Friday, August 30, 2013

phool , achi lagti hay, sarfraz baig, پھول، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ




پھول

میں اک پھول ہوں
آج لوگوں کے پاؤں تلے مسلا جارہا ہوں
کبھی میں بھی خوبصورت تھا
جوان تھا
میرے بھی خوبصورت گال تھے
لال لال
گلاب کی اعلیٰ قسم تھا
اور اپنے علاقے کے خوبصورت باغ میں
اک کیاری میں
میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ
کیاریوں میں بہار کے مزے لوٹتا تھا
خوبصورت لڑکیاں مجھے سونگھتی تھیں
اور محظوظ ہوتیں
جوان لڑکے بھی مجھے سونگھتے
اور اپنی محبوباؤں کو
مجھ سے تشبیہہ دیتے
مجھے مسلمان،ہندوؤ، سکھ، یہودی اور عیسائی
سب سونگھتے
میں نے کبھی برا نہیں منایا
ہمارے ہاں تعصب نہیں ہوتا
رنگ، نسل ،قوم کا
اسی طرح ایک دن
ہمارا سودا ہوگیا
میں اور میرے سارے ہم عمر
اس بے دردی سے اکھیڑ دیئے گئے
جیسے کسی کو قتل کی سزا دی گئی ہو
پھر ہمیں بڑے بازار میں بیچ دیا گیا
یہ پھولوں کی دوکان تھی
جس پر ایک کتبہ آویزاں تھا
جس پر مندرجہ بالا تحریر لکھی تھی
’’ہمارے ہاں تازپھولوں کی تمام اقسام پائی جاتی ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیئے ہم سے رجوع کریں۔ نیز فوتگی اور چہلموں کے لیئے بھی۔ اور بازار مخصوصہ کے لیئے گجرے بھی دستیاب ہیں‘‘
مجھے پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی
شادی کے لیئے
ماتم کے لیئے
رنڈی کے کوٹھے کے لیئے
ہندوؤ کے لیئے
مسلمان کے لیئے
سکھ کے لیئے
کرسٹان کے لیئے
یہودی کے لیئے
سب کے لیئے
پھول کام کی چیز ہیں
یعنی میرے اندر کوئی تفریق نہیں
لیکن یہ انسان
اشرف المخلوقات ہوکے
پھر بھی ایک دوسرے کے کام نہیں آتا
پھر میں پھول اچھا ہوں
جی کے بھی کام آتا ہوں
مر کے بھی کام آتا ہوں
پھول

سرفراز بیگ ۱۹۹۷۔۰۸۔۲۷ لنڈن







No comments:

Post a Comment