Monday, April 18, 2011

PAKISTANI EMBASSY IN ITALY





اٹلی میں پاکستانی ایمبیسی

اٹلی میں پاکستان کی ایمبیسی ہو یا پاکستان میں اٹلی کی ایمبیسی ہو دونوں صورتوں میں ان سے واسطہ پڑنے والے پاکستانیوں کو ایک ہی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پے پاکستانی عملہ ہوتا جس کا سابقہ اپنے ہی ملک کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی نا کوئی غیر ملکی بھی ان کی خدمات سے مستفید ہوتا ہے لیکن زیادہ تر پاکستانی ہی یہاں اپنے کسی نا کسی کام سے جاتے ہیں۔ وہاں پاکستان میں اٹالین ایمبیسی کا عملہ اتنا برا سلوک نہیں کرتا جتنا وہاں کاؤنٹر کلرک جو کہ ہمارا ہم زبان اور ہم ملک ہوتا وہ برا سلوک کرتا ہے۔
        اٹلی میں جو پاکستان کی ایمبیسی ہے وہاں کے عملے والے اس بات سے باخبر ہیں کہ ان کے افسران اعلیٰ نے یہاں تین سال سے زیادہ نہیں رکنا، اس لیئے وہ تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کا جس طرح کا دل چاہتا ہے اس طرح کا سلوک وہ اپنے ہم وطن مہاجرین بھائیوں سے کرتے ہیں۔ کئی دفعہ بدتمیزی کی مظاہرہ بھی کرجاتے ہیں اس میں ہم مہاجرین کا بھی قصور ہے کیونکہ ہم لوگ بھی کئی دفعہ ایسی عجیب بات کرجاتے ہیں جو کہ نہیں کرنی چاہیئے۔ کئی دفعہ ہم ایمبیسی میں ایسے لباس میں چلے جاتے ہیں جو کہ اس طرح کی جگہ پے جانے کے لیئے مناسب نہیں ہوتا۔ مجھے ایک دفعہ اس طرح کا بھی اتفاق ہوا کہ میں نے ایک شخص کو ایمیبیسی میں ایسے لباس میں دیکھا کہ اس کے کپڑوں پے سالن لگا ہوا تھا۔ پاکستان ایمبیسی کی عمارت سامنے سے تین منزلہ ہے لیکن پچھلی طرف اس کی دوسری منزل پہلی بن جاتی ہے کیونکہ وہ دوسری طرف سے اونچائی پر ہے۔ یہ ایمبیسی کا پرانا داخلی دروازہ ہے لیکن یہاں سے اب بھی گاڑیاں داخل ہوتی ہے۔ اس طرف ایک باغ ہے اور اس میں پاکستانی جھنڈا اپنی پوری آب و تاب سے لہراتا رہتا ہے ۔اور میری دعا ہے کہ یہ ہمیشہ اسی طرح لہراتا رہے۔ یہیں سے ایمبیسی کے اندر داخل ہوں تو ہال میں داخل ہوتے ہی دروازے کے اوپر محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی ۔پھر ایک کالے رنگ کا چمڑے کا صوفہ پڑا ہوا ہے۔ اس ہال کے نیچے ایمبیسی کے وہ کمرے ہیں جہاں ایمبیسی کا عملہ کام کرتا ہے۔ اسی ہال میں دس بارہ مصوری کے نمونے سجائے گئے ہیں لیکن ان کے نیچے یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ تصاویر کس مصور کی ہیں یا کن مصوروں کی ہیں۔ اسی ہال ک اندر سے ہی سیڑھیاں اوپر کو جاتی ہیں اور ایک طرف ایمبیسڈر کا کمرہ ہے اور ا سے ملحق دیگر عملے کے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔
اٹلی یورپ کا واحد ملک ہے جہاں فنون لطائف سے متعلق ستر فیصد عجائبات پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مشور ماہر آثار قدیمہ جوزپے ٹوچی نے سوات میں 1955 میں کام کیا تھا۔ اس نے کھدائی سے گندہارا آرٹ کے نادر نمونے نکالے۔ اس کے علاوہ اس نے گندھارا آرٹ پے پانچ کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ الیسادرو باوسینی نے پاکستان اور افغانستان کے ادب و زبان پے کتاب لکھی تھی۔ یہ وہی شخص ہے جس کا اشفاق احمد نے اپنی کتاب اور ٹی وی پروگرام زاویہ میں ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ الیساندرو باوسینی نے منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ اور فیض احمد فیض کی چند نظمیں بھی اٹالین میں اردو سے ترجمہ کی تھیں۔ اب آتے ہیں اٹالین کوہ پیماؤں کی طرف ۔کے ٹو جسے سر گوڈون آسٹن بھی کہتے ہیں سب سے پہلے اٹالین کوہ پیماؤں نے ہی سر کی تھی(پاکستان بننے کے بعد)۔ اب جس ملک کا علم و ادب اس معراج پر ہو۔ جس ملک میں سیاحت صنعت کی حیثیت رکھتی ہو۔ وہاں پے  تو اس کے مطابق کام ہونا چاہیئے۔ مجھے ایک دفعہ ایک ثقافتی تقریب کےلیئے پاکستان کے خوبصورت مناطر کے پوسٹرز چاہیئے تھے اس کے علاوہ کچھ پیمفلٹ چاہیئے تھے تو ایمبیسی والوں نے مجھے1977 کے عربی میں چھپے ہوئے پیمفلٹ بھیج دیئے۔ ویسے تو ایمبیسی میں خط یا ای میل کا جواب دینے کا روا ج نہیں لیکن میرے اس خط کا جواب انہوں نے دیا۔ میں اس بات کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہم لوگ جو ایمبیسی جاتے ہیں ہم بھی دودھ کے دھلے نہیں لیکن کئی دفعہ ایمبیسی کا عملہ نہایت بد تمیزی سے پیش آتا ہے۔ ایمبیسی والوں کو اس بات کا احسا س نہیں ہوتا کہ ان کے پاس آنے والے شخص کی عزت نفس اٹالین بھی مجروح کرتے ہیں اور یہاں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔وہ دل ہی دل میں بہت کڑھتا ہے۔ ایمبیسی میں کام کرنے والوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ سجورنو کی تجدید کروانی ہے۔ اگر گھر چھوٹا ہو تو سجورنو رینیو نہیں ہوتی،اگر سالانہ بچت ۱۵۰۰۰ ہزار یورو نہ ہو تو سجورنو رینیو نہیں ہوتی۔ کام چھوٹ جائے تو سجورنو کینسل ہوجانے کا ڈر ہوتا ہے۔ ان سارے مسائل کے ساتھ وہ اٹلی میں رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ قانون بھی سخت ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے صرف ماں باپ کے پاسپورٹ میں بچوں کا اندراج ہوتا تھا۔ دو بندوں کا پاسپورٹ بنتا تھا۔ اب بچوں کا بھی شناختی کارڈ بنتا ہے۔ جس کے دوبچے ہوں وہ دوسو یورو خرچ کرکے پہلے ایمبیسی جاتا ہے اس کے بعد ان کی فیس ادا کرکے شناختی کارڈ جمع کرواتا ہے۔ کئی دفعہ شناختی کارڈ مہینے بعد آجاتا ہے اور کئی دفعہ سال سال اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ اگر شناختی کارڈ نہ ہو تو ڈیجیٹل پاسپورٹ نہیں بنتا۔ اس سارے عمل میں انسان ایک عجیب سی ذہنی کوفت سے گزرتا ہے۔ ایسے میں ایمبیسی کے عملے کا کوئی نا کوئی بندہ جو سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوتا ہے ایمبیسی میں آئے ہوئے بندے کو انسان نہیں کیڑے مکوڑے تصور کرکے عجیب و غریب لہجے میں بات کرتا ہے۔ اگر آپ ایمبیسی کو فون کریں توآپ کو ہولڈ کروادیا جاتا ہے اور دوسری طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس سے کہ دو میں سیٹ پر نہیں ہو گھنٹے بعد فون کرے۔ اگر ان کو کوئی چیز ای میل کی جائی تو اس کو جواب وہ کبھی نہیں دیتے۔ حالانکہ جس مہذب سوسائٹی میں ہم لوگ رہ رہے ہیں، ای میل ایک خط کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس میں ایمبیسی کے عملے کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ جب پاکستان سے چلتے ہیں تو ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اٹلی میں پاکستانی کیا ہوں گے۔ ان کو تہذیب و تمدن سے کیا لینا دینا۔ حالانکہ اٹلی میں پائے جانے والے  مہاجرین ،مصنف بھی ہیں، شاعر بھی ہیں، صحافی بھی ہیں، مفکر بھی ہیں۔ ہر طبقہ ئِ فکر سے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں ۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے اگر کسی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ میں یہ بات کسی ڈر یا خوف سے نہیں لکھ رہا بلکہ مہذب لوگ تنقید سن بھی سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کے لیئے بھی تیار رہتے ہیں۔

Emabassy of pakistan
Via della cammilluccia 682
00135 Rome
Phone: 0636301775
              063294836
E:mail:
SARFRAZ BAIG






No comments:

Post a Comment