Sunday, August 25, 2013

kash, achi lagti hay, sarfraz baig, کاش، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ




کاش

بادل کتنے خوبصورت ہیں
خاکی،مٹیالے،سفید
کاش میں بادل ہوتا
لیکن مجھے برسنے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

پرندے کتنے پیارے ہیں
خوبصورت ،چہچہانے والے، رنگ برنگی
کاش میں پرندہ ہوتا
لیکن مجھے صیاد سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

چاند کتنا خوبصورت ہے
گورا گورا، گول مٹول، ہلال آدھا
کاش میں چاند ہوتا
لیکن مجھے ڈوبنے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

رات کتنی اچھی ہے،پرسکون
تاروں بھری،چاندنی، خنک ہوا
کاش میں رات ہوتا
لیکن مجھے آنے والی صبح سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

ابرِ نیساں اگر موتی بن جائے
کتنا خوش قسمت ہوتا ہے
کاش میں ابرِ نیساں ہوتا، موتی ہوتا
لیکن مجھے بِکنے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

پھول رنگ برنگی، اودے،نیلے،پیلے
پیاری پیاری خوشبو والے
کاش میں پھول ہوتا
لیکن مجھے مرجھانے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے در لگتا ہے

پانی رواں دواں بہتا ہوا
دریاؤں،جھیلوں،چشموں اور سمندروں کا
کاش میں پانی ہوتا
لیکن مجھے خشک ہونے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

عاشقوں کے دل کتنے نازک ہوتے ہیں
خوابوں اور سپنوں کی دنیا میں بسے ہوئے
کاش میں عاشق کا دل ہوتا
لیکن کجھے ٹوٹنے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

انسان کتنے اچھے، مختلف اقسام کے
مذھب، فرقے، ملک، قومیں،ذات پات
کاش میں انسان ہوتا
لیکن مجھے بٹنے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

شیطان بھی ایک ہے
لیکن اس کے کئی روپ ہیں
کاش میں شیطان ہوتا
لیکن مجھے انسانوں سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر لگتا ہے

خدا کتنا اچھا ہے
کائنات کا خالق۔نہ دکھائی دینے والا
کاش میں خدا ہوتا
لیکن مجھے لوگوں کے منکر ہونے سے ڈر لگتا ہے
فنا ہونے سے ڈر نہیں لگتا ہے
کیونکہ خدا لافانی ہے

سرفراز بیگ ۱۹۹۵۔۰۴۔۲۳ پیرس

No comments:

Post a Comment