Sunday, June 5, 2011

PASSE AYENA (NEW NOVEL) BY SARFRAZ BAIG




(
۱)
یہ ستمبر
۲۰۰۲ ؁ کی ایک چمکیلی صبح تھی۔ جیسے ہی میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے بسترکے ساتھ ملحق میز پے رکھی ہوئی گھڑی پے نظر ڈالی۔ ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ میں پانچ دن کام کرتا ہوں اور روز صبح سویرے کام پے چلا جاتا ہوں۔ ہفتے اور اتوار کو میری چھٹی ہوتی ہے۔ اس لیئے جمعے کی رات ، رات دیر تک دوستوں سے گپ شپ رہتی ہے ۔ کبھی ٹی وی پے کوئی پروگرام دیکھ لیتا ہوں ، کبھی کبھی تاش کی بازی بھی چل جاتی لیکن میں تاش کھیلنا زیادہ پسند نہیں کرتا۔ اس لیئے میں یا تو ٹی وی دیکھ لیتا ہوں یا کوئی کتاب پڑھ لیتا ہوں۔ اس کے بعد جی بھر کے سوتا ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ سب سے پہلے سنک میں پڑے ہوئے رات کے گندے برتن دھوئے اور اس کے ساتھ ساتھ چولہے پے چائے بھی رکھ دی۔ اس دوران میرے دوست فرشتہ کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے الماری سے دو کوآساں (croissant) نکالے ان کو چھری کی مدد سے درمیان سے کاٹا اور ان کے اندر مکھن لگایا ا س کے بعد اس نے ان کو مائیکرو ویو میں رکھ دیا۔ چائے جب تیار ہوچکی تو میں نے اس کو پیالیوں میں ڈالا ااور اس نے پلیٹ میں دونوں کوآساں (croissant) رکھے۔ ہم دونوں نے ابھی ناشتہ شروع ہی کیا تھا کہ ہمارے گھر کی گھنٹی بجی۔ میں آدھا کوآساں کھا چکا تھا۔ میں نے باقی ماندہ کوآساں پلیٹ میں رکھا اور انٹر کام پے آنے والے سے پوچھنے لگا کہ کون ہے۔ دوسری طرف سے جواب آیا کہ پری پیکر ہے۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔ چند لمحوں میں پری پیکر ہمارے سامنے موجود تھا۔ میں نے حسبِ عادت اس سے چائے کا پوچھالیکن وہ کہنے لگا کہ میں بار سے کوفی پی کر آیا ہوں۔ فرشتہ تو اپنی چائے اور کوآساں لے کر ایک طرف ہوگیا لیکن میں اور پری پیکر ہمیشہ کی طرح گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ میرا دوست پری پیکر ، فرشتہ کو بالکل پسند نہیں کرتا کیونکہ فرشتہ بہت زیادہ منہ پھٹ ہے اور عجیب و غریب گفتگو کرتا ہے۔
پری پیکر کا اصل نام ثقلین ہے لیکن میں اس کو پری پیکر کہتا ہے کیونکہ پاکستان ٹیلی ویژن پے کافی پہلے ایک ڈرامہ چلا تھا ۔اس میں ایک کردار کا نام ثقلین پری پیکر ہوتا ہے۔ اب جب بھی کسی کا نام ثقلین ہو ،پری پیکر برجستہ و فلبدیہہ منہ سے نکل جاتا ہے۔ اب اریزو میں سارے اسے پری پیکر کے نام سے ہی جانتے ہیں اس کے اصل نام ثقلین سے اسے کوئی نہیں بلاتا۔ ثقلین پاکستان میں خبریں اخبار میں کام کرتا تھا۔ اس کے پاس ادب و ثقافت اور دیگر اصنافِ فنونِ لطائف کی بیٹ تھی۔ جو لوگ اخبار سے منسلک ہیں وہ اس بات سے واقف ہوں گے کہ بیٹ کیا ہوتی ہے۔ یہ کسی پرندے کی بیٹ نہیں۔ ثقلین پری پیکر نے صحافت میں ایم اے کیا اور کئی اخباروں کے لیئے مفت کام کرتے کرتے اسے ایک اخبار میں کام مل گیا جو اسے فی خبر سو روپے دیتے تھے۔ جب اس کو تھوڑا بہت تجربہ ہوگیا تو اسے خبریں اخبار میں نوکری مل گئی۔ انہوں نے اس کی پانچ ہزار تنخواہ مقرر کی۔ شروع میں تو ثقلین بسوں اور ویگنوں پے خوار ہوتا ہوا جائے وقوع پے پہنچا کرتا لیکن پھر اس نے ایک پرانا سا موٹر سائیکل خرید لیا۔ موٹر سائیکل کا اسے یہ فائدہ ہوا کہ اخبار والوں نے اسے پٹرول کے پیسے بھی دینے شروع کردیئے ۔ اس کے علاوہ وہ اس کے موبائیل فون کا بل بھی ادا کردیا کرتے اگر وہ ایک ہزار روپے تک ہوتا۔ آہستہ آہستہ اسے اخبار میں بطور صحافی کام کرنے کا طریقہ آگیا۔ جو مشکلات اسے شروع میں پیش آئیں ان سے اب وہ آزاد ہوچکا تھا ۔ اخبار میں کام کرتے کرتے ایک عجیب و غریب واقع پیش آیا۔ اڈیٹر نے اپنی جان بچانے کے لیئے ثقلین کا نام دیا حالانکہ کہ اس خبر کا ثقلین سے دور دور سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ مرتا کیانہ کرتا۔ اخبار کی نوکری چھوڑکے ایک نیوز اجینسی میں کام کرنے لگا۔ثقلین کو نیوز اجینسی میں کام کرتے ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ اسے جرمنی میں کانفرنس کا دعوت نامہ ملا ۔ ویزہ ملنے میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئی اور ٹکٹ اس نے اپنی جیب سے خریدا ۔ اس طرح ثقلین جرمنی آگیا اور جرمنی سے اٹلی۔ اس نے نیوز اجینسی کو فون کردیا کہ اب وہ واپس نہیں آئے گا۔ یہ پہلا شخص نہیں تھا۔ اخبار میں کام کرنے والے اکثر باہر جانے کے لیئے یہ راسطہ اختیار کرتے ہیں۔
ثقلین کی عمر قریباً تیس سال ہے ۔ قدپانچ فٹ سات انچ ، رنگ گورا ، سر پے گھنے کالے بال ، چہرے پے گھنی داڑھی اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ وہ پری پیکر بالکل نہیں لگتا لیکن اریزو میں سبھی لوگ اسے اسی نام سے بلاتے ہیں۔ وہ ہر موضوع پے بیلاگ تبصرہ کرتا ہے ۔ شاعری ، نثر، ڈرامہ، فلم قریباًوہ ادب کی تمام اصناف سے گہرا لگاؤ رکھتا ہے۔ چند سال مختلف اخباروں کے ساتھ گزارنے کے بعد اور صحافت کی گرم سرد ہوائے کھانے کے بعد اسے حالاتِ حاضرہ پر بھی کافی ملکہ حاصل ہوگیا تھا۔
ثقلین نے اپنا پہلا قدم اٹلی کے شہر میلانوں میں رکھا۔ جیسے ہی پرمیسو دی سجورنوملی میلانوں چھوڑ کر میرے پاس اریزو آگیا۔ پہلے پہل تو اسے یہاں کا ماحول پسند نہ آیا لیکن وقت کے ساتھ اس نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیا۔ آج کل ثقلین پری پیکر لوہے کی ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ پانچ دن کام کرتاہے اور دو دن فارغ۔ لوگ کہتے ہیں جسے ایک دفعہ صحافت کا چسکہ پڑ جائے وہ زندگی میں کوئی اور کام نہیں کرسکتا یا یوں کہنا چا ہیئے کہ وہ کسی کام کا نہیں رہتا لیکن ثقلین نے اس بات کو غلط ثابت کر دکھایا۔ وہ پانچ دن لوہے کی فیکٹری میں کام کرتا ہے اور باقی کے دو دن دیگر سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ وہ روم سے جاری ہونے والے اردو اخبار ’’آزاد ‘‘ کے لیئے پابندی سے کالم لکھتا ہے ۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ’’اردو نیوز ‘‘ کے لیئے بھی کالم لکھتا ہے۔ وہ چند ایک آن لائن اخباروں کے لیئے بھی لکھتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنا شوق بھی پورا کرلیتا ہے اور اس کی علم و ادب کی پیاس بھی بجھتی رہتی ہے۔ مذہبی تقریبات میں ضرور شامل ہوتا ہے۔ ان تقریبات میں اسے کچھ نا کچھ لکھنے کو مل جاتا ہے اور لوگوں سے رابطہ بھی بڑھتا ہے۔ پری پیکر کا خیال ہے کہ زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہیئے ۔ بنا مقصد کے انسان کی زندگی جانوروں کی طرح ہوتی ہے۔ آج بھی جب وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں کتاب تھی۔ وہ آزاداخبار کے لیئے کوئی مضمون لکھنا چاہتا تھا۔ میں چونکہ ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں اس لیئے وہ خوشی سے اپنے دل کی بات مجھ سے کہہ لیتا ہے۔
میں نے پوچھا ،’’پری پیکر تم مجھے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہیں کوئی خاص بات نہیں ۔ روم سے اڈیٹر کا فون آیا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا اخبار چھپنے کے لیئے جارہا ہے ۔تمہارے مضمون کا انتظار ہے ۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیالکھوں‘‘۔
’’تمہیں اتنی چیزوں کے بارے میں علم ہے۔ کسی چیز کے بارے میں لکھ دو۔ اخبار کا پیٹ ہی تو بھرنا ہوتا ہے۔ تمہیں کون سا کالم لکھنے کے پیسے ملتے ہیں‘‘۔
’’یار پیسوں کا کیا کرنا۔ میں اپنا شوق پورا کرتا ہوں اور اردو زبان کی خدمت بھی ہوجاتی ہے۔ ہر چیز کو نفع نقصان کے ترازوں میں نہیں تولنا چاہیئے‘‘۔
’’تم اریزو کی کسی چیز کے بارے میں لکھ دو‘‘۔
’’میرا دل چاہتا ہے کہ اریزو کی تاریخ کے بارے میں لکھوں‘‘۔
فرشتہ نے دور سے کہا، ’’کسی چوہدری کا انٹرویو کردیں ثقلین صاحب۔ وہ آپ کو پیسے بھی دے گا اور لوگوں سے آپ کو متعارف بھی کروائے گا‘‘۔
’’فرشتہ صاحب مشورے کا شکریہ ۔ میں صحافی ہوں اور میرے اریزو میں لوگوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ لوگ مجھے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘‘۔
فرشتہ اس بات پے بڑا حیران تھا کہ سارا اریزو اسے پری پیکر کہہ کر بلاتا ہے اور یہ شخص جسے وہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا وہ اسے ثقلین کہہ کر بلاتا ہے۔ یہ بات قابلِ ستائش بھی تھی اور حیران کن بھی۔
’’فرشتہ صاحب آپ کے ذہن میں اس کے علاوہ کوئی خیال ہو تو بتائیں‘‘۔
’’میری کہانی لکھ دیں شاید لوگوں کو دلچسپ لگے‘‘۔
’’میں کوئی جنسی کہانی نہیں لکھ رہا۔ اردو زبان کا ایک سادہ سا اخبار ہے اس کے لیئے لکھتا ہوں اس لیئے کوئی عام فہم سی چیز ہونی چاہیئے‘‘۔
’’کسی ادیب پے مضمون لکھ دیں‘‘
’’کس پے لکھوں‘‘
’’ظاہر ہے مجھ پے تو لکھیں گے نہیں ۔ فیض پے لکھیں، منٹو پے لکھیں، انتظار حسین پے لکھیں۔ پاکستان کی کسی خوبصورت وادی پے لکھیں‘‘۔
’’آپ کیا جانتے ہیں پاکستان کے بارے میں ۔فیض اور منٹو کے بارے میں۔ میں پاکستان میں صحافی رہاہوں۔ بڑے بڑے لوگوں سے ملا ہوں۔ ادیبوں اور شاعروں کی محفلوں میں وقت گزارا ہے۔ ہفتے میں ایک دفعہ اکیڈمی ادبیات جاتا تھا۔ مقتدرہ قومی پاکستان بھی جاتا تھا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس جاتا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے میں ایسے ہی منہ اٹھا کے پاکستان سے اٹلی آگیا ہوں‘‘۔
’’ثقلین صاحب ،آپ تو ناراض ہوگئے ۔ میرا مطلب یہ تو نہیں تھا‘‘۔
’’نیائش خان میں اسی لیئے تمہارے گھر آنے سے اجتناب فرماتا ہوں‘‘۔
فرشتہ اپنا چائے کا کپ لے کر ایک دفعہ پھر تھوڑا پرے ہوگیا ۔
فرشتہ کو لوگ کیوں نہیں پسند کرتے ، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے سر کے بال مونڈھ دیتا ہے۔ کچھ تو وہ قدرتی طور پے گنجا ہے اور باقی ماندہ بال وہ ہر دوسرے تیسرے دن صاف کردیتا ہے۔ داڑھی اس کے فرینچ انداز کی رکھی ہوئی ہے ۔ جس کووہ ہفتے دس دن بعد بلیچ سے سفید کرلیتا ہے۔ اس کا ایک کان چھدا ہوا ہے۔ جس میں اس نے سونے کی بالی پہن رکھی ہے۔ وہ فارغ وقت میں اس بالی سے کھیلتا رہتا ہے۔جسامت کے لحاظ سے وہ دبلا پتلا ہے لیکن وہ بالکل سوکھا یا پتلا نہیں لگتا۔ کپڑے بھی عجیب طرز کے پہنتا ہے۔ جسم کے ساتھ چپکی ہوئی ٹی شرٹس اور پھٹی ہوئی جینز۔ عام طور پے لوگ سفید بال کالے کرتے ہیں لیکن یہ اپنی طرز کا انوکھا شخص ہے کالے بال سفید کرتا ہے۔دیکھنے میں برا نہیں لیکن اپنی وضع قطع سے عجیب و غریب سا لگتا ہے۔ مجھے اس کے اس حلیئے پے کوئی اعتراض نہیں لیکن میرے جاننے والے مجھے بارہا متنبع کرچکے ہیں کہ اس سے پیچھا چھڑا لو۔ اس کو اپنے ساتھ رہنے کی دعوت میں نے خود ہی دی ہے میں اس کو کیسے منع کرسکتا ہوں۔ وہ گھر کے کرائے میں، کھانے پینے میں اور دیگر اخراجات میں میری مدد کرتا ہے اس کے علاوہ وہ گھر کے کاموں میں بھی میری مدد کرتا ہے۔ گھر کی صفائی، کھانا پکانا تمام کاموں میں میری مدد کرتا ہے۔ صاف ستھرا شخص ہے ۔ اس کے علاوہ وہ جو بھی کرتا ہے اس کا ذاتی فعل ہے۔ میرے ساتھ اس نے آج تک مخرب ا لاخلاق گفتگو نہیں کی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ذوں معنی باتوں کا ماہر ہے۔ میرے ساتھ ادب پے سیر حاصل گفتگو کرتا ہے۔ میں پری پیکر کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن وہ تھوڑا سا لکیر کا فقیر ہے۔اس کے علاوہ فرشتہ آزاد ذہن کا مالک ہے ۔آپ اسے لبرل فلاسفر کہہ سکتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں اس کے خیالات بہت مختلف ہیں۔ وہ کہتا ہے چیزیں ہمارے لیئے بنی ہیں ہم چیزوں کے لیئے نہیں۔ زندگی کو ہم گزاریں ،زندگی ہمیں نہ گزارے۔ میرے خیال میں فرشتہ کے بارے لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ لوگ اس کی شخصیت کے بارے غلط رائے قائم کرتے ہیں ۔ اس میں فرشتہ کی اپنی بھی غلطی ہے کیونکہ وہ پہلی ملاقات میں لوگوں پے بہت برا تاثر چھوڑتا ہے۔ وہ لگی لپٹی باتیں نہیں کرتا۔ سیدھی بات منہ پے کہہ دیتا ہے۔ مجھے نہیں یاد جب سے وہ اریزو وارد ہوا ہے کوئی پاکستانی اس کے طنز او مزاح سے بھرپور جملوں سے بچا ہو۔ میں نے لوگوں کو یہاں تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتہ سے زیادہ بات نہ کرنا بہت بدتمیز انسان ہے۔ کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ کئی ایک لوگ تو اسے دور سے آتے ہوئے دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ میں نے اسے ایک دو دفعہ سمجھانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھے نیکی کا سرٹیفیکیٹ نہیں چاہیئے۔ لوگ جو بھی رائے قائم کرتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔آپ کبھی بھی کسی کی سوچ پے پابندی نہیں لگا سکتے۔ لوگ تو اس بات پے حیران ہیں میرے جیسا سنجیدہ انسان فرشتہ جیسے بذلہ سنج انسان کے ساتھ کیسے گزارا کرتا ہے۔ میں فرشتہ کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں وہ اپنے اندر کوئی نا کوئی کہانی چھپائے بیٹھا ہے۔ نہ اس نے کبھی مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کہاں کے رہنے والے ہو نہ ہی میں نے کبھی اس سے پوچھا۔ میرے خیال میں کسی سے ذاتی سوال کرنا زیادہ مناسب نہیں ہوتا جب تک آپ کو کوئی بھی شخص اپنے بارے میں خود کچھ بتانا پسند کرے یا نہ کرے۔
میں نے اپنی چائے ختم کی اور خالی کپ ایک طرف رکھ دیا ۔ فرشتہ جو کہ ایک طرف بیٹھا ہوا تھا وہ اپنی کرسی سے اٹھا ، میرا کپ ،اپنا کپ اور چائے کی کیتلی دھو رکر رکھ دی۔
مجھے اٹلی کے گھروں کے باورچی خانوں میں ایک چیز بڑی پسند ہے۔ یہاں برتن دھونے والے سنک کے اوپر ایک چھنا سا لگا ہوتا ہے۔ آپ برتن دھو دھو کے اس کے اوپر رکھتے جاتے ہیں اور برتنوں کا پانی نچڑ نچڑ کر نیچے سنک میں گرتا رہتا ہے۔ اس طرح برتن بھی سوکھ جاتے ہیں اور کھانے پکانے والے چولہے کے آس پاس جگہ بھی سوکھی اور صاف ستھری رہتی ہے۔
جس گھر میں میں اور فرشتہ رہتے ہیں یہ ایک کمرے کا مکان ہے لیکن بہت روشن و ہوا دارہے۔ ایک سونے کا کمرہ ہے۔ میرا مطلب وہ والا سونا نہیں جس کے زیوارات بنتے ہیں بلکہ جہاں آپ سوتے ہیں۔ایک ڈرائینگ روم ہے۔ باتھ روم اور بارچی خانہ ۔ کرایہ بھی مناسب ہے۔ یہ علاقہ اریزو شہر سے تھوڑا سا ہٹ کے ہے اس لیئے گاڑی پارک کرنے میں بھی کوئی دقت پیش نہیں آتی ۔ اسکے علاوہ ہمارے گھر کے نیچے کمونے دی اریزو کی طرف سے مفت پارکنگ کی سہولت بھی موجود ہے اس لیئے آس پاس کے لوگ جن کو کہیں بھی پارکنگ نہیں ملتی وہ یہاں اپنی گاڑی پارک کردیتے ہیں اگر جگہ خالی ہو تو۔ اس وجہ سے کئی دفعہ تھوڑی بہت دقت بھی ہوتی ہے لیکن قابلِ برداشت۔ ا س کے علاوہ کئی دفعہ لوگ اپنے کیراوان بھی یہاں لا کر کھڑے کرتے ہیں۔یہاں وہ ان کی صفائی کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے کیراوان کے اندر رات بھی گزار لیتے ہیں۔ میرے گھر کی کھڑکیاں لکڑی کی ہیں لیکن ان میں جو شیشہ لگا ہوا ہے بہت پتلا ہے بالکل ایسا لگتا ہے جیسے ٹرانسپیرنٹ کاغذ کا بنا ہوا۔کھڑکی کے باہر جو چھوٹی سے کارنس ہے وہاں پر چھوٹے چھوٹے گملے پڑے ہوئے ہیں۔سال کے چھ مہینے ان میں لال رنگ کے پھول اْگتے ہیں اور باقی کے چھ مہینے یہ بالکل سوکھ جاتے ہیں۔ میری کچن کی اور ڈرائینگ روم کی دیوار کے ساتھ ایک خود رو بیل پوری دیوار کو سارا سال ڈھکے رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے تتلیاں اور دیگر پتنگے تو مڈلاتے ہی رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ کیڑے مکوڑے گھر کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔
میں گھر کی آرائش و زیبائش اپنے انداز سے کی ہے۔ گو کہ یہ گھر کرائے کا لیکن مجھے گھر کو سجانے سنوارنے کا بہت شوق ہے ۔ میری جمالتی حس بہت اچھی ہے لیکن کبھی کبھی مجھے فرشتہ بھی اپنے قیمتی مشوروں نوازتا رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم ہو تو خان لیکن کام سارے خانم جیسے کرتے ہو۔ وہ مجھے کبھی کبھی بغیر نقطے والا خان بھی کہتا ہے یعنی خان کے بجائے خاں ۔ جیسے کہ بڑے سلامت علی خاں، چھوٹے سلامت علی خاں۔ میں اْس کی اِس بات کا بالکل بھی برا نہیں مناتا کیونکہ یہ قابلِ برداشت مزاح ہے۔ ایک ایسا مزاح جو اخلاقیات کے دائرے میں رہ کے کیا جائے۔
ْثقلین پری پیکر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’نیائش میں چلتا ہوں ۔ اگر تمہارے ذہن میں کوئی موضوع ہو تو مجھے ضرور بتانا‘‘۔
فرشتہ دور سے چلایا، ’’ثقلین صاحب آپ کی اردو تو زیادہ اچھی نہیں ۔نہ ہی آپ کے اخبار کی اردو مجھے پسند ہے لیکن اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں نے چند چیزیں لکھی ہیں۔ ہو سکے تو اغلاط کی نشاندہی کردیجئے گا‘‘۔
’’کیا لکھا ہے آپ نے ۔ سیکس کے حوالے سے لکھا ہوگا۔ یا کوئی تنقیدی مضمون ہوگا‘‘۔
’’پڑھے بنا کیسے جانے گے۔ ہوسکتاہے آپ کو کوئی موضوع مل جائے‘‘۔
ثقلین نے بے دلی سے کاغذوں پلندہ ہاتھ میں تھاما اور فرشتہ سے مخاطب ہوا، ’’کوشش کروں گا کہ آج رات کو پڑھ لوں۔ بقول آپ کے میری اردو بھی زیادہ اچھی نہیں لیکن پڑھنا لکھنا جانتاہوں۔ کوشش کروں گا کہ اغلاط دور کر سکوں‘‘۔
نیائش نے فرشتہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا، ’’ویسے آجکل اخباروں سے اردو تو نہیں سیکھی جاسکتی کیونکہ اخبار میں لکھنے والے زبان و بیان ، لغط اور انشاء پرداژی پے زیادہ زور نہیں دیتے‘‘۔
’’نیائش صاحب آپ کی بات درست ہے لیکن آج کل لوگوں کو ایسی ہی زبان سمجھ آتی ہے۔ انگریزی کی ملمع شدہ شکل۔ ٹرانسلٹریشن کی صورت میں‘‘۔
’’پری پیکر ایک بات کہوں برا نہ منانا، فرشتہ جیسا نظر آیا ہے ویسا ہے نہیں اور جیسا یہ ہے ویسا یہ نظر نہیں آتا‘‘۔
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ اچھا خدا حافظ‘‘
’’خدا حافظ‘‘۔
’’ثقلین صاحب ، میں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے بھی خدا حافظ کہہ دیا ہوتا ۔ خیر میری طرف سے خدا حافظ۔ یہ پلندہ ضرور دیکھئے گا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ثقلین جسے لوگ پری پیکر کہتے ہیں۔ میں لوگوں سے جلدی متاثر نہیں ہوتا اور نہ میں لوگوں بے تکلف ہونے میں جلدی کرتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں نے صحافت کے شعبے میں رہ کر پاکستان کی کئی نامور شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے ملا ہوں۔ ایسی کئی سیاسی شخصیات سے ملاقات ہوئی جو کہ حکومتوں کو تبدیل کردیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے حساس ادارے جوملک کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ پاکستانی فوج کے بارے ایسی ایسی باتیں پتا چلیں کہ میں حیران رہ گیا۔ میں پانچ ہزار روپے ماہوار کی نوکری کرتا تھا۔ میرے کئی کام بنا سفارش کے ہی ہوجاتے تھے۔ پاکستانی پولیس جس سے ہر شریف آدمی ڈرتا ہے حتیٰ کہ دونوں شریف بھائی بھی۔ میں ان سے چائے پیتا تھا اور کبھی کبھی تحفے کی صورت میں تھوڑی رقم بھی مل جاتی تھی۔ وہ سب لوگوں سے رشوت لیتے ہیں لیکن صحافی ان سے رشوت لیتے ہیں۔ میری زندگی ٹھیک گزر رہی تھی۔ مجھے ایسے لگتا تھا جیسا میں صحافی کم اور بلیک میلر زیادہ ہوں۔ آمدن معقول نہیں تھی لیکن گزارا ہوجاتا تھا۔ صحافت کی دنیا میں قدم رکھتے ہی میں نے دیکھاایک عام پاکستانی اور سیاسی ارکان کی زندگی میں کتنا فرق ہے۔ وہ نہ بجلی کے بحران سے واقف ہیں، نہ چینی اور گیس کے نہ ہی آٹے کی قلت سے واقف ہیں۔ ان سارے ذہنی خلفشاروں سے جان جھڑا کر میں اٹلی آگیا۔ یہاں میں فیکٹری میں پانچ دن اپنا کام کرکے دو دن فارغ ہوتا ہوں اور چند ایک اخباروں میں لکھ کر اپنا شوق پورا کرلیتا ہوں۔ اطالوی حکومت میری تنخواہ سے ٹیکس کاٹتی ہے اور اس کے بدلے مجھے میڈیکل کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ مجھے کسی بھی سرکاری دفتر میں جانے کے لیئے کسی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں اٹلی کا نظام دیکھ کر بڑا حیران ہوں کہ جو یورپ کا کرپٹ ترین ملک گنا جاتا ہے یہاں یہ حال ہے تو باقی یورپیئن ملک ان سے کہیں زیادہ آگے ہوں گے۔
خیر جب سے میں یہاں آیا ہوں میںیہ باتیں ہر وقت سوچتا رہتا ہوں۔ مجھے فرشتہ کی شخصیت بھی عجیب سی لگتی ہے۔ میں اس کے دیئے ہوئے کو پلندے کو پڑھنا شروع کیا ہے۔ یہ خود نوشت کے سے انداز میں لکھی گئی کہانی ہے۔ فرشتہ بہت اچھی اردو لکھتا ہے ۔اس کا اندازہ مجھے اس کی کہانی پڑھ کر ہوا۔ ابھی میں اسے پورا نہیں پڑھا لیکن جتنا پڑھا ہے اس کو آپ کی نظر کرتا ہوں کیونکہ جو کچھ میں اب تک پڑھا ہے وہ فرشتہ کے بارے میں میری جو رائے تھی اس کو بدلے کے لیئے کافی ہے۔
میرا نام فرشتہ ہے ۔ صرف نام ہی فرشتہ ہے میرے کام فرشتوں والے نہیں بلکہ انسانوں والے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میرے ساتھ پیٹ لگاہوا ہے جس کی آگ بجھانے کے لیئے مجھے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ مجھے لوگ دیکھ سکتے ہیں فرشتوں کی ہم نے صرف کہانیاں سنی ہیں لیکن ہم نے ان کوآج تک نہیں دیکھا۔ میرے پر بھی نہیں ہیں جبکہ فرشتوں کے دو سفید پر ہوتے ہیں لیکن یہ تصور ہمیں الف لیلوی کہانیوں نے دیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیو مالائی کہانیوں میں جانوروں کو پروں کے ساتھ دکھایا گیا۔ اس میں سب سے زیادہ گھوڑے کی پروں والی تصاویر ہیں۔ جب میں چھوٹا تھا تو پاکستان میں ٹرکوں کے اوپر پروں والا گھوڑا بنا ہوا دیکھ کر بڑا حیران ہوتا تھا۔ اس پروں والے گھوڑے کے منہ کے بجائے کسی حوبصورت لڑکی کی شکل بنی ہوتی تھی۔ میرے لیئے یہ چیز بڑی حیران کن تھی۔ میں آج تک یہ سوچتا ہوں کہ ٹرکوں پے پینٹنگ کرنے والوں نے یہ پروں والے گھوڑے کا تصور کہاں سے لیا ہے ۔اور اس گھوڑے یا یوں کہنا چاہیئے کہ گھوڑی کی شکل کے بجائے اس پے وہ لڑکی کی شکل کیوں بناتے ہیں۔ یقیناًاس کا کوئی مطلب ہوگا۔ ٹرکوں پے پینٹنگ کرنے والوں نے یہ تصور کہیں سے تو لیا ہوگا۔ کوئی تو پہلا شخص ہوگا جس نے عورت کی شکل والی گھوڑی بنائی ہوگی اور اس کے پر بھی ہوں گے۔
میرے دادا کو تاریخ سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ کئی دفعہ ابولقاسم فرشتہ کی تاریخ حوالے دیا کرتے تھے۔ میرا نام فرشتہ بھی انہوں نے رکھاتھا ۔ میں نے اپنی زندگی کا کافی حصہ اپنے دادا کی صحبت میں گزارا۔ اس طرح مجھے بھی تاریخ سے لگاؤ ہوگیا۔ تاریخ سے کیا لگاؤ ہوا، دنیا کے دیگر علوم سے دوستی کرلی۔ جس میں تاریخ، آثارِ قددیمہ، فنونِ لطائف ، ادب، شاعری۔ میرے دادا کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے انسان کو حواسِ خمسہ سے نوازا ہے۔ اس طرح ایک انسان اپنی ان حواسِ خمسہ سے پانچ مختلف چیزیں محسوس کرتا ہے۔ اسے اپنی ان حسوں کے ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ آنکھیں صرف دیکھنے کے لیئے نہیں ہوتیں بلکہ مشاہدے کے لیئے بھی ہوتی ہیں۔ کان صرف سننے کے لیئے نہیں ہوتے بلکہ صوتی اثرات کی چانچ کرنے کے لیئے بھی ہوتے ہیں۔ زبان صرف بولنے کے لیئے نہیں ہوتی بلکہ آپ اسے ذائقے کے لیئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ دیگر حسیات کے بارے میں بیان کرتے تھے۔ ان کا خیال نہیں یقین تھا کہ اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ لے تو اس طاقت دگنی تگنی ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص دو زبانیں جانتا ہے تو وہ ایک شخص نہیں دو ہوجاتا ہے۔ اگر وہ اس سے زیادہ زبانیں جانتا ہے تو وہ جتنی بھی زبانیں جانتا ہے اس کی طاقت اتنی ہی ہوجاتی ہے۔ میرے دادا طالبِ علم تھے۔ سہی معنوں میں علم کے طالب تھے۔ ان کی صحبت میں وقت کیاگزارا میں نے بھی زبانوں سے دوستی کرلی۔ سب سے پہلے تو میں نے اردو زبان پے عبور حاصل کیا۔ پھر انگریزی پے لیکن میرے دادا آخری وقت تک کہتے رہے کہ تمہاری انگریزی کمزور ہے۔ جب میں نے اپنی تعلیم مکمل کی تو میں نے سوچا کوئی نوکری کرلوں لیکن میرے دادا نے مجھے مشورہ دیا، بیٹا یا تو سی ایس ایس کی تیاری کرو یا کوئی زبان سیکھ لو۔ اس طرح میں نے نیشنل انسٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز میں فرنچ زبان سیکھنی شروع کردی۔ اس کے علاوہ میں شام کو فرنچ کلچرل سنٹر بھی جانے لگا۔ نیشنل لینگویجز میں گرامر درست ہوئی اور فرنچ سنٹر میں میری بولنے کی استعداد بڑھی اس کے علاوہ میں نے فرنچ زبان بولنے کا صحیح تلفظ کلچرل سنٹر سے ہی سیکھا۔
اب میں بقول اپنے دادا کے تین انسانوں کے برابر ہوچکا تھا۔ میں پنجابی بھی جانتا ہوں اس لیئے یہ بھی ایک خوبی جانی جائے۔ عربی میں نے قرانِ پاک پڑھنے کے لیئے سیکھی لیکن میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اتنا کچھ جاننے کے بعد بھی میں اپنے اندر ایک عجیب سی کمی محسوس کرتا تھا۔ جن دنوں میں نیشنل لینگویجز میں فرنچ زبان سیکھ رہا تھا ان دنوں میری ملاقات نعمان خان سے ہوئی۔ وہ بنوں کا رہنے والا تھا۔ وہ نیشنل لینگویجز میں جاپانی زبان سیکھ رہا تھا۔ میں اس سے پوچھا کہ تم یہ زبان کیوں سیکھ رہے ہو تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا ہے لیکن کوئی نوکری نہیں مل رہی ۔اسے کسی نے مشورہ دیا کہ جاپانی زبان سیکھ لو تمہیں آسانی مترجم کی نوکری مل جائے گی یا تمہیں ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری مل جائے گی۔ وہ ایک سال سے جاپانی زبان سیکھ رہا تھا اور پڑھائی کے دوران ہی اسے فری لانس ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری مل گئی۔ اس نے جیسے ہی دو سال کا جاپانی زبان کا ڈپلومہ مکمل کیا اسے ٹورسٹ کمپنی نے مستقلاً بھرتی کر لیا۔ اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں بھی فرنچ زبان میں ڈپلومہ مکمل کرنے کے بعد اس کمپنی میں فرنچ سپیکنگ گائیڈ کی نوکری کے لیئے درخواست دوں۔ میں نے نعمان خان کے بارے میں اپنے دادا سے بات کی تو انہوں نے کہا اچھا مشور ہ ہے لیکن میری مانوں تو اپنے علم میں اضافہ کرو تانکہ تمہیں لوگوں کو اپنے ملک کے بارے بیان کرنے میں دقت نہ پیش آئے۔
جب میں نے فرنچ زبان میں دو سال کا ڈپلومہ مکمل کیا تو میں نے نعمان خان سے رابطہ قائم کیا۔ ہم دونوں کی ملاقات ٹورسٹ آفس میں ہوئی۔ اس نے مجھے ہیومن ریسورسز ڈیپارٹمنٹ کے افسر مبین صاحب سے متعارف کروایا۔ مبین صاحب پہلے سی ایس پی افسر تھے اور کراچی کے رہنے والے تھے۔ لمبے قد اور چوڑی چکلی جسامت کے مالک تھے۔ ناک نقشہ بھی ٹھیک تھا۔ جب انہوں بات کرنے کے لیئے منہ کھولا تو ان کے دانتوں کی پیلاہٹ سے صاف دکھائی دیا کہ محترم پان اور سگرٹ کے شوقین ہیں۔ اردو بولنے کا انداز بہت ہی شائستہ تھا۔ مجھ سے کہنے لگے ہماری کمپنی میں گائیڈز کو زیادہ تنخواہ نہیں دی جاتی کیونکہ ان کو بخشش بھی ملتی ہے ، ٹی اے ،ڈی اے بھی۔ اس کے علاوہ کچھ گائیڈ کمشن بھی لیتے ہیں ۔اصولاًیہ غلط ہے لیکن ہمارے پاس اس چیز کو روکنے کا کوئی خاص طریقہ کار نہیں اس لیئے ہم نے آج تک کوئی قانونی کاروائی نہیں کی۔ اس چھوٹی سی ملاقات کے بعد مجھے اس کمپنی میں فرنچ اور انگلش سپیکنگ گائیڈ کی نوکری مل گئی۔
گائیڈ کی نوکری کافی دلچسپ تھی کیونکہ اس میں علم و ادب،آثارِقدیمہ، تاریخ اور مذاہبِ عالم کا گہرا دخل تھا۔ میں سیاحوں کو آئیٹنری ( جن جن جگہوں جانا ہوتا ہے اس کا پورا پروگرام اس میں لکھا ہوتا ہے) کے مطابق ساری جگہیں دکھایا کرتا اس کے علاوہ کبھی بدھ مت کی بات ہوتی اور کبھی ہندومت کی۔ مجھے اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیئے سدھارتھا گوتما بدھا کے بارے میں کافی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ۔ جیسا کہ دیپن کارا جاتکا، دھمپدا وغیرہ۔ پہلے میں اس بات سے واقف نہیں تھا کہ بد ھ مت میں کتنے فرقے ہیں لیکن آہستہ آہستہ مجھ پے یہ بات آشکارا ہوئی کہ بد ھ مت میں دو فرقے ہیں اور اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے فرقے بھی ہیں۔ ہنا یانا، مہایانہ، وجرا پانی، تانترک بدھ مت۔ ہنایا نا اور مہایانا دو بنیادی فرقے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھ آج تک یہ نہیں پتا تھا کہ ہندو ازم میں لاکھوں نہیں کروڑوں خدا
ہوتے ہیں۔ کچھ میں رام بھگوان کی طرح پوجا جاتا ہے اور کچھ میں راون کی پوجا کی جاتی ہے۔ پاکستان، ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان ، برما، سری لنکا اور افغانستان ان سارے ممالک میں اسلام کیا آ مد سے پہلے ہندوازم تھا اور اس کے بعد بدھ مت رائج کردیا گیا تھا۔ میں یہ جان کر بھی بڑا حیران ہوا کہ سوات اور پشاور جو کہ قبائلی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ جہاں پے آج اسلام کے بول بالا ہے ، یہاں سب سے زیادہ بد ھ مت کا پرچار کیا گیا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ نے سب سے زیادہ خانقاہیں یہاں دریافت کیں۔ بت کڑا یا بت کارا یعنی کالے پتھر کے بت، شنگر دار سٹوپا، سفولہ سٹوپہ ، تخت بائی ۔سوات، تخت بائی اور پشاور میں بہت ساری چیزیں اطالوی ماہر آثارِ قدیمہ ،جناب جوزپے ٹوچی نے دریافت کیں۔ ٹیکسلا میں بھی کئی شہر دریافت کیئے گئے۔ جن میں جولیاں ،سری کپ،شہباز گھڑی ،دھرم راجکا سٹوپا برٹش آثارِ قدیمہ کے ماہر ،سر جان مارشل نے دریافت کیں۔
میں بڑی محنت کے ساتھ سیاحوں کو ان تاریخی مقامات کی سیر کروایا کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو تفصیل بھی بتا یا کرتا۔ اب میں تاریخِ پاکستان پے بڑی خوبصورتی سے لیکچر دے لیا کرتا۔ میرے گروپ میں زیادہ تر یونیورسٹیز کے پروفیسر، سکالر اور فلاسفر ہوتے۔ میرے شوق کو دیکھتے ہوئے کمپنی نے میری تنخواہ بھی بڑھا دی اور مجھے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اور پروفیسرز کے گروپ ملنے لگے۔
میں راولپنڈی سے ان کو ٹیکسلا لے کر جاتا۔ تمام تاریخی مقام دکھا کے ان کو بیشام لے جاتا۔ وہاں یہ لوگ رات گزار کے آگے کو چل دیا کرتے۔ صبح جب بیشام سے نکلتے تو ہمارا اگلا پڑاؤ چلاس ہوتا۔ یہاں ان کو ہائیروگلفس اور پکٹوگرام دکھایا کرتا ۔شتیال کی یہ راک کارونگز پاکستان کے مشہور پروفیسر احمد حسن دانی کی دریافت ہیں۔ اس کے بعد ہم گلگت ،سکردو، ہنزہ، چترال اور پشاور کی سیر کرکے واپس آجایا کرتے۔
گائیڈنگ کے دوران کئی چیزوں نے مجھے حیران کیا۔ میں نے حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں سنا تھا اللہ تعالی نے انہیں پتھر کی سلِ پے لکھ کر دس کمانڈمنڈ بھیجی تھیں۔ پہلی سل ان سے ٹوٹ گئی تھی ۔خدا نے دوبارہ انہیں اس طرح کی سل بھیجی۔ میں جب سیاحوں کو گلگت لے جایا کرتا تو بیشام سے پہلے ہمارا تھوڑی دیر کا پڑاؤ مانسہرہ کے پاس بھی ہوا کرتا۔ یہاں مانسہرہ میں پتھر کی بہت بڑی سِل نصب ہے۔ جس پر بدھ مت کی کمانڈمنٹس لکھی ہوئی ہیں۔ یہ پالی زبان میں لکھی ہوئی پتھر کی سِل مہاراجہ اشوک نے لگوائی تھی۔ اشوک جب کالنگا کی لڑائی سے واپس آیا تو اس نے جنگ و جدل سے توبہ کرلی۔ پھر اس نے پاٹلی پتر سے کنیا کماری تک جہاں جہاں اس کا راج تھا سب کے لیئے بدھ مت لازمی مذہب قرار دے دیا۔ اس نے سدھارتھا گوتماء بدھا کے استھیاء (راکھ) کو اس کی دفن کردہ جگہ سے نکلوا کر اسی(
۸۰) مختلف جگہوں پے دفن کروایا۔ وہاں سٹوپے تعمیر کروائے گئے اور ان سٹوپوں کے اندر بدھا کی راکھ سونے کی ڈبیوں میں رکھوائی۔ اس طرح شنگر دارسٹوپا، دھرم راجکا سٹوپا اور سفولہ سٹوپا اور مانکیلا سٹوپا وجود میں آئے۔ ان سٹوپو کی اصل تعداد اسی تھی لیکن کئی سال گزرنے کے بعد ان کی تعداد چھ سات رہ گئی۔ انگریز ان سٹوپوں سے سوناچاندی، ہیرے جواہرات نکال کے لے گئے اور خالی سٹوپے سیاحوں کی تفریح کے لیئے چھوڑ گئے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کے آخری خلیفہ امام مہدی ؑ نے ابھی آنا ہے۔ عیسائیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسی ؑ ایک دفعہ پھر تشریف لائیں گے ۔بالکل اسی طرح بدھ مت میں جب دنیا ختم ہوجائے گی تو میتریا تشریف لائے گا۔ بالکل اسی طرح کا فلسفہ ہندوؤ میں بھی ہے۔ یعنی کہ ہم سب نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں۔
یہ تو تھیں مذہب سے متعلق باتیں جنھوں نے مجھے حیران کیا۔ اس کے علاوہ سیاسی نقطہء نگاہ سے جن باتوں نے مجھے حیران کیا ان میں ایک بات تو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہمارے گروپ ہنزہ، چترال اور پشاور ضرور جایا کرتے۔ چترال شہر میں ایک اور چھوٹا سا گاؤں کہہ لیجئے یا شہر اس کا نام ہے گرم چشمہ۔ امریکن سیاحوں کی سب سے زیادہ تعداد گرم چشمہ جایا کرتی۔ وہاں پے باقاعدہ گرم پانی کا چشمہ ہے اور ایک ہوٹل کے اندر گرم پانی کا سومنگ پول ہے۔اس ہوٹل کا چیف یا بڑا باورچی کینیڈین نیشنل تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں رہتے ہو تو کہنے لگا، کیونکہ یہاں کی چرس سب سے اچھی ہوتی۔ وہ باورچی، پشتو، فارسی، چترالی اور انگریزی روانی سے بولتا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے کئی حساس علاقوں میں امریکہ اور دیگر یورپیئن ملکوں کے لوگ بھیس بدل کر رہ رہے تھے۔ گرم چشمہ سے روس صرف پینتیس کلومیٹر دور ہے۔ اس چھوٹے سے حصے کو وا خان کوریڈور کہتے ہیں۔ روس کی اس علاقے میں موجودگی امریکہ کو بہت کھٹکتی تھی۔ خیر اس کے علاوہ بہت سارے ٹورسٹ درم آدم خیل جایا کرتے ۔میں اور میرے کئی ساتھی بلکہ دیگر ٹورسٹ کمپنیوں کے لڑکے بھی خوشی خوشی ان سیاحوں کو اسلحے کی فیکٹریاں دکھلانے لے جایا کرتے۔ ہمیں اپنی تنخواہ اور ٹپ سے مطلب ہوتا۔ کبھی کبھی کمیشن بھی مل جاتا کرتا۔ اب دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی ڈھانچے کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ہم لوگ کتنے بیوقوف ہیں۔
درہ آدم خیل کی اسلحہ فیکٹریوں میں ہر طرح کی کلاشنیکوف ہوتی۔ روسی، چینی اور پاکستانی۔ جب میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو گولیوں کے خالی کھوکھوں میں بارود بھرتے دیکھتا تو بڑا حیران ہوتا۔ میں ہوٹل میں واپس آکے سوچتا کہ یہ عمر ان بچوں کے پڑھنے کی ہے جانے کون انہیں ان کاموں پے مجبور کرتا ہے لیکن یہ سوچ بالکل ایسے ہی تھی جیسے انسان مردے کو قبر میں دفن کرنے کے لیئے قبرستان جاتا ہے تو اس کے دل میں موت کا خوف طاری ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ قبرستان سے باہر آتا ہے تو وہ دوبارہ دنیا کے کاموں گم ہوجاتا ہے ، قبر اور موت کے خوف کو بھول جاتا ہے۔
گائیڈ کی نوکری کرتے مجھے ابھی سال ہی گزرا ہوگا کہ پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور ہمارا ملک ایک دفعہ پھر مارشل لاء کی زد میں آگیا۔ میرے دادا مجھے اکثر کہتے تھے کہ جس ملک میں نواز شریف جیسا شخص پرائم منسٹر بن سکتا ہے وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ نواز شریف کو سیاست میں لانے والا میاں اظہر تھا لیکن بعد میں ان دونوں بھائیوں نے مل کر اسے سیاست سے علیحدہ کردیا۔ نواز شریف نے سیاست میں قدم رکھنے کے لیئے ضیاء الحق کی بیٹی زین ضیا ء کو ایک کروڑ روپے کا تحفہ دیا تھا۔ میری دادا کو شریف برادارن بالکل پسند نہیں تھے کیونکہ انہیں ایسا لگتا جیسا بھولوں براداران ، صابری براداران ہوں۔
جب مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا یہ
۱۲ اکتوبر کا دن تھا۔ کارگل کا واقع جولائی میں پیش آیا۔ لوگوں نے کارگل کی کڑیاں تختہ الٹنے کے ملا دیں۔ جس دن نواز شریف کا تختہ الٹا اس دن پاکستان کے تمام ٹیلی ویژن سٹیشن پانچ گھنٹے تک بند رہے۔ اس ساری کاروائی میں پنڈی کا کور کماندر پیش پیش تھا۔ آرمی کے ایک میجر نے پورے ٹی وی سٹیشن پے تھوڑی دیر میں قبضہ کرلیا ۔
وقت اسی طرح گزرتا رہا اور پاکستان میں چھوٹے موٹے دھماکوں کے واقعات ہونے لگے۔ سردیوں میں ٹورزم کا کام کم ہوجاتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ بند ہوجاتا ہے۔ میں نے کمپنی سے ایک مہینے کی چھٹی لی اور فرانس کا ویزہ لے کر پیرس آگیا۔ میرے گائیدنگ کے دوران کئی سیاحوں سے اچھے تعلقات پیدا ہوچکے تھے۔ اس طرح مجھے کئی کمپنیوں کے مالکان کی طرف کمپلی مینٹری (مفت) رہائش اور کھانا مل گیا۔ یورپ میں کھانا پینا اور رہائش آپ کو مفت مل جائے آپ کو اس سے بڑھ کے اور کیا چاہیئے۔ میں نے ایک مہینہ جی بھر کے پیرس کی سیر کی۔ ویزے کی معیاد ختم ہوئی تو میں واپس آگیا۔ جیسے ہی پاکستان واپس آیا مجھے سب نے ایک ہی بات کہی، واپس کیوں آگئے۔ ونہی رک جاتے ۔ میں ان کو کیسے یقین دلاتا کہ مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں میں تو صرف سیر کی غرض سے گیا تھا اور میرا مقصد پورا ہوگیا۔
جب میں واپس آیا تو میرے دادا نے مجھ سے پہلا سوال جانتے ہیں کیاکیا؟ بیٹا پیگال گئے تھے۔ میں نے جواب دیا جی دادا جی۔ اس کے علاوہ انہوں مجھ سے بے شمار سوال کیئے۔
میں دوبارہ ٹورسٹ کمپنی جانا شروع کردیا لیکن پرویز مشرف کے آنے سے ہماری کمپنی کا کام کم ہوگیا تھا۔ سیاحوں کا خیال ہے کہ جس ملک میں ڈکٹیٹرشپ ہو ،وہ ممالک سیاحت کے لیئے ٹھیک نہیں ہوتے۔ آہستہ آہستہ ہماری گائیڈنگ کمپنی سے لڑکوں نے جانا شروع کردیا۔ کام ہی نہیں تھا ۔ ایک دو لڑکوں نے مل کے اپنی کمپنی کھول لی۔ اب مجھے بھی کمپنی والوں نے اشارے کنائے میں کہنا شروع کردیا تھا کہ تم بھی اپنا کوئی بندوبست کرلو۔ میں ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری اس لیئے نہیں کرتا تھا کہ اس سے میرا گھر چلتا تھا بلکہ اس کام میں مجھے وہ کچھ سیکھنے کو ملا جو میں سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں ساری زندگی نہ سیکھ سکتا۔ جیسا کہ ہماری سیاست دان اخباروں میں کیا بیان دیتے ہیں حقیقت میں کیسے ہیں۔ ان کے کام ملک کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوتے ہیں۔ ہماری فوج کس طرح کے کام سرانجام دیتی ہے۔
سن
۲۰۰۰ ہزار میں نے بڑی مشکل میں کاٹا اور سال کے آخر میں میں ایک دفعہ پھر یورپ کی سیر کو نکلا۔میں یہاں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ میں مالی طور پے کافی اسودہ تھا۔ تنخواہ کے پیسوں سے کبھی سیر کے لیئے نہیں نکلا۔ سیر و تفریح کے لیئے مجھے میرے دادا پیسے دیتے۔ اس کے علاوہ میرے نام کافی زمین جائیداد ہے جس کی تفصیل بیان کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ اب کہ بار میں نے اٹلی کی سیر کرنے کی ٹھانی۔ جب میں پاکستان سے چلا تو نعمان خان نے کہا، اگر اٹلی گئے تو میرے چچا کے بیٹے نیائش خان سے ضرور ملنا۔ وہ فلورنس کے پاس کوئی چھوٹا سا شہر ہے اریزو وہاں رہتا ہے۔ میں نے نیائش کا فون نمبر اور پتہ جیب میں رکھا اور اٹلی آگیا۔ یہاں میری رہنے اور گھومنے پھرنے کا انتظام گراندی ویاجی کی ڈائیرکٹر نے کیا۔ میں تین چار دن میلان رہا۔ اس کے بعد روم ، وینس کی سیر کی۔ پیسا ٹاور دیکھا۔ فلورنس کی سیر کی۔ چنددن اریزو میں نیائش خان کے پاس گزارے اور وواپس پاکستان آگیا۔ سن ۲۰۰۱ میں شروع میں میری کمپنی والوں نے مجھے کام سے نکال دیا۔ مجھے بالکل افسوس نہ ہوا کیونکہ ان کی دی ہوئی تنخواہ سے میں گزر بسر نہیں کرتا تھا۔ اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ اس دوران میرے جن دوستوں نے کمپنی بنائی تھی انہوں نے مجھے کام کی آفر کی۔ میں نے منظور کرلی۔ تین چار مہینے کام کیا اور اگست کے آواخر میں یورپ کا مارکیٹنگ مینیجر بن کے فرانس ، جرمنی اور اٹلی کے دورے پے نکلا۔مجھے تین چار کمپنیوں سے کام بھی مل گیا۔ میں اپنی کمپنی کے منیجنگ ڈائیرکٹر کو خوشخبری سنائی ۔ میں نے جن لوگوں کے ساتھ کام شروع کیا تھا وہ لوگ زیادہ تر جاپان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی چھوٹی کمپنی کو یورپیئن ٹور مل رہے تھے حالانکہ جس کمپنی میں پہلے کام کرتا تھا ان کا کام بہت کم ہوگیا تھابلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ میں پندرہ ستمبر کی واپسی سیٹ ریزرو کروائی۔ اب میرے پاس ایک ہفتہ بچا تھا۔ میں پیرس سے فلورنس آگیا اور فلورنس سے اپنے دوست نعمان خان کے چچا کے بیٹے نیائش خان کے پاس آگیا۔ وہ مجھے ایک بار پھر دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ منگل کا دن تھا۔ ستمبر میں اٹلی میں نہ سردی ہوتی ہے نہ گرمی۔ دن کو موسم اچھا ہوتا اگر دھوپ نکلے تو، اور رات کو تھوڑی بہت خنکی ہوجاتی ہے۔ لیکن آج دھوپ میں کافی تیزی تھی۔ میں ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوا تو ٹی وی آن کیا۔ نیائش صبح صبح کام پے چلا گیا تھا اس لیئے میں گھر پے اکیلا تھا۔ اس کے ساتھ دو لڑکے اور بھی مکان میں حصے دار تھے اور وہ بھی کام پے گئے ہوئے تھے۔ مجھے وقت کا انداہ نہ ہوا لیکن اچانک ٹی وی پے بلٹن چلاکہ امریکہ کے ٹوئن ٹاور دہشت گردوں نے گرا دیئے۔ اس کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پہلے ایک ٹاور سے جہاز گزرتے ہوئے دکھایا گیا اس کے بعد دوسرے ٹاور سے ۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی سات عمارتیں ہیں ۔یہ جو دو عمارتیں ہیں ان کو جڑوا ں مینار بھی کہا جاتا۔ ٹی وی پے بلٹن چلنے لگا کہ یہ کام القاعدہ کا ہے ۔اس کام کے پیچھے اسامہ بن لادن ہے۔ جب ٹی وی پر یہ خبر چلی اور جہاں جہاں بھی یہ خبر چلی ، پوری دنیا میں یہ کوئی نہیں جانتا تھا یہ کام کس کا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیاء نے اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا اور مسلمانوں نے بد حواسی میں ایسی عجیب و غریب حرکتیں کی کہ شک یقین میں بدل گیا۔ مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ایک تو وہ تھے جنھوں نے یہ کہا یہ ٹھیک ہوا ہے دوسرے وہ جو یہ کہتے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔
نیائش جب گھر آیا تو گھبرایا ہوا تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ تم تو پریشان نہیں ہو۔ میں نے کہا جب تک اس خبر کے بارے میں تفصیل پتا نہ چل جائے میں اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ یہ کام کس کا ہے۔ ا س لیئے اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کے دن پورے اٹلی کی اجینسیاں حرکت میں آگئیں۔ یہ دن پوری دنیا میں مسلمانوں نے بڑی مشکل سے کاٹا۔ اگلے دن میری زندگی میں میرا زندگی کا سب سے سنگین واقع پیش آیا ۔ مجھے پاکستان سے گھر والوں نے فون کیا کہ تمھارے دادا کا انتقال ہوگیا ہے۔ دوسرا فون مجھے میری کمپنی نے کیا کہ ہم نے کمپنی بند کردی ہے اور کمپنی کا مینیجنگ ڈائیریکٹر جاپان چلا گیا ہے ۔ یہ بات مجھے بعد میں پتا چلی کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تمام غیر ملکیوں نے جن میں یورپ اور امریکہ کی ٹور کمپنیاں تھیں۔ سب نے اپنے ٹور کینسل کردیئے ہیں۔ دو دن بعد،جن کمپنیوں کے ساتھ میں بات چیت کرکے آیا تھا ،ان کے فون آنے لگے کہ ہم نے پاکستان کے لیئے اپنے تمام گروپس کینسل کردیئے ہیں ۔ میں بڑا حیران ہوا اور اس بات حیران ہوا امریکہ میں دھماکہ ہوا تو اس کا پوری دنیا نے اثر لیا اور پاکستان میں کئی دفعہ دھماکہ ہوتا لیکن ایک دو دن بعد زندگی معمول پے آجاتی ہے۔ فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان کئی سالوں سے انسانی خون سے اپنی زمین کو سینچ رہے ہیں لیکن پوری دنیا کے کان پے جوں تک نہیں رینگتی۔ مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ جڑواں عمارتوں کے اندر اور آس پاس رہنے والے بے گناہ لو گ تھے جو مارے گئے۔ اس ناگہانی آفت کا کسی کو علم نہیں تھا۔ میڈیاء اور ویڈیو کریسی نے پوری دنیا کو اس بات کا یقین دلا دیا کہ اس کام کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہے اور انہوں اس بات کو تسلیم بھی کرلیا۔ مجھے اپنے دادا کے اس دنیا سے چلے جانے کا بھی افسوس تھا۔
میں نے نیائش سے بات کی کہ میں پاکستان واپس چلا جاتا ہوں کیونکہ میرے ویزے کی میعاد بھی ختم ہونے والی۔ تو اس نے کہا، اس وقت پاکستان جانا ٹھیک نہیں۔ ایئرپورٹس پر بہت سختی ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ خیر میں نے نیائش کی بات مانتے ہوئے ویزے کی معیاد بڑھانے کے لیئے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے فرانس کا ویزہ لیا تھا اس لیئے وہاں جاکے اپلائی کرو۔ اب میں فرانس جانا چاہتا تھا ۔ میں نے پاکستان فون کیا کہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے تو انہوں نے کہا کہ تمہارے اکاؤنٹ میں کوئی پیسے نہیں میرے حصے کی زمین جائیداد پے بھائیوں نے قبضہ کرلیاہے ۔ میرے دادا مرنے سے پہلے اپنی وصیت میں ایک بات لکھ گئے تھے کہ میں اپنی ساری کتابیں فرشتہ کے لیئے چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اب میرے پاس صرف کتابوں کے کچھ نہیں تھا اور وہ بھی پاکستان میں میرے دادا کے کمرے میں تھیں۔
نیائش نے مجھے مشورہ دیا کہ یہیں رہ جاؤ۔ چھوڑو پاکستان کو۔ میں نے اسے کہا کہ میرے تمام سرٹیفیکیٹ پاکستان میں ہیں۔ میں اگر یہاں نوکری ڈھونڈوں بھی تو کیسے ۔مجھے کوریکولم وٹے یعنی ’’سی وی‘‘ بنانا ہوگا ۔ اس نے کہا کہ اٹلی میں اس طرح نہیں ہوتا۔ تمہیں کسی فیکٹری میں کام مل جائے گا۔ جیسے تیسے کر کے میں نے کام کے لیئے ہاتھ پیر مارنے شروع کیئے۔ میرے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی تھی اور میں اب اٹلی میں غیر قانونی طور پے رہ رہا تھا۔ میں نے کئی ٹریول کمپنیوں سے بات کی کہ میں ٹور گائیڈ ہوں لیکن مجھے کہیں بھی کام نہ ملا۔ اس طرح ایک دو ماہ گزر گئے۔ میری انگریزی، فرینچ اور تھوڑی بہت اٹالین کسی کام نہ آئی۔ میں نے ساری زندگی آرام و آسائش میں گزاری تھی۔ اس کے باوجود میں خود دار انسان تھا۔ اس لیئے میں نے نیائش سے کہہ دیا کہ میں کسی بھی قسم کا کام کر لوں گا لیکن تم پر بوجھ نہیں بنوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کی نوکری مل گئی۔ اس طرح مجھے اس ذہنی اذیت سے نجات مل گئی کہ میں نیائش پے بوجھ ہوں۔ میرا گھر والوں سے رابطہ بالکل منقطع ہوگیا اور میں نے اپنا دل اٹلی میں ہی لگا لیا۔ اس بات کو میں بالکل بھول گیا کہ میں کبھی ٹورسٹ گائیڈ تھا۔ ااستمبر کے واقعے کے بعد ویسے تو پوری دنیا نے مسلمانوں سے نفرت شروع کردی تھی لیکن اٹالین نے اس بات کا کچھ زیادہ ہی اثر لیا۔ انہوں نے پاکستانیوں کی دوکانوں پے چھاپے مارنے شروع کردیئے ۔ان کی ڈاک کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ان کے موبائیل فون کنٹرول ہونے لگے ۔ نہ صرف اٹلی کے بلکہ پوری دنیا کے مسلمان ایسا محسوس کرنے لگے جیسے یہودیوں والی ہولوکوسٹ دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ جہاں کئی مسلمان ملکوں نے امریکہ کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے اپنے تعاون کا یقین دلایا وہاں پاکستان آمر پرویز مشرف نے بھی امریکہ کو یقین دلایا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اور انہیں باقاعدہ طور پے دعوت دی کہ تم خود پاکستان آکے دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکتے ہو۔
ویسے تو ریسٹورنٹ کا مالک اچھا انسان تھا لیکن کئی دفعہ گاہکو کو جب پتا چلتا کہ میں پاکستانی ہوں تو وہ مجھے اچھی نظر سے نہ دیکھتے۔ انہیں میری شکل میں اسامہ بن لادن نظر آتا۔ انہیں ایسا لگتا کہ ٹون ٹاور میں نے گرائے ہیں۔ اا ستمبر کا سب سے زیادہ اثر معیشت پر پڑا۔ پوری دنیا کی معیشت کو اس واقعے نے ہلا کر کھ دیا۔ ایئرلائنز کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ جن ملکوں کا امریکہ کے ساتھ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام تھا وہ بری طرح متاثر ہوا۔ جہاں پوری دنیا نے مسلمانوں کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا وہاں کاروباری حضرات کو اپنے کاروبار کی فکر پڑ گئی۔ اریزو شہر کو سونے کا شہر کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں چھوٹی بڑی سونے اور چاندی کی فیکٹریاں۔ جو لوگ اپنا مال امریکہ کی کمپنیوں کو بیچتے تھے ان کا کاروبار بہت بری طرح متاثر ہوا۔ کئی لوگوں نے اپنی فیکٹریاں بند کرکے کوفی بار ز کھول لیں، کچھ نے ٹریول اجینسیز بنا لیں۔ بے شمار لوگ بے روزگار ہوگئے۔ پوری دنیا شدید معاشی بحران کا شکار ہوگئی۔
روز نئی نئی خبریں سننے کو ملتیں۔ کبھی خبر آتی کہ اسامہ بن لادن پکڑا گیا ،کبھی اخبار میں آتا کہ پیسا ٹاور گرا دیا جائے گا۔ ان خبروں میں کتنی صداقت تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک خبر جو صداقت پر مبنی تھی وہ یہ کہ امریکہ کی فوجیں طالبان کا قلقمع کرنے افغانستان میں داخل ہوچکی تھیں۔ اب امریکہ عراق میں داخل ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ افغانستان میں ایک عارضی سی حکومت قائم کردی گئی تھی۔ جب امریکن فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو ساری دنیاکے ترقی یافتہ ملکوں نے امریکہ کا ساتھ دیا اس میں برطانیہ پیش پیش تھا۔ اٹلی تو ایک ایسا ملک ہے جو ،’’جیڑا جتے اودے نال‘‘ ۔انہوں نے بھی اپنی فوجیں افغانستان بھیج دیں۔ یہ روز طالبان کے بہانے بے گناہ اور نہتے شہریوں پے بمباری کرتے اور افغانستان جہاں آسمان سے بم برسانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ پورا ملک بارودی سرنگوں سے بھرا پڑا ہے۔ آگے کھڈا پیچھے کھائی والا حساب ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی یورپیئن یا اٹالین فوجی کے مرنے کی خبر آتی تو میڈیاء اس خبر کو خوب اْچھالتا اور اس طرح چند دنوں کے لیئے لوگ پھر طالبان اور مسلمانوں کی مخالفت میں اپنی بھڑاس نکالتے ۔ ان دنوں ٹی وی والے عجیب و غریب ویڈیوز دکھاتے۔ ایک دن خبر آتی کہ افغانستان میں طالبان اور امریکی فوجیوں کے درمیان جنگ ہورہی ہے۔ دوسری دن وہی جگہ دکھاتے اور بتاتے کہ دیکھئے ہم نے افغانستان سے طالبان کو صاف کردیا ہے ۔وہاں کے سٹیڈیم میں فٹبال میچ ہورہا ہوتا۔
سن
۲۰۰۲، فروری کے مہینے میں میرے مالک نے مجھے جواب دے دیا کہ وہ اب مجھے کام پے نہیں رکھ سکتا اس کی وجہ مسلمانوں سے نفرت نہیں بلکہ کام کی کمی تھی۔ اس کی نظر میں میں اچھا انسان تھا لیکن خود مجھے بھی نہیں پسند تھا کہ میں بنا کام کے تنخواہ لوں۔ دو تین مہینے گھر پے گزارے اس کے بعد اپریل میں ایک کوریئر کمپنی میں ٹرک لوڈ کرنے کا کام مل گیا۔ میں اس بات کو بھول ہی گیا کہ میں پہلے کیا تھا لیکن میرا مشاہدہ بہت اچھا تھا۔ آس پاس ہونے والے واقعات پے ضرور نظر رکھتا۔ کام دوران اگر کوئی تنقید کا نشانہ بناتابھی تو خاموشی اختیار کیا کرتا کیوں کہ اٹالین لوگوں ایک بڑی تعداد جو ٹی وی دیکھتی ہے اسی پے یقین کرتی ہے اس لیئے ان بحث کرنا بیوقوفی ہے۔ اریزو شہر کے لوگوں کی زندگی بالکل کسی ایسے گاؤں کی ہے جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ یہ لوگ صبح نو بجے دوکانیں کھولتے ہیں اور ایک بجے بند کردیتے ہیں۔ پھر تین گھنٹے کے وقفے کے بعد کھولتے ہیں ۔ چار بجے دوبارہ دوکانیں کھولتے ہیں اور آٹھ بجے پھر بند کردیتے ہیں۔ یہ ساڑھے سات بجے اپنا سامان سمیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ میں چونکہ کوریئر کمنی میں کام کرتا تھا اس لیئے صبح چھ بجے چلا جاتا ایک بجے واپس آتا اور شام کو بھی تین یا چار گھنٹے کام کرتا۔ ہفتے اتوار کو چھٹی ہوتی۔ ۲۰۰۲مئی کے آخر میں جس کوریئر کمپنی میں کام کرتا تھا وہاں چھاپا پڑا اور مجھے کام سے فارغ کردیا گیا اور جس شخص کے لیئے میں کام کرتا تھا اس کو جرمانہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد میرا دل بہت کھٹا ہوا۔ میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ اب اٹلی میں رہنا ہی نہیں۔ میں گھر آیا تو اس واقعے کا نیائش سے ذکر کیا ۔اس نے کہا دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر تم اٹلی اس لیئے چھوڑنا چاہتے ہو کہ تمہارے پاس کام نہیں یا تمہیں اس بات کی فکر ہے کہ مجھ پے بوجھ پڑے گا۔ اس بات کی تم بالکل فکر نہ کرو۔ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ نیائش دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ اریزو میں اکثر لوگوں کے بارے مختلف قسم کی کہانیاں سننے کو ملتی تھیں۔
میری اور نیائش کی کافی بحث و تمحیص ہوئی اور ہم دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ میں سوئٹزرلینڈ جاؤں گا۔ نیائش کہنے لگا میرا ایک دوست میلانوں کے پاس ایک شہر ہے واریسے وہاں رہتا ہے۔ اس کا یہی کام ہے کہ وہ لوگوں کو اٹلی کی سرحد پار کراکے سوئٹزرلینڈ پہنچاتا ہے۔ میرا خیال وہ دو سو یورو لیتا ہے۔ وہاں جاکے تم سیاسی پناہ لے لینا ۔اس کے بعد کیا کرنا ہے تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔












No comments:

Post a Comment