Monday, June 13, 2011

pase ayena 2nd chapter



(۲)

ہفتے کے دن پری پیکر ،فرشتہ سے کاغذوں کا پلندہ لے کر گیا اور اتوار کی صبح پھر وارد ہوا۔ نیائش نے دروازہ کھولا۔ اس نے آتے ہی پوچھا، ’’ارے بھئی فرشتہ صاحب کدھر ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’خیریت ہے آج بڑے احترام سے بلا رہے ہو‘‘۔
’’نیائش یہ شخص جیسا نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے۔ تمہارا اندازہ ٹھیک تھا‘‘۔
’’میں تو اس بات سے واقف ہوں لیکن میں چاہتا تھا کہ تم خود اس بات کو اپنے طور پے جانو اور اپنی رائے قائم کرو‘‘۔
’’فرشتہ صاحب اس وقت کہاں ہیں‘‘۔
’’باہر کھڑا ہوگا محفل سجا کے۔ کسی کے کان کھا رہاہوگا۔ دنیا جہا ن کے گندے لطیفے اس کو آتے ہیں ۔ جگت بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ بات سے بات نکالتے میں ا تنا ماہر ہے کہ بڑے سے بڑے بولنے والے اس کے ساتھ گونگے ہوجاتے ہیں‘‘۔
’’مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ اس نے اپنے اوپر ایسا خول کیوں چڑھایا ہوا ہے۔ اپنی اس صلاحیت کو کسی مثبت کام کے لیئے بھی استعمال کرسکتا ہے‘‘۔
’’مجھے خود سمجھ نہیں آتی۔ ویسے میرے ساتھ وہ بہت اچھے طریقے سے رہتا ہے‘‘۔
’’اچھا جب وہ آئے تو اس کو یہ لفافہ دے دینا‘‘۔
’’اس میں اس کی رام کہانی ہے۔ بہت اچھا لکھا ہوا ہے۔میرا خیال تھا باقی باب بھی لے جاتا اگر اس نے لکھے ہیں تو‘‘۔
’’تم کہتے ہو تو بلا لیتا ہوں ‘‘۔
’’اگر ایسا ہوجائے تو بہت اچھا ہے۔ یا مجھے اس کا موبائیل نمبر دو میں خود اس سے بات کرلیتا ہوں‘‘۔
’’فرشتہ موبائیل فون استعمال نہیں کرتا‘‘
’’وہ کیوں‘‘؟
’’یہ تم اسی سے پوچھ لینا‘‘۔
’’تو پھر تم اسے کیسے اطلاع دو گے‘‘۔
’’مجھے پتا وہ اس وقت کس کے ساتھ ہوگا۔ میں اس کو فون کرتا ہوں۔ اگر اس کے ساتھ ہوا تو فرشتہ سے بھی بات ہوجائے ‘‘۔
نیائش نے اس شخص کا موبائیل نمبر ملایا ۔ دو دفعہ گھنٹی بجی اور اس شخص نے فون اٹھا لیا، ’’ہاں جی نیائش بھائی کیسے یاد کیا‘‘
’’ارے بھئی یہ پری پیکر میرا مطلب ہے ثقلین صاحب فرشتہ سے ملنے کے لیئے بڑے بے چین ہیں‘‘۔
اس شخص نے موبائیل فرشتہ کو دے دیا اور کہا، ’’نیائش بھائی ہیں‘‘
’’ارے بھئی مجھ سے کون سی خطا ہوگئی ۔ کہیں اخبار میں میرے خلاف تو نہیں لکھنا‘‘
’’ارے نہیں وہ تمہارا کاغذوں کا پلندہ لایا ہے اور کہہ رہا ہے اگر اگلا باب لکھا ہوا تو مجھے دے دیں‘‘۔
’’آپ لوگ پانچ منٹ میرا انتظار کریں، میں آرہا ہوں‘‘۔
اس طرح نیائش اور فرشتہ کی ٹیلی فونک گفتگو ختم ہوگئی۔
ٹھیک پانچ منٹ میں فرشتہ گھر پے موجود تھا۔ وہ آتے ہی ثقلین سے مخاطب ہوا، ’’جناب کیا خطا ہوگئی‘‘۔
’’فرشتہ صاحب کاغذوں کا جو پلندہ آپ نے مجھے دیا تھا میں نے پڑھ لیا ہے۔ بہت دلچسپ ہے ۔میں مزید پڑھنے کے لیئے بے چین ہوں‘‘
’’ثقلین صاحب اس میں اغلاط تو بہت ہونگی کیونکہ میں نے بہت جلدی میں لکھا ہے‘‘
’’تھوڑی بہت غلطیاں ہیں کا ،کے، کی وغیرہ کی۔ آپ کی اردو مجھ سے بہت اچھی ہے ‘‘
’’ویسے کاکے کی غلطیاں تو معاف کی جاسکتی ہیں‘‘
’’میرا مطلب وہ والے کاکے کی غلطیاں نہیں بلکہ دوسری والی کا۔۔۔کے۔۔۔کی ہے‘‘
’’میں اب سمجھا‘‘
’’سمجھ تو آپ پہلے بھی گئے تھے لیکن بات میں مزاح کا عنصر ڈھونڈنا آپ کا فن ہے‘‘
’’بہت شکریہ‘‘۔
اتنا کہہ کر فرشتہ اٹھا ۔ ثقلین سے پرانا پلندہ لیا اور کمرے میں چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ٰٰٰٓٓٓایک اور کاغذوں کا پلندہ تھا۔ اس نے ثقلین کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا‘‘۔
’’آپ بالکل فکر نہ کریں میں بڑے غور سے پڑھوں گا‘‘۔
ثقلین نے پلندہ ہاتھ میں لیا اور اجازت چاہی ۔ فرشتہ اور نیائش نے بہت کہا کہ چائے پی لے کچھ کھا لے لیکن وہ نہ مانا اور خدا حافظ کہہ کے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین نے رات کاکھانا کھا یا اس کے بعد چائے پی۔ پھر ٹیبل لیمپ آن کیا اور اپنی الماری سے کاغذوں کا پلندہہ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔
سن
۲۰۰۲ مئی کے مہینے میں فٹبال کا ورلڈ کپ شروع ہوا۔ جیسے انگلینڈ کو کرکٹ کا گھر کہتے ہیں بالکل اسی طرح اٹلی کو فٹبال کاگھر کہتے ہیں۔ اٹالین لوگ مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہیں اور یہ کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اٹالین لوگوں کے لیئے فٹبال مذہب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ لوگ گھنٹوں فٹبال پے بات کرتے ہیں لیکن ان کی اچھی بات یہ ہے کہ کتنی بھی بحث ہو، ایک دوسرے کو بھلے کتنا ہی برا بھلا کہیں، فٹبال کے کھلاڑیوں کی کارکردی کو کتنا ہی تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن ہاتھا پائی نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں لوگ کھیل اور سیاست کے بحث کے دوران مرنے مارنے پے اتر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یورپیئن لوگ یا یوں کہنا چاہیئے کہ اٹالین لوگ بہت مہذب ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں کا قانون بڑا سخت ہے۔ یہاں جو شخص بھی پہلے ہاتھ اٹھاتا ہے قانوناََ وہ مجرم ہوتا ہے۔
اس دفعہ فٹبال کے ورلڈ کپ کے لیئے ہمیشہ کی طرح ہالینڈ، اٹلی اور برازیل ،ان تینوں ٹیموں کے بارے میں سب کا خیال تھا کہ یہ ٹیمیں جیتیں گی۔ میں نے نیائش سے کہا میں کچھ میچز ادھر اٹلی میں دیکھوں گاباقی وہاں سوئٹزرلینڈ میں دیکھ لوں گا۔ ویسے مجھے فٹبال کا اتنا شوق نہیں لیکن ورلڈ کپ کے میچز کو دیکھنے میں مزہ آتا ہے۔ شروع کے میچز بڑے دلچسپ تھے۔ بہت ساری غیر متوقع ٹیمیں کواٹر فائینل کے لیئے کوالیفائی کرچکی تھیں ان میں ترکی کی ٹیم بھی شامل تھی۔
نیائش مجھے اب بھی روکنے کے حیلے بہانے ڈھونڈھ رہا تھا لیکن میرے پر زور اصرار پے وہ مجھے میلانوں لے جانے پے رازی ہوگیا۔ اس نے اپنے دوست کو فون کردیا کہ ہم لوگ چند دنوں میں آرہے ہیں۔ اس نے کہا جب بھی تمہارا دل کرے آجانا کوئی مسئلہ نہیں۔
۲۰۰۲ ،جون کی ۱۵تاریخ کو ہم صبح چھ بجے نکلے۔فلورنس نارتھ کے آٹو گرل(یورپیئن ملکوں میں موٹرویز پے ہر تیس یا چالیس کلومیٹر کے بعد اس طرح کے ریفریشنگ سٹاپ بنے ہوتے ہیں) پے رکے ۔ نیائش نے کاؤنٹر پے دو کپوچینو اور کوآساں کا آرڈر دیا۔ کافی پیتے ہوئے اس نے کوآساں کو بمشکل نگلتے ہوئے کہا، ’’فرشتہ میں تو کہتا اب بھی واپس چلو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اب نکلا ہو تو اپنا مشن پورا کر کے ہی رہوں گا‘‘۔
’’جیسے تمھاری مرضی‘‘۔
ہم لوگ ضروری حاجات سے فارغ ہوئے اور دوبارہ آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ نیائش کی گاڑی پٹرول یا ڈیزل کے بجائے گیس سے چلتی ہے اس لیئے وہ میتانو گیس (ایک طرح کی گیس جو گاڑیوں میں استعمال ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ اٹلی میں جی پی ایل گیس بھی استعمال ہوتی ہے) سٹیشن پے رکا۔اس نے جیسے ہی گیس فل کروائی، گاڑی سٹارٹ کی۔ اس کی کار موٹروے پے فراٹے بھرنے لگی۔ ہم لوگ قریباً گیارہ بجے واریسے کے پاس پہنچ گئے۔ نیائش نے متعلقہ شخص کو موبائیل نمبر پے فون کیا۔ اس نے کہا آپ لوگ واریسے ریلوے سٹیشن پے آجائیں میں یہاں قریب ہی ایک گاؤں میں رہتا ہوں۔ دس منٹ میں پہنچ جاؤں گا۔ نیائش مجھے بتانے لگا یہ شخص پہلے اریزو ہی رہتا تھا۔ اس نے جیسے ہی اٹالین لائسنس حاصل کیا اس نے یہ کام شروع کردیا۔ پہلے یہ فرانس سے سپین کا بارڈر پار کروایا کرتا تھا اب یہ سوئٹزرلینڈ بندے لے کر جاتا ہے۔
ہم لوگوں نے موٹروے سے، ان کاٹکٹ ادا کرکے باہر آگئے۔ اب عام سڑک پر تھے۔ نیائش نے کافی پینے کے لیئے ایک چھوٹی سی بار کے پے گاڑی روکی ۔ میں عام طور پے کافی پیتا نہیں ہوں لیکن چونکہ میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا اس لیئے میں نے بھی کپوچینو پی اور اس کے ساتھ ایک کوآساں کھایا۔ پھر میں نے بار والے سے کہا کہ اگر ہوسکے تو مجھے ایک تاکی پرینا یا ایسپرین دے دے۔ اس نے جھٹ سے گلاس میں پانی ڈالا اور اس میں پانی میں حل ہوجانے والی ایک گولی ڈالی ، شاید ایسپرین تھی۔ اٹالین لوگ اس طرح کی گولی کو افیروے شینتے یعنی گھل جانے والی گولی کہتے ہیں۔ میں نے ایک ہی سانس میں یہ حل شدہ گولی حلق میں اتادی۔ نیائش نے کوفی اور کپوچینو کے پیسے ادا کرنے کے لیئے اپنا پرس نکالا۔ ابھی وہ یہ کہنا ہی چارہا تھا کہ گولی اور پانی کے گلاس کے پیسے بھی شامل کرنے ہیں ۔وہ شخص نیائش سے پہلے بو ل پڑا۔ گولی اور پانی میری طرف سے۔ نیائش اور میں حیران ہوئے۔ عام طور ایسا ہوتا نہیں۔ نیائش نے اصرار کیا لیکن اس نے گولی اور پانی کے گلاس کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔
نیائش اس شخص کے اچھے اخلاق سے بہت متاثر ہوا ۔ اس نے اس شخص سے واریزے ریلوے سٹیشن کا راستہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم لوگ سٹیشن کے بالکل قریب ہو۔ یہاں سے الٹے ہاتھ کو جو راستہ جاتا ہے اس پے سیدھے چلتے چلے جاؤ ۔ یہ سڑک سٹیشن پے جاکے ہی رکتی ہے۔ ہم لوگوں نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ آکر کے کار میں بیٹھ گئے۔ نیائش کہنے لگا، ’’ابتداء تو بہت اچھی ہوئی ہے اب آگے دیکھو کیا ہوتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔
ہم لوگ پانچ منٹ کے سفر کے بعد واریزے ریلوے سٹیشن کے سامنے کھڑ ے تھے۔ ہم دونوں گاڑی سے باہر آکر اِدھر اْدھر دیکھنے لگے۔ نیائش نے بے چینی میں متعلقہ شخص کے موبائیل نمبر پے فون کیا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ سٹیشن کے پاس جو بار ہے اس میں کوفی پی رہا ہے کیونکہ جب تم لوگوں کا فون آیا تو میں اس وقت ناشتہ کررہا تھا۔ ناشتہ چھوڑ کے تم لوگوں کو لینے آیا ہوں۔ ہم لوگ جلدی سے بار میں پہنچے۔ اس نے بڑے تپاک سے ہمارا استقبال کیا۔ ہم سے کوفی کا پوچھاتو ہم نے کاکہا کہ ہم راستے میں پی کر آئے ہیں اور یہ بات تھی بھی درست۔ اس نے جیسے ہی کوفی ختم کی تو کہنے لگا، ’’تم لوگ گاڑی میں میرے پیچھے پیچھے آؤ ۔ یہاں پاس ہی گاؤں ہے وہاں ہم لوگوں کا ڈیرا ہے‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’جیسے آپ کا حکم‘‘۔
اس طرح ہم لوگوں نے گاڑی اس کی گاڑی کے پیچھے چلانی شروع کردی۔ وہ مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا ایک ایسی سڑک پے مْڑ گیا جہاں دونوں اطراف میں کھیت ہی کھیت تھے۔ جون کا مہینہ شروع ہوا تھا۔اس لیئے موسم بھی بہت اچھا تھا اور کھیت بھی سرسبز تھے۔ مجھے یہ بالکل یاد نہیں کہ کس چیز کی فصل تھی کیونکہ اس وقت میں کسی اور خیال میں گم تھا۔ کھیتوں سے گزرتے گزرتے ہماری گاڑی ایک ایسی جگہ پہنچی جہاں اکا دکا مکان تھے۔ پھر پکے مکانوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک دو گلیاں گھوم کے اس شخص نے گاڑی جاکے ایک بڑے سے صحن میں روک دی۔ اٹالین اس طرح کی جگہ کو کورتلیو کہتے ہیں۔ مجھے یہ جگہ چال کی طرح لگی۔ جن لوگوں نے انڈین فلمیں دیکھی ہیں ، انہوں نے بارہا ان کی فلموں میں چال دیکھی ہوگی ۔ بمبئے جس کا نام بدل کر ممبئے رکھ دیا گیا ہے وہاں اس طرح کی کئی چالیں ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا یہ جگہ بہت صاف ستھری تھی۔ ایک راستہ تو وہ تھا جہاں سے ہم داخل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ باقی اطراف میں ایک جیسی دو منزلہ عمارت تھی۔ نیچے بھی گھر تھے اور دوسری منزل کے گھروں کے سامنے برامدہ بنا ہوا تھا جو کہ سارے گھروں کا مشترکہ تھا۔ اگر آپ ایک کونے سے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر جائیں تو سارے لوگوں کے گھروں کے سامنے سے گزر کے آپے دوسرے کونے والی سیڑھیوں سے اتر سکتے ہیں۔ اس کے بڑے سے صحن میں بہت ساری پلاسٹک کی تاریں بندھی ہوئی تھیں، ان تاروں پے لوگوں کپڑے سوکھنے کے لیئے پڑے ہوئے تھے۔ یہ کپڑے چمکیلی دھوپ اور ہلکی ہلکی ہوا کی وجہ سے ان تاروں پے لہرا رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ فرشتہ کو اس کے آنے پے خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔
ہم لوگ گاڑی سے نکلے۔ وہ شخص ہمارے آگے آگے چلتے ہوئے ہمیں اس چال نماں عمارت کی طرف لے گیا۔ ایک کونے میں سیڑھیاں تھیں۔ ہم لوگ سیڑھیاں طے کر کے دوسری منزل پے پہنچ گئے۔ اس عمارت میں سارے گھروں کے دروازے ایک جیسے تھے لیکن پاکستانیوں کے گھر کا ا یک لمحے میں پتا چل گیا کیونکہ اس کے باہر بیشمار جوتوں کے جوڑے پڑے ہوئے تھے اس کے علاوہ یہاں برامدے میں جو کپڑے سکھانے کے لیئے تار لگی ہوئی تھی اس پے شلواریں اور قمیصیں لہرا رہی تھیں۔ ایک شخص شلوار کے اوپر رنگین بنیان پہنے گھر کے باہر پڑے استری سٹینڈ پے کچھ استری کر رہا تھا۔ جو شخص ہمارے آگے آگے چل رہا تھا۔ اس نے اونچی آواز میں کہا، ’’بھئی میں مہمانوں کو لے آیا ہوں۔ میں ان کو چھوڑ کے جارہا ہوں مغل صاحب سے کہنا ان کا خیال رکھیں‘‘۔
اس شخص نے جواب دیا ، ’’آپ فکر ہی نہ کریں۔ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ بازار گئے ہوئے ہیں۔ میں ان کو اندر لے کر جاتا ہوں۔ دو اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے سوئٹرلینڈ جانا ہے‘‘۔
ان دونوں میں یہ مختصر سی گفتگو ہوئی اور وہ شخص جو ہمیں یہاں تک لایا تھا چلا گیا ، شاید اس نے واریزے ریلوے سٹیشن سے کسی اور کو لانا ہو۔ یہ شخص جو شلوار اور رنگین بنیان میں ملبوس تھا ہمیں گھر کے اندر لے کر گیا۔ ہم جیسے ہی گھر کے اندرد اخل ہوئے ہمیں ایک عجیب سی بو آنے لگی۔ پہلے میں نے سوچا شاید میرا وہم ہے لیکن نیائش نے میرے طرف دیکھتے ہوئے عجیب سی شکل بنائی اور کہنے لگا ،’’یہاں سے عجیب و غریب سی بو آرہی ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے یا تم نے بھی محسوس کیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں میں نے بھی محسوس کیا‘‘۔
جو شخص ہمیں اندر لے کر آیا تھا جس نے رنگین بنیان پہنی ہوئی تھی کہنے لگا، ’’آپ لوگ تشریف رکھیں ، میں آپ لوگوں کے لیئے چائے بناتا ہوں‘‘۔
جس دروازے سے ہم داخل ہوئے تھے بالکل اس کے سامنے ایک ڈائینگ ٹیبل پڑا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد چھ کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ جو کھڑکی برامدے کے ساتھ تھی اس دیوار کے ساتھ ایک بڑا صوفہ پڑا ہوا تھا۔ یہ کالے رنگ کا چمڑے کا کافی قیمتی صوفہ تھا۔ اس کے ساتھ والی دیوار کے ساتھ بھی ایک صوفہ پڑا ہوا تھا جس پر تین بندے بڑی آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔ ان دونوں صوفوں کے سامنے ایک میز پڑی ہوئی تھی ۔جس پے ایک دواردو اخبار پڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو راکھ دانیاں تھیں بلکہ
یوں کہنا چاہیئے کہ ایش ٹریز تھیں۔ دونوں پیلے پیلے فلٹرز اور ادھ جلے سگرٹوں سے بھری ہوئی تھیں۔ دونوں صوفوں کے درمیان کونے میں ایک چھوٹی سی میز تھی جس پے دو ریموٹ کنٹرول پڑے ہوئے تھے۔ میں اور نیائش کھڑکی کے ساتھ والے صوفے پے بیٹھ گئے اور جودیوار گھر کے پچھلے طرف کو تھی۔ اس طرف ایک ٹرالی پے ٹی وی اور اس کے نیچے رسیور پڑا ہوا تھا۔ ٹی وی سکرین پے کوئی گانوں کا چینل چل رہا تھا۔ میری آنکھیں تو ٹی وی دیکھ رہی تھیں لیکن ذہن کہیں اور تھا۔ چند منٹ میں وہ شخص جو رنگین بنیان پہنے ہوئے تھا ہمارے لیئے کانچ کے گلاسوں میں چائے لے آیا۔ چائے کا رنگ بتا رہا تھا کہ اس رنگین بنیان والے شخص نے پتی کم ڈالی ہے اور دودھ زیادہ۔ہم نے چائے زہر مار کی۔ ابھی ہم چائے کی بد ذائقہ ہونے کا سو چ ہی رہے تھے کہ کسی نے دروازہ کھولا۔ ایک بھاری بھرکم جسامت کا شخص داخل ہوا اور اس کے ساتھ ایک درمیانے قد کا شخص تھا۔ دونوں جب اندر داخل ہوئے تو قہقہے لگا رہے تھے۔ وہ رنگین بنیان والا شخص اس بھاری بھرکم ڈیل ڈول والے شخص سے مخاطب ہوا، ’’مغل صاحب یہ دو بندے اریزو سے آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے انہیں چائے وغیرہ پلادی ہے‘‘۔
وہ شخص جس کو اس نے مغل صاحب کہہ کر مخاطب کیا تھا نہ صرف بھاری بھرکم تھا بلکہ اس کی آواز بھی بہت بھاری تھی۔ اس نے کہا، ’’یہ تم نے بہت اچھا کیا‘‘۔ پھر نیائش سے مخاطب ہوا، ’’نیائش صاحب گھر ڈھونڈنے میں کوئی دقت تو پیش نہیں آئی‘‘۔
نیائش نے نہایت مہذب انداز میں کہا، ’’جی بالکل نہیں۔ آپ کا بندہ ہمیں واریزے ریلوے سٹیشن سے راستہ دکھاتا ہوا یہاں تک لایا ہے‘‘۔
پھر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’جناب کی تعریف‘‘۔
نیائش نے جواب دیا، ’’یہ میرے بہت اچھے دوست ہیں، بلکہ بھائی ہیں۔ میں نے انہیں بہت روکا ہے کہ سوئٹزرلینڈ نہ جاؤ لیکن یہ وہاں جانے پے مْصر ہیں‘‘۔
مغل صاحب نے پھر مجھ سے مخاظب ہوئے، ’’کیا نام ہے آپ کا‘‘۔
میں نے کہا، ’’جی فرشتہ‘‘۔
مغل صاحب پھر بولے، ’’تو فرشتہ صاحب ، آپ سوئٹزرلیند جانا چاہتے ہیں۔ میرے تو رائے ہے یہیں رک جائیں۔ آپ کو کاام پے لگوادیں گے۔ آپ کواٹالین زبان آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’جی بس گزارا کر لیتا ہوں‘‘۔
نیائش نے مزید بتایا، ’’جی گزارا نہیں کرتا بلکہ اچھی خاصی بول لیتا ہے۔ اس کے علاوہ فرنچ اور انگریزی بھی جانتا ہے۔ نہ جانے اس کے دما غ میں کیابات سما ں گئی ہے۔ کہتا ہے سوئٹزرلینڈ جانا ہے‘‘۔
’’نیائش صاحب جیسے ان کی مرضی‘‘۔
میں نے پوچھا ، ’’مغل صاحب کیا میں آج ہی چلا جاؤں گا یا کچھ وقت لگے‘‘۔
تو اس نے جواب دیا، ’’فرشتہ صاحب ہمیں مہمان نوازی کا موقع دیں۔ ایک دو دن رکیں۔ آپ کو میلانو ں شہر کی سیر کروائیں گے۔ اس کے بعد آپ کو سوئس چھوڑ آئیں گے، ایسی بھی کیا جلدی‘‘۔
ہم لوگ ابھی اس لگی لپٹی اور جعلی آپ جناب کی گفتگو میں محو تھے، ساتھ والے کمرے سے ایک شخص آنکھیں ملتا ہوا نمودار ہوا۔ نہ کسی کو سلام کیا ، نہ آداب۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی آکے صوفے پے بیٹھ گیا۔ جیسے ہی بیٹھا، اس نے کونے پے رکھی میز سے دومیں سے ایک ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور رسیور کے چینل گھمانے لگا۔ مغل صاحب نے گرجدار آواز میں کہا، ’’اوے کوچوان کہیں روک بھی دے‘‘۔
اس نے بات سنی ان سنی کردی اور اپنے کام میں مگن رہا۔ مغل صاحب نے ایک دفعہ پھر اس سے مخاطب ہوئے، ’’اوے کوچوان آج تو کام پے نہیں گیا‘‘۔
اس کا منہ ٹی وی کی طرف ، اس نے مغل صاحب کی طرف بنا دیکھے ہی جواب دیا، ’’مغل صاحب آج مالک کی طبیعت خراب تھی۔ اس لیئے اس نے فون کردیا تھا کہ آج نہیں آنا‘‘۔
مغل صاحب کے موبائیل فون کی گھنٹی بجی۔ ان کی گفتگو سے پتا چل رہا تھا کہ مغل صاحب کہیں باہر جارہے ہیں۔ ہم دونوں سے اجازت لیکر مغل صاحب باہر چلے گئے اور ساتھ اس بات کی بھی تسلی دے گئے کہ جلدی واپس آجائیں گے۔
جو شخص ٹی وی کے چینل بدل رہا تھامجھ سے مخاطب ہوا، ’’جناب کہا ں سے تعلق رکھتے ہیں‘‘؟
میں نے کہا، ’’جی راولپنڈی سے‘‘
وہ یہ سن کے بہت خوش ہوا۔کہنے لگا، ’’جی میں بھی پنڈی کا ہوں‘‘۔
میں نے سوچا اس سے پہلے ک یہ میرا انٹرویو لے کیوں نہ میں اس کا انٹرویو لوں۔
میں نے پوچھا، ’’پاکستان میں آپ کیا کرتے تھے‘‘۔
اس نے جواب دیا، ’’جی میں ٹانگہ چلاتا تھا‘‘۔
اب مجھے سمجھ آئی کہ مغل صاحب اسے کوچوان کیوں کہہ رہے تھے۔
میں نے دوسرا سوال کیا، ’’یہاں کب سے رہ رہے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں‘‘۔
اس نے بڑے جوش سے جواب دیا، ’’جی میں سپین سے آیا ہوں۔ سنا ہے اٹلی کی امیگریشن کھلنے والی ہے ۔ یہاں پے ایک فیکٹری میں موٹر وائینڈنگ کا کام مل گیا ہے۔ بڑی اچھی دیہاڑی مل جاتی ہے۔ پاکستان میں ٹانگہ چلاتا تھا وہاں بھی اچھی گزر بسر ہوجاتی تھی ۔ پھر ٹانگہ بیچ دیا۔ سوچا تھا سوزوکی لے لوں۔ کمیٹی والوں نے روٹ پرمٹ ہی نہیں دیا۔ وہاں پے کوئی بڑا ٹھیکے دار تھا جو رشوت لے کے روٹ پرمٹ دلواتا تھا۔ میں نے سوچا یہ کام ہی کتا ہے چھوڑوں اس کام کو۔ میں نے اِدھر اْدھر سے پیسے اکھٹے کیئے ۔ ڈنکیاں لگاتا لگاتا یورپ آگیا‘‘۔
پھر مجھ سے پوچھنے لگا، ’’آپ کیا کام کرتے ہیں اور کہا سے آئے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’میں کوئی کام نہیں کرتا اور اریزو سے آیا ہوں‘‘۔
ٓاس دوران دو اور اشخاص وارد ہوئے۔ آپ انہیں نوجوان کہہ سکتے ہیں کیونکہ دونوں کی عمر لگ بھگ بیس سے چوبیس کے درمیان تھی۔ وہ آکے سامنے والے صوفے پے بیٹھ گئے۔ وہ شخص جسے مغل صاحب نے کوچوان کے نام سے نوازا تھا، جو کہ ہمارے ساتھ محوِ گفتگو تھا ۔ ان سے مخاطب ہوا، ’’ہاں بھئی جوانوں نیند پوری ہوگئی‘‘۔
انہوں نے کورس کے سے انداز میں یا یوں کہیئے کہ یک زبان ہوکر جواب دیا، ’’جی بہت اچھی نیند آئی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’یہ لوگ کدھر سے آئے ہیں‘‘۔
کوچوان کہنے لگا،( میں اس کا نام نہیں جانتا اس لیئے میں کو کوچوان ہی لکھوں)’’یہ مغل صاحب کے مہمان ہیں ۔ انہوں نے سپین جانا ہے۔‘‘۔
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ مغل صاحب کا یہی کاروبار ہے۔ کمرے کی فضا ء عجیب سی ہوگئی۔ میں اور نیائش کوچوان کی گفتگو سے محظوظ ہورہے تھے۔ اب یہ دو نئے مہمان وارد ہوگئے۔
میں سوچ کے اسی گرداب میں پھنسا ہوا تھا کہ ان دو لڑکوں میں سے ایک نے جو ابھی ابھی وارد ہوئے تھے نے ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور لگا چینل بدلنے۔ آخر کار
B4U پے جا کے روک دیا۔ یہ انڈین سیٹلائٹ چینل ہے جو کہ ڈش اینٹیناء کی مدد سے نظر آتا ہے۔ اس پے انڈین فلموں کے نئے اور پرانے گانے لگتے ہیں۔ جس کے کئی سیگمنٹ ہوتے ہیں۔ جیسے ہی یہ چینل لگا سب کی نظریں ٹی وی کی طرف ہوگئیں۔
کوچوان بولا، ’’یہ چینل کیسے آتا۔ مجھے تو مغل صاحب نے بتایا تھا کہ اس چینل کو دیکھنے کے لیئے پیسے دینے پڑتے ہیں‘‘۔
ان دونوں لڑکوں میں سے ایک بولا، ’’یہ کبھی کبھی ایسی ہی آجاتا ہے‘‘
میں نے ان کی گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا، ’’اس طرح کی کوئی بات نہیں ۔ یہ چینل بالکل مفت ہے۔ اس کو دیکھنے کے کوئی پیسے نہیں دینے پڑتے‘‘۔
نیائش نے مجھے آہستگی سے کہا، ’’تمہیں کیا ضرورت ہے انہیں بتانے کی۔ انہیں مغل صاحب نے ڈرا ہوا ہوگا کیونکہ یہ چینل ایسا ہے اگر لگا ہوا ہو تو انسان کوئی کا م نہیں کرسکتا۔ سارا دن گانے ہی دیکھتا رہتا۔ کسی کو پرانے گانے پسند ہوتے ہیں، کسی کو نئے گانے۔ کوئی ہیجان انگیز گانے پسند کرتاہے‘‘۔
میں نے نیائش کی بات کی تائید کی اور کوچوان سے مخاطب ہوا، ’’جناب ‘‘۔ ابھی میں نے اتناہی کہا ہوگا کہ نیائش نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور آہستگی سے کہا، ’’ماڑا ن کو نہ بتانا جو میں کہہ رہا تھا‘‘۔ میں نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا، ’’نیائش بھائی آپ فکر نہ کریں میں واش روم کا پوچھنے لگا ہوں‘‘۔تو اس نے کہا، ’’اچھا اچھا ٹھیک ہے‘‘۔
کوچوان نے کہا، ’’آپ کچھ پوچھنے لگے تھے‘‘۔
’’میں یہ کہہ رہا تھا کہ واش روم کدھرہے‘‘۔
وہ میری شکل دیکھنے لگا۔ میں نے کہا، ’’مجھے پیشاب آیا ہے‘‘۔
تو کہنے گا، ’’بالکل کونے میں ہے‘‘۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔
میں اٹھا اور اس کے اشارے کے مطابق چلاگیا ۔ یہ ایک تنگ گلی نماں جگہ تھی۔ پہلے ایک کمرا آیا، جس میں دونوں اطرا ف میں ایک ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی جسے آج کل بیڈ کہتے ہیں۔ اوپر کمبل اور تکیئے بکھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف ٹی وی اور ڈی وی ڈی پلیئر پڑا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور کمرہ تھا اس کی بھی حالت ایسی تھی۔ آخری کمرہ اور واش روم ساتھ ساتھ تھے۔ آخری کمرے کا دروازہ بند تھا۔ میں واش روم میں داخل ہوا۔ اپنی حاجت رفع کی۔ واش روم کا معائنہ کیا۔ ایک طرف بڑا سا ٹب تھا جس کے اطراف میں پلاسٹک کا پردہ لگا ہوا تھا۔ ایک طرف واش بیسن تھا اس کے ساتھ ایک بڑا سا شیشہ لگا ہوا تھا اور اس کے آگے لگے ہوئے سٹینڈ پے بے شمار کریمیں اور ٹوتھ پیسٹ کی کچھ خالی اور بھری ہوئی ٹیوبز پڑی ہوئی تھیں۔ بے شمار ٹوٹھ برشز پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اس معائنے کے ملتوی کیا اور واش روم سے باہر آگیا واپسی پر بھی راستے میں آنے والے کمروں پے اچٹتی نظر ڈالی ۔ اور آکر واپس اس چمڑے کے صوفے پے بیٹھ گیا جو بڑاقیمتی دکھائی دے رہا تھا۔
نیائش کہنے لگا، ’’یار یہ مغل صاحب نا جانے کہاں رہ گئے ہیں‘‘۔
اس نے کوچوان سے پوچھا، ’’یار پتا تو کرو یہ مغل صاحب کہاں ہیں‘‘۔
اس نے جواب دیا، ’’بس جی آتے ہی ہوں گے۔ وہ اپنے دوست کے ساتھ گئے ہوئے ہیں‘‘۔
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ باہر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا۔ مغل صاحب ایک اورشخص کے ساتھ داخل ہوئے۔
آتے ہی کہنے لگے، ’’معاف کیجئے گا مجھے تھوڑی دیر ہوگئی ۔ میں آپ لوگوں کے لیئے ہی گیا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں بلایا اور کہا ،’’آئیں باہر چلتے ہیں وہاں جاکے بات کرتے ہیں‘‘۔
اتنا سننا تھا کہ ہم ان کے ساتھ ہولیئے کیونکہ یہاں بیٹھے بیٹھے ہم اْکتاء گئے تھے۔ ہم چاروں سیڑھیاں اترکے نیچے کھلی فضا میں آگئے۔ جہاں پے تاروں پے لوگوں کے کپڑے چمکتی دھوپ میں نہاں رہے تھے۔ وہاں ایک عدد ٹرک بھی کھڑا تھا اور اس کے پاس ایک کار کھڑی تھی۔ کار کے پاس جاکے مغل صاحب نے کہا، ’’یہ میرے دوست ہیں جعفر صاحب ۔ ہم دونوں آپ کو سوئٹزرلینڈ چھوڑ آئیں۔ میرا دل تو چاہتا تھا آپ لوگ ایک دو دن رکتے لیکن جعفر صاحب کہتے ہیں کہ آج ہی چلتے ہیں کیونکہ اگلے اتوار کو یہ فارغ نہیں ہوں گے‘‘۔
میں نے پوچھا ، ’’تو کیا ابھی جانا ہوگا‘‘۔
مغل صاحب نے جواب دیا، ’’ارے جناب ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ پہلے کھانا کھائیں گے۔ اس کے بعد چائے پیئیں گے۔ ابھی تو ایک بجا ہے۔ ہم لوگ قریباًچار بجے نکلیں گے ‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’مجھے تو واپس جانا ہے۔ میں نے تو سوموار کو کام پے جاؤں گا‘‘۔
’’نیائش بھائی آپ کو کس بات کی پریشانی ہے ۔ ہمارے پاس رکیں ۔ اپنے مالک کو فون کردینا کہ بیمار ہیں‘‘۔
’’مغل صاحب ایسا نہیں کرسکتا‘‘۔
’’چلیں جیسے آپ کی مرضی میں نے تو مشورہ دیا تھا‘‘۔
پھروہ نیائش اور مجھے ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا، ’’آپ مجھے دو سو یورو دے دیں۔ میں نے اپنے دوست کو دینے ہیں۔ وہ یہ کام پیسوں کے لیئے کرتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’پیسے میں پہنچنے کے بعد دوں گا‘‘۔
تو کہنے لگا ، ’’جیسے آپ کی مرضی۔ ایسا کیجئے گا نیائش صاحب ۔ اریزو میں میرچچا کا بیٹا ہوتا آپ اسے پیسے دے دیجئے گا۔ ا س کو میں اپنی جیب سے دے دیتا ہوں‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’ٹھیک ہے ، بہت شکریہ‘‘۔
اس کے بعد ہم میں کوئی بات نہ ہوئی۔ ہم لوگ واپس اسی گھر میں آگئے جہاں ہم پہلے بیٹھے ہوئے تھے۔ کوچوان اور دوسرے دو لڑکے ابھی تک بیٹھے
B4U پے گانے دیکھ رہے تھے۔ اس دورا ن دو لڑکوں کا اور اضافہ ہوچکا تھا۔
مغل صاحب نے باآواز بلند کہا، ’’چلو اوئے کوئی اور چینل لگاؤ۔ ہاں کھانا کون پکائے گا۔ ایسا کرو، فرج سے گوشت نکالو اور اور اچھا سا دال گوشت بناؤ۔ اور ہاں برکت ضرور ڈالنا کیونکہ بندے زیادہ ہیں‘‘۔
دو لڑکے جو نئے آئے تھے وہ دونوں اٹھے ۔ ان میں سے ایک آٹا گوندھنے لگا اور دوسرا کھانا بنانے کے لیئے پیاز اور ٹماٹر کاٹنے لگا۔
مغل صاحب آکے چمڑے کے صوفے پے بیٹھ گئے اور نیائش سے مخاطب ہوئے، ’’نیائش صاحب ، وہاں اریزو میں کام کے کیسے حالات ہیں‘‘۔
’’کیا بتاؤ جب سے امریکہ کا حادثہ ہوا مجھے لگتا ہے اس کا سب سے زیادہ اثر اریزو پر پڑا ۔ کام بہت کم ہوگیا اور ایسا لگتا ہے اریزو شہر غریب ہوگیا۔ آپ کو تو پتا ہی ہوگا اریزو میں بیشمار سونے چاندی کی فیکٹریاں تھیں۔ اب بہت کم ہوگئی ہیں۔ ان سب فیکٹریوں کا مال امریکہ جاتا تھا۔ امریکن منڈی میں مندی کا رجحان ہے‘‘۔
’’یہ بات تو ٹھیک ہے‘‘۔
باتوں باتوں میں ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ تین بج چکے ہیں۔ وہ دونوں لڑکے جب کھانا پکا چکے توانہوں نے روٹیاں پکانی شروع کردی تھیں اس لیئے کھانا پیش کرنے میں دیر ہوگئی تھی ۔ انہوں نے قریباًتیس روٹیاں پکائی ہونگی ۔ جیسی ہی وہ کھانے کی میز پے تمام چیزیں سجاچکے، انہوں نے با آواز بلند کہا، ’’آئیں جنا ب کھانا لگ گیا۔ ہم سارے اٹھے اور ایک ایک کرسی پے براجمان ہوگئے۔ جن کو کھانے کی میز پے جگہ نہ ملی وہ پلیٹ میں سالن ڈال کر اور ایک پلیٹ میں روٹیاں رکھ کے ایک طرف ہوگئے۔ کھانے کی میز کے بالکل درمیان میں سالن کا بڑا دیگچہ پڑا ہوا تھا۔ سب نے باری باری سالن اپنی پنی پلیٹ میں ڈالا۔ میں نے جیسے ہی پہلا نوالا لیا ، جھٹ سے پانی کا گلاس بھرا اور غٹا غٹ پانی پی گیا کیونکہ سالن میں نہ صرف مرچیں زیادہ تھیں بلکہ مصالحے بھی بہت زیادہ تھے۔ لیکن سالن بہت مزیدار تھا۔ جیسے ہی کھانے سے فارغ ہوئے مغل صاحب نے چائے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ چند لمحوں میں چائے بھی میز پر موجود تھی۔
مغل صاحب ایک دفعہ پھر گرجدار آواز میں بولے، ’’جوانوں یہ تمام برتن دھو دینا اور ا س کے بعد گھر کی صفائی بھی کردینا کیونکہ گھر بہت گندا لگ رہا ہے‘‘۔ اس کے بعد ہم سے مخاطب ہوئے، ’’آئیں جی نیائش صاحب باہر کھلی فضا ء میں جاکے کھڑے ہوتے ہیں‘‘۔ اس طرح ہم چاروں ، میرا مطلب ہے ، میں، نیائش، جعفر اور مغل صاحب نیچے کھلی فضاء میں آگئے۔
نیائش نے کہا، ’’مغل صاحب اگر مجھے اجازت دیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔ میں اپنے دوست کو آپ کے حوالے کرکے جارہا ہوں‘‘۔
مغل صاحب نے کہا، ’’جناب آپ فکر کیوں کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیئے قابلِ احترام ہیں۔ انشاء اللہ اگر خدا کو منظور ہوا تو جیسے ہی آپ اریزو پہنچے گیں یہ آپ کو سوس سے فون کریں گے کہ یہ وہاں پہنچ چکے ہیں۔ اگر خدا نا خواستہ کوئی مسئلہ ہوگیا تو میں ان کو اپنا نمبر دونگا۔ یہ جہاں بھی ہوں گے میں انہیں واپس واریزے اپنے گھر لے آؤ نگا‘‘
نیائش نے کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں ، مجھے آپ پے پورا بھروسہ ہے‘‘۔
اتنا کہہ کر نیائش مجھے ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا، ’’فرشتہ میں تمہیں مجبور نہیں کرتا لیکن جن دنوں کام والی جگہوں پے چھاپے وغیرہ زیادہ پڑتے ہیں ان دنوں امیگریشن کھلنے کے کافی امکانات ہوتے ہیں‘‘۔
’’نیائش تم فکر کیوں کرتے ہو۔ جیسے ہی امیگریشن کھلے گی میں واپس آ جاؤنگا‘‘۔
میں نے نیائش کو اپنے ضروری کاغذات دیئے۔ ایک چھوٹی سی ڈائری دی جس پے ٹیلی فون نمبر لکھے ہوئے تھے ۔ وہ کہنے لگا موبائیل فون بھی دے دو لیکن میں نے باقی کاغذات کے ساتھ اسے موبائیل فون نہ دیا۔ اس گفتگو کے بعد نیائش نے مجھے گلے لگایا اور اللہ حافظ کہہ کر مغل صاحب کے پاس چلا گیا ۔ ان دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی جو میں نہ سن سکا۔ پھر وہ جاکے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی سٹارٹ کی اور گاڑی سے ہاتھ ہلاتا ہوا اس برامدہ نماں جگہ ، جہاں تاروں پے لوگوں کے کپڑے سوکھنے کے لیئے چمکیلی دھوپ میں لہرا رہے تھے ااور اب دھوپ کی تمازت میں بھی کمی بھی آچکی تھی ،سے نکلا اور میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
اس کے بعد میں نے جعفر اور مغل صاحب نے بھی گاڑی میں بیٹھ کے سوس کے سفر کے لیئے رواں دواں ہونا تھا۔ مجھے جعفر کہنے لگا، ’’فرشتہ صاحب آپ اگلی سیٹ پے آجائیں ‘‘۔ میں نے دروازہ کھولا اور آکر اگلی سیٹ پے بیٹھ گیا۔ پچھلی سیٹ پے مغل صاحب بیٹھ گئے۔
جیسی ہی گاڑی سٹارٹ ہوئی ہم بھی اس برامدہ نماں جگہ سے نکلے۔ میں نے تاروں پے سوکھنے کے لیئے پڑے ہوئے رنگ برنگی کپڑوں پے آخری نظر ڈالی۔ ہماری کار دوبارہ انہیں کھیتوں کے پاس سے گزری اور ایک دو الٹے سیدھے راستے سے ہوتی ہوئی پکی سڑک پے آگئی۔
جعفر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’فرشتہ صاحب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہاں سوس جاکر سیاسی پناہ لے لینا۔ میرا مشورہ ہے کہ سوس کے آخری کونے پے چلے جانا ۔ میں سوس رہ کر آیا ہوں ۔ وہاں پے گورنمنٹ کی طرف سے کافی سہولتیں ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو آپ وہاں سے اٹلی کیوں آگئے‘‘۔
’’بس کیا بتاؤں ۔ جس لڑکی سے شادی کی تھی ،اس سے جھگڑہ ہوگیا ۔ اس نے شکایت کردی تھی۔ اس دوران اٹلی کی امیگریشن کھلی تو میں یہاں آگیا‘‘۔
’’اس کے بعد کبھی جانا ہوا‘‘
’’جی ہاں اکثر جاتا رہتا ہوں‘‘۔
مجھے کہاں تک چھوڑ کر آئیں گے‘‘۔
’’آپ فکر نہ کریں آپ کو آپ کی منزلِ مقصود پے پہنچا کے آئیں گے۔ آپ ایسا کیجئے گا۔ جب ہم لوگ کومو (
Como)سے کیاسو(Chaisso) پہنچے گے ۔ آپ وہاں سے لوگانوں(Logano) کا ٹکٹ لینا۔ اس کے بعد لوگانوں (Logano)سے کرائس لنگن(Kreuzlingen) کا ٹکٹ لیجئے گا۔ ویسے تو سوس میں سیاسی پناہ لینے کے چار بڑے سینٹر ہیں لیکن کرائس لنگن (Kreuzlingen)اس لیئے بہتر ہے کیونکہ یہ جرمنی کے بارڈر کے پاس ہے۔ اگر آپ نے لوگانوں (Logano)کے سینٹر میں درخواست دی تو ان کو شک ہوجائے گا اور ایسا عین ممکن ہے کہ وہ آپ کو اٹلی واپس بھیج دیں۔ پھر آ پ کے لیئے بڑا مسئلہ ہوگا۔ اگر کبھی امیگریشن کھلی اور آپ کا اٹلی واپس آنے کو دل چاہا تو اس صورت میں آپ یہ موقع کھو دیں گے‘‘۔
’’آپ بالکل فکر نہ کریں ۔میں ایسا ہی کروں گا۔ بس مجھے اس شہر کا نام لکھ دیں ۔ جب میں ٹکٹ لوں گا تو مجھے یاد رہے گا‘‘۔
پیچھے سے مغل صاحب کی آواز آئی، ’’جعفر باقی باتیں سٹیشن پے سمجھا دینا‘‘۔
’’ٹھیک ہے مغل صاحب ‘‘۔
اس کے بعد ہمارے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔ گاڑی اچانک ایک بہت ہی خوبصورت راستے پے چلنے لگی۔ یہ سڑک گرمی کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی کالی دکھ رہی تھی۔ اس کے دونوں طرف چیڑ کے گھنے درخت تھے۔ جو سڑک پے بالکل ایسے جھکے ہوئے جیسے جن دنوں میں ٹورسٹ گائیڈ تھا تو سوات کے راستے میں شنگر دار سٹوپا کے پاس اس طرح کی ایک سڑک آتی تھی اور مجھے اس کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ یہ راستہ میرا من پسند تھا۔ سڑک کے دونوں طرف درخت ایسے جھکے ہوتے جیسے سڑک کو غور سے دیکھ رہے ہوں۔ یہ منظر زیادہ دیر نہ رہا۔ ہم اس سڑک سے نکل کے ایک کھلی جگہ آئے۔ اس روڈ پے چار راستے تھے۔ دو راستوں پے گاڑیاں جارہی تھیں اور دو راستوں سے گاڑیاں آرہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں کوموں(
Como) ریلو ے سٹیشن کا ماتھا نظر آیا۔ جس پے جلی حروف میں کوموں(Como) لکھا ہوا تھا۔ جعفر نے پارکنگ میں جا کے گاڑی کھڑی کی، گاڑی سے نکلا اور پارکنگ مشین سے پارکنگ ٹکٹ نکال کے گاڑی کی فرنٹ سکرین پے لگا دیا۔ اس کے بعد میں اور مغل صاحب بھی گاڑی سے نکلے ۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے سٹیشن میں داخل ہوئے۔ جعفر کہنے لگا، ’’میں جاکے ٹکٹ لے آتا ہوں‘‘۔
مغل صاحب نے پیچھے سے آواز دی، ’’صر ف ایک ہی ٹکٹ لانا ۔ ہم لوگ تو واپس آجائیں گے۔ ویسے بھی لوکل ٹرین پے کون چیک کرتا ہے‘‘۔
چند لمحوں میں جعفر ٹکٹ لے کر آگیا۔ کہنے لگا، ’’ہم لوگ آپ کے ساتھ جائیں گے۔ آپ سیٹ پے بیٹھ جانا اور ہم دونوں ٹرین میں چکر لگاتے رہیں۔ اگر پولیس وغیرہ کا کنٹرول ہوا تو ہم آپ کو اشارہ کردیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ اتر جانا۔ دوسری صورت میں ہم کیاسو (
Chiasso) ہی اتریں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آپ بالکل فکر نہ کریں‘‘۔
ہم لوگ ریلوے سٹیشن پے آتے جاتے مسافروں کو دیکھ رہے تھے۔ اسی اثناء جعفر نے اشارہ کیا کہ ہماری ٹرین فلاں پلیٹ فارم نمبر پے آگئی ہے۔ ہم لوگ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے مطلوبہ پلیٹ فارم پے پہنچے ۔ ٹرین میں سوار ہوتے ہی جعفر نے ایک دفعہ پھر تاکید کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ لوکل ٹرین تھوڑی دیر میں کیاسو (
Chiasso) ریلوے سٹیشن پے ہوگی۔ٹرین ایک جھٹکے سے چلی۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا باہر کے مناظر دیکھنے لگا۔ جعفر اور مغل صاحب پہلے تو کھڑے رہے پھر ٹرین کے ڈبوں میں چکر لگانے شروع کردیئے۔ آتے جاتے مجھے اشارہ کرجاتے کہ سب ٹھیک ہے۔ جیسے جیسے ٹرین کومو سے دور ہوتی جارہی تھی ویسے ویسے باہر کے مناظر بدل رہے تھے۔ شام کے ساڑھے پانچ بجے تھے۔ جون کے مہینے میں دن ویسے بھی لمبے ہوتے ہیں اس لیئے باہر کافی روشنی تھی۔ سب صاف دکھائی دے رہا تھا۔ بمشکل پندرہ یا بیس منٹ گزریں ہوں گے۔ میں نے کیاسو(Chaisso) کا بورڈ پڑھا۔ اس دوران میرے سامنے سے ایک ٹرین گزر ی جس پے کئی زبانوں میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ مجھے کسی کی آواز سنائی دی، ’’فرشتہ صاحب تیار ہوجائیں سوس کا پہلا شہر کیاسو آگیا ہے۔ جیسے ہی ٹرین رکے گی آپ نے ہمارے پیچھے پیچھے آنا ہے۔ جس راستے سے میں نکل کے جاؤں گا ونہی سے آپ نے بھی نکلنا ہے‘‘۔
جیسے ہی ٹرین رکی میں جعفر اور مغل صاحب کے پیچھے ہولیا۔ ہم تینوں ایک سْرنگ نماں جگہ سے گزر کے باہر آگئے۔ جس سْرنگ سے نکل کے ہم آئے تھے اس کے بالکل مخالف سمت ایک اور سْرنگ تھی جو کہ دوسری طرف جارہی تھی۔ ایک راستہ اطالوی لوگوں کے لیئے تھا جو سوس سے واپس آرہے تھے یا دیگر سیاحوں کے لیئے تھا جو اٹلی آرہے تھے اور دوسرا راستہ جس سے میں گزر کر آیا تھا وہ اطالوی لوگوں اور دیگر لوگوں کے لیئے تھا جو سوس جارہے تھے۔ ہم تینوں کیاسو ریلوے سٹیشن کے باہر کھڑے تھے۔ اس کے ایک کونے میں ٹیلی فو ن کیبن بنے ہوئے تھے۔ مجھے مغل صاحب کہنے لگے، ’’فرشتہ صاحب نیائش صاحب کو بتا دیں کہ آپ سوس پہنچ چکے ہیں‘‘۔ میں جلدی سے کیبن کی طرف گیا لیکن اس ٹیلی فون بوتھ میں یورپیئن یونین کے سکے نہیں چلتے تھے مجھے جعفر نے ایک سوس سکہ دیا اور کہا، ’’یہاں یہ چلتا ہے‘‘۔ میں نے اس سے سکہ لیا یہ بھی نہ دیکھا کہ کتنے مالیت کا سکہ ہے۔ جلدی سے سکہ ٹیلی فون بوتھ کی سَلوٹ میں ڈالا اور نیائش کا موبائیل نمبر ملا دیا۔ دوسری طر ف سے آواز آئی، ’’کی اے ‘‘۔ اس نے اٹالین میں اس لیئے پوچھا تھا کہ کون ہے کیونکہ میرا نمبر نہیں آیا تھا۔ میں نے جواب دیا، ’’نیائش بھائی میں یہاں سوس پہنچ گیا ہوں۔ اس شہر کا نام کیاسو ہے ۔ یہاں سے میں آگے جاؤں گا۔ منزل پے پہنچ کے آپ کا فون کروں۔اللہ حافظ‘‘۔
نیائش نے بھی اللہ حافظ کیا اور فون بند ہوگیا۔
میں فون بوتھ سے باہر آیا تو مغل صاحب کہنے لگے، ’’وہاں خیر خیریت سے پہنچ کے اطلاع دینا اور ہاں نیائش صاحب کو پیسوں کی ادائیگی کی تاکید کردینا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’مغل صاحب آپ فکر نہ کریں۔ آپ کی رقم امانت ہے‘‘۔
اس کے بعد جعفر اور مغل صاحب نے مجھ سے اجازت لی لیکن اچانک مغل صاحب کو کچھ یاد آیا اور مڑے، ’’یہ پچاس یورو رکھ لیں مجھے نیائش صاحب جاتے ہوئے دے گئے تھے‘‘۔ میں نے خاموشی سے پیسے جیب میں رکھے اور مسکراء دیا۔ اب مجھے پتہ چلا نیائش کیوں مغل صاحب کو ایک طرف لے گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے خدا حافظ کہا اور چل دیئے۔ میں سوچنے لگا کتنا آسان کام ہے ۔ ٹرین میں دو تین چکر لگاؤ اور دو سو یورو کماؤ۔ جب تک میں میلانوں نہیں آیا تھا میں یہی سمجھ رہا تھا یہ لوگ مجھے گاڑی میں لے کر جائیں گے لیکن یہ بات مجھے بعد میں پتا چلی کہ مجھے ٹرین کے ذریعے جانا ہے۔ خیر میں نے اس خیال کو جھٹک دیا اور اگلے سٹیشن کے لیئے ٹکٹ خریدنے چلا گیا۔ جب میں کھڑکی پے پہنچا جسے فرنچ لوگ گیشے ،اطالوی لوگ سپورتیلو اور انگریز لوگ ونڈو کہتے ہیں۔ میں شیشے کے اِس طرف کھڑا تھا اور اندر کیبن میں بیٹھی ہوئی سوس عورت شیشے کےْ اس طرف تھی۔ ہمارے درمیان شیشہ تھا اور اس شیشے میں
ایک طرف سوراخ تھا جہاں سے آپ مطلوبہ رقم دے کر اپنی منزلِ مقصود کا ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس عورت کی عمر لگ بھگ چالیس یا پینتالیس سال ہوگی۔ چہرے مہرے سے ٹھیک لگتی تھی۔ بال سنہرے ،دونوں شانوں پے لہرا رہے تھے۔ اس نے ہلکے سے رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی اور گلے میں نیلی اور پیلی دھاریوں والا سکارف باندھا ہوا تھا ۔ اس سکارف کی گرہ بڑے خاص انداز میں لگائی گئی تھی۔ جون کے مہینے میں گرمی ہوتی ہے۔ ویسی تو نہیں جیسی پاکستان میں یا دیگر ایشیائی ممالک میں جون کے دنوں میں ہوتی ہے لیکن ایسا بھی موسم نہیں تھا کہ اوپر کوٹ بھی پہنتی لیکن شاید گہرے نیلے رنگ کا کوٹ اس کے یونیفارم کا حصہ تھا اس لیئے اس نے کوٹ بھی پہنا ہوا تھا۔ جبکہ اٹلی میں ریلوے کے ملازمین کا لباس آسمانی قمیض، سبز ٹائی ، سبز کوٹ اور کالی پتلون ہے۔ اس لباس کی تبدیلی بتا رہی تھی کہ میں ایک دوسرے ملک میں تھا۔ میں نے سوچا اس سے اٹالین میں بات کروں پھر خیال آیا کہ اس سے انگریزی میں بات کرتا ہوں۔ میں نے اس سے انگریزی میں کہا کہ مجھے لوگانوں جانا ہے ۔اس لیئے مجھے لوگانوں تک کا ٹکٹ دے دو۔ اس نے میری بتائی ہوئی منزل کا مجھے ٹکٹ بنا دیا۔ اور شیشے کا وہ حصہ جہاں ایک دائرہ سا بنا ہوا تھا وہاں سے ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ پچاس میں یورو کا نوٹ تھما دیا۔ نوٹ میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہنے لگی کہ میں تمہیں یورو نہیں دو ں گی بلکہ تمہیں سوس فرانک دوں گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ پچاس یورو کے نوٹ سے ٹکٹ کے پیسے لے کر اس نے مجھے باقی ماندہ رقم سوس فرانک کی صورت میں دی جوکہ نوٹوں اور سکوں کی صورت میں تھی۔ میں نے ٹرین کا ٹکٹ اور باقی رقم جیب میں ڈالی اور جس پلیٹ فارم پے لوگانوں جانے والی ٹرین نے آنا تھا وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ مجھے اٹلی کی ٹرینوں میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تھا ۔ وہاں کی لوکل اور ریجنل ٹرینوں کا برا حال ہے۔ اس کے علاوہ انٹر سٹی ور ہائی سپیڈ ٹرینیں تھوڑی بہتر ہیں اس کے برعکس سوس کی لوکل اور ریجنل ٹرینوں کا معیار کافی اچھا تھا۔ ایک دو ٹرینیں کھڑی تھیں ۔ ان پے چار مختلف زبانوں میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ جرمن، فرنچ اور اٹالین تو مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہی تھیں لیکن چوتھی زبان میری پلے نہ پڑی۔ میں سوس کے حوالے سے سوچنے لگا کہ یہاں کے بارے کیا مشہور ہے ۔ سب سے پہلے تو میرے ذہن میں انڈین فلمیں آئیں جو زیادہ تو ہندوستان میں بنتی ہیں لیکن گانے کے وقت ہیروئن کو نیند آجاتی ہے اور پورا گانا سوئٹزرلینڈ میں فلمایا جاتا ہے۔ شاید ہندوستان کی فلموں میں اور ہندوستان کے لوگوں کے لیئے خیالی اور تصوراتی جنت سوس جیسی ہے۔ جیسے ہی گانا ختم ہوتا ہے ہیروئن یا ہیرو واپس ہندوستان پہنچ جاتے ہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ سوس گھڑیاں بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ میں سوچنے لگا سوس لوگ صرف گھڑیاں کیوں بناتے ہیں اور کچھ کیوں نہیں بناتے۔ پھر سوچنے لگا سیاحت سوس کے لیئے صنعت کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ لوگ اس کو پروموٹ بھی بہت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوری دنیا کے بڑے ملکوں کے لیڈروں کے ناجائز کمائی کے اکاؤنٹ بھی تو یہاں ہوتے ہیں ۔ سوس بینکنگ پوری دنیا میں قابلِ اعتماد ہے۔ اسی لیئے تو عربی شیخ اپنی تیل کی کمائی سوس بینکوں میں رکھنا پسند کرتے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ سود بھی نہیں لیتے ۔پھر مجھے فرنچ فلاسفر وولٹیغ (وولٹیر) کا خیال آنے لگا۔ اس کا باپ گھڑیاں بنا تا تھا۔ وولٹیر کے بارے میں ہمیں فرنچ کلچرل سنٹر میں کافی کچھ بتایا گیا تھا جن دنوں میں فرنچ سیکھنے جایا کرتا تھا۔ فرنچ کلچرل سنٹر سے یاد آیا ۔ میں نے وہاں چند دن ماڈرن جیز ڈانس کی کلاسیں بھی لی تھیں۔ ہمارا استاد جو کہ نوجوان تھا۔ اس نے جب تعلیم مکمل کی تو اس کو فرانس کی حکومت نے دو سال آرمی میں گزارنے کو کہا ۔اگر وہ فوج میں دو سال نہیں گزارتا تو دوسری صورت میں اسے کسی دوسرے ملک میں دو سال گزارنے ہوں گے ۔ اس نے آرمی میں دو سال گزارنے کے بجائے دوسری ملک میں جا کے فرنچ زبان سکھانے کو ترجیح دی۔ وہ پاکستان آیا اور قانون کی رْو سے اسے دوسال فرنچ کلچرل سنٹر میں غیرملکیوں کو فرنچ پڑھانی تھی۔ وہ ہفتے میں پانچ دن فرنچ سکھایا کرتا اس کے علاوہ وہ ماڈرن جیز ڈانس کا بھی استاد تھا۔ ایک طرف تو وہ اپنی پریکٹس کیا کرتا اس کے ساتھ اس نے لوگوں کو ماڈرن جیز ڈانس بھی سکھانا شروع کردیا۔ فرنچ کلاس کے بعد ہفتے میں دو دن وہ ڈانس بھی سکھایا کرتا ۔ فیس اس نے بہت کم رکھی تانکہ زیادہ سے زیادہ سٹوڈنٹ آئیں لیکن ایساکچھ نہیں ہوا۔ ۔ فرنچ کلچرل سنٹر میں ایک دو پاکستانی لڑکیوں نے اس کی کلاس میں حصہ لیا۔ اس کے بعد ایک افغانی لڑکی بھی آگئی۔ پھر میں نے بھی حصہ لینا شروع کردیا۔ مجھے وہ جو بھی سکھاتا میں گھر آکر اس کی پریکٹس بھی کیا کرتا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں باقی شاگردوں سے کافی بہتر تھا۔ ہمیں ایک مہینہ گزرا ہوگا کہ ہمارے ڈانس کی کلاس میں ایک سوس لڑکی بھی شامل ہوگئی۔ ہم لوگوں کوہمارے ٹیچر نے سختی سے منع کیا تھا کہ ڈانس کے لیئے جینز نہ پہن کر آیا کرولیکن ہم نے اس کی بات کبھی نہ سنی۔ اس کے برعکس وہ سوس لڑکی باقاعدہ طور پے ڈانس کا لباس پہن کر آیا کرتی ۔ جب وہ پہلے دن ہماری کلاس میں آئی ہم سب حیران رہ گئے۔ ہم سبھی کافی آزاد خیال تھے لیکن اس حد تک نہیں تھے۔ مجھے اس کا پہلادن بالکل اس طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔
وہ سوس ایمبیسی میں کام کرتی تھی۔ کیا کام کرتی تھی اس بات کا مجھے کوئی علم نہیں نہ ہی میں نے کبھی پوچھا۔ اس کا مسئلہ بھی ہمارے فرنچ زبان کے استاد جیسا تھا جو کہ ہمارا ڈانس ٹیچر بھی تھا۔ اس کا نام سوزی تھا۔ مکمل نام بہت مشکل تھا اس لیئے سب اسے سوزی ہی کہہ کر پکارتے۔ سوزی ہنس مکھ اور گپ شپ لگانے والی لڑکی تھی۔ اسے پاکستان کے شمالی علاقاجات بہت پسند تھے اس کے علاوہ وہ پاکستانی لوگوں کی مہمان نوازی سے بڑی متاثر تھی۔ سوزی قد میں ہم سب سے لمبی تھی۔ اس کے علاوہ اس جسم بہت بھرا بھرا اور متناسب تھا ۔ جب وہ پہلے دن ماڈرن جیز ڈانس کی کلاس میں آئی تو اتفاق سے وہ میرے ساتھ آکے کھڑی ہوگئی ۔ میں جیز اور ٹی شرٹس میں ملبوس تھا جوتے اور جرابیں میں اتاردیا کرتا کیونکہ جہاں ہمیں ہمارا ٹیچر ڈانس سکھایا کرتا اس کا فرش لکڑی کے تختوں کا بنا ہوا تھا اس لیئے پاؤں کو کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ وہ میری ساتھ کھڑی تھی۔ ابھی ڈانس ٹیچر نے کلاس شروع نہیں کی تھی۔ میں نے سر سے پاؤں تک اس کا جائز ہ لیا۔ پاؤں سے لے کر کولہوں تک دو لمبی لمبی اور گوری گوری چیزیں۔ اس کی ٹانگوں کی مچھلیاں اور رانیں دیکھ کے میں حیران رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کسی نے سفید سنگِ مر مر سے تراشی ہیں۔ باقی جسم بھی متناسب تھا لیکن اس نے جو ڈانس کا لباس پہنا ہوا تھا اس کی وجہ سے اس کی چھاتیاں ایسی پچکی ہوئی تھیں جیسے کسی نے ربڑ کے گیند چھپائے ہوئے ہوں۔ اس کے دیکھ کے مجھے انگریزی فلم فلیش ڈانس کی ہیروئن جینیفر بیلز یاد آگئی۔ وہ بھی فائنل ڈانس کے لیئے اس طرح کا لباس پہن کر آتی ہے۔ اتفاق سے ہمارا ٹیچر بھی ہمیں فلیش ڈانس کے گانے پے ہی پریکٹس کروا رہا تھا۔ سوزی شکل صورت کی ٹھیک تھی گول شیشوں عینک لگاتی تھی۔جب اس نے ڈانس کے لیئے عینک اتاری تو اس کی ناک کی ہڈی کے مسلسل عینک پہننے کے نشان بہت عجیب لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ اس کی آنکھیں بھی ایسی لگ رہی تھیں جیسے اندر کو دھنسی ہوئی ہوں۔ جیسے ہی ہمارے ڈانس ٹیچر نے ٹیپ ریکارڈر پے گانا شروع کیا ۔ پہلے میوزک کا ایک پیس بجا ہم سب نے ہلنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح ہمارا جسم گرم ہوجاتا تھا۔ پھر گانا شروع ہوا ،وہی فلیش ڈانس کا ، "
what a feeling" سب نے داہنی ٹانگ ہوا میں لہرا دی۔ سوزی نے بھی اپنی خوبصورت ٹانگ ہوا میں لہرا دی۔ میری نظر اس پے تھی۔ جتنی دیر تک ڈانس کی کلاس چلتی رہی میں سوزی کے جسم کے نظارے کرتا رہا۔ کبھی ٹانگوں پے نظر پڑتی کبھی اس کے گول گول بازوؤں پے نظر پڑتی ۔ کبھی اس کی پچکی ہوئی چھاتیوں پر۔ ڈانس کی کلاس ختم ہوئی تو ساری سٹوڈنٹ میرے پاس آگئے اور لگے پوچھنے ، ’’بھئی اس میں ایسی کیا بات تھی جو تم ڈانس کے دوران اس کو دیکھ رہے تھے‘‘۔ میں نے جواب دیا، ’’اس کا مطلب ہے تم بھی اس کی طرف دیکھ رہے تھے‘‘۔ ایک لڑکی جو خود کو بڑی تیز طرار سمجھتی تھی اس نے کہا، ’’ہم اسے نہیں تمہیں دیکھ رہے تھے ‘‘۔ ابھی ہم یہی باتیں کررہے تھے کہ سوزی نے مجھے فرنچ زبان میں آواز دی۔ میں اس کے پاس چلا گیا۔ مجھے کہنے لگی تم ڈانس اچھا کرتے ہو۔ کہا ں سے سیکھا ہے۔ میں نے کہا یہیں سے سیکھا ۔ تو کہنے لگی میرا نہیں خیال کہ ایک مہینے میں کوئی اتنا اچھا ڈانس کرسکتا ہے۔ میں نے کہا، مجھے شوق بھی ہے اور اس کے علاوہ میں گھر جاکر پریکٹس بھی کرتاہوں۔ اس طرح سوزی سے میرے دوستی ہوگئی۔ اب ہفتے میں جب بھی وہ دو دفعہ ڈانس کی کلاس میں آتی ڈانس کے بعد ہم لوگ اکھٹے بیٹھتے ۔ کبھی وہ کچھ نا کچھ پلا دیا کرتا اور کبھی میں۔ لیکن اس دوران ہمارے فرنچ کے ٹیچر کے دو سال پورے ہوچکے تھے۔ اس طرح اس کی جگہ ہمیں ایک پاکستانی فرنچ پڑھانے لگا جو فرانس کی یونیورسٹی سے پڑھ کر آیا تھا۔ صبح وہ انٹرنیشنل سکول میں پڑھایا کرتا اور شام کو ہماری کلاس لیا کرتا۔ لیکن ہماری ڈانس کی کلاس ختم ہوگئی۔ اس طرح سوزی نے فرنچ کلچرل سنٹر آنا بند کردیا۔ ساری کلاس مجھے چھیڑا کرتی ۔ فرشتہ تمہارا پہلا پیار ادھورا رہ گیا۔ ہمارا ڈپلومہ مکمل ہوا تو ہماری فرنچ کی کلاس بھی بکھر گئی۔ سوزی کی کہانی ونہی ختم ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے انگریزی اور فرنچ سپیکنگ گائیڈ کی نوکری کرلی۔
اس بات کو پورا سال گزر چکا تھا۔ ایک دن میں گروپ کے ساتھ چلاس کے ہوٹل شنگریلا میں اپنے کمرے کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں بیٹھا برٹرینڈ رسل کی کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میرے کندھے پے کسی نے ہاتھ رکھا۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو حیران رہ گیا۔ میرے پیچھے سوزی کھڑی تھی۔
میں نے فرنچ میں کہا، ’’تم یہاں کیا کررہی ہو‘‘
اس نے جواب دیا، ’’میں نے نوکری کے دوسال پورے کرلیئے ہیں۔ اب میں واپس جارہی ہوں۔ میں نے سوچا جانے سے پہلے پاکستان کے شمالی علاقہ جات دیکھتی جاؤں‘‘۔
پھر اس نے مجھ سے پوچھا، ’’تم یہاں کیا کررہے ہو‘‘۔
میں نے جواب دیا، ’’میں نے ڈپلومہ مکمل کرنے کے بعد ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری اختیار کرلی ہے۔ اب غیرملکی سیاحوں کو پاکستان کے خوبصورت علاقوں کی سیر کرواتا ہوں‘‘۔
میرا جواب سننے کے بعد کہنے لگی، ’’تمہارا گروپ کس ملک کا ہے‘‘۔
میں نے بے دلی سے جواب دیا، ’’فرنچ گروپ ہے۔ نوول فرنٹیئر(
Nouvelle Frontiere)، بہت ہی کنجوس ہیں۔ نہ کچھ خریدتے ہیں نہ ہی یہ لوگ اچھی ٹپ دیتے ہیں۔ کیا کریں کام تو کرنا ہے‘‘۔
’’کہاں کہاں لے کر جاؤ گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ یہاں سے گلگت جانا ہے، گلگت سے ہنزہ، وادیءِ نگر،گْلمت، سْست اس کے بعد واپسی پے بیشام آناہے۔ بیشام سے سوات، سوات سے چترال ، چترال سے پشاور کی فلائٹ ہے۔ ان لوگوں کی پشاور سے فرانس واپسی کی فلائٹ ہے‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’کافی لمبا ٹور ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہے تو‘‘۔
پھر اس نے مجھ سے کہا، ’’تمہارا کمرہ کون سا ہے‘‘۔
میں نے اسے اپنی چابی دکھائی۔ تو بڑی خوش ہوئی اور کہنے لگی، ’’دیکھا ہمیں قسمت نے پھر ملایا اور ملایا بھی کہاں، یہاں چلاس میں اور ہمارا کمرہ بھی ساتھ ساتھ ہے۔‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ محض اتفاق تو نہیں ۔میرا خیال ہے تم میرا پیچھا کررہی تھیں‘‘۔
وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔
میں نے اسے کہا، ’’ جب دھوپ کی تمازت کم ہوگی تو میں اپنے گروپ کو راک کارونگ (
rock carving) دکھلانے لے جاؤں گا۔ اگرتم مصروف نہیں ہو تو تم بھی چلو۔ دیکھنا میں کیسے ان فرنچ لوگوں کو بیوقوف بناتا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’مجھے پتا ہے گائیڈ کیا کرتے ہیں۔ خیر میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی لیکن تمہارے گروپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا‘‘۔
میں نے کہا ، ’’یہ تم مجھ پے چھوڑ دو اور ہاں ٹھیک پانچ بجے تیار رہنا۔میں نے اپنے گروپ کو پانچ بجے کا وقت دیاہے‘‘۔
تو کہنے لگی’’ اس بات کی تم فکر نہ کرو‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ساڑھے چار بجے اپنے گروپ کے انتظار میں کوسٹر کے پاس آکے کھڑا ہوگیا۔ میں نے ڈرائیور کو بھی سمجھا دیا کہ کیا کرنا ہے ۔ وہ کہنے لگا باؤ جی فکر ہی نہ کریں۔ پانچ بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔ دور سے سوزی آتی دکھائی دی۔ آتے ہی کہنے لگی، ’’مجھے دیر تو نہیں ہوگئی‘‘۔ میں نے کہا ،’’نہیں تم وقت سے پہلے آگئی ہو‘‘۔ ٹھیک پانچ بجے میں ،سوزی اور باقی گروپ راک کارونگ (
rock carving)دیکھنے کے لیئے نکلے۔ وہاں پہنچ کے مجھے ان راک کارونگ کے بارے میں جو بھی پتا تھا سب بتایا۔ چند ایک نے سوال کیئے ، کتابوں سے تصویریں نکال نکال کے مجھے دکھانے لگے کہ یہ چیز کہا ں ہے، وہ چیز کہاں ہے۔ گروپ کے زیادہ لوگ بوڑھے تھے اس لیئے کئی ایک کو چلنے میں بھی مدد کروائی۔ جب ان کاموں سے فارغ ہوگیا تو سوزی کے پاس آکے کھڑا ہوگیا۔ وہ کہنے لگی ، ’’فرشتہ تمہیں تو کافی
کچھ پتا ہے۔ میرا خیال تھا تم اِدھر اْدھر کی باتیں کرو گے اور ان سے جان چھڑا لو گے‘‘۔ میں نے کہا، ’’میں مذاق کررہا تھا۔ مجھے خود بھی تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے کہرا لگاؤ ہے۔ اسی لیئے میں نے یہ کام شروع کیا ہے‘‘۔
جب تمام ٹورسٹ جی بھر کے تصاویر بنا چکے تو ہم لوگ چلاس کے شنگریلا ہوٹل واپس آگئے۔ ہم لوگوں نے رات یہاں گزار کے صبح سویرے گلگت کے لیئے نکلنا تھا۔ ہم سب لوگوں نے ہوٹل کے بڑے ہال میں رات کا کھانا کھایا۔ میں نے سب کو صبح سات بجے ناشتے کا وقت دیا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ہم لوگ ٹھیک آٹھ بجے یہاں سے نکل چلیں گے۔ سب نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔ میں ان کاموں سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں آگیا۔ میرے دروازے پے دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے سوزی کھڑی تھی۔ کہنے لگی ، ’’تمہیں نیند تو نہیں آرہی ‘‘۔ میں نے کہا، ’’نہیں‘‘۔
’’چلوں گپ شپ لگاتے ہیں‘‘۔
میں کہا، ’’آؤ باغیچے میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ تو کہنے لگی، ’’دل تو چاہتا ہے لیکن وہاں بہت بڑے بڑے مچھر ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ بات تو درست ہے لیکن کوئی بات نہیں مچھروں کو بھی تو تھوڑا سوس خون پینے دو‘‘۔
جواب میں کہنے لگی، ’’ہمارا خون پینا اتنا آسان نہیں‘‘۔
میں نے کہا ،’’اگر تمہیں برا نہ لگے تو میرے کمرے میں آجاؤ‘‘۔
اس طرح سوزی میرے ساتھ میرے کمرے میں آگئی۔ میرے دماغ میں کسی قسم کا کوئی خیال نہیں تھا ۔ میں یہی سوچ رہا تھا تھوڑی گپ شپ لگائیں اور پھروہ چلی جائے گی۔
سوزی نے ڈھیلی ڈھالی ٹی شرت پہنی ہوئی تھی اور نیچے کسی ہلکے سے کپڑے کا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ پاؤ میں ہوائی چپل تھی۔
کمرے میں آتے ہی کہنے لگی، ’’فرشتہ تمہارے کمرے میں ٹیپ ریکارڈر ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹیپ ریکارڈر تو نہیں ہے۔ کیا کرنا ہے اس کا؟‘‘
کہنے لگی ’’اگر مل جائے تو بہت مزہ آئے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم میرا یہیں انتظار کرو ۔میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ میں کمرے سے باہر نکلا اور ہوٹل کی انتظامیہ سے ٹیپ ریکارڈر مانگ کر لے آیا۔
میرے ہاتھ میں ٹیپ ریکارڈر دیکھ سوزی فرنچ زبان میں کہا، ’’او لالا‘‘۔
اس نے جلدی سے ٹیپ ریکارڈر میں کوئی کیسٹ لگائی۔ جیسے ہی میوزک چلا میں حیران رہ گیا ۔ فلیش ڈانس کا وہی گانا ،
what a feeling بجنے لگا جس پے فرنچ کلچرل سنٹر میں ہمارا ڈانس ٹیچر ہمیں ڈانس کی پریکٹس کروایا کرتا تھا۔ سوزی نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں اس گانے پے ڈانس کرنے لگے۔ میں تھوڑی دیر ڈانس کرکے تھک گیا لیکن سوزی نے پورے گانے پے ڈانس کیا۔ مجھے کہنے لگی ، اب تم اس طرح ڈانس نہیں کرتے۔ میں نے کہا ، ہمارا ڈانس کا ٹیچر واپس فرانس چلا گیا تھا اس کے بعد ڈپلومہ بھی ختم ہوگیا۔ پھر کام شروع کردیا۔ اب نہ پریکٹس ہے نہ ہی سٹیمنا۔ سوزی کہنے لگی ،تمہارے کمرے کا ایئر کنڈنشنر تو ٹھیک چل رہا ہے۔ میں نے کہا، بالکل ٹھیک ہے چل رہا ۔تم نے ڈانس کیا اس لیئے تمہارے خون کی گردش تیز ہوگئی اس لیئے تمہیں زیادہ گرمی لگ رہی ہے۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تو اس نے ٹی شرٹ اتار دی اور ہلکا سا پاجامہ بھی۔ میں بیوقوفوں کی طرح اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ۔اتنا ضرور کہوں گا میری نتھ سوزی نے اتاری۔ اس رات میں نے نہ صرف سوزی کی خوبصورت ٹانگیں دیکھیں بلکہ اس کے پورے خوبصورت جسم کا نظارہ کیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا واقع تھا ۔ میں لڑکیوں سے گھنٹوں باتیں کرتا تھا لیکن اس کام کے لیئے مائل کرنے کی کبھی بھی ہمت نہ ہوئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس معاملے میں کافی جھینپوں تھا۔ خیر چلاس کی یہ رات بہت شاندار تھی۔ جو فلیش ڈانس سے شروع ہوئی اور جسمانی ملاپ پے ختم ہوئی۔ اس کے بعد میں اپنے گروپ کے ساتھ جہاں جہاں بھی گیا سوزی میری ساتھ گئی۔ ہمارے کمرے تو علیحدہ علیحدہ ہوتے لیکن کبھی وہ میرے کمرے میں رات گزارتی اور کبھی میں اس کے کمرے میں رات گزارتا۔ جب میں نے گروپ کو پشاور سے رخصت کیا تو مجھے واپس آنا تھا۔
سوزی کہنے لگی، اگر تمہیں برا نہ لگے تو ہم واپسی پے ٹیکسلا دیکھتے چلیں۔ کیونکہ تمہیں بدھ مت کے بارے میں کافی معلومات ہیں ‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ زیادہ تو نہیں جانتا لیکن جو بھی مجھے پتا ہے تمہیں ضرور بتاؤں گا‘‘۔
ہم لوگ پشاور سے واپسی پر ٹیکسلا شہر رکے۔ وہاں ہم نے ٹیکسلا میوزیم دیکھا، پھر سرکپ اور جولیاں یونیورسٹی دیکھی۔جولیاں کے کھنڈراٹ کے پاس برٹش آرکیالوجسٹ سر جان مارشل کا گھر نماں کمرہ بھی ہے۔ میں نے ہر ٹورسٹ کی طرح سوزی کو بھی بتایا کہ
۱۹۲۵ سے پہلے یہ جگہ جہاں تم جولیاں یونیورسٹی دیکھ رہی ہو۔ یہ ایک پہاڑ کے صورت میں تھا۔ دو ہزار سال تک کسی کو نہیں پتا تھا کہ اس پہاڑ کے نیچے کسی یونیورسٹی کے کھنڈرت ہیں۔ سر جان مارشل نے بدھ مت کے مونک فاہیان اور ہیوان سانگ کے سفرنامہ سے یہ بات دریافت کی کہ ٹیکسلا میں کوئی یونیورسٹی ہے۔ جس کا نام جولیاں ہے۔پھر سر جان مارشل نے کافی عرصہ تبت میں گزارا اور وہاں سے اسی کچھ نقشے ملے۔ سوزی یہ ساری تفصیل جان کر بڑی حیران ہوئی۔ جب میں نے اسے مزید بتایا کہ بدمت کے پیروکار اپنی خانقاہوں کو پتھر کا بناتے لیکن ان کی چھتوں میں لکڑ ی کا استعمال کیا کرتے۔ جب سفید ہنوں نے ٹیکسلا پر حملہ کیا تو انہوں نے ان کی تما م خانقاہیں جلا دیں۔ لکڑ ی کی بنی ہوئی ساری چیزیں جل گئیں اور پیچھے پتھر کے کھنڈرات بچے۔
پھر میں سوزی کو سر کپ کی سیر کروانے لے گیا۔ وہاں ہم سیر کرتے کرتے ایک پہاڑی پے چلے گئے۔ اس پہاڑ پے کنالہ سٹوپہ ہے۔ یہ سٹوپا مہاراجہ اشوکا نے اپنے بیٹے کنالہ کی یاد میں بنایا تھا۔
قصہ کچھ اس طرح ہے کہ اشوک کی ایک بیوی بہت جوان اور خوبصورت تھی۔ اشوک تو حکومت کے امور میں مصروف رہتا۔ اس لیئے اشوک کی بیوی اپنے سوتیلے بیٹے کے عشق میں گرفتا ر ہوگئی۔ جب اشوک کو پتا چلا تو اس نے موردِ الزام اپنے بیٹے کو ٹھہرایا ۔ اس طرح اس نے اپنے بیٹے کو اس جرم کی سزا کچھ اس طرح دی کہ اس کی آنکھیں نکلوادی۔ اس کی بیوی نے اسے بعد میں بتایا کہ سارا قصور میراہے۔ اشوک اپنے کیئے پے بہت شرمندہ تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کی یاد میں کنالا سٹوپہ بنایا۔ میری یہ کہانی جب سوزی سن چکی تو کہنی لگی، ’’بالکل اسی طرح کی کہانی یونانی ڈارمہ نگار ارسٹوفین نے بھی لکھی ہے ۔وہ اس کہانی سے دو سو سال پرانی ہے۔ ہوسکتا ہے کسی نے اس کہانی سے متاثر ہو کر یہ کہانی خود سے گھڑی ہو‘‘۔ میں نے کہا، ’’ایسا ہوسکتا ہے، کیونکہ میں نے ایک قصہ سن رکھا ہے جو کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام سے منصوب کیا جا تا ہے کہ ان کے دور میں کسی عورت سے اس طرح کا جرم سرزد ہوا تھا‘‘۔
تو وہ کہنے لگی، ’’جب سے دنیا بنی ہے ۔ وہی پرانے قصے دہرائے جارہے ہیں۔ داستان گو بدل گئے۔ لوگ بدل گئے ہیں۔ زمانہ بدل گیا لیکن قصے وہی ہیں‘‘۔
سرکپ کی سیر کرنے کے بعد ہم لوگ اسلام آباد واپس آگئے۔ وہ اپنے گھر چلی گئی اور میں دوسرے دن اپنی ٹورسٹ کمپنی میں حساب کتاب دینے چلا گیا۔ وقت اسی طرح گزرتا رہا اور ایک دو ماہ بعد مجھے سوزی کا خط ملا جس میں ہمارے ٹور کی تصویریں تھیں اور ایک عدد پوسٹ کارڈ تھا ۔جس پے اس کا سوئٹزرلینڈ کا پتا تھا۔ چند سطروں میں اتنا لکھا ہوا تھا کہ تم جب بھی سوئٹزرلینڈ آئے تم میرے ہاں ٹھہرنا اور ہم جی بھر کے سوئٹزرلینڈ کی سیر کریں گے۔ ایک دو تصویریں کسی کو دکھانے لائق نہیں تھیں۔ خود مجھے بھی شرم آگئی۔
میرے دادا کو میری اس تبدیلی کا پتا چل چکا تھا ۔ وہ مجھے ہمیشہ کہتے تھے ،عشق اور مشک کبھی نہیں چھپتے۔ جبکہ میرا ایک کولیگ کہا کرتا تھا کھنگ تے خشکی بھی نہیں چھپتے۔ اس بات سے میں اور سوزی واقف تھے کہ ہمارے درمیان پیار کا رشتہ نہیں تھا گو کہ ہم دونوں نے پورے ٹور کے دوران چلاس سے پشاور تک ساری راتیں ایک ساتھ گزاری تھیں۔ سوزی کہتی تھی کہ سوس لڑکی کو سب کچھ کہنا لیکن گھر بسانے کی بات نہیں کرنا ورنہ وہ فوراًبھاگ جائے گی۔ میں نے اس کی اس بات پے عمل کرتے ہوئے کبھی بھی کچھ نہ کہا۔ نہ ہی میں اس سے پیار کرتا تھا۔
میں کیاسو ریلوے سٹیشن پے بیٹھا لوگانو ں کی ٹرین کا انتظار کررہا تھا اور مجھے آج بھی اس کے ساتھ بتائی راتوں کی مہک آتی تھی اور آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔















No comments:

Post a Comment