Saturday, August 31, 2013

dastan e ishq, achi lagti hay, sarfraz baig, داستانِ عشق، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



داستانِ عشق

میں تو اکیلا تھا
زندگی کا میلا تھا
اکیلا ہی رہتا تھا
وقت کا ریلا تھا
پہلے پہل تم ملے
مجھے کچھ پتا نہ تھا
تم میرے دل میں
دھیرے دھیرے اتر گئے
مجھے یہ خبر نہ تھی
یہ پیار کی فصل تھی
وہ بیج پیار کے
مٹھاس کے پودے بنے
ان سے رس نکلتے ہی
میرا دل مچل گیا
پھر مجھے پتا چلا
پیار کامریض ہوں
میں خوشی سے ناچتا
گاتا،جھومتاکِھل اٹھا
پھر مجھے پتا چلا
کانٹوں بھری راہ ہے
پھر بھی میں اس پر
چلا جارہا ہوں
اب میں اکیلا نہیں
میرے ساتھ وہ بھی ہے
میں اور وہ مل کر
چلتے جارہے ہیں
ہمارا کیا انجام ہے
اس کاپتا نہیں
کہتے ہیں امید پر
دنیا ساری قائم ہے
جب تلک جہان ہے
پیار ہمارا دائم ہے

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۲۔۲۵ لنڈن




No comments:

Post a Comment