Saturday, August 31, 2013

کرتے ہو، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، kartay ho, achi lagti hay, sarfraz baig




کرتے ہو

نفرتوں کے بیج بو کر
پیار کی امید کرتے ہو

صفِ ماتم بچھا کر
کربلاء میں عید کرتے ہو

ہم دور ہیں پردیس میں
تم اْن کی دید کرتے ہو

سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۱۔۲۱ لنڈن

چند اشعار

سرکٹے انسانوں کے جنگل میں
اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں
مردہ پرستوں کی دنیا میں
زندہ لوگوں کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں

No comments:

Post a Comment