Sunday, August 25, 2013

yadein aur khawab, achilagti hay, sarfraz baig, یادیں اور خواب، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ




یادیں اور خواب

خطوں میں اپنا جیون
دفن کر کے سو رہا ہوں
پرانی یادوں کے عکس
اپنے شعور سے مٹا رہا ہوں
آدھی رات کو
گھبرا کر اٹھتا ہوں
اپنے محلے کی پرانی گلیوں کو
یاد کرتا ہوں
بچپنے کے دوست
اٹکھیلیاں،شرارتیں، بیوقوفیاں
پھر بھول جاتا ہوں
وہ بچپنا
حسرتوں، خواہشوں اور جذبات
کا دبایا ہوا
میں اور میرے خواب
وقت کے ساتھ ساتھ
سکول کا بَیگ بھاری ہونا
سکول کے بچوں کا مذاق
کلاس کا عام سا لڑکا
ان احساسات ، جذبات
نے اِک کڑواہٹ کا رنگ
اختیار کیا
جس میں سب لوگ بہہ گئے
کبھی جانے میں
کبھی انجانے میں

سرفراز بیگ ۱۹۹۵۔۰۴۔۲۳ پیرس

No comments:

Post a Comment