Friday, August 23, 2013

سرد راتیں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، sard ratein, achi lagti hay, sarfraz baig



سرد راتیں

سرد راتوں میں آرام سے سوتا ہوں
سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں دالانوں میں سوتا ہوں
لوگوں کو سگے لیلیٰ پے ترس آتا ہے
میں گلیوں کے آوارہ کتوں پے روتا ہوں
کتنے ہی لوگ بینک روڈ پے سوتے ہیں
آوارہ کتے سردی سے بھونکتے ہیں
سرد راتوں میں آرام سے سوتا ہوں
سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں دالانوں میں سوتا ہوں

ایک بنگالی بابو انتہائی جرأت مندچائے پیتا ہے
بے شمار بچے بھیک مانگتے ہیں ،لوگ سبز چائے پیتے ہیں
ایک ایرانی مسافرت سے تنگ آکر سگرٹ مانگتا ہے
سرد راتوں میں آرام سے سوتا ہوں
سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں دالانوں میں سوتا ہوں

پاکستان میں سڑکیں اور پل بنتے ہیں
سیاست کے کارخانے میں غریبوں کی تقدیر بنتی ہے
کبھی لگتا ہے سارا ملک بھکاری ہے
کوئی ووٹ مانگتا ہے، کوئی نوٹ مانگتا ہے
شاید ہمیں ’’ایڈز‘‘ ہوگئی ہے
سرد راتوں میں آرام سے سوتا ہوں
سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں دالانوں میں سوتا ہوں

انسانیت کا نام لینے والے سوشلسٹ ہیں
کوئی جوتوں ی دوکان کرتا ہے۔کوئی افسانہ نگار ہے
کوئی شاعر ہے ۔کوئی روزنِ زنداں سے دیکھتا ہے
سرد راتوں میں آرام سے سوتا ہوں
سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں دالانوں میں سوتا ہوں

خدا اپنی نیلی چھتری سے اپنی مخلوق کو دیکھتا ہے
تڑپتی سسکتی انسانیت اسے بہت بھاتی ہے
ظالم اور مظلوم اسی کے بنائے ہوئے ہیں
اپنی تفریح کے لیئے شیطان کا وجود بنایا
سرد راتوں میں آرام سے سوتا ہوں
سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں دالانوں میں سوتا ہوں

سرفراز بیگ ۱۹۹۲۔۱۱۔۲۲ راولپنڈی اس نظم کا کچھ حصہ سوات کے ہوٹل پامیر میں لکھا گیا

No comments:

Post a Comment