Wednesday, April 13, 2011

DEHRIA (AHTEIST)

دہریہ

آج بڑی زوروں سے بارش ہورہی تھی۔ آسمان سے چھاجوں پانی برس رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا ،آج خدا نے سارے راولپنڈی کو نہلانا ہے۔ راولپنڈی چھوٹا سا شہر ہے ۔ اس کی دو بڑی سڑکیں ہیں۔ ایک تو مشہور و معروف مری روڈ ہے۔ مری روڈ چونکہ مری کی طرف جاتی ہے اس لیئے اس کا نام مری روڈ ہے یا شاید کسی انگریز کا نام مرے ہوگا تو اس کا نام بھی اسی مناسبت سے مری روڈ رکھ دیا گیا ہوگا۔اسلام آباد جانے کے لیئے بھی یہی سڑک فیض آباد تلک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مال روڈ ہے۔ جو کہیں پے مال روڈ ہے تو کہیں پے پشاور روڈ ہے، اور کہیں پے جی ٹی روڈ ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا مری روڈ کو کرنا پڑتا ہے
میں اور الہان جلدی جلدی کالج سے نکلے ، میں نے الہان سے کہا،
’’یار مجھے گھر تک چھوڑ دینا کیونکہ آج بڑی تیز بارش ہورہی ہے ۔اس لیئے میں اپنی موٹر بائیک کالج ہی چھوڑ جاؤنگا‘‘۔الہان نے کہا، ’’کوئی مسئلہ نہیں ۔اگر تم نہ بھی کہتے تو میں تمہیں یہی مشورہ دینے والا تھا‘‘
میں اور الہان آکرکے گاڑی میں بیٹھے تو الہان کہنے لگا،
’’یار تم کچھ پریشان لگ رہے ہو‘‘
’’ہاں پریشان ہوں‘‘
’’بارش کی وجہ سے‘‘
’’نہیں نہیں بارش کی وجہ سے نہیں‘‘
’’تو پھر‘‘
’’تمہیں پتا ہے پروفیسر میکائیل کافی دنوں سے کالج نہیں آرہے‘‘
’’ہاں لیکن شاید بیمار ہوں۔یا ہوسکتا ہے یورپ یا امریکہ کے ٹور پے ہوں۔ تمہیں تو پتا ہے وہ کالج میں کم ہی نظر آتے ہیں‘‘
’’ہاں ، لیکن میری پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ اب پڑھے لکھے لوگ تو یہ بات سن لیتے ہیں لیکن کم پڑے لکھے لوگ یا انتہا پسند تو ایسے لوگوں کو جان سے مار دیتے ہیں‘‘۔
’’لیکن پاکستان میں تو ایسے کئی لوگ ہیں جو خدا کے وجود کو نہیں مانتے۔ مشہور شاعر ن ۔م۔راشد دہریہ تھا‘‘
’’پہلے اور بات تھی ،اب اور بات ہے۔ہمار ے اذہان نے ترقی کرنے کے بجائے پستی کا سفر شروع کردیا ہے‘‘
’’کیا مطلب‘‘؟
’’مطلب یہ کہ پہلے پہل سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور حسن عسکری کے افسانے ناقابلِ برداشت ہوتے تھے لیکن اب ادبی فن پارے ہیں لیکن کوئی اس طرح کے افسانے آج لکھے تو ادب کا حصہ نہیں بن سکتے‘‘
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا‘‘
’’میں تمہیں سادہ لفظوں میں سمجھاتا ہوں۔ جب پاکستان بنا تھا تو برِصغیر پاک و ہند میں اردو اور ہندی میں ادب لکھا جاتا تھا۔اس وقت ادیب پاکستانی یا ہندوستانی نہیں تھے۔نہ کوئی یہ کہتا تھا کہ یہ مسلمان افسانہ نگارہے یا اردو زبان کا افسانہ نگار ہے۔بالکل اسی طرح کبھی کوئی نہیں کہتا یہ ہندؤافسانہ نگار ہے یا ہندی زبان کا افسانہ نگار ہے۔دلی ریڈیو سٹیشن پے منٹو اور کرشن چندر اکھٹے کام کرتے تھے۔دونوں ڈرامے لکھتے تھے۔ وہ وہاں پے ڈرامہ نگار کے طور پے کام کرتے تھے نہ کہ کسی مذھب یا ملک کی نمائندگی کرتے تھے۔
جب پاکستان بنا تو منٹو اردو زبان کا متنازعہ افسانہ نگار بن گیا۔ نہ صرف اردو کا بلکہ مسلمان افسانہ نگار بن گیا۔ وہ آزاد ملک میں غلام ادب کا افسانہ نگار بن گیا حالانکہ غلامی کے دنوں میں وہ آزاد افسانہ نگار تھا۔
۱۹۴۷ سے لے کر ۱۹۷۷ تک ادب نے ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اور جدید ادب نے جنم لیا۔ ادب آزاد پاکستان میں کبھی بھی آزاد نہیں تھا لیکن بڑی آہستگی پنپتا رہا۔ جب ضیاء صاحب کا مارشل لاء لگا تو ادب کا گلہ گھونٹ دیا اور گْھٹے گْھٹے ادب نے جنم لیا۔ ۱۹۷۷ سے ۱۹۸۷ تک کے دور کو میں بیمار ادب کا نام دیتا ہوں۔ ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۹ تک کے ادب کے سانس لینے کے لیئے تھوڑی سی کھڑکی کھولی گئی لیکن اس کے بعد پھر پابندی لگ گئی جو کہ اب تک ہے‘‘
ابھی وہ اس بحث و تمحیص میں مصروف تھے کہ ظہران کا گھر آگیا ۔ الہان نے گاڑی روکی اور ظہران کو کہا، ’’باقی ادبی موشگافیاں بعد میں زیرِ بحث لائی جائیں گی۔ اب آپ گھر تشریف لے جائیئے‘‘۔
’’تم گھر نہیں آؤ گے۔چائے پی کے جانا‘‘
’’تمہیں پتا ہے میرے والد صاحب پروفیسر ضرور ہیں لیکن بچوں کے معاملے میں پورے ہیڈماسٹر ہیں۔اس لیئے میں چلتا ہوں‘‘۔
*************
پروفیسر میکائل کا اور میرا تعلق بڑا گہرا ہے۔ میں انگریزی ادب کے فائنل ایئر میں ہوں اور پروفیسر میکائل کے ساتھ میرا دوسرا سال ہے۔ وہ ہمیں ایسّے(
essay) اور ناول پڑھاتے ہیں ڈرامہ، شارٹ سٹوری اور لٹریری کرٹیسزم (literary criticism)کی کلاس دیگر پروفیسر حضرات لیتے ہیں۔ ویسے تو ماسٹرز کی کلاسسز میں اساتذہ کم اور شاگرد زیادہ پڑھتے ہیں لیکن پروفیسر حضرات ، وہ طالب علم جو کہ سہی معنوں میں علم کے طالب ہوتے ہیں ان کی گرومنگ کرتے ہیں۔ پروفیسر میکائل واحد شخص ہیں جو طلباء و طالبات کو کالج کے علاوہ بھی لیکچر دیتے ہیں اوران کے بیان کرنے کا انداز بہت ہی اچھا ہے۔ویسے تو وہ انگریزی برٹش ایکسنٹ میں بولتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کو ان کا ایکسنٹ سمجھ نہیں آتا اس لیئے وہ پاکستانی ایکسنٹ میں بھی بات کرلیتے ہیں۔ میرا مطلب ہے انگریزی بولنے کا ایکسنٹ۔
ان کے بڑے بھائی پاکستان آرمی میں ہیں اور چھوٹے بھائی سی ایس پی افسر ہیں۔ پروفیسر میکائل نے انگریزی ادب میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور اس کے ساتھ ساتھ گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیئے انگلستان چلے گئے اور وہاں عصرِ حاضر کی ناول نگاری پے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد راولپنڈی کے مشہور کالج میں پڑھانے لگے۔ اب ان کی عمر پچپن سال ہے۔ میرا مطلب ہے وہ گزشتہ پچیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔
پروفیسر میکائل پی ایچ ڈی کے بعد بھی انگلستا ن جاتے رہے ہیں اور اب بھی جاتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو اپنی علمی پیاس بجھانا ہے اور دوسری وجہ وہاں پے علم و ادب کے متعلق مباحثوں میں شرکت کرنا ہے۔
لباس کے معاملے میں بڑے نفاست پسند ہیں۔ وہ اپنے لیئے انگلستان سے خاص طور پے اچھے اچھے سوٹ لاتے ہیں۔ ونہی سے ٹائیاں خریدتے ہیں اور جوتے وہ ہمیشہ اٹالین پہنتے ہیں۔ ان کے لباس کی تراش خراش دیکھ کر محمد علی جناح کی شخصیت ایک دم آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ارے میں یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ وہ دیکھنے میں کیسے ہیں۔
جب وہ جوان تھے یہ تو میں نہیں جانتا وہ کیسے تھے لیکن اب وہ کیسے ہیں یا دِکھتے ہیں یہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ رنگ ان کا گندمی ہے۔قد پانچ فٹ نو انچ یعنی نہ بہت چھوٹا قد ہیں نہ ہی بہت لمبے ہیں کہ لم ڈھینگ لگیں۔ ویسے تو پاکستان میں مردوں کا اوسط قد پانچ فٹ چھ انچ ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔
وہ شکل و صورت سے چاکلیٹ ہیرو لگتے ہیں۔ ناک تیکھا اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں ۔ ہونٹ ان متناسب ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو ہونٹ بہت بد نماں لگتے ہیں اس کی وجہ کثرت سے سگرٹ پینا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر میکائل انگریزی شراب بھی پیتے ہیں۔ویسے تو وہ سکاچ وہسکی پسند کرتے ہیں لیکن برانڈی اور کونیئک بھی استعمال کرتے ہیں۔بال ان کے گھنے اور کالے ہیں لیکن ان کے ماتھے پے ایک لِٹ سفید بالوں کی بھی لہراتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ لٹ ان کی پیدائشی ہے۔شروع شروع میں تو تمام طلباء اور طالبات یہی سمجھتے رہے کہ انہوں نے فیشن کے طور پے رنگ کیئے ہوئے ہیں۔وہ ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ میں گزشتہ پچیس سال سے سب سٹوڈنٹس کو یہی بتاتا آرہا ہوں کہ میری یہ سفید لِٹ پیدائشی ہے۔ وقت کے بڑے پابند ہیں ہمارے کالج کے پروفیسر میکائل واحد آدمی ہیں جن سے پرنسپل بھی ڈرتے ہیں۔ میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں اس لیئے میں ان کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہوں ۔ اور اسی کھوج میں لگا رہتا ہوں کہ مجھے ان کی پْراسرار شخصیت کے بارے میں کچھ نا کچھ پتا چلتا رہا کرے۔
*************
دو سال پہلے جب میں میری عمر
۱۹ سال تھی تو میں نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کا سوچا حالانکہ میرے والد صاحب کا خیال تھا کہ میں سی ایس ایس کروں لیکن وہ یہ سوچ کر کچھ نہ بولے کہ میں ماسٹرز کے بعد بھی سی ایس ایس کرسکتا ہوں۔
میں نے پابندی سے کالج جانا شروع کردیا۔ مجھے ایم اے کی تعلیم کا طریقہ کار بالکل پتا نہیں تھا۔ بس اتنا جانتا تھا کہ ایک ہی مضمون پڑھنا ہوگا۔ پھر آہستہ آہستہ پتا چلنا شروع ہوا کہ ناول کا پروفیسر علیحدہ ہوگاشارٹ سٹوری کا علیحدہ۔ڈرامے کا علیحدہ اور ایسے(
essay) کا علیحدہ۔ مجھے سب سے زیادہ مشکل لٹریری کرٹی سزم کی کلاس لگی۔ ایسا لگتا تھا الجبراء پڑھ رہا ہوں ابتدائی دنوں میں مجھے بالکل دلچسپی نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ میرے اندر ادب سے لگاؤ کی شمع روشن ہوئی اور پھر اس شمع نے میرے اندر روشنی کا نور ہی نور بکھیر دیا۔ ہماری کلاس میں لڑکیاں تو پابندی سے تمام پیریڈ اٹینڈکرتیں اور کالج بھی روز آیا کرتیں لیکن لڑکے کم ہی ایسا کرتے۔ میں اور الہان دو ایسے لڑکے تھے جو کم عمر بھی تھے اور کالج بھی پابندی سے آیا کرتے اور تمام کلاسسز بھی اٹینڈ کیا کرتے۔
ہمیں انگریزی ادب کی کلاسسز لگاتے ہوئے دو ما ہوچلے تھے ۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ ناول اور اَیسے کے پروفیسر میکائل صاحب ہونگے۔ وہ دو ماہ کے لیئے انگلستان گئے ہوئے تھے۔ اب وہ واپس آگئے ہیں اس لیئے وہ آپ پڑھایا کریں گے۔ ہم سب نے ان کا نام سنا ہوا تھالیکن کبھی دیکھا نہیں تھا۔ ہم نے سنا تھا کہ وہ لڑکیوں کی پسندیدہ شخصیت ہوا کرتے تھے اور ہیں۔ ان کے بارے میں ہم نے کئی سکینڈل سن رکھے تھے ۔سکینڈلز کی اصل وجہ یہ تھی وہ اب تک کنوارے تھے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔
*************
میں اور الہان پروفیسر میکائل کا بڑی شدت سے انتظار کررہے تھے۔ گو کہ ان کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ وقت تھم چکا ہے۔کلاس میں سناٹا تھا کیونکہ پروفیسر میکائل وقت کے بڑے پابند ے تھے۔ جیسے ہی ساڑھے دس بجے۔ برآمدوں میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ چند ساعتوں میں ایک شخصیت کمرے میں داخل ہوئی گہرے نیلے رنک کا سوٹ،ہلکی آسمانی قمیص اور دھاریدار ٹائی باندھی ہوئی تھی۔ قمیص کا کالر بڑی نفاست سے گردن کے اطراف میں بیٹھا ہوا تھا ورنہ بعض اشخاص ٹائی باندھتے ہیں تو کالر اور گردن کے درمیان وقفہ نظر آتاہے اور کئی دفعہ ناٹ والی جگہ سے کالر تھوڑا سا نیچے آجاتا ہے لیکن ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ پچھلے دو سالوں سے گلابی رنگ کی ٹائی اور اس کے ساتھ ساتھ لائنوں والی ٹائی بھی فیشن میں ہے۔ ان کی پتلوں کی کریس بڑی خوبصورتی کے ساتھ جوتوں تک آرہی تھی۔انہوں نے کالے رنگ کے تھوڑے نوکیلے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ا نہیں بروگ شوز بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک ہاتھ میں چند کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور دوسرے ہاتھ چاندی کی مْٹھ والی چھڑی تھی۔
انہوں نے سب سے پہلے اپنا فیلٹ ہیٹ اتارا اور کونے میں پڑے ہوئے سٹینڈ پے ٹانگ دیا اس کے بعد چھڑی بھی ایک کونے میں رکھ دی۔ کرسی کو ایک کونے میں کرکے ٹیبل کے سامنے آکے کھڑے ہوگئے۔مجھے ایک لمحے کے لیئے ایسا لگا جیسے کلِنٹ ایسٹ ووڈ (
clint eastwood)دوبارہ جوان ہوگیا ہو۔
ہم سب ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے ۔انہوں نے انگریزی زبان میں باآواز بلند کہا ، ’’میرے احترام میں کھڑے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ ہم سب ڈر کے مارے بیٹھ گئے۔
اس کے بعد جو بھی گفتگو ہوئی انگریزی میں ہوئی۔انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ کلاس میں اردو یا پنجابی میں کوئی گفتگو نہیں کرے گا۔ کلاس میں ہم تین طالب علم تھے جو انگریزی میں بات کرسکتے تھے۔ایک میں تھا، دوسرا الہان اور تیسری ایک لڑکی تھی عمارہ۔ عمارہ نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگوجزسے انگریزی زبان میں ایڈوانس ڈپلومہ کیا ہوا تھااس لیئے اس کی انگریزی بولنے کی استعداد بہت اچھی تھی جب کہ الہان نے اے لیولز بڑے اچھے گریڈز میں پاس کیا تھا اور اس کے علاوہ وہ بی اے میں انگریزی ادب پڑ چکا تھا۔ میں ا س لیئے انگریزی بول سکتا ہوں کیونکہ میرے گھر کا ماحول اس طرح کا ہے کہ جہاں ہم نے بچپن سے انگریزی بولنی سیکھی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے ادب سے گہرا لگاؤ بھی ہے۔ کلاس کے چند ایک اور طلباء بھی تھے جو تھوڑی بہت انگریزی زبان میں گفت و شنید کیا کرتے لیکن زیادہ تر اجتناب ہی فرماتے۔
جب پروفیسر میکائل نے یہ فرمان جاری کیا کہ کلاس میں کوئی بھی اردو یا پنجابی زبان نہیں بولے گا تو تو پوری کلاس میں خاموشی طاری ہوگئی
اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کروایا۔ پھر یہ بتایا کہ وہ ہمیں کس بارے میں پڑھائیں گے۔ پھر تمام طلباء و طالبات نے خود کو متعارف کروایا لیکن انہوں نے سختی سے منع کیا کہ کھڑ ے ہوکر کوئی نہیں بتائے گا اور نہ ہی کوئی ہاتھ کھڑا کرے گا۔ وقت کی پابندی کی تاکید کی اور ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر کوئی طالب علم کلا س شروع ہونے کے بعد تشریف لائے گا تو وہ باہر ہی کھڑا رہے گا۔ چھینکنے کی، بلاوجہ کھانسنے کی، کھجلی کرنے کی سخت ممانعت تھی۔ لباس کی تراش خراش پر زور دیا۔ اس کے علاوہ جو لڑکے شیو کرتے تھے ان سے کہا کہ اگر داڑھی رکھنی ہے تو صحیح طریقے سے داڑھی رکھنی ہوگی اگر نہیں ، تو شیو کرکے کے کلاس میں آنا ہوگا۔
پوری کلاس کو بڑی حیرت ہوئی کہ ایم اے کی کلاس اور اتنی سختیاں۔ انہوں نے یہ بات بھی تمام کلاس کو باور کرادی کہ وہ ان طلباء کو پڑھاتے ہیں جو علم حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں۔
اس کے بعد انہوں نے ایسے(
essay) کی تاریخ بتائی یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ پھر ناول کے بارے میں بتانا ہی شروع کیا تھا کہ ان کا پیریڈ ختم ہوگیا ۔ انہوں نے ہاتھ میں چھڑی تھامی،دوسرے ہاتھ میں کتابیں ۔جانے لگے تو پھر واپس آئے ،چھڑی ایک طرف رکھی اور سٹینڈ سے اپنا فیلٹ ہیٹ اٹھایا اور اس کو اپنے سر پے سجایا،پھر چھڑی اٹھائی اور چل دیئے۔
************
شروع شروع میں پروفیسر میکائل ہمیں بڑے بورنگ لگے لیکن آہستہ آہستہ ہمیں ان کی کلاس میں مزہ آنے لگا۔ ناول کے بارے میں ان کا علم سمندر کی طرح گہرا تھا۔وہ ناول لکھنے کے بارے میں کہتے کہ لکھنے والے کا انداز ایسا ہو کہ وہ اپنے انداز میں لکھتا چلا جائے اور یہ نہ سوچے کہ وہ گرامر کی غلطیاں کررہا ہے یا پنگچوئیشن کی پابندی نہیں کررہا۔ جیسا کہ بہت سے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ناول میں ایک عدد ہیرو ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایک عدد ہیروئن بھی ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ ایک اچھے ناول کی کامیابی کا راز اس کے پلاٹ پے ہوتا ہے ۔اس کے بعد منظر نگاری اور کردار نگاری آتی ہے۔ وہ جیمز جوئیس کے ناول یولیسسز(
uleyssis)کی مثال اکثر دیا کرتے کہ کس طرح جیمز جوئیس نے کسی چیز کی بھی پابندی نہ کرتے ہوئے ایک خوبصورت اور معنی خیز ناول لکھا۔ اس کو انگلستان میں چھپنے کی اجازت ۱۹۶۵ میں ملی۔اس سے پہلے یہ فرانس کے پبلشر اوبلیسک نے چھاپا تھا۔ نوبکوف کا ناول لولیٹا بھی کافی عرصہ متنازعہ رہا۔ اب تو اس ناول پے دو دفعہ فلم بھی بن چکی ہے۔ پروفیسر میکائل نے چند دنوں میں ہی یہ بات دریافت کرلی تھی کہ ظہران یعنی میں، الہان اور عمارہ ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں اس لیئے ان کی زیادہ تر توجہ ہماری طرف ہی ہوتی۔ مجھے وہ بہت پسند کرنے لگے تھے کیونکہ میں ان کے بتائے ہوئے ناول ضرور پڑھا کرتا ۔ کچھ تو وہ انگلستان سے لائے تھے اوراب بھی لاتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ بینک روڈ پے اتوار کے اتوار کتابوں پے لگنے والے سیل سے میں ڈھونڈ کرلایا کرتا۔ مجھے میلان کندیرا، پیٹر ہانڈکے اور پاؤلو کوئیلو نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اب انگلستان کے پبلشر انگریزوں کے لکھے ہوئے ناول کم اور غیر ملکیوں کے ناول (جو کہ انگریزی میں لکھے ہوئے ہوں)زیادہ شوق سے چھاپتے ہیں۔ اس میں انڈین پیش پیش ہیں۔ انہوں نے ہمیں کئی انڈین ناول نگاروں کے نام بتائے جن سے ہم ناواقف تھے۔ وہ کہتے ہیں عصرِ حاضر کے انگریزی ناول پے انڈین ناول نگار چھائے ہوئے ہیں۔جیسے کہ وکرم سیٹھ، روہنتن مستری، وکرم چندرہ، جھمپا لاہیری، بپسی سدھوا،انیتا ڈیسائی اس کے علاوہ بکرز انعام یافتہ ارہندتی رائے۔ ایک پاکستانی نژاد ناولسٹ بھی ہے حنیف قریشی جس کے ناولوں پے فلمز بھی بن چکی ہے۔ مائی سن دی فنیٹک ، اور مائی بیوٹی لانڈریٹ۔اس کے علاوہ کملہ شمسی کراچی کی لڑکی ہے جو انگلستان میں پیدا ہوئی ہے اس کے بھی دو عدد ناول چھپ چکے ہیں۔ آج کل وہ ایک افغانی نژاد ڈاکٹر کی کتاب پڑھ رہے تھے جو کہ کیلی فورینیا میں رہتا ہے ۔ وہ بتارہے تھے کہ خالد حسینی کی کتاب ، ’’دی کائٹ رنر‘‘ نے پوری دنیا میں دھوم مچادی ہے اور ڈریم ورکس فلم کمپنی نے اس پے فلم بنانے کے کاپی رائٹ بھی خرید لیئے ہیں۔ اس ناول پے تنقید کرتے ہوئے وہ ہمیں بتارہے تھے کہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد پوری دنیا والے یہی سوچتے ہوں گے افغانستان میں روسیوں کی آمد سے پہلے پتنگ بازی ان کے ہاں بہت بڑا تہوار ہوا کرتا تھا حالانکہ پتنگ بازی کا جتنا بڑا تہوار یا اجتماع لاہور میں ہوتا ہے دنیا میں کہیں نہیں ہوتا ہوگا لیکن کسی پاکستانی ناول نگار نے پتنگ بازی کو اپنے کسی افسانے یا ناول میں پینٹ نہیں کیا۔ وہ بتارہے تھے یہ ناول بہت آسان اور عام فہم ہے اس لیئے یہ پوری دنیا میں اتنا مقبول ہوا ہے کہ اس کے چالیس زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ وہ ہمیں بتا رہے تھے
کہ اس دفعہ جب میں انگلستان گیا تو جہاں سے بھی گزروں وہاں خالد حسینی کا قدآدم پوسٹر لگا ہوا ہوتا تھا اور اس کے ساتھ جلی حروف میں اس کی تعریف و توصیف لکھی ہوتی تھی۔ پہلے میں نے سوچا یہ ناول نہیں پڑھوں گا شاید مجھے تھوڑی بہت جلن ہورہی تھی لیکن میں جب بھی خالد حسینی کے پوسٹر کی طرف دیکھا کرتا، مجھے ایسا لگتا جیسے کہہ رہا ہو، یار پڑھ لو میں تمہارا ہمسایہ ہوں گو کہ ہمارے تعلقات اتنے اچھے نہیں۔ اس میں تمہارے ملک کا بھی ذکر کیا۔ آخر کار میں نے خرید لیا اور اس کو پڑھ رہا ہوں۔
**********
رفتہ رفتہ پروفیسر میکائل سے الہان کا تعلق کم ہوتا گیا۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اتنی تھی کہ الہان مذھب کی طرف مائل تھا اور اس کے گھر والے راسخ العقیدہ وہابی تھے۔ اس کو ہم کبھی کبھی طالبان کا نمائندہ بھی کہا کرتے مگر وہ ہماری بات کا برا نہ منایا کرتا لیکن پروفیسر میکائل کے خیالات سے وہ اتفاق نہیں کرتا تھا۔ میرے اور عمارہ کے والدین بھی راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں لیکن ہم دونوں تھوڑے لبرل ہیں۔ میرے گھروالے مجھ سے تھوڑے نالاں و برہم رہتے ہیں کیونکہ میں نماز پابندی سے نہیں پڑھتا۔عید الفطر اور عید الضحیٰ پے کبھی کبھی نماز پڑھ لیا کرتا ہوں۔روزے رکھتا ہوں لیکن ایسے جیسے خود کو سزا دے رہا ہوں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ خود کو بھوکا پیاسہ رکھتا ہوں۔ سحری کے وقت سحری کرلی ور افطار کے وقت افطاری کرلی۔ ویسے بھی کلاس کے تمام لڑکے ،لڑکیاں یہی سمجھتے ہیں کہ میں بھی مستقبل میں پروفیسر میکائل بنوں گا۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں اس حد تک اور اتنا آگے نہیں جا سکتا۔ الہان کے والد صاحب اسلامک یونیورسٹی میں اسلامک شریعہ اور فقہ پڑھاتے ہیں اور امی بھی لڑکیوں کے سکول کی پرنسپل ہیں۔ ان کا گھرانہ بڑا مذہبی اور تعلیمی قسم کا ہے۔ جبکہ میرا گھرانہ بھی مذہبی قسم کا ہے لیکن میرے والد صاحب نے مجھے کبھی بھی زور نہیں دیا کہ بیٹا نماز پڑھا کرو یا فلاں کام کیا کرو۔ میرے والد صاحب بس ایک ہی بات کرتے ہیں کہ تمہاری ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے یہی سب سے بڑا مذہب ہے اور میں اس بات پے بڑی پابندی سے عمل کرتاہوں۔
اب آتے ہیں پروفیسر میکائل کی طرف کہ وہ کیسے ہیں۔ چونکہ ہمیں ان کے ساتھ یا ان کی کلاس میں پڑھتے ہوئے سال ہو چلا ہے اس لیئے میں ان کے بارے میں زیادہ جاننے لگ گیا ہوں۔ سب سے پہلے بات آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ پروفیسر میکائل خدا کے وجود سے بالکل انکار کرتے ہیں اور تمام مذاہب عالم اور مذہبی کتابوں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت کے بارے ایک بری بات بھی مشہور ہے وہ یہ کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔ اس لیئے وہ شادی نہیں کرتے ۔وہ خاص طور پہ جوان، خوبصورت اور صحت مند بندے پسند کرتے ہیں۔
میرا اسلام کے بارے میں علم واجبی سا تھا لیکن ان کے ساتھ بحث و تمحیص کے بعد میں نے اسلام کے متعلق کتابیں پڑھنی شروع کردیں۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے عمران خان نے ایک دفعہ کہا تھا ، ’’ہم نے مذھب کا ٹھیکہ مولویوں کو دے رکھا ہے ۔ہم خود مذہب کے بارے میں کچھ نہیں پڑھتے‘‘۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں جانیں۔ جس طرح ہم فزکس ،کیمسٹری یا ریاضی پڑھتے ہیں۔
ایک دفعہ میں نے پروفیسر میکائل سے پوچھا کہ حضرت ابراھیم ؑ کے والد آذر بت تراشہ کرتے تھے ۔ ایک دن حضرت ابراھیمؑ نے بت خانے میں جاکے سارے بت توڑ دیئے اور کلہاڑہ یا جس چیز سے بھی انہوں نے بت توڑے تھے وہ انہوں نے بڑے بت کے کندھے پے رکھ دیا ۔جب ان کے والد صاحب نے پوچھا بیٹا یہ بت کس نے توڑے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بڑے بت نے یہ سارے بت توڑے ہیں۔ تو حضرت ابراھیمؑ کے والد صاحب نے جواب دیا ، بیٹا یہ تو پتھر کا بت ہے یہ کیسے تمام بت توڑ سکتا ہے ۔ حضرت ابراھیمؑ نے اپنے والد صاحب سے کہا، کہ جو بت اپنی حفاظت نہیں کرسکتے آپ ان کی پوجا کیوں کرتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔انہوں نے کہا ،’’تمام الہامی کتابوں میں اس قصے کا ذکر آیا ہے۔ تمہیں پتاہے جب حضرت ابراھیمؑ نے اپنے والد صاحب کو کہا کہ یہ بت بڑے بت نے توڑے ہیں تو انہیں کیا جواب دینا چاہیئے تھا‘‘۔ میں نے کہا، ’’نہیں‘‘۔ ’’آذر کو دوسرے دن کا انتظار کرنا چاہیئے تھا اور تمام بت دوبارہ جوڑ کے پھر اپنے بیٹے کو بلاتا اور کہا، بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو پتھر کے بت چل پھر نہیں سکتے۔ انہیں کل رات تمہارے نظر نہ آنے والے خدا نے دوبار جوڑ دیا ہے۔ تو حضرت ابراھیمؑ کہتے ، آپ کو کیسے پتا ہے کہ یہ بت خدا نے جوڑے ہیں ۔تو وہ کہتے ،اس لیئے کیونکہ وہ نظر نہیں آتا۔میں ان کی دلیل پے کئی دن تک سوچتا رہا اور آخرکار اس نتیجے پے پہنچاکہ پروفیسر میکائل چونکہ شراب بہت پیتے ہیں اس لیئے بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ میں ان کو اکثر آزماتا رہتا تھا کہ شاید وہ اسلام کی طرف واپس آجائیں لیکن وہ مجھے ہمیشہ لاجواب کردیا کرتے۔
ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ اسلام میں عورت کو چار شادیوں کی اجازت کیوں نہیں مرد کیوں چار شادیاں کرسکتا ہے۔ اس کا جواب وہ دیا کرتے کہ مذہب انسان کی تخلیق ہے۔ تمام پیغمبر مرد ہیں ۔ اس لیئے انہوں نے مذہب کو اس انداز سے پیش کیا ہے جس میں مردوں کو فائدہ ہے نہ کہ عورتوں کو۔ حالانکہ عورت مرد سے کسی طرح بھی کم نہیں ۔مردوں اور عورتوں کے دماغ میں سوچنے کے جو سیلز ہوتے ہیں جنہیں نیرونز(
neurons) کہتے ہیں برابر ہوتے ہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ یہی سوال ایک دفعہ امام ابو حنیفہ سے کیا گیا تھا ۔ چند عورتیں ان کے پاس گئیں اور ان سے سوال کیا کہ ہمیں چار مردوں سے شادی کی اجازت کیوں نہیں۔ تو انہوں نے کہا، کہ اس سے نسل کا پتا نہیں چلتا کہ پیدا ہونے والا بچہ کس کا ہوگا۔ انہوں نے تمام عورتوں سے کہا کہ پیالوں میں رنگ لائیں۔ سب عورتیں اپنے اپنے پیالوں میں مختلف رنگ لائیں(اس بارے میں کئی روایات ہیں۔کہیں لکھا ہے رنگ لائیں اور کہیں لکھا ہے دودھ لائیں)اوراس کے بعد انہوں نے کہا یہ تمام رنگ (یا دودھ) ایک بڑے پیالے میں ڈال دو۔ تو ان تمام عورتوں نے ایسا ہی کیا۔آخر میں انہوں نے کہا کہ اب اپنا اپنا رنگ نکال لو۔ اب عورتیں عجیب مخمصے میں پڑگئیں کہ اپنا اپنا رنگ کیسے نکالیں۔تو پھر امام ابو حنیفہ نے کہا، بالکل اسی طرح مردوں کا معاملہ ہے آپ کس مرد کو کہیں گی کہ یہ بچہ تمہارا ہے۔ اس طرح تو چاروں خاوندوں میں جھگڑا ہوجائے گا۔ پروفیسر میکائل میری تمام کہانی بڑے غور سے سنتے رہے ۔جب میں نے کہانی ختم کی تو انہوں صرف اتنا کہا کہ جب امام ابو حنیفہ نے یہ کہانی بیان کی تھی یا یہ دلیل پیش کی تھی اس وقت تک ڈی این اے دریافت نہیں ہوا تھااس لیئے عورتیں چا ر شادیاں کرسکتی ہیں ۔ ایک وقت میں چار خاوند رکھ سکتی ہیں۔ جب بچے کی پیدائش کا وقت آئے گا،یہ مسئلہ پیش آئے گا۔بچے کا اور ان چاروں اشخاص کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا تو فوراًپتا چل جائے گا کہ اس بچے کا باپ کون ہے۔ انہوں نے کہا یہ بات درست ہے کہ چار مرد ایک رنڈی کے ساتھ باری باری جنسی تلذز حاصل کرسکتے ہیں ۔ جس طرح ہمارے ہاں اکثر ہوتا۔ لڑکی رات کے لیئے لائی جاتی ہے۔ لڑکے بڑے ادب و احترام سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس چار مردوں کی ایک بیوی ہو تو تو ان میں لڑائی ہوجائے گی۔ جو طاقتور ہوگا وہی جیتے گا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کسی کو بھی اپنی بیوی کے پس جانے کا موقع نہ ملے۔ مرد کی چار بیویاں ہوسکتی اس لیئے اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ۔اس کی وجہ صرف اور صرف اتنی کہ عورت کی بچپن سے برین واشنگ کردی جاتی ہے کہ تم مرد سے کم تر ورنہ کوئی بھی عورت اپنی جگہ دوسری عورت کو برداشت نہیں کرسکتی۔ میں ان کی باتیں سن کر بغلیں جھانکنے لگتا۔
************
وقت اسی طرح گزرتا رہا اور ایک دن بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں نے دیکھا ہماری میرا مطلب ہے میری آگے والی بینچ پے جہاں عمارہ بیٹھا کرتی تھی وہاں ایک اور لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ۔ مجھے بڑا غصہ آیا ۔میں نے الہان کو کہا، ’’یار یہ کہا ں سے نئی مخلوق آگئی ہے‘‘۔ اس نے غصے سے کہا، ’’تم پے بھی پروفیسر میکائل کا کچھ زیادہ ہی اثر ہوگیا ہے۔ عجیب مخلوق نہیں ۔اسلام کی پابندی کررہی ہے۔ حجاب اوڑھا ہوا ہے۔ نامحرموں کو اپنا چہرہ دکھانا کوئی اچھی بات تو نہیں۔اسلام میں اس کی ممانعت ہے‘‘۔ میں اس کا جواب سن کر خاموش ہوگیا کیونکہ اگر مزید سوال کرتا تو اسلام اور کفر کی ایک لمبی چوڑی بحث شروع ہوجاتی۔ مجھے الہان پے بھی بڑا غصہ آیا ۔اچھا خاصہ سیدھا سادہ اور سمجھدار لڑکا تھا مذہب کے معاملے میں انتہا پسند ہوگیا تھا۔
ابھی میں اپنے دماغ کے نہاں خانوں میں اس لڑکی کے متعلق گْتھیاں سلجھا رہا تھا کہ پروفیسر میکائل کلاس روم میں وارد ہوئے۔ آتے ہی انہوں نے سکارف والی لڑکی کو مخاطب کرکے کہا، ’’عمارہ تمہیں کیا ہوگیا ہے‘‘۔ اس نے جواب دیا، ’’سر میں نے عورتوں کی ایک مذہبی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کرلی ہے‘‘۔ اس کا جواب سن کر وہ بالکل خاموش ہوگئے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ میری کلاس کے طالب علم بھلے ہی انگریزی ادب میں ماسٹرز کررہے ہیں لیکن اگر میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش تو ان میں سے کئی ایک ایسے بھی ہوں گے جو مجھے قتل کرکے ثواب کمائیں گے اور خود جنت کو تحفے میں پائیں گے۔ پوری کلاس میں ایک ظہران تھا جس پے ان کو اعتماد تھا کہ اس کی ذات مجھے کوئی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے لیکچر شروع کیا،
’’آج کا موضوع ناول اور مزاح نگاری ہے ۔ ہمارے ہاں مزاح کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔آج کل پاکستان کیا ہندوستان بھی بھونڈے مزاح کا شکار ہے ۔مزاح کا تخلیق کرنا بہت مشکل ہے اور آجکل اس کی بہت ضرورت ہے۔
پاکستان میں جب مزاح کی بات آتی ہے تو پطرس بخاری کا ذکر ضرور آتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی انہوں نے مزاح لکھنا جیروم کے جیروم اورپی جی ووڈہاوس سے سیکھا۔ چونکہ لوگوں تک ان کی کتابیں بہت دیر تک پہنچیں اس لیئے لوگ اس بات سے نابلد و ناواقف ہیں پطرس کا مزاح کیسے وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ ابنِ انشاء کا مزاح بہت اچھا تھا۔
مزاح تو ہمارے سٹیج ڈراموں والے بھی تخلیق کرتے ہیں لیکن ان کے مزاح کا معیار اور ہے۔ جس طرح کے ڈرامے یہ لوگ پیش کرتے ہیں بالکل اس ڈگر پے چلتے ہوئے مزاحیہ ڈرامے اٹلی کے شہر ناپولی(نیپلز) میں بھی دکھائے جاتے ہیں اور سکاٹ لینڈ کے کئی شہروں میں بھی دکھائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کا مزاح بڑا عامیانہ ہوتا ہے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے بولنا بند کردیا۔ ہم کچھ دیر تو انتظار کرتے رہے پھر میں نے پوچھا،’’آج آپ نے لیکچر دینا کیوں چھوڑ دیا‘‘۔ تو کہنے لگے، ’’آج میرا مزاج تھوڑا ٹھیک نہیں‘‘۔
*************
میں اور پروفیسر میکائل کبھی کبھی کسی ناکسی ریسٹورنٹ میں بھی مل لیا کرتے اور میں ان کے گھر بھی آنے جانے لگا تھا۔ہمارا تعلق استاد ،شاگرد والا کم اور دوستی کا رشتہ زیادہ ہوگیا تھا۔ وہ سنوکر کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے گھر کے تہہ خانے میں سنوکر روم تھا یہیں ان کی بار بھی تھی۔ جہاں طرح طرح کی شراب پڑی ہوئی تھی۔ میں ان کے ساتھ سنوکر تو ضرور کھیلا کرتا لیکن شراب نوشی کبھی نہ کی۔ نہ ہی انہوں نے کبھی مجھے مجبور کیا کہ شراب پیوء۔ہمارے درمیان بیشمار موضوعات پے بات چیت ہوا کرتی۔
میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا ،’’میکائل آپ ہم جنس پرست ہیں ‘‘۔ تو کہنے لگے،’’تم مجھے کتنے عرصے سے جانتے ہو۔میرے گھر بھی آتے ہو۔ میں نے تمہارے ساتھ کبھی ایسا رویہ اختیار کیا ہے جس سے تمہیں لگے کہ میں ہم جنس پرست ہوں‘‘۔ میں نے کہا، ’’تو پھر لوگ‘‘۔ انہوں نے جواب دیا، ’’تو پھر لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ بائیلوجیکلی دنیا کے تمام مرد اور عورتیں، مردعورت،عورت مرد، عورت عورت، مرد مرد ایک دوسرے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ چیز ہمارے جینز میں ہوتی ہے۔ کوئی مرد کسی دوسرے مرد کی مردانہ وجاہت کو اگر پسند کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہم جنس پرست ہے ۔ مردوں کو کئی لڑکیاں پسند آتی ہیں۔اور عورتوں کو کئی مرد پسند آتے ہیں بالکل اسی طرح لڑکیوں کو یا عورتوں کو دوسری لڑکیاں یا دوسری عورتیں پسند آتی ہیں۔کئی لڑکوں کو یا مردوں دوسرے لڑکے یا مرد پسند آجاتے ہیں۔ یہ چیز عین فطری عمل ہے نہ کہ غیر فطری عمل ہے۔ چمپینزی بھی ہم جنس پرست ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس گوریلہ بھی پولیگیمسٹ(ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے ولا)ہوتا ہے۔ میں چونکہ ایوولوشن پے اعتقاد رکھتا ہوں اس لیئے میرے نزدیک یہ چیز معیوب نہیں جبکہ جو لوگ تخلیق پے اعتقاد رکھتے ہیں ان کے نزدیک یہ چیز بری ہے۔بات صرف اور صرف نظریئے کی ہے۔
تمہیں پتا ہے کہ صوبہ سرحد کے ایک شہر بنومیں لوگ باقاعدہ اپنے ساتھ ایک لڑکا رکھتے ہیں۔پشاور یا سرحد کے لو گ بدنام ہیں ورنہ ایسا پورے پاکستان میں ہوتا ہے۔ تم مدرسوں کو دیکھ لو وہاں ہم جنس پرستی نہیں۔ حتیٰ کہ تبلیغی جماعت میں بھی اس کا وجود ہے۔ عام سی بات ہے مردوں کے تخلیق کیئے ہوئے معاشرے میں جہاں عورت کو سات پردوں میں چھپا کے رکھا جاتا ہے ۔ جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے ملنے پے پابندی ہے وہاں ہم جنس پرستی ہی پروان چڑھے گی۔ اب عمارہ کو ہی دیکھ لو ۔ جس اسلامک اکیڈمی میں وہ پڑھنے جاتی ہے۔ وہاں ساری پڑھی لکھی اور امیر گھروں کی لڑکیاں جاتی ہیں۔ تمہارا کیاخیال ہے اتنے ساری لڑکیاں جو کہ زیادہ ترخوبصورت اور جوان ہوتی ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتی ہوں گی۔اس طرح لڑکیوں کے اندر اپنی ہم جنس کی کشش زیادہ بڑھ جاتی ہے‘‘۔
**********
آج کلاس میں جب پروفیسر میکائل داخل ہوئے تو بڑے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ جب وہ خوش ہوں تو ان کے چہرے پے مسکراہٹ کی اِک عجیب سی چمک ہوتی۔ جن ہونٹوں کو بھینچے رکھتے یا کبھی کبھی سْکیڑ لیا کرتے وہ لمبے پھیل جایا کرتے۔ جسے ہم کہتے ہیں بھاچھیں کِھل گئیں۔ میں نے کہا، ’’میکائل آپ بڑے خوش لگ رہے ہیں‘‘۔ اب آپ کو حیرت ہورہی ہوگی کہ میں انہیں سر یا صاحب کیوں نہیں کہتا تو اس کی وجہ صرف اور صرف اتنی ہے کہ پروفیسر میکائل کا فلسفہ ہے کہ انسان کو اس کے نام کے ساتھ پکارنا چاہیئے کیونکہ سر یا پروفیسر کوئی نام تو نہیں۔ اس لیئے سب انہیں میکائل ہی کہہ کر پکارتے ہیں اس کے ساتھ صاحب کی اضافت نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا، ’’ظہران آجکل جہاں ہر طرف غم و افسردگی کے بادل چاہے ہوئے ہیں وہاں ایک خوشی کی خبر ہے کہ اس دفعہ ادب کا نوبل انعام ایک ترکی کے ناول نگار کو ملا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے مصری ناول نگار نقیب محفوظ کے بعد ترکی کا اورہان پاموک دوسرا مسلمان شخص ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے‘‘۔ الہان نے کہا، ’’لیکن میکائل نقیب محفوظ کو تو مصر میں بالکل پسند نہیں کیا جاتا‘‘۔ ’’تمہاری بات درست ہے کہ ان کے مذہبی نظریات تھوڑے مختلف ہیں لیکن انعام انہیں ادب کی خدمات کے صلے میں ملا ہے نہ کہ مذہبی خیالات کی وجہ سے‘‘۔ عمارہ نے پوچھا، ’’میکائل یہ اورہان پاموک کون ہیں‘‘۔ ’’یہ ترکی کے ناول نگار ہیں اور ترکش زبان میں لکھتے ہیں لیکن یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ان کی تمام ادبی فن پاروں کے انگریزی میں تراجم ہوچکے ہیں‘‘۔ الہان نے کہا، ’’میکائل ادب کا نوبل انعام دینے والے کافر ہیں اس لیئے اس بات سے اتنا مرعوب نہیں ہونا چاہیئے‘‘۔ پروفیسر میکائل گرج کر بولے، ’’الہان تمہیں پتا ہے کافر کی تعریف کیا ہوتی ہے۔ وہ شخص جو خدا کے وجود سے انکار کرے اور تمہاری اطلاع کے لیئے اتنا کافی ہے کہ ہر وہ شخص جو خدا کے وجود کو مانتا ہوں خواہ وہ کسی بھی رنگ میں ہو،کسی بھی ملک کا ہویا کسی بھی زبان میں ہو وہ کافر نہیں ہوتا۔ اور ویسے بھی ادب تمام مذہبی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتااس کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔جب سے دنیا وجود میں آئی ہے قصہ گوئی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ یہ مذہبی انتہا پسندوں کے سمجھنے کی چیزنہیں۔ ایک اور بات بڑی اچھی طرح اپنے پلے باندھ لو سب سے بڑا قصہ گو خود خدا ہے۔ تمام الہامی کتابوں میں بیشمار ایسے قصے ہیں جو نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ ان میں ادبی چاشنی بھی ہے‘‘۔ ظہران نے پروفیسر میکائل کا غصہ کم کرنے کے لیئے کہا، ’’اور ویسے بھی ہم یہاں مذاہبِ عالم پڑھنے نہیں آتے بلکہ انگریزی ادب پڑھنے آتے ہیں‘‘۔میرے اس جملے کے ساتھ کلاس برخاست کردی گئی۔
***************
میں اس بات سے واقف تھا کہ پرفیسر میکائل کئی دنوں مضمحل و مضطرب ہیں۔ اورہان پاموک کو ادب کا نوبل انعام ملنا ان کے چہرے پے تھوڑی سی خوشی لایا تھا لیکن الہان کے ایک چھوٹے سے جملے نے ان کی ساری خوشی کو مکدر کردی تھی۔اس لیئے میں نے سوچا آج پروفیسر میکائل سے ضرور ملنا چاہیئے ۔ میں نے ان کے موبائیل نمبر پے رنگ کیا تو کہنے لگے، ’’گھر آجاؤ‘‘۔ میں نے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ راولپنڈی ریس کورس گراؤنڈ کی پچھلی طرف بے شمار جدید طرز کی کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں۔ انہی کوٹھیوں میں ایک کوٹھی پروفیسر میکائل کی بھی ہے۔ اس کی بیسمنٹ میں بار اور سنوکرکھیلنے کا انتظام ہے۔ آج جب میں پہنچا تو وہ اپنے ڈارئینگ روم سے ملحق چھوٹی سی لائیبریری میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مین جب وارد ہوا کہنے لگے ،’’آؤ ظہران ڈرائینگ روم میں چلتے ہیں وہاں گپ شپ لگائیں گے‘‘۔ میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔ اس طرح ہم دونوں اٹھ کے ڈرائینگ روم میں آگئے۔ گفتگو کا آغاز میں کیا، ’’میکائل آج کل آپ بڑے پریشان ہیں اس کی کیا وجہ ہے‘‘۔ تو انہوں نے کہا ، ’’تم اچھی طرح جانتے ہو میری پریشانی کی جہ کیا ہے۔ اتنے اچھے ،سمجھدار اور ہونہار طالب علم ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں دہریہ ہوں لیکن میں نے اسلام کے خلاف آج تک کوئی بات نہیں کی۔نہ ہی کسی کو کبھی اسلام کے راستے پے چلنے سے منع کیا ہے۔ الہان اور عمارہ تو انتہاپسندی کی حد تک مذہب کی طرف مائل ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ میں نے ان کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا، ’’میکائل تھوڑے دنوں کا بخار ہے اتر جائے گا‘‘۔ تو پروفیسر میکائل نے کہا، ’’یہ بخار نہیں ،ناسور بن جائے گا۔جب سے امریکہ میں ٹون ٹاورز گرے ہیں ایک طرف تو پوری دنیا مسلمانوں کے خلاف ہوگئی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے‘‘۔ ’میکائل یہ سب کیا ہے۔ اسامہ بن لادن ایک آئیکون کیوں بن گیا ہے۔اس کی صحیح کہانی کیا ہے‘‘۔ ’’ظہران شروع سے شروع کرتے ہیں۔ اسامہ بن لادن بہت پڑھا لکھا آدمی ہے۔ امریکن سی آئی اے کے لیئے کام کرتا تھا۔ اس کی علاوہ اس کی لادن کنسٹرکشن کمپنی ہے۔ جب روس نے افغانستان پے حملہ کیا تو ویتنام کی جنگ ہارنے کا امریکہ کو بڑا دکھ تھا۔ انہوں نے روسی فوجوں کو شکست دینے کے لیئے افغان مجاہدین کو ٹریننگ دینے کے لیئے پاکستانی کی مدد لی ۔ جس کے لیئے وہ ضیاء الحق کو پہلے سے تیار کرچکے تھے۔ یہ ساری جنگی مشقیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں کی جاتی جس میں بلوچستان کا علاقہ وزیرستان اور سرحد کا علاقہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ جنتے بھی افغان فوجیوں کو ٹریننگ دی جاتی رہی ہے وہ فوجی یا مجاہدین افغانی نہیں بلکہ پاکستانی تھے۔ ان کی کمانڈ پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس دوران امریکہ کی سی آئی اے پاکستان میں کتوں کی طرح گھومتی تھی۔ انہیں پتا تھا بلکہ ہمارے ملک کے فوجی خود جاکے ان کو بتاتے ہیں کہ سب سے اچھے مجاہدین مدرسوں میں ملتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کو روٹی ،پہنے کو کپڑا اور رہنے کو جگہ نہیں ہوتی ۔وہ اسلام کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک باشعور شخص جس کا گلبرگ میں گھر ہویا اسلام آباد میں کھوٹی ہو وہ افغانستان جاکے جنگ تو نہیں کرے گا۔ امریکہ نے ضیاء الحق کو کہا تم پاکستانیوں کو اسلام کا ٹیکہ لگاؤ۔ اس لیئے وہ کبھی بائیسکل پے کبھی پیدل مختلف مسجدوں میں نماز پڑھنے جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں سادہ لباس میں سکیورٹی والے ہوتے۔زیادہ تر نمازی بھی وہی ہوتے۔ افغانستان میں لڑنے والے اگر سارے نہیں تو نوے فیصد فوجی پاکستانی تھے۔ ان کو مجاہدین کا نام دیا گیا۔ اب طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جیسے ہی افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلاء ہوا مجاہدین میں اور دوسرے متحارب گروپوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اب افغانستان میں تیل کے خزانے تو ہے نہیں کہ امریکہ وہاں آتا۔ انہوں نے سب سے پہلے ضیاء باوے کو مروایا حالانکہ وہ اپنے ساتھ دو بڑے جرنیل اور امریکہ کے خاص بندے بھی لے کر چلا تھا۔ لیکن بیگ صاحب نے سارا انتظام کیا ہوا تھا۔ اس لیئے وہ ان کے ساتھ اس جہاز میں نہ آئے ورنہ اس جہازسے بیگ صاحب کو بھی واپس آنا تھا۔ اسامہ بن لادن پہلے امریکہ کے بتائے ہوئے پروگرام کے مطابق چلتا رہا۔ اْسے جیسے ہی ان کے اصل عزائم کا پتا چلا وہ ان سے علیحدہ ہوگیا۔ یہ میرا اپنا خیال ہے کہ امریکہ کی اس ساری حکمت عملی میں کسی خاص لابی کا ہاتھ ہے۔ جو دنیا میں امن نہیں دیکھ سکتی۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اس سارے کام کے پیچھے یہودی ہیں جو اس دنیا میں امن نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
’’میکائل میرا کونسیپٹ کلیئر نہیں ہوا‘‘۔ ’’ظہران میرا خیال تھا تمہیں اشارے کنائے سے بات سمجھ جاؤ گے۔ لیکن میری اس لمبی چوڑی گفتگو کا تم کوئی نتیجہ نہ نکال سکے۔ خیر! اگر تم جغرافیائی نقطہء نگاہ سے افغانستان کو دیکھو تو اس کے ایک طرف پاکستان ہے اور اس کے ہمسائے میں انڈیاء اور چین بھی ہیں۔ ایک طرف روس ہے اور ایک طرف ایران ہے۔ جہاں پے کیسپیئن لیک ہے۔ افغانستان واحد ملک ہے جہاں پے رہ کر آپ تمام سپر طاقتوں کی نقل و حمل پے نظر رکھ سکتے ہیں اور وقت آنے پر کسی بھی ملک کے لیئے جنگی مشقیں کرسکتے ہیں۔ امریکہ کیا پوری دنیا جانتی ہے اس وقت دنیا کی سب سے طاقت ور چیزتیل ہے ۔اس کوحاصل کرنے کے لیئے وہ کسی ایسے ملک میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں وہ اپنا کام آسانی سے کر سکتے تھے۔ پرانے وقتوں میں کسی ملک پے حملہ کرنے کے لیئے نہ تو اجازت چاہیئے ہوتی تھی اور نہ ہی کسی سے پوچھا جاتا تھا۔ چھوٹی موٹی وجہ کو سامنے رکھ کے فوجیں نکل کھڑی ہوتی تھیں۔ اب صورت حال مختلف ہے۔امریکہ کو افغانستان میں داخل ہونے کے لیئے کوئی نا کوئی ایسی وجہ چاہیئے تھی جس کو وہ بنیاد بنا کر افغانستان میں داخل ہوتا۔ اس کے لیئے اسامہ بن لادن سے بہتر آدمی کون تھا۔ امریکہ میں ٹون ٹاورز گر گئے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ لیکن اس حادثے میں چار ہزار لوگ اس دن کام پر نہ گئے۔ وہ اس بات سے واقف تھے اس تاریخ کو یہ عمارت گر جائے گی۔ یہ بات میں اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا بلکہ ایک فرینچ اخبار نے انشورنس کمپنی کے کلیمز کی بنیادپر تمام لوگوں کی مکمل رپورٹ اپنے اخبار میں چھاپی لیکن ان کو پیسے دے دلا کے چپ کرادیا گیا۔ اب الزام اسامہ بن لادن اور مسلمانوں کے سر تھوپ دیا گیا۔ آج کے دور میں کسی بھی ملک کا پاسپورٹ کسی بھی نام کے ساتھ بنایا جاسکتا ہے ۔اس لیئے امریکہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسے لوگوں کی فہرست تیار کی جن کے نام مسلمانوں والے تھے۔اس بات کو وجہ بنا کر اور پوری دنیا کے الیکٹرونک میڈیاء کی مدد سے سب کو یہ باور کرادیا کہ اس سارے واقعے کے پیچھے اسامہ بن لادن کا ہاتھ ہے ۔ اس لیئے ہم اسے افغانستان ڈھونڈنے جارہے ہیں۔ سب نے ہاں میں ہاں ملادی کیونکہ سب ملکوں کے مفادات امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی عرب کا رہنے والا ہے اور وہ اسے افغانستا میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ طالبان کو ڈھونڈنے کے لیئے پاکستان کی حکومت پر بھی زور دیتے ہیں‘‘۔
’’لیکن میکائل امریکہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے افغانستان آیا ہے تو عراق کے ساتھ اس بات کا کیا تعلق ہے‘‘۔ ’’تعلق ہے۔ اس کی فوجیں پہلے سے افغانستان میں موجود تھیں۔ اب انہیں عراق میں داخل ہونے کے لیئے کسی وجہ کی تلاش تھی۔ جو کہ انہیں تیار کردہ ڈکٹیٹر صدام حسین نے انہیں فراہم کردی۔ جب ٹون ٹاورز گرے تو اس کے کچھ عرصے بعد امریکہ سے جاری ہونے والے میگزین ، دی ٹائمز میں ایک مضمون پڑھا تھا ور پڑھنے کے بعد میں سمجھ یا تھا کہ اب امریکہ ،عراق پے حملہ کرے گا۔
دنیا میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر عراق میں ہیں۔ ا س کے علاوہ تمام عرب ممالک میں تیل کے ذخائر ہیں۔ مجھے مسلمانوں کی اس بات پہ غصہ آتا ہے کہ دماغ سے کام نہیں لیتے ورنہ پوری دنیا پے حکومت کرسکتے ہیں۔ عربی شہزادوں کو اگر ہر روز نہیں تو ہر سال نئی لڑکی چاہیئے ہوتی ہے۔ ان کو اپنی بادشاہت سے غرض ہے۔ جس کو بچانے کے لیئے وہ امریکہ کو جزیہ دیتے ہیں۔ اس کے بدلے جتنا بھی تیل نکلتا ہے وہ امریکہ خریدتا ہے اور اس کی قیمت بھی وہی مقرر کرتا ہے۔ اب دیکھو زوالفقار علی بھٹو ،شہشاہ ایران اور شاہ فیصل کو امریکہ نے صرف اورصرف اس لیئے مروایا کہ ان لوگوں نے ایک پلیٹ فارم پے اکھٹے ہوکر مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ تھا لیکن امریکہ میں ایک لابی ہے۔ جس کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ ان کے ماسٹر پلان میں کوئی دخل درمعقولات کرے۔ زوالفقار علی بھٹو کو (جو اس سکیم کا خالق تھا) انہوں نے ایک معمولی فوجی کے ہاتھوں گرفتار کروایا۔ وہ شراب پیتا تھا لیکن مسلمانوں کے بارے میں سوچتا تھا۔ شاہ فیصل کو اس کے بھتیجے کے ہاتھوں مروایا اور شاہ ایران کو اپنے ہی تیار کردہ ایجنٹ امام خمینی کے ہاتھوں تاراج کروایا۔ اب امریکہ کو ایرانی انقلاب برا لگتا ہے لیکن خمینی کو انہوں نے کہا اس ملک کو مذہب کا ٹیکہ لگاؤ۔ صرف اگر کوئی ان کے چنگل سے بچاہے تو وہ تھا کرنل قذافی اور وہ اب تک ان کے ہاتھ نہیں آیا۔تم اندازہ کرسکتے ہو پاکستان کی عوام کو ایک شخص گیارہ سال تک اسلام کے نام پے بیوقوف بناتا رہا‘‘۔ اتناکہہ کر میکائل رکے تو میں نے اپنی زبان پے اٹکے ہوئے سوال کو ان کے سامنے پیش کیا، ’’میکائل وہ کون سی لابی ہے جس کے بارے میں آپ بار بار بات کرتے ہیں‘‘۔
’’وہ لابی یہودیوں کی بھی ہوسکتی ہے یا ان کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوسکتا۔
by the way these three monotheistic sister semetic religons are very dangerous for humanity. (یہ جملہ پروفیسر میکائل کا پسندیدہ جملہ ہے ۔ دیز تھری مونوتھے اسٹک سسٹر سیمیٹک ریلجنز آر ڈینجرس فور ہومینٹی ۔ وہ یہ جملہ اپنی گفتگو میں کئی بار دہراتے ہیں)میں ان کے خلاف نہیں ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کو ایک خدا کا تصور دیا۔ اس سے پہلے انسان کئی خداؤں کی دیوی ،دیوتاؤں کی پوجا کیاکرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایزٹک(aztec) اور انکا(inca) تہذیبیں ساؤتھ امریکہ میں پھلتی پھولتی رہی ہیں۔ ان دنوں مایا(maya) ، انکا(inca
ایزٹک(
aztec) دیوی دیوتاؤں کا راج تھا۔ جب یورپیئن حملہ آور ا ن ملکوں میں وارد ہوئے تو ان کی تہذیب کو تباہ و برباد کردیا۔ کچھ علاقے ہسپانویوں نے اپنے قبضے میں کرلیئے، کچھ پرتگالیوں نے ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اور انگریز بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ اس طرح دنیا ایک پرانی تہذیب و تمدن سے محروم ہوگئی۔ اس کے علاوہ مصری دیو مالائی کہانیاں ، سلطنتِ روما کی دیو مالائی کہانیاں،یونانی دیو مالائی کہانیاں ۔ ان تمام پرانی تہذیبوں میں خدا کا وجود تھا لیکن پتھروں کی صورت میں۔ کئی خدا ہوا کرتے تھے۔ یورپیئن ملکوں میں پگن گاڈز (pagan gods)تھے۔ اس کے علاوہ انڈیاء میں اب بھی کثیر تعداد میں خدا ہوتے ہیں۔ دیوی یوتا ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے ان کی بات کی کسی حد تک تائید کرتے ہوئے کہا،’’میکائل اس کا مطلب ہے خدا ہر زمانے میں کسی نا کسی رنگ میں موجود رہا ہے خواہ وہ کثیر تعداد میں ہو یا واحد‘‘۔ ’’ہاں کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ’’لیکن ہمیں خدا کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے بقول آپ کے اگر وہ نہیں ہے‘‘۔ ’’ہر انسان کو کسی نا کسی کا سہارا چاہیئے ہوتا ہے۔ جیسے بچوں کو باپ کا،یا کسی کے لیئے بڑے بھائی کا جس کے ہونے کی وجہ سے انسان خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے‘‘۔ ’’آپ کے خیال میں خدا کیا ہے‘‘۔ میرے خیال میں خدا، خے، دال اور الف (خ،د،ا)کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب یہ حروف وجود میں نہیں آئے تھے نہ تو دنیا میں اللہ تھا، نہ ہی خدا، نہ بھگوان،گاڈ، دیو ۔ تم جو بھی نام دے لو۔ انسان نے خدا کو خود اپنی آسائش کے لیئے تخلیق کیا ہے ورنہ تہذیب کے ارتقاء میں خدا کا کوئی وجود نہیں۔ انسان پہلے سورج کی پوجا کرتا تھا۔ پھر چاند ستاروں کی اور آگ کی پوجا کرنے لگا۔ دریاؤں کی پہاڑوں کی پوجا کرنے لگا۔ عربوں میں تہذیب و تمدن کا ارتقاء بہت پہلے ہوا اس لیئے وہاں کے لوگوں نے خدا کو سب سے پہلے تخلیق کیا۔ اسیرینز(assyrians)،سومیرینز(sumerians)،بیبیلونیئنز(babylonians) یہ لوگ اپنے طور پے کئی خداؤ ں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ پھر مونوتھیئسٹک(monotheistic) مذہب نے جنم لیا۔ پھر کسی انتہائی ذہین آدمی نے خدا کوتخلیق کیا اور ایسے خدا کا تصور دیا جو نظر نہ آئے۔اس کا فائدہ یہ ہوا انسان نے بت پرستی کم کردی‘‘۔ ’’اس کا مطلب ہے یعنی آپ کا یہ خیال ہے کہ خدا نے انسان کو تخلیق نہیں کیا بلکہ انسان نے خدا کو تخلیق کیا ہے‘‘۔ ’’تم بالکل ٹھیک سمجھے ہو‘‘۔ ’’لیکن میکائل میں تو مسلمان ہوں۔میں ایک خدا کو مانتا ہوں۔میں آپ کے اس فلسفے سے اتفاق نہیں کرتا‘‘۔ ’’میں نے ظہران آج تک کسی شخص کو نہ تو قائل کرنے کی کوشش کی ہے نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ کوئی میرے راستے پر چلے۔ اس طرح میرا بھی ایک فرقہ بن جائے گا‘‘۔ اور یہ تمام پیغمبر اور الہامی کتابیں‘‘۔ ’’یہ انسان کی اپنی تخلیق کردہ ہیں۔ میرے نزدیک تمام پیغمبر، سیاست دان ،آمر، نجات دہندہ تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے بارے میں ہم جو کہانیاں سنتے ہیں اس میں کوئی سچائی نہیں۔ تم اگر بائیبل کا مطالعہ کرو اور قران کا بھی تو دونوں کی کہانیوں میں تمہیں مماثلت نظر آئے گی۔ کچھ قصے تو پورے کے پورے بائیبل اور قران میں بالکل ایک جیسے ہیں‘‘۔ ’’یہ آپ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ’’کیونکہ میں نے ان دنوں کتابوں کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ اب تمہیں بائیبل کا ایک قصہ سناتا ہوں جو کہ پیدائش کے باب میں ہے۔ انگریزی میں جینیسسز(genesis)کہلاتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کی بیوی سارا کے ہاں جب کوئی اولاد نہ ہوئی تو ان کی بیوی نے انہیں اجازت دے دی کہ آپ اپنی لونڈی ہاجرا(جسے بائیبل میں راخل کا نام دیا گیاہے) سے شادی کرلیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ہاجرا حاملہ ہوگئیں۔ اب اس دوران سارا بھی امید سے ہوگئیں۔ ایک طرف لونڈی کے ہاں حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے اور دوسری طرف سارا یعنی ان کی بیوی کے ہاں حضرت اسحقؑ پیدا ہوئے۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسحق ؑ کو قربانی کے لیئے لے کر گئے تھے جبکہ مسلمان اس بات کو مانتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو قربانی کے لیئے لے کر گئے تھے۔ یہ سارا قصّہ دونوں مذاہب میں یہودیوں اور مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں میں برابر مانا جاتا ہے لیکن عید الضحیٰ صرف مسلمان مناتے ہیں۔ اب یہودی اس بات پے مْصر ہیں کہ بیوی کی اولاد زیادہ مقدم ہے نہ کہ لونڈی کی۔ حضرت اسماعیل ؑ (بقول مسلمانوں کے) ان کے جدِ امجد ہیں جبکہ یہودیوں کا سلسلہ ءِ نسب جاکے حضرت اسحقؑ سے ملتا ہے۔ حضرت اسحقؑ نے ایک چھڑی سے بارہ چشمے جاری کیئے تھے اس طرح یہودیوں کے بارہ قبیلے بن گئے۔ میرے نزدیک یہودیوں اور مسلمانوں میں جنگ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ عیسائیوں کو تو انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق رام کرلیا ہے لیکن مسلمان ان کے قابو میں نہیں آتے۔ خود حضرت عیسیٰؑ بھی یہودی تھے۔ یہودی اس بات کو کیسے مان لیتے کہ ان کے تخلیق کردہ مذہب کے خلاف کوئی بات کرے۔ حضرت عیسیٰؑ بہت جرات مند انسان تھے انہوں نے یہودیوں کے سامنے آواز اٹھائی اور مصلوب ہوگئے‘‘۔ ’’اس کا مطلب ہے میکائل آپ حضرت عیسیٰؑ کی اس جرات سے متاثر ہوئے ہیں‘‘۔ ’’ہاں کہہ سکتے ہیں اگر یہ سارا قصہ حقیقت پر مبنی ہو تو‘‘۔ ’’لیکن اگر ہم ہومر کی شاعری کو مان سکتے ہیں، ارسٹوفین، پلیٹو، ارسٹوٹل اور ورجل کی شاعری کو مان سکتے ہیں۔ یونانی ادب کے تخلیق کاروں کو مان سکتے ہیں تو ان پیغمبرانِ خدا کو ماننے میں کیا قباحت ہے‘‘۔ ’’ان کو ماننے میں کوئی قباحت نہیں ۔میں ان الہامی کتابوں کو ادبی نقطہ ءِ نگاہ سے پڑھتا ہوں تو بہت دلچسپ لگتی ہیں۔لیکن مذہبی نقطہءِ نگاہ سے دیکھوں تو میرے دماغ میں کئی قسم کے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ ایک اچھا انسان ہونے کے لیئے آپ کو کسی بھی مذہب کی ضرورت نہیں۔ یہ بات کسی عقلِ سلیم میں بڑی آسانی سے آسکتی ہے کہ ا س کے قول و فعل سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اس کی ذات سے کسی کو بھی گزند نہ پہنچے‘‘۔ ’’لیکن میکائل مذہب ہمیں برائیوں سے بچاتا ہے‘‘۔ ’’تم نے بائیبل پڑھی ہے ‘‘۔ ’’نہیں‘‘
’’تو سنو بائیبل کے پہلے باب پیدائش میں لکھا ہے کہ حضرت لوطؑ جب اپنی قوم کو چھوڑ کے شہر سے باہر جارہے تھے صرف اور صرف اس لیئے کہ ان کے ہاں دو فرشتے خوبصورت نوجوانوں کے روپ میں مہمان بن کر آئے تھے۔ ان کی قوم ان کے مہمانوں کے ساتھ جنسی تسکین حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے جانتے ہو کیا جواب دیا۔ انہوں نے کہا میری دو خوبصورت بیٹیاں ان سے مباشرت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے ان کا مطلب تھا کہ ان کے ساتھ نکاح کرلو۔ تو ان کی قوم نے انکار کردیا۔ اب تم خود ہی بتاؤ دنیا میں ایسا کون سا باپ ہوگا جو اپنی بیٹیوں کو خود سے کسی کو جنسی تسکین کے لیئے پیش کرے گا۔ اس کے بعد حضرت لوطؑ اپنے گھر والوں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے اور ان کی قوم پے تیزاب کی بارش ہوئی، جس کا جیالوجیکلی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ان کی بیوی نے آدھے راستے میں واپسی کی ٹھانی اور وہ ونہی پتھر کی ہوگئی۔ اب حضرت لوطؑ اپنی دونوں خوبصورت بیٹیوں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ جب کافی رات بیت گئی تو دونوں بیٹیوں نے اپنے باپ کو شراب پلائی ۔ پہلے ایک بیٹی نے اپنے باپ کے ساتھ جنسی تسکین حاصل کی پھر دوسری بیٹی نے۔ حضرت لوطؑ نشے میں تھے اس لیئے انہیں پتا ہی نہ چلا۔ اب تم بتاؤ ظہران کیا خدا اپنے پیغمبروں سے ایسے کام کروائے گا۔ ہم مذاہبِ عالم سے یہ سبق سیکھتے ہیں‘‘۔
’’میکائل آپ جانتے ہیں بائیبل بعد میں تبدیل کردی گئی تھی‘‘
’’اگر میں یہی بات قران کے بارے میں کہوں تو تمہیں برا لگے گا لیکن ایسے کئی نقاط ہیں جو بحث طلب ہیں۔ میں تمہیں اتنی بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ مذاہبِ عالم نے دنیا کو کشت و خون کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ لوگ مذہب کو بنیاد بناکر جنگ ضرور کرتے ہیں لیکن پسِ آئینہ ان کے اپنے مفاد ات ہوتے ہیں۔ تم نے کبھی سوچا یہ بڑے بڑے مذہبی لیڈر اپے جسم پے بم باندھ کر خود کیوں نہیں مرتے۔ سادہ لوح انسانوں کو مذہب کاٹیکہ لگا کر کیوں موت کے منہ میں دھکیلتے ہیں۔ جو خود بھی مر جاتے ہیں اور دوسرے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان لیتے ہیں۔یہ اسلام کا بنیادی فلسفہ تو نہیں نہ ہی عیسائیت اور یہودیت کی مذہبی بنیاد انسانوں کے خون پے رکھی گئی ہے‘‘۔
’’اس میں میکائل مذہب کا تو کوئی قصور نہیں‘‘۔
’’کوئی قصور نہیں، اگر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ نہ دیا جائے تو‘‘۔
’’اب یہ تو مولویوں کا کام ہے‘‘ ۔
’’بالکل نہیں۔ یہ تمہارا کام ہے پڑھو، جانو اور دوسرے لوگوں کو بتاؤ نہ کہ جہاد کے لیئے نکل پڑو بنا سوچے سمجھے‘‘۔
’’اچھا میکائل میں اب چلتا ہوں۔ آج کافی دلچسپ گفتگو رہی۔گو کہ میں آپ کی بہت ساری باتوں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا لیکن میں سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں‘‘
’’ارے نہیں نہیں ......پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی میرے خیالات کسی اور تک پہنچانا کیونکہ آجکل حالات بہت خراب ہیں۔ میں تو کوئی پوچھے تو خود کو راسخ العقیدہ سنی کہتا ہوں۔ بس کبھی کبھی الہان اور عمارہ کو دیکھ کے غصہ آجاتا ہے کہ یہ دونوں کس ڈگر پے چل رہے ہیں کیونکہ مسلمان تو وہ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اور میری دعا ہے ہمیشہ رہیں کیونکہ کسی چیز پے اعتقاد ہونا بہت اچھا عمل ہے‘‘۔
***********
پروفیسر میکائل کی اس دن کی گفتگو نے میرے دماغ میں ہلچل مچادی کہ یہ مذاہبِ عالم کیا چیزہیں ؟ خدا کیا ہے؟اگر دنیا کی تاریخ تیرہ کروڑ سال پرانی ہے۔ تہذیب کا ارتقاء ہوموایریکٹس (
homo erectus)اور ہوموسیپیئنز(homo sapiens) تک ہے۔ اس کے بعد انسان ایوولوٹ کرتا کرتا اس مقام تک پہنچا ہے کہ اس نے مذاہبِ عالم کو تخلیق کیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خدا انسان کے مہذب ہونے کا انتظار کرتا رہا ہے۔ اور اس کے بعد اس نے پیغمبروں کو تخلیق کیا ہے۔اگر مذہبی کتابوں سے دنیا کی عمر یا تہذیب کا تجزیہ کیا جائے تو دنیا کی عمر دس سے پندرہ ہزار سال پرانی ہے۔یا زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار سال پرانی ہے۔ مصر کے اہرام پانچ ہزار سال پرانے ہیں۔ موہنجودارو، ہڑپہ کی تہذیب پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ سواں ویلی کی تاریخ ایک لاکھ سال پرانی ہے۔ پھر بقول پروفیسر میکائل کے ایزٹک اور انکا کی تہذیب اور اس طرح کی کئی تہذیبیں دنیا سے ناپید ہوچکی ہیں۔ جن کا ثبوت ہمیں فوسلز کی صورت میں ملتا ہے۔اگر خدا نے یہ دنیا نہیں بنائی تو کس نے بنائی ہے۔ خدا کو اگر ہم نے تخلیق کیا ہے تو ہمیں کس نے تخلیق کیا ہے۔ مرزا غالب نے شاید اسی لیئے لکھا ہے ،
نہ تھا کچھ تو خدا تھا نہ ہوتا کچھ تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ،نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا
میں نے اپنے دماغ میں کائنات کی تخلیق کچھ اس طرح وضع کی،
سب سے پہلے خدا نے سات آسمان اور زمین بنائے ہوں گے۔ اس کے بعد کائنات کو چاند ستاروں سے مزین کیا ہوگا۔ پھر سورج کی تخلیق،اس کے بعد پہاڑ، دریا،زمین اور کششِ ثقل کو تخلیق کیا ہوگا۔ اس کے بعد اپنی کابینہ بنائی ہوگی۔ پھر پودے اور جانور اور دیگر تخلیقات وجود میں آئی ہوں گی۔سب سے آخر میں اس نے آدم کو بنایا ہوگا ۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خدا نے جب انسان کو بنایا تو دنیا کا وجود پہلے سے تھا۔ ہم لوگ زمین پے ایلیئنز کے طور پہ وارد ہوئے ہوں گے۔ میرا مطلب ہے آدم اور حوا کو جب جنت سے نکالا ہوگا تو دونوں دنیا کے کسی نا کسی مقام پے آئے ہوں گے۔ کتنی عجیب بات ہے اتنی بڑی زمین پے دونوں اکیلے رہتے ہوں گے۔ اس وقت ان کا مذہب کیا ہوتا ہوگا۔ کس طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہوں گے۔ الہامی کتابیں کائنات کی تخلیق کی کہانی بیان کرکے سوچ کے تمام دروازے بند کردیتی ہے۔ انسان کاوجود کیسے ہوا؟ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ خدا نے بنایا۔ اب ہابیل اور قابیل کی کہانی۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کی لاش کندھے پے لے کے گھوم رہا ہوتا ہے تو ایک کوا اسے بتاتا ہے کہ اس کو دفن کیسے کرنا ہے۔ اس کامطلب ہے زمین پے پرندوں کا وجود تھا۔ پھر تو دیگر جانور بھی ہوں گے۔ تو کیا پرندے اور جانور بھی جنت سے حضرت آدم کے ساتھ ہی دنیا میں تشریف لائے تھے یا وہ دنیا میں پہلے سے موجود تھے۔ ایسا نہیں لگتا کسی فلم کا ڈائیریکٹر کسی فلم کے سین کا سیٹ لگا کے دو بڑے سٹار کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہیں اس سیٹ اور سین کے مطابق ایکٹ کرنا ہے۔
حضرت نوح ؑ کا کش بنانا۔ چالیس دن اور چالیس راتوں تک بارش کا ہونا۔ ان کے بیٹے کا مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں آجکل بھی کئی دفعہ پورا پورا دن پوری پوری رات بلکہ کئی دفعہ پورا ہفتہ بارش رہتی ہے۔ نظامِ زندگی درہم برہم ہوجاتا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے چونکہ پانی کی نکاسی کا انتظام ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتا ہوگا اس لیئے عین ممکن ہے سیلاب آگیا ہو۔ اور یہ بات فطرت کے مطابق ہے کہ انسان اسی چیز کا سہارا لیتا ہے جو پانی میں نہ ڈوبے۔ اب لکڑی ایک ایسی چیز ہے جو پانی پے تیرتی رہتی ہے۔ اب اور چیزیں بھی آچکی ہیں لیکن کئی سو سال پہلے صرف اورصرف لکڑی ہی استعمال ہوتی ہوگی۔ اس لیئے حضرت نوحؑ نے لکڑی سے کشتی بنائی تھی۔وہ اس ہنر سے واقف ہوں گے۔ بقول پروفیسر میکائل کے پوری دنیا کے کسی بھی خطے میں نہ تو جیوگرافیکلی اور نہ جیولاجیکلی اس سیلاب کے آثار ملے ہیں۔
اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ کا اپنے بیٹے کی قربانی دینا یقیناً لوگوں کو یہ بات سکھانا ہوگا کہ دیوی دیوتاؤں کو یا خدا کو انسانوں کی نہیں جانوروں کی بھی قربانی پیش کی جاسکتی ہے۔ وہ جانوروں کی قربانی بھی قبول کرلیتے ہیں۔ ورنہ تو لوگ اپنی جوان بیٹیاں اور بیٹے دریا ئے نیل کی نظر کردیا کرتے تھے۔صرف اور صرف سیلاب سے بچنے کے لیئے۔
پھر میرے دماغ میں خیال آیا کہ بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس پیغمبر اترے ہیں۔ ہمیں چوبیس پیغمبروں کے نام بھی نہیں یاد۔ یہ سارے کے سارے عرب ممالک میں نازل ہوئے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں پیغمبروں کی پیدائش کیوں نہیں ہوئی۔ اگر اتنے پیغمبر خدا نے عربوں کی اصلاح کے لیئے بھیجے ہیں تو اب تک اس قوم کی اصلا ح کیوں نہیں ہوئی۔ تو اس کا مطلب ہے پیغبروں کی تشہیر کرنے والے ہم ہیں۔خدا کو تخلیق کرنے والے ہم ہیں۔اتنا خیال آنا تھا کہ میرے دل کے نہاں خانے میں ایک خوف نے جنم لیا۔ میں نے فوراً استغفار پڑھنا شروع کردی۔ کانوں کو ہاتھ لگایا۔ توبہ کی، نعوذ باللہ من ذالِک کہا۔ اپنے کمرے سے نکل آیا اور ڈرائینگ روم میں بیٹھ کے اپنی نظریں کرکٹ میچ پے جمادیں۔
**************
پروفیسر میکائل ٹھیک وقت پے کلاس میں داخل ہوئے اور حسبِ عادت اپنا فیلٹ ہیٹ کھونٹی پے ٹانگا، چھڑی ایک طرف رکھ دی اور ہاتھ میں اٹھائی ہوئی کتابیں میز پے رکھ دیں۔ انہوں نے لیکچر کا آغاز کیا اور ساری کلاس ان کا لیکچر بڑی توجہ سے سننے لگی۔ کبھی کبھی وہ کوئی نقطہ جاننے کے لیئے سٹوڈنٹس سے سوال کرلیا کرتے،اس طرح وہ سٹوڈنٹس کی انوالومنٹ کا اندازہ کرلیا کرتے۔ ان کی قابلیت اور سوچ سمجھ کی استعداد کا اندازہ لگالیا کرتے۔ آج کا لیکچرمیں انہوں نے ظہران کو خاموش پایا تو کہنے لگے، ’’ظہران تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے ۔ تم کچھ پریشان دکھائی دیتے ہو۔ خدا خیر کرے‘‘
پروفیسر میکائل نے اپنی گفتگو میں جان بوجھ کے انشاء اللہ ،ماشا اللہ اور سبحان اللہ کی آمیزش کردی تھی کیونکہ طالبان اور انتہاپسندوں کے آئے دن نئے کارناموں کا سن کر وہ تھوڑے ڈر گئے تھے۔ اب تو زندگی اتنی سستی ہوگئی تھی کہ آپ نے ذرا سی مذہب کے خلاف بات کی تو کسی من چلے نے جسم پے بم باندھا اور جنت میں جانے کا سودا کرلیا۔
ظہران نے کہا، ’’میکائل ایسی کوئی بات نہیں۔ میں آجکل کچھ زیادہ ہی سوچنے لگاہوں اس لیئے میری توجہ لیکچر کی طرف نہیں تھی‘‘
’’کوئی بات نہیں ، جاؤ کینٹین میں جاکر سموسے کھاؤ اور گرم گرم چائے پیؤ۔ کینٹین والے کہنا کہ پروفیسر میکائل کے کھاتے میں لکھ دے‘‘۔
سارے کلاس بڑ ی حیران تھی کہ پروفیسر میکائل میں اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیسے آگئی۔ اب انہیں الہان اور عمارہ بھی ٹھیک لگنے لگے۔
ظہران نے کہا، ’’نہیں میکائل میں ٹھیک ہوں‘‘۔
عمارہ بولی، ’’ظہران تمہاری پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ تم دین کی طرف مائل نہیں ہو‘‘
الہان نے عمارہ کی تائید کرتے ہوئے کہا، ’’میں عمارہ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ تمہیں نماز کی طرف آنا چاہیئے ۔ نماز برائیوں سے روکتی ہے‘‘
ظہران نے غصے سے کہا، ’’کیا خاک برائیوں سے روکتی ہے۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے بعد جسم کے ساتھ بم باندھ کے معصوم انسانوں کی جان لو اور ذہن میں یہ بات رکھو کہ فرشتے جنت میں ان کے لیئے پھولوں کے ہار لے کر کھڑے ہوں گے۔ میں باز آیا ایسے اسلام اور مذہب سے‘‘
پروفیسر میکائل نے کہا،’’ظہران یہ بات نہیں ہے۔ برائی اسلام میں نہیں ہے۔ اسلام میں یا نمازمیں نہیں ہے۔ اس کی بیان کردہ تشریح میں ہے‘‘۔
عمارہ اور الہان کے کا ن کھڑے ہوگئے کہ میکائل اسلام کی طرف داری کررہاہے اور ظہران اسلام کی مخالفت۔ ایساتو نہیں کہ دونوں کے دماغ بدل گئے ہوں۔ جس طرح فیس آف فلم میں جان ٹروولٹاکا چہرہ نکولس کیج کو لگادیا جاتا ہے اور نکولس کیج کا چہرہ جان ٹروولٹا کے منہ پے لگا دیا جاتا ہے۔
ظہران نے کہا،’’میکائل یہ طالبان صرف پاکستان اور افغانستان میں ہیں یا دوسرے مذاہب میں بھی ایسے سر پھرے ہوتے ہیں‘‘۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ اٹلی میں جب نشاۃِ ثانیہ کا آغاز ہوا تو اطالوی سلطنت پے پادریوں کا قبضہ تھا۔ اس دور میں انکوئیزیٹر(
inquisitors) کا وجو دعمل میں آیا۔ وہ لوگ اتنے سخت تھے اگر کسی نے چر چ کے خلاف ذرا سی بھی بات کی تو اسے ڈنجیئن(dungean) میں ڈال دیا جاتا۔اسے زندہ جلا دیا جاتا۔ ان کی انتہا پسندی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ اگر کسی عورت نے کھانا پکاتے ہوئے کھانے میں نمک زیادہ استعمال کردیا ہے جس کی مقدار مقرر کی جاچکی تھی تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتااس بات کو یورپ میں مثال کے طور پے لیا جاتا ہے۔ انگریزی ادب میں لفظ انکوئیزیٹر اسی وجہ سے شامل ہوا ہے۔ سپین میں انکوئیزیٹرز نے پیتیس ہزار عورتوں کو موت گھاٹ اتارا۔ پھر سترہویں صدی میں کاتے کومان (catecuman)کا دور آیا۔ یہ لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اغواء کر کے ان کو عیسائیت کا طالبان بناتے تھے۔اس بارے میں ایک ناول بھی ہے لیکن مجھے اس ناو ل نگار کا نام بھول گیا ہے۔ وہ انگلستان کا رہنے والا تھا۔ اسے اٹلی باقائدہ طور پے ایک بندا قتل کرنے گیا تھا لیکن ناکام لوٹا۔ انتہا پسندی نہ صرف مسلمانوں میں ہے بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی ہے۔ ان تینوں منوتھیئسٹک سسٹر سیمیٹک ریلیجنز میں انتہاپسندی کی مخالفت کی گئی ہے۔ آپ کبھی نہیں سنیں گے لادن نے خود کمی کازے بننے کا ارادہ کیا ہو۔ وہ ہمیشہ معصوم اور ان پڑھ بندوں کو اس کام کے لیئے چنتا ہے۔ یاکسی غریب دیہات سے اپنے بندے سلیکٹ کرتا ہے۔ جہاں پینے کاصاف پانی نہیں ملتا۔رہنے کو کچے گھر ہیں۔ وہ خود منزل واٹر پیتا ہوگا۔ میں انگلستان میں کئی دفعہ جب کسی انگریز سے بات کرتا ہوں تو وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اْسامہ بن لادن کدھر ہے تو میں کہتا ہوں وہ روز ڈجارج ڈبلیو بش کے ساتھ ناشتہ کرتا ہے۔ یورپیئنز ہر پاکستانی سے ایسے پوچھتے ہیں کہ لادن کدھر ہے جیسے وہ ہماری پھْپھی کا بیٹا ہے اور ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ لادن اْسامہ کا بیٹا ہے یا اْسامہ لادن کا بیٹا ہے۔ حالانکہ صاف صاف لکھا ہوا ہے اسامہ بن لادن یعنی لادن کا بیٹا اْسامہ۔اس کو ٹیرر رزم کا بریڈ پٹ(brad pitt) بنا دیا‘‘
عمارہ نے پوچھا، ’’میکائل اسامہ بن لادن زندہ ہے‘‘
’’ہاں بالکل زندہ ہے۔ وہ تو زندہ رہ کر امریکہ کی مدد کررہا ہے۔ جب تک زندہ رہے گا امریکہ کے پاس ایک ٹھوس وجہ ہو گی کہ وہ اس کی تلاش میں جتنا عرصہ چاہے عراق یا افغانستان میں رہ سکتا ہے۔ یا کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی واقع وقوع پذیر ہو تو لادن کو موردِ الزام ٹھہرا کر وہاں داخل ہوسکتا ہے۔ وہ تو ان کے لیئے سونے کی چڑیا ہے۔ سونے کے انڈے دینے والی مرغ کو کوئی کیسے مارسکتا ہے‘‘
ابھی وہ مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ان کا پیریڈ ختم ہوگیا اور پروفیسر میکائل وقت کے بہت پابند تھے۔ انہوں نے حسبِ عادت اپنا ہیٹ اٹھایا اس کو سر پے جمایا۔ ایک ہاتھ میں چھڑی تھامی اور دوسرے میں کتابیں اور کلاس سے چلتے بنے۔
************
ظہران پروفیسر میکائل کے گھر کے باہر کھڑا تھا۔ اس نے گھنٹی پے ہاتھ رکھا۔ تھوڑی دیر بعد پروفیسر میکائل نمودار ہوئے۔ انہوں نے گیٹ کھولا اور ظہران کو اندر آنے کو کہا۔ کمرے تلک جاتے ہوئے انہوں نے ظہران سے کہا، ’’مجھے پتا تھا آج تم ضرور آؤ گے۔ اس لیئے میں کہیں نہیں گیا۔ آؤ اندر چل کے چائے بھی پیئیں گے اور باتیں بھی کریں گے‘‘
ظہران چپ سادھے ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ڈرائینگ روم میں قدم رکھتے ہی وہ ٹھٹھک گیا۔
’’میکائل یہ قرانی آیات ....یہ آپ نے کب لگائی ہیں‘‘۔
’’بس ظہران کیا کروں جان بھی تو بچانی ہے نا۔ میرے گھر گمنام ٹیلی فون آنے لگے تھے کہ میں کافر ہوں اور میری جان کو خطرہ ہے۔ اس لیئے میں چھوٹ موٹ کا مسلمان بن گیا ہوں‘‘
’’اس لیئے آج آپ کلاس میں اسلام کی حمایت میں بات کررہے تھے‘‘۔
’’ہاں کہہ سکتے ہیں لیکن کچھ باتیں میں نے صحیح بتائی ہیں۔ ویسے ایک بات طے ہے جن لوگوں کی آنکھوں کے آگے مذہبی انتہاپسندی کی پٹی بندھ جاتی ہے ان کا کوئی علاج نہیں۔ وہ بھلے پی ایچ ڈی کرلیں یا ان پڑھ ہوں ۔ انہیں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔
’’آپ درست کہتے ہیں‘‘۔
’’ظہران تم یقین نہیں کرو گے جب میں انگلستان جاتا ہوں تو وہاں بڑے بڑے سکالرز سے ملتا ہوں۔ جب مذہب کی بات آتی ہے تو ایسی ایسی بے سروپا باتیں کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ عیسائی ہفتے کے چھ دن خدا کو گالیاں دیتے ہیں اور اتوار کو خدا سے معافی مانگنے چرچ پہنچ جاتے ہیں۔ عیسائی لوگ مسلمانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ تم یقین نہیں کرو گے ان کے ہاں روم میں پائی جانے والی ایک چھوٹی سی آزاد ریاست ہے ویٹیکن سٹی۔ اس کو وہی حیثیت حاصل ہے جو مسلمانوں کے لیئے مکہ معظمہ اور یہودیوں کے لیئے یروشلم کی ہے۔آپ پوری دنیا کے خلاف بات کرسکتے ہیں لیکن ویٹیکن سٹی میں بیٹھے ہوئے پاپا کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتے۔پوری دنیا کے عیسائی اس ویٹی کن سٹی کا نظام چلانے کے لیئے پیسہ دان کرتے ہیں۔اب عیسائیوں میں مختلف چیزوں کے دوران چرچ کو پیسہ دان کیا جاتا ہے۔ اگر آپ عیسائیت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور چرچ سے آپ کا تعلق ہو تو۔
سب سے پہلے بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کو بیپ ٹائز (
baptize)کیا جاتا ہے۔ بچے کے سر پے پادری پانی گراتا ہے اور بچہ بیپ ٹائز ہوجاتا ہے۔ بیپ ٹائز لفظ لاطینی سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ٹکرانا یا گرانا۔ یعنی بچے کے سر پے پانی گراتے ہیں تو وہ کیتھولک ہوجاتا ہے۔ جس کی جتنی توفیق ہوتی وہ چرچ کو پیسہ دان کرتا ہے۔ جب بچے کو بیپ ٹائز کیا جاتا ہے تو اسے ایک کتاب جاری کی جاتی ہے اور اس کتاب میں لکھ دیا جاتا ہے یہ بچہ بیپٹزم (baptismکے عمل سے گزر چکا ہے اور اس کے بعد جب بھی اس بچے کے والدین چاہیں تو اس کی کمونیئن (comunion)کی تقریب ہوتی ہے۔ اس میں بھی چرچ والے رقم وصول کرتے ہیں۔ اس کے بعد کریسزماں(cresima)کی تقریب عمل میں آتی ہے۔ اس تقریب میں تیل کا استعمال کیا جاتا ہے۔اگر بچہ جوان ہوکر عیسائی ہی رہے تو اس کی شادی کی تقریب ہوتی ہے۔ اسے میٹریمونیئل کہتے ہیں۔ جو شخص چرچ میں شادی کرتا ہے وہ اپنی بیوی کو کسی بھی صورت میں طلاق نہیں دی سکتا۔ اس تقریب میں بھی چرچ والوں کو کچھ نا کچھ رقم مل جاتی ہے۔ اس کے بعد آخری رسم فیونرل یا بندے کا مرنا ہوتا ہے۔ اس میں اگر اس کی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہوتو اس کی ساری جائیداد چرچ کا اثاثہ بن جاتی ہے۔ اس طرح عیسائیت کا یہ مافیہ گزشتہ دو ہزار سال سے پوری دنیا سے دان وصول کررہا ہے۔ دنیا کی کئی حکومتوں میں اس کا اثر و رسوخ ہے۔ خاص کر اطالوی حکومت کے تو یہ متوازی چلتا ہے۔ ایک طرف ویٹی کن سٹی حکومت کرتی ہے اور دوسری اطالوی پارلیمنٹ۔ ان کے بھی کئی فرقے ہیں اور بڑے منظم ہیں۔ جیسا کہ ایک تو کیتھولک ہے ،اس کے بعد اورتھوڈوکس،اوینج لیکنز(evangelicans)،ایڈونٹسٹ(adventist)، پیورریٹیئنز(puritians)،پریسبی ٹیریئنز(presbiterians)اور سب سے مضبوط اور منظم پروٹسٹنٹ ہیں(protestant) پندرہویں صدی نے اس فرقے نے جنم لیا۔اس کے خالق چار مختلف ملکوں میں اپنے اپنے طور پے ریفارمر تھے۔ مارٹن لوتھر،زوگلی،نوکس اور کیلون۔ اس فرقے کے ماننے والوں کو زندہ جلایا گیا ۔ملک بدر کیا گیا۔ان کی ایک بڑی تعداد کو امریکہ جلاوطن کردیا گیا۔ عیسائیوں کے دو فرقے بڑے ہی چپکو قسم کے ہیں۔ ایک تو جیوہا ز وٹنس (jehowah's witness)اور دوسرے مورونز(morons)۔یہ بندے کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں۔ کئی دفعہ میرا لندن میں میرا ان سے سابقہ پڑاہے۔ گھر تک آجاتے ہیں۔ان کے پاس ہر زبان میں مواد ہوتا ہے۔ بس اتنا کہنے کی دیر ہے کہ میں انڈین یاپاکستانی ہوں ۔فوراً اردو یاہندی میں بروشر ہاتھ میں تھمادے گے‘‘۔
’’میکائل کبھی کسی سے حرام حلال پے بات ہوئی‘‘۔
’’ہاں میرا نام پڑھ کے لوگ فوراًسوال کرتے ہیں تم پاکستانی ہو۔مسلمان ہو۔ تم لوگ سؤر کیوں نہیں کھاتے۔ میں ان کو کہتا ہوں تم لوگ کتے کیوں نہیں کھاتے یا گدھے کا گوشت کیوں نہیں کھاتے۔ تو اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہب میں منع ہے ۔تو میں انہیں کہتا ہوں کہ ہمیں سؤر کا گوشت منع ہے۔ ویسے بائیبل میں سؤر کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ عیسائیوں میں تو خرگوش کا گوشت بھی منع ہے۔ پرانے عہد نامے میں صاف صاف لکھا ہے کہ شراب اور سؤر کا گوشت عیسائیت میں منع ہے۔ جب بائیبل کا حوالہ دو تو عیسائی کہتے ہیں کہ وہ تو پرانے عہد نامے میں ہے۔ ہمارے نئے عہد نامے میں دونوں چیزیں منع نہیں ہیں۔ پرانا عہد نامہ یہودیوں کی کتاب ہے وہ ہماری کتاب نہیں۔تو پھر میں ان سے کہتا ہوں کہ تم نے اس کو بائیبل کے ساتھ کیوں جوڑا ہوا ہے۔ تو کہتے ہیں اس میں حضرت عیسیٰؑ کے باپ دادا کے قصے اور کہانیاں ہیں۔ تو پھرمیں ان سے کہتا ہوں کہ خود حضرت عیسیٰؑ بھی تو یہودی تھے۔ تو کہتے ہیں کہ یہودی نے خدا کی بتائی ہوئی راہ پے چلنا چھوڑ دیا ہے ۔ وہ انہیں سیدھا راستہ دکھانے آئے تھے۔ اب نیا عہد نامہ بھی خود حضرت عیسیٰؑ نے خود نہیں لکھا بلکہ ان کے حواریوں یا پیروکاروں نے لکھا ہے۔ جس میں حضرت عیسیٰؑ کی حالاتِ زندگی بیان کی گئی ہے۔ سارے کے سارے ایک دوسرے سے مختلف بات کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارے صحا ستیٰ یعنی حدیث نویسوں کا آپس میں اختلاف ہے‘‘۔
’’ویسے میکائل حلال اور حرام کا منطق کیا ہے‘‘۔
’’دیکھو سیدھی سی بات ہے۔ پرانے دور میں انسان جنگلیوں کے طرح رہتے تھے۔ جانوروں کاخون پیتے تھے۔اب یہودیت نے جب ایک خدا کا تصور پیش کیا تو جانوروں کے بارے میں بھی سوچنا شروع کیا۔ ان کا خون بہا کر کھانا چاہیئے۔ یہودی دنیا کی پہلی قوم ہیں جنہوں نے حلال گوشت کا نظریہ پیش کیا۔ یعنی جانوروں کو بیدردی سے نہ مارا جائے بلکہ ان کو بہت پیار سے حلال کرنا چاہیئے۔ اب حلال کرنے کا جو طریقہ رائج ہے ۔اس میں مسلمان اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہتے ہیں یعنی خدا کی بڑائی بیان کرتے ہیں اور جانور کے گلے پے چھری پھیرتے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا سارا خون بہنے کا انتظار کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی یہودی بھی کرتے تھے اور کرتے ہیں لیکن عیسائی خون سمیت گوشت کھاتے ہیں۔ ورنہ بائیبل میں اس کی ممانعت ہے۔ عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ۔وہ بغیر خون کے گوشت کھاتے ہیں۔ وہ بھی اسے حلال گوشت کہتے ہیں۔ ہمارے علاوہ یہودی حلال گوشت کھاتے ہیں۔ یہودی تو مذہب کے معاملے میں اتنے سخت ہیں کہ وہ آٹے میں خمیر اور نمک کا استعمال نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں جس طرح خدا نے ہمیں گندم دی ہے ہم اس میں کسی چیز کی اضافت کے بغیر کھائیں گے۔ نہ صرف پورے یورپ میں بلکہ پوری دنیا میں جہاں بھی یہودی رہتے ہیں ان کے لیئے آزیموں(
azzimo) روٹی اسرائیل سے بن کرآتی ہے۔ اس کے ڈبے پے عبرانی زبان میں لکھا ہوتاہے ک یہ آزیموں روٹی ہے اور خاص طور پہ یہودیوں کے لیئے بنائی گئی ہے۔ اس میں نمک اور خمیر کی آمیزش نہیں کی گئی۔ یہودی اسے حلال روٹی تصور کرتے ہیں یا کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ان کے ہاں حلال کپڑا، صابن،شیمپو،اور نہ جان کیا کیا بنایاجاتا ہے‘‘
’’ویسے میکائل یہ تو انتہا پسندی کی انتہا ہے۔ ویسے آپ کے خیال میں ہم یا یوں کہہ لیجئے کہ مسلمان سؤر کا گوشت کیوں نہیں کھاتے‘‘۔
’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قران میں اسے کھانے سے منع کیا ہے گیا۔ ایک سچے مسلمان کے لیئے اتنا ہی کافی ہے اگر وہ اللہ کی راہ پے چلتا ہے تو اسے بنا کسی وجہ کو جانے سؤر کا گوشت نہیں کھانا چاہیئے۔ اگر منطق کی بات کی جائی تو اس کا جواب مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء کے پاس بھی نہیں۔ مسلمان بناکوئی وجہ جانے سؤر کے گوشت کو حرام تصور کرتے ہیں۔ انہیں تو سؤر کی شکل بھی بہت بری لگتی ہے۔ میں ایک دفعہ لندن کی ایک بڑی مسجد کے ایک امام کے پاس گیا اور ان سے پوچھا، محترم یہ اسلام میں سؤر کا گوشت کھانے کی کیوں ممانعت ہے۔ تو کہنے لگے بھئی گندا جانور ہے۔ اس کی شکل بھی بری ہے۔اس لیئے اسلام میں ایسا کوئی بھی جانور جو گندا ہو وہ حرا ہے۔ تو میں نے کہا، جناب بھینس اور گائے بھی تو اپنے گوبر میں پاؤں مارتی ہیں۔ وہ گندے جانور نہیں۔تو وہ محترم کہنے لگے،جناب اسلام میں اس گندے جانور کو کھانا منع ہے آپ دیگر کئی حلال جانور ہیں ان کو کھا سکتے ہیں۔ ایک سؤر کا گوشت نہ کھایا تو کون سی قیامت آجائے گی۔ میں ان کی اس دلیل سے (جو کہ دلیل نہیں تھی بلکہ زبردستی تھوپنے والی بات تھی)قائل نہ ہوا۔ ویسے اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گا۔ سب سے پہلے یہودیت میں منع کیاگیا۔اس کے بعد عیسائیوں میں اس کو منع کیا گیا(گو کہ بعد میں اس کا کھانا جائز قرار دے دیا گیا)۔ آخر میں مسلمانوں نے یہودیوں کی بہت ساری باتوں کی تائید کرتے ہوئے سؤر کے گوشت کو بھی حرام قرار دے دیا۔ اب چونکہ تمام پیغمبر عرب ممالک میں اترے ہیں۔ قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ عرب ممالک میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ وہاں ایسے تمام جانوروں کو کھانے سے منع کیا گیا جو اس موسم کے مطابق نہیں۔ سؤر کے گوشت میں چونکہ چربی زیادہ ہوتی ہے اور اس کی افزائش بھی بہت جلد ہوتی ہے،اس لیئے گرم ممالک میں اس کا گوشت کھانا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔اگر کچھ پیغمبر یا حضرت موسیٰؑ یا حضرت عیسیٰؑ کسی سکینڈینیوین ملک میں پیدا ہوتے یا سائیبیریا میں پیدا ہوتے تو شاید سؤر کا گوشت کبھی بھی حرام نہ ہوتابلکہ عین عبادت ہوتا۔ اب پرانے زمانے میں ریفریجریٹر تو ہوتے نہیں تھے کہ اس میں سؤر کا گوشت رکھ دیا جاتا۔ کیونکہ گرم ممالک میں نہ صرف سؤر کا گوشت بلکہ تمام قسم کے بڑے جانوروں کے گوشت بڑی جلدی خراب ہوجاتے ہیں۔ اب تم نے غور کیا ہوگا ہندو گائے کا گوشت نہیں کھاتے۔ اب گھوڑے کو دیکھ لو ۔اس کا گوشت حرام نہیں لیکن مسلمان اس کا گوشت نہیں کھاتے کیونکہ پرانے وقتوں میں نقل و حمل میں جنگ میں اور سفر کے لیئے استعمال ہوتا تھا۔ اب عرب لوگ(میں امیر عرب لوگوں کی بات کررہاہوں) ان گھوڑوں پے جواء کھیلتے ہیں۔ اور اپنی رقوم سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں رکھتے ہیں۔بیل گائے بھینس بھی استعمال کے جانور ہیں۔ بھیڑ بکریاں اور مرغی کا گوشت بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ سوچو اگر مرغی کا گوشت اسلام میں حرام ہوتا تو مسلمان کیا کرتے۔ ہمارے مولوی تو بھوکے مرجاتے‘‘۔
یہ سننا تھا کہ ظہران نے قہقہا لگایا،
’’ویسے میکائل یہ جو آئے دن ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ سؤر کا گوشت اسلام میں منع ہے اور اب تو میڈیکل سائنس نے بھی اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اس کا گوشت انسانی صحت کے لیئے مْضِر ہوتاہے‘‘
’’یہ جو تم اخباروں میں پڑھتے ہو نا کہ اس کا گوشت صحت کے لیئے اچھا نہیں۔ تو سنتے چلو تمام بڑے جانوروں کا گوشت صحت کے لیئے اچھا نہیں ہوتا۔ اور جو ڈاکٹر اس طرح کے بیان دیتے ہیں ان کو خرید لیا جاتا ہے۔ وہ پیسوں کی خاطر گول مول بیان دیتے ہیں۔اس طرح مسلمان بھی خوش ہوجاتے ہیں اور سائنس کی لاج رہ جاتی ہے۔ جس طرح تم کبھی کبھی سنتے ہو سگرٹ پینا صحت کے لیئے مْضِر نہیں بلکہ اچھا ہوتا ہے۔ تو اس میں سائنس کا کوئی کمال نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر انسان کے پھیپھڑوں پے منحصر ہے۔ جس کے پھیپھڑوں میں زیادہ مذاہمت ہوتی وہ زیادہ عرصہ سگرٹ پی سکتا ہے ۔یہی حال شراب کا بھی ہے۔ آپ کا جگر مضبوط ہونا چاہیئے۔ ویسے کثرت ے کوئی بھی چیز استعمال کریں تو وہ آپ کو نقصان پہنچاتی ہے‘‘
’’میکائل یہ تو میں نہیں جانتا کہ میں ایک اچھا مسلمان ہوں لیکن جس طرح کے مسلمان آج کل پائے جاتے ہیں اس طرح کا مسلمان میں نہیں بننا چاہتا‘‘
’’دیکھو ظہران تم ایک ذہین لڑکے ہو۔ میرے نزدیک تم ایک اچھے انسان ہو اور کوشش کرو کہ مزید اچھے انسان بن سکو۔ اس دنیا کے کام آسکو۔ میں آج تمہیں تو کیا ،کسی کو بھی اپنے نظریئے پے چلنے کی تبلیغ نہیں کی۔ تم سے اس لیئے کْھل کے بات کرتا ہوں کیونکہ تمہارے اندر تجسس بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ تمارے اندر سننے کی ہمت بھی ہے۔ ورنہ تو الہان اور عمارہ نے مجھے کب کا واجب القتل قرار دے دیا ہے‘‘۔
’’یہ آپ کو کیسے پتا چلا‘‘
’’بس کہیں نا کہیں سے خبر مجھ تک پہنچ جاتی ہے‘‘
’’میکائل مجھے اجازت دیں‘‘
’’ہاں‘‘
میں ان کو خدا حافظ کہا اور گھر کی راہ لی۔
**************
جب ظہران گھر پہنچا تو اس کے کپڑے کچھ کچھ بھیگ چکے تھے۔اس نے جیسے ہی دالان میں قدم رکھا تو اس کی ماں کی آواز آئی
’’آگئے ظہران بیٹا‘‘
’’جی امی‘‘
’’بیٹا اتنی زوروں کی بارش تھی۔ کیسے آئے‘‘
’’امی وہ الہان چھوڑ کرگیا ہے۔ میں اپنی موٹر سائیکل کالج ہی چھوڑ آیا ہوں‘‘
’’چلو ٹھیک ہے ۔تم کپڑے بدل لو ،میں کھانا لگاتی ہوں‘‘
’’امی میں پہلے نہاؤں گا ۔پھر کپڑے بدلوں گا۔اس کے بعد آپ مجھے چائے بنا کے دیجئے گااور ساتھ پکوڑے بھی‘‘
’’اچھا بیٹا جیسے تمہاری مرضی، ویسے کھانا کھاتے تو زیادہ بہتر ہوتا‘‘
ظہران نہا دھو کر کپڑے بدل کر ڈائیننگ روم میں آیا۔میز پے پکوڑے،سموسے،کیچپ اور میونیزسجی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ گرم گرم چائے بھی۔
’’امی آج بہت بارش ہورہی ہے۔ لگتا ہے نالہ لئی بھر جائے گا۔کتنے ہی غریب لوگوں کے گھر ڈوب جائیں گے‘‘
’’ہاں بیٹا‘‘
یہ دونوں ماں بیٹا پکوڑوں ،سموسوں اور چائے سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کررہے تھے ۔جب چائے اور پکوڑوں سے ظہران کو فرصت ملی تو اس نے ماں سے پوچھا،
’’امی میرا کوئی خط تو نہیں آیا‘‘
اس کی ماں نے اس کے ہاتھ میں ایک خط تھما دیا اور کہا، ’’میں نے تمہیں پہلے اس لیئے نہیں دیا کیونکہ تم خط کھول کر اس کو پڑھنے بیٹھ جاتے اور کھانے پینے کو بھول جاتے‘‘
ظہران نے خط ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا، ’’امی آپ بھی نا‘‘
ظہران خط لے کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ خط کے اوپر جو ٹکٹ چسپاں تھے ان پے انگلستان کی ملکہ کی فوٹو
بنی ہوئی تھی اور ہینڈ رائیٹنگ پروفیسر میکائل کی تھی۔اس نے جلدی جلدی خط کھولا۔ تین لائنوں میں صرف اتنا لکھا ہوا تھا
’’ظہران میں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے کیونکہ میرا پاکستا ن میں رہنا دشوار ہوگیا تھا‘‘
اس رقعے پے ان کا فون نمبر، ایڈرس اور ای میل آئی ڈی لکھی ہوئی تھی۔
************
sarfraz baig

No comments:

Post a Comment