Saturday, June 25, 2011

PASE AYENA 5

بدھ کے دن صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے کچن میں برتنوں کی آواز سنی۔ میں نے اٹھ کے دیکھا تو نیائش کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا ، ’’نیائش بھائی آج کام پے نہیں گئے‘‘۔
’’ماڑا کیا بتاؤں کل رات سے طبیعت خراب تھی ۔ سارا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ اسی لیئے کھانا بھی نہ بنایا۔ اللہ بھلا کرے پری پیکر کا کہ وہ ڈونر کباب لے آیا تھا۔ میں نے صبح مالک کو فون کردیا تھا کہ آج کام پے نہیں آؤں گا۔ لگتا ہے مجھے فلو ہوگیا ہے۔ یہ بہت گندی بیماری ہے۔ بظاہر انسان بیمار نہیں لگتا لیکن انسان کا جسم اندر سے ٹوٹ کے رہ جاتا ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس میں ہڈیاں چٹخنے لگتی ہیں اور بہت زیادہ کمزوری محسوس ہوتی ہے‘‘۔
’’ماڑا تم ٹھیک کہتے ہو‘‘۔
’’آپ چھوڑٰیں ناشتہ میں بناتا ہوں‘‘۔
’’یار چائے میں میٹھا زیادہ ڈالنا، منہ کا ذائقہ بہت خراب ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کڑوا بادام کھالیا ہو‘‘۔
’’نیائش بھائی آج میرا خیال ہے کوئی چٹخارے دار چیز بنائی جائے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آج پری پیکر ضرور آئے گا میرا مطب ہے ثقلین‘‘۔
’’ماڑا تم نے اسے پتا نہیں کس نشے پے لگا دیا۔ یہ تو ہیروئن کے نشے سے بھی برا ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی میں سارا دن فارغ ہوتا ہوں کچھ نا کچھ لکھتارہتا ہوں۔ جب مکمل ہوجاتا ہے اس کو دے دیتا ہوں۔ ایساکرتا ہوں ناشتہ کرکے میں عربی کے دوکان پے جاتا ہوں ۔اس سے اچھا سا گوشت لاتا ہوں ۔ وہ چھوٹا گوشت مہنگا دیتا ہے لیکن اس کے پاس گوشت اچھا ہوتاہے‘‘۔
’’ماڑا پہلے ناشتہ تو کرلو۔ یہ توشام کا پروگرام ہے۔ ویسے بھی پری پیکر شام سات بجے آئے گا‘‘۔
میں نے ناشتہ تیار کیا ۔ نیائش تو ناشتہ کرکے کمرے میں چلا گیا اور میں ٹی وی دیکھنے لگا۔ نیائش کی نہ جانے کب آنکھ لگ گئی اور میں اریزو کی لائبریری چلا گیا۔ اریزو کی لائبریری بھی دنیا کی عجیب و غریب لائبریری ہے۔ یہاں آپ کتابوں کو سامنے دیکھ نہیں سکتے۔ آپ کمپیوٹر میں کتاب کا نام دیکھتے ہیں۔ اس کو کاغذ پے لکھ کے دیتے ہیں۔ پھر لائبریری میں کام کرنے ولا عملہ آپ کو کتاب لا کر دیتا ہے۔ یہ لائبریری ایک بہت پرانی عمارت میں بنائی گئی ہے۔ اس سے ملحق اریزو شہر میں پیدا ہونے شاعر فرانچسکو پترارکا کا گھر ہے۔ یہاں پترارکا کی لائبریری بھی ہے۔ اس کی جمع کی ہوئی کتابوں کو ایک خاص قسم کا مصالحہ لگا کر رکھا گیا ہے تانکہ خراب نہ ہوں۔
مجھے اٹالین زبان تو اتنی آتی نہیں اس لیئے میں ہمیشہ انگریزی زبان کی کوئی نا کوئی کتاب دیکھ لیتا ہوں ۔ اس کے علاوہ انساکلوپیڈیاء بریٹینیکا یہاں پے انگریزی میں بھی ہے۔ مجھے اس سے کافی مدد مل جاتی ہے۔ میں ضروری چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کی لائبریری سے گھر کے راہ لی ۔راستے یہ ویالے میکل آنجلوں(viale michelangelo) میں ایک بہت اچھا پزیریہ ہے اس سے ایک بڑا پیزا لیا۔
گھر پہنچ کے پیزے کے دو حصے کیئے ۔نیائش ابھی تک سو رہا تھا۔ شاید اس نے ناشتے کے بعد کوئی اینٹی بائیوٹک لی تھی جس کی وجہ سے اسے نیند آگئی تھی۔ جب میں میز پے تمام چیزیں سجا چکا تو نیائش کو آواز دی ۔اس نے اندر سے آوازدی، ’’ماڑا وقت کا پتا ہی نہ چلا ۔ اور یہ تم نے کیا مذاق بنا رکھا ہے۔ کبھی پیزا لے آتے ہو اور کبھی گوشت لے آتے ۔ماڑا تم ابھی کام نہیں کرتے ۔جب کام کرو گے تو میں تمہیں منع نہیں کروں گا‘‘۔
’’نیائش بھائی کام نہیں ہے تو کھانا چھوڑ دیں‘‘۔
’’خیر چھوڑو ۔ میں کھاناکھا کے بعد اپنے ڈاکٹر کے پاس جاؤں گا، ملاتی لکھوانے(میڈیکل
سرٹیفیکیٹ)۔ وہ آتا تو چار بجے ہے لیکن وہاں کافی رش ہوتا ہے۔ اس لیئے پہلے جاکے ٹوکن لوں گا۔ اس کے بعد اس کا انتظار کروں گا‘‘۔
’’نیائش بھائی ان اٹالین کا بھی عجیب نظام ہے ۔بندا بیمار ہوتو بھی تکلیف اٹھائے‘‘۔
’’یار یہ بھی ان کی مہربانی ہے۔ تین دن کا سرٹیفیکیٹ لکھ دے گا ۔ اگر سوموار کو ٹھیک ہوا تو کام پے چلا جاؤں ورنہ دوبارہ لکھوا لوں گا‘‘
میں نے اپنے حصے کا پیزا تو کھالیا لیکن نیائش نے تھوڑا سا کھا کر چھوڑ دیا۔ اور کہنے لگا، ’’ماڑا کچھ کھانے کو جی ہی نہیں چاہتا‘‘۔
پیزا کھانے کے بعد میں نے چائے بنائی او ر اس کام سے فارغ ہونے کے بعد نیائش نے گاڑی سٹارٹ کی اور ڈاکٹر کے پاس چلا گیا ۔ میں دوبارہ لکھنے میں مصروف ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کو چھ بجے نیائش گھرآیا اس کے ساتھ پری پیکر بھی تھا۔ میں نے کہا، ’’نیائش بھائی اتنی دیر کردی ، خیریت تھی‘‘۔
’’ماڑا پہلے ڈاکٹر کا انتظار کرتا رہا ۔ وہ چار بجے آیا ۔ اس سے ملاتی لکھوائی (میڈیکل سرٹیفیکیٹ) لکھوایا۔ اس کے بعد ڈاک خانے چلا گیا وہاں سے مالک کوایک کاپی رجسٹرڈ پوسٹ کی ہے۔ ان سارے کاموں میں دیر ہوگئی۔ تمہیں تو پتا ہے یہاں کے ڈاک خانے میں کتنے لوگ ہوتے ہیں‘‘۔
پھر میں پری پیکر سے مخاطب ہوا، ’’آپ سنائیں کیا حال ہیں۔ ‘‘۔
’’بالکل ٹھیک ہوں ۔آج جلدی فارغ ہوگیا تھا ۔گھر جارہا تھا راستے میں نیائش بھائی مل گئے انہوں بہت اصرار کیا تو ان کے ساتھ یہاں آگیا۔ میں نے ویسے بھی آنا تھا، آپ کو چوتھا باب واپس کرنے۔ یقیناًپانچوا ں باب مل جائے گا‘‘۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘‘۔ نیائش نے میرے ہاتھ میں لفافہ پکڑایا اور کہنے لگا، ’’اس میں دو مرغیاں ہیں۔ دو کلو چھوٹا گوشت ہے اور ایک کلو قیمہ ۔ آج پری پیکر کھانا بنائے گا‘‘
یہ کہہ کر نیائش کمرے میں جاکر لیٹ گیا ۔ ثقلین نے کھانا بنایا۔ وہ کھانا بھی بناتا جارہا تھا اور میرے ساتھ گپ شپ بھی لگاتا جارہا تھا۔ ہم تینوں نے رات کا کھانا کھایا ۔ ثقلین مجھ سے پانچواں باب لے کر چلا گیا
اور چوتھا باب چھوڑ گیا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ میرا لکھا ہوا ثقلین کو اتنا زیادہ پسند آیا کہ وہ پابندی سے آنے لگا تھا۔ کہاں تو وہ مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا اور کہاں وہ چھٹی ہوتے ہی ہمارے ہاں آجاتا۔ نیائش بھی بڑا حیران تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین نے جلدی جلدی پانچواں باب پڑھنا شروع کیا۔

اگلے دن جب میری آنکھ کھلی تو کسی کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ اٹھو ،اٹھو، ٹرانسفر ، ٹرانسپورٹ ، کنٹون۔ ان تینوں لفظوں کا مطلب تھا کہ کچھ لوگوں کو یہاں سے منتقل کیا جانا تھا، کچھ لوگوں کو کنٹون جانے کاوقت آگیا تھا اور کچھ لوگوں گاڑی میں بٹھا کے اسی جگہ لے جایا جانا تھا جہاں میں نے کل سارا دن گزارا تھا۔ چشمِ زدن میں سارے باتھ رومز بھر گئے۔ سب کے ہاتھ گھٹیا قسم کا سبز رنگ کا ٹوتھ برش تھا اور ایک چھوٹی سی منٹ والی ٹوتھ پیسٹ تھی۔ کچھ لوگ باتھ روم کے باہر اپنی باری کا انتظار کررہے تھے اور کچھ لوگ باتھ روم کے باہر ہی ٹوتھ برش کے اوپر ٹوتھ پیسٹ لگا کے ونہی کھڑے کھڑے ایسے اپنے دانتوں کو اس برش سے رگڑ رہے تھے جیسے انہوں نے ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش پہلی دفعہ دیکھا ہو۔
جن لوگوں کا آج کوئی انٹرویو نہیں، میڈیکل نہیں تھا، کنٹون ٹرانسفر نہیں تھی ان کو سب کو یہیں رہنا تھا۔ یعنی ان تمام لوگوں کو گارنیگے ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ میں ہی ناشتہ ملنا تھا جو کہ اب مہاجروں کا کیمپ بن گیا تھا۔ باقی سب کو اسی جگہ لے جایا جانا تھا جہاں وہ بدبودار نالا تھا۔ اسی بیرک نماں عمارت میں۔ اسی جیل نماں باغ میں۔ اسی نیلی ٹوئیوٹا وین میں ۔ جن لوگوں کو منتقل کیا جانا تھا ان میں میرا بھی نام تھا۔ میں نے ہمیشہ کی طرح اپنی باری کا انتظار کیا۔ وین والے نے اس دفعہ بھی دس چکر لگائے۔ آخری چکر میں ہم تھوڑے سے لوگ بچے تھے۔ اب کہ وین کا ڈراائیور کوئی اور تھا۔ اس نے مجھے انگریزی میں کہا کہ تم فرنٹ سیٹ پے بیٹھ جاؤ۔ میں اس کی ہدایت کے مطابق فرنٹ سیٹ پے بیٹھ گیا۔ یہ ڈرائیور جوان اور خوش شکل تھا۔ اس کے علاوہ خوش اخلاق بھی تھا اور انگریزی بھی جانتا تھا۔ میں اس کے سا تھ مختلف موضوعات پے باتیں کرنے لگا۔ میں اس سے پوچھا ، ’’جو ڈرائیور ہمیں رات کو لے کر آیا تھا وہ اتنے غصے میں کیوں تھا‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اسے غیرملکی پسند نہیں ۔دوسرا جب اس کی شام کی ڈیوٹی ہوتی ہے تو اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جلدی جلدی گھر جائے۔ کل ویسے بھی اتوار تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن کل اس نے مجھے اس جگہ بٹھایا تھا جہاں کتے کو بٹھاتے ہیں‘‘۔
ڈرائیور کہنے لگا، ’’یہ بہت غلط بات ہے ۔اس نے ایسا اس لیئے کیا ہوگا کیونکہ وہ صرف ایک بندے کے لیئے ایک چکر نہ لگانا چاہتا ہوگا۔ میں بہت شرمندہ ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں ۔میں نے ویسے ہی بات کی تھی‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’تم نے ویسے ہی بات نہیں کی۔ تم نے محسوس کیا ، تمہیں برا لگا اس لیئے تم نے بات کی‘‘۔اس تھوڑی سی گفتگو کے دوران ہم اسی بدبودار نالے کے پاس سے گزرے۔ مجھے پتا چل گیا کہ ہمارا مہاجر کیمپ آگیا ہے۔ اس وین والے نے ان سب کو ونہی اتار دیا جہاں میں نے کل رات کا کھانا شام کے چھ بجے کھایا تھا۔ میں نے جیسے ہی ہال میں قدم رکھا کیا دیکھتا ہوں یہاں ناشتے کی تیاری ہورہی ہے۔ کچھ لوگ یہاں پے کام کرنے والے عملے کی مدد کر رہے تھے ۔ ہر میز پے سٹین لیس سٹیل کے جگوں میں چائے کی طرح کی کوئی چیز رکھ رہے تھے۔ اس کا رنگ پیلا تھا لیکن میرے ذہن کچھ اور ہی خیال آیا جس کو میں یہاں لکھ نہیں سکتا کیونکہ جو بھی تھا رزق تھا۔ اس کے بعد ساری میزوں پر جیم ، مارملیڈ اور مکھن کی ٹکیاں رکھ دی گئیں۔ جو عورت ناشتہ تقسیم کررہی تھی اس نے گرج دار آواز میں کہا، ’’بچے اور عورتیں ایک طرف قطار بنا لیں اور چھڑے ایک طرف۔ سارے بچے اور عورتیں ایک لائن میں کھڑے ہوگئے ۔ جنگی قیدیوں کی طرح وہ سب کو ایک ایک بروڈ اور خالی پیالی دیتی جاتی۔ جب ساری عورتوں اور بچوں کو وہ بروڈ اور پیالیاں دے چکی تو اس نے انتہائی کرخت آواز میں کہا، ’’اب تم لوگ آؤ‘‘۔ میں ہمیشہ کی طرح قطار کر آخر میں کھڑا تھا۔ جب میں نے بروڈ اور پیال لی تو مجھے محسوس ہوا میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو افریقہ کے کسی ملک کا باشندہ تھا۔ اس نے انتہائی آہستگی سے کہا، ’’مجھے پتا تھا تم سب سے آخری میں کھانا لینا چاہتے تھے۔ میں ایک طرف چھپ گیا تھا۔میں اسی انتظار میں تھا کہ جب تم کھانا لے لو گے تو میں تمہارے پیچھے آکے کھڑا ہوجاؤں گا۔ میں بالکل ایسا ہی کیا ، اور آج میں سب سے آخری بندہ ہوں جس نے کھانا لیا‘‘۔
’’صبر دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ، اگر آپ کے پاس ہو تو‘‘۔
’’تم کہاں کے ہو‘‘
’’میں پاکستان کا رہنے والا ہوں اور تم ‘‘؟
میں سیرا لیون کا رہنے والا ہوں‘‘۔
’’تمہارا نام‘‘
’’میرا نام جادونے چکوچان ہے، اور تمہارا‘‘؟
’’میرا نام فرشتہ ہے‘‘۔
جو لوگ کھانا تقسیم کررہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’جلدی سے ناشتہ کرو اور اس جگہ کو صاف کرو‘‘۔
جب میں ناشتہ کرچکا تو انتظار کرنے لگا کہ اب میرے لیئے کیا حکم ہوگا۔ اسی اثناء میرا اور چکوچان کا نام پکارا گیا۔ ایک سیکیورٹی گارڈ نے ہم دونوں کو انتظار گاہ میں بیٹھنے کو کہا۔یہ سیکیورٹی گارڈ
اونچا لمبا تھا۔ اس کا رنگ گلابی تھا بالکل ایسے جیسے سالمن مچھلی کا ہوتا ہے۔ اس نے اپنے گلابی سالمن رنگ کے چہرے پے کالے شیشوں کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔ یہ اس کے چہرے پے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ اس نے باری باری اور لوگوں کو بھی بلایا۔ سب کو اس انتظار گاہ میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اس سکیورٹی گارڈ نے ہم سب کو باری باری بلایا ۔اب ہم اس بڑے ہال کے باہر کھڑے تھے جہاں ہم نے فقیروں کی طرح لائن میں کھڑے ہوکر ناشتہ وصول کیا تھا۔ یا یوں کہہ لیجئے جیسے جنگی قیدیوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ میں جہاں کھڑا تھا یہ وہی جگہ تھی جہاں میں ہفتے کی رات آکے کھڑا ہوا تھا۔ سیکیورٹی گارڈ بتا رہا تھا کہ پندرہ دن کے اندر سارے لوگ اس عمارت میں منتققل ہوجائیں گے۔ ابھی اس میں ضروری کام ہورہا ہے۔
پھر سیکیورٹی گارڈ نے کہا، ’’میرے پیچھے پیچھے آؤ‘‘۔
ہم سب اس کے پیچھے ہولیئے۔ یہ ہمیں اس جگہ لے آیا جہاں میں نے پہلی رات گزاری تھی۔ اس نے لوہے کا گیٹ کھولا اور ہمیں اندر داخل ہونے کا حکم دیا۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہویامیں دیکھا یہ وہی جگہ تھی ،وہی کمرہ تھا جہاں میں نے ہفتے کی رات گزاری تھی۔ آج سوموار تھا۔ ہم سب کو ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ اس کمرے سے سے ملحق ایک چھوٹا سا باغ تھا جس سے باہر کا سارا منظرصاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سے گندا نالہ بھی نظر آرہا تھا جس کی بو نے میرے دماغ کے اندر ہلچل مچا دی تھی لیکن اب مجھے کچھ بھی نہ ہوا۔ اتنے میں ہمارے کمرے میں ایک عورت داخل ہوئی اس نے سفید رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فہرست تھے۔ اس نے اونچی آواز میں کہا، ’’آج تم لوگوں کے فنگر پرنٹس لیئے جائیں گے، تصوریں اتاری جائیں گی اور اگر وقت بچا تو کچھ لوگوں کے انٹرویو بھی ہوں گے۔ ان کا میڈیکل چیک اپ بھی ہوگا۔ ہم لوگ ان دنوں تھوڑے سے غیر منظم ہیں۔ مہاجرین کے لیئے نئی عمارت تیار ہوگئی ہے۔ ہم لوگ اپنا تمام سامان وہاں منتقل کررہے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
جس کمرے میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔یہاں کچھ تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ یہ تصاویر کوسوا کے بچوں کے لیئے دنیاں کے مختلف ملکوں کے بچوں نے بنا کر بھیجی تھیں۔ یہاں کچھ رسالے پڑے ہوئے تھے۔ بچوں کے کھیلنے کے لیئے کچھ کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک ٹی وی دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا لیکن وہ لکڑی کے ڈبے میں بند تھا اور اس ڈبے کو تالا لگا ہوا تھا۔ جس دیوار پے ٹی وی لگا ہوا تھا اس کے مخالف سمت پے جو دیوار تھی اس پے ایک پوسٹر لگا ہوا تھا اور اس پے پلاسٹک کوٹنگ ہوئی ہوئی تھی۔ اس پوسٹر پے چار تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ چار مدارج میں کسی چیز کو بیان کرنی کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ پوسٹر اس بات کی تشہیر کر رہا تھا کہ آپ بحفاظت جنسی تسکین کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ یعنی کہ آپ مباشرت و مجامعت کے دوران جنسی بیماری سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
۱) پہلے تصویر میں کنڈوم بنا ہوا تھا اور اس کو کھولنے کا طریقہ دکھایا گیا تھا۔
۲)دوسری تصویر میں یہ دکھایا گیا کہ کیسے کنڈوم کے اوپر کے حصے کو اوپر سے کیسے دبانا ہے
۳)تیسری تصویر میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کنڈوم کو مرد کے جنسی اعضاء پے کیسے چڑھانا ہے اور اس کے اوپر کا حصہ کیسے خالی چھوڑنا ہے
۴)چوتھی تصویر میں یہ دکھایا گیا تھا جب آپ اپنے کام سے فراغت حاصل کرلیں تو اس کو کیسے اتارکے کے پھینکنا ہے۔
اس تصویر کو دیکھ کہ آپ باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بحفاظت مباشرت کے لیئے تھا۔ایک بات مجھے نہ سمجھ آئی کہ اسے یہاں مہاجرین کے کیمپ میں لگانے کا کیا مقصد تھا۔ ایسی ہوسکتا ہے یہ لوگوں کو یہ سکھانے کے لیئے لگایا گیا ہوا کہ اگر آپ کنڈوم کا استعمال نہیں کریں گے تو آپ جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جن میں ایڈز پیش پیش ہے۔ اس پوسٹر کے نیچے جرمن زبان میں لکھا ہوا جو میری سمجھ سے بالا تھا لیکن تصاویر سارا کچھ بتا رہی تھیں۔
میں کمرے میں پڑی ہوئی چیزوں کو دیکھ کے لطف اندوز ہورہا تھا۔ وہ عورت دوبارہ آئی جس نے سفید رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس نے میرا نام پکارا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ ایک شخص نے مجھے بینچ پے بیٹھنے کو کہا۔ میں اس کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے باہر پڑے بینچ پے بیٹھ گیا۔ اس نے انگریزی میں کہا، ’’یہاں بیٹھ کے اپنی باری کا انتظار کرو۔ تھوڑی دیر میں وہ تمہیں فنگر پرنٹس کے لیئے بلائیں گے اور تمہاری تصاویر بھی اتاریں گے‘‘۔
میں اس شخص کو اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا تھا ،’’او کے‘‘۔
یہ کہہ کر میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں کسی نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر بلایا۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ میرے سامنے ایک موٹی سی عورت تھی ۔اس کا رنگ گورا تھا ۔ اس نے سفید رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ مجھے نہیں پتا وہ ڈاکٹر تھی یافنگر پرنٹس کی ماہر تھی۔ اس نے مجھ سے کہا، ’’جب مشین تیار ہوجائے گی تو میں تمہارے فنگر پرنٹس بھی لوں گی اور تمہاری تصویر بھی‘‘۔
میں نے کہا، ’’اوکے‘‘۔
تھوڑی دیر میں اس کی آواز مجھ سنائی دی، ’’اوکے مسٹر فرشتہ ، مشین تیار ہے‘‘۔
یہ بہت ہی جدید قسم کی مشین تھی۔ اس میں کیمرہ بھی نصب تھا، فنگر پرنٹس لینے کی سہولت بھی موجود تھی ۔اور اس مشین کے ساتھ ایک مونیٹر بھی ملحق تھا۔ یعنی یہ کمپیوٹرائزڈ فنگر پرنٹس تھے۔
اس عورت نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس کے گورا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ مجھے فوراً وہ جملہ یاد آیا جو میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔
’’گرم ہاتھ وفا کی نشانی ہوتے ہیں۔ آج پتا چلا اس کے ہاتھ کتنے ٹھنڈے تھے‘‘۔
’’مسٹر فرشتہ تم کہاں ہو۔ تم فنگر پرنٹس لینے میں میری مدد نہیں کررہے ہو۔ مجھے تمہاری ساری انگلیوں اور انگھوٹوں کے نشان لینے ہیں‘‘۔
اس نے میرا سیدھا ہاتھ پکڑا ۔ پہلے ایک انگلی کی پھر دوسری انگلی کی رفتہ رفتہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور انگھوٹوں کے نشان لیئے۔جب وہ دونوں ہاتھوں کے نشان لی چکی تو اس نے کہا، ’’مسٹر فرشتہ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ اب میں تمہاری تصویر لوں گی۔ تم کیمرے کی طرف دیکھو۔ تم نے کیمرے کے اندر جو کاٹے کا نشان ہے اس کو دیکھنا ہے‘‘۔
مجھے ایسا لگا جیسے کوئی پتلی تماشہ ہورہا ہو۔
وہ پھر بولی، ’’مسٹر فرشتہ تمہارا بہت شکریہ۔ اب تم جاسکتے ہو‘‘۔
میں اس کمرے سے نکل کے دوبار ہ اسی کمرے میں آگیا جہاں میں پہلے بیٹھا ہوا تھا۔ اب تک قریباً آدھا دن گزر چکا تھا۔ ہمیں دوپہر کے کھانے کے لیئے بلا لیا گیا۔ ایک سیکیوڑتی گارڈ نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے سمجھایا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ ہم اس کے پیچھے ہولیئے۔ جب ہم ہال میں پہنچے تو کھانا چنا جا چکا تھا۔ آج کھانے میں چاول اور مرغی کسی ساس میں تیار کی گئی تھی۔ میں نے یہ کھانا اپنی مرغوب غذاء سمجھ کے کھایا۔ کھانے کھاتے ہوئے میری نظر ایک لڑکی پے پڑی۔ یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا ،جس کی عمر دو سال ہوگی۔ درمیانے قد کی لڑکی تھی۔ گھنگریالے کالے بال ، خوبصورت چہرے پے کنول کی پتیوں جیسی دو خوبصورت آنکھیں۔ رنگ گورا تھا نہ پتلی نہ موٹی ۔اس کے جسم میں ایک بھلا لگنے والا سڈول پن تھا۔ عمر بیس بائیس سال کے درمیان تھی۔ وہ کھانا کھاکے اپنی بچے کے پاس چلی گئی۔ وہ اس کے ساتھ عربی زبان میں کوئی بات کررہی تھی۔ وہ یقیناًمراکش، تیونس یا الجیریہ کی ہوگی۔ ایسا ببھی ہوسکتا ہے وہ عراق یا فلسطین کی ہو یا کسی اور عربی بولے والے ملک کی ہو۔ مجھے اس بات کا بڑا تجسس تھا کہ یہ لڑکی کہاں کی ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور انگریزی میں ’’ہیلو‘‘ کہا۔ اس طرح ہمارے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس نے فرنچ میں اپنی داستان سنانی شروع کی۔ جو بہت دکھ بھری تھی۔ میں جو کافی حد تک فرنچ زبان بھول چکا تھا۔ اس سے کہا کہ یہاں پے آئے ہوئے سب لوگوں کی داستان اور کہانی دکھ بھری ہے۔ یہاں پے اس ہال میں قریباً ایک سو اسی لوگ ہوں گے۔ زیادہ تر لوگ ہم دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ہم دونوں میں کیا بات چیت ہورہی ہے۔
اس کانام لیلہ بنتِ احمد تھا۔ عربی ملکوں میں اور ان کی تہذیب میں لڑکیاں شادی کے بعد اپنے خاوند کا نہیں اپنے باپ کا نام ساتھ رکھتی ہیں۔ یعنی اس لڑکی کا نام تھا لیلہ اور وہ کسی احمد نامی شخص کی بیٹی تھی۔ عربوں میں باپ کا نام نہ صرف بیٹے کے نام ساتھ آتا ہے بلکہ بیٹیوں کے نام کے ساتھ بھی آتا ہے۔ جیسے طارق بن زیاد۔ یعنی زیاد کے والد صاحب طارق ہیں ۔
افریقہ بہت بڑا برِ اعظم ہے۔ اس میں تریپن (۵۳) ملک ہیں۔ اس میں ہزاروں علاقائی اور صوبائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جیسا کہ آپ کسی ایک ملک کو لے لیں۔ ایک ملک میں تین سو سے زیادہ علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو زبانیں رائج ہیں۔ ان میں ان کی اپنے ملک کی زبان کے ساتھ ساتھ غیر ممالک کی زبانیں بھی رائج ہیں جن ملکوں نے ان پر قبضہ کیا۔ افریقہ کے کئی ممالک میں عربی بولی جاتی ہے۔ جب مسلمانوں نے افریقہ میں قدم رکھا تو انہوں جہاں ان لوگوں کو اپنے مذہب سے متعارف کروایا وہاں ان ملکوں میں عربی زبان بھی رائج کی۔ افریقہ کے ملکوں میں عربی، فرنچ، انگلش اور پرتگالی زبان رائج کی۔ اس کے علاوہ ساؤتھ افریقہ میں انگریزی اور ڈچ زبان کی امیزش سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جس کانام ہے افریکان۔ افریقہ کی پرانی زبانوں میںآمہیرک اور سواہیلی ہیں۔ یہ زبانیں دنیا کی پرانی زبانوں میں سے ایک ہیں۔
لیلہ فرنچ زبان اس لیئے بولتی تھی کیونکہ وہ مراکش کی رہنی والی تھی۔ مراکش ،تیونس اور الجیریہ یہ تین ممالک ایسے ہیں جہاں فرانس کا قبضہ تھا ۔اس لیئے یہاں عربی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان بھی رائج ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جن جن ممالک پے انگریزوں نے قبضہ کیا وہاں انگریزی زبان رائج کی۔
مجھے یہ لڑکی لیلہ بہت پسند آئی۔ مجھے اس کے چہرے پے ہلکی سی مسکراہٹ بہت بھائی۔ میں لڑکیوں کے معاملے بہت بیوقوف ہوں۔ میں ابھی سوزی کے فریب سے ہی نہ نکل سکا تھا۔ اب یہ پہلی نظر کا پیار۔ گو کہ اس لڑکی ساتھ ایک بچی بھی تھی ۔ مجھے کیسے پتا چلا کہ یہ اس کی بیٹی تھی نہ کہ بیٹا۔ جب میں نے اس پوچھا تو کہنے لگی ۔میرے پاس گلابی رنگ کے کپڑے نہیں تھے۔ مجھے مہاجر کیمپ والوں نے
جوبھی کپڑے دیئے میں نے پہنا دیئے۔ اس لیئے پتا نہیں چلتا کہ یہ لڑکی ہے یا لڑکا۔
میں نے دل ہی دل میں بے شمار خاکے بنا لیئے تھے۔ میں نے خود کو ذہنی طور پے تیار کرلیا تھا کہ میں اس سے شادی کرلوں گا۔ بھلے وہ ایک بچی کی ماں ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا جیسے ہی مجھے کوئی مناسب موقع ملا میں اسے اپنے دل کی بات کہہ دوں گا۔ میرے دل کا محل اس وقت چکنا چور ہوا جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کا شوہر اٹلی کے شہر میلانوں میں رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جیسے ہی اس کے رہنے کا انتظام ہوجائے گا وہ مجھے ملنے آئے گا۔ میں دکھیاء دل کے ساتھ ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ۔مجھے یہاں پے کام کرنی والے عملے میں سے ایک عورت نے آواز دی۔ میں اس کے پاس گیا تو کہنے لگی، ’’تم میرے ساتھ آؤ‘‘۔تھوڑے توقف کے ساتھ وہ دوبارہ مجھ سے مخاطب ہوئی، ’’تم نے ٹائیلٹ صاف کرنے ہیں۔میں تمہیں بتاتی ہوں سامان کہاں پڑا ہے‘‘۔ میں نے لیلہ کو فرنچ زبان میں ’’ایکسکیوزے موا‘‘ کہا او ر اس کے ساتھ ہولیا۔جب میں عورت کے ساتھ جارہا تھا راستے میں دو بندے کھڑے تھے۔ وہ میرے بارے میں بات کررہے تھے۔
’’پاکستانی ہے جی‘‘
’’نہیں نہیں کسی اور ملک کا ہے‘‘۔
’’نہیں جی میں نے نام دیکھا ہے اس کا‘‘۔
’’لیکن یہ تو انگریزی اور پتا نہیں کوئی اور زبان بھی بولتا ہے۔دیکھا نہیں اس لڑکی کے ساتھ کس طرح گفتگو کررہا تھا‘‘۔
میں ان کے پاس گیا اورکہا، ’’آپ کا اندازہ بالکل ٹھیک ہے میں پاکستانی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں اس عورت کے سا تھ چلا گیا کیونکہ مجھے سوئٹزرلینڈکے مہاجر کیمپ کے ٹائیلٹ صاف کرنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس مہاجر کیمپ کے باغ میں بیٹھا تھا۔ ایک ایسا باغ جو جیل نماں تھا۔ میں وہاں بیٹھے بیٹھے سوچنے لگاکہ میں کس جگہ رہ رہا ہوں۔ یہ ملک اس کانام سوئٹزرلینڈ ہے۔ جس کو لوگ زمینی جنت کہتے ہیں۔ جس ملک میں بے شمار جھیلیں ہیں۔ جس میں جنت نظیر وادیاں ہیں۔ جس میں ریلوے کا بہترین نظام ہے۔ جس ملک میں برف بوش پہاڑیاں ہیں۔ جس ملک میں جنگِ فراؤ ،مونتے روسا اور مونک جیسی پہاڑیاں ہیں۔ میں ظہیر الدین بابر کے بارے میں سوچنے لگا۔ جس نے کشمیر کو دیکھ کر کہا تھا، ’’اگر دنیا میں کہیں جنت ہے تو یہیں ہے یہیں ہے۔ کیا سوئٹزرلیند دنیا میں جنت ہے یا کشمیر جنت ہے۔ جہاں میں رہ رہا ہوں کیا جنت ہے ،دوزخ ہے یا برزخ ہے۔ میں خود کو دانتے الیگیئیری(dante allighieri) کی کتاب ڈیوینا کومیدیاء (divina commedia)کے کسی حصے میں نہیں پا رہا تھا۔ نہ میں جنت میں تھا، نہ میں دوزخ میں تھا نہ ہی میں برزخ میں تھا ۔پھر میں کہاں ہوں۔جب سے میں اس مہاجر کیمپ میں آیا تھا مجھے ہمیشہ کوئی نا کوئی اس خیالوں کے سمندر سے باہرلے آتا۔ اب بھی مجھے
کسی نے آواز دی،’’او پاکستانی، رات کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ میں نے کہا، ’’ابھی تو دن کے ساڑھے پانچ بجے ہیں‘‘۔
اس نے کہا، ’’مجھے کیمپ کے عملے نے کہاہے کہ جتنے لوگ بھی باغ میں ہے انہیں اندر بلالو‘‘۔
جون کا مہینہ تھا ۔بہت گرمی تھی۔ چونکہ اس شہر کے پاس جھیل ہے اس لیئے جسم میں ایک عجیب قسم کی چپچپاہٹ تھی۔ فضاء میں ایک عجیب قسم کی گھٹن تھی۔ کچھ تو میں اس جیل نماں باغ سے گھبرا گیا تھا کچھ گرمی تھی اور کچھ رات کے کھانے کی وجہ سے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کوئی مجھے رات کا کھانا دن کے ساڑھے پانچ بجے دے گا۔ جون کے مہینے میں سورج ویسے بھی دیر سے غروب ہوتا ہے۔ خیر مرتا کیا نا کرتا۔ میں ہال کے اندر داخل ہوا۔ دوبارہ قطار میں کھڑا ہواگیا۔ جنگی قیدیوں کی طرح، دوسری جنگِ کے یہودیوں کی طرح۔ نہ میں جنگی قیدی تھا، نہ ہی میں یہودی تھا۔ مجھے ایک بات سمجھ نہ آئی کہ سوس حکومت نے مہاجرین کو کھانا دینے کا اس طرح کا نظام کیوں رائج کیا ہوا ہے۔ یہ ان کا ملک تھا وہ جیسے چاہتے کرتے اور جیسے چاہیں کریں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مجھے درخواست دے کر تو نہیں بلایا، میں خود اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں۔ ان کا جو بھی طریقہ کار کا اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔مجھے اس عورت کی آآواز سنائی دی جو کھانا تقسیم کررہی تھی۔ ’’چھ لوگ اور اپنی اپنی پلیٹیں پیش کرو‘‘۔ اس دفعہ کوئی اٹالین انداز کا کھانا تھا۔ نوڈلز، بروڈ، ساس، سلاد اور ایک ایک سیب۔ یہ چیزیں اس نے ہم سب کی پلیٹوں میں ڈال دیں۔
اس ہال میں ہم کوئی سو قریب لوگ ہوں گے۔ سارے کے سارے لکڑی کی لمبی میزوں پے اپنی اپنی پلیٹیں رکھ کے کھانا کھا رہے تھے۔ ان میزوں کی خوبی یہ تھی کہ یہ بند بھی ہوجاتے تھے۔ میں بڑے شوق سے کھا رہا تھا حالانکہ مجھے اس وقت بالکل بھوک نہیں تھی۔ ابھی میں کھانے میں مصروف تھا ۔ جن لوگوں نے کھانا تقسیم کیا تھا ان میں سے ایک مرد بولا ، ’’تم لوگوں نے آدھے گھنٹے میں کھانا ختم کرنا ہے۔ اس
کے بعد اس جگہ کو صاف کرنا ہے۔ کچھ لوگ کچن میں صٖفائی کا کام کریں گے۔ کچھ برتن دھوئیں گے۔ کچھ ہال کی صفائی کریں گے۔ کچھ باغ کی صفائی کریں گے اور کچھ لوگ ٹائیلٹ صاف کریں گے۔ جب آپ سب لوگ اس کام سے فارغ ہوجائیں گے تو آپ سب کو گارنیگے ستراسے والے ہوٹل گارنیگے ہوٹل منتقل کردیا جائے گا‘‘۔
سب نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا۔ اس کے بعد کچھ لوگ کچن میں چلے گے۔ کچھ باغ میں، کچھ ہال میں، کچھ ٹائیلٹ صاف کرنے چلے گئے۔ میں کچن میں چلا گیا۔ وہاں تین چار عورتیں کام کررہی تھیں۔ میں نے ایک سے کہا ، ’’میں کچن میں تمہاری مدد کراؤں گا۔ انہوں نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر میں اس عورت سے اجازت لے کر برتن دھونے والی مشین میں برتن رکھے اور مشین چلا دی۔ وہ بڑے حیران ہوئے۔ ان میں سے ایک مجھے کہنے لگی، ’’تمہیں برتن دھونے والی مشین استعمال کرنی آتی ہے‘‘۔ میں نے کہا، ’’یہ کون سا مشکل کام ہے۔ پلیٹوں کا گند ، گند کے ڈبے میں پھینکوں۔ اس کے بعد پلیٹیں ترتیب سے مشین میں رکھنی والی ٹریز میں ترتیب سے رکھ دو ۔ا س کے بعد مشین چلا دو۔ میں نے اس مشین میں قریباًتین سو پلیٹیں دھوئیں۔ میں انہیں یہ نہیں بتایا کہ جب میں اٹلی آیا تو میں نے پہلا کام ہی یہی کیا تھا۔ اس کے بعد مجھے مالک نے ویٹر کے کام پے لگا دیا تھا۔ ہم روزانہ ڈھیروں برتن دھوتے۔
جب میں برتن دھو چکا تو ان میں سے ایک عورت نے مجھے ایک سیب دیا۔ کہنے لگی، ’’تم نے بہت کام کیا ہے۔ ایک سیب لے لو۔ تمہیں جب بھی بھوک لگے تو ہم سے آکے مانگ لیا کرو‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا کہ میرے ساتھ اتنی ہمدردی کیوں۔ میں کچن سے باہر آیا اور وہ سیب انگولا کے اس لڑکے کو دے دیا جس نے ا س دن مجھے کافی پلائی تھی۔ جب ہم لوگ سارے کاموں سے فارغ ہوچکے تو انہوں نے ہمیں دس دس کی ٹولی میں گارنیگے ہوٹل منتقل کرنا شروع کردیا۔ اس کا نام گارنیگ ہوٹل نہیں تھا بلکہ شلافن ہائم یعنی سونے کا گھر یا جگہ تھا لیکن چونکہ پہلے یہ ہوٹل تھا اس لیئے اسے سب اسی نام سے پکارتے تھے۔ اب بھی نئے لوگ آرہے تھے۔ روز کوئی نا کوئی آتا۔ جیسے میں ہفتے کی رات یہاں وارد ہوا تھا۔ اب دو دن بیت چکے تھے۔
جب ہمیں واپس ہوٹل لایا گیا تو شام کے ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ اتفاقاً ان دنوں موسم بہت اچھا تھا۔ آسمان صاف تھا۔ یہاں چونکہ فضاء میں آلودگی بالکل نہیں تھی اس لیئے آسمان کچھ زیادہ ہی نیلا دکھائی دے دیتا تھا۔ میں گارنیگے ہوٹل کے ٹیرس میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں ہر جگہ لوگ ہی لوگ تھے۔ ہر جگہ کوئی نا کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ جھروکے، ٹیرس، کوریڈور۔جہاں جس کو جگہ ملی تھی بیٹھا ہوا تھا۔ بچے، جوان، عورتیں مرد، گورے، کالے ہر طرح کے لوگ تھے یہاں پے۔ حتیٰ کہ ایک عورت حاملہ بھی تھی۔ اس کے بچہ ہونے میں ابھی تین ماہ باقی تھی۔ مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ اس حالت میں سفر کیسے کرکے آئی تھی۔ اس ہوٹل کی ہر جگہ پے کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ تولیئے، انڈرویئرز، عورتوں کے بریزیئر،ٹی شرٹس،۔ جس کو جہاں جگہ ملی اس نے اپنے کپڑے دھو کے سوکھنے کے لیئے لٹکائے ہوئے تھے۔ گو کہ اس کی اجازت نہیں تھی لیکن اتنے لوگوں کو قابوں میں کرنا مشکل تھا۔ مختلف زبانیں، مختلف تہذیبیں۔ ہر روز کوئی نا کوئی نیا بندا بلکہ کئی نئے لوگ آتے۔
میں ٹیرس میں بیٹھے بیٹھے ان ساری چیزوں کا مشاہدہ کررہا تھا۔ مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے ایسا لگا جیسے میرا جسم چپک رہا ہو۔ اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ فضاء میں نمی بہت تھی۔ گرمی بھی بہت تھی۔ میں نے سوچا چلو باتھ میں جاکر نہاتا ہوں۔ جب وہاں پہنچا تو باتھ روم اندر سے بند تھا۔ میں اسی ہوٹل کے ایک دوسرے باتھ میں چلا گیا۔ اس کا کوموڈ بند تھا۔ یا یوں کہئے کہ اس کی ڈبلیو سی کا پانی کی نکاسی کا نظام خراب ہوا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے باتھ میں بہت زیادہ بدبو تھی۔ میں نے بدبو کی پرواہ کیئے بغیر موقعے کا فائدہ اٹھایا اور جلدی جلدی صابن لگاکے جسم پے پانی گرایا۔ نہاکر جسم کو تولیئے سے سکھایا اور ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد میں دوبارہ آکے ٹیرس میں بیٹھ گیا۔ میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ اکیلا بیٹھنا پسند کرتا تھا۔
میں تنہا بیٹھا اپنی تنہائی کا مزہ لے رہا تھا۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا۔ اسے نہ جانے کہاں سے پتا چل گیا تھا کہ میں پاکستانی ہوں۔ مجھے آتے ہی پنجابی میں کہنے لگا،’’تہاڈا ناں ٹرانسپورٹ
لسٹ اچ اے ‘‘ (آپ کا نام ٹرانسپورٹ لسٹ ،میں ہے)۔
میں نے کہا، ’’اس اطلاع کے لیئے بہت بہت شکریہ‘‘۔
پھر کہنے لگا، ’’تمہیں پتا ہے میں پاکستانی ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں مجھے پتا ہے تم پاکستانی ہو‘‘۔
’’تو پھر تم ہر وقت افریقی لڑکوں کے ساتھ کیوں بیٹھے رہتے ہو‘‘۔
’’کیوں کہ مجھے پسند ہے‘‘۔
’’تمہارا کیا مسئلہ ہے۔ تم نے کن بنیادوں پر سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ تم سوئٹزرلینڈ کیوں آئے ہو‘‘؟
اس نے ایک جملے میں مجھ سے کئی سوال ایک ساتھ کرڈالے۔یہی ایک وجہ ہے کہ میں ایشین لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتا۔ وہ پہلی ملاقات میں ہی بہت سے ذاتی سوال کردیتے ہیں۔حالانکہ یہ تہذیب کے خلاف ہے اور اخلاقی نقطہ ء نگاہ سے بھی یہ بری بات ہے۔
میں نے اسے جواب دیا، ’’میں گے ہوں۔ ہم جنس پرست ہوں۔ تمہیں پتا ہے پاکستان اسلامی ملک ہے ۔وہاں پے اس کام کی اجازت نہیں۔ میرے باپ کو بھی نہیں پسند تھا۔ اس لیئے میں یہاں آگیا ہوں‘‘۔
وہ میرے اس طنز و مزاح بھرے جملے کو نہ سمجھ سکا۔ اس نے پھر سوال کرڈالا، ’’تمہارے اور بھی بہن بھائی ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں تھے لیکن وہ سار ے رو ڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے۔ صرف میں بچا ہوں‘‘۔
اس لڑکے کو میرے دونوں جواب پسند نہ آئے اور وہ چلا گیا۔ میں دل ہی دل میں سوچنے لگا اچھا ہوا جلدی جان چھوٹ گئی۔
سیکیورٹی گارڈ کی گرج دار آواز سنائی دی، ’’سب لوگ یہاں سے اٹھو۔ تم سب مل کے ٹیرس ،کچن، ہال، ٹائیلٹ اور ڈائننگ ہال صاف کرو۔ میں اور ایک لڑکا مل کے ٹیرس صاف کرنے لگے۔ میں نے ٹیرس میں رکھی ساری پلاسٹک کی کرسیاں اکھٹی کیں اور ایک کونے میں رکھ دیں۔
اس کے بعد یہاں پڑے ہوئے سگرٹوں کے ادھ جلے ٹکڑے، ان کے فلٹرز ، خالی پلاسٹک کی بوتلیں، پلاسٹک ریپرز اکھٹے کیئے۔ ہم دونون نے مل کے ٹیرس کو بہت اچھی طرح صاف کردیا۔ سیکیورٹی گارڈ مجھے کام کرتے ہوئے بڑے غورسے دیکھ رہا تھا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’تم کام بڑے اچھے طریقے سے کرتے ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کام تھوڑی کرتا ہوں۔ میں تو وقت گزارتا ہوں۔ یہاں پے کچھ بھی کرنے کو نہیں ہوتا۔ نہ کوئی کتاب، نہ کاغذ نہ قلم ۔وقت کو گزارنے کا اس اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ آپ کسی نا کسی کام میں خود کو مصروف رکھیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’تمہارا فلسفہ مجھے پسند آیا ہے۔ یہاں پے کئی مہاجر آتے ہیں وہ کام کرنا پسند نہیں کرتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہر شخص زندگی کو اپنے انداز سے دیکھتا ہے‘‘۔
وہ بڑا حیران ہوا،کہنے لگا، ’’تم کہاں کے رہنے والے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’پاکستان‘‘۔
اس نے مسکرا کے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا، ’’مشرف کا کیا حال ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہی ہوگا‘‘�آ’’تم پاکستان کس جگہ کے ہو‘‘
’’میں راولپنڈی کا ہوں ‘‘۔
’’یہ تو اسلام آباد کے پاس ہے‘‘۔
’’تمہیں کیسے پتا ہے‘‘
’’الیکٹرونک میڈیاء نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ ویسے بھی میرا جغرافیہ اتنا کمزور نہیں‘‘۔
میں آج فٹبال میچز نہ دیکھ سکا۔ میں نے متجسس انداز میں پوچھا، ’’آج فٹبال کا کیا ہوا‘‘
تو کہنے لگا، ’’امریکہ نے میکسیکو کو دو گول سے ہرا دیا ہے اور دوسرے میچ میں برازیل نے بیلجیئم کو دو گول سے ہرا دیا ہے۔تمہیں فٹبال سے کیسے لگاؤ ہے تمہارے ملک میں تو کرکٹ کھیلی جاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے تو مجھے نہ کرکٹ سے لگاؤ ہے اور نہ ہی فٹبال سے لیکن جب فٹبال کا ورلڈ کب ہوتا ہے تو جیسے ساری دنیا اس کو شوق سے دیکھتی ہے اس طرح میں بھی دیکھنے کی حد تک لگاؤ رکھتا ہوں لیکن سارے میچز کبھی نہیں دیکھے۔ اس دفعہ خلافِ توقع سینیگال کی ٹیم کواٹر فائینل میں آئی ہے تو ذرا زیادہ ہی دلچسپی لینے لگا ہوں‘‘۔
اس نے پرجوش انداز میں کہا، ’’اصل میچز تو کل ہیں۔ ساؤتھ کوریا اور اٹلی کا میچ ہے پھر ترکی اور جاپان کا‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’تم کیا چاہتے ہوں کل کون سی ٹیمیں جیتیں‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’پہلا میچ تو اٹلی کو جیتنا چاہیئے اور دو سرا کوئی بھی جیت جائے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’اٹلی کیوں ؟ساؤتھ کوریا کیوں نہیں‘‘؟
تو کہنے لگا،’’کیونکہ میرے ماں باپ اٹالین ہیں۔ میں سوس شہری ہوں لیکن میری روح اٹالین ہے‘‘
میں نے کہا، ’’تم کہاں کے ہو، میرا مطلب ہے تمہارے ماں باپ اٹلی کے کون سے علاقے سے آئے ہیں‘‘۔
اس نے متجسس ہوکر پوچھا، ’’تم اٹلی کے بارے میں جانتے ہوں‘‘۔
میں نے جواب میں اسے وہی کہا جو اس نے مجھے کہا تھا، ’’تم تو جانتے ہوں الکیٹرانک میڈیا ء کو‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’ہاں ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ ویسے میرے ماں باپ سسلی کے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’سسلی تو جزیرہ ہے۔ وہاں کس شہر کے ہیں‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’کتانیاں (catania)کے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے کل اگر اٹلی جیت جائے تو تمہیں خوشی ہوگی لیکن جاپان سے ترکی جیت جائے تو مجھے خوشی ہوگی‘‘َ
’’وہ کس لیئے‘‘۔
’’اس لیئے کہ ان کی ٹیم بہت اچھی ہے‘‘
’’یوں کیوں نہیں کہتے ، اسلامی ملک ہے‘‘
میں نے کہا، ’’کہہ سکتے ہیں۔ سینیگال کے بعد ترکی دوسرا مسلمان ملک ہوگا جو کواٹر فائینل میں آئے گا‘‘۔
ہم دونوں میں ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور سیکیورٹی گارڈ آیا اور اس نے کہا، ’’ہال کو خالی کردو کیونکہ یہاں بیٹھنے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
اس گارڈ کی بات پے عمل کرتے ہوئے میں اور دوسرے لوگوں نے ہال ،ٹی لاؤنج، ٹیرس خالی کردیا اور اپنے کمروں کی راہ لی۔میں نے جاتے جاتے اسے کہا، ’’کل میں امید کرتا ہوں کہ اٹلی اور ترکی جیت جائیں‘‘۔
اس نے جواب دیا، ’’ترکی کا تو مجھے پتا نہیں لیکن اٹلی ضرور جیت جائے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’جیسا تم سوچتے ہو ویسا ہی ہو لیکن فٹبال میچز میں کئی دفعہ عجیب و غریب واقعات بھی پیش آجاتے ہیں‘‘۔
اس نے اٹالین میں کہا، ’’ویدآموں vediamo یعنی دیکھتے ہیں‘‘
میں نے جواب میں کہا، ’’چاؤ، چس ‘‘۔ ان دو دنوں میں میں نے یہ دو نئے لفظ سیکھے تھے۔
اس کو یہ کہہ کر میں اسی راستے سے گھوم کر جو تہ خانے سے اوپر کو آتا تھا، سیڑھیاں طے کرتا ہوا تیسری منزل پے پہنچا۔ راستے میں اب بھی لوگ بیٹھے تھے۔ میں اپنے کمرے میں آیا ۔انتہائی خاموشی لوہے کی چھوٹی سی سیڑھی سے چڑھ کے دوسری منزل پے اپنے بستر پے آگیا۔ لیٹتے ہی سوچنے لگا۔ میں نے کتنی پر آسائش زندگی گزاری ہے۔ مجھے سوس آئے ہوئے ابھی دو دن ہوئے ہیں اور میری دنیا ہی بدل گئی ہے۔ میں یہاں آکے مہاجر کیمپ کے ٹائیلٹ بھی صاف کرچکا ہوں۔ یہاں اس ہوٹل کا ٹیرس بھی صاف کرچکا ہوں۔ کل برتن بھی دھوئے۔ مجھے اپنے دادا کی یاد بڑی شدت سے ستانے لگی۔ وہ کہتے تھے۔ تین چیزیں انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہیں۔ کتاب، سفر اور عورت۔ یہ تینوں چیزیں میر ی زندگی میں آچکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

















۶

No comments:

Post a Comment