Friday, August 30, 2013

nero aur khuda, achi lagti hay, sarfraz baig, نیرو اور خدا، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



نیرو اور خدا

نیرو بانسری بجاتا رہا
اور سارا شہر جلتا رہا
خدا بانسری بجاتا رہا
اور خیمے جلتے رہے
نیروکو جلتا ہوا شہر
اچھا لگتا تھا
اسے جلا دیا
اور جلتے ہوئے دیکھتا رہا
خدا کو خیمے جلنا اچھا لگتا تھا
انھیں جلا دیا
اور جلتے دیکھتا رہا
نیرو خوف سے بھاگ گیا
اور چیخ و پکار سے بھاگ گیا
اور جلنے سے ڈر گیا
خدا خوف سے بھاگ نہیں
لیکن چیخ و پکار سے محظوظ ہوا
اور بالکل نہیں ڈرا
کتنے پیارے
بچے،بوڑھے، جوان
عورتیں، مائیں، بیٹیاں
سب جل گئے
اور پھر بھی اللہ اکبر کہتے رہے
اور خدا ان کی سادگی پے
ہنستا رہا
نیرو اور خدا

سرفراز بیگ ۱۹۹۷۔۰۷۔۱۱ لنڈن
حج کے دنوں میں خیمے جلنے کے بعد یہ نظم لکھی گئی ۔یہ ۱۹۹۷ کی بات ہے


No comments:

Post a Comment