Sunday, April 24, 2011

OHAM PRASTI (ILL BELIEVING)




اوہام پرستی
سورۃ فاتحہ، یہ سورۃ قرآن کی وہ سورۃ ہے جس کے کئی نام ہے۔ اس سورۃ میں سات آیتیں، ستائیس کلمے اور ایک سو چالیس حروف ہیں۔ اس کو سورۃ الحمد بھی کہتے ہیں اور یہ مکہ میں اتری۔
ہم مسلمان ہر کام شروع کرنے سے پہلے بِسمِ اللہِ الرَّحمنِ الرَّحِیمِ پڑھتے ہیں ۔یعنی ب اسم یعنی اللہ کے نام کے ساتھ لیکن عربی میں بسم اللہ لکھتے ہوئے الف کو گرا دیا جاتا ہے اس لیئے بسم اللہ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہو جو بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ انشائ پردازی کی زبان میں ایک بات کو دو لفظوں سے بیان کرنا جن کا ایک ہی مطلب ہو اسے تکرار لفظی کہتے ہیں۔ یعنی خدا کو رحمن اور رحیم کہا گیا ۔رحیم تو تمام امتِ مسلمہ کے لیئے ہے اور رحمان وہ کل کائنات کے لیئے ہے۔ یعنی ہم اس پاک ذات کے نام سے شروع کرتے ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے لیئے رحمان ہے بلکہ دیگر مخلوقات کے لیئے رحیم بھی ہے۔
سب خوبیاں اللہ پاک کے لیئے جو تمام کائنات کا پالنے والا ہے۔ سورۃ میں رب العالمیں لکھا گیا ہے یعنی عالم جمع کے طور پے استعمال ہوا ہے۔ رب پالنے والا، اور ایک عالم کو پالنے والا نہیں بلکہ تمام عالموں کو پالنے والا۔ کائنات ایک نہیں بلکہ کائیناتیں ہیں۔ اس دور کا سب سے بڑٓا ریاضی دان طبیائ دان  اپنی کتاب A BRIEF HISTORY OF TIME(  STEPHEN   HAWKINGS)                                     
  میں لکھتا ہے کہ کائناتوں کی تعداد لامتناہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی جتنی بھی کائناتیں ہیں ان سب کو پالتا ہے۔ وہ ان سب چیزوں کے لیئے رحمن بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ جو بدلے کے دن کا مالک ہے۔ یعنی ہم زندگی میں جو بھی اچھا برا کرتے ہیں اس کی سزا یا جزا ہمیں وہی دے گا۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی مدد مانگتیں ہیں۔ یعنی ہم یہ دعا کررہے ہیں اور اس بات کو ما ن رہے ہیں کہ ہم اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ایسا راستہ جس پے چل کے ہم بدلے کے دن تیرے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ ہمیں اس راستے سے بچا جو بھٹکے ہوئے لوگوں کا راستہ ہے یعنی جن سے تو ناخوش ہوا۔
سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ کے صاف سمجھ آتا ہے کہ اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور سے مانگنا اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنا ہے اور شرک اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ قرآن کی ساری آیتوں میں جس چیز سے سختی سے اور زیادہ منع کیا گیا ہے وہ شرک ہے اس کے بعد یتیم کا مال کھانا اور تیسرا کسی باعصمت عورت پے بنا ثبوت کے الزام لگانا لیکن شرک کا ذکر سب سے زیادہ آیا۔ جب انسان کا اللہ کی ذات پے ایمان کمزور ہوجاتا تو وہ راستے سے بھٹک جاتا ہے اور اس  کی زندگی ایک ایسا ریموٹ کنٹرول بن جاتی ہے جس میں سیل نہیں ہوتے یا سیل ہوتے ہیں لیکن وہ ٹھیک طریقے سے ڈلے نہیں ہوتے۔ پھر انسان پیسے کے بل بوتے پے پیروں فقیروں کو یورپ کے ٹور کرواکے اللہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو خود اللہ تعالی کے محتاج ہیں ۔یا طاہرالقادری اور ذاکر نائیک جیسے لوگوں کی تقریروں میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور ان کا پیروکار بن جاتا ہے جو اپنی سیاست اور شہرت کو چمکانے کے لیئے یورپ کے چکر لگاتے ہیں۔ پھر مذہبی تقاریب میں انکے پیروکار یہ کہتے پھرتے ہیں کہ روزِقیامت طاہر القادری یا ذاکر نائیک کے جھنڈے کے نیچے جگہ دینا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ میں کیا پڑھا تھا۔ اگر دعا ہی کرنی ہے تو یہ کہیں کہ ہمیں روزِ قیامت حضرت محمدؑ کے جھنڈے تلے جگہ دینا۔ ایسے لوگ مدد کے لیئے منسٹروں کے پاس جاتے ہیں، پیرو کے پاس جاتے ہیں، فقیروں کے پاس جاتے ہیں، ایسی ٹی وی کے پیدا کیئے ہوے مولویوں کے پاس جاتے ہیں لیکن وہ سورۃ فاتحہ کو بھول جاتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی مدد مانگتے ہیں۔ فجر کی نماز میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ اس کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ ہم چار دفعہ پڑھتے ہیں۔ ظہر کی نماز میں بارہ رکعتیں ہوتی ہیں ۔اس میں ہم سورت فاتحہ بارہ دفعہ پڑھتے ہیں۔ عصر کی نماز میں آٹھ رکعتیں ہوتی ہیں لیکن عام طور پے لوگ چار فرض ہی پڑھتے ہیں ۔اس طرح اگر ہم آٹھ رکعتیں پڑھیں تو ہم آٹھ دفعہ سورت فاتحہ پڑھتے ہیں۔ مغرب کی نماز میں سات رکعتیں ہوتی ہیں۔ یعنی ہم سات دفعہ سورت فاتحہ پڑھتے ہیں۔ عشائ کی نماز میں سترہ رکعتیں ہوتی ہیں۔ یعنی ہم سترہ بار سورت فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ہم اڑتالیس بار ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہمیں وہ راستہ دکھا جن پے تونے اپنا کرم کیا نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن سے تو ناخوش ہوا ۔ اس کا مطلب ہے ہم بغیر سیلوں والا ریموٹ کنٹرول ہیں جو کسی کام کا نہیں ہوتا۔
سرفراز بیگ اریزو

No comments:

Post a Comment