Saturday, August 31, 2013

acha lagta hay, achi lagti hay, sarfraz baig, اچھا لگتا ہے، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ


اچھا لگتا ہے

کسی کے پیار میں، دیوانگی میں
خود کو برباد کرنا اچھا لگتا ہے

کسی کی یاد میں، سوچ میں
خود کوگم رکھنا اچھا لگتا ہے

کسی کے ہجر میں، فراق میں
خود کو تڑپانا اچھا لگتا ہے

کسی کی آنکھوں میں، دل میں
خود کا ڈوبنا اچھا لگتا ہے

کسی کی رات میں، اندھیرے میں
خود کو روشن کرنا اچھا لگتا ہے

کسی کے زہر میں، وش میں
خود کا تریاق بنا اچھا لگتا ہے

کسی کے پَتر میں،تحریر میں
خود کو ڈھونڈنا اچھا لگتا ہے


کسی کے درد میں، کرب میں
خود کا مرہم بننا اچھا لگتا ہے

کسی دھوپ میں، گرمی میں
خود کا چھاؤں اچھا لگتا ہے

کسی کی آزادی میں،رہائی میں
خود کو پابندِسلاسل کرنا اچھا لگتا ہے

کسی کی خوشی میں شادمانی میں
خود کو اداس کرنا اچھا لگتا ہے

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۴۔۱۷ لنڈن



اس کا کیا حال ہے، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، us ka khiyal hay, achi lagti hay, sarfraz baig




اس کا کیا حال ہے

صبح جب سورج کی پہلی کرن
کھڑی سے داخل ہوئی
کہنے لگی،’’اس کا کیا حال ہے‘‘

صبح جب میں نے آئینہ دیکھا
میری جھلک دیکھتے ہی
کہنے لگا، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘

صبح گھر سے نکلتے ہوئے
در و بام چونکے، حیران ہوئے
کہنے لگے، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘

صبح جب سج بن کے خود کو دیکھنے لگا
میرا دل مجھ پہ حیران ہوا
کہنے لگا، ’’اس کا کیاحال ہے‘‘

اک مترنم غزل سنتے ہی
دل کے تار بج اٹھے اور
کہنے لگے، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘



چمن سے گزرتے ہوئے سارے گل بوٹے
میری سج دھج دیکھ کے چونکے
کہنے لگے، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘

میں نے اپنے کانوں سے
پرندوں کو سرگوشیاں کرتے سنا
کہنے لگے ’’اس کا کیا حال ہے‘‘

ا کے درد کو، کرب کو
کسک کو،جدائی کو،نم آنکھوں میں دیکھا
کہنے لگیں، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۳۔۲۸ لنڈن

tum aye ho, achi lagti hay, sarfraz baig,تم آئے ہو، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



تم آئے ہو

درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر
جب سورج کی کرنیں نکلتی ہیں
ایسا لگتا ہے کہ تم آئے ہو

پربتوں کے سینے پے بل کھاتے
ندی نالے جب شور کرتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ تم آئے ہو

باغوں میں بہا رکے موسم میں
کوئلیں جب کْوکتی ہیں
ایسا لگتا ہے تم آئے ہو

برسات کے دنوں میں، گدلے پانیوں میں
جب پپیہے بولتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ تم آئے ہو

سرد راتوں میں خامشی میں
جب تنہائی مجھ سے ملتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ تم آئے ہو

گرمیوں میں پسینے سے شرابور بدن پے
جب ٹھنڈی ہوا ٹکراتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ تم آئے ہو

جب کبھی میں اداس خیالوں میں گم ہوتا ہوں
کوئی آکے مجھے چھوتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تم آئے ہو

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۳۔۱۶ لنڈن

پردیس، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، pardes, achi lagti hay, sarfraz baig



پردیس

پردیس میں جب چاند نکلتا ہے
دیس کے چاند کی یاد آتی ہے

پردیس میں جب خورشید چمکتا ہے
دیس کے خورشید کی یاد آتی ہے

پردیس میں جب اپسرائیں نکلتی ہیں
دیس کی مٹیاریںیاد آتی ہیں

پردیس میں جب ریستوران نظر آتے ہیں
دیس کے ڈھابے یاد آتے ہیں

پردیس میں جب کرسمس آتی ہے
دیس کی چاند رات یاد آتی ہے

پردیس میں جب بہار آتی ہے
دیس کی بسنت یاد آتی ہے

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۳۔۱۰ لنڈن

des, achi lagti hay, sarfraz baig, دیس، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



دیس

دیس میں جب چاند نکلتا ہوگا
وہ بھی چلمنوں سے دیکھتی ہوگی

دیس میں جب ہوا چلتی ہوگی
وہ بھی اپنی کاکلیں سنوارتی ہوگی

دیس میں جب سورج چمکتا ہوگا
وہ بھی سایہ تلاش کرتی ہوگی

دیس میں جب ساون آتا ہوگا
وہ بھی آنکھوں سے رم جھم جاری کرتی ہوگی

دیس میں جب بہا رآتی ہوگی
وہ بھی پھول کی طرح کھلتی ہوگی

دیس میں جب بسنت آتی ہوگی
وہ بھی پتنگ بن کے اڑتی ہوگی

دیس میں جب خزاںآتی ہوگی
وہ بھی مرجھا جاتی ہوگی


دیس میں جب سخت گرمی پڑتی ہوگی
وہ بھی کملا جاتی ہوگی

دیس میں جب کوئی ناری سہاگن بنتی ہوگی
وہ بھی سوچ میں گم ہوجاتی ہوگی

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۳۔۰۹ لنڈن


تخیل، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، takhayul, achi lagti hay, sarfraz baig


تخیل

اے سورج اپنی تمازت کم کرو
میرے محبوب کی آنکھیں خیراں ہوجاتی ہوں گی

اے ہواؤ اپنی رفتا کم کرو
میرے محبوب کی زلفیں بکھر جاتی ہوں گی

اے بادِباراں اپنی تیزی کم کرو
میرا محبوب بھیگ کر عریاں ہوجاتا ہوگا

اے پتو اپنے شور کو کم کرو
میرے محبوب کی سوچ ٹوٹ جاتی ہوگی

اے پریشان سوچو مت آؤ
میرا محبوب میرا بارے میں سوچتا ہوگا

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۳۔۰۹ لنڈن

dastan e ishq, achi lagti hay, sarfraz baig, داستانِ عشق، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



داستانِ عشق

میں تو اکیلا تھا
زندگی کا میلا تھا
اکیلا ہی رہتا تھا
وقت کا ریلا تھا
پہلے پہل تم ملے
مجھے کچھ پتا نہ تھا
تم میرے دل میں
دھیرے دھیرے اتر گئے
مجھے یہ خبر نہ تھی
یہ پیار کی فصل تھی
وہ بیج پیار کے
مٹھاس کے پودے بنے
ان سے رس نکلتے ہی
میرا دل مچل گیا
پھر مجھے پتا چلا
پیار کامریض ہوں
میں خوشی سے ناچتا
گاتا،جھومتاکِھل اٹھا
پھر مجھے پتا چلا
کانٹوں بھری راہ ہے
پھر بھی میں اس پر
چلا جارہا ہوں
اب میں اکیلا نہیں
میرے ساتھ وہ بھی ہے
میں اور وہ مل کر
چلتے جارہے ہیں
ہمارا کیا انجام ہے
اس کاپتا نہیں
کہتے ہیں امید پر
دنیا ساری قائم ہے
جب تلک جہان ہے
پیار ہمارا دائم ہے

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۲۔۲۵ لنڈن