Wednesday, April 13, 2011

MORTI (Statue)

مورتی

جدوں ہولی جیئی لیندا میرا ناں
میں تھا ں مرجانی آں ہائے
میں تھاں مرجانی آں
مردا ں دے وعدے چوٹھے
چوٹھا ہونداں پیار وے ، چوٹھا ہوندا ں پیار وے
کردے محبتاں تے کول جاندے ہار وے
کی اعتبار
جدوں کہندیاں نے مینوں سکھیاں
میں تھاں مرجانی آں ہائے
میں تھاں مرجانی آں

شیدا مسلّی زور سے چلایا،’’ٹیپ ریکارڈر کس نے بند کیا ہے‘‘۔ وہ منجی (چارپائی) پے لیٹ کے مزے سے نورجہاں کے گانوں سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔آنکھیں اس کی مُندھی ہوئی تھی اس لیئے وہ بنا دیکھے ہی بول پڑا تھا۔ اس نے یہی سوچا تھا کہ شاید کسی شرارتی بچے نے اسے چڑانے کے لیئے ایسا کیا ہے۔یہی وجہ تھی کہ وہ زور سے چلایا تھاکہ بچہ ڈر کے مارے ٹیپ ریکارڈر دوبارہ آن کردے گالیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا ہے۔ وہ لیٹا ہوا تھا اس لیئے اُسے وہ آدمی زیادہ ہی لمبا لگ رہا تھا حالانکہ اس شخص کا قد اتنا زیادہ لمبا نہیں تھا۔ شیدا آنکھیں مل مل کے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اُسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔ شیدا نورجہاں کے اس مشہور گانے کو بھول کے اُٹھ بیٹھا اور اس کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا،
’’اُو چیسکو توں‘‘
’’ہاں اینٹی میں، چیسکو‘‘
’’تو ولیت (ولائت)سے کب آیا‘‘
’’مجھے آئے ہوئے تو ہفتہ ہوگیا ہے‘‘
’’سنا ہے تو بڑا وڈا آدمی بن گیا ہے۔ پر میرے لیئے تو تُو چیسکو ہی ہے‘‘
’’آہستہ بول شیدے ، اگر کسی نے سن لیا تو ساری ٹور خراب ہوجائے گی‘‘
’’اُو کچھ نہیں ہوتا۔کسی کو کیا پتا چیسکو کیا ہوتا ہے۔ یہ تو میری اور تیری آپس کی بات ہے۔ایک بات ہے چیسکو ،میرا مطبل (مطلب )ہے راجہ علم بردار تو جب بھی آتا ہے ۔مجھ سے ضرور ملتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس دفعہ ذرا دیر سے ملنے آیا ہے‘‘
ابھی چیسکو اوراینٹی میرا مطلب ہے راجہ علم بردار اور رشید مسّلی گلے شکوے ہی کررہے تھے کہ راجہ علم بردار عرف چیسکو کا موبائیل فون بجنے لگا۔وہ باتوں میں مصروف ہوگیااور رشید نے چائے کے لیئے کہہ دیا۔ راجہ علم بردار نے فون بند کیا اور شیدے سے اجازت طلب کی لیکن شیدے نے کہا، ’’چائے پیئے بنا جانے نہ دونگا‘‘۔ اس لیئے راجہ علم بردار کو رکنا پڑا۔تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔چائے کیا تھی دودھ پتی تھی۔ راجہ علم بردار نے جلدی جلدی چائے پی ، شیدے کو خدا حافظ کہا اور کونے میں کھڑی تارے والی گاڑی(شیدا مرسڈیز کار کو تارے والی گاڑی کہتا تھا)میں بیٹھ کے چلا گیا۔
رشید عرف شیدے عرف اینٹی نے دوبارہ ٹیپ ریکارڈر آن کیا اور نورجہاں کا گانا دوبارہ چل پڑاجہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔ وہ چارپائی پے پھر سے آنکھیں موند کے لیٹ گیا۔ اس دفعہ اُس نے جو آنکھیں بند کیں تو وہ گانا نہیں سن رہا تھا بلکہ وہ ماضی کے نہاں خانوں میں کھو گیا تھا۔
راجہ علم بردار اور رشید مسّلی دونوں لنگوٹئے یار تھے۔ چکوال شہر سے تیس پینتیس کلومیٹر دور ان کا گاؤں تھا’’مورتی‘‘۔ ان دونوں کے اجداد جب اس گاؤں میں آئے تھے تو مورتی میں اِکا دُکا گھر تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی گئی اور گھروں میں اضافہ ہوتا گیا۔کچے گھروں کی جگہ پکے گھر بننے لگے۔
مورتی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کوئی بھی مورتی یا مجسمہ لیکن یہاں مورتی کا مطلب ہے عورت کا مجسمہ یا مورت ہے۔ اس گاؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دروپدی یہیں رہتی تھی۔ اس نے اس گاؤں کے مندر میں (اس وقت اس گاؤں کا کوئی اور نام تھا) جاکے مہاپروہت سے کہا تھا کہ ،میں ایک ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں جس میں پانچ خوبیاں ہوں۔ اس مہاپروہت نے کہا تھا کہ فلاں دن فلاں جگہ جاکے دو کبوتر اُڑانا۔ اگر کسی نے ایک تیر سے دونوں کبوتروں کو گھائل کردیا تو وہی شخص تمہارا شوہر ہوگا اور اس میں وہ پانچ خوبیاں ہونگی جن کی تمہیں خواہش ہے۔ دروپدی نے مہاپروہت کی بتائی ہوئی تاریخ کو اس کی بتائی ہوئی جگہ پے جاکے دو کبوتر اُڑا دیئے۔ وہ کیا دیکھتی ہے کہ ہوا میں ایک تیر لہراتا ہے اور اس کے اُڑائے ہوئے دونوں کبوتروں کو گھائل کرتا ہے اور دونوں کبوتر زمین پے آگرتے ہیں۔ دروپدی بھاگنے لگتی ہے اور شکاری کو تلاش کرنے لگتی ہے۔ اپنے ہونے والے شوہر کو تلا ش کرنے لگتی ہے۔ وہ کیا دیکھتی ہے کہ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان ہاتھ میں تیر کمان لیئے کھڑا ہے۔ اس شخص کا
نام ارجن تھا۔ اس کے ساتھ اس کے چار بھائی بھی تھے۔ یعنی پنج پانڈ۔ جو شکار کی غرض سے نکلے تھے۔ دروپدی نے ارجن کو اپنا مدعا بیان کیا ۔ دروپدی اور پنج پانڈ یہ سب اس مندر کے مہاپروہت کے پاس پہنچے۔ اس نے کہا، ’’دروپدی تم نے بھگوان سے پرارتھنا کی تھی کہ تمہارے پتی میں پانچ خوبیاں ہوں۔ اس لیئے بھگوان نے تمہاری پرارتھنا سوئیکار کرلی ہے۔ ان پنچ پانڈوں میں میرا مطلب ہے ان پانچ بھائیوں میں ایک ایک خوبی ہے۔ اس لیئے تمہیں ان پانچوں بھائیوں سے ویواہ کرنا ہوگا۔ اس طرح دروپدی کی شادی ان پنج پانڈو سے ہوگئی۔ دروپدی ستر دن ایک بھائی کے پاس رہتی تو ستر دن دوسرے بھائی کے پاس۔ وہ ستر دن کے لیئے ہر بھائی کی شرن میں باری باری جاتی۔ اس دوران اس کے ہاں جو بھی بچہ پیدا ہوتا وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہتا۔ دروپدی اپنی فریاد مہاپروہت کے پاس لے کر گئی تو اس نے کہا ۔ اب کہ تمہارا جو بھی بچہ پیدا ہو اس کے سر کے سارے بال منڈوا دینا صرف اس کے سر ی چوٹی پے بالوں کی ایک لِٹ چھوڑ دینا۔ اس طرح جب بھی بال بڑ ے ہوں ان کو باقاعدگی سے منڈواتی رہنا لیکن اس لِٹ کو اسی طرح بڑھنے دینا۔ اس کو کپڑے ہمیشہ مانگ کے پہنایا کرنااور اس کا نام ابہمینیوں رکھنا۔ اس طرح تمہارا بچہ تم سے کوئی بھی نہیں چھین سکے گا۔ بھگوان بھی نہیں۔
دروپدی اب کہ جب ماں بنی تو اس نے مہاپروہت کی ہدایت پے عمل کیا ۔ بچے کا نام ابہیمنیوں رکھا۔ اس کو کپڑے مانگ کر پہنایا کرتی اور اس کے سر کے بال باقاعدگی سے منڈوایا کرتی لیکن سر کی چوٹی پے بالوں کی ایک لِٹ چھوڑ دیا کرتی۔
اچانک ارجن اور اس کے چاروں بھائیوں نے ارادہ کیا کہ یہ شہر چھوڑ دینا چاہئے۔ اس طرح دروپدی ،ابہیمینیوں ،ارجن اور اس کے چاروں بھائیوں نے اس شہر سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس شہر یا گاؤں کہہ لیجئے کے لوگوں نے دروپدی کی یاد میں یہاں کے بڑے مندر میں دروپدی کا مجسمہ سجانے کا سوچا۔ مہاپروہت نے مشورہ دیا کہ دروپدی کا مجسمہ بنانے کے لیئے شنگرداروی کو بلایا جائے وہ اس دور کا سب سے بڑا مجسمہ ساز ہے۔ فوراً ہرکارے دوڑائے گئے اور وہ مہاپروہت کا پیغام لے کر سواستکا شہر پہنچے۔ شنگرداروی کو سواستکا شہر سے پہنچنے میں کئی مہینے لگے۔ آخر کئی مہینوں کی مسافت کے بعد شنگر داروی، دروپدی کے گاؤں پہنچا اور دورپدی کو دیکھ کر ساکت ہوگیا۔ دروپدی بہت خوبصورت عورت تھی۔ اس لیئے شنگرداروی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کا مجسمہ کس طرح بنائے اور کس پتھر کا استعمال کرے او ر ایسا مجسمہ بنائے کہ ہمیشہ کے لیئے یادگار بن جائے۔ اس نے ٹکشیلا سے خاص پتھر منگوائے اور دروپدی کا مجسمہ بنانا شروع کیا۔ کافی دنوں کی محنت کے بعد اس نے مجسمہ مکمل کیا تو مجسمہ ٹوٹ گیا۔ اس طرح شنگرداروی نے کئی دفعہ دروپدی کا مجسمہ بنایالیکن جب بھی مجسمہ مکمل ہوتا مجسمہ ٹوٹ جاتا۔ وہ اپنی پریشانی کا حل ڈھونڈنے مہاپروہت کے پاس گیا۔ مہاپروہت نے کہا اس پتھر سے مجسمہ بنانے کے لیئے تمہیں خوبصورت موسیقی کی ضرورت پڑے گی ۔ موسیقار بھی ایسا چایئے جو اپنے فن میں ماہر ہو۔ وہ بنسی بجائے گا تب جاکے یہ مجسمہ مکمل ہوگا اور کبھی نہ ٹوٹے گا۔ اس کام کے لیئے انہوں نے اس دور کے مشہور موسیقار ریشپ کھرجوی سے رجوع کیا۔ اس گاؤں کا مندر تھوڑا اونچائی پے تھا۔ا س کے بالکل سامنے ایک کھلا میدان تھا۔ وہاں شنگرداروی، دروپدی اور ریشپ کھرجوی روز آتے۔ دروپدی ، شنگرداروی کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے جس طرح وہ کہتا رخ بدلتی رہتی اور ریشپ کھرجوی اپنی موسیقی کا جادو جگاتا رہتا۔ اس طرح ان تینوں کی تپسیاء رنگ لائی اور دروپدی کا مجسمہ تیار ہوگیا۔ اِسے مندر میں جاکے سجا دیا گیا۔ اس کام کے مکمل ہوتے ہی سب نے کوچ کیا۔ دروپدی، ابہمینیوں،ارجن اور اس کے بھائیوں نے رختِ سفر باندھا۔ ریشپ کھرجوی اپنے ملک کو سُدھار گیا اور شنگرداروی اپنے شہر سواستکا چلا گیا۔ کافی عرصہ گزرا اور مہاپروہت بھی دنیا چل بسا۔
اس علاقے نے تاریخ کے کئی دور دیکھے۔ دروپدی کی اس مورتی کی وجہ سے یہ گاؤں کافی مشہور ہوگیا اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس گاؤں کا اصل نام بھول گئے اور یہ گاؤں مورتی کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ اتنی لمبی چوڑی کہانی رشید مسّلی کو سید بابا نے سنائی تھی۔ سید بابا کو اس طرح کی کئی کہانیاں یاد تھیں۔ وہ شیدے اور علم بردار کو ڈانٹا کرتا کہ اس میدان میں کنچے(گولیاں یا بنٹے)نہ کھیلا کرو۔ بڑی تاریخی جگہ ہے۔ یہاں دروپدی کا سوئمبر رچایا گیا تھا۔ یہاں اس کی مورتی بنائی گئی تھی۔ یہاں شنگرداروی اور ریشپ جیسے عظیم لوگوں نے قیام کیا تھا۔اب تو سید بابا بھی اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔
شیدے مسّلی نے کروٹ بدلی۔ اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں لیکن مسکرا رہا تھا۔ شیدا اور علم بردار کنچے(گولیاں یا بنٹے)کھیلنے میں بڑے ماہر تھے۔ پورے مورتی گاؤں میں ان کی ٹکر کا کوئی بندا نہیں تھا۔ دونوں کا نشانہ بہت اچھا تھا۔ شیدے کے بزرگ لوگوں کی شادیوں بیاہوں پے ڈھول بجایا کرتے ، وہ بھانڈ مراثی کا کام کیاکرتے۔ راجہ علم بردار کے بزرگ کئی پشتوں حجام تھے۔ عرفِ عام میں نائی تھے۔ سید بابا تو علم بردار کو یہ بھی کہا کرتا ابہمینیوں کا سر تمہارے خاندان کا بندا ہی مونڈا کرتا تھا اور شیدے کو کہتا کہ تم ریشپ کھرجوی کی نسل ے ہو۔
علم بردار ، شیدے کو اینٹی کہا کرتاکیونکہ شیدے کا سر بڑا تھا ۔ کنچے(گولیاںیا بنٹے) کئی طریقوں سے کھیلے جاتے ہیں اس میں چکر ہوتا ہے۔ گولی پلا ہوتا ۔آپ اس کے ذریعے جواء بھی کھیل سکتے ہیں۔ چکر میں آپ ایک بڑا سا دائرہ کھینچ کر اس کے بالکل درمیان میں ایک لائن لگا دیتے ہیں۔ اس لائن پے رنگ برنگی کنچے سجا دیتے ہیں۔ اگر دو بندے کھیل رہے ہوں تو ٹاس کیا جاتا ہے۔ اگر زیادہ بندے کھیل رہے ہوں تو قرعے کے ذریعے باریاں تقسیم ہوتی ہیں۔ ہر بندے کے پاس اپنا اپنا اینٹی ہوتاہے۔ کچھ لوگ اسے مارچو بھی کہتے ہیں۔ اب چونکہ اینٹی دوسرے کنچوں سے حجم میں بڑا ہوتا ہے اس لیئے اینٹی یا مارچو کہلاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اینٹی حجم میں بڑا ہی ہو۔ بالکل اسی طرح کنچوں میں جو سائز یا حجم میں سب سے چھوٹا ہے اس کو چیسکو کہتے ہیں۔ علم بردار بچپن میں چونکہ اپنے تمام ہم عمر بچوں میں قد اور جسامت میں چھوٹا تھا اس لیئے اسے شیدا چیسکو کہتا تھا۔ پورے مورتی گاؤں میں ان کی ٹکر کا نشانچی کوئی نہیں تھا۔ دونوں کے گھروں میں کنچوں کی گاگریں (پانی کا گھڑا)بھری ہوئی تھیں۔ دونوں نے اپنا بچپنا مورتی گاؤں کے مندر کے اس میدان میں کنچے کھیل کے گزارا تھا۔ جہاں بقول سید بابا کے دروپدی کا سوئمبر رچایا گیا تھا۔ جیسے ہی دونوں تھوڑے بڑے ہوئے تو شیدے کو اس کے باپ نے اپنے ساتھ کام پے لگا لیا۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی لیکن کبھی بھی بھوکے نہ سوئے۔ علم بردار کو باپ نے حجامت کا کام سکھایا لیکن اس نے اس کام میں بالکل دلچسپی نہ لی۔ابھی اس کی عمر بمشکل تیرہ سال تھی کہ گھر سے بھاگ گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ علم بردار لاہور کے کسی ہوٹل پے کام کرتا ہے۔ چار سال بعد علم بردار جب واپس مورتی آیاتو اس کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔ اس نے آتے ہی شیدے مسّلی سے ملاقات کی اور لاہور شہر کی تعریفیں کرنے لگا۔ اس نے شیدے کو اپنے ساتھ لے جانے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ وہ کہتا تھا ،’’یار میں بھانڈ مراثی ہوں گاؤں کی رونق ہوں۔ اگر میں گاؤں سے چلا گیا تو گاؤں کے لوگوں کا دل کون بہلائے گا۔ علم بردار عرف چیسکو تھوڑا عرصہ رکا اور پھر واپس لاہور چلا گیا۔ پھر کسی نے اس کے ماں باپ کو اطلاع دی کہ علم بردار کراچی چلا گیا ہے۔ وہاں سیمنٹ کے بلاک بنانے کا کام کرتا ہے۔ اب وہ ماں باپ کورقم بھی بھیجا کرتا۔ اس کا باپ اِ س کے اس فیصلے خوش نہیں تھا لیکن کیاکرتا علم بردار کو نائیوں کا کام پسند ہی نہیں تھا۔ علم بردار نے کراچی میں دو سال گزارے تو اس کی شخصیت ہی بدل گئی۔ ا ب کہ وہ مورتی گاؤں آیا تو نفیس کوٹ پتلون میں ملبوس تھا۔ گفتگو کے دوران انگریزی کاایک آدھ لفظ بھی بول دیا کرتا۔ اس نے شیدے مسّلی کو کہا کہ وہ اس کے ساتھ کراچی چلے ۔وہاں بڑا پیسہ ہے۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے شیدے سے کہا کہ میرا تو خواب ہے کہ میں تارے والی گڈی (گاڑی) لونگا۔ اب شیدے کو کیا پتا کہ تارے والی گڈی کون سی ہوتی ہے۔ مرسڈیز بینز کو علم بردار تارے والی گڈی کہتا تھا۔ وہ پھر تھوڑا عرصہ رہا اور کراچی واپس چلا گیا۔ علم بردار نہ جانے کس طریقے سے کسی شپِنگ کمپنی میں بھرتی ہوگیا اور ملک ملک کی سیر کرنے لگا۔ آخر کار اس نے یونان جاکے ڈیرے لگائے۔
*************

شیدا مسّلی اور اس کا پورا خاندان مورتی گاؤں اور آس پاس کے دوسرے دیہاتوں اور قصبوں میں جاکے لوگوں کو خوش کرنے کا کام کرتا تھا۔ ڈھول بجانا، لطیفے سنانا،رنگ رنگ کے بہروپ بدلنا۔ یہ لوگ ایک طرح کی چلتی پھرتی نوٹنکی تھے۔ اب چونکہ ریڈیو، ٹی وی ،وی سی آر اور دیگر اس طرح کی چیزوں نے ان کی جگہ لے لی تھی لیکن ان کی دال روٹی بھی چل رہی تھی۔ یہی ایک وجہ تھی کہ مسّلیوں کے مردوں نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے تھے۔ دوسرے شہرں کو جانے لگے تھے۔ مختلف قسم کے ہنر سیکھنے لگے تھے۔ شیدے نے بھی ڈرائیوری کا کام سیکھ لیا تھا۔ وہ چکوال سے مورتی تک بس چلایا کرتا۔ ڈرائیوری کے دوران اس کو بھی رنگ رنگ کے لوگوں سے واسطہ پڑتا۔ اس نے نئے نئے فیشن کے شلوار قمیص سِلوائے۔تِلے والی جوتیاں سائی پے بنوایا کرتا۔ (سائی کا مطلب ہے آپ جفت ساز یا موچی کے پاس جاکے اپنے پاؤں کا ماپ دیتے ہیں اور وہ آپ کے پاؤں کی ساخت کے مطابق جوتی بناتا ہے)۔ چونکہ شیدا خاندانی مسّلی تھا اس لیئے اسے موسیقی سے گہرا لگاؤ تھا۔ اس لیئے اس کی بس میں اچھے اچھے گانوں کی بہت ساری کیسیٹس تھیں۔ بس میں چونکہ اگلا حصہ (جہاں ڈرائیو ر کی سیٹ ہوتی ہے)عورتوں کے لیئے مختص ہوتا ہے اس لیئے شیدا بس کی صفائی کا خاص خیال رکھا کرتا۔ اس کے علاوہ اس کو سجانے سنوارنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتا۔ بس میں کئی طرح کے رنگ رنگ کے ربن لگے ہوئے تھے۔ نہ جانے کتنے قسم کے انگریزی اور اردو کے سٹِکر لگے ہوئے تھے۔ جن پے بے شمار پیغامات اور چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ ، "
I love you" "darling" ’’ایوب خان زندہ باد‘‘، ہارن دیکر پاس کریں‘‘، سلیم بس باڈی میکر، بلال گنج‘‘، ’’سکائی لیب‘‘۔ کئی قسم کی رنگ برنگی پٹیاں لگی ہوئی تھیں جو رات کو چمکتی تھیں۔ بس کے دونوں کناروں پے دوبڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے جو شیدے کی ڈرائیونگ کے دوران مدد کرتے تھے۔ ان کے ساتھ کالے رنگ کے ربن بندھے ہوئے تھے جو کہ شاید اس لیئے لگائے تھے کہ بس کو کسی کی نظر نہ لگے۔ اس کے علاوہ اس کے دونوں شیشوں کے ساتھ جّلی حروف میں ایک پانچ اور گیارہ لکھا ہوا تھا (۱،۵،۱۱) ۔جس کا مطلب تھا ایک اللہ، پانچ تن پاک اور گیارہویں شریف والے حضرت شیخ عبدل قادر جیلانی۔
اس کے علاوہ بے شمار چیزیں تھیں جن سے شیدے نے اپنی بس کی زینت و زیبائش میں اضافہ کیا ہوا تھا۔ گو کہ یہ بس اس کی اپنی نہیں تھی لیکن شیدے کا فلسفہ تھا کہ بس اسی کی ہوتی ہے جو اسے چلاتا ہے۔ شیدے کا رنگ کالا تھالیکن ناک نقشہ اچھا تھا۔ بالوں کے نء نئے انداز بنایا کرتا۔ اس نے لمبی لمبی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ منہ صفا چٹ رکھتا جسے انگریزی میں کلین شیو کہتے ہیں۔ وہ خود کو وحید مراد کی طرح چاکلیٹی ہیرو تصور کیا کرتا۔ مورتی میں کیا آس پاس کے سارے دیہاتوں میں مونچھیں منڈوانا برا تصور کیا جاتا تھا لیکن شیدا ان باتوں سے مبراء تھا کیونکہ وہ مسّلی تھا حالانکہ مونچھوں کو مردانگی کا نشان مانا جاتا تھا۔ یعنی اگر مرد کی مونچھیں نہ ہوں تو اسے مرد تصور نہیں کیا جاتا بلکہ اسے مخنث یا ہیجڑہ مانا جاتا ہے لیکن شیدے کے اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
شیدا اپنے اسی رنگ ڈھنگ سے بس چلاتا رہا۔ تنخواہ بھی معقول تھی اور اس کے گھر والے بھی خوش تھے۔ اب سب کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی لیکن شیدے نے کہا وہ لڑکی خود پسند کرے گا سادہ لفظوں میں لَو میرج۔ پاکستان میں پسند کی شادی کو برا تصور کیا جاتااور مورتی تو ایک گاؤں تھا۔ وہاں پے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ ہمارا ادب عشق و محبت ، پیار و جنوں کے قِصّوں سے بھرا پڑا ہے۔ چار پانچ قِصّے تو پورے برِصغیر پاک و ہند مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ہر گاؤں میں کوئی نا کوئی چھوٹا موٹا قصہ ضرور مشہور ہوتا ہے۔ ہمارا ادب عشق و محبت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ ہماری شاعری، افسانے،غزلیں،ڈرامے، فلمیں عشق کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتے لیکن عام زندگی میں اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ شیدے نے کہہ دیا تھا شادی کرونگا تو اپنی مرضی سے ورنہ کنوارہ ہی رہونگا۔ شیدے کے خاندان میں کئی لڑکیاں تھیں جو شیدے کو دل ہی دل میں چاہنے لگی تھیں لیکن شیدے کا فلسفہ تھا کہ جب تک مجھے کسی لڑکی سے عشق نہیں ہوگا میں شادی نہیں کرونگا۔
وقت گزرتا رہا اور شیدا بس چلاتا رہا۔ وہ فلمی قصوں کی طرح سوچتاکہ اچانک بس چلاتے چلاتے اسے راہ میں کوئی لڑکی ملے گی اور اسے پیار ہوجائے گا۔ ایسا فلموں میں ہوتا ہے۔ شیدے کا محض خیال نہیں یقین تھا کہ فلمیں عام زندگی میں پائے جانے والے اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو سامنے رکھ کے بنائی جاتی ہیں۔
***********
ایک دن ایسا ہی ہوا۔ شیدا مورتی سے بس لے کر نکلا ۔ بس میں کم کم سواریاں تھیں ۔عورتوں کا ڈبہ یایوں کہہ لیجئے بس کے جس حصے میں عورتیں بیٹھتی ہیں ،خالی تھا۔ اچانک زور کی بجلی کڑکی اور آسماں کو روشنی سے منور کرکے چلی گئی۔ شیدا جانتا تھا کہ آج بار ش ہوگی اور سواریاں بھی کم ہوں گی۔ اس لیئے وہ بڑے ٹھاٹھ سے بس چلا رہا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ بارش ہوگی کہ بارش شروع ہوگئی اور اس نے بس کے وائپر چلا دیئے۔ بس کے وائپر بڑی تیزی سے چل رہے تھے۔ شیشوں پے بارش کے گرتے ہوئے پانی کو وائپر بڑی تیزی سے صاف کررہے تھے۔ یہ عمل مسلسل جاری تھا۔ کبھی کبھی شیدا کپڑے سے شیشوں کو اندر سے بھی صاف کرتا۔ بس میں شیدے کے پسندیدہ گانے چل رہے تھے۔ بس کی رفتار بھی کم تھی۔ شیدا خود ہی بس آہستہ چلارہا تھا کیونکہ بارش میں بس کے پھسلنے کا کافی خدشہ ہوتا ہے۔ شیدا گاڑی چلانے کی ان تمام باریکیوں سے واقف ہوچکا تھا۔
شیدے نے ابھی بمشکل دو میل کا سفر طے کیا ہوگا کہ اْسے دور درخت کے نیچے کوئی سواری کھڑی دکھائی دی۔ اس نے گاڑی کی لائٹیں جلائی۔ ڈرائیوری کی زبان میں ڈپر مارنا کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہارن بھی بجایا۔ جب وہ اس اس سواری کے قریب پہنچا تو اس سواری نے ہاتھ کے اشارے بس روکنے کو کہا۔ شیدے نے انتہائی احتیاط کے ساتھ بس اس سواری کے پاس جاکے روک دی۔ کوئی لڑکی تھی۔ بس میں سوار ہوئی۔ اس کے سارے کپڑے بھیگ چکے تھے اور بھیگنے کی وجہ ے وہ کانپ رہی تھی۔ شیدے نے جلدی سے اپنی چادر پیش کی اور کہا، ’’بی بی یہ چادر اوڑھ لیں۔ یہ تولیہ لیں اور اس سے پانی خشک کرلیں۔منہ پونچ لیں‘‘۔ لڑکی نے شیدے کو گھْور کے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے تولیہ لے لیا۔ ’’صاف ہے بی بی جی ۔میں بڑا صفائی پسند ہوں۔ ہمیشہ دو تولیئے اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ دورومال اور ایک شلوار قمیص بھی سیکٹرا رکھتا ہوں‘‘۔ سیکٹرا لفظ سننا تھا کہ لڑکی کی ہنسی نکل گئی۔ ’’آپ یہاں کی تو نہیں لگتیں۔آپ کسی دوسرے شہر کی ہیں۔بی بی جی معاف کیجئے گا میں ذات کا مسّلی ہوں ا س لیئے باتیں کرنا ، گْھل مل جانا ہمارا خاندانی کا ہے لیکن اب ہمارا کام کم ہوگیا ہے۔ اس لیئے اب میں نے ڈلیوری (ڈرائیوری) سیکھ لی ہے‘‘۔ اس لڑکی نے ہاتھ منہ صاف کرکے پونچ کے تولیہ شیدے کو واپس کردیا۔ اس کے بعد شیدے نے کوئی بات نہ کی، نہ ہی کئی سوال کیا۔ شیدا مزے سے گاڑی چلا رہا تھااور بس کے بڑے بڑے شیشوں پے وائپر بڑی خوبصورتی اور تیزی سے اپنا کام دکھارہے تھے۔ کبھی کبھی پانی کی ایک دھار دونوں شیشوں کے سامنے بہہ جاتی۔
راستے میں سواریاں اترتی رہیں اور سوار ہوتی رہیں۔ چکوال بس سٹاپ پے جاکے شیدے نے بریک لگائی اور انجن بند کیا۔ ابھی وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اترنے ہی لگا تھا کہ اس کے کانوں کو ایک مترنم آواز سنائی دی۔ ’’سْنو تم مجھے میر ے گھر تک چھوڑ دو گے کیونکہ یہاں سے ٹیکسی ملنے کا امکان نہیں اور نہ ہی میں کسی ٹیکسی یا کار میں جانا چاہتی ہوں‘‘۔ شیدے نے کہا، ’’بی بی جی ویسے تو میں بس کا مالک نہیں ہوں لیکن زندگی میں کبھی کبھی رِکس (رِسک) لینا چاہیئے لیکن ایک بات بتا دوں نہ ہی میں پیسے لوں گا اور نہ ہی آپ مجھے چائے کے لیئے روکیئے گا کیونکہ مجھے اڈے پے واپس آنا ہے۔ میری بس کا نمبر بھی لگ چکا ہے‘‘۔ ’’وہ کیسے تم ابھی تو آئے ہو‘‘۔ ’’بی بی جی یہ سب ایٹک میٹک (آٹومیٹک) ہوتا ہے، شیدے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹھیں بی بی جی کدھر کو جاناہے‘‘۔ ’’تم بڑی سڑک پے چلووہاں سے دو کلو میٹر دور ایک فارم ہاؤس ہے ۔ میں وہاں رہتی ہوں‘‘ ۔ ’’وہ تو جی اپنے ملک صاحب کا فارم ہاوس ہے‘‘۔ ’’میں ونہی رہتی ہوں۔ اب چلیں یا باتیں ہی بناتے رہو گے‘‘۔ بس چل پڑی ۔ شیدا سوچنے لگا اِسے بس چلاتے ہوئے کتنے سال ہو گئے ہیں لیکن آج تک ایسا واقع پیش نہیں آیا۔ لڑی بھی کتنی عجیب ہے ایک تو اکیلی بارش میں اس چھوٹے سے گاؤں سے آئی ہوئی تھی اب میرے ساتھ گھر جارہی تھی۔ شیدا خود ہی سوال بْنتا اور خود ہی ان کے جواب گھڑتا۔ میں مسّلی ہوں سوچتی ہوگی اس سے کیا ڈرنا۔ شیدا ابھی اسی اْدھیڑ بْن میں تھا کہ فارم ہاؤس آگیا۔ لڑکی نے اپنا پرس سنبھالا اور شیدے سے مخاطب ہوئی، ’’نہ میں تمہیں پیسے دوں گی اور نہ ہی تمہیں چائے کا پوچھوں گی۔ اب تم جاؤ۔ ویسے تم اسی روٹ پے بس چلاتے ہو‘‘۔ ’’جی بی بی جی‘‘۔’’اچھا اب خدا حافظ تمہارا نمبر نہ نکل جائے‘‘۔ ’’اچھا بی بی جی خدا حافظ‘‘
**************
شیدا کئی دن تک سوچتا رہا کہ اس کے ساتھ بڑا عجیب و غریب واقع پیش آیا۔ اْس نے اس بات کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ اگر علم بردار ہوتا تو وہ اِسے ضرور بتاتا لیکن وہ تو یونان یا پتا نہیں کون سے ملک میں تھا۔ ابھی وہ چارپائی پے لیٹا سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے اْسے جگا یا۔ ’’اْٹھ اوئے شیدے بس نہیں لے کر جانی۔سواریاں انتظار کررہی ہیں‘‘۔ شیدے نے جلدی سے اپنی زری کی جوتی پاؤں میں پہنی اور ڈرائیونگ سیٹ پے جاکے بیٹھ گیا۔ سواریاں جلدی جلدی بس میں سوار ہوئیں اور بس چل پڑی ۔ابھی تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ شیدے کو دور سڑک پے ایک سواری کھڑی دکھائی دی۔ پچھلی دفعہ اس نے بِنا سٹاپ کے سواری اس لیئے بٹھا لی تھی کیونکہ بارش ہورہی تھی۔ آج بس روکنے کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اس نے پھر بھی بس روک دی۔ عورتوں والے کیبن میں ایک لڑکی سوار ہوئی۔ شیدا مْسکرایا بھی اور حیران بھی ہوا لیکن اس نے منہ سے کچھ نہ کہا کیونکہ آج کیبن خالی نہیں تھا۔ یہ وہی لڑکی جسے شیدا گھر تک چھوڑ کے آیا تھا۔
شیدا خاموشی سے بس چلاتا رہا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کچھ سواریاں بس میں سوار ہوتیں اور کچھ سواریاں اتر جاتیں۔ چکوال پہنچ کے شیدے نے بس جاکے اڈے پے روک دی ۔ ساری سواریاں اتر گئیں لیکن وہ لڑکی نہ اتری۔ شیدے نے بات کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ اْسے ڈر تھا کہیں بات چیت کروں گا تو سمجھے گی کہ احسان جتلانے کی کوشش کررہا ہے۔ شیدا دماغ میں سوچ کی ان اْلجھی ہوئی گْھتیوں کو سْلجھا رہا ۔ پھر اْس نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا، ’’بی بی جی چکوال آگیا ہے‘‘۔ ’’ہاں مجھے بھی پتا ہے ۔ سْنوں آج تم مجھے گھر تک چھوڑ دو گے۔ میں تمہیں پیسے بھی دوں گی اور تمہیں چائے بھی پلاؤں گی‘‘۔ ’’بی بی جی میں مزدور آدمی ہوں ۔غریب آدمی ہوں ۔ کسی کی بس چلاتا ہوں۔اگر نَیئک (ڈرائیوری کی زبان میں مالک کو کہتے ہیں۔ یقیناًیہ لفظ نائیک سے نکلا ہوگا) کو پتا چل گیا تو کام سے نکال دے گا‘‘۔ ’’تمہارے نیئک میرا مطلب ہے مالک سے میں بات کرلوں گی۔ وہ روٹ پرمٹ کے لیئے ملک صاحب کے پاس ہی آتا ہے۔ اچھا ٹھہرو میں ابھی آتی ہوں‘‘۔ وہ اتنا کہہ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد شیداجس آدمی کے لیئے بس چلاتا تھا اس کا مْنشی آیا اور شیدے کو کہنے لگا، ’’اْوئے شیدے بی بی جی فارم ہاؤس چھوڑ آؤ۔ یہ میری کار لے جاؤ۔ گیرو (گیئرز) کا تو پتا ہے نا‘‘۔ ’’وہ جی آپ فکر نہ کریں۔ تین آگے دو پیچھے۔ آئیں بی بی جی‘‘۔
لڑکی نے اپنا پرس سنبھالا اور شیدے کے ساتھ چل دی۔ شیدے نے آگے بڑھ کے دروازہ کھولا۔ جب لڑکی بیٹھ چکی تو شیدا بھی ڈرائیونگ سیٹ پے آکے بیٹھ گیا۔ ’’چلیں بی بی جی‘‘۔ ’’میرا نام سحر ہے، بی بی جی نہیں۔ تمہارا کیا نام ہے‘‘۔ ’’بی بی جی میرا نام شیدا مسلّی ہے‘‘۔ ’’صحیح نام کیا ہے ‘‘۔ ’’جی محمد رشید‘‘۔’’تو یہ مسلّی کیا ہے‘‘۔ ’’بی بی جی میرا مطلب ہے سحر بی بی مسلّی یا مراثی ڈھول بجانے والے کو کہتے ہیں۔لوگوں کو شادیوں بیاہوں پے مہمانوں کو خوش کرتے ہیں۔ چودھریوں کے حقے تازے کرتے ہیں‘‘۔ ’’اور کیا کرتے ہیں مسلّی‘‘۔ ’’جی ناچتے ہیں۔ گانے گاتے ہیں۔سحر بی بی آپ کیا کام کرتی ہیں‘‘۔ ’’میں جیالوجسٹ اور اوشیانولوجسٹ ہوں‘‘۔ ’’یہ کیا چیزیں ہیں ۔ بیماریوں کے نام ہیں‘‘۔ ’’نہیں رشید یہ زمین کا پتھروں، سمندر کی تہہ میں چھپے ہوئے خزانوں کا علم ہے‘‘۔ ابھی سحر اپنی بات ختم بھی نہ کرپائی تھی کہ فارم ہاؤس آگیا۔ شیدے نے کار پورچ میں جاکے کار پارک کی ۔ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کے سحر بی بی کے لیئے دروازہ کھولا۔ ’’سحر بی بی اتریں‘‘۔ شیدا ہاتھ باندھ کے کھڑا ہوگیا۔
’’آجاؤ رشید‘‘۔ شیدا ،سحر بی بی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ دو بڑے بڑے دالانوں سے گزرنے کے بعد ایک بڑا سا دروازہ آگیا۔ سحر نے اس دروازے کی چمکتی ہوئی مْٹھی (ہینڈل) کو مروڑااور دروازہ کْھل گیا۔ دروازہ کیا کْھلا شیدے کے لیئے تو الف لیلیٰ کی کوئی داستان کْھل گئی۔ اس نے ایسا کمرہ صرف فلموں میں دیکھا تھا۔ بڑے بڑے صوفے، دبیز قالین۔ اس کے اوپر خوبصورت غالیچے۔ شیدے نے جلدی سے اپنی زری کی جوتی اتاری، ہاتھ سے اپنے پاؤں کئی دفعہ صاف کیئے اور قالین پے پاؤں رکھا۔ اْسے ایسا لگا جیسے مخملی فرش ہو۔ ’’شیدے جوتے کیوں اتار دیئے۔ کتنے خوبصورت ہیں تمہارے جوتے۔ان پے سونے کی تار لگی ہوئی ہے‘‘۔ ’’نہیں بی بی جی یہ نقلی طلاء ہے۔ طلاء مطبل(مطلب) زری، زری مطبل مطبل مطبل ( مطلب)‘‘۔ ’’اچھا تم بیٹھو میں بھی آتی ہوں‘‘۔
شیدا چوروں کی طرح دْبک کر بیٹھ گیاابھی چند ہی لمحے گزریں ہوں گے کہ کمرے میں ایک لمبا تڑنگا آدمی موچھوں کو مرْوڑتا ہوا داخل ہوا۔ شیدا احترام میں کھڑا ہوگیا۔ ’’او بیٹھو نوجوان ، کیا نام ہے تمہارا‘‘۔ ’’جی شیدا‘‘۔ ’’آج سے تم سحر بی بی کے ڈرائیور ہو‘‘۔ ’’جی میں تو‘‘۔ ’’کتنی تنخواہ لیتے ہو‘‘۔ ’’جی اٹھارہ سو روپیہ۔ اس کے علاوہ روٹی اور چائے نیئک کی ‘‘۔ ’’ہم تمہیں پانچ ہزار دیں گے۔ بولو منظور ہے‘‘۔ ’’ملک صاحب ‘‘۔ ’’تمہارے مالک سے بات کرلی ہے۔تم اپنا جو بھی سامان وغیرہ ہے کپڑے ، آج ہی جاکے لے آؤ۔ آج سے تم یہیں ر ہو گے‘‘ ۔اتنا کہہ کر وہ شخص چلا گیا‘‘۔ شیدے نے کوئی بات نہ کی۔ وہ جانتا تھا یہ ملک عبدل القدوس کلہاروی تھا۔ چکوال کے حلقے سے اس کے علاوہ کوئی بھی الیکشن نہیں جیت سکتا تھا نہ ہی آج تک کوئی جیتا ہے۔ شیداذات کا مسلّی تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اتنے بڑے گھر میں رہے گا اور تنخواہ بھی پانچ ہزار۔ یعنی ہزار ہزار کے پانچ کرارے نوٹ۔
’’رشید میں تمہارے لیئے گرما گرم پکوڑے سموسے اور شامی کباب لائی ہوئی ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ چائے بھی ۔بیکری دور ہے ورنہ کیک بھی منگواتی‘‘۔ ’’بی بی جی آپ کیوں لائی ہیں۔ اتنے بڑے گھر میں ملازم کوئی نہیں‘‘۔ ’’رشید میں اپنا کام خود کرتی ہوں۔ تمہیں ملک صاحب نے بتا دیا ہوگا کہ آج سے تم میرے ساتھ رہو گے۔ چائے پینے کے بعد میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھادوں گی‘‘۔
شیدا سوچنے لگا ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فلمیں عام زندگی میں گزرے ہوئے واقعات کو سامنے رکھ کے بنائی جاتی ہیں۔ ’’رشید کیا سوچ رہے ہو‘‘۔’’کچھ نہیں بی بی جی میں سوچ رہا ہوں کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔ یا کسی فلم کا سین چل رہا ہے‘‘۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں رشید مجھے ایک عدد ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ پہلے میں سروپ نگر خود جایا کرتی تھی۔ دو دفعہ گاڑی خراب ہوئی۔ مجھے تمہارے ساتھ بس میں آنا پڑا ۔ یہ تمہارا بڑا پن ہے کہ تم نے میرے لیئے دو دفعہ بس روکی، حالانکہ تمہارا سٹاپ بھی نہیں تھا‘‘۔ ’’بی بی جی یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی اکیلی لڑکی کو بارش اور طوفان میں چھوڑ کے کیسے چلا آتا‘‘۔ ’’اچھا باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ آؤ تمہیں تمہاری رہنے کی جگہ دکھا دوں‘‘۔ شیدا، سحر بی بی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔
*************
سحر کلہاروی ، ملک عبدالقدوس کلہاروی کی بھتیجی تھی۔ جیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد مزید پڑھنے کے لیئے آسٹریلیاء چلی گئی تھی ۔ وہاں سے پہلے ایم فل کیا اس کے بعد پی ایچ ڈی ۔ اب وہ جیالوجسٹ، منرولوجسٹ اور اوشیانولوجسٹ بن کے آئی تھی ۔ویسے تو سحر نے آسٹریلیاء کی ہی شہریت اختیار کرلی تھی لیکن وہ مزید ریسرچ کے لیئے پاکستان آئی ہوئی تھی۔ وہ مٹی، ریت، پتھر، پانی کا بہاؤ دیکھ کر بتا تی کہ کس جگہ ، کیسے کیسے ذخائر چھْپے ہوئے ہیں۔ کئی آئل کمپنیوں نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی لیکن اس نے انکار کردیا۔وہ کلرکہار،مورتی، چکوال، چوہا سیدن شاہ، کٹاس اور اس کے آس پاس پائے جانے والے علاقوں پے کام کررہی تھی۔ سحر کی تحقیق اور علم کے مطابق روات سے لے کر جہلم تک کا جو علاقہ ہے۔ جسے سطح مرتفع پوٹھوار کہتے ہیں۔ یہاں تیل کے بیشمار ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پے ہیرے جواہرات کا بہت بڑا خزانہ چھپا ہواہے۔آجکل وہ آسٹریلوی ادارے کے لیئے حکومتِ پاکستان کی اجازت سے سروپ نگر میں کام کررہی تھی۔
*************
رشید روز صبح سویرے سحر بی بی کو سروپ نگر لے کر جاتا اور دن ڈھلتے ہی وہ انہیں واپس لے آتا۔ وہاں پے سحر کے علاوہ اور لوگ بھی کا م کررہے تھے لیکن سحر ان سب کی انچارج تھی۔ اس دوران رشید اور سحر مین کافی دوستی ہوگئی تھی۔ سحر کو رشید کی سادگی بہت پسند تھی۔ گو کہ وہ ذات کا مسلّی تھا۔ اس کے اجداد کا کام ڈھول بجانا تھا لیکن شیدا شکل وصورت کا ٹھیک تھا۔ اپنی ترا ش خراش بھی ٹھیک رکھتا۔ اب تو وہ کبھی کبھی پتلون قمیص بھی پہن لیا کرتا۔ ہفتے میں ایک آدھ دفعہ سحر کو اسلام آباد بھی جانا پڑتا۔ جب کبھی یہ دونوں اسلام آباد جاتے تو رشید پتلون پہنا کرتا۔ سحر اپنے کاموں سے جب فارغ ہوچکتی تو پھر یہ دونوں کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتے۔ سحر نے رشید کو کبھی بھی مسلّی نہ سمجھا، نہ ہی کبھی کمی ۔ نہ ہی وہ اسے ڈرائیور سمجھ کر حقیر جانتی تھی۔ اب رشید ایکسٹرا کو سیکٹرا نہیں کہتا تھا نہ ہی ایکسلریٹر کو ایکسیلیٹر کہتا تھا۔ سحر وقتاً فوقتاً رشید کی اصلاح کردیا کرتی۔ آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب سحر نے اپنی محبت کا اظہار کردیا۔ رشید بھی سحر سے پیار کرنے لگا تھا لیکن وہ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ سحر جو بھی کہہ رہی ہے وہ سچ ہے۔
**************
ایک دن رشید سے سحر سے پوچھا ، ’’رشید تم کسی اور کو پسند کرتے ہو‘‘۔ رشید نے کہا، ’’نہیں بی بی جی‘‘۔ سحر نے غصے سے کہا، ’’بی بی جی کے بچے سحر نہیں کہہ سکتے‘‘۔ ’’سحر بی بی آپ کیسی باتیں کرتی ہیں۔میں مسلّی ہوں۔ ہم لوگ کمی ہیں۔ آپ لوگ ملک ہیں ۔میرے لیئے آپ کو آپ کے نام سے بلانا بہت مشکل ہوتا ہے‘‘۔
’’رشید سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام میں کوئی کمی نہیں ہوتا۔ رہی بات مسلّی کی تو میرے نزدیک تم آرٹسٹ ہو۔ فن کار ہو۔ اگر تم مسلّی یا مراثی ہو تو ٹی وی ، فلم ،تھیٹر اور سٹیج پے کام کرنے والے سارے لوگ مراثی ہیں‘‘۔ ’’سحر بی بی آپ پڑھی لکھی ہیں اس لیئے آپ ایسا سوچتی ہیں ورنہ لوگ تو ہمیں پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں‘‘۔ ’’دیکھو رشید تم شادی کرکے میرے ساتھ آسٹریلیاء چلے جاؤ گے۔ ہم لوگ انتہائی خاموشی سے شادی کریں گے۔ تمہارا پاسپورٹ، ورک پرمنٹ،ٹکٹ ہر چیز کا میں انتظام کروں گی۔ تمہیں صرف ہاں کہنی ہے‘‘
’’سحر بی بی اگر ملک صاحب کو پتا چل گیا تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے‘‘ ۔ ’’یہ تم نے ٹھیک ہی کہا ہے۔ انہیں جان سے مارنے کا بڑا تجربہ ہے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی مروادیا تھا کیونکہ وہ ان سب چیزوں کے خلاف تھے‘‘۔ ’’سحر بی بی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ‘‘۔ ’’ہاں یہ سچ ہے۔ تم ہمیں ملک اور جاگیردار سمجھتے ہو۔ ہم بھی تمہاری طرح کمی ہی ہیں۔ میرا پردادا انگریزوں کے دور میں ایک معمولی موچی ہوا کرتا تھا۔ جب انگریز افسر کلرکہار کے علاقے میں آئے تو اس نے ان تک کسی طریقے سے رسائی حاصل کرلی۔ انگریزوں کے لیئے اور ان کی میموں کے لیئے خوبصورت اور اچھے جوتے بنایا کرتا۔ انگریز اسے کوبلر بابا کہتے تھے۔ میرا پردادا بڑا خوش ہوا کرتا ۔ تمہیں پتا ہے کوبلر ، انگریزی میں موچی کو کہتے ہیں۔آہستہ آہستہ میرے پردادا کے انگریزوں سے مراسم اتنے بڑھے کہ اس نے آس پاس کے گاؤں کی مظلوم اور مجبور عورتوں کو انگریز افسروں کو پیش کرنا شروع کردیا۔ کبھی انگریزوں کے لیئے موروں کے ناچ کا انتظام کرتا، کبھی ان کے لیئے مجرے کا انتظام کرتا۔ کبھی شکار کے لیئے ہرن فراہم کیا کرتا۔ اس طرح میرا پردادا موچی سے رائے بہادر کلہاروی بن گیا۔ کلرکہار اور اس کے آس پاس کے بیشمار گاؤں میرے پردادا کے نام ہوگئے۔
جب میرے پرداد کا انتقال ہوا تو میرا دادا ساری زمین جائیداد کا اکیلا وارث بن گیا۔ اس نے اپنی بہنوں کو کوئی حصہ نہ دیا۔ وہ بڑا ظالم آدمی تھا۔ اس کے بھی انگریزوں سے اچھے مراسم تھے۔ میرے ابا پڑھائی لکھائی میں اچھے تھے اس لیئے وہ پڑھنے کے لیئے انگلستان چلے گئے۔ ونہیں انہوں ایک انگریز لڑکی کو مشرف با اسلام کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی۔
میری امی کچھ عرصہ تو اسلام کا لبادہ اوڑھے رہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں مذھب کم اور منافقت زیادہ ہے تو انہوں نے دوبارہ عیسائیت اختیار کرلی۔ وہ کہتی تھیں ہم عیسائی بھی منافق ہیں۔ اگر منافقانہ زندگی ہی گزارنی ہے تو میں عیسائی رہوں یا مسلمان ایک ہی بات ہے۔ اس بات پے دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس دوران میں پیدا ہوچکی تھی۔ میرے والد کسی بہانے سے مجھے پاکستان لے آئے اور وہ جیسے ہی پاکستان پہنچے میرے چچا ملک عبدالقدوس کلہاروی نے انہیں مروادیا۔
ان کی موت کو ایک حادثہ قرار دیکر ان کی زندگی کی کتاب ہمیشہ کے لیئے بند کردی۔ میری ماں مجھے ڈھونڈتی ہوئی پاکستان پہنچی تو میرے چچا نے اسے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ آج تک پاکستا ن آئے ہی نہیں۔ اس طرح وہ ہمیشہ یہی سمجھتی رہی کہ ہم دونوں یا تو اس دنیا میں نہیں ہیں یا کہیں گم ہوچکے ہیں۔ میں نے اپنی تعلیم پاکستان میں مکمل کی ۔ آسٹریلیاء جاکے پڑھائی کی ۔ میرے چچا کا خیال ہے کہ میں ان کے بیٹے سے شادی کرلوں لیکن میں نے صاف انکار کردیا ہے‘‘۔
’’لیکن سحر‘‘۔
’’کیا کہا تم نے رشید‘‘۔
’’میرا مطلب ہے سحربی بی‘‘۔
’’نہیں نہیں رشید ،سحر کہو اچھا لگتا ہے‘‘۔
’’اچھا سحر کہتا ہوں۔ آپ کو میرا مطلب ہے تمہیں یہ ساری تفصیل کس نے بتائی‘‘۔
’’اچھا سوال ہے ۔ میرے والد صاحب مجھے لے کر جب پاکستان آئے تو ایک ڈائری بھی ساتھ لائے تھے۔ اس ڈائری میں انہوں نے تمام تفاصیل درج کی ہوئی تھیں۔وہ ڈائر ی انہوں نے چکوال کے بینک لاکر میں رکھ دی تھی۔ انہوں نے بینک افسر سے کہا تھا اگر میرا ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا تو یہ ڈائری میری بیٹی کو دے دینا لیکن اس وقت تک اپنے پاس رکھنا جب تک وہ اٹھارہ سال کی نہ ہوجائے۔ اگر ڈائری اس تک نہ پہنچا سکو تو اس لاکر کی چابی اس تک پہنچا دینا۔ ان کا خدشہ ٹھیک نکلا اور ان کے بھائی نے انہیں مروادیا اور جب میں اٹھارہ سال کی ہوئی تو لاکر کی چابی مجھ تک پہنچی۔ میں نے لاکر جاکے کھولا اور اس میں یہ ڈائری پڑی ہوئی تھی جس میں یہ تمام تفاصیل لکھی ہوئی تھیں جو تمہیں میں نے ابھی بیان کی ہیں‘‘
’’سحر میں تم سے ضرور شادی کروں گالیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں ان پڑھ ہوں‘‘۔
’’یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ تم ان پڑھ ہو جاہل نہیں۔ تم عورتوں کا احترام کرتے ہو۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس دن جب میں بارش میں بھیگ گئی تھی تو تم نے میرے طرف آنکھ اْٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اپنا منہ دوسری طرف کرلیا اور مجھے اپنی چادر تھما دی اور اس کے بعد اپنا تولیہ۔ اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا‘‘۔
’’سحر یہ تو میرا فرض تھا۔ عورت کا احترام کرنا تو مجھے میرے باپ نے سکھایا ہے۔ وہ کہتا ہے عورت ماں ہوتی ہے، بہن ہوتی ہے، بیٹی ہوتی ہے‘‘
’’اچھا رشید تم اپنا شناختی کارڈ بنوالو۔ باقی سب کچھ میں سنبھال لوں گی‘‘
’’ٹھیک ہے سحر‘‘۔
***********
رشید کو ملک عبدالقدوس کلہاروی کے بندوں نے بڑا مارا۔ بے چارے کے ہاتھ پاؤں نہ توڑے لیکن وہ کئی دنوں تک اپنے پیروں پے چل نہ سکا۔ اس کی ماں اس کو کئی دنوں تک ہلدی ملا ملا کے دودھ پلاتی رہی۔ آسٹریلیاء جانا، سحر بی بی سے شادی کرنا سب کچھ خواب ہی رہا۔ بس ڈرائیوری کی نوکری بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ سحر کلہاروی کہاں گئی اس کا کوئی پتا نہ چلا اور نہ ہی رشید عرف شیدا یہ بات جاننا چاہتا تھا۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا۔رشید کا اب کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ اس لیئے وہ چارپائی پے لیٹ کے سارا سارا دن گانے سنتا رہتا۔ ماں باپ نے بڑا زور دیا کہ شادی کرلے، کوئی کام دھندا کرلے لیکن وہ نہ مانا۔ آج بھی وہ چارپائی پے لیٹے لیٹے ماضی کے نہاں خانوں میں چلا گیا تھا۔شام ہوچلی تھی شیدے نے اپنا ٹیپ ریکارڈر اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔
************
راجہ علم بردار اب کے پاکستان آیا تو وہ اپنے ساتھ ویزے بھی لے کر آیا تھا۔ اْسے کسی نے بتایا تھا کہ اس کالنگوٹیہ اور بچپن کا یار بڑی مشکل میں ہے۔ علم بردار نے سوچا کیوں نا رشید کو بھی ساتھ لے چلوں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ رشید سے ملنے آیا تھا لیکن بوجہ مجبوری اسے جانا پڑ گیا تھا۔ اگلے دن وہ رشید کے گھر موجود تھا۔ رشید کے ماں باپ بڑے خوش ہوئے چلو علم بردار آیا ہے اس کے لیئے کچھ نا کچھ ضرور کرے گا۔ رشید کی ماں نے علم بردار سے بات کی تو وہ کہنے لگا، ’’ماں جی آپ فکر نہ کریں میں اسے ساتھ لے جانے ہی آیا ہوں۔ بس اس کا پاسپورٹ بنوانا ہوگا‘‘۔ رشید نے بڑا کہا کہ وہ پردیس کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتالیکن علم بردار کو رشید کی ماں نے ساری کہانی سنائی کہ کس طرح یہ ملک عبدالقدوس کلہاروی کی بھتیجی سحر کلہاروی کے عشق میں گرفتار ہوا اور وہ اسے اکیلا چھوڑ کے چلی گئی۔ ملکوں نے اسے اتنا مارا کہ یہ کئی دنوں تک چل بھی نہ سکا۔ رشید نے علم بردار کو یقین دلایا کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن وہ نہ مانا اور اس نے رشید کو ساتھ لے جانے کی ٹھان لی۔
*************
رشید عرف شیدا عرف اینٹی جب اٹلی پہنچا تو بڑا حیران ہوا۔ بالکل الگ دنیا تھی۔ راجہ علم بردار کا اپنا کاروبار تھا۔ وہ اٹلی کے مختلف شہروں میں کھانے پینے کی چیزیں سپلائی کیا کرتا تھا لیکن اس کا مستقل ٹھکانہ میلانوں تھا۔ یہیں علم بردار نے اپنا گھر خریدا ہوا تھا۔ اس گھر کے چار کمرے تھے۔ ایک کمرے میں خود رہتا تھا باقی کے تین کمرے اس نے کرائے پے چڑھا رکھے تھے۔ ہر کمرے میں تین تین بندے رہتے تھے۔ اس نے رشید عر ف شیدے کو سختی سے منع کیا تھا کہ اس کے ماضی کے بارے میں کسی کو نہ بتائے۔ یہی کہ علم بردار پیشے کے اعتبار سے نائی ہے اور اس کا نام چیسکو ہے۔ اس کے برعکس علم بردار کو جب بھی موقع ملتا وہ لوگوں کے سامنے اس بات کا ذکر ضرور کرتا کہ اس نے اپنے جگری دوست کو اٹلی بلوایا ہے اور اس سے ایک بھی پیسہ نہیں لیا۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کرتا کہ شیدا ذات یا قوم کا مسلّی ہے، مراثی ہے۔ اس کے باپ دادا ڈھول بجایا کرتے تھے۔ بھانڈ تھے۔ شادی بیاہوں پے لوگوں کو خوش کیا کرتے تھے۔ گو کہ رشید ذات یا قوم کا مسلّی یا مراثی تھا لیکن شخصیت کے لحاظ سے بہت اچھا انسان تھا۔ وہ ایک سال سے علم بردار کے لیئے مفت کام کررہا تھا اور مزید کتنا عرصہ مفت کام کرنا تھا یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ زبان پے حرفِ شکایت کبھی نہ لایا۔ وہ علم بردار کے ڈرائیوری کرتا رہا۔ جس کے بدلے اسے روٹی کپڑا اور رہائش ملتی تھی۔
**************
رشید کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوچکی تھی اس لیئے اْسے پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لیئے پاکستان ایمبیسی جانا پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے کاغذات وغیرہ پر کروائے اور پاسپورٹ فیس جمع کروائی۔ رسید لے کر نکلنے لگا تو اس کی نظر ایمبیسی میں لگے ہوئے نوٹس بورڈ پے پڑی۔ جس میں کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا لکھا ہوا تھا۔ کتاب کا پورا ٹائٹل بھی نوٹس بورڈ پے چسپاں تھا۔ ساتھ تصویر اور نام بھی۔ رشید تصویر دیکھ کے حیران رہ گیا۔ سحر کلہاروی۔ اس نے ایک بندے سے پوچھا ، ’’جناب یہ کیا لکھا ہے‘‘ تو اس آدمی نے بتایا ، ’’یہ پاکستانی جیالوجسٹ ہے اور آج کل یونائیٹڈ نیشن کے لیئے کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں جیالوجی پے کتابیں لکھتی ہے۔ یہ اس کی کتاب ہے ۔ جس کا عنوان ہے،
Kalar Khar (The world oldest civilisation)
یعنی کلر کہار ، دنیا کی سب سے پرانی تہذیب
اس کتاب کا حال ہی میں اٹالین زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس کے پبلشر موندادوری اور پاکستان ایمبیسی نے مل کر اس کتاب کی تقریبِ رونمائی رکھی ہے۔ اس تقریب میں پاکستان ایمبیسی کے عملے کے علاوہ اٹالین جیالوجسٹ، پاپولر سائنس سے متعلق لوگ بھی آئیں گے۔ اگلے ہفتے شام کو سات بجے یہ تقریب منعقد ہوگی۔ اس کے بعد خاص خاص مہمانوں کے کھانے کا انتظام ہے‘‘ اس شخص نے ساری تفصیل بتانے کے بعد پوچھا، ’’لیکن تم کیوں اتنی دلچسپی لے رہے ہو‘‘۔ رشید نے کہا، ’’ویسے ہی ‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ چل دیا۔
*************
ہفتے والے دن شیدا ساڑھے چھ بجے ہی پاکستان ایمبیسی پہنچ گیا۔ اس کو چوکیدا ر نے اندر جانے ہی نہ دیا۔ سیکیورٹی کا انتظام بہت سخت تھا۔ رشید بڑی مشکل سے ایمبیسی میں داخل ہوگیا۔
ایک کونے میں سحر کلہاروی کے دو بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ماتھے پے سفید بالوں لی ایک لٹ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ رشید ہال میں لگی ہوئی کرسیوں میں جو آخری نشست تھی وہاں خاموشی سے جاکے بیٹھ گیا۔ ابھی وہ بمشکل بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ، آپ نے کتاب خریدنی ہے تو مجھے رقم ادا کردیں اور میں آپ کو کتاب عنایت کردوں گا۔ جب سحر بی بی آئیں گی ،جن جن لوگوں کے پاس کتاب ہوگی وہ اس پے اپنے دستخط کردیں گی۔ شیدے نے جلدی رقم ادا کی اور وہ شخص چند لمحوں میں رشید کے ہاتھ میں کتاب تھما کے چلا گیا۔ اس طرح اس شخص نے کئی لوگوں کو کتاب عنایت کی۔ رشید کتاب کو الٹ پلٹ کے دیکھنے لگا۔ کتاب اٹالین میں تھی اور رشید تو ٹھیک سے اردو بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔
ٹھیک سات بجے تقریب شروع ہوئی۔ سٹیج پے رنگ برنگی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کو رشید بالکل ہیں جانتا تھا لیکن اس نے سحر کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وقت کے ساتھ تھوڑی سی تبدیلی آئی تھی لیکن مسکراہٹ بالکل ویسی ہی تھی۔
لوگ باری باری آکے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ کوئی انگریزی میں بولتا اور کوئی اطالوی میں۔ آخر میں سحر نے انگریزی میں مختصر سی تقریر کی۔ رشید کو صرف اتنا سمجھ آیا کہ سحر نے ا س کا نام لیا ہے۔
کتاب کے حوالے سے تقریب ختم ہوئی تو لوگ ایک ایک کرکے سحر کلہاروی کے پاس جانے لگے۔ وہ کتاب پے دستخط کرکے ان کے ہاتھ میں تھما دیتی۔ آخر میں رشید نے بھی کتاب پیش کی، سحر نے کتاب پے دستخط کیئے اور جیسے ہی کتا ب رشید کو واپس کرنے لگی تو اس کو غور سے دیکھا اور کہا، ’’رشید تم زندہ ہو‘‘۔
’’ہاں سحر بی بی میں زندہ ہوں‘‘۔
’’لیکن میرے چچا نے کہا تو کہا تھا کہ تم، او میں اب سمجھی‘‘
وہ رشید کو لے کر ایک طرف ہوگئی۔ پہلے رشید نے مختصر لفظوں میں اپنی رام کہانی سنائی اس کے بعد سحر کلہاروی نے گزرے ہوئے واقعات کا ذکر کیا۔
سحر نے رشید کا ہاتھ پکڑا اور سٹیج پے جاکے سب کوبتایا کہ میری اس کتاب کا انتساب اس شخص کے نام ہے۔ سب لوگوں نے کتاب کا وہ والا صفحہ دیکھا واقعی اس پے رشید عرف شیدا لکھا ہوا تھا۔ سحر نے اس کے بعد تمام تفصیل بتائی جو کہ انگریزی میں تھی۔
**********
اگلے دن اٹلی کے تمام اخباروں میں سحر اور رشید کی شادی کی خبر چھپی اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں کی داستانِ محبت بھی تفصیل سے چھپی۔ اسکے علاوہ ٹی وی پر ان کا انٹرویو دکھایا گیا۔ راجہ علم بردار یہ سب دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ اخبار والوں نے اس خبر کو خوب اچھالا ۔ سحر اور رشید عرف شیدا دونوں وی آئی پی بن گئے۔ چند دن اٹلی رہ کر سحر اور رشید آسٹریلیاء چلے گئے۔
*************
from 05/01/2008 to 25/01/2008
SARFRAZ BAIG baigsarfraz@hotmail.com
Arezzo, Italy.
؁ٗ ْ ْْْْْْْْْْْْْْ

No comments:

Post a Comment