Monday, April 18, 2011

لیوناردو دا ونچی
15 April 1452 Vinci 2 May 1519 Indreloire France
اٹلی کا یہ مشہور مصور اٹلی کے مشہور ریجن ٹسکن کے ایک چھوٹے سے گاؤں ونچی میں پیدا ہوا جو فلورنس اور ایمپولی کے درمیان ہے۔ اس کا باپ اپنے دور کا مشہور نوٹری پبلک افسر تھا اور امیر آدمی تھا۔ دا ونچی کی ماں سے اس نے شادی نہیں کی تھی اس لیئے دا ونچی کو خاندان کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی اس لیئے دا ونچی نےکا نام لیوناردو دی سیر پیارو کے بجائے لیوناردو دا ونچی تھا کیونکہ وہ ونچی میں پیدا ہوا۔ دا ونچی کے باپ نے چار شادیاں کیں۔
  ابتدائ زندگی میں دا ونچی نے ریاضی، الجبرہ، لاطینی اور تھوڑی بہت مذہبی تعلیم حاصل کی۔ جب دا ونچی کی عمر تیرہ سال ہوئی تو اس کے باپ نے اس کو اس دور کے مشہور پینٹر اندریائ دل چیوونے جو کہ مصوری کی دنیا میں ویروکیو کے نام سے جانا جاتا ہے کی ورکشاپ میں ڈال دیا۔ قرونِ وسطیٰ میں اس طرح کی ورکشاپ کو بوتیگا کہا جاتا تھا عرفِ عام میں بوتیگا دوکان کو کہتے ہیں۔ دا ونچی نے مصوری میں بہت زیادہ دلچسپی دکھائی۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ دا ونچی نے ایک مصوری میں اپنے استاد کی مدد کی۔ دا ونچی نے اتنا اچھا کام کیا کہ اس دن کے بعد دا ونچی کے استاد نے مصوری سے توبہ کرلی۔ وروکیو کی بوتیگا میں دا ونچی کے ساتھ بوتیشیلی، گرلندایاو (مائیکل اینجلو کا استاد) اور پیروجینو بھی مصوری سیکھنے آیا کرتے تھے۔ دا ونچی نے کچھ عرصہ کام کر نے کے بعد اپنی بوتیگا کھول لی۔
دا ونچی دنیا کے سو نہیں بلکہ دس بہترین انسانوں میں شمار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ،موسیقار، مصور، آرکیٹیکٹ، مجسمہ ساز،سائنسدان، موجد،ریاضی دان، انجینیئر، بوٹنسٹ، اناٹومسٹ اور نقشہ نویس تھا۔ وہ اپنے دور کا جینیئس تھا۔ اس کے بارے میں لکھنا وہ بھی ایک آرٹیکل میں سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ دا ونچی نے فلورنس، بلونیا، وینس، روم اور میلانو میں کام کیا۔ اور آخر میں فرانس کا بادشاہ اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر ہوا کو وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ دا ونچی نے اپنے زندگی کے آخری ایام ونہی گزارے۔
ویسے تو داونچی نے بہت کام کیا لیکن ،اس نے ہیلی کوپٹر بنانے کا ڈیزائن بنانا، لفٹ کا مکمل ڈیرائن بنایا لیکن اس میں ایک خامی تھی یا خوبی کہہ  لیجئےے کہ وہ ایک ہی وقت میں کئی کام کرتا تھا۔ اس لیئے وہ کئی کام ادھورے چھوڑ دیتا تھا۔ وہ چیزوں کی صحیح تصاویر بنانے کےلیئے اپنی بوتیگا میں چھپکلیاں، سانپ اور دیگر اس طرح کی چیزیں لے آیا کرتا۔ وہ انسانی جسم کواندر سے جاننے کے لیئے اتنا متجسس تھا کہ کئی کئی کاریجی ہسپتال میں مریضوں کے جسم کا معائنہ کیا کرتا۔ اس کی بنائی ہوئی ڈرائنگز آج بھی آناٹومی کے طالبعلموں کے کام آتی ہے۔ اس مضمون میں ہم دا ونچی کے مشہور پینٹنگ مونا لیزا کے بارے میں لکھیں گے۔ ویسے تو لاسٹ سپر جو میلانوں کے چرچ میں ہے وہ بھی ماسٹر پیس ہے،اسکے علاوہ انگیاری کی جنگ جس میں اس نے انسانی چہرے کے تاثرات بہت خوبصورتی سے دکھائے ہیں، لیکن مونا لیزا وہ پینٹنگ ہے جو دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی پینٹنگ ہے۔
مونا لیزا
یہ مشہور پینٹنگ دا ونچی نے چارسال میں مکمل کی۔ دا ونچی نے1501  میں اسے شروع کیا اور 1504 میں اسے مکمل کیا اور مصوری کےناقدوں کا خیال ہے کہ تصویر دا ونچی نے نامکمل ہی چھوڑ دی تھی۔ مونا لیزا کا اصل نام مونا لیزا جیراردینی تھا اور یہ ناپولی کی رہنے والی تھی۔ جب اس کی شادی فلورنس کے سلک مرچنٹ فرانچیکسو دل جوکوندا سے ہوئی تو اس کا نام مونا لیزا دل جوکوندا ہوگیا۔ فرانچیسکو نے اپنے بیوی کو خوش کرنے کے لیئے اس دور کے مشہور مصور لیوناردی دا ونچی کی خدمات حاصل کیں۔ دا ونچی پینٹنگ بنانے کے دوران بہت قیمتی کپڑے پہنا کرتا اور مصوری کے دوران وہ میوزک کا بھی انتظام کیا کرتا ۔ مونا لیزا کی تصویر بناتے ہوئے اس نے اس عورت کی اداسی کو مسکراہٹ کی صورت میں ظاہر کیا کیونکہ یہ لڑکی اتنے امیر آدمی کی بیوی ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بیٹی فوت ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مونالیزا اداس رہنے لگی تھی۔ اس تصویر کے پیچھے اریزو شہر کے پاس بہنے والے دریاں کو پس منظر کے طور پے پیش کیا گیا ہے۔ ناقد کہتے ہیں کہ دا ونچی اس تصویر کو بناتے ہوئے خود کو بھی زہن میں رکھتا تھا۔ اس نے مونا لیزا کی بھنویں نہیں بنائیں۔ قرون وسطیٰ میں یہ فیشن کا حصہ تھا کہ امیر گھروں کیی لڑکیاں اپنی بھنویں اتنی باریک کرلیتی تھیں کہ نظر ہی نہیں آتی تھی۔ جب یہ تصویر مکمل ہوگئی تو دا ونچی نے یہ تصویر فرانچیسکو دل جوکوندا کو دینے سے انکار کردیا اور اس سے یہی کہا کہ تصویر مکمل ہی نہیں ہوئی اور یہ مصوری کا نادر نمونہ وہ فرانس اپنے ساتھ لے گیا اور فرانس کے بادشاہ کو تحفے کے طور پے دے دی۔ وقت گزرتا رہا اور آخرکار اسے فرانس کے مشہور میوزیم میوزے دی لووغ میں سجا دیا گیا۔ لیکن 1919 میں ایک اٹالین چور نے اسے فریم سے کاٹ کے نکال لیا اور آکر فلورنس کے تاجر کو بیچ دی۔ بعد میں فرانس نے وہ تصویر منہ مانگی قیمت دے کر واپس میوزے دی لووغ میں سجا دی۔ آج یہ تصویر میوزے دے لووغ کے سلون کارے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اصل تصویر لاکر میں پڑی ہوئی ہے اور اس کی کاپی لگی ہوئی ۔لیکن میوزیم کی انتظامیاں نے اس کے آگے شیشہ لگایا ہوا ہے کیونکہ کچھ لوگ ستاندال سینڈروم کے مریض ہوتے ہیں وہ تصویر کے اندر جانے کی کوشش کرتے ہیں 
Sarfraz baig
arezzo

No comments:

Post a Comment