Friday, April 29, 2011

LINGUA E LETRATURA URDU

La Lingua e la letteratura Urdu

La lingua Urdu:
La lingua Urdu, che insieme col Bengali è dal 1957 la lingua ufficiale dal Pakistan, non è, come dicemmo, lingua materna o parlata di nessuna della province che formato l’attuale stato, e sulla sua origine si è molto discusso. La lingua classica dell’antica India, è, come tutti sanno, il sanscrito, così detto (“samskrta” significa “confectus”, elaborato) proprio perché lingua, fino a un certo grado, letteraria e artificiale.
Molto si è favoleggiato, specialmente negli ambienti semicolti e specialmente nella seconda metà del secolo scorso, sul sanscrito come “la madre delle lingue”, la “la più antica lingua aria”. In realtà, lungi dall’essere madre delle lingua sanscrito, benché mantenga caratteristiche, specialmente morfologiche, molto arcaiche, non si può nemmeno chiamare la più “antica lingua indo-europea”. Essa, insieme con l’antico persiano e l’avestico, forma il ramo indo-ario della grande famiglia indo-europea, ed è lingua che prescindendo dalla lingua dei veda che ne forma il ramo più antico si formò e regolarizzò nell’india settentrionale, specialmente nella zona detta “Madhyadesa”, “paese di mezzo” a un dipresso situata nella zona odierna di Dehli. Accanto al sanscrito, più che derivati dal sanscrito, sussistevano molteplici dialetti detti “pracriti” (da “prakrta”, lingua “lingua naturale”, appunto in contrapposto all’ “elaborato” sanscrito) che poi, sviluppatisi su linee autonome, diedero origine alla varie lingua aria parlate attualmente nel subcontinente indo-pakistano. L’evoluzione dal sanscrito ai pracriti antichi e da questi a quelli medi fino alle lingua moderne presente moltissime analogie con quella latino classico-dialetti latini-latino medievale-lingue romanze.
La lingua Urdu si sarebbe formata molto dopo le invasioni musulmane, alla corte dei Moghul, dal contatto e commercio fra gli invasori e gli indigeni parlanti i loro dialetti locali, dialetti (specialmente anzi il dialetto suddetto) che si sarebbero man mano imbevuti di parole arabo-persiane, specchio dalla cultura islamica, formando quella lingua mista, scritta in caratteri arabo-persiani, che è appunto l’Urdu. Essa nel nome stesso rispecchierebbe tale origine, poiché Urdu significa in turco e in mongolo “accampamento” e “zaban-e-urdu” significherebbe la “lingua dell’accampamento” (imperiale) di dehli.
La letteratura: il periodo dakhni:
Sab Ras (tutti i sensi) fu scritto su richiesta del sovrano Abdul Qutab Sciah nel 1635. vajhi aveva scritto anche qualche altra opera in prosa, ma questa è la migliore e più famosa.
Scuola di Dehli
Ghalib, col fantasmagorico dramma di Amanat Lasciamo Lucknow e la sua scuola per tornare, ancora, nella vecchia capitale dell’impero. Proprio quando questo sta ora vicino alla sua anche formale rovina definitiva (col mutiny del 1857) a Dehli si ha una rinascita della poesia Urdu, che culminerà col grande Ghalib.
Prosa Urdu
Bagh-u-Bahar (il giardino e la primavera) di Mir Amman di Dehli, scritto nel 1801 e pretesa immmitazione di una Qissa-e Ciahar Darvesh di Ameer Khusrav. Mille e una notte, il Bustan-e- Khayal (giardino di khayal, ovvero della fantasia), Nautarz-e-Murassa di Tehsin, Araisc-e-Mehfil (ornamento della assemblee, sulle avventure del generoso eroe arabo preislamico hatim tai).
Tota Khani (storia del pappagallo), Fasana-e-Agaib (fiabe di meraviglia)
Mohammad Iqbal (1877 - 1938) poeta
Asrare-e-Khudi (i misteri del l’io), Rumuz-i-Bekhudi (gli arcani del non-io, cioè della spersonalizzazione), Piyam-e-Mashriq (messaggio dell’oriente), Bang-e-Dira (il segnale della carovana) etc.
Saadat Hassan Manto (1912 - 1955) short story writer (novellista)
Kali shalwar, Dhuan, Thanda Ghost, Atish Parey, Siha Hashie, Sarkando Kay Pehchay, Manto Kay Drammay, Manto Ki Khaniaya, Manto Kay Afsanay etc.
Faiz Ahmad Faiz (1912 - 1983) poet





Sarfraz Baig( poeta )
E-mail:


Sunday, April 24, 2011

OHAM PRASTI (ILL BELIEVING)




اوہام پرستی
سورۃ فاتحہ، یہ سورۃ قرآن کی وہ سورۃ ہے جس کے کئی نام ہے۔ اس سورۃ میں سات آیتیں، ستائیس کلمے اور ایک سو چالیس حروف ہیں۔ اس کو سورۃ الحمد بھی کہتے ہیں اور یہ مکہ میں اتری۔
ہم مسلمان ہر کام شروع کرنے سے پہلے بِسمِ اللہِ الرَّحمنِ الرَّحِیمِ پڑھتے ہیں ۔یعنی ب اسم یعنی اللہ کے نام کے ساتھ لیکن عربی میں بسم اللہ لکھتے ہوئے الف کو گرا دیا جاتا ہے اس لیئے بسم اللہ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہو جو بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ انشائ پردازی کی زبان میں ایک بات کو دو لفظوں سے بیان کرنا جن کا ایک ہی مطلب ہو اسے تکرار لفظی کہتے ہیں۔ یعنی خدا کو رحمن اور رحیم کہا گیا ۔رحیم تو تمام امتِ مسلمہ کے لیئے ہے اور رحمان وہ کل کائنات کے لیئے ہے۔ یعنی ہم اس پاک ذات کے نام سے شروع کرتے ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے لیئے رحمان ہے بلکہ دیگر مخلوقات کے لیئے رحیم بھی ہے۔
سب خوبیاں اللہ پاک کے لیئے جو تمام کائنات کا پالنے والا ہے۔ سورۃ میں رب العالمیں لکھا گیا ہے یعنی عالم جمع کے طور پے استعمال ہوا ہے۔ رب پالنے والا، اور ایک عالم کو پالنے والا نہیں بلکہ تمام عالموں کو پالنے والا۔ کائنات ایک نہیں بلکہ کائیناتیں ہیں۔ اس دور کا سب سے بڑٓا ریاضی دان طبیائ دان  اپنی کتاب A BRIEF HISTORY OF TIME(  STEPHEN   HAWKINGS)                                     
  میں لکھتا ہے کہ کائناتوں کی تعداد لامتناہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی جتنی بھی کائناتیں ہیں ان سب کو پالتا ہے۔ وہ ان سب چیزوں کے لیئے رحمن بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ جو بدلے کے دن کا مالک ہے۔ یعنی ہم زندگی میں جو بھی اچھا برا کرتے ہیں اس کی سزا یا جزا ہمیں وہی دے گا۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی مدد مانگتیں ہیں۔ یعنی ہم یہ دعا کررہے ہیں اور اس بات کو ما ن رہے ہیں کہ ہم اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ایسا راستہ جس پے چل کے ہم بدلے کے دن تیرے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ ہمیں اس راستے سے بچا جو بھٹکے ہوئے لوگوں کا راستہ ہے یعنی جن سے تو ناخوش ہوا۔
سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ کے صاف سمجھ آتا ہے کہ اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور سے مانگنا اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنا ہے اور شرک اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ قرآن کی ساری آیتوں میں جس چیز سے سختی سے اور زیادہ منع کیا گیا ہے وہ شرک ہے اس کے بعد یتیم کا مال کھانا اور تیسرا کسی باعصمت عورت پے بنا ثبوت کے الزام لگانا لیکن شرک کا ذکر سب سے زیادہ آیا۔ جب انسان کا اللہ کی ذات پے ایمان کمزور ہوجاتا تو وہ راستے سے بھٹک جاتا ہے اور اس  کی زندگی ایک ایسا ریموٹ کنٹرول بن جاتی ہے جس میں سیل نہیں ہوتے یا سیل ہوتے ہیں لیکن وہ ٹھیک طریقے سے ڈلے نہیں ہوتے۔ پھر انسان پیسے کے بل بوتے پے پیروں فقیروں کو یورپ کے ٹور کرواکے اللہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو خود اللہ تعالی کے محتاج ہیں ۔یا طاہرالقادری اور ذاکر نائیک جیسے لوگوں کی تقریروں میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور ان کا پیروکار بن جاتا ہے جو اپنی سیاست اور شہرت کو چمکانے کے لیئے یورپ کے چکر لگاتے ہیں۔ پھر مذہبی تقاریب میں انکے پیروکار یہ کہتے پھرتے ہیں کہ روزِقیامت طاہر القادری یا ذاکر نائیک کے جھنڈے کے نیچے جگہ دینا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ میں کیا پڑھا تھا۔ اگر دعا ہی کرنی ہے تو یہ کہیں کہ ہمیں روزِ قیامت حضرت محمدؑ کے جھنڈے تلے جگہ دینا۔ ایسے لوگ مدد کے لیئے منسٹروں کے پاس جاتے ہیں، پیرو کے پاس جاتے ہیں، فقیروں کے پاس جاتے ہیں، ایسی ٹی وی کے پیدا کیئے ہوے مولویوں کے پاس جاتے ہیں لیکن وہ سورۃ فاتحہ کو بھول جاتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی مدد مانگتے ہیں۔ فجر کی نماز میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ اس کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ ہم چار دفعہ پڑھتے ہیں۔ ظہر کی نماز میں بارہ رکعتیں ہوتی ہیں ۔اس میں ہم سورت فاتحہ بارہ دفعہ پڑھتے ہیں۔ عصر کی نماز میں آٹھ رکعتیں ہوتی ہیں لیکن عام طور پے لوگ چار فرض ہی پڑھتے ہیں ۔اس طرح اگر ہم آٹھ رکعتیں پڑھیں تو ہم آٹھ دفعہ سورت فاتحہ پڑھتے ہیں۔ مغرب کی نماز میں سات رکعتیں ہوتی ہیں۔ یعنی ہم سات دفعہ سورت فاتحہ پڑھتے ہیں۔ عشائ کی نماز میں سترہ رکعتیں ہوتی ہیں۔ یعنی ہم سترہ بار سورت فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ہم اڑتالیس بار ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہمیں وہ راستہ دکھا جن پے تونے اپنا کرم کیا نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن سے تو ناخوش ہوا ۔ اس کا مطلب ہے ہم بغیر سیلوں والا ریموٹ کنٹرول ہیں جو کسی کام کا نہیں ہوتا۔
سرفراز بیگ اریزو

Monday, April 18, 2011

sarfrazbaig is presenting his books to iftikhar arif

sarfraz baig at saidpur village

لیوناردو دا ونچی
15 April 1452 Vinci 2 May 1519 Indreloire France
اٹلی کا یہ مشہور مصور اٹلی کے مشہور ریجن ٹسکن کے ایک چھوٹے سے گاؤں ونچی میں پیدا ہوا جو فلورنس اور ایمپولی کے درمیان ہے۔ اس کا باپ اپنے دور کا مشہور نوٹری پبلک افسر تھا اور امیر آدمی تھا۔ دا ونچی کی ماں سے اس نے شادی نہیں کی تھی اس لیئے دا ونچی کو خاندان کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی اس لیئے دا ونچی نےکا نام لیوناردو دی سیر پیارو کے بجائے لیوناردو دا ونچی تھا کیونکہ وہ ونچی میں پیدا ہوا۔ دا ونچی کے باپ نے چار شادیاں کیں۔
  ابتدائ زندگی میں دا ونچی نے ریاضی، الجبرہ، لاطینی اور تھوڑی بہت مذہبی تعلیم حاصل کی۔ جب دا ونچی کی عمر تیرہ سال ہوئی تو اس کے باپ نے اس کو اس دور کے مشہور پینٹر اندریائ دل چیوونے جو کہ مصوری کی دنیا میں ویروکیو کے نام سے جانا جاتا ہے کی ورکشاپ میں ڈال دیا۔ قرونِ وسطیٰ میں اس طرح کی ورکشاپ کو بوتیگا کہا جاتا تھا عرفِ عام میں بوتیگا دوکان کو کہتے ہیں۔ دا ونچی نے مصوری میں بہت زیادہ دلچسپی دکھائی۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ دا ونچی نے ایک مصوری میں اپنے استاد کی مدد کی۔ دا ونچی نے اتنا اچھا کام کیا کہ اس دن کے بعد دا ونچی کے استاد نے مصوری سے توبہ کرلی۔ وروکیو کی بوتیگا میں دا ونچی کے ساتھ بوتیشیلی، گرلندایاو (مائیکل اینجلو کا استاد) اور پیروجینو بھی مصوری سیکھنے آیا کرتے تھے۔ دا ونچی نے کچھ عرصہ کام کر نے کے بعد اپنی بوتیگا کھول لی۔
دا ونچی دنیا کے سو نہیں بلکہ دس بہترین انسانوں میں شمار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ،موسیقار، مصور، آرکیٹیکٹ، مجسمہ ساز،سائنسدان، موجد،ریاضی دان، انجینیئر، بوٹنسٹ، اناٹومسٹ اور نقشہ نویس تھا۔ وہ اپنے دور کا جینیئس تھا۔ اس کے بارے میں لکھنا وہ بھی ایک آرٹیکل میں سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ دا ونچی نے فلورنس، بلونیا، وینس، روم اور میلانو میں کام کیا۔ اور آخر میں فرانس کا بادشاہ اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر ہوا کو وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ دا ونچی نے اپنے زندگی کے آخری ایام ونہی گزارے۔
ویسے تو داونچی نے بہت کام کیا لیکن ،اس نے ہیلی کوپٹر بنانے کا ڈیزائن بنانا، لفٹ کا مکمل ڈیرائن بنایا لیکن اس میں ایک خامی تھی یا خوبی کہہ  لیجئےے کہ وہ ایک ہی وقت میں کئی کام کرتا تھا۔ اس لیئے وہ کئی کام ادھورے چھوڑ دیتا تھا۔ وہ چیزوں کی صحیح تصاویر بنانے کےلیئے اپنی بوتیگا میں چھپکلیاں، سانپ اور دیگر اس طرح کی چیزیں لے آیا کرتا۔ وہ انسانی جسم کواندر سے جاننے کے لیئے اتنا متجسس تھا کہ کئی کئی کاریجی ہسپتال میں مریضوں کے جسم کا معائنہ کیا کرتا۔ اس کی بنائی ہوئی ڈرائنگز آج بھی آناٹومی کے طالبعلموں کے کام آتی ہے۔ اس مضمون میں ہم دا ونچی کے مشہور پینٹنگ مونا لیزا کے بارے میں لکھیں گے۔ ویسے تو لاسٹ سپر جو میلانوں کے چرچ میں ہے وہ بھی ماسٹر پیس ہے،اسکے علاوہ انگیاری کی جنگ جس میں اس نے انسانی چہرے کے تاثرات بہت خوبصورتی سے دکھائے ہیں، لیکن مونا لیزا وہ پینٹنگ ہے جو دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی پینٹنگ ہے۔
مونا لیزا
یہ مشہور پینٹنگ دا ونچی نے چارسال میں مکمل کی۔ دا ونچی نے1501  میں اسے شروع کیا اور 1504 میں اسے مکمل کیا اور مصوری کےناقدوں کا خیال ہے کہ تصویر دا ونچی نے نامکمل ہی چھوڑ دی تھی۔ مونا لیزا کا اصل نام مونا لیزا جیراردینی تھا اور یہ ناپولی کی رہنے والی تھی۔ جب اس کی شادی فلورنس کے سلک مرچنٹ فرانچیکسو دل جوکوندا سے ہوئی تو اس کا نام مونا لیزا دل جوکوندا ہوگیا۔ فرانچیسکو نے اپنے بیوی کو خوش کرنے کے لیئے اس دور کے مشہور مصور لیوناردی دا ونچی کی خدمات حاصل کیں۔ دا ونچی پینٹنگ بنانے کے دوران بہت قیمتی کپڑے پہنا کرتا اور مصوری کے دوران وہ میوزک کا بھی انتظام کیا کرتا ۔ مونا لیزا کی تصویر بناتے ہوئے اس نے اس عورت کی اداسی کو مسکراہٹ کی صورت میں ظاہر کیا کیونکہ یہ لڑکی اتنے امیر آدمی کی بیوی ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بیٹی فوت ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مونالیزا اداس رہنے لگی تھی۔ اس تصویر کے پیچھے اریزو شہر کے پاس بہنے والے دریاں کو پس منظر کے طور پے پیش کیا گیا ہے۔ ناقد کہتے ہیں کہ دا ونچی اس تصویر کو بناتے ہوئے خود کو بھی زہن میں رکھتا تھا۔ اس نے مونا لیزا کی بھنویں نہیں بنائیں۔ قرون وسطیٰ میں یہ فیشن کا حصہ تھا کہ امیر گھروں کیی لڑکیاں اپنی بھنویں اتنی باریک کرلیتی تھیں کہ نظر ہی نہیں آتی تھی۔ جب یہ تصویر مکمل ہوگئی تو دا ونچی نے یہ تصویر فرانچیسکو دل جوکوندا کو دینے سے انکار کردیا اور اس سے یہی کہا کہ تصویر مکمل ہی نہیں ہوئی اور یہ مصوری کا نادر نمونہ وہ فرانس اپنے ساتھ لے گیا اور فرانس کے بادشاہ کو تحفے کے طور پے دے دی۔ وقت گزرتا رہا اور آخرکار اسے فرانس کے مشہور میوزیم میوزے دی لووغ میں سجا دیا گیا۔ لیکن 1919 میں ایک اٹالین چور نے اسے فریم سے کاٹ کے نکال لیا اور آکر فلورنس کے تاجر کو بیچ دی۔ بعد میں فرانس نے وہ تصویر منہ مانگی قیمت دے کر واپس میوزے دی لووغ میں سجا دی۔ آج یہ تصویر میوزے دے لووغ کے سلون کارے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اصل تصویر لاکر میں پڑی ہوئی ہے اور اس کی کاپی لگی ہوئی ۔لیکن میوزیم کی انتظامیاں نے اس کے آگے شیشہ لگایا ہوا ہے کیونکہ کچھ لوگ ستاندال سینڈروم کے مریض ہوتے ہیں وہ تصویر کے اندر جانے کی کوشش کرتے ہیں 
Sarfraz baig
arezzo

PAKISTANI EMBASSY IN ITALY





اٹلی میں پاکستانی ایمبیسی

اٹلی میں پاکستان کی ایمبیسی ہو یا پاکستان میں اٹلی کی ایمبیسی ہو دونوں صورتوں میں ان سے واسطہ پڑنے والے پاکستانیوں کو ایک ہی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پے پاکستانی عملہ ہوتا جس کا سابقہ اپنے ہی ملک کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی نا کوئی غیر ملکی بھی ان کی خدمات سے مستفید ہوتا ہے لیکن زیادہ تر پاکستانی ہی یہاں اپنے کسی نا کسی کام سے جاتے ہیں۔ وہاں پاکستان میں اٹالین ایمبیسی کا عملہ اتنا برا سلوک نہیں کرتا جتنا وہاں کاؤنٹر کلرک جو کہ ہمارا ہم زبان اور ہم ملک ہوتا وہ برا سلوک کرتا ہے۔
        اٹلی میں جو پاکستان کی ایمبیسی ہے وہاں کے عملے والے اس بات سے باخبر ہیں کہ ان کے افسران اعلیٰ نے یہاں تین سال سے زیادہ نہیں رکنا، اس لیئے وہ تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کا جس طرح کا دل چاہتا ہے اس طرح کا سلوک وہ اپنے ہم وطن مہاجرین بھائیوں سے کرتے ہیں۔ کئی دفعہ بدتمیزی کی مظاہرہ بھی کرجاتے ہیں اس میں ہم مہاجرین کا بھی قصور ہے کیونکہ ہم لوگ بھی کئی دفعہ ایسی عجیب بات کرجاتے ہیں جو کہ نہیں کرنی چاہیئے۔ کئی دفعہ ہم ایمبیسی میں ایسے لباس میں چلے جاتے ہیں جو کہ اس طرح کی جگہ پے جانے کے لیئے مناسب نہیں ہوتا۔ مجھے ایک دفعہ اس طرح کا بھی اتفاق ہوا کہ میں نے ایک شخص کو ایمیبیسی میں ایسے لباس میں دیکھا کہ اس کے کپڑوں پے سالن لگا ہوا تھا۔ پاکستان ایمبیسی کی عمارت سامنے سے تین منزلہ ہے لیکن پچھلی طرف اس کی دوسری منزل پہلی بن جاتی ہے کیونکہ وہ دوسری طرف سے اونچائی پر ہے۔ یہ ایمبیسی کا پرانا داخلی دروازہ ہے لیکن یہاں سے اب بھی گاڑیاں داخل ہوتی ہے۔ اس طرف ایک باغ ہے اور اس میں پاکستانی جھنڈا اپنی پوری آب و تاب سے لہراتا رہتا ہے ۔اور میری دعا ہے کہ یہ ہمیشہ اسی طرح لہراتا رہے۔ یہیں سے ایمبیسی کے اندر داخل ہوں تو ہال میں داخل ہوتے ہی دروازے کے اوپر محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی ۔پھر ایک کالے رنگ کا چمڑے کا صوفہ پڑا ہوا ہے۔ اس ہال کے نیچے ایمبیسی کے وہ کمرے ہیں جہاں ایمبیسی کا عملہ کام کرتا ہے۔ اسی ہال میں دس بارہ مصوری کے نمونے سجائے گئے ہیں لیکن ان کے نیچے یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ تصاویر کس مصور کی ہیں یا کن مصوروں کی ہیں۔ اسی ہال ک اندر سے ہی سیڑھیاں اوپر کو جاتی ہیں اور ایک طرف ایمبیسڈر کا کمرہ ہے اور ا سے ملحق دیگر عملے کے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔
اٹلی یورپ کا واحد ملک ہے جہاں فنون لطائف سے متعلق ستر فیصد عجائبات پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مشور ماہر آثار قدیمہ جوزپے ٹوچی نے سوات میں 1955 میں کام کیا تھا۔ اس نے کھدائی سے گندہارا آرٹ کے نادر نمونے نکالے۔ اس کے علاوہ اس نے گندھارا آرٹ پے پانچ کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ الیسادرو باوسینی نے پاکستان اور افغانستان کے ادب و زبان پے کتاب لکھی تھی۔ یہ وہی شخص ہے جس کا اشفاق احمد نے اپنی کتاب اور ٹی وی پروگرام زاویہ میں ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ الیساندرو باوسینی نے منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ اور فیض احمد فیض کی چند نظمیں بھی اٹالین میں اردو سے ترجمہ کی تھیں۔ اب آتے ہیں اٹالین کوہ پیماؤں کی طرف ۔کے ٹو جسے سر گوڈون آسٹن بھی کہتے ہیں سب سے پہلے اٹالین کوہ پیماؤں نے ہی سر کی تھی(پاکستان بننے کے بعد)۔ اب جس ملک کا علم و ادب اس معراج پر ہو۔ جس ملک میں سیاحت صنعت کی حیثیت رکھتی ہو۔ وہاں پے  تو اس کے مطابق کام ہونا چاہیئے۔ مجھے ایک دفعہ ایک ثقافتی تقریب کےلیئے پاکستان کے خوبصورت مناطر کے پوسٹرز چاہیئے تھے اس کے علاوہ کچھ پیمفلٹ چاہیئے تھے تو ایمبیسی والوں نے مجھے1977 کے عربی میں چھپے ہوئے پیمفلٹ بھیج دیئے۔ ویسے تو ایمبیسی میں خط یا ای میل کا جواب دینے کا روا ج نہیں لیکن میرے اس خط کا جواب انہوں نے دیا۔ میں اس بات کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہم لوگ جو ایمبیسی جاتے ہیں ہم بھی دودھ کے دھلے نہیں لیکن کئی دفعہ ایمبیسی کا عملہ نہایت بد تمیزی سے پیش آتا ہے۔ ایمبیسی والوں کو اس بات کا احسا س نہیں ہوتا کہ ان کے پاس آنے والے شخص کی عزت نفس اٹالین بھی مجروح کرتے ہیں اور یہاں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔وہ دل ہی دل میں بہت کڑھتا ہے۔ ایمبیسی میں کام کرنے والوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ سجورنو کی تجدید کروانی ہے۔ اگر گھر چھوٹا ہو تو سجورنو رینیو نہیں ہوتی،اگر سالانہ بچت ۱۵۰۰۰ ہزار یورو نہ ہو تو سجورنو رینیو نہیں ہوتی۔ کام چھوٹ جائے تو سجورنو کینسل ہوجانے کا ڈر ہوتا ہے۔ ان سارے مسائل کے ساتھ وہ اٹلی میں رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ قانون بھی سخت ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے صرف ماں باپ کے پاسپورٹ میں بچوں کا اندراج ہوتا تھا۔ دو بندوں کا پاسپورٹ بنتا تھا۔ اب بچوں کا بھی شناختی کارڈ بنتا ہے۔ جس کے دوبچے ہوں وہ دوسو یورو خرچ کرکے پہلے ایمبیسی جاتا ہے اس کے بعد ان کی فیس ادا کرکے شناختی کارڈ جمع کرواتا ہے۔ کئی دفعہ شناختی کارڈ مہینے بعد آجاتا ہے اور کئی دفعہ سال سال اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ اگر شناختی کارڈ نہ ہو تو ڈیجیٹل پاسپورٹ نہیں بنتا۔ اس سارے عمل میں انسان ایک عجیب سی ذہنی کوفت سے گزرتا ہے۔ ایسے میں ایمبیسی کے عملے کا کوئی نا کوئی بندہ جو سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوتا ہے ایمبیسی میں آئے ہوئے بندے کو انسان نہیں کیڑے مکوڑے تصور کرکے عجیب و غریب لہجے میں بات کرتا ہے۔ اگر آپ ایمبیسی کو فون کریں توآپ کو ہولڈ کروادیا جاتا ہے اور دوسری طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس سے کہ دو میں سیٹ پر نہیں ہو گھنٹے بعد فون کرے۔ اگر ان کو کوئی چیز ای میل کی جائی تو اس کو جواب وہ کبھی نہیں دیتے۔ حالانکہ جس مہذب سوسائٹی میں ہم لوگ رہ رہے ہیں، ای میل ایک خط کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس میں ایمبیسی کے عملے کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ جب پاکستان سے چلتے ہیں تو ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اٹلی میں پاکستانی کیا ہوں گے۔ ان کو تہذیب و تمدن سے کیا لینا دینا۔ حالانکہ اٹلی میں پائے جانے والے  مہاجرین ،مصنف بھی ہیں، شاعر بھی ہیں، صحافی بھی ہیں، مفکر بھی ہیں۔ ہر طبقہ ئِ فکر سے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں ۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے اگر کسی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ میں یہ بات کسی ڈر یا خوف سے نہیں لکھ رہا بلکہ مہذب لوگ تنقید سن بھی سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کے لیئے بھی تیار رہتے ہیں۔

Emabassy of pakistan
Via della cammilluccia 682
00135 Rome
Phone: 0636301775
              063294836
E:mail:
SARFRAZ BAIG






SANYEEN INTERNET (NOVEL) PUBLISHED BY MR PUBLISHERS

DEHRIA (BOOK OF SHORT STORIES) 2011 BY RAYS PUBLICATIONS

CLANDESTINI (BOOK OF SHORT STORIES)

Friday, April 15, 2011

story teller

A storyteller’s moving tales of immigrant lifestyle

Schezee Zaidi
Islamabad
Storytellers will tell their tales that would continue to portray the chronicling the old and new traditions. As long as there are writers and storytellers, most of what is important will be retained and nothing will be lost.
Writers are the new mythmakers. With such words and feelings, the book distribution ceremony hosted at Pakistan Academy of Letters by Italy based Pakistani writer Sarfraz Baig to launch his two new books of fiction and short story collection, articulated a unique cohesion with the greatness of all writers, whether big or small, new or old.
Expressing solidarity with all writers, Sarfraz Baig launched his new books ‘Clandestitni’ & ‘Saeen Internet’, portraying the tales of pain and pleasures of immigrants as they settle down in a distant land away from their native country. Both books are a storyteller’s moving narratives of immigrant lifestyle.
Presiding over the launching ceremony, Pakistan Academy of Letters Chairman Iftikhar Arif said that expatriate writers reflect their new experiences that reflect their new locations, experiences, thoughts and aspirations. Likewise, Sarfraz Baig has written at the backdrop of the western cultural decadence and the conflict between East and West, and how the expatriate mindset looks at things offering an interesting parallel. He said that the role of a writer, and by extension the short story, is to reveal the culture and complexities of a society in a manner that is engaging and entertaining.
Iftikhar Arif said that though his diction is not in line with the contemporary Pakistani Urdu and at times appears to be ‘provocative’, yet his style is very simple and direct, as he highlights the issues of expatriate lifestyle.
Sharing his literary experience as an expatriate, Sarfraz said that he has tried to highlight the differences or similarities between two civilisations, as he saw and felt.
Inspired by Manto and Maupassant, his narratives are at times ‘shocking’, which he refers to his short stories as ‘shock stories’. Though his first book was a poetic collection, but fiction being his forte, he has amalgamated stories and fiction written over a span of 13 years in these two books. Sarfraz Baig’s short stories mirror’s the loneliness of emigrants and expatriates.
Talking about his style and diction, Sarfraz said, “I write instinctively, one paragraph giving rise to the other, and have a general idea of where I want to go. Everything, everyone I know and every experience I have or hear of, are grist to my mill in a simple language understandable to all readers”.
Sarfraz Baig said that the experience of publishing and printing his books turned out to be more difficult then writing.
Manzar Naqvi, who was also conducting the proceeding, introduced the writer and said that in the first book of short stories’ ‘Saeen Internet’, the author portrays the socio-economic problems of immigrant communities while his fiction ‘Clandestini’ sketches the tales of the illegal immigrants or hidden people. Atta Hashmi and Zulfiqar Baig were of the opinion that Sarfraz Baig has not only highlighted the issues of expatriates but also given a very descriptive sketch of their day-to-day living.
Courtesy: The News, 17/4/2008

Wednesday, April 13, 2011

Abdul Hamid Manghar

Abdul Hamid Manghar was wearing excellent designer Italian suit and beautiful matching tie and he was looking like a prince in this governmental meeting. He was accompanied with his secretary as well whom he used to call munshi (assistant). It had been few months that Abdul Hamid Manghar won M.N.A.'s (Member of National Assembly) election. During his election campaign he spent money like water. He belonged to some village of Sargodha and he was the biggest land owner of his village but he never forgot that he used to sale things on Italian beaches which was called in their language, "mare lagana". In this party there was every kind of people. Manghar found a beautiful and elegantly dressed up lady. He went close to her and started talking to her. Manghar's Urdu accent was very beautiful and excellent but after a little while, unintentionally he said, "wal jado assi marey landay san" which means, when I used to sale things on the beach, his secretary indicated him from the back to change the topic. This was one of the fault of Manghar’s personality and the second thing he has, you can't say it's week point or fault, because the society where he was surviving, it wasn't a bad was that he was alcoholic. The bad thing with Manghar was that when he used to drink a lot, he used to say stupid things and his secretary was scared, if he will say something stupid or weird than it will be very difficult to handle the situation. It will be very easy to discover for the people, in reality what Manghar is. Other than these things Manghar had many qualities. His general knowledge was excellent. He passed his whole life in reading digests during his spare time. He was unable to write Urdu but he knew to speak and read Urdu. He was very good in Italian that good that while he is speaking Urdu if you don't see his face you will feel that some Italian is talking to you. Manghar had good command upon literature because he was fond of poetry. He memorized many ghazals and poems of many poets. There were very few people who knew about Manghar’s past but since he entered in politics lots of people were curious to know about him, who he was? They all knew about him that he had the business of diamonds and he still has the same business. Behind his success, was his secretary? He used glued with him and used to indicate him time to time because after drinking a lot of alcohol it was nearly impossible for him to control himself, so this was his secretary's job.
          Manghar became very famous in National Assembly, the one reason was that the way he used to dress up and second reason was the selection of perfumes he used to wear. He was very dandy, sweet and soft spoken and his way of conversation was very catchy that people used to go towards him unintentionally.
                       ....................................................
     It had been few years that Maila Khan stepped in the world of journalism but she was at the height of popularity in short span of time. She used to take the full advantage of her beauty and femininity. The one reason was that she was journalist and the second reason was that she was woman, nobody dared to stop her where ever she had been.
   Maila wrote many shocking stories. Cunning and shrewd people used feel confuse and baffle in front of her. God had given her special kind of electrifying lightness in her eyes. People used to forget every after seeing in her eyes like she spell bound them or mesmerize them. These days she was thinking to write something about Abdul Hamid Manghar. Some notable political figures tried to bribe her to expose Manghar but she refused to accept their offers because she was herself curious about Manghar and she wanted to discover it. This was first time in the history of Pakistan that a very smart, handsome and sweet spoken M.N.A. got the seat in parliament. He was physically very fit, he didn’t have big belly like other parliamentarians. Maila Khan was very much obsessed of Manghar's personality but she didn't want to indulge herself in these kinds of things because she was the only earning hand of her family. She didn't have any brother and her father was drug addict. It was only her who has the responsibility to arrange marriages of her younger sisters; she was care taker of her family. Even though, she was responsible to provide money for her father’s drugs. Anyway between Manghar and Maila there was twenty years age difference.
         It was very hard nut to crack, but with a lot difficulties Maila got the interview’s time from Manghar's secretary but the condition was that that she will take interview in front of him. Maila Khan accepted the condition.
                               .....................................
   Maila had quick look at her dress, hair style and carrying purse she hastily entered in Marriott’s coffee shop. She wasn't upset at all because film stars and politicians aren't punctual about time. Manghar sahib was totally opposite. He was there at exact time which he had given for the interview the reason was that that he was on time because he was waiting for Maila from last half an hour which means Maila was half an hour late. Manghar's secretary was cursing Maila inwardly. As Maila entered, she said sorry, Manghar stood up in respect of Maila. Maila got stunned and looked at him shocking.
Maila said with mixed feeling of astonishment and fear:
"Please be seated Manghar sahib".
Manghar said with a lot of gratitude and humbleness, "After you".
Maila had a quick look at her dress and grabbed her purse and she sat on a soft sofa. Before starting interview she checked everything, mini tape recorder, pen, papers, everything was there, only thing was missing, "Photographer" he didn't arrive yet. Maila placed her mobile phone on the table just in case, because she could be receiving any call at any time. Manghar was watching all this like a silent spectator. Finally Maila switched on the mini tape recorder and asked her first question, "Your full name"?
"Abdul Hamid Manghar".
He hardly responded first question, his secretary's mobile phone started ringing, and he waved to stop the interview and went to the one corner of the coffee shop to listen the call. After hearing the call he came towards them, head down and addressed Manghar sahib, "Sir my mother isn't feeling well, so I had to go. You tell this lady, she can come for the interview some other time".
"Okay my dear, I will tell her to come some other time, you go, if you need my help, I can come with you".
"No sir, I will handle the situation".
These were his last word and after saying this he left them.
Maila took everything back, the way she settled them on the table. Manghar said, "Bibi (it’s a word we use for respect of woman not to address her by her name) what are you doing"?
Maila responded sadly and hopelessly, "There will be no interview now".
"It's all right; at least have coffee with me".
"Jee, I don't drink coffee".
"Some soft drink or".
Maila thought for a while and she decided to sit down.
"Okay I will have some soft drink".
Manghar said in his regional language to his body guard, to stay away and called the waiter for special order.
Maila was thinking inwardly that Mr. Manghar must have booked a room in Marriott and it's quite possible that he will force me to go with him to that room and than ......than....after... ...millions of thoughts came in his mind in that small moment. After a little while waiter came and placed their order on the table and went away. Maila thought after having soft drink she will leave this gentleman.
Manghar broke the ice,
"Bibi I heard about you that you are very good journalist. You write true stories about people. Do you write short stories as well"?
Maila stopped her hand which was going to pick up soft drink.
"Well actually.....I never tried, to be honest with you......never thought about this". She controlled herself and said, "Manghar sahib, do you read short stories"?
"I used to read with great passion but now I don't find time".
"Your favourite writers"?
"Manto and Giovanni Boccaccio".
Maila got baffled and puzzled as you say in Persian "angusht ba dandan" which means you put your finger tip in your mouth. She tried to hide her perplexity and said,
"You read poetry as well"?
"Before I used to read a lot, either poetry or prose but since I am in politics, I don't find time".
"What was the reason, you started politics"?
“There are two main reasons, one is, my people forced me and second thing is wealth".
"You didn't have any passion for politics"?
"No not at all".
Maila saw that after a little while there was special change in Manghar’s voice. She didn't understand what the reason behind this was, but it was astonishing. The different thing was, waiter used to bring some soft drink for him one after another.
"What you used to do, before joining politics"?
"Right from the beginning I was business man and still I am a business man".
"What is your business......Sir"?
"I have diamonds’s business".
"So you are doing this business right from the beginning".
"No, before I used to sale fake diamonds than I started selling real ones".
"Wal jadon asi maray landay san (when we used to sale things on the beaches of Italy) at that time I used to sale fake necklaces and fake diamonds as well".
"I didn't understand where you used to sale"?
"Sheshelia".
"Where is this Sheshelia"?
"Bibi, you don't know it's an island of Italy".
"Oh!  Sicily.....when"?
"It's an old story"
"How old"?
"Something like thirty or thirty five years old".
"Manghar sahib, can you tell me thoroughly".
"I was little, something like sixteen or seventeen years old. I escaped or you can say ran away from home. After a long and tiring journey I came to Sheshelia (Sicilia). Over there I didn't have place to sleep, nothing to eat. A guy taught me how to make toys of straws. Like this I started earning money to have some food and shelter. Sometime I used to make good money and sometime I used to live without money. Over there people started calling me telion wala (The man who makes straw's toys). In our language tela means straw. Like this other people started coming to Sicilia and it became like a group. Teli group (the group of straw's toys maker). The people who were in our group, most of them were from our village and I belong to that village as well. We have seen very hard life and time. There I started drinking alcohol. Before I used to drink alcohol and now alcohol drinks me".
"Why you started drinking alcohol"?
"Bibi, I was very young, I didn't have much sense and the main reason was that it was nearly impossible for me to sell straws’s toys to naked and half naked people. After drinking alcohol, I used to feel less shame and feel courageous as well. Otherwise in normal condition it's not possible for young boy to face this kind of situation. After selling these straw's toys, I started selling fake and forged pearls necklaces and things like these. Now I was very well trained and confident, I was able to sale dust as well. I did this work for ten years and then I came back to Pakistan. I reconstructed my house which was a muddy house. I saved some money. Bought some land. Then one day I decided to go back to Sicilia. I gave money to agent and went there again. I again started selling garlands, fake pearls and things like these. In 1987 Italy opened immigration first time. We people got papers, like this we were allowed to travel without agent. During this period I got good command on Italian language".
"That's how you have interest in literature"?
"Bibi the main reason is digests. I used to read all kinds of digests. I used to pass the train’s long journeys, reading digests and when we used to have less business, we had only two hobbies, alcohol and digest".
"When did you start selling diamonds"?
"I told you that I became a very good salesman like I was able to sell dust as well. Like this I started selling fake pearl’s necklaces, telling people they are real one. When I earned a lot of money I entered in this business, I mean diamonds's business. During this period I met with Belgian Jew, he was diamonds’s merchant. God wanted to change my life. He said, you sell my fake diamonds, but sell them by telling the customers they are real. He told me that there are very few people who can judge the fake and real diamonds. Sometime the diamonds detective machine can't judge diamond is real or fake but that Jew had such quality that it was impossible to deceive him. As I started working with him, I felt a lot of change in my personality. He told me what to wear and which the good perfumes are. But behind my success, it's not I did this in one day; I worked very hard for thirty or thirty five years continuously. The money I have, I have earned on my own. I never robbed anyone; I lied a lot but never snatched someone's money. My great grandfather didn't leave any land or wealth, not even government allotted me some land or property. Whatever I have earned, I have earned with hard work, and I used my brain. Since I am in politics, I have seen how these politicians suck public blood. They robe them. They play with people and with their respect. If you look at these politicians, you won't find even a single person who would have earned money by using his brain or hard work. Their great grand fathers left wealth and land for them like that they got this position. Even though they take degrees from Oxford or Harvard, they will remain landlords, waderas".
"What about education".
"Bibi, I am illliterate. I have completed my primary education that's how I can speak and read Urdu. I have learnt Italian properly".
"I would like to ask you last question if you permit me".
"Why not".
"Why didn't you get marry until yet"?
"Bibi, I didn't find girl of my type, to be honest with you I didn't find time for this. My other brothers and sisters, all of them are married. My father isn’t alive and my mother is widow. Now I look after my mother".
"If you will marry with someone, your wife will be looking after your wife".
"You are very right but I love my mother a lot, for me it will be very difficult to divide love between my mother and wife equally. After all I am human being. You can find many wives but you know mother is mother".
Maila hardly control herself. If she was alone, she would have been crying. The one who she wanted to expose; he was such a nice man. Maila destroyed the cassette and tore all the points which she wrote on the paper.
While she was tearing all these papers and she was suffering from some severe mental destruction, she heard the voice of photographer,
"Sorry Maila, I am late. While I was coming, editor sahib phoned me, it was an important event, and I was covering that event, that's why I am late".
"Magnum, it's not the first time, you are always late. Anyway I have done my job".
  


MORTI (Statue)

مورتی

جدوں ہولی جیئی لیندا میرا ناں
میں تھا ں مرجانی آں ہائے
میں تھاں مرجانی آں
مردا ں دے وعدے چوٹھے
چوٹھا ہونداں پیار وے ، چوٹھا ہوندا ں پیار وے
کردے محبتاں تے کول جاندے ہار وے
کی اعتبار
جدوں کہندیاں نے مینوں سکھیاں
میں تھاں مرجانی آں ہائے
میں تھاں مرجانی آں

شیدا مسلّی زور سے چلایا،’’ٹیپ ریکارڈر کس نے بند کیا ہے‘‘۔ وہ منجی (چارپائی) پے لیٹ کے مزے سے نورجہاں کے گانوں سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔آنکھیں اس کی مُندھی ہوئی تھی اس لیئے وہ بنا دیکھے ہی بول پڑا تھا۔ اس نے یہی سوچا تھا کہ شاید کسی شرارتی بچے نے اسے چڑانے کے لیئے ایسا کیا ہے۔یہی وجہ تھی کہ وہ زور سے چلایا تھاکہ بچہ ڈر کے مارے ٹیپ ریکارڈر دوبارہ آن کردے گالیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا ہے۔ وہ لیٹا ہوا تھا اس لیئے اُسے وہ آدمی زیادہ ہی لمبا لگ رہا تھا حالانکہ اس شخص کا قد اتنا زیادہ لمبا نہیں تھا۔ شیدا آنکھیں مل مل کے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اُسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔ شیدا نورجہاں کے اس مشہور گانے کو بھول کے اُٹھ بیٹھا اور اس کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا،
’’اُو چیسکو توں‘‘
’’ہاں اینٹی میں، چیسکو‘‘
’’تو ولیت (ولائت)سے کب آیا‘‘
’’مجھے آئے ہوئے تو ہفتہ ہوگیا ہے‘‘
’’سنا ہے تو بڑا وڈا آدمی بن گیا ہے۔ پر میرے لیئے تو تُو چیسکو ہی ہے‘‘
’’آہستہ بول شیدے ، اگر کسی نے سن لیا تو ساری ٹور خراب ہوجائے گی‘‘
’’اُو کچھ نہیں ہوتا۔کسی کو کیا پتا چیسکو کیا ہوتا ہے۔ یہ تو میری اور تیری آپس کی بات ہے۔ایک بات ہے چیسکو ،میرا مطبل (مطلب )ہے راجہ علم بردار تو جب بھی آتا ہے ۔مجھ سے ضرور ملتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس دفعہ ذرا دیر سے ملنے آیا ہے‘‘
ابھی چیسکو اوراینٹی میرا مطلب ہے راجہ علم بردار اور رشید مسّلی گلے شکوے ہی کررہے تھے کہ راجہ علم بردار عرف چیسکو کا موبائیل فون بجنے لگا۔وہ باتوں میں مصروف ہوگیااور رشید نے چائے کے لیئے کہہ دیا۔ راجہ علم بردار نے فون بند کیا اور شیدے سے اجازت طلب کی لیکن شیدے نے کہا، ’’چائے پیئے بنا جانے نہ دونگا‘‘۔ اس لیئے راجہ علم بردار کو رکنا پڑا۔تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔چائے کیا تھی دودھ پتی تھی۔ راجہ علم بردار نے جلدی جلدی چائے پی ، شیدے کو خدا حافظ کہا اور کونے میں کھڑی تارے والی گاڑی(شیدا مرسڈیز کار کو تارے والی گاڑی کہتا تھا)میں بیٹھ کے چلا گیا۔
رشید عرف شیدے عرف اینٹی نے دوبارہ ٹیپ ریکارڈر آن کیا اور نورجہاں کا گانا دوبارہ چل پڑاجہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔ وہ چارپائی پے پھر سے آنکھیں موند کے لیٹ گیا۔ اس دفعہ اُس نے جو آنکھیں بند کیں تو وہ گانا نہیں سن رہا تھا بلکہ وہ ماضی کے نہاں خانوں میں کھو گیا تھا۔
راجہ علم بردار اور رشید مسّلی دونوں لنگوٹئے یار تھے۔ چکوال شہر سے تیس پینتیس کلومیٹر دور ان کا گاؤں تھا’’مورتی‘‘۔ ان دونوں کے اجداد جب اس گاؤں میں آئے تھے تو مورتی میں اِکا دُکا گھر تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی گئی اور گھروں میں اضافہ ہوتا گیا۔کچے گھروں کی جگہ پکے گھر بننے لگے۔
مورتی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کوئی بھی مورتی یا مجسمہ لیکن یہاں مورتی کا مطلب ہے عورت کا مجسمہ یا مورت ہے۔ اس گاؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دروپدی یہیں رہتی تھی۔ اس نے اس گاؤں کے مندر میں (اس وقت اس گاؤں کا کوئی اور نام تھا) جاکے مہاپروہت سے کہا تھا کہ ،میں ایک ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں جس میں پانچ خوبیاں ہوں۔ اس مہاپروہت نے کہا تھا کہ فلاں دن فلاں جگہ جاکے دو کبوتر اُڑانا۔ اگر کسی نے ایک تیر سے دونوں کبوتروں کو گھائل کردیا تو وہی شخص تمہارا شوہر ہوگا اور اس میں وہ پانچ خوبیاں ہونگی جن کی تمہیں خواہش ہے۔ دروپدی نے مہاپروہت کی بتائی ہوئی تاریخ کو اس کی بتائی ہوئی جگہ پے جاکے دو کبوتر اُڑا دیئے۔ وہ کیا دیکھتی ہے کہ ہوا میں ایک تیر لہراتا ہے اور اس کے اُڑائے ہوئے دونوں کبوتروں کو گھائل کرتا ہے اور دونوں کبوتر زمین پے آگرتے ہیں۔ دروپدی بھاگنے لگتی ہے اور شکاری کو تلاش کرنے لگتی ہے۔ اپنے ہونے والے شوہر کو تلا ش کرنے لگتی ہے۔ وہ کیا دیکھتی ہے کہ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان ہاتھ میں تیر کمان لیئے کھڑا ہے۔ اس شخص کا
نام ارجن تھا۔ اس کے ساتھ اس کے چار بھائی بھی تھے۔ یعنی پنج پانڈ۔ جو شکار کی غرض سے نکلے تھے۔ دروپدی نے ارجن کو اپنا مدعا بیان کیا ۔ دروپدی اور پنج پانڈ یہ سب اس مندر کے مہاپروہت کے پاس پہنچے۔ اس نے کہا، ’’دروپدی تم نے بھگوان سے پرارتھنا کی تھی کہ تمہارے پتی میں پانچ خوبیاں ہوں۔ اس لیئے بھگوان نے تمہاری پرارتھنا سوئیکار کرلی ہے۔ ان پنچ پانڈوں میں میرا مطلب ہے ان پانچ بھائیوں میں ایک ایک خوبی ہے۔ اس لیئے تمہیں ان پانچوں بھائیوں سے ویواہ کرنا ہوگا۔ اس طرح دروپدی کی شادی ان پنج پانڈو سے ہوگئی۔ دروپدی ستر دن ایک بھائی کے پاس رہتی تو ستر دن دوسرے بھائی کے پاس۔ وہ ستر دن کے لیئے ہر بھائی کی شرن میں باری باری جاتی۔ اس دوران اس کے ہاں جو بھی بچہ پیدا ہوتا وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہتا۔ دروپدی اپنی فریاد مہاپروہت کے پاس لے کر گئی تو اس نے کہا ۔ اب کہ تمہارا جو بھی بچہ پیدا ہو اس کے سر کے سارے بال منڈوا دینا صرف اس کے سر ی چوٹی پے بالوں کی ایک لِٹ چھوڑ دینا۔ اس طرح جب بھی بال بڑ ے ہوں ان کو باقاعدگی سے منڈواتی رہنا لیکن اس لِٹ کو اسی طرح بڑھنے دینا۔ اس کو کپڑے ہمیشہ مانگ کے پہنایا کرنااور اس کا نام ابہمینیوں رکھنا۔ اس طرح تمہارا بچہ تم سے کوئی بھی نہیں چھین سکے گا۔ بھگوان بھی نہیں۔
دروپدی اب کہ جب ماں بنی تو اس نے مہاپروہت کی ہدایت پے عمل کیا ۔ بچے کا نام ابہیمنیوں رکھا۔ اس کو کپڑے مانگ کر پہنایا کرتی اور اس کے سر کے بال باقاعدگی سے منڈوایا کرتی لیکن سر کی چوٹی پے بالوں کی ایک لِٹ چھوڑ دیا کرتی۔
اچانک ارجن اور اس کے چاروں بھائیوں نے ارادہ کیا کہ یہ شہر چھوڑ دینا چاہئے۔ اس طرح دروپدی ،ابہیمینیوں ،ارجن اور اس کے چاروں بھائیوں نے اس شہر سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس شہر یا گاؤں کہہ لیجئے کے لوگوں نے دروپدی کی یاد میں یہاں کے بڑے مندر میں دروپدی کا مجسمہ سجانے کا سوچا۔ مہاپروہت نے مشورہ دیا کہ دروپدی کا مجسمہ بنانے کے لیئے شنگرداروی کو بلایا جائے وہ اس دور کا سب سے بڑا مجسمہ ساز ہے۔ فوراً ہرکارے دوڑائے گئے اور وہ مہاپروہت کا پیغام لے کر سواستکا شہر پہنچے۔ شنگرداروی کو سواستکا شہر سے پہنچنے میں کئی مہینے لگے۔ آخر کئی مہینوں کی مسافت کے بعد شنگر داروی، دروپدی کے گاؤں پہنچا اور دورپدی کو دیکھ کر ساکت ہوگیا۔ دروپدی بہت خوبصورت عورت تھی۔ اس لیئے شنگرداروی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کا مجسمہ کس طرح بنائے اور کس پتھر کا استعمال کرے او ر ایسا مجسمہ بنائے کہ ہمیشہ کے لیئے یادگار بن جائے۔ اس نے ٹکشیلا سے خاص پتھر منگوائے اور دروپدی کا مجسمہ بنانا شروع کیا۔ کافی دنوں کی محنت کے بعد اس نے مجسمہ مکمل کیا تو مجسمہ ٹوٹ گیا۔ اس طرح شنگرداروی نے کئی دفعہ دروپدی کا مجسمہ بنایالیکن جب بھی مجسمہ مکمل ہوتا مجسمہ ٹوٹ جاتا۔ وہ اپنی پریشانی کا حل ڈھونڈنے مہاپروہت کے پاس گیا۔ مہاپروہت نے کہا اس پتھر سے مجسمہ بنانے کے لیئے تمہیں خوبصورت موسیقی کی ضرورت پڑے گی ۔ موسیقار بھی ایسا چایئے جو اپنے فن میں ماہر ہو۔ وہ بنسی بجائے گا تب جاکے یہ مجسمہ مکمل ہوگا اور کبھی نہ ٹوٹے گا۔ اس کام کے لیئے انہوں نے اس دور کے مشہور موسیقار ریشپ کھرجوی سے رجوع کیا۔ اس گاؤں کا مندر تھوڑا اونچائی پے تھا۔ا س کے بالکل سامنے ایک کھلا میدان تھا۔ وہاں شنگرداروی، دروپدی اور ریشپ کھرجوی روز آتے۔ دروپدی ، شنگرداروی کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے جس طرح وہ کہتا رخ بدلتی رہتی اور ریشپ کھرجوی اپنی موسیقی کا جادو جگاتا رہتا۔ اس طرح ان تینوں کی تپسیاء رنگ لائی اور دروپدی کا مجسمہ تیار ہوگیا۔ اِسے مندر میں جاکے سجا دیا گیا۔ اس کام کے مکمل ہوتے ہی سب نے کوچ کیا۔ دروپدی، ابہمینیوں،ارجن اور اس کے بھائیوں نے رختِ سفر باندھا۔ ریشپ کھرجوی اپنے ملک کو سُدھار گیا اور شنگرداروی اپنے شہر سواستکا چلا گیا۔ کافی عرصہ گزرا اور مہاپروہت بھی دنیا چل بسا۔
اس علاقے نے تاریخ کے کئی دور دیکھے۔ دروپدی کی اس مورتی کی وجہ سے یہ گاؤں کافی مشہور ہوگیا اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس گاؤں کا اصل نام بھول گئے اور یہ گاؤں مورتی کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ اتنی لمبی چوڑی کہانی رشید مسّلی کو سید بابا نے سنائی تھی۔ سید بابا کو اس طرح کی کئی کہانیاں یاد تھیں۔ وہ شیدے اور علم بردار کو ڈانٹا کرتا کہ اس میدان میں کنچے(گولیاں یا بنٹے)نہ کھیلا کرو۔ بڑی تاریخی جگہ ہے۔ یہاں دروپدی کا سوئمبر رچایا گیا تھا۔ یہاں اس کی مورتی بنائی گئی تھی۔ یہاں شنگرداروی اور ریشپ جیسے عظیم لوگوں نے قیام کیا تھا۔اب تو سید بابا بھی اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔
شیدے مسّلی نے کروٹ بدلی۔ اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں لیکن مسکرا رہا تھا۔ شیدا اور علم بردار کنچے(گولیاں یا بنٹے)کھیلنے میں بڑے ماہر تھے۔ پورے مورتی گاؤں میں ان کی ٹکر کا کوئی بندا نہیں تھا۔ دونوں کا نشانہ بہت اچھا تھا۔ شیدے کے بزرگ لوگوں کی شادیوں بیاہوں پے ڈھول بجایا کرتے ، وہ بھانڈ مراثی کا کام کیاکرتے۔ راجہ علم بردار کے بزرگ کئی پشتوں حجام تھے۔ عرفِ عام میں نائی تھے۔ سید بابا تو علم بردار کو یہ بھی کہا کرتا ابہمینیوں کا سر تمہارے خاندان کا بندا ہی مونڈا کرتا تھا اور شیدے کو کہتا کہ تم ریشپ کھرجوی کی نسل ے ہو۔
علم بردار ، شیدے کو اینٹی کہا کرتاکیونکہ شیدے کا سر بڑا تھا ۔ کنچے(گولیاںیا بنٹے) کئی طریقوں سے کھیلے جاتے ہیں اس میں چکر ہوتا ہے۔ گولی پلا ہوتا ۔آپ اس کے ذریعے جواء بھی کھیل سکتے ہیں۔ چکر میں آپ ایک بڑا سا دائرہ کھینچ کر اس کے بالکل درمیان میں ایک لائن لگا دیتے ہیں۔ اس لائن پے رنگ برنگی کنچے سجا دیتے ہیں۔ اگر دو بندے کھیل رہے ہوں تو ٹاس کیا جاتا ہے۔ اگر زیادہ بندے کھیل رہے ہوں تو قرعے کے ذریعے باریاں تقسیم ہوتی ہیں۔ ہر بندے کے پاس اپنا اپنا اینٹی ہوتاہے۔ کچھ لوگ اسے مارچو بھی کہتے ہیں۔ اب چونکہ اینٹی دوسرے کنچوں سے حجم میں بڑا ہوتا ہے اس لیئے اینٹی یا مارچو کہلاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اینٹی حجم میں بڑا ہی ہو۔ بالکل اسی طرح کنچوں میں جو سائز یا حجم میں سب سے چھوٹا ہے اس کو چیسکو کہتے ہیں۔ علم بردار بچپن میں چونکہ اپنے تمام ہم عمر بچوں میں قد اور جسامت میں چھوٹا تھا اس لیئے اسے شیدا چیسکو کہتا تھا۔ پورے مورتی گاؤں میں ان کی ٹکر کا نشانچی کوئی نہیں تھا۔ دونوں کے گھروں میں کنچوں کی گاگریں (پانی کا گھڑا)بھری ہوئی تھیں۔ دونوں نے اپنا بچپنا مورتی گاؤں کے مندر کے اس میدان میں کنچے کھیل کے گزارا تھا۔ جہاں بقول سید بابا کے دروپدی کا سوئمبر رچایا گیا تھا۔ جیسے ہی دونوں تھوڑے بڑے ہوئے تو شیدے کو اس کے باپ نے اپنے ساتھ کام پے لگا لیا۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی لیکن کبھی بھی بھوکے نہ سوئے۔ علم بردار کو باپ نے حجامت کا کام سکھایا لیکن اس نے اس کام میں بالکل دلچسپی نہ لی۔ابھی اس کی عمر بمشکل تیرہ سال تھی کہ گھر سے بھاگ گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ علم بردار لاہور کے کسی ہوٹل پے کام کرتا ہے۔ چار سال بعد علم بردار جب واپس مورتی آیاتو اس کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔ اس نے آتے ہی شیدے مسّلی سے ملاقات کی اور لاہور شہر کی تعریفیں کرنے لگا۔ اس نے شیدے کو اپنے ساتھ لے جانے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ وہ کہتا تھا ،’’یار میں بھانڈ مراثی ہوں گاؤں کی رونق ہوں۔ اگر میں گاؤں سے چلا گیا تو گاؤں کے لوگوں کا دل کون بہلائے گا۔ علم بردار عرف چیسکو تھوڑا عرصہ رکا اور پھر واپس لاہور چلا گیا۔ پھر کسی نے اس کے ماں باپ کو اطلاع دی کہ علم بردار کراچی چلا گیا ہے۔ وہاں سیمنٹ کے بلاک بنانے کا کام کرتا ہے۔ اب وہ ماں باپ کورقم بھی بھیجا کرتا۔ اس کا باپ اِ س کے اس فیصلے خوش نہیں تھا لیکن کیاکرتا علم بردار کو نائیوں کا کام پسند ہی نہیں تھا۔ علم بردار نے کراچی میں دو سال گزارے تو اس کی شخصیت ہی بدل گئی۔ ا ب کہ وہ مورتی گاؤں آیا تو نفیس کوٹ پتلون میں ملبوس تھا۔ گفتگو کے دوران انگریزی کاایک آدھ لفظ بھی بول دیا کرتا۔ اس نے شیدے مسّلی کو کہا کہ وہ اس کے ساتھ کراچی چلے ۔وہاں بڑا پیسہ ہے۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے شیدے سے کہا کہ میرا تو خواب ہے کہ میں تارے والی گڈی (گاڑی) لونگا۔ اب شیدے کو کیا پتا کہ تارے والی گڈی کون سی ہوتی ہے۔ مرسڈیز بینز کو علم بردار تارے والی گڈی کہتا تھا۔ وہ پھر تھوڑا عرصہ رہا اور کراچی واپس چلا گیا۔ علم بردار نہ جانے کس طریقے سے کسی شپِنگ کمپنی میں بھرتی ہوگیا اور ملک ملک کی سیر کرنے لگا۔ آخر کار اس نے یونان جاکے ڈیرے لگائے۔
*************

شیدا مسّلی اور اس کا پورا خاندان مورتی گاؤں اور آس پاس کے دوسرے دیہاتوں اور قصبوں میں جاکے لوگوں کو خوش کرنے کا کام کرتا تھا۔ ڈھول بجانا، لطیفے سنانا،رنگ رنگ کے بہروپ بدلنا۔ یہ لوگ ایک طرح کی چلتی پھرتی نوٹنکی تھے۔ اب چونکہ ریڈیو، ٹی وی ،وی سی آر اور دیگر اس طرح کی چیزوں نے ان کی جگہ لے لی تھی لیکن ان کی دال روٹی بھی چل رہی تھی۔ یہی ایک وجہ تھی کہ مسّلیوں کے مردوں نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے تھے۔ دوسرے شہرں کو جانے لگے تھے۔ مختلف قسم کے ہنر سیکھنے لگے تھے۔ شیدے نے بھی ڈرائیوری کا کام سیکھ لیا تھا۔ وہ چکوال سے مورتی تک بس چلایا کرتا۔ ڈرائیوری کے دوران اس کو بھی رنگ رنگ کے لوگوں سے واسطہ پڑتا۔ اس نے نئے نئے فیشن کے شلوار قمیص سِلوائے۔تِلے والی جوتیاں سائی پے بنوایا کرتا۔ (سائی کا مطلب ہے آپ جفت ساز یا موچی کے پاس جاکے اپنے پاؤں کا ماپ دیتے ہیں اور وہ آپ کے پاؤں کی ساخت کے مطابق جوتی بناتا ہے)۔ چونکہ شیدا خاندانی مسّلی تھا اس لیئے اسے موسیقی سے گہرا لگاؤ تھا۔ اس لیئے اس کی بس میں اچھے اچھے گانوں کی بہت ساری کیسیٹس تھیں۔ بس میں چونکہ اگلا حصہ (جہاں ڈرائیو ر کی سیٹ ہوتی ہے)عورتوں کے لیئے مختص ہوتا ہے اس لیئے شیدا بس کی صفائی کا خاص خیال رکھا کرتا۔ اس کے علاوہ اس کو سجانے سنوارنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتا۔ بس میں کئی طرح کے رنگ رنگ کے ربن لگے ہوئے تھے۔ نہ جانے کتنے قسم کے انگریزی اور اردو کے سٹِکر لگے ہوئے تھے۔ جن پے بے شمار پیغامات اور چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ ، "
I love you" "darling" ’’ایوب خان زندہ باد‘‘، ہارن دیکر پاس کریں‘‘، سلیم بس باڈی میکر، بلال گنج‘‘، ’’سکائی لیب‘‘۔ کئی قسم کی رنگ برنگی پٹیاں لگی ہوئی تھیں جو رات کو چمکتی تھیں۔ بس کے دونوں کناروں پے دوبڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے جو شیدے کی ڈرائیونگ کے دوران مدد کرتے تھے۔ ان کے ساتھ کالے رنگ کے ربن بندھے ہوئے تھے جو کہ شاید اس لیئے لگائے تھے کہ بس کو کسی کی نظر نہ لگے۔ اس کے علاوہ اس کے دونوں شیشوں کے ساتھ جّلی حروف میں ایک پانچ اور گیارہ لکھا ہوا تھا (۱،۵،۱۱) ۔جس کا مطلب تھا ایک اللہ، پانچ تن پاک اور گیارہویں شریف والے حضرت شیخ عبدل قادر جیلانی۔
اس کے علاوہ بے شمار چیزیں تھیں جن سے شیدے نے اپنی بس کی زینت و زیبائش میں اضافہ کیا ہوا تھا۔ گو کہ یہ بس اس کی اپنی نہیں تھی لیکن شیدے کا فلسفہ تھا کہ بس اسی کی ہوتی ہے جو اسے چلاتا ہے۔ شیدے کا رنگ کالا تھالیکن ناک نقشہ اچھا تھا۔ بالوں کے نء نئے انداز بنایا کرتا۔ اس نے لمبی لمبی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ منہ صفا چٹ رکھتا جسے انگریزی میں کلین شیو کہتے ہیں۔ وہ خود کو وحید مراد کی طرح چاکلیٹی ہیرو تصور کیا کرتا۔ مورتی میں کیا آس پاس کے سارے دیہاتوں میں مونچھیں منڈوانا برا تصور کیا جاتا تھا لیکن شیدا ان باتوں سے مبراء تھا کیونکہ وہ مسّلی تھا حالانکہ مونچھوں کو مردانگی کا نشان مانا جاتا تھا۔ یعنی اگر مرد کی مونچھیں نہ ہوں تو اسے مرد تصور نہیں کیا جاتا بلکہ اسے مخنث یا ہیجڑہ مانا جاتا ہے لیکن شیدے کے اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
شیدا اپنے اسی رنگ ڈھنگ سے بس چلاتا رہا۔ تنخواہ بھی معقول تھی اور اس کے گھر والے بھی خوش تھے۔ اب سب کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی لیکن شیدے نے کہا وہ لڑکی خود پسند کرے گا سادہ لفظوں میں لَو میرج۔ پاکستان میں پسند کی شادی کو برا تصور کیا جاتااور مورتی تو ایک گاؤں تھا۔ وہاں پے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ ہمارا ادب عشق و محبت ، پیار و جنوں کے قِصّوں سے بھرا پڑا ہے۔ چار پانچ قِصّے تو پورے برِصغیر پاک و ہند مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ہر گاؤں میں کوئی نا کوئی چھوٹا موٹا قصہ ضرور مشہور ہوتا ہے۔ ہمارا ادب عشق و محبت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ ہماری شاعری، افسانے،غزلیں،ڈرامے، فلمیں عشق کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتے لیکن عام زندگی میں اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ شیدے نے کہہ دیا تھا شادی کرونگا تو اپنی مرضی سے ورنہ کنوارہ ہی رہونگا۔ شیدے کے خاندان میں کئی لڑکیاں تھیں جو شیدے کو دل ہی دل میں چاہنے لگی تھیں لیکن شیدے کا فلسفہ تھا کہ جب تک مجھے کسی لڑکی سے عشق نہیں ہوگا میں شادی نہیں کرونگا۔
وقت گزرتا رہا اور شیدا بس چلاتا رہا۔ وہ فلمی قصوں کی طرح سوچتاکہ اچانک بس چلاتے چلاتے اسے راہ میں کوئی لڑکی ملے گی اور اسے پیار ہوجائے گا۔ ایسا فلموں میں ہوتا ہے۔ شیدے کا محض خیال نہیں یقین تھا کہ فلمیں عام زندگی میں پائے جانے والے اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو سامنے رکھ کے بنائی جاتی ہیں۔
***********
ایک دن ایسا ہی ہوا۔ شیدا مورتی سے بس لے کر نکلا ۔ بس میں کم کم سواریاں تھیں ۔عورتوں کا ڈبہ یایوں کہہ لیجئے بس کے جس حصے میں عورتیں بیٹھتی ہیں ،خالی تھا۔ اچانک زور کی بجلی کڑکی اور آسماں کو روشنی سے منور کرکے چلی گئی۔ شیدا جانتا تھا کہ آج بار ش ہوگی اور سواریاں بھی کم ہوں گی۔ اس لیئے وہ بڑے ٹھاٹھ سے بس چلا رہا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ بارش ہوگی کہ بارش شروع ہوگئی اور اس نے بس کے وائپر چلا دیئے۔ بس کے وائپر بڑی تیزی سے چل رہے تھے۔ شیشوں پے بارش کے گرتے ہوئے پانی کو وائپر بڑی تیزی سے صاف کررہے تھے۔ یہ عمل مسلسل جاری تھا۔ کبھی کبھی شیدا کپڑے سے شیشوں کو اندر سے بھی صاف کرتا۔ بس میں شیدے کے پسندیدہ گانے چل رہے تھے۔ بس کی رفتار بھی کم تھی۔ شیدا خود ہی بس آہستہ چلارہا تھا کیونکہ بارش میں بس کے پھسلنے کا کافی خدشہ ہوتا ہے۔ شیدا گاڑی چلانے کی ان تمام باریکیوں سے واقف ہوچکا تھا۔
شیدے نے ابھی بمشکل دو میل کا سفر طے کیا ہوگا کہ اْسے دور درخت کے نیچے کوئی سواری کھڑی دکھائی دی۔ اس نے گاڑی کی لائٹیں جلائی۔ ڈرائیوری کی زبان میں ڈپر مارنا کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہارن بھی بجایا۔ جب وہ اس اس سواری کے قریب پہنچا تو اس سواری نے ہاتھ کے اشارے بس روکنے کو کہا۔ شیدے نے انتہائی احتیاط کے ساتھ بس اس سواری کے پاس جاکے روک دی۔ کوئی لڑکی تھی۔ بس میں سوار ہوئی۔ اس کے سارے کپڑے بھیگ چکے تھے اور بھیگنے کی وجہ ے وہ کانپ رہی تھی۔ شیدے نے جلدی سے اپنی چادر پیش کی اور کہا، ’’بی بی یہ چادر اوڑھ لیں۔ یہ تولیہ لیں اور اس سے پانی خشک کرلیں۔منہ پونچ لیں‘‘۔ لڑکی نے شیدے کو گھْور کے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے تولیہ لے لیا۔ ’’صاف ہے بی بی جی ۔میں بڑا صفائی پسند ہوں۔ ہمیشہ دو تولیئے اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ دورومال اور ایک شلوار قمیص بھی سیکٹرا رکھتا ہوں‘‘۔ سیکٹرا لفظ سننا تھا کہ لڑکی کی ہنسی نکل گئی۔ ’’آپ یہاں کی تو نہیں لگتیں۔آپ کسی دوسرے شہر کی ہیں۔بی بی جی معاف کیجئے گا میں ذات کا مسّلی ہوں ا س لیئے باتیں کرنا ، گْھل مل جانا ہمارا خاندانی کا ہے لیکن اب ہمارا کام کم ہوگیا ہے۔ اس لیئے اب میں نے ڈلیوری (ڈرائیوری) سیکھ لی ہے‘‘۔ اس لڑکی نے ہاتھ منہ صاف کرکے پونچ کے تولیہ شیدے کو واپس کردیا۔ اس کے بعد شیدے نے کوئی بات نہ کی، نہ ہی کئی سوال کیا۔ شیدا مزے سے گاڑی چلا رہا تھااور بس کے بڑے بڑے شیشوں پے وائپر بڑی خوبصورتی اور تیزی سے اپنا کام دکھارہے تھے۔ کبھی کبھی پانی کی ایک دھار دونوں شیشوں کے سامنے بہہ جاتی۔
راستے میں سواریاں اترتی رہیں اور سوار ہوتی رہیں۔ چکوال بس سٹاپ پے جاکے شیدے نے بریک لگائی اور انجن بند کیا۔ ابھی وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اترنے ہی لگا تھا کہ اس کے کانوں کو ایک مترنم آواز سنائی دی۔ ’’سْنو تم مجھے میر ے گھر تک چھوڑ دو گے کیونکہ یہاں سے ٹیکسی ملنے کا امکان نہیں اور نہ ہی میں کسی ٹیکسی یا کار میں جانا چاہتی ہوں‘‘۔ شیدے نے کہا، ’’بی بی جی ویسے تو میں بس کا مالک نہیں ہوں لیکن زندگی میں کبھی کبھی رِکس (رِسک) لینا چاہیئے لیکن ایک بات بتا دوں نہ ہی میں پیسے لوں گا اور نہ ہی آپ مجھے چائے کے لیئے روکیئے گا کیونکہ مجھے اڈے پے واپس آنا ہے۔ میری بس کا نمبر بھی لگ چکا ہے‘‘۔ ’’وہ کیسے تم ابھی تو آئے ہو‘‘۔ ’’بی بی جی یہ سب ایٹک میٹک (آٹومیٹک) ہوتا ہے، شیدے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹھیں بی بی جی کدھر کو جاناہے‘‘۔ ’’تم بڑی سڑک پے چلووہاں سے دو کلو میٹر دور ایک فارم ہاؤس ہے ۔ میں وہاں رہتی ہوں‘‘ ۔ ’’وہ تو جی اپنے ملک صاحب کا فارم ہاوس ہے‘‘۔ ’’میں ونہی رہتی ہوں۔ اب چلیں یا باتیں ہی بناتے رہو گے‘‘۔ بس چل پڑی ۔ شیدا سوچنے لگا اِسے بس چلاتے ہوئے کتنے سال ہو گئے ہیں لیکن آج تک ایسا واقع پیش نہیں آیا۔ لڑی بھی کتنی عجیب ہے ایک تو اکیلی بارش میں اس چھوٹے سے گاؤں سے آئی ہوئی تھی اب میرے ساتھ گھر جارہی تھی۔ شیدا خود ہی سوال بْنتا اور خود ہی ان کے جواب گھڑتا۔ میں مسّلی ہوں سوچتی ہوگی اس سے کیا ڈرنا۔ شیدا ابھی اسی اْدھیڑ بْن میں تھا کہ فارم ہاؤس آگیا۔ لڑکی نے اپنا پرس سنبھالا اور شیدے سے مخاطب ہوئی، ’’نہ میں تمہیں پیسے دوں گی اور نہ ہی تمہیں چائے کا پوچھوں گی۔ اب تم جاؤ۔ ویسے تم اسی روٹ پے بس چلاتے ہو‘‘۔ ’’جی بی بی جی‘‘۔’’اچھا اب خدا حافظ تمہارا نمبر نہ نکل جائے‘‘۔ ’’اچھا بی بی جی خدا حافظ‘‘
**************
شیدا کئی دن تک سوچتا رہا کہ اس کے ساتھ بڑا عجیب و غریب واقع پیش آیا۔ اْس نے اس بات کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ اگر علم بردار ہوتا تو وہ اِسے ضرور بتاتا لیکن وہ تو یونان یا پتا نہیں کون سے ملک میں تھا۔ ابھی وہ چارپائی پے لیٹا سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے اْسے جگا یا۔ ’’اْٹھ اوئے شیدے بس نہیں لے کر جانی۔سواریاں انتظار کررہی ہیں‘‘۔ شیدے نے جلدی سے اپنی زری کی جوتی پاؤں میں پہنی اور ڈرائیونگ سیٹ پے جاکے بیٹھ گیا۔ سواریاں جلدی جلدی بس میں سوار ہوئیں اور بس چل پڑی ۔ابھی تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ شیدے کو دور سڑک پے ایک سواری کھڑی دکھائی دی۔ پچھلی دفعہ اس نے بِنا سٹاپ کے سواری اس لیئے بٹھا لی تھی کیونکہ بارش ہورہی تھی۔ آج بس روکنے کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اس نے پھر بھی بس روک دی۔ عورتوں والے کیبن میں ایک لڑکی سوار ہوئی۔ شیدا مْسکرایا بھی اور حیران بھی ہوا لیکن اس نے منہ سے کچھ نہ کہا کیونکہ آج کیبن خالی نہیں تھا۔ یہ وہی لڑکی جسے شیدا گھر تک چھوڑ کے آیا تھا۔
شیدا خاموشی سے بس چلاتا رہا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کچھ سواریاں بس میں سوار ہوتیں اور کچھ سواریاں اتر جاتیں۔ چکوال پہنچ کے شیدے نے بس جاکے اڈے پے روک دی ۔ ساری سواریاں اتر گئیں لیکن وہ لڑکی نہ اتری۔ شیدے نے بات کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ اْسے ڈر تھا کہیں بات چیت کروں گا تو سمجھے گی کہ احسان جتلانے کی کوشش کررہا ہے۔ شیدا دماغ میں سوچ کی ان اْلجھی ہوئی گْھتیوں کو سْلجھا رہا ۔ پھر اْس نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا، ’’بی بی جی چکوال آگیا ہے‘‘۔ ’’ہاں مجھے بھی پتا ہے ۔ سْنوں آج تم مجھے گھر تک چھوڑ دو گے۔ میں تمہیں پیسے بھی دوں گی اور تمہیں چائے بھی پلاؤں گی‘‘۔ ’’بی بی جی میں مزدور آدمی ہوں ۔غریب آدمی ہوں ۔ کسی کی بس چلاتا ہوں۔اگر نَیئک (ڈرائیوری کی زبان میں مالک کو کہتے ہیں۔ یقیناًیہ لفظ نائیک سے نکلا ہوگا) کو پتا چل گیا تو کام سے نکال دے گا‘‘۔ ’’تمہارے نیئک میرا مطلب ہے مالک سے میں بات کرلوں گی۔ وہ روٹ پرمٹ کے لیئے ملک صاحب کے پاس ہی آتا ہے۔ اچھا ٹھہرو میں ابھی آتی ہوں‘‘۔ وہ اتنا کہہ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد شیداجس آدمی کے لیئے بس چلاتا تھا اس کا مْنشی آیا اور شیدے کو کہنے لگا، ’’اْوئے شیدے بی بی جی فارم ہاؤس چھوڑ آؤ۔ یہ میری کار لے جاؤ۔ گیرو (گیئرز) کا تو پتا ہے نا‘‘۔ ’’وہ جی آپ فکر نہ کریں۔ تین آگے دو پیچھے۔ آئیں بی بی جی‘‘۔
لڑکی نے اپنا پرس سنبھالا اور شیدے کے ساتھ چل دی۔ شیدے نے آگے بڑھ کے دروازہ کھولا۔ جب لڑکی بیٹھ چکی تو شیدا بھی ڈرائیونگ سیٹ پے آکے بیٹھ گیا۔ ’’چلیں بی بی جی‘‘۔ ’’میرا نام سحر ہے، بی بی جی نہیں۔ تمہارا کیا نام ہے‘‘۔ ’’بی بی جی میرا نام شیدا مسلّی ہے‘‘۔ ’’صحیح نام کیا ہے ‘‘۔ ’’جی محمد رشید‘‘۔’’تو یہ مسلّی کیا ہے‘‘۔ ’’بی بی جی میرا مطلب ہے سحر بی بی مسلّی یا مراثی ڈھول بجانے والے کو کہتے ہیں۔لوگوں کو شادیوں بیاہوں پے مہمانوں کو خوش کرتے ہیں۔ چودھریوں کے حقے تازے کرتے ہیں‘‘۔ ’’اور کیا کرتے ہیں مسلّی‘‘۔ ’’جی ناچتے ہیں۔ گانے گاتے ہیں۔سحر بی بی آپ کیا کام کرتی ہیں‘‘۔ ’’میں جیالوجسٹ اور اوشیانولوجسٹ ہوں‘‘۔ ’’یہ کیا چیزیں ہیں ۔ بیماریوں کے نام ہیں‘‘۔ ’’نہیں رشید یہ زمین کا پتھروں، سمندر کی تہہ میں چھپے ہوئے خزانوں کا علم ہے‘‘۔ ابھی سحر اپنی بات ختم بھی نہ کرپائی تھی کہ فارم ہاؤس آگیا۔ شیدے نے کار پورچ میں جاکے کار پارک کی ۔ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کے سحر بی بی کے لیئے دروازہ کھولا۔ ’’سحر بی بی اتریں‘‘۔ شیدا ہاتھ باندھ کے کھڑا ہوگیا۔
’’آجاؤ رشید‘‘۔ شیدا ،سحر بی بی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ دو بڑے بڑے دالانوں سے گزرنے کے بعد ایک بڑا سا دروازہ آگیا۔ سحر نے اس دروازے کی چمکتی ہوئی مْٹھی (ہینڈل) کو مروڑااور دروازہ کْھل گیا۔ دروازہ کیا کْھلا شیدے کے لیئے تو الف لیلیٰ کی کوئی داستان کْھل گئی۔ اس نے ایسا کمرہ صرف فلموں میں دیکھا تھا۔ بڑے بڑے صوفے، دبیز قالین۔ اس کے اوپر خوبصورت غالیچے۔ شیدے نے جلدی سے اپنی زری کی جوتی اتاری، ہاتھ سے اپنے پاؤں کئی دفعہ صاف کیئے اور قالین پے پاؤں رکھا۔ اْسے ایسا لگا جیسے مخملی فرش ہو۔ ’’شیدے جوتے کیوں اتار دیئے۔ کتنے خوبصورت ہیں تمہارے جوتے۔ان پے سونے کی تار لگی ہوئی ہے‘‘۔ ’’نہیں بی بی جی یہ نقلی طلاء ہے۔ طلاء مطبل(مطلب) زری، زری مطبل مطبل مطبل ( مطلب)‘‘۔ ’’اچھا تم بیٹھو میں بھی آتی ہوں‘‘۔
شیدا چوروں کی طرح دْبک کر بیٹھ گیاابھی چند ہی لمحے گزریں ہوں گے کہ کمرے میں ایک لمبا تڑنگا آدمی موچھوں کو مرْوڑتا ہوا داخل ہوا۔ شیدا احترام میں کھڑا ہوگیا۔ ’’او بیٹھو نوجوان ، کیا نام ہے تمہارا‘‘۔ ’’جی شیدا‘‘۔ ’’آج سے تم سحر بی بی کے ڈرائیور ہو‘‘۔ ’’جی میں تو‘‘۔ ’’کتنی تنخواہ لیتے ہو‘‘۔ ’’جی اٹھارہ سو روپیہ۔ اس کے علاوہ روٹی اور چائے نیئک کی ‘‘۔ ’’ہم تمہیں پانچ ہزار دیں گے۔ بولو منظور ہے‘‘۔ ’’ملک صاحب ‘‘۔ ’’تمہارے مالک سے بات کرلی ہے۔تم اپنا جو بھی سامان وغیرہ ہے کپڑے ، آج ہی جاکے لے آؤ۔ آج سے تم یہیں ر ہو گے‘‘ ۔اتنا کہہ کر وہ شخص چلا گیا‘‘۔ شیدے نے کوئی بات نہ کی۔ وہ جانتا تھا یہ ملک عبدل القدوس کلہاروی تھا۔ چکوال کے حلقے سے اس کے علاوہ کوئی بھی الیکشن نہیں جیت سکتا تھا نہ ہی آج تک کوئی جیتا ہے۔ شیداذات کا مسلّی تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اتنے بڑے گھر میں رہے گا اور تنخواہ بھی پانچ ہزار۔ یعنی ہزار ہزار کے پانچ کرارے نوٹ۔
’’رشید میں تمہارے لیئے گرما گرم پکوڑے سموسے اور شامی کباب لائی ہوئی ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ چائے بھی ۔بیکری دور ہے ورنہ کیک بھی منگواتی‘‘۔ ’’بی بی جی آپ کیوں لائی ہیں۔ اتنے بڑے گھر میں ملازم کوئی نہیں‘‘۔ ’’رشید میں اپنا کام خود کرتی ہوں۔ تمہیں ملک صاحب نے بتا دیا ہوگا کہ آج سے تم میرے ساتھ رہو گے۔ چائے پینے کے بعد میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھادوں گی‘‘۔
شیدا سوچنے لگا ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فلمیں عام زندگی میں گزرے ہوئے واقعات کو سامنے رکھ کے بنائی جاتی ہیں۔ ’’رشید کیا سوچ رہے ہو‘‘۔’’کچھ نہیں بی بی جی میں سوچ رہا ہوں کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔ یا کسی فلم کا سین چل رہا ہے‘‘۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں رشید مجھے ایک عدد ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ پہلے میں سروپ نگر خود جایا کرتی تھی۔ دو دفعہ گاڑی خراب ہوئی۔ مجھے تمہارے ساتھ بس میں آنا پڑا ۔ یہ تمہارا بڑا پن ہے کہ تم نے میرے لیئے دو دفعہ بس روکی، حالانکہ تمہارا سٹاپ بھی نہیں تھا‘‘۔ ’’بی بی جی یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی اکیلی لڑکی کو بارش اور طوفان میں چھوڑ کے کیسے چلا آتا‘‘۔ ’’اچھا باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ آؤ تمہیں تمہاری رہنے کی جگہ دکھا دوں‘‘۔ شیدا، سحر بی بی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔
*************
سحر کلہاروی ، ملک عبدالقدوس کلہاروی کی بھتیجی تھی۔ جیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد مزید پڑھنے کے لیئے آسٹریلیاء چلی گئی تھی ۔ وہاں سے پہلے ایم فل کیا اس کے بعد پی ایچ ڈی ۔ اب وہ جیالوجسٹ، منرولوجسٹ اور اوشیانولوجسٹ بن کے آئی تھی ۔ویسے تو سحر نے آسٹریلیاء کی ہی شہریت اختیار کرلی تھی لیکن وہ مزید ریسرچ کے لیئے پاکستان آئی ہوئی تھی۔ وہ مٹی، ریت، پتھر، پانی کا بہاؤ دیکھ کر بتا تی کہ کس جگہ ، کیسے کیسے ذخائر چھْپے ہوئے ہیں۔ کئی آئل کمپنیوں نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی لیکن اس نے انکار کردیا۔وہ کلرکہار،مورتی، چکوال، چوہا سیدن شاہ، کٹاس اور اس کے آس پاس پائے جانے والے علاقوں پے کام کررہی تھی۔ سحر کی تحقیق اور علم کے مطابق روات سے لے کر جہلم تک کا جو علاقہ ہے۔ جسے سطح مرتفع پوٹھوار کہتے ہیں۔ یہاں تیل کے بیشمار ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پے ہیرے جواہرات کا بہت بڑا خزانہ چھپا ہواہے۔آجکل وہ آسٹریلوی ادارے کے لیئے حکومتِ پاکستان کی اجازت سے سروپ نگر میں کام کررہی تھی۔
*************
رشید روز صبح سویرے سحر بی بی کو سروپ نگر لے کر جاتا اور دن ڈھلتے ہی وہ انہیں واپس لے آتا۔ وہاں پے سحر کے علاوہ اور لوگ بھی کا م کررہے تھے لیکن سحر ان سب کی انچارج تھی۔ اس دوران رشید اور سحر مین کافی دوستی ہوگئی تھی۔ سحر کو رشید کی سادگی بہت پسند تھی۔ گو کہ وہ ذات کا مسلّی تھا۔ اس کے اجداد کا کام ڈھول بجانا تھا لیکن شیدا شکل وصورت کا ٹھیک تھا۔ اپنی ترا ش خراش بھی ٹھیک رکھتا۔ اب تو وہ کبھی کبھی پتلون قمیص بھی پہن لیا کرتا۔ ہفتے میں ایک آدھ دفعہ سحر کو اسلام آباد بھی جانا پڑتا۔ جب کبھی یہ دونوں اسلام آباد جاتے تو رشید پتلون پہنا کرتا۔ سحر اپنے کاموں سے جب فارغ ہوچکتی تو پھر یہ دونوں کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتے۔ سحر نے رشید کو کبھی بھی مسلّی نہ سمجھا، نہ ہی کبھی کمی ۔ نہ ہی وہ اسے ڈرائیور سمجھ کر حقیر جانتی تھی۔ اب رشید ایکسٹرا کو سیکٹرا نہیں کہتا تھا نہ ہی ایکسلریٹر کو ایکسیلیٹر کہتا تھا۔ سحر وقتاً فوقتاً رشید کی اصلاح کردیا کرتی۔ آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب سحر نے اپنی محبت کا اظہار کردیا۔ رشید بھی سحر سے پیار کرنے لگا تھا لیکن وہ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ سحر جو بھی کہہ رہی ہے وہ سچ ہے۔
**************
ایک دن رشید سے سحر سے پوچھا ، ’’رشید تم کسی اور کو پسند کرتے ہو‘‘۔ رشید نے کہا، ’’نہیں بی بی جی‘‘۔ سحر نے غصے سے کہا، ’’بی بی جی کے بچے سحر نہیں کہہ سکتے‘‘۔ ’’سحر بی بی آپ کیسی باتیں کرتی ہیں۔میں مسلّی ہوں۔ ہم لوگ کمی ہیں۔ آپ لوگ ملک ہیں ۔میرے لیئے آپ کو آپ کے نام سے بلانا بہت مشکل ہوتا ہے‘‘۔
’’رشید سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام میں کوئی کمی نہیں ہوتا۔ رہی بات مسلّی کی تو میرے نزدیک تم آرٹسٹ ہو۔ فن کار ہو۔ اگر تم مسلّی یا مراثی ہو تو ٹی وی ، فلم ،تھیٹر اور سٹیج پے کام کرنے والے سارے لوگ مراثی ہیں‘‘۔ ’’سحر بی بی آپ پڑھی لکھی ہیں اس لیئے آپ ایسا سوچتی ہیں ورنہ لوگ تو ہمیں پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں‘‘۔ ’’دیکھو رشید تم شادی کرکے میرے ساتھ آسٹریلیاء چلے جاؤ گے۔ ہم لوگ انتہائی خاموشی سے شادی کریں گے۔ تمہارا پاسپورٹ، ورک پرمنٹ،ٹکٹ ہر چیز کا میں انتظام کروں گی۔ تمہیں صرف ہاں کہنی ہے‘‘
’’سحر بی بی اگر ملک صاحب کو پتا چل گیا تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے‘‘ ۔ ’’یہ تم نے ٹھیک ہی کہا ہے۔ انہیں جان سے مارنے کا بڑا تجربہ ہے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی مروادیا تھا کیونکہ وہ ان سب چیزوں کے خلاف تھے‘‘۔ ’’سحر بی بی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ‘‘۔ ’’ہاں یہ سچ ہے۔ تم ہمیں ملک اور جاگیردار سمجھتے ہو۔ ہم بھی تمہاری طرح کمی ہی ہیں۔ میرا پردادا انگریزوں کے دور میں ایک معمولی موچی ہوا کرتا تھا۔ جب انگریز افسر کلرکہار کے علاقے میں آئے تو اس نے ان تک کسی طریقے سے رسائی حاصل کرلی۔ انگریزوں کے لیئے اور ان کی میموں کے لیئے خوبصورت اور اچھے جوتے بنایا کرتا۔ انگریز اسے کوبلر بابا کہتے تھے۔ میرا پردادا بڑا خوش ہوا کرتا ۔ تمہیں پتا ہے کوبلر ، انگریزی میں موچی کو کہتے ہیں۔آہستہ آہستہ میرے پردادا کے انگریزوں سے مراسم اتنے بڑھے کہ اس نے آس پاس کے گاؤں کی مظلوم اور مجبور عورتوں کو انگریز افسروں کو پیش کرنا شروع کردیا۔ کبھی انگریزوں کے لیئے موروں کے ناچ کا انتظام کرتا، کبھی ان کے لیئے مجرے کا انتظام کرتا۔ کبھی شکار کے لیئے ہرن فراہم کیا کرتا۔ اس طرح میرا پردادا موچی سے رائے بہادر کلہاروی بن گیا۔ کلرکہار اور اس کے آس پاس کے بیشمار گاؤں میرے پردادا کے نام ہوگئے۔
جب میرے پرداد کا انتقال ہوا تو میرا دادا ساری زمین جائیداد کا اکیلا وارث بن گیا۔ اس نے اپنی بہنوں کو کوئی حصہ نہ دیا۔ وہ بڑا ظالم آدمی تھا۔ اس کے بھی انگریزوں سے اچھے مراسم تھے۔ میرے ابا پڑھائی لکھائی میں اچھے تھے اس لیئے وہ پڑھنے کے لیئے انگلستان چلے گئے۔ ونہیں انہوں ایک انگریز لڑکی کو مشرف با اسلام کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی۔
میری امی کچھ عرصہ تو اسلام کا لبادہ اوڑھے رہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں مذھب کم اور منافقت زیادہ ہے تو انہوں نے دوبارہ عیسائیت اختیار کرلی۔ وہ کہتی تھیں ہم عیسائی بھی منافق ہیں۔ اگر منافقانہ زندگی ہی گزارنی ہے تو میں عیسائی رہوں یا مسلمان ایک ہی بات ہے۔ اس بات پے دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس دوران میں پیدا ہوچکی تھی۔ میرے والد کسی بہانے سے مجھے پاکستان لے آئے اور وہ جیسے ہی پاکستان پہنچے میرے چچا ملک عبدالقدوس کلہاروی نے انہیں مروادیا۔
ان کی موت کو ایک حادثہ قرار دیکر ان کی زندگی کی کتاب ہمیشہ کے لیئے بند کردی۔ میری ماں مجھے ڈھونڈتی ہوئی پاکستان پہنچی تو میرے چچا نے اسے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ آج تک پاکستا ن آئے ہی نہیں۔ اس طرح وہ ہمیشہ یہی سمجھتی رہی کہ ہم دونوں یا تو اس دنیا میں نہیں ہیں یا کہیں گم ہوچکے ہیں۔ میں نے اپنی تعلیم پاکستان میں مکمل کی ۔ آسٹریلیاء جاکے پڑھائی کی ۔ میرے چچا کا خیال ہے کہ میں ان کے بیٹے سے شادی کرلوں لیکن میں نے صاف انکار کردیا ہے‘‘۔
’’لیکن سحر‘‘۔
’’کیا کہا تم نے رشید‘‘۔
’’میرا مطلب ہے سحربی بی‘‘۔
’’نہیں نہیں رشید ،سحر کہو اچھا لگتا ہے‘‘۔
’’اچھا سحر کہتا ہوں۔ آپ کو میرا مطلب ہے تمہیں یہ ساری تفصیل کس نے بتائی‘‘۔
’’اچھا سوال ہے ۔ میرے والد صاحب مجھے لے کر جب پاکستان آئے تو ایک ڈائری بھی ساتھ لائے تھے۔ اس ڈائری میں انہوں نے تمام تفاصیل درج کی ہوئی تھیں۔وہ ڈائر ی انہوں نے چکوال کے بینک لاکر میں رکھ دی تھی۔ انہوں نے بینک افسر سے کہا تھا اگر میرا ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا تو یہ ڈائری میری بیٹی کو دے دینا لیکن اس وقت تک اپنے پاس رکھنا جب تک وہ اٹھارہ سال کی نہ ہوجائے۔ اگر ڈائری اس تک نہ پہنچا سکو تو اس لاکر کی چابی اس تک پہنچا دینا۔ ان کا خدشہ ٹھیک نکلا اور ان کے بھائی نے انہیں مروادیا اور جب میں اٹھارہ سال کی ہوئی تو لاکر کی چابی مجھ تک پہنچی۔ میں نے لاکر جاکے کھولا اور اس میں یہ ڈائری پڑی ہوئی تھی جس میں یہ تمام تفاصیل لکھی ہوئی تھیں جو تمہیں میں نے ابھی بیان کی ہیں‘‘
’’سحر میں تم سے ضرور شادی کروں گالیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں ان پڑھ ہوں‘‘۔
’’یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ تم ان پڑھ ہو جاہل نہیں۔ تم عورتوں کا احترام کرتے ہو۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس دن جب میں بارش میں بھیگ گئی تھی تو تم نے میرے طرف آنکھ اْٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اپنا منہ دوسری طرف کرلیا اور مجھے اپنی چادر تھما دی اور اس کے بعد اپنا تولیہ۔ اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا‘‘۔
’’سحر یہ تو میرا فرض تھا۔ عورت کا احترام کرنا تو مجھے میرے باپ نے سکھایا ہے۔ وہ کہتا ہے عورت ماں ہوتی ہے، بہن ہوتی ہے، بیٹی ہوتی ہے‘‘
’’اچھا رشید تم اپنا شناختی کارڈ بنوالو۔ باقی سب کچھ میں سنبھال لوں گی‘‘
’’ٹھیک ہے سحر‘‘۔
***********
رشید کو ملک عبدالقدوس کلہاروی کے بندوں نے بڑا مارا۔ بے چارے کے ہاتھ پاؤں نہ توڑے لیکن وہ کئی دنوں تک اپنے پیروں پے چل نہ سکا۔ اس کی ماں اس کو کئی دنوں تک ہلدی ملا ملا کے دودھ پلاتی رہی۔ آسٹریلیاء جانا، سحر بی بی سے شادی کرنا سب کچھ خواب ہی رہا۔ بس ڈرائیوری کی نوکری بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ سحر کلہاروی کہاں گئی اس کا کوئی پتا نہ چلا اور نہ ہی رشید عرف شیدا یہ بات جاننا چاہتا تھا۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا۔رشید کا اب کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ اس لیئے وہ چارپائی پے لیٹ کے سارا سارا دن گانے سنتا رہتا۔ ماں باپ نے بڑا زور دیا کہ شادی کرلے، کوئی کام دھندا کرلے لیکن وہ نہ مانا۔ آج بھی وہ چارپائی پے لیٹے لیٹے ماضی کے نہاں خانوں میں چلا گیا تھا۔شام ہوچلی تھی شیدے نے اپنا ٹیپ ریکارڈر اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔
************
راجہ علم بردار اب کے پاکستان آیا تو وہ اپنے ساتھ ویزے بھی لے کر آیا تھا۔ اْسے کسی نے بتایا تھا کہ اس کالنگوٹیہ اور بچپن کا یار بڑی مشکل میں ہے۔ علم بردار نے سوچا کیوں نا رشید کو بھی ساتھ لے چلوں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ رشید سے ملنے آیا تھا لیکن بوجہ مجبوری اسے جانا پڑ گیا تھا۔ اگلے دن وہ رشید کے گھر موجود تھا۔ رشید کے ماں باپ بڑے خوش ہوئے چلو علم بردار آیا ہے اس کے لیئے کچھ نا کچھ ضرور کرے گا۔ رشید کی ماں نے علم بردار سے بات کی تو وہ کہنے لگا، ’’ماں جی آپ فکر نہ کریں میں اسے ساتھ لے جانے ہی آیا ہوں۔ بس اس کا پاسپورٹ بنوانا ہوگا‘‘۔ رشید نے بڑا کہا کہ وہ پردیس کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتالیکن علم بردار کو رشید کی ماں نے ساری کہانی سنائی کہ کس طرح یہ ملک عبدالقدوس کلہاروی کی بھتیجی سحر کلہاروی کے عشق میں گرفتار ہوا اور وہ اسے اکیلا چھوڑ کے چلی گئی۔ ملکوں نے اسے اتنا مارا کہ یہ کئی دنوں تک چل بھی نہ سکا۔ رشید نے علم بردار کو یقین دلایا کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن وہ نہ مانا اور اس نے رشید کو ساتھ لے جانے کی ٹھان لی۔
*************
رشید عرف شیدا عرف اینٹی جب اٹلی پہنچا تو بڑا حیران ہوا۔ بالکل الگ دنیا تھی۔ راجہ علم بردار کا اپنا کاروبار تھا۔ وہ اٹلی کے مختلف شہروں میں کھانے پینے کی چیزیں سپلائی کیا کرتا تھا لیکن اس کا مستقل ٹھکانہ میلانوں تھا۔ یہیں علم بردار نے اپنا گھر خریدا ہوا تھا۔ اس گھر کے چار کمرے تھے۔ ایک کمرے میں خود رہتا تھا باقی کے تین کمرے اس نے کرائے پے چڑھا رکھے تھے۔ ہر کمرے میں تین تین بندے رہتے تھے۔ اس نے رشید عر ف شیدے کو سختی سے منع کیا تھا کہ اس کے ماضی کے بارے میں کسی کو نہ بتائے۔ یہی کہ علم بردار پیشے کے اعتبار سے نائی ہے اور اس کا نام چیسکو ہے۔ اس کے برعکس علم بردار کو جب بھی موقع ملتا وہ لوگوں کے سامنے اس بات کا ذکر ضرور کرتا کہ اس نے اپنے جگری دوست کو اٹلی بلوایا ہے اور اس سے ایک بھی پیسہ نہیں لیا۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کرتا کہ شیدا ذات یا قوم کا مسلّی ہے، مراثی ہے۔ اس کے باپ دادا ڈھول بجایا کرتے تھے۔ بھانڈ تھے۔ شادی بیاہوں پے لوگوں کو خوش کیا کرتے تھے۔ گو کہ رشید ذات یا قوم کا مسلّی یا مراثی تھا لیکن شخصیت کے لحاظ سے بہت اچھا انسان تھا۔ وہ ایک سال سے علم بردار کے لیئے مفت کام کررہا تھا اور مزید کتنا عرصہ مفت کام کرنا تھا یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ زبان پے حرفِ شکایت کبھی نہ لایا۔ وہ علم بردار کے ڈرائیوری کرتا رہا۔ جس کے بدلے اسے روٹی کپڑا اور رہائش ملتی تھی۔
**************
رشید کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوچکی تھی اس لیئے اْسے پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لیئے پاکستان ایمبیسی جانا پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے کاغذات وغیرہ پر کروائے اور پاسپورٹ فیس جمع کروائی۔ رسید لے کر نکلنے لگا تو اس کی نظر ایمبیسی میں لگے ہوئے نوٹس بورڈ پے پڑی۔ جس میں کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا لکھا ہوا تھا۔ کتاب کا پورا ٹائٹل بھی نوٹس بورڈ پے چسپاں تھا۔ ساتھ تصویر اور نام بھی۔ رشید تصویر دیکھ کے حیران رہ گیا۔ سحر کلہاروی۔ اس نے ایک بندے سے پوچھا ، ’’جناب یہ کیا لکھا ہے‘‘ تو اس آدمی نے بتایا ، ’’یہ پاکستانی جیالوجسٹ ہے اور آج کل یونائیٹڈ نیشن کے لیئے کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں جیالوجی پے کتابیں لکھتی ہے۔ یہ اس کی کتاب ہے ۔ جس کا عنوان ہے،
Kalar Khar (The world oldest civilisation)
یعنی کلر کہار ، دنیا کی سب سے پرانی تہذیب
اس کتاب کا حال ہی میں اٹالین زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس کے پبلشر موندادوری اور پاکستان ایمبیسی نے مل کر اس کتاب کی تقریبِ رونمائی رکھی ہے۔ اس تقریب میں پاکستان ایمبیسی کے عملے کے علاوہ اٹالین جیالوجسٹ، پاپولر سائنس سے متعلق لوگ بھی آئیں گے۔ اگلے ہفتے شام کو سات بجے یہ تقریب منعقد ہوگی۔ اس کے بعد خاص خاص مہمانوں کے کھانے کا انتظام ہے‘‘ اس شخص نے ساری تفصیل بتانے کے بعد پوچھا، ’’لیکن تم کیوں اتنی دلچسپی لے رہے ہو‘‘۔ رشید نے کہا، ’’ویسے ہی ‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ چل دیا۔
*************
ہفتے والے دن شیدا ساڑھے چھ بجے ہی پاکستان ایمبیسی پہنچ گیا۔ اس کو چوکیدا ر نے اندر جانے ہی نہ دیا۔ سیکیورٹی کا انتظام بہت سخت تھا۔ رشید بڑی مشکل سے ایمبیسی میں داخل ہوگیا۔
ایک کونے میں سحر کلہاروی کے دو بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ماتھے پے سفید بالوں لی ایک لٹ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ رشید ہال میں لگی ہوئی کرسیوں میں جو آخری نشست تھی وہاں خاموشی سے جاکے بیٹھ گیا۔ ابھی وہ بمشکل بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ، آپ نے کتاب خریدنی ہے تو مجھے رقم ادا کردیں اور میں آپ کو کتاب عنایت کردوں گا۔ جب سحر بی بی آئیں گی ،جن جن لوگوں کے پاس کتاب ہوگی وہ اس پے اپنے دستخط کردیں گی۔ شیدے نے جلدی رقم ادا کی اور وہ شخص چند لمحوں میں رشید کے ہاتھ میں کتاب تھما کے چلا گیا۔ اس طرح اس شخص نے کئی لوگوں کو کتاب عنایت کی۔ رشید کتاب کو الٹ پلٹ کے دیکھنے لگا۔ کتاب اٹالین میں تھی اور رشید تو ٹھیک سے اردو بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔
ٹھیک سات بجے تقریب شروع ہوئی۔ سٹیج پے رنگ برنگی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کو رشید بالکل ہیں جانتا تھا لیکن اس نے سحر کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وقت کے ساتھ تھوڑی سی تبدیلی آئی تھی لیکن مسکراہٹ بالکل ویسی ہی تھی۔
لوگ باری باری آکے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ کوئی انگریزی میں بولتا اور کوئی اطالوی میں۔ آخر میں سحر نے انگریزی میں مختصر سی تقریر کی۔ رشید کو صرف اتنا سمجھ آیا کہ سحر نے ا س کا نام لیا ہے۔
کتاب کے حوالے سے تقریب ختم ہوئی تو لوگ ایک ایک کرکے سحر کلہاروی کے پاس جانے لگے۔ وہ کتاب پے دستخط کرکے ان کے ہاتھ میں تھما دیتی۔ آخر میں رشید نے بھی کتاب پیش کی، سحر نے کتاب پے دستخط کیئے اور جیسے ہی کتا ب رشید کو واپس کرنے لگی تو اس کو غور سے دیکھا اور کہا، ’’رشید تم زندہ ہو‘‘۔
’’ہاں سحر بی بی میں زندہ ہوں‘‘۔
’’لیکن میرے چچا نے کہا تو کہا تھا کہ تم، او میں اب سمجھی‘‘
وہ رشید کو لے کر ایک طرف ہوگئی۔ پہلے رشید نے مختصر لفظوں میں اپنی رام کہانی سنائی اس کے بعد سحر کلہاروی نے گزرے ہوئے واقعات کا ذکر کیا۔
سحر نے رشید کا ہاتھ پکڑا اور سٹیج پے جاکے سب کوبتایا کہ میری اس کتاب کا انتساب اس شخص کے نام ہے۔ سب لوگوں نے کتاب کا وہ والا صفحہ دیکھا واقعی اس پے رشید عرف شیدا لکھا ہوا تھا۔ سحر نے اس کے بعد تمام تفصیل بتائی جو کہ انگریزی میں تھی۔
**********
اگلے دن اٹلی کے تمام اخباروں میں سحر اور رشید کی شادی کی خبر چھپی اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں کی داستانِ محبت بھی تفصیل سے چھپی۔ اسکے علاوہ ٹی وی پر ان کا انٹرویو دکھایا گیا۔ راجہ علم بردار یہ سب دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ اخبار والوں نے اس خبر کو خوب اچھالا ۔ سحر اور رشید عرف شیدا دونوں وی آئی پی بن گئے۔ چند دن اٹلی رہ کر سحر اور رشید آسٹریلیاء چلے گئے۔
*************
from 05/01/2008 to 25/01/2008
SARFRAZ BAIG baigsarfraz@hotmail.com
Arezzo, Italy.
؁ٗ ْ ْْْْْْْْْْْْْْ