکے آئی تھی۔ اس ہوٹل کی ہر جگہ پے کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ تولیئے، انڈرویئرز، عورتوں کے بریزیئر،ٹی شرٹس،۔ جس کو جہاں جگہ ملی اس نے اپنے کپڑے دھو کے سوکھنے کے لیئے لٹکائے ہوئے تھے۔ گو کہ اس کی اجازت نہیں تھی لیکن اتنے لوگوں کو قابوں میں کرنا مشکل تھا۔ مختلف زبانیں، مختلف تہذیبیں۔ ہر روز کوئی نا کوئی نیا بندا بلکہ کئی نئے لوگ آتے۔
میں ٹیرس میں بیٹھے بیٹھے ان ساری چیزوں کا مشاہدہ کررہا تھا۔ مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے ایسا لگا جیسے میرا جسم چپک رہا ہو۔ اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ فضاء میں نمی بہت تھی۔ گرمی بھی بہت تھی۔ میں نے سوچا چلو باتھ میں جاکر نہاتا ہوں۔ جب وہاں پہنچا تو باتھ روم اندر سے بند تھا۔ میں اسی ہوٹل کے ایک دوسرے باتھ میں چلا گیا۔ اس کا کوموڈ بند تھا۔ یا یوں کہئے کہ اس کی ڈبلیو سی کا پانی کی نکاسی کا نظام خراب ہوا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے باتھ میں بہت زیادہ بدبو تھی۔ میں نے بدبو کی پرواہ کیئے بغیر موقعے کا فائدہ اٹھایا اور جلدی جلدی صابن لگاکے جسم پے پانی گرایا۔ نہاکر جسم کو تولیئے سے سکھایا اور ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد میں دوبارہ آکے ٹیرس میں بیٹھ گیا۔ میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ اکیلا بیٹھنا پسند کرتا تھا۔
میں تنہا بیٹھا اپنی تنہائی کا مزہ لے رہا تھا۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا۔ اسے نہ جانے کہاں سے پتا چل گیا تھا کہ میں پاکستانی ہوں۔ مجھے آتے ہی پنجابی میں کہنے لگا،’’تہاڈا ناں ٹرانسپورٹ
لسٹ اچ اے ‘‘ (آپ کا نام ٹرانسپورٹ لسٹ ،میں ہے)۔
میں نے کہا، ’’اس اطلاع کے لیئے بہت بہت شکریہ‘‘۔
پھر کہنے لگا، ’’تمہیں پتا ہے میں پاکستانی ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں مجھے پتا ہے تم پاکستانی ہو‘‘۔
’’تو پھر تم ہر وقت افریقی لڑکوں کے ساتھ کیوں بیٹھے رہتے ہو‘‘۔
’’کیوں کہ مجھے پسند ہے‘‘۔
’’تمہارا کیا مسئلہ ہے۔ تم نے کن بنیادوں پر سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ تم سوئٹزرلینڈ کیوں آئے ہو‘‘؟
اس نے ایک جملے میں مجھ سے کئی سوال ایک ساتھ کرڈالے۔یہی ایک وجہ ہے کہ میں ایشین لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتا۔ وہ پہلی ملاقات میں ہی بہت سے ذاتی سوال کردیتے ہیں۔حالانکہ یہ تہذیب کے خلاف ہے اور اخلاقی نقطہ ء نگاہ سے بھی یہ بری بات ہے۔
میں نے اسے جواب دیا، ’’میں گے ہوں۔ ہم جنس پرست ہوں۔ تمہیں پتا ہے پاکستان اسلامی ملک ہے ۔وہاں پے اس کام کی اجازت نہیں۔ میرے باپ کو بھی نہیں پسند تھا۔ اس لیئے میں یہاں آگیا ہوں‘‘۔
وہ میرے اس طنز و مزاح بھرے جملے کو نہ سمجھ سکا۔ اس نے پھر سوال کرڈالا، ’’تمہارے اور بھی بہن بھائی ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں تھے لیکن وہ سار ے رو ڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے۔ صرف میں بچا ہوں‘‘۔
اس لڑکے کو میرے دونوں جواب پسند نہ آئے اور وہ چلا گیا۔ میں دل ہی دل میں سوچنے لگا اچھا ہوا جلدی جان چھوٹ گئی۔
سیکیورٹی گارڈ کی گرج دار آواز سنائی دی، ’’سب لوگ یہاں سے اٹھو۔ تم سب مل کے ٹیرس ،کچن، ہال، ٹائیلٹ اور ڈائننگ ہال صاف کرو۔ میں اور ایک لڑکا مل کے ٹیرس صاف کرنے لگے۔ میں نے ٹیرس میں رکھی ساری پلاسٹک کی کرسیاں اکھٹی کیں اور ایک کونے میں رکھ دیں۔
اس کے بعد یہاں پڑے ہوئے سگرٹوں کے ادھ جلے ٹکڑے، ان کے فلٹرز ، خالی پلاسٹک کی بوتلیں، پلاسٹک ریپرز اکھٹے کیئے۔ ہم دونون نے مل کے ٹیرس کو بہت اچھی طرح صاف کردیا۔ سیکیورٹی گارڈ مجھے کام کرتے ہوئے بڑے غورسے دیکھ رہا تھا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’تم کام بڑے اچھے طریقے سے کرتے ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کام تھوڑی کرتا ہوں۔ میں تو وقت گزارتا ہوں۔ یہاں پے کچھ بھی کرنے کو نہیں ہوتا۔ نہ کوئی کتاب، نہ کاغذ نہ قلم ۔وقت کو گزارنے کا اس اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ آپ کسی نا کسی کام میں خود کو مصروف رکھیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’تمہارا فلسفہ مجھے پسند آیا ہے۔ یہاں پے کئی مہاجر آتے ہیں وہ کام کرنا پسند نہیں کرتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہر شخص زندگی کو اپنے انداز سے دیکھتا ہے‘‘۔
وہ بڑا حیران ہوا،کہنے لگا، ’’تم کہاں کے رہنے والے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’پاکستان‘‘۔
اس نے مسکرا کے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا، ’’مشرف کا کیا حال ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہی ہوگا‘‘�آ’’تم پاکستان کس جگہ کے ہو‘‘
’’میں راولپنڈی کا ہوں ‘‘۔
’’یہ تو اسلام آباد کے پاس ہے‘‘۔
’’تمہیں کیسے پتا ہے‘‘
’’الیکٹرونک میڈیاء نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ ویسے بھی میرا جغرافیہ اتنا کمزور نہیں‘‘۔
میں آج فٹبال میچز نہ دیکھ سکا۔ میں نے متجسس انداز میں پوچھا، ’’آج فٹبال کا کیا ہوا‘‘
تو کہنے لگا، ’’امریکہ نے میکسیکو کو دو گول سے ہرا دیا ہے اور دوسرے میچ میں برازیل نے بیلجیئم کو دو گول سے ہرا دیا ہے۔تمہیں فٹبال سے کیسے لگاؤ ہے تمہارے ملک میں تو کرکٹ کھیلی جاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے تو مجھے نہ کرکٹ سے لگاؤ ہے اور نہ ہی فٹبال سے لیکن جب فٹبال کا ورلڈ کب ہوتا ہے تو جیسے ساری دنیا اس کو شوق سے دیکھتی ہے اس طرح میں بھی دیکھنے کی حد تک لگاؤ رکھتا ہوں لیکن سارے میچز کبھی نہیں دیکھے۔ اس دفعہ خلافِ توقع سینیگال کی ٹیم کواٹر فائینل میں آئی ہے تو ذرا زیادہ ہی دلچسپی لینے لگا ہوں‘‘۔
اس نے پرجوش انداز میں کہا، ’’اصل میچز تو کل ہیں۔ ساؤتھ کوریا اور اٹلی کا میچ ہے پھر ترکی اور جاپان کا‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’تم کیا چاہتے ہوں کل کون سی ٹیمیں جیتیں‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’پہلا میچ تو اٹلی کو جیتنا چاہیئے اور دو سرا کوئی بھی جیت جائے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’اٹلی کیوں ؟ساؤتھ کوریا کیوں نہیں‘‘؟
تو کہنے لگا،’’کیونکہ میرے ماں باپ اٹالین ہیں۔ میں سوس شہری ہوں لیکن میری روح اٹالین ہے‘‘
میں نے کہا، ’’تم کہاں کے ہو، میرا مطلب ہے تمہارے ماں باپ اٹلی کے کون سے علاقے سے آئے ہیں‘‘۔
اس نے متجسس ہوکر پوچھا، ’’تم اٹلی کے بارے میں جانتے ہوں‘‘۔
میں نے جواب میں اسے وہی کہا جو اس نے مجھے کہا تھا، ’’تم تو جانتے ہوں الکیٹرانک میڈیا ء کو‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’ہاں ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ ویسے میرے ماں باپ سسلی کے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’سسلی تو جزیرہ ہے۔ وہاں کس شہر کے ہیں‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’کتانیاں (catania)کے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے کل اگر اٹلی جیت جائے تو تمہیں خوشی ہوگی لیکن جاپان سے ترکی جیت جائے تو مجھے خوشی ہوگی‘‘َ
’’وہ کس لیئے‘‘۔
’’اس لیئے کہ ان کی ٹیم بہت اچھی ہے‘‘
’’یوں کیوں نہیں کہتے ، اسلامی ملک ہے‘‘
میں نے کہا، ’’کہہ سکتے ہیں۔ سینیگال کے بعد ترکی دوسرا مسلمان ملک ہوگا جو کواٹر فائینل میں آئے گا‘‘۔
ہم دونوں میں ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور سیکیورٹی گارڈ آیا اور اس نے کہا، ’’ہال کو خالی کردو کیونکہ یہاں بیٹھنے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
اس گارڈ کی بات پے عمل کرتے ہوئے میں اور دوسرے لوگوں نے ہال ،ٹی لاؤنج، ٹیرس خالی کردیا اور اپنے کمروں کی راہ لی۔میں نے جاتے جاتے اسے کہا، ’’کل میں امید کرتا ہوں کہ اٹلی اور ترکی جیت جائیں‘‘۔
اس نے جواب دیا، ’’ترکی کا تو مجھے پتا نہیں لیکن اٹلی ضرور جیت جائے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’جیسا تم سوچتے ہو ویسا ہی ہو لیکن فٹبال میچز میں کئی دفعہ عجیب و غریب واقعات بھی پیش آجاتے ہیں‘‘۔
اس نے اٹالین میں کہا، ’’ویدآموں vediamo یعنی دیکھتے ہیں‘‘
میں نے جواب میں کہا، ’’چاؤ، چس ‘‘۔ ان دو دنوں میں میں نے یہ دو نئے لفظ سیکھے تھے۔
اس کو یہ کہہ کر میں اسی راستے سے گھوم کر جو تہ خانے سے اوپر کو آتا تھا، سیڑھیاں طے کرتا ہوا تیسری منزل پے پہنچا۔ راستے میں اب بھی لوگ بیٹھے تھے۔ میں اپنے کمرے میں آیا ۔انتہائی خاموشی لوہے کی چھوٹی سی سیڑھی سے چڑھ کے دوسری منزل پے اپنے بستر پے آگیا۔ لیٹتے ہی سوچنے لگا۔ میں نے کتنی پر آسائش زندگی گزاری ہے۔ مجھے سوس آئے ہوئے ابھی دو دن ہوئے ہیں اور میری دنیا ہی بدل گئی ہے۔ میں یہاں آکے مہاجر کیمپ کے ٹائیلٹ بھی صاف کرچکا ہوں۔ یہاں اس ہوٹل کا ٹیرس بھی صاف کرچکا ہوں۔ کل برتن بھی دھوئے۔ مجھے اپنے دادا کی یاد بڑی شدت سے ستانے لگی۔ وہ کہتے تھے۔ تین چیزیں انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہیں۔ کتاب، سفر اور عورت۔ یہ تینوں چیزیں میر ی زندگی میں آچکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

















۶

Friday, June 17, 2011

pase ayena 4th chapter

4th chapter

منگل کے دن ہمیں یہی امید تھی کہ آج ثقلین نہیں آئے گا۔ آج نیائش کا کچھ پکانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا پکائیں۔ نیائش کے موبائیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ نیائش کہنے لگا،’’یار اگر کہیں سے کھانا آجائے تو مزہ ہی آجائے‘‘۔
میں نے کہا ،’’نیائش بھائی اس میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ میں ڈونر کباب لے آتا ہوں۔ آپ کو پتا ہے پیاتسا سانت اگوستینوں (
piazza sant agostino)میں کسی پاکستانی نے ڈونر کباب شروع کیا ہے‘‘۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن پیاتسا سانت اگوستینوںیہاں سے کافی دور ہے۔ تمہارے پاس ابھی لائسنس بھی نہیں۔ میں بہت تھکا ہوا ورنہ میں چلا جاتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’فون تو سنو کس کاہے‘‘۔
نیائش نے فون اٹھایا اورفون پے ہاتھ رکھ کے کہا، ’’تمہارے دوست ثقلین کا ہے‘‘۔
پھر نیائش ،ثقلین جسے سارے پری پیکر کہتے ہیں، سے مخاطب ہوا، ’’ہاں بھئی پری پیکر کیا بات ہے‘‘۔
فرشتہ کو نہ پتا چلا کہ ثقلین نے کیا کہا۔
نیائش کی آواز آئی، ’’ماڑا دیر کس بات کی ہے ۔ نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘۔
یہ کہہ کر نیائش نے فون بند کردیا۔
پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’آج میں خدا سے کچھ اور بھی مانگتا تو مل جایا۔ ثقلین آرہا ہے ۔وہ یہ پوچھ رہا تھا کہ کچھ پکایا تو نہیں کیونکہ وہ ڈونر کباب لے کر آرہا ہے۔ اس وقت وہ پیاتسا سانت اگوستینو ں کھڑا ہے‘‘۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ وہ اگر نہ آتا تو میں جاکر لے آتا‘‘۔
’’ماڑا وہ میز پے میونیز، کیچ اپ اور بڑی بوتل سیون اپ کی رکھو‘‘۔
ہم لوگوں نے کھانے کے لیئے میز بالکل تیار کردیا۔ ٹھیک پندرہ منٹ میں ثقلین ہمارے گھر پے موجود تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لیا۔ اس میں سے سلور فوئیل میں لپٹے ہوئے ڈونر کباب نکالے۔ جب میں نے ڈونر گنے دو تو چار تھے۔ میں نے پوچھا، ’’ثقلین صاحب یہ چار کیوں ہیں۔ ہم لوگ تو تین ہیں‘‘۔
تو ثقلین کہنے لگا، ’’مجھے کھانے پینے چیزیں کم اچھی نہیں لگتیں۔ کسی ایک نے بھی پیٹ بھر کے نہ کھایا تو ایک دوسری کی طرف دیکھتا رہے گا‘‘۔
’’آپ کا مشاہدہ بڑا تیز ہے‘‘۔
’’میرا مشاہدہ کیا خاک تیز ہے۔ مشاہدہ تو آپ کا ہے۔ میں نے پاکستان میں کئی سال صحافت میں برباد کیئے ہیں۔ خود کو بڑی توپ چیز سمجھتا تھا لیکن آپ نے تو مجھے حیران کر دیا ہے‘‘۔
دور سے نیائش بولا ، ’’’ماڑا ایک دوسرے کے تعریف بعد میں کرنا مجھے بڑی بھوک لگی ہوئی ہے‘‘۔
یہ سننا تھا کہ ہم سب نے کھانا شروع کیا۔ کھانے کے دوران مختلف موضوعات پے باتیں ہوتی رہیں۔ جب کھانا کھا کے فارغ ہوچکے تو میں نے نیائش اور ثقلین سے پوچھا تم لوگ چائے پیؤ گے۔ ثقلین نے
ہمیشہ کی طرح کہا، ’’آپ کو تو پتا ہے فرشتہ صاحب میں چائے نہیں پیتا‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’لیکن میں پیؤ ں گا‘‘۔
میں چائے بنانے لگا۔ تو ثقلین نے کہا، ’’فرشتہ صاحب آپ کے پاس چوتھا باب ہے‘‘۔
میں کہا، ’’ہاں ہے۔ پہلے والا پڑھ لیا کیا‘‘۔
’’آپ کا کیا خیال ہے میں ایسے ہی یہاں آیا ہوں۔ میرا تجسس مجھے یہاں کھینچ کرلایا ہے‘‘۔
نیائش کہنے لگا، ’’ماڑا ، یہ تم نے کیا لکھا ہے کہ پری پیکر کی راتوں کی نیند حرام کردی ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی آپ راتوں کی نیند کی بات کرتے ہیں ۔میں کام کے دوران سوچتا رہتاہوں کہ کب چھٹی ہو ۔ گھر پہنچوں اور آپ کے ہاں آؤں اور اگلا باب لے کر جاؤں‘‘۔
نیائش مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ماڑا سارا کا سارا ایک ہی دفعہ دے دو۔ جو بھی تم نے لکھا ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی، کوئی بھی کام ایک دم نہیں کرنا چاہیئے۔ نشے کا عادی بھی آہستہ آہستہ کیا جاتاہے‘‘۔
’’یہ بات تو درست ہے‘‘۔
ثقلین اصولوں کا بہت پابند تھا۔ وہ جس طرح چیز لے کر جاتا اسی طرح واپس لاتا۔ میں لکھتے ہوئے ہر صفحے کے اوپر نمبر بھی لکھتا اور باب کا عنوان بھی۔ اس طرح صفحے آپس میں گڈ مڈ نہ ہوتے۔ ثقلین اس چیز کا بہت خیال رکھتا۔ میں نے چائے پیالیوں میں ڈال کے میز پے رکھی اور ثقلین نے ہمارا ساتھ دینے کے لیئے تھوڑی سی کو ک گلاس میں ڈال لی۔ میں ان دونوں کو چھوڑ کے کمرے میں گیا اور چوتھا باب اٹھا لایا۔ ثقلین نے مجھے تیسرا باب دیا اور چوتھا باب ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہنے لگا، ’’فرشتہ صاحب میرا خیال اس کو کتابی شکل دینی چاہیئے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس کو چھاپے گا کون، پڑھے گا کون‘‘
ثقلین نے کہا، ’’یہ آپ مجھ پے چھوڑ دیں۔ ویسے کتنے باب ہیں اس کے ‘‘؟
میں نے کہا، ’’تھوڑا سا تجسس بھی ہونا چاہیئے‘‘۔
ثقلین نے کہا، ’’جیسے آپ کی مرضی‘‘۔
جب ہم چائیے پی چکے تو نیائش سونے کے لیئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جب نیائش اٹھا تو ثقلین نے بھی اجازت چاہی لیکن میں نے اسے کہا، ’’اگر آپ جلدی نہیں سوتے تو تھوڑی دیر رک جائیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’آپ کہیں اور میں نہ رکوں۔ مجھے ویسے بھی نیند دیر سے آتی ہے۔ جب سے میں نے یہ پڑھنا شروع کیا ہے میرا کام میں بھی دل نہیں لگتا‘‘۔
میں نے پوچھا،’’ثقلین صاحب ،آپ میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں یا واقعی ہی آپ کو پسند آیا ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’اگر پسند نہ آیا ہوتا تو میں اس طرح روز نہ آتا۔ آپ کو پتا ہے اریزو میں کسی کے گھر دو دفعہ جاؤ تو لوگ پی سی او پے جاکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ بندا روز شام کو کھانے کے وقت ہمارے گھر آجاتا ہے۔ میں آپ کا نہیں کہہ رہا کیوں کہ آپ کا جملہ پورے اریزو میں مشہور ہے ،’’ساڈا کی ۔۔۔۔۔۔کھا جانڑاں اے، اپنڑاں نصیب کھاڑاں اے‘‘ اس لیئے میں آپ کے ہاں آجاتا ہوں۔ ویسے بھی نیائش بھائی کی عادت تھوڑی مختلف ہے‘‘۔
میں ثقلین کی اس بات پے بہت ہنسا۔ اس کا مطلب ہے لوگوں پے میرے کہے کا اثر ہوتا ہے۔ میں نے ثقلین سے پوچھا، ’’ویسے ایک بات پوچھوں آپ سے اگر آپ کوبرا نہ لگے تو‘‘۔
’’ہاں ہاں ضرور‘‘۔
’’آپ چائے کیوں نہیں پیتے‘‘۔
فرشتہ صاحب یہ چائے جو ہے یہ صحافیوں کا پٹرول ہوتی ہے۔ میں نے ہر طرح کی چائے پی ہے۔ دفتروں کی چائے، سڑک کنارے ہوٹلوں کی چائے، گھروں چائے۔ پاکستان میں لوگ کھانے کا وقت بھی ہو تو چائے کا پوچھتے ہیں۔ کلرکوں کی چائے، بیوروکریٹس کی چائے، ٹریول ایجنسیوں کی چائے، ادبی تقریبات کی چائے۔ میں نے پاکستان میں اتنی چائے پی ہے کہ مجھے چائے سے نفرت ہوگئی ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اپنے حصے کی چائے پی چکا ہوں‘‘۔
’’لیکن کبھی کبھی پینے میں تو کوئی حرج نہیں‘‘۔
’’یہ سگرٹ کی طرح تھوڑی تھوڑی ہی شروع ہوتی ہے اور نشے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ فرشتہ صاحب اب اگر اجازت دیں تو میں چلوں گا۔ میں رات سونے سے پہلے چوتھا باب پڑھوں گا‘‘۔
’’ثقلین صاحب مجھے حیرت ہے کہ آپ کو میرا لکھا ہوا پسند آیا ہے‘‘۔
’’پسند اس لیئے آیا ہے کہ آپ جب باب کا اختتام کرتے ہیں تو تجسس چھوڑ جاتے ہیں ۔ پڑھنے والے کے اندر ایک عجیب کھلبلی مچ جاتی ہے کہ آگے کیا ہوا ہوگا‘‘۔
’’بہت شکریہ‘‘۔
ثقلین نے مجھ سے اجازت لی اور چلا گیا۔
ثقلین جب گھر پہنچا تو سارے لڑکے جہاں وہ رہتا تھا، ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ثقلین نے آہستگی سے آداب وغیرہ کہا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ اس نے ٹیبل لیمپ آن کیا اور خاکی لفافے سے اگلا باب نکال کے پڑھنا شروع کیا۔
جب میں مایوس ہوچکا کہ اندر سے کوئی نہیںآئے گا ۔مجھے رات یہیں ویرانے میں گزارنے پڑی گی۔میں نے سوچا واپس ریلوے سٹیشن پے چلا جائے۔ ایسا عین ممکن ہے کہ پولیس گشت کرنے آئے اور مجھے پکڑ کے لے جائے۔میں اس بات سے ناواقف تھا کہ چھپا ہوا کیمرہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ ابھی میں اسی اْدھیڑ بْن میں تھا کہ کسی نے میرے کے کندھے پے ہاتھ رکھا۔ اس نے جرمن زبان میں مجھے کچھ کہا لیکن میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سمجھایا کہ میں اس کے پیچھے پیچھے چلوں۔ چلتے چلتے وہ مجھے ونہی لے آیا جہاں سے میں گزر کے آیا تھا۔ وہی بیرک نماں جگہ جو مجھے ریڈ کراس کا کوئی دفتر یا فوجیوں کی بیرک لگتی تھی۔ جس کے سامنے وہ گندا بدبودار نالہ بہہ رہا تھا۔ جس کی بو کے بھبھوکے میرے ناک کے نتھنوں کے اندر سے گزر کے میرے دماغ کو مجروح کررہے تھے۔
میں اس کے پیچھے پیچھے چلا رہا تھا ۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے سفید رنگ سے سیکیوریتاس(
securitas) لکھا ہوا تھا۔ اس کا قد لمبا تھا اور رنگ گورا۔ اس نے پیچھے جس چیز سے سیکویریتاس لکھا تھا وہ اندھیری میں چمک رہی تھی۔اس آدمی کے پاس تما م ضروری لوازمات تھے۔ اس کے بیلٹ کے ساتھ ہتھ کڑی کی جوڑی بندھی ہوئی تھی۔ ایک طرف لکڑی کا یا شاید لوہے کا چھوٹا سا ڈنڈا چمڑے کے کور میں پڑا ہوا تھا۔ ایک طرف پستول لگی ہوئی تھی۔ اس طرف چابیوں کا گْچھا لٹک رہا تھا۔ اس کی بیلٹ پے ایک طرف وائرلیس ڈیوائس لگی ہوئی تھی۔ جس پے مختلف قسم کے پیغامات جاری ہورہے تھے۔ ایک جگہ پہنچ کے وہ آدمی رکا تو میں بھی رک گیا۔ اس نے لوہے کا گیٹ کھولا۔ میں اس گیٹ کے پاس سے گزر کے گیا تھا لیکن مجھے پتا ہی نہ چلا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ جیسے ہی ہم اس گیٹ سے اندر داخل ہوئے اس نے گیٹ کو تالا لگا دیا۔ مجھے ایسا لگنے لگا جیسے مجھے کسی نے جیل میں بند کردیا۔ مجھے ایک چیز دیکھ کے بڑی حیرت ہوئی ا س نے جب گیٹ کھولنے کے لیئے چابی استعمال کی تو اس کے ساتھ ایک لوہے کی زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ اس نے چابی زنجیر سے علیحدہ کیئے بغر تالا کھولا تھا اور واپس چابی ونہی رکھ لی تھی جہاں سے نکالی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس کی اس بات پے بہت ہنسا۔
اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا، ’’تم کون سی زبان بولتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’انگریزی اور فرنچ‘‘۔
’’میرا مطلب ہے تم کس ملک کے رہنے والے ہو‘‘؟
’’میں پاکستان کا رہنے والا ہوں‘‘۔
’’تم لوگ کون سی زبان بولتے ہو، عربی‘‘
’’نہیں ہم اردو بولتے ہیں‘‘
اس سیکیورٹی گارڈ نے مالٹایا شاید لال رنگ تھا کا کاغذ اٹھایا اور ایک سفید۔ یہ دونوں کاغذ مجھے دیئے اور کہنے لگا ان کو پْر کر کے مجھے دے دو۔ پھر اس کے دماغ نہ جانے کیا آیا اس نے مجھ سے کہا، ’’چھوڑو، تم یہ فارمز صبح پْر کرلینا۔ میں تمہیں تمہارے سونے کی جگہ بتاتا ہوں‘‘۔
اس سکیورٹی گارڈ نے ایک اور دروازہ کھولا اور کہا اس کمرے میں چلے جاؤ۔ میں نے بالکل ویسے ہی کیا جیسے اس نے کہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد سیکویرٹی گارڈ میرے لیئے دو کمبل، ایک سفید چادر اور ایک تکیہ لے آیا۔ یہ چیزیں میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہنا لگا، ’’اس کمرے سے ملحق غسل خانہ ہے۔ اس میں پلاسٹک کے گلاس پڑے ہوئے ہیں۔ اگر تمہیں رات کو پیاس لگے تو وہ پانی پی سکتے ہو۔ وہ پانی پینے لائق ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ باہر سے بند کردیا، بلکہ لاک کردیا اور وہ اپنے کیبن میں چلا گیا۔
اب میں اس کمرے میں بالکل اکیلا تھا۔ یہ کمرہ تو نہیں تھا۔ جہاں سے میں داخل ہوا تھا وہاں لکڑی اور شیشے کے استعمال سے ایک دیوار سی بنائی گئی تھی اور اس کے ساتھ دروازہ بنا ہوا تھا جس کو وہ لاک کرگیا تھا۔ پچھلے دیوار پے چار بڑی بڑی کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں۔ تین کھڑکیاں بند تھیں یا یوں کہنا چاہیئے کہ لاک تھیں۔ ایک کھڑکی تھوڑی سی کھلی ہوئی تھی۔ جس سے ہلکی ہلکی ہوا آرہی تھی۔ ایک طرف سیمنٹ کی پکی دیوار تھی۔ ایک دیوار پیچھے کی طرف تھی۔ جس میں ایک دروازہ تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔ یہ واش روم تھا۔ اس میں ایک طرف پاخانہ کرنے کے لیئے ڈبلیو سی لگی ہوئی تھی اور ایک طرف دیوار کے ساتھ واش بیسن تھا۔ اس کے پاس ہی چند پلاسٹک کے گلاس پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک میں نے اٹھایا اور واش بیسن کی ٹوٹی کھول کے میں نے گلاس میں پانی ڈالا۔ پینے کو دل تو نہیں چارہا تھا کیوں جب سے میں اریزو آیا تھا یہاں سب لوگ منرل واٹر پیتے تھے کیونکہ کمونے دی اریزو سے باقاعدہ گھر گھر پیغام بھیجا تھا کہ اریزو میں گھروں کے استعمال کا پانی پینے لائق نہیں اس لیئے سب لوگ منرل واٹر پیتے
تھے۔ میں نے باتھ کی ٹوٹی کا پانی پیا کیونکہ میرے پاس دوسرا راستہ نہیں تھا۔ میں نے گلاس میں دو تین دفعہ پانی ڈال کر پیاء۔ اس کے بعد میں باتھ سے باہر آگیا۔ جس کمرے میں وہ آدمی مجھے چھوڑ کے گیا تھا اس میں دو مستطیل میز پڑے ہوئے۔ میں نے ایک کمبل ان مستطیل میزوں کے پیچھے زمین پے بچھایا اور اس کے اوپر سفید چادر بچھا دی۔ سر کے نیچے تکیہ رکھا اور لیٹ گیا۔ دوسرا کمبل میں نے سوچا اوپر اوڑ ھ لوں گا لیکن اس چھوٹے سے کمرے میں کافی گرمی تھی۔ گو کہ ان علاقوں میں جون کے مہینے میں بھی اتنی گرمی نہیں ہوتی لیکن
۲۰۰۲ میں کچھ زیادہ ہی گرمی پڑی تھی اور اس کا اثر جہاں پوری دنیا پر پڑا وہاں کرائس لنگن پر پڑا۔ گرمی کی وجہ سے سے فضاء میں عجیب سی چپکن تھی۔ میں نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن نیند تھی کہ کوسوں دور۔ اس کادور دور تک کوئی نشان ہی نہیں تھا۔ حالانکہ میں جتنا تھکا ہوا تھا مجھے ایک دم نیند آجانی چاہیئے تھی۔ میری نظر وال کلاک پے پڑی جو باہر برآمدے میں ٹیلی فون بوکس کے اوپر لگا ہوا تھا۔ اس پر صبح کے دو بج رہے تھے۔ میں نے دوبارہ اپنے بستر پے کروٹ بدلی جو میں نے چند لمحے پہلے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا۔ میں اپنے دماغ کے نہاں خانوں میں ماضی میں گزری ہوئی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ میرے دماغ کے اندر بھی کمپیوٹر کی فائیلوں کی طرح، ہاٹ میل کے ان بوکس کی طرح مختلف فائلیں تھیں۔ جنھیں میں کھول کھول کے دیکھنے لگا۔ میں اس کے بعد سوچنے لگا کہ میں نے زندگی میں کیا کیا، کیا کررہا ہوں ہوں اور آنے والے کل میں میرے ساتھ کیا ہوگا۔
اچانک میں نے کچھ شور سنا۔ ایسا سنائی دے رہا تھا جیسے کوئی وینیٹین بلائنڈ یعنی یورپیئن چکیں اٹھا رہا ہے۔ جیسے ہی بلائنڈز اوپر اٹھی میں نے کیا دیکھا باہر روشنی تھی۔ اس کا مطلب ہے صبح ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب ہے جب میں اپنے دماغ کے ان بوکس میں اپنی زندگی کی فائلین دیکھ رہا تھا اس دوران میری آنکھ لگ گئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ دیر سویا ہوں۔
صبح کے وقت کسی اور نے میرے کمرے کا تالا کھولا اور اس کے بعد دروازہ۔ اس شخص نے بھی وہی یونیفار م پہنا ہوا تھا جیسا رات والے شخص نے پہنا ہوا تھا۔ اس نے مجھے ناشتہ بھی دیا اور وہی کاغذ جو مجھے رات کو دیا گیاتھا وہ مجھے دوبارہ دیا ۔ ناشتہ میں چھوٹی سی ٹکیہ جیم کی تھی، چھوٹی سی ٹکیہ مکھن کی تھی، دو سوس بریڈ کے سلائس تھے۔جسے سوس لوگ بروڈ کہتے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی وہ مجھے دے کر گیا تھا نہ ہونے سے بہتر تھا۔ میں صبح صبح عجیب سا محسوس کررہا تھا کیونکہ میرے منہ کا ذائقہ بہت خرا ب ہورہا تھا۔ میں نے کافی دیر سے دانت صاف نہیں کیئے تھے۔ میں نے بنا دانت صاف کیئے ہی جو کچھ تھا ناشتہ سمجھ کے زہر مار کیا۔ اس کے بعد میں نے وہ فارم جو کہ اردو میں تھا، پر کرکے اس آدمی کو دیا۔ جب میں ان کاموں سے فارغ ہوگیا تو میں دوبارہ جاکے اپنے اسی بستر پے لیٹ گیا جو میں نے خود تیار کیا تھا۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کب میری آنکھ لگی۔ کیونکہ جب دوبارہ میری آنکھ کھلی تو کوئی زور زور سے چلا رہا تھا ’’کھانا کھا لو، کھانا کھا لو‘‘۔ یہ کسی عورت کی آواز تھی۔ میں آنکھیں ملتا ملتا اٹھا۔ اس عورت کا انگریزی بولنے کا انداز بہت عجیب تھا۔ جب میں اٹھ کے بیٹھا تو وہ پھر چلائی، ’’یہ تمہارا دوپہر کا کھانا ہے۔ مجھے اور بھی کام ہے جلدی کرو‘‘۔
آج اتوار کا دن تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
۱۶ جون ۲۰۰۲ کی صبح اس دن سویڈن اور سینیگال کامیچ تھااور سپین اور آئرلینڈ کے درمیان میچ تھا۔ مجھے وقت کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے سامنے گھڑی دیکھی جو ٹیلی فون بوتھ کے اوپر لگی ہوئی تھی۔ اس پے دن کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ آج چونکہ اتوار تھا اس لیئے نہ میرے فنگر پرنٹ لیئے جاسکتے تھے۔ نہ ہی میرا انٹرویر ہوسکتا تھا نہ ہی میرا
میڈیکل ہوسکتا تھا۔جب میں کھانے کھا کے فارغ ہوچکا تو جو کہ پاستے کی ایک پلیٹ اور ساتھ وہی سوس روٹی یعنی بروڈ تھی تو سوچنے لگا کہ اب کیا ہوگا۔ اس دوران کسی نے دروازہ کھولا ، یہ وہی شخص تھا جس نے مجھے فارم پْر کرنے کے لیئے دیا تھا۔ کہنے لگا، ’’تم باہر جاسکتے ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم لوہے کے جنگلے سے باہر جاسکتے ہو۔ وہ جگہ جہاں سے تم داخل ہوئے تھے وہاں جو کھلی جگہ ہے وہاں جاسکتے ہو‘‘۔ میری لیئے اتنا ہی بہت تھا۔ میں دو سیڑھیاں اتر کے اس جگہ آگیا جہاں سے میں داخل ہوا تھا۔ یہاں ایک چھوٹی سی صحن نماں جگہ تھی۔ فرش لال اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ یہ اینٹیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ایک بِیل تھی اور اس کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا۔ درخت بالکل ساتھ ایک دیوار تھی۔ یہ دیوار لکڑی کے تختوں کی بنی ہوئی تھی۔ میں وہاں جاکے بیٹھ گیا۔ میں نے سر اٹھا کے دیکھا نیلا آسمان اور اس پے کہیں کہیں سفید بادل روئی کے گالوں کی طرح ہوا کے دوش پے رواں دواں تھے۔ کبھی کبھی یہ بادل مختلف اشکال میں تبدیل ہوجاتے۔ اچانک کسی نے لوہے کے دروازے کو زور زور سے پیٹا ۔ وہ سیکیورٹی گارڈ اپنے کیبن سے نکلا اور اس نے لوہے کا گیٹ کھولا۔ دو لڑکے اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ وہ سیکیورٹی گارڈ تو اندر چلا گیا کیونکہ یہ دونوں لڑکے انگریزی زبان سے ناواقف تھے۔ وہ شاید کسی ایسے بندے کی تلاش میں گیا تھا جو ان کی زبان سمجھ سکتا ہو۔ پھر وہ واپس آیا اور مجھ سے انگریزی میں کہنے لگا تم ان کی زبان سمجھتے ہو۔ میں نے کہا نہیں۔ وہ پھر چلا گیا۔ مجھے سمجھ نہ آئی ماجرا کیا ہے۔
میں نے ان میں سے ایک سے انگریزی میں پوچھا، ’’تم کہاں کے ہو‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’میں فلسطینی ہوں‘‘۔ میں اسے غور سے دیکھنے لگا۔ میں نے ساری زندگی فلسطینیوں کی کہانیاں سنی تھیں۔ ان کو ٹی وی پے دیکھا تھا ۔ میں نے یہ بھی سنا تھا فلسطینیوں کے لیڈر یاسر عرفات نے اپنی ساری زندگی فلسطینیوں کی آزادی کے لیئے صرف کردی۔
اس نے مجھے سے پوچھا، ’’تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’پاکستان‘‘۔
اس نے میرا نام پوچھا ۔ جب میں اسے اپنا نام بتا چکا تو میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’ہابیل بن آدم‘‘
پھر میں نے اس پوچھا، ’تمہارا دوست بات چیت نہیں کرتا‘‘۔
تو اس نے جواب دیا، ’’یہ انگریزی نہیں جانتا۔ اس کا نام عبداللہ بن خطیب ہے۔ اور ہاں ایک اور بات ان لوگوں کو نہ بتانا کہ مجھے انگریزی آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم بالکل فکر نہ کرو‘‘
میں جس جگہ بیٹھا تھا یہ ساری عمارت لکڑی اور سیمنٹ کے بلاکس سے بنی ہوئی تھی۔ لوگ آجارہے تھے۔ تھوڑی دیر میں مجھے کسی کی آواز سنائی دی۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو سکیورٹی گارڈ نے مجھے اشارہ کیا کہ تمہیں اندر بلایا گیا ہے۔ میں اٹھ کے اندر آگیا ۔ ایک طرف تووہ دیوار تھی جہاں ٹیلی فون بوتھ کے اوپر گھڑی لگی ہوئی تھی۔ ایک طرف کمرہ تھا جہاں میں رات کو سویا تھا اور ایک طرف سیکیورٹی گارڈ کا کمرہ تھا۔ میں سیکیورٹی گارڈ کے کمرے کے سامنے جا کے کھڑا ہوگیا۔ اس سکیورٹی گارڈ نے مجھے اشارہ کیا کہ اس کمرے میں چلے جاؤں۔ جس کمرے میں میں رات کو سویا تھا اس کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا کمرہ تھا۔ میں اس کے اندر چلا گیا۔ چند لمحوں میں اس کمرے میں ایک موٹا تازہ آدمی داخل ہوا۔ اس نے بھی سیکیورٹی گارڈ جیسی وردی پہنی ہوئی تھی ۔اس کے یونیفارم پے بھی سیکیوریتاس لکھا ہوا تھا۔ یہ شخص موٹا بھی تھا اور اس کا چہرہ بھی لال سرخ تھا۔ اس نے چہرے پے فرنچ کٹ انداز کی داڑھی سجا رکھی تھی ۔ اس کے لال اور گول چہرے پے فرنچ کٹ داڑھی عجیب سی لگ رہی تھی۔ جس کمرے میں ہم دونوں کھڑے تھے وہاں بمشکل دو بندے کھڑے ہوسکتے تھے۔ اس نے بہت برے انداز میں میری تلاشی لینی شروع کی۔ پھر اس نے کہا سارے کپڑے اتار دو۔ میں نے پہلے جوتے اتارے۔ یہ اچھا ہوا کہ میں نے موزے نہیں پہنے ہوئے تھے ورنہ جتنی دیر سے میں نے جوتے پہنے ہوئے تھے اتنی دیر تک میں موزے پہنے رکھتا تو یہ سیکیورٹی گارڈ بے ہوش ہوجاتا۔ جوتے اتارنے کے بعد میں نے جینز اتاری، پھر ٹی شرٹ بھی اتار دی۔ میرا وزن گزشتہ کئی سال سے پینسٹھ اور ستر کلو کے درمیان تھا۔ میرا نظامِ ہضم بھی کچھ اس طرح کا تھا کہ میرے جسم پپے چربی ٹکتی ہی نہ تھی۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ میرا میٹابولزم ہی اس طرح کا تھا۔ میں
یہی سوچ رہا تھا کہ اب یہ مجھے کہے گا کہ انڈر ویئر بھی اتار دو۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس نے ہاتھوں پے پلاسٹک کے دستانے پہنے جو بالکل ایسے تھے جیسے غبارے ہوتے ہیں۔دستانے پہنے کے بعد اس نے میرے پورے جسم پے ہاتھ پھیرا۔ جب اس کی تسلی ہوگئی۔ تو اس نے میری جینز کی تمام جیبیں اچھی طرح ٹٹول کر دیکھیں۔ پھر اس نے جوتوں کو توڑ موڑ کر دیکھا۔ آخر میں جینز سے بیلٹ نکالی اور اس کو بھی ٹھیک طرح دیکھا۔ میری جینز سے دو سوس فرانک کا جو سکا نکلا اس کو اس نے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے مجھے کہا تم کپڑے پہن لو۔ میں نے اس کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے دوبارہ کپڑے پہن لیئے۔ پھر جوتے بھی۔اس نے میری تلاشی اس طرح لی تھی جیسے میں کوئی بہت بڑا دڑگ ڈیلر ہوں۔ یا میں اپنے جسم کے مخفی حصوں میں کوئی خفیہ نقشہ لیئے گھوم رہا ہوں ۔ آخرکار اس نے مجھ سے کہا، تم اس کمرے سے باہر جا سکتے ہو۔
اس جامہ تلاشی کے بعد مجھے ایک اور جگہ لایا گیا۔ میں اس جیل نماں جگہ سے باہر نکلا۔ میں نے اس جیل نماں عمارت کے صحن سے کھلا آسمان دیکھا تھا لیکن مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں قیدخانے سے نیلا آسمان دیکھ رہا ہوں لیکن اب جس جگہ یہ مجھے لے کر آئے تھے یہاں کھلی فضا تھی۔ موسم اچھا تھا۔ صبح جو موسم میں چپکن تھی اب وہ نہیں تھی۔میری یہ آزادی تھوڑی دیر کی تھی۔ کیونکہ باہر چلتے چلتے مجھے سیکیورٹی گارڈ ایک سیکیورٹی گارڈ کے حوالے کرکے چلا گیا۔ میں سیکیورٹی گارڈ کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوا۔ یہاں انہوں نے میری دوبارہ تلاشی لی۔ اس کے بعد ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہوا۔ یہاں پے بے شمار لوگ تھے۔ عورتیں مرد، بچے، کالے ،گورے، پیلے انسان۔ اس ہال کی چھت کوئی بیس فٹ اونچی ہوگی۔ کمرے کے اندر جابجا لکڑی کے لمبے لمبے بینچ پڑے ہوئے تھے۔ ایک دیوار پے کافی اونچائی پے ٹیلی وژن لگا ہوا تھا۔ سینیگال اور سویڈن کا میچ ہوچکا تھا اور میں نے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھ بھی لیا تھا کہ کون جیتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ سینیگال نے سویڈن کے دو ایک سے ہرا دیا۔ جب میں اس ہال میں داخل ہوا تو اس وقت سب لوگوں کی نظریں ٹی وی پر تھیں کیوں کہ آئرلینڈ اور سپین کا میچ ہورہا تھا۔
میں نے اس ہال کا معائنہ کرنا شروع کیا۔ جہاں سے میں داخل ہوا تھا اس کے ساتھ ایک راستہ اندر کو جاتا تھا میں نے اندر جھانک کے دیکھا تو یہ باتھ رومز تھے۔ اس کے ساتھ بہت بڑا کچن تھا۔ ہال کے دونوں اطراف پے سکوں سے چلنے والی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ جن میں ڈرنکس اور سنیکس تھے۔ میرے پاس دو سوس فرانک تھے جو سیکیورٹی گارڈ نے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کے نہ جانے کہا رکھ دیئے تھے۔ ہال کے چاروں طرف کھڑکیاں تھیں۔ کچھ کھلی ہوئی تھیں اور کچھ بند۔ کھڑکیاں بہت بڑی اور اونچی تھیں ۔ یورپیئن لوگ انہیں فرنچ ونڈوز کہتے ہیں۔ یعنی فرانسیسی انداز کی کھڑکیاں۔ چھت پے چار پنکھے لگے ہوئے تھے ۔ جن کی آواز سے سے ہال کا ماحول عجیب سا ہوگیا تھا۔ میرے پاس ایک لڑکا کھڑا تھا۔ وہ مجھے غور غور سے دیکھ رہا تھا کہ میں کیا کررہا ہوں۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کہاں کے ہو ۔ تو میں نے جواب دیا پاکستان کا رہنے والا ہوں۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے
ہو ۔ تو اس نے جواب دیا انگلولہ۔ یہ ابتداء تھی۔ میں نے تھوڑی دیر کے لیئے دیوار پے لگے ہوئے ٹی وی پے فٹبال میچ دیکھا ۔ یہ ناک آوٹ راونڈ تھا اس لیئے مجھے اس میچ میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اس لیئے میں دروازے کی طرف چل دیا جو سامنے چھوٹے سے باغ میں جا کے کھلتا تھا۔ میں اس دروازے سے گزر کے باغ میں داخل ہوا۔ باغ کیا تھا چھوٹا سا پنجرہ تھا۔ یعنی زمین پے سبزہ تھا لیکن جڑی بوٹیاں ٹنڈ منڈ تھیں۔ اس جھاڑ پھونس والی جگہ جسے انہوں نے باغ کا نام دیا تھا کے ارد گرد مضبوط جنگلہ لگا ہوا تھا لیکن اس جالی دار جنگلے سے باہر نظر آتا تھا۔ یہاں کھلا آسمان بھی نظر آرہا تھا۔ اس جنگلے کے باہر وہی گندا نالہ بہہ رہا تھا جس کے تعفن اور بدبو سے میری دماغ کے اندر ہلچل مچ گئی تھی۔ اس گندے نالے میں پانی بہتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس میں بیشمار پلاسٹک کے لفافے، خالی بوتلیں اور خالی ڈبے تیر رہے تھے۔ یہاں پر بھی کافی لوگ تھے۔ میں نے اپنے لیئے ایک جگہ پسند کی اور بیٹھ گیا۔ یہاں پے ہر برِاعظم کے لوگ تھے۔ ایشیاء،افریقہ، یورپ کے غریب ممالک کے لوگ، روسی وغیرہ۔ یہاں بیٹھے بیٹھے مجھے مائیکل جیکسن کا گانا یاد آگیا۔
we are the world
we are the children
یہاں جس پنجرے میں میں بیٹھا تھا جسے انہوں نے باغ کا نام دیا تھا۔ یہاں دور سڑک پے لگے ہوئے سائن بورڈ نظر آرہے تھے۔ ایک سڑک اوپر کو جارہی تھی اور اس سے بالکل ملحق ایک چھلا نماں سڑک تھی جسے انگریز لوگ رنگ روڈ کہتے ہیں۔ اس کے اوپر جو سائن بورڈ لگے ہوئے تھے ان میں سے ایک پے لکھا ہوا تھا، ’’فرائن فیلڈ، زیور گ وغیرہ۔ ہمارے پنجرے نماں باغ کے بالکل سامنے ریلوے لائن تھی اور کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے سائن بورڈ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ آج روڈ پے ٹریفک کم تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ فٹبال میچ دیکھنے میں مصروف تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہا آج اتوار تھا۔ اس پنجرہ نماں باغ کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ کھڑا تھا جس کا کام ہماری نقل و حرکت پے نظر رکھنا تھا۔
مجھے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ کسی عورت نے اونچی واز میں کہا، ’’رات کے کھانے وقت ہوگیا۔ اس وقت چھ بج رہے تھے ۔میں نے سوچا اتنی جلدی۔ کیونکہ گرمیوں میں سورج دیر سے غروب ہوتا ہے۔ آج
۱۶ جون تھی۔ بائیس جون تک دن مزید بڑے ہونے تھے اور راتیں چھوٹی۔ ویسے
بھی یورپ کے ان علاقوں میں سورج گرمیوں میں آٹھ ساڑھے آٹھ بجے غروب ہوتا ہے اور رات نو دس بجے تک روشنی رہتی ہے۔ خیر ہمیں تو ان کے حکم کی تعمیل کرنی تھی۔ ہم سارے کھانا کھانے کے لیئے میزوں کی طرف بھاگے۔ وہ عورت جس نے ہمیں بلایا تھا زور سے چلائی سارے لائن میں کھڑے ہوجاؤ اور پہلے اپنی اپنی پلیٹ اٹھاؤ، پھر چھری، کانٹا اور چمچ۔ اس کے بعد لائن میں لگ کے اپنی اپنی پلیٹ
آگے کرو۔ میں سب کو برابر کھانا ڈال کے دوں گی ۔ جب ختم کر چکو گے تو دوبارہ ڈال دوں گی۔ ہم سب نے اس کی ہدایت پے عمل کیا۔ ہم سب ایک لائن میں کھڑے ہوگئے۔ وہ پھر چلائی کہ بچے اور عورتیں ایک طرف اور مرد ایک طرف ۔ ہم نے پھر ویسا ہی کیا۔ میں مردوں کی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ میں سب سے آخر میں کھڑا تھا۔یہاں لوگوں کو کھانا تقسیم کرنے والے تین افراد تھے۔ دو عورتیں اور ایک نوجوان لڑکا تھا۔ وہ عورت جو مجھے صبح ناشتے کے لیئے جگانے آئی تھی اور اسکے بعد میرے لیئے دوپہر کا کھانا لائی تھی وہ ان تینوں میں موجود نہیں تھی۔ ایک عورت کی عمر لگ بھگ پچاس سال ہوگی ۔اس کی آواز کرخت دار تھی۔ اس کے بال سنہرے تھے۔ اس نے کپڑوں کے اوپر ایک ایپرن باندھا ہوا ۔ دوسری لڑکی نوجوان تھی۔ عمر کوئی بائیس سے پچیس سال ہوگی۔ اس کی آواز بہت پتلی تھی۔ وہ ہم سب کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں۔ میں قطار کے آخر میں کھڑا ہوکے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ کرکے لوگ اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا لے کے انہیں لمبے بینچوں پے جاکے بیٹھ گئے جہاں کچھ دیر پہلے انہیں میں سے کچھ لوگ لیٹے ہوئے تھے اور کچھ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں سب سے آخر میں کھڑا تھا۔ اس لیئے میری باری بھی آخر میں آئی۔ اس کرخت آواز والی عورت نے میری پلیٹ میں کوئی چیز ڈال دی۔ پھر تھوڑا سا آگے چلا۔ اس پتلی سی آواز والی لڑکی نے مجھے ایک سیب دیا ور وہی سوس روٹی دی جسے یہ بروڈ کہتے ہیں۔ ایک کونے میں ایک دبلا پتلا سا لڑکا کھڑا تھا۔ اس کے پاس بہت سارے جگ پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ان میں کیا ہے تو کہنے لگا ان میں سبز چائے ہے۔
میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی، اس کے ایک کونے میں سیب رکھا، بروڈ رکھی اور آکر انہیں لمبے لمبے بینچوں میں سے ایک پے بیٹھ گیا۔ کھانا جو میری پلیٹ میں تھا، میں نے اس کا معائنہ کیا۔ یہ بہت ساری چیزوں کا مرکب تھا۔ جب میں نے پہلا چمچ منہ میں ڈالا تو مجھے انڈے کا ذائقہ محسوس ہوا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ میں کیا کھا رہا ہوں نہ ہی میری پاس کوئی دوسرا راستہ تھا۔ فقیروں کے پا س دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ انہیں جو مل جائے کھانا پڑتا ہے۔ میں کھانے کے دوران دوسرے لوگوں کو بھی دیکھ رہا تھا۔ ایک لڑکی اپنی بچی کو کھانا کھلانے کی کوشش کررہی تھی۔ میرے خیال میں وہ کسی اسلامی ملک سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ زبردستی اپنے بچی کے منہ میں کھانا ٹھونس رہی تھی لیکن شاید اس چھوٹی سی بچی کو کھانے کا ذائقہ پسند نہیں آیا تھا اس لیئے وہ نہیں کھا رہی تھی۔ اچانک وہ کرخت آواز والی عورت نمودار ہوئی جو سب کو کھانا تقسیم کررہی تھی۔ اس نے گرجدار آواز میں کہا، ’’ہم سوئٹزر لینڈ میں یہ کھانا کھاتے ہیں ۔اور ہمارے ہاں پلیٹ میں کھانا چھوڑنے کا کوئی رواج نہیں ‘‘۔ اس لڑکی نے جواب دیا، ’’لیکن یہ بچی ہے اس کو نہیں پسند۔ یہ نہیں کھارہی‘‘۔
اس عورت نے کہا، ’’تو تم کھا لو۔ تم پلیٹ کو صاف کردو‘‘۔
اس لڑکی نے جواب دیا، ’’مجھے سمجھ نہیں آئی۔ یہ بچی ہے۔ چھوٹی ہے ،نہیں کھارہی‘‘
آخرکار اس بچی کی ماں کو کھانا پڑا جو پلیٹ میں بچا ہوا تھا۔
وہ عورت جو کھانا تقسیم کررہی تھی۔ اس عورت نے جرمن میں کچھ کہالیکن کسی کو سمجھ نہ آیا۔ ہم سب کو یہی لگا کہ وہ ہمارے بارے میں کچھ برا کہہ رہی ہے۔ ایسا عین ممکن ہے اس نے ایسا نہ کہا۔
میں کھانا نے کھایا یا یوں کہہ لیجئے کہ زہر امار کیا۔ پلیٹ کپڑے سے صاف کرکے ٹرالی میں رکھ دی جہاں دوسری پلیٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ گلاس دوسرے گلاسوں کے ساتھ رکھ دیا اور ٹرے بھی رکھ دی۔ میں نے میز پے پڑی ہوئی سبزچائے پانی کی طرح پی۔ اس میں میں نے کافی ساری چینی حل کی تھی تانکہ منہ کا ذائقہ ٹھیک ہوجائے۔ یہاں سے فارغ ہوا تو میں مشین کی طرح چلا گیا جہاں پیسے ڈالا کے کوفی یادوسری اس طرح کی چیزیں نکلتی تھیں۔ میں مشین کو ندیدو ں کی طرح دیکھنے لگا کیونکہ میری جیب میں ایک آنہ بھی نہیں تھا۔ اس اثناء کسی نے میری کندھے پے ہاتھ رکھا۔ میں ننے مڑکے دیکھا تو وہی انگولا والا لڑکا کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا ، ’’کوفی پیؤ گے‘‘۔ میں نے کہا، ’’میرے پاس پیسے نہیں ‘‘۔ تو کہنے لگا، ’’اس
کی فکر نہ کروں‘‘۔ اس نے اتنا کہااورمشین میں اسی سینٹم ڈالے۔ مشین پے کئی چیزوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اس نے کپوچینوں والے بٹن کو دبایا ۔ چشمِ زدن میں مشین سے ایک سیفد پلاسٹک کا گلاس گرا۔ اس میں اندر سے کوئی محلول گرا ۔اس کے بعد کوئی سفید چیز گری۔ تھوڑی دیر میں مشین کے اوپر لکھا ہوا آگیا کہ کپوچینوں تیار ہے۔ میں نے ہاتھ بڑھا کے کپوچینوں اٹھا لی۔ اس کپوچینوں کا رنگ بہت کالا تھا اور اس کے اندر پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی ڈنڈی تھی جو چینی کو ہلانے کے لیئے تھے۔ میں چینی ہلائی اور لگا کپوچینوں پینے۔ میں کپوچینوں پیتے ہوئے اس انگلولا کے لڑکے کا شکریہ ادا۔ تو وہ کہنے لگا کوئی بات نہیں۔ میں نے کپوچینوں اس لیئے پی تھی کیونکہ میرا دل چائے پینے کو چاہ رہا تھا۔ جب میں کپوچینوں پی چکا تو میں تازہ ہوا کے لیئے اس باغ نماں جگہ دوبارہ چلا گیا جو بالکل جیل کی طرح تھی۔ میں نے کسی سے کوئی بات نہ کی۔ سارے میرے طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک لڑکا جو ڈیل ڈول میں کافی بھاری بھرکم تھا اور قد بھی اونچا لمبا تھا۔ میرے خیال میں افریقہ کے کسی ملک تھا ۔شاید نائیجیرین تھا لیکن مجھے اس بات کا مکمل یقین نہیں تھا کہ وہ نائیجیرین ہے۔ وہ کسی عورت سے باتوں میں محو تھا۔ وہ عورت پچاس سال کی ہوگی یا شاید اس سے کم۔ میری خیال میں وہ عورت سری لنکا کی تھی یا انڈین تھی۔ یہ دونوں بائیبل کے پیدائش کے باب کے بارے میں بات چیت کررہے تھے۔ ایک کونے میں ایک موٹا سا آدمی اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کے کھڑا تھا۔ میرے خیال میں یہ دونوں مشرقی یورپیئن ملک کے تھے۔ ایک لڑکا اور لڑکی گھاس پے لیٹے ہوئے آپس میں باتیں کررہے تھے۔ بہت ساری زبانیں، بہت سارے رنگ۔
ان میں سے کچھ کو کچن میں کام کرنے کے لیئے بلا لیا گیا۔ کچھ کو ہال صاف کرنے کے لیئے کہا گیا، کچھ کو باتھ رومز صاف کرنے کے لیئے کہا گیا، کچھ کو جس جیل نماں باغ میں میں بیٹھا تھا صاف کرنے کے لیئے کہا گیا۔ جب ان تمام کاموں سے سارے فارغ ہوگئے تو اس عمارت کے باہر ایک نیلے رنگ کی وین آکے کھڑی ہوگئی۔ اس دوران سیکیورٹی گارڈ نے سب کے نام اونچی آواز میں بلانے شروع کردیئے۔ اس نیلے رنگ کی ٹوئیوٹا وین میں ایک وقت میں دس سے بارہ بندے بیٹھ سکتے تھے۔ ہماری تعداد تقریباً اسی ہوگی یا نوے۔ اس نے دس بندوں کے نام لیئے۔ وہ لوگ تیزی سے جاکر وین میں بیٹھ گئے۔ میرے اندازے کے مطابق اس وین والے کو دس یا شاید اس سے بھی زیادہ چکر روز لگانے پڑتے ہوں گے جب بھی ان لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہوگا۔ روز کئی لوگ آتے۔ دس سے پندرہ کے قریب۔ ان لوگوں میں تمام ملکوں کے لوگ ہوتے لیکن ان میں کبھی بھی کوئی بھی جاپانی، امریکی، آسٹریلین یا یورپیئن یونین کے کسی ملک کا کوئی بندہ بھی ہوتا۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا اور اس جیل نماں باغ میں چکر لگا رہا تھا۔ وقت گزارنے کا اس سے اچھا طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ نیلے رنگ کی ٹوئیوٹا وین کافی چکر لگا چکی تھی۔ ہال میں اور باغ چند لوگ رہ گئے تھے۔ اچانک ایک گونج دار آواز مجھے سوچوں کے سمندر سے باہر سے باہر لے آئی۔ کوئی اونچی آواز میں چلا رہا تھا ’’سب آجاؤ، وین انتظار کررہی ہے۔ یہ آخری چکر ہوگا‘‘۔ میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وین کی طرف گیا۔ جس جگہ وین کھڑی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں میں رات کو آیا تھا۔ یہ ایک تین یا چار منزلہ عمارت تھی۔ جو ابھی نامکمل تھی۔ اس کے کا ڈھانچہ تو کھڑا تھا لیکن اس پے پلستر ہونا باقی تھا۔ اس کے سامنے وہی لوہے کا گیٹ لگا ہوا تھا جس کے پاس میں رات کو آکے کھڑا ہواگیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سالوہے کا دروازہ تھا ۔ایک کونے میں چھوٹی سا بٹن لگا ہوا تھا۔ اس کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہوا تھا۔ شاید یہی کیمرہ تھا جس نے میری موجودگی کا اس سیکیورٹی گارڈ کو بتایا تھا۔ ۔ سیکیورٹی گارڈ نے سکوت توڑا اور کہا، کوم آلیس، کومن سی بتے ‘‘ )
Kome alles, kommen sie bitte) ۔ سیکیورٹی
گارڈ نے میرا نام پوچھا۔ میں نے اسے اپنا نام بتایا۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بھی اس لسٹ میں شامل ہے۔ پھر اس نے مجھے کہا کہ ایک منٹ رکو ۔ میں ابھی آتا ہوں۔ وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کہنے لگا۔ یہ تمہارا کاغذ ہے۔ اس پے تمہاری تاریخ پیدائش اور نام پتا لکھا ہے ۔جب تک تمہارے فنگر پرنٹ نہیں لیئے جاتے یہ تمہاری شناخت ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ مجھے اس بات کا تجسس تھا کہ یہ وین والا آدمی بندوں کو لے کر کہاں جاتا ہے۔ میرا یہی خیال تھا کہ میں وین میں سب سے آخر میں داخل ہوں گا۔ لوگ جلدی جلدی وین میں داخل ہوگئے۔ کوئی اگلی سیٹوں پے بیٹھ گیا کوئی پیچھے ۔ ساری وین بھر گئی ۔سارے لوگ وین میں اس طرح ٹھونس دیئے گئے جیسے دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ اب وین میں کوئی جگہ نہ بچی تھی۔ اگلی سیٹ پے جو بندے بیٹھے تھے ان کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ڈرائیور کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ وین کے ڈرائیور کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہوگی۔ وہ موٹا بھی تھا اور بھدا بھی۔ اس پے طرہ یہ کہ اس کا قد بھی چھوٹا تھا اس لیئے وہ مزید بھدا لگ رہا تھا۔ اس ڈرائیور کو سوس جرمن (جرمن زبان کئی قسم کی ہے۔ آسٹریاء کی جرمن مختلف ہے، سوس جرمن مختلف ہے اور مغربی و مشرقی جرمنی کی جرمن مختلف ہے) کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ یا شا ید وہ کرائس لنگن کی کوئی مقامی زبان بول رہا تھا۔ میں وین کے باہر کھڑا تھا اب میرے ساتھ کیا ہوگا۔ وہ موٹا اور چھوٹا ڈرائیور وین سے اترا اور اس نے وین کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے کہنے لگا، ’’بتے‘‘
Bitte ۔ میں اس کا بتے سننے کے بعد اس جگہ بیٹھ گیا جو اس نے چند لمحے پہلے کھولی تھی۔ در حقیقت یہ جگہ وین کی پچھلی طرف کتے کو بٹھانے کے لیئے بنی ہوئی تھی ۔ کیونکہ جیسے ہی میں یہاں بیٹھا یہاں سے کتے کے جسم کی بو آنے لگی۔ اس کے علاوہ جب یہ وین آئی تھی اس میں سے ایک کتا بھی نمودار ہوا تھا۔ ا س وقت کتا اگلی سیٹ پے بیٹھا ہوا تھا۔مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ وین والا ہمیں کہا لے کر جا ئے گا۔ ڈرائیور نے وین سٹارٹ کی ۔ ایک چھوٹا سا
چکر کھانے کے بعد وہ اسی گندے نالے کے پاس گزرا جس سے شدید بو آرہی تھی۔ ایک بات میں نے محسوس کی کہ اب بو کی شدت میں کمی واقع ہوگئی تھی یا شاید میں ایک رات میں اس بو کا عادی ہوگیا تھا۔ہماری وین اس بیرک نماں عمارت کے پاس سے گزری۔ ایک طرف تو وہ بدبودار نالا تھا دودسری طرف وہ عمارت تھی جہاں میں نے رات گزاری تھی۔ جو مجھے بالکل ریڈکراس کی عمارت کی طرح لگتی تھی۔ ڈرائیور تھوڑی دیر میں الٹے ہاتھ کی طرف مڑا اب ہم کوستانس سترازے پر تھے۔ چند لمحوں میں ہماری وین ایک رنگ روڈ سے گزر کے کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے پاس تھی۔ اس کے بعد ڈرائیور نے گاڑی سیدھے ہاتھ پے موڑ دی۔ اب ہم جس روڈ پے تھے میں اس کانام نہ پڑھ سکا۔ میں نے چند ایک خوبصورت عمارتیں دیکھیں۔ ان عمارتوں کی عمر بہت کم بھی ہوئی تو تین سو سال ہوگی۔ یعنی یہ تین سوسال پہلے بنائی گئی ہونگی۔ اس بات کا اندازہ مجھے ان کے طرزِ تعمیر سے ہوا تھا کیونکہ یہ اندازِ تعمیر گوتھک طرزِ تعمیر کہلاتا ہے۔ اس کے بعد ڈرائیور نے وین ایک ترچھی روڈ کی طرف موڑ دی جو اوپر کو جاتی تھی۔اس روڈ کا نام گران نیگے سترازے (
granegge strasse)تھا۔ اب تک میں اس بات سے ناواقف تھا کہ ہم لوگ کہاں تھے۔ ڈرائیور نے وین موڑی اور چند لمحوں میں ہماری وین ایک عمارت کے سامنے کھڑی تھی ۔ جیسے ہی وین رکی ڈرائیور نے جرمن زبان میں کہا، سب لوگ نیچے اتر جاؤ۔ سب نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ سارے لوگ اس تین منزلہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ سیکیورٹی گارڈ نے سب لوگوں کو گنا۔ اس کے حساب سے ایک بندہ کم تھا۔ اس نے جرمن زبان میں اونچی آواز میں کہا، ’’وو است فرشتہ‘‘ (wo ist farishta) ۔جب ڈرائیور نے سیکیورٹی گارڈ کو چلاتے ہوئے دیکھا تو اسے خیال آیا کہ ایک شخص پیچھے بھی ہے۔ اسے خیال ہی نہ آیا کہ اس نے ایک شخص کو اس نے اس جگہ بٹھایا تھا جہاں وہ اپنے کتے کو بٹھاتا ہے۔ وہ وین کے پچھلے طرف گیا اور اس نے وین پچھلا دروازہ اٹھایا اور کہا، ’’کومن زی بتے‘‘ kommen sie bitte ڈرائیور کے اس جملے میں بہت زیادہ طنز تھا۔ اب تک سارے لوگ اس عمارت کے اندر داخل ہوچکے تھے سوائے میرے۔ سیکیورٹی گارڈ نے مجھے دیکھتے ہی کہا، ’’کومن سی بتے‘‘۔ اب تک مجھے اس جملے کا مطلب پتا چل چکا تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ میں نے جیسے ہی قدم اندر رکھا۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے دروازہ بند کردیا۔ ایک چھوٹا سا کوریڈور تھا۔ سب سے پہلے سیکیورٹی گارڈ نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بورڈ دکھایا جس پر ہاوس یا گھر میں رہنے کے اصول لکھے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سمجھایا کہ اگر میں اس گھر کے اصولوں کی پابندی کی تو میں یہاں رہ سکتا ہوں دوسری صورت میں مجھے جیل بھیج دیا جائے گا۔ میں نے ہاوس کے قانون اور قاعدے پڑھے۔ اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ نے میرا کاغذ دیکھتے ہوئے، میرے ملک کا نام پڑھتے ہوئے مجھے ہاوس کے قاعدے اور قانون اردو زبان میں دیئے۔ میں انگریزی میں سارا کچھ پڑھ چکا تھا اب اردو میں بھی ان پے ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ نے سب کو باری باری بلانا شروع کیا۔ پھر اس نے مجھے میرے نام سے بلایا۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس نے مجھے دو بستر کی چادریں دیں، ایک کمبل، ایک تکیئے کا غلاف، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش، چھوٹی سی صابن کی ٹکیہ دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سب کو یہ بھی کہتا جاتا کہ جب تم اس ہاوس کو چھوڑو گے تو یہ ساری چیزیں جمع کرواکے جانا ہوگا۔ اس کے بعد اس نے کہا، میرا یہاں انتظار کرو۔ میں تھوڑی دیر میں تمہیں تمہارے کمرے دکھاؤں گا جہاں تم لوگوں نے سونا ہے۔ ہم سب کوریڈور میں اس کا انتظار کرنے لگے۔ میں کوریڈور میں لگے ہوئے نوٹس بورڈ کے لکھی چیزیں دیکھنے لگا۔ اس پے جرمن زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا جو میری سمجھ سے باہر تھی۔
وہ شخص جو ہمیں انتظار کرنے کا کہہ کر گیا تھا وہ آیا اور اشارے سے بتایا کہ ہم اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ مجھے اور دو اور لڑکوں کو وہ دوسری اور آخری منزل پے لے گیا۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا اور مجھے میرے بستر دکھاتے ہوئے کہنے لگا ، ’’یہ تمہارا بستر ہے۔ تم نے یہاں سونا ہے۔ یہ تمہاری شناخت کا کاغذ ہے اسے اپنے بستر کے ساتھ رکھنا۔ میں رات کو دس بجے دوبارہ آؤں گا ۔ یہ دیکھنے کہ یہ کاغذ تمہارے بستر کے ساتھ لٹکا ہوا ہے کہ نہیں‘‘۔
وہ مجھے جس کمرے میں چھوڑ کے گیا تھا ، یہ بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ ایک دیوار کے ساتھ چار بستر لگے ہوئے تھے۔ دوسری دیوار کے ساتھ بھی چار بستر لگے ہوئے تھے۔ اور کمرے کے درمیان میں آٹھ بستر لگے ہوئے تھے۔ یہ بستر دو منزلہ تھے۔ یعنی اس چھوٹے سے کمرے میں آٹھ بستر نیچے لگے ہوئے تھے اور آٹھ اوپر۔ اس کمرے میں ایک کھڑکی تھی۔ کھڑکی کے باہر چھوٹی سی راہداری بنی ہوئی تھی۔
میں جب سے آیا تھا اسی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھا جو میں اریزو سے پہن کر آیا تھا۔ میں ہفتے کی صبح کو چلا تھا اور آج اتوار تھا۔ ایسا لگتا تھا یہ گزرے ہوئے لمحات کئی مہینوں پر محیط ہوں۔ پچھلی رات جب میں کرائس لنگن ریلوے سٹیشن پے پہنچا تھا تو میں اس بات سے ناواقف تھا کہ مجھے اگلی رات کہاں گزارنی ہے اور اب میں اپنے بستر کے پاس کھڑا تھا۔ گوکہ کے کمرے میں بندوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن مجھے اس بات کی فکر نہیں تھی مجھے سونا کہاں ہوگا۔
میں نے سب سے پہلے اپنا وہ کاغذ اپنے بستر کے ساتھ لٹکا دیا جو کہ اب میری شناخت تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک افریقن لڑکے سے انگریزی میں پوچھا کہ مجھے اگر کپڑوں کی ضرورت ہو تو کیا کروں۔ تو اس نے جواب دیا جس کوریڈور سے تم داخل ہوئے ہو۔ وہاں ایک چھوٹا سا کیبن ہے۔ وہاں کوئی نا کوئی ہوگا۔ اس سے کہنا ، وہ تمہیں کپڑے دے دے گا۔ میں سیڑھیاں اتر کے نیچے گیا راستے میں کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ دنیا کے کئی ممالک کے لوگ تھے۔ میں جب کیبن کے پاس پہنچا تو وہ عورت جو اس جیل نماں باغ میں ایک افریقن لڑکے سے بائیبل کے حوالے سے بات کررہی تھی ۔اس نے مجھے بتایا کہ جہاں سے کپڑے ملتے ہیں وہ دفتر بند ہوگیا۔ میں اس کا جواب سن کر واپس آگیا۔ اب میں چاہتا تھا کہ میں نہا لوں کیونکہ میں روز نہانے کا عادی ہوں لیکن میں دو دن سے نہایا نہیں تھا۔ جون کے مہینے میں یورپیئن ملکوں میں بھی گرمی ہوتی ہے۔ یہاں کرائس لنگن میں کچھ زیادہ ہی گرمی تھی کیونکہ کرائس لنگن میں ایک بڑی جھیل ہے جس کی وجہ سے فضاء میں عجیب و غریب بخارات پیدا ہوتے۔ میں جب باتھ روم میں نہانے کے لیئے گیا تو اس کے باہر ایک لمبی قطار تھی۔ میں نے نہانے کا ارادہ ترک کیا اور آکے اس چھوٹی سی راہداری میں کھڑا ہوگیا جو ہماری کمرے کی کھڑکی کے سامنے بنی ہوئی تھی۔ میرے سامنے کھلا آسمان تھا۔ جون میں چونکہ سورج دیر سے غروب ہوتا ہے اس لیئے سب کچھ صاف دکھائی دے رہا
تھا۔ سامنے ایک ہی طرح کے تین چار گھر بنے ہوئے تھے ۔ان گھروں کے پچھلے طرف جو باغ تھے وہاں بچے کھیل رہے تھے۔ انہیں میں ایک بچی کھیل رہی تھی۔ جس کی عمر سولہ یا سترہ سال ہوگی۔ یا شاید وہ تھوڑی موٹی تھی اس لیئے اس کی عمر زیادہ لگ رہی تھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کی عمر اس سے بھی کم ہو۔ جس راہداری میں میں کھڑا تھا میں آس پاس دیکھا تو سارے لڑکے اس لڑکی کھیلتے ہوئے دیکھ رہے ۔ نیچے باغ میں ایک سیکیورٹی گارڈایک کتے کے ساتھ ہم لوگوں کی نگرانی کررہا تھا۔ اس کے پاس جرمن شیفرڈ تھا۔ جو ہمیں دور سے ہی دیکھ کر غرا رہا تھا جیسے وہ ہمارے ذہنیت کے بارے میں جانتا ہو۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے بھی ویسا ہی یونیفار م پہنا ہوا جیسا یونیفارم دوسروں نے پہنا ہوا تھا۔ اس سیکیورٹی گارڈ کا چہرہ بالکل گول مٹول تھا اور رنگ لال سرخ ، ایسا لگتا تھا جیسے اس کا منہ نہیں کوئی بڑا سا ٹماٹر ہو۔ اس پے اس نے منہ پے بڑی بڑی مونچھیں سجائی ہوئی تھیں۔
جب میں اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا میرے ذہن میں ایک لمحے کے لیئے انگریزی کی نظم ایکوؤنگ گرین گونجنے لگی۔ مجھ کالج کے وہ دن یاد آنے لگے جب میں پڑھتا تھا۔ پھر میں اس منظر سے اکتا ء گیا اور اس عمارت کا جائزہ لینے لگا جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت تھی۔ جس میں اس کا تہ خانہ بھی شامل تھا۔ اس بلڈنگ کا پرانا نام ’’گارنیگے ہوٹل اینڈ رریسٹورنٹ ‘‘ (
garnegge hotel and restaurant)تھا۔ اس کا پرانا سائن بورڈ ہٹا دیا گیا تھا اور اس پے رنگ کیا گیا تھا لیکن کافی عرصہ نیوؤن سائن بورڈ لگے رہنے کی وجہ سے اس سائن بورڈ کا عکس اس دیوار سے غائب نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی میں اس بات کو جان گیا کہ یہ عمارت پہلے ہوٹل تھی۔ اس عمارت کے دو پورشن تھے۔ دونوں طرف چار چار کمرے اور دو دو باتھ تھے۔ سب کمروں کے لیئے ایک مشترکہ کچن تھا لیکن اب یہ کچن
پتس روم یعنی صفائی کی چیزوں کا سامان رکھنے کا کمرہ بن گیا تھا۔ لیکن اس میں کھانا پکانے کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ ہر کمرے میں بندوں کی تقسیم اس کی لمبائی اور چوڑائی کے مطابق تھی۔ کسی کمرے میں سولھاں(
۱۶) اور کسی کمرے میں اٹھارہ بندے تھے۔ پہلے فلور پے اسی سے سو کے قریب بندے تھے
اور دوسرے فلور پے بھی اتنے ہی بندے تھے۔ پہلی منزل پے سنگل پیرنٹس (
single parents)اور فیملیز ٹھہری ہوئی تھیں اور دوسرا فلور سنگل یعنی چھڑے لوگوں کے لیئے تھا۔ گراؤنڈ فلور پے ایک طرف تو دفتر اور ابتدائی طبی امداد کے لیئے چھوٹا سا ہسپتال تھا اور دوسری طرف کچن، ٹی وی لاؤنج، ڈائیننگ ہال اور بہت بڑا ٹیرس تھا۔ اس عمارت کے تہہ خانے میں عورتوں کے لیئے ایک بہت بڑا باتھ روم تھا جس میں بچوں کی نیپی وغیرہ بدلنے کی سہولت موجود تھی اس کے علاوہ لانڈری روم بھی یہیں تھا۔ اس عمارت کا بجلی ،پانی اور گیس اور دیگر میکینیکل سسٹم کا کمرہ بھی یہیں تھا۔ میں نے اس عمارت کا بھرپور جائزہ لیا اور واپس اسی ٹیرس میں آگیا۔ وہ لڑکی اب بھی باغ میں کھیل رہی تھی۔ رات کے نو بجے ہوں گے لیکن اب بھی سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں جب اس منظر سے اکتا گیا تو دوبارہ باتھ روم کا رخ کیا۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو اندر کوئی نہیں تھا لیکن باتھ روم کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے یہاں سیلاب آیا ہو۔ باتھ کے اندر غدر مچا ہوا تھا۔ میں نے سب سے پہلے دانت صاف کیئے، پھر نہایا اور اسکے بعد جسم کو تولیئے کے ساتھ پونچ کے باہر آگیا۔ میں اپنے کمرے میں آیا اور اپنے بسترکے ایک کونے میں اپنا تولیہ لٹکا دیا۔ میرے نیچے ایک ٹرکش کا بستر تھا۔ یہ سارے بستر آرمی کے ہاسٹلز کی طرح دومنزلہ تھے۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں اس ہوٹل کے تہ خانے میں چلا گیا۔ ٹی وی لاونج میں جانے کے لیئے یہی ایک راستہ تھا کہ آپ کو تہ خانے میں آنا پڑتا تھا اور اس کے ساتھ ایک کوریڈور تھا اس سے گزر کے آپ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہاں پے زیادہ تر لوگ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ٹی وی لاونج سے گزر کے میں ٹیرس میں آگیا۔ یہاں پر بھی بیشمار لوگ بیٹھے تھے۔ عورتیں، بچے، مرد،گورے، کالے ۔ہر طرح کے لوگ تھے۔ ایک طرف نائیجیرین ، انگولین، اور سینیگالیزی بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک طرف عربی بولنے والے ملکوں کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن میں لبنان اور فلسطین کے لوگ تھے۔ ایک طرف ترکی اور ایران کے لوگ تھے۔ ایک گروپ الجیریہ ، مراکش اور تیونس کے لوگوں کا تھا۔ پاکستانی، انڈین جو کبھی بھی اکھٹے نہ ہوئے تھے یہاں پے اکھٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ آج میرا یہاں پہلا دن تھا میں یہاں کسی کو نہیں جانتا تھا اس لیئے میں ایک کونے میں جاکے اکیلا بیٹھ گیا۔ میں یہاں ٹیرس میں بیٹھا کرائس لنگن جھیل کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو بودن سے بھی کہتے ہیں ۔اٹالین اس کو لاگو دی کوستانساں بھی کہتے ہیں کیونکہ اٹالین زبان میں لاگو ،جھیل کوکہتے ہیں۔ اب تھوڑا تھوڑا اندھیرا ہورہا تھا لیکن جھیل میں کھڑی کئی کشتیوں کے رنگ برنگی بادبان نظر آرہے تھے۔ بظاہر تو میں کرائس لنگن جھیل کے ان رنگ برنگی بادبانوں کو دیکھ رہا تھا لیکن در حقیقت میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ مجھے سوچ کے اس سمندر سے پاس بیٹھے پاکستانیوں کی بات چیت باہر لے آئی۔ وہ میرے بارے میں بات کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کی بالکل پرواہ نہ تھی۔ میں سوچنے لگا۔ ابھی کل شام کو نو بجے میں زیورگ آنے والی ٹرین میں بیٹھا ہوا تھا اور میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میری رات کہاں گزرے گی۔ میں تو سوس یہی سوچ کرآیا تھا کہ سوزی سے ملوں گا۔ شاید وہ میرے لیئے کوئی بہتر انتظام کردے۔ ہم پاکستانی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ میں نے کافی عرصہ ٹورسٹ کمپنی میں کام کیا تھا۔ کئی طرح کے لوگوں سے ملا تھا۔ مختلف ملکوں کے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا۔ کسی حد تک ان کی عادات سے واقف بھی ہوگیا تھا لیکن نہ جانے کیوں میں اپنے اندر سے اپنے پاکستانی انداز کو کبھی ختم نہ کرسکا۔ اگر میں سوزی کی جگہ ہوتا ۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کے میرے پاس آتی اور اپنا دْکھڑا روتی تو میں ہر صورت میں اس کی مدد کرتا۔ میں تو ہزاروں میل کا راستہ طے کرکے اس کے پاس آیا تھا۔ اسے زیورگ پہنچنے سے پہلے فون بھی کیا تھا۔ اس نے آنے کابھی کہا تھا لیکن وہ نہ آئی ،حالانکہ یورپیئن لوگ تو وعدے کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ اگر اس نے نہ ملنا ہوتا تو فون پے ہی نہ کردیتی۔ اتنے کچھ ہونے کے باوجود مجھے رات کو سونے کی جگہ بھی مل گئی تھی اور آج میری سوس میں دوسری رات تھی۔
میری کان میں انگریزی میں کوئی جملہ سنائی دیا۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو ایک افریقن لڑکا کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے لائیٹر مانگا۔ میں نے کہا، میں سگرٹ نہیں پیتا۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہوں ۔ میں نے جواب دیا ،میں پاکستان کا رہنے والا ہو ں اور تم۔
تو اس نے جواب دیا، میں نائیجیریہ کا رہنے ولا ہوں۔ اس کے بعد اس نے تیزی میں دوسرا سوال کر ڈالا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں۔ میں نے جواب میں کہا، مجھے کیا پتا۔ ایسا عین ممکن ہے وہ اس وقت امریکہ میں ہو۔ اس نے کہا، یہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو۔
میں نے کہا، وہ پہلے بھی ان کے لیئے کام کرتا تھا ہوسکتا ہے اب بھی ان کے لیئے کام کررہا ہو۔
کسی نے پیچھے سے آواز دی ،مائیکل لائٹر لے کر آؤ ۔ اس نے مجھے کہا، میں چلتا ہوں ۔وہ مجھے بلا رہے رہے ہیں۔ میں دوبارہ اپنے خیالوں میں کھو گیا۔ میں اس شخص کے بارے میں سوچنے لگا جس کے پاس میں پچھلی رات کو اپنا موبائیل فون چھوڑ آیا تھا۔ موبائیل فون کی زیادہ مالیت تو نہیں تھی لیکن ویسے ہی میں سوچنے لگا اگر میرے پاس ہوتا تو کسی نا کسی مصیبت کا باعث بنتا۔ وہ نیٹ کیفے والا بھی کیا سوچتا ہوگا کہ کیوں چھوڑ گیا اپنا موبائیل فون۔ مجھے تھوڑی دیر کے لیئے نیائش کا خیال آیا لیکن یہاں سے فون کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ پھر ایک لمحے کے لیئے مغل صاحب کے بارے میں سوچنے لگا، جعفر کے بارے میں سوچنے لگا جن لوگوں نے مجھے بارڈر پار کروایا تھا۔ ٹرین میں دو تین چکر لگانے کے دو سو یورو لیئے تھے۔ یہاں میں ان کا کچھ بھی نہیں لگتا تھا۔ مجھے انہوں نے سونے کی جگہ دی تھی، کھانا دیا تھا اور نہ جانے کتنے دن ان کے پاس رکنا تھا۔
آہستہ آہستہ لوگوں نے ٹیرس سے اٹھ کے جانا شروع کردیا۔ کچھ لوگ تو نوٹس بورڈ پے لگی ہوئی لسٹیں دیکھ رہے تھے اور کچھ اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ اتنے میں ایک سیکیورٹی گارڈ آیا۔ اس کی عمر بیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ یہ نوجوان بہت خوبصورت تھا۔ اونچا لمبا قد، گورا چٹا رنگ، سبز آنکھیں۔ اس نے چند لوگوں کو کہا،کہ ٹی وی لاؤنج صاف کرو، کچھ کی ٹیرس صاف کرنے کو کہا، کچھ کو ڈائیننگ ہال صاف کرنے کو کہا۔باقیوں کو اس نے کہا اپنے اپنے کمرے میں چلے جاؤ۔ مجھ سے اس نے کوئی بات نہ کی۔ میں نے سوچا میں یہاں بیٹھ کر کیا کروں گا اس لیئے میں نے بھی اپنے کمرے کی راہ لی۔ میں دوبارہ اپنے کمرے کے سامنے والے کوریڈور میں جاکے کھڑا ہوگیا۔ جو سیکیورٹی گارڈ اپنے جرمن شیفرڈ کتے کے ساتھ باغ میں چوکیداری کا کام انجام دے رہا تھا۔ جب اس نے مجھے نیچے سے دیکھا تو کہنے لگا۔ جاکے سو جاؤ یا اپنے کمرے میں چلے جاؤ کیونکہ دس بجے کے بعد یہاں بیٹھنا منع ہے۔ میں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ اس کی بات مان لوں۔ میں اپنے کمرے میں آیا جہاں اوپر نیچے سولہ بستر لگے ہوئے تھے۔ میں بستر کے ساتھ لگی ہوئی چھوٹی سی سیڑھی سے اوپر چڑھا اور اور اپنے بستر پے جاکے لیٹ گیا۔ میں نے اب تک جتنی بھی زندگی گزاری تھی میں آج تک اتنی جلدی نہیں سویا تھا۔ جن دنوں میں سکول میں پڑھتا تھا اس کے بعد کالج جانا شروع کیا۔ اس کے بعد زبان سیکھنی شروع کی۔ آخر میں گائیڈ کی نوکری کی۔ وہاں ٹورسٹ کے لیئے صبح سویرے اٹھنا پڑتا تھا لیکن اس کام کے دوران بھی میں رات کو بارہ بجے سے پہلے کبھی نہ سویا تھا ۔پچھلی رات حالانکہ میں بہت تھکا ہوا تھا لیکن میں پچھلی رات بھی دیر سے سویا تھا۔ لیکن آج دس بجے بستر پے جانا مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے نظامِ زندگی میں ہلچل مچادی۔ میں نے لیٹتے ہی سوچنا شروع کردیا کہ یہ سوس انڈین فلموں سے کتنا مختلف ہے۔ انڈین فلم میں کاجل(انڈین اداکارہ) سخت سردی میں سوس کے کسی شہر میں لانگ بوٹ پہن کے شاہ رخ خان کے سامنے ڈانس کرتی ہے۔ اسے دو چھینکیں آتی ہیں اور وہ اسے ہوٹل کے کمرے میں لے آیا ہے۔ یہ ہوٹل کا کمرہ دنیا کی تمام آسائشوں سے مزین ہوتا ہے۔ ایک میں تھا سوس کے ایک ایسے کمرے میں تھا جہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں سولہ بستر لگے ہوئے تھے۔ پھر مجھے خیال آیا کس طرح سنی دیول سوس کی گلیوں بازاروں میں جوہی چاؤلہ کے ساتھ ڈانس کرتا ہے اور ڈر فلم کا ولن شاہ رخ خان بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ انڈیاء کی بے شمار فلمیں ہیں جو ساری کی ساری ہندوستان میں بنتی ہیں لیکن اچانک گانے کے وقت لڑکی کو نیند آجاتی ہے اور وہ خواب میں سارا گانا سوس میں فلما کے واپس آجاتی ہے۔ وہ سوس کہاں ہے۔ میں خواب تو نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ میں بذاتِ خود سوس میں موجود تھا۔ جس سوس میں میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران رہ رہا تھا یہ سوس کسی انڈین فلم میں مجھے کبھی نظر نہ آیا۔ انہی خیالوں میں میری آنکھ لگ گئی۔ نیند میں نے کسی کو اونچی آواز میں بولتے سنا۔ میں ہڑبڑا کے اٹھا ۔دو سیکیورٹی گارڈ زور زور سے چلا رہے تھے۔ رول کال ٹائم۔ انہوں نے ہم سب کے نام پکارے ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں دوسری جنگِ عظیم کا قیدی ہوں۔ اٹلی کے ایک اداکار اور فلم میکر نے اس موضوع پے طنز و مزاح سے بھرپور فلم بنائی تھی۔ جس کا اٹالین نام ’’لا ویتا اے بیلا ‘‘(
la vita e b232lla) تھا اور اس کو انگریزی میں دی لائف اس بیوٹی فل کے نام سے پیش کیا تھا ۔ اس کو کئی اکیڈمی ایوارڈ ملے۔ نہ صرف روبیرتو بینینی(roberto begnini) کو بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا تھا بلکہ اس فلم کو بھی بہتریں فلم کا ایوارڈ ملا تھا۔ اس کے کچھ سین بالکل اس کمرے جیسے تھے جہاں میں سو رہا تھا۔ یہ سیکیورٹی گارڈ سارے لوگوں کو دیکھ بھال کرنے کے بعد جانے لگے تو ایک نے کمرے کی واحد کھڑکی بھی بند کردی جہاں سے روشنی آرہی تھی۔
***