Wednesday, June 15, 2011

pase ayena 3rd chapter

3




سوموار کو شام سات بجے ہمارے گھر کی گھٹی بجی۔ میں نے نیائش سے کہا، ’’اس وقت کون آگیا‘‘۔
نیائش کہنے لگا، ’’مالک مکان تو نہیں آگیا۔ اسے کئی دفعہ نیچے سٹور سے چیزیں نکالنی ہوتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ تھوڑے دیر بعد ان کے کھانے کا وقت ہوجائے گا‘‘۔
خیرنیائش نے انٹرکام پے پوچھا ، ’’کی اے ، یعنی کون ہے‘‘۔ جواب سن کے اس نے دروازہ کھول دیا۔
کوئی جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آرہا تھا۔ جب وہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا تو میں دیکھ کے حیران رہ گیا۔ میرے سامنے ثقلین کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’ثقلین آ پ کیسے، اس وقت‘‘۔
اس نے جواب دیا، ’’سارا قصور آپ کا ہے‘‘۔
میں کہا، ’’میرا‘‘
’’جی آپ کا ۔ میں آپ کا دوسرا باب لے آیا ہوں۔ اگر ہوسکے تو اگلا باب دے دیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس کا مطلب ہے آپ نے دلچسپی سے پڑھاہے‘‘۔
’’آپ دلچسپی کی بات کرتے ہیں۔ میں رات کو سو نہیں سکتا۔ ہر وقت یہی سوچتا رہتا ہوں کہ آگے کیا ہوگا‘‘۔
اگر یہ بات ہے تو میں آپ کو اگلا باب بھی دے دیتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو سارے باب پڑھنے پڑیں گے‘‘۔
’’مجھے آپ کی شرط منظور ہے۔ ویسے میں نے اس کے بارے میں کچھ اور سوچ رکھا ہے‘‘۔
نیائش ہم دونوں کی گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا۔ کہنے لگا، ’’ارے پری پیکر، میرے دوست نے تم پے کیا جادو کردیا ہے۔ کل تک تو تم اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے‘‘۔
’’نیائش بھائی انسان کتابوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جب تک ان کو کھول کے پڑھو نہ ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا۔ میں غلطی پر تھا۔ حالانکہ میں جس شعبے سے تعلق رکھتا ہوں اس میں ہم کئی قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں سنتے ہیں لیکن میں نے یہ کتاب عنوان دیکھ کر ہی رکھ دی تھی‘‘۔
فرشتہ پاس کھڑا سن رہا تھا کہنے لگا، ’’ثقلین صاحب اب بھی وقت ہے۔ میرے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنے سے پہلے سوچ لیں۔ میرے لکھے ہوئے پے مت جائیں ۔یہ چھوٹ کا پلندہ بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
’’فرشتہ صاحب جھوٹ کا پلندہ اتنا دلچسپ نہیں ہوسکتا‘‘۔
’’آپ کی ذرہ نوازی ہے‘‘
اتنا کہہ کر فرشتہ کمرے سے تیسرا باب لینے چلا گیا۔
دوسراباب اس کے ہاتھ لیا اور تیسرا اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ثقلین نے تیسرا باب لیتے ہوئے کہا، ’’میں چلتا ہوں‘‘
نیائش اور میں نے یک زبان ہوکر کہا، ’’ثقلین صاحب کھانے کھا کے جائیے گا‘‘۔
ثقلین کہنے لگا، ’’میں سوچ رہا تھا کہ ابھی نہ جاؤں لیکن میرا تجسس میرے آڑے آگیا، ورنہ میں کھانے کے وقت کبھی نہ حاضر ہوتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ثقلین صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں۔ آپ کا نصیب آپ کو یہاں لے کے آیا ہے۔ ہم نے کوئی خاص چیز تو بنائی نہیں۔ آپ کو دال چاول کھلانے ہیں۔ دال تیار ہے بس چاول بنانے ہیں۔ ساتھ تھوڑا سا رائتہ بناؤں گا۔ تھوڑا سلاد اور میں آج ہی احمد کا مکس اچار لایاہوں۔ سہی ماحول بنے گا‘‘۔
’’فرشتہ صاحب میں کبھی بھی کھانا نہ کھاتا لیکن آپ نے چیزوں کے نام لے کر میری بھوک بڑھا دی‘‘۔
جب کھانا تیار ہوگیا تو میں نے اور نیائش نے کھانے کی میز پے تمام چیزیں چن دیں۔ ابلے ہوئے چاول، مسور کی دال جس کو پیاز اور لہسن کا تڑکا لگایا تھا۔ پیاز،کھیرے، ٹماٹر اور موذریلا میں تھوڑی سی کریم ڈال کر میں سلاد بنایا تھا۔ کھانا دیکھ کے سب کی بھوک میں اضافہ ہوگیا۔ ہم تینوں نے سَیر ہوکر کھایا۔ جب کھانا کھاچکے تو میں نے کہا، ’’چائے کا دور ہوجائے‘‘۔
ثقلین کہنے لگا، ’’تمہیں تو پتا ہے میں چائے نہیں پیتا ‘‘۔
نیائش کہنے لگا، ’’چلوں میں تمہیں پشاوری قہوہ پلاتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یار یہ پیلا شربت مجھے نہ پلانا‘‘۔
نیائش کہنے لگا، ’’یہ کھانا ہضم کرنے میں مدد دے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم لوگ قہوہ پیؤ ،میں اپنے لیئے چائے بناؤں گا‘‘۔
خیر نیائش اور ثقلین پری پیکر نے قہوہ پیا اور میں نے چائے۔ اس کے بعد میں نے سارے برتن اٹھا کے سنک میں رکھ دیئے۔ نیائش کہنے لگا، ’’برتن میں دھو دونگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں میں دھو دونگا۔ ویسے بھی مجھے دیر سے نیند آتی ہے‘‘۔
نیائش نے ہم سے اجازت طلب کی اور سونے چلا گیا کیونکہ اس نے صبح کام پے جانا تھا ۔ جیسے ہی نیائش اٹھا ثقلین نے بھی اجازت لی اور چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین جیسے ہی گھر پہنچا تو اس سے ایک لڑکے نے پوچھا کہ ثقلین بھائی کھانا نہیں کھانا۔ تو اس نے جواب دیا میں کھانا کھا نا کھا کر آیا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ٹیبل لیمپ آن کیا اور تیسرا باب پڑھنا شروع کیا۔
میں اپنی سوچوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسی اثنا ء میں جس پلیٹ فارم پے بیٹھا تھا ، وہاں ایک ٹرین آکر رکی۔ میں نے احتیاطً ایک شخص سے پوچھا کہ یہ ٹرین لوگانوں جارہی ہے تو اس نے بتایا کہ ہاں یہ ٹرین لوگانوں رکے گے۔ میں ٹرین میں سوار ہوگیا۔ ہمیشہ کی طرح میں نے کھڑکی کی طرف بیٹھنا پسند کیا۔ اتفاق سے ٹرین میں اتنا رش نہیں تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ چلی ۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا دور ایک کونے میں کسی گھر کے باہر لکڑی کی ایک ریڑھی پڑی ہوئی تھی جس میں جا بجا پھولوں والے گملے جَڑے ہوئے تھے ۔ مجھے اتنی دور سے پتا تو نہ چلا کہ یہ کون سے پھول ہیں لیکن ان کا رنگ ضرور نظر آرہا تھا۔ آتشی گلابی پھول اس بات کا پتا دیتے تھے کہ جیسے مجھے اپنے ملک میں خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ جیسے ہی ٹرین کی رفتار میں اضافہ ہوا یہ منظر میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ ایک بات میں نے نوٹ کی کہ ٹرین جیسے جیسے آگے چلتی جارہی تھی صاٖف محسوس ہورہا تھا کہ میں کسی امیر ملک میں داخل ہورہا ہوں۔ اٹلی کے قدرتی مناظر مختلف ہیں اور سوس کے قدرتی مناظر مختلف ۔ اٹلی میں گھروں کی چھتیں تھوڑی نیچی تھیں اور سوس میں گھروں کی چھتیں اونچی تھیں۔ اس کے علاوہ گھروں دروازے اور کھڑکیاں بھی مختلف تھیں۔ گھروں کی آرائش اور زیبائش میں اطالوی لوگ سوس لوگوں سے بہت آگے ہیں۔میں ابھی اسی تقابلی جائزے میں مصروف تھا کہ ٹکٹ چیکر آیا اور سب کے ٹکٹ چیک کرنے شروع کردیئے۔ میں نے بھی اپنا ٹکٹ دکھایا اس نے ٹکٹ دیکھ کے واپس کردیا۔ میں دوبارہ خیالوں کی دنیا میں چلا گیا۔ میں اس بات سے ناواقف تھا کہ میں نے رات کو سونا کہاں ہے۔ بس اتنا جانتا تھا کہ کرائس لنگن جاکے سیاسی پناہ کے دفتر جاکے وہاں سیاسی پناہ گزین کی درخواست دینی ہے۔ ٹرین اسی طرح چلتی رہی اور مجھے پتا ہی نہ چلا کہ لوگانوں ریلوے سٹیشن آگیا۔ میں لوگانوں ریلوے سٹیشن پے اترا اور سیدھا ٹکٹ گھر کی طرف آیا۔ سٹیشن کے ایک طرف کمرے بنے ہوئے تھے۔ آس پاس مختلف جگہوں پے چار زبانوں میں لکھا ہوا تھا۔ جرمن ،فرنچ اور اٹالین کا تو پتا چلتا تھا لیکن ایک زبان غیر معروف تھی۔ میں سوچنے لگا کیسا عجیب ملک ہے اس کی ایک زبان ہی نہیں بلکہ چار چار زبانیں ہیں
حالانکہ سوئٹزرلینڈ رقبے کے لحاظ سے زیادہ بڑا ملک نہیں۔ میں ریلوے سٹیشن پے ٹکٹ گھر پے ٹکٹ لینے کے چلا گیا۔ یہاں بھی کیبن میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے گلے میں بھی اسی طرح کا سکارف تھا جس طرح کا کیاسو ریلوے سٹیشن پے اس عورت نے گلے میں خوبصورتی سے باندھا ہوا تھا۔ اس کے سکارف کی دھاریاں بھی نیلی اور پیلی تھیں فرق صرف اتنا تھا یہ لڑکی کافی کم عمر تھی۔ شاید بیس سال کی ہوگی۔ میں نے انگریزی میں اسے کہاکہ مجھے کرائس لنگن(kreuzlingen) جانا ہے۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا پھر بڑے اچھے انداز میں انگریزی میں جواب دیا۔ اچھا انداز اس لیئے کیونکہ اس کا تلفظ بہت اچھا تھا ۔ عام طور ریلوے سٹیشن پے کام کرنے والے واجبی سی انگریزی جانتے ہیں لیکن جب سے میں سوس میں داخل ہوا تھا میں نے ایک بات نوٹ کی کہ یہ لوگ انگریزی اٹالین لوگوں کی نسبت کافی اچھی جانتے ہیں۔ اس نے مجھے غور سے اس لیئے دیکھا تھا کیونکہ اس وقت شام کے سات بج چکے تھے۔ وہ حیران اس بات پے تھی کہ میں سوس کے آخری کونے میں جارہا ہوں۔ کرائس لنگن(kreuzlingen) کوئی اتنی مشہور تفریح گاہ بھی نہیں۔ جہاں میں کھڑا تھایہ اس کنٹون کو تی شینوں(Ticino) کہتے ہیں اور یہاں کی زبان اٹالین ہے لیکن دیگر زبانیں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں جس کا اندازہ مجھے اب تک ہوچکا تھا۔ جہاں کا میں نے اس سے ٹکٹ مانگا تھا یہ شہر جرمنی کے بارڈر پر ہے ۔ اس شہر کی ایک جھیل مشہور ہے جس کانام ہے بودن سے(boden see) یا کوستانز سے(costanze see) ہے جبکہ اٹالین اس کو لاگو دی کوستانسو(Lago di costanso) کہتے ہیں۔یہ شہر تھرگاؤ (thurgau)کنٹون میں ہیں یعنی میں ایک کونے سے دوسرے کونے میں جارہا تھا۔ خیر اس نے مجھے ٹکٹ دیا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ اس وقت ٹرینیں تھیں۔ اگر مجھے ذرا بھی دیر ہوجاتی تو مجھے رات زیورگ ریلوے سٹیشن پے گزارنی پڑتی۔ اس نے مجھے تین ٹکٹ دیئے۔ پھر ان کی تفصیل بتائی۔ پہلا ٹکٹ تم لوگانوں سے زیورگ تک استعمال کرو گے۔ دوسرا ٹکٹ زیورگ سے
ونٹرتھور(winterthur) کا ہے اور تیسرا ٹکٹ ونٹرتھور سے کرائس لنگن کا ہے۔ یہاں سے تمہاری ٹرین ساڑھے سات بجے چلے گی اور تین گھنٹے میں زیورگ پہنچے گی۔ زیورگ سے تم لوکل ٹرین پے بیٹھ کے تقریباً چالیس منٹ میں ونٹر تھور پہنچ جاؤ گے۔ وہاں ونٹر تھورسے تمہیں کرائس لنگن کے لیئے ٹرین ملے گی۔ میرے خیال میں تم ساڑھے گیارہ بجے کرائس لنگن پہنچو گے۔ اس نے ساری تفصیل مجھے زبانی بتائی۔ میں نے کہا، اگر تمہیں برا نہ لگے تو مجھے مہربانی کر کے اس سارے سفر کا اور ٹرینوں کا پرنٹ آوٹ نکال دو تانکہ مجھے سمجھنے میں آسانی رہے اور راستے میں مجھے کوئی مسئلہ ہو تو میں کسی کو دکھا کر پوچھ سکتا ہوں۔ وہ کہنے لگی ، میں نے کمپیوٹر پے کمانڈ دے دی ہے۔ تمہیں اس کا پرنٹ آوٹ بھی دوں گی۔ تھوڑی دیر میں اس نے میرے ہاتھ تمام سفر کی تفصیل ، ٹرینوں کے نام اور نمبر اور اوقاتِ کار تھما دیئے۔ اس نے ٹرینوں کے ٹائم اور شہروں کے نام ہائیلائٹ کردیئے تھے۔ جس دوران وہ اس عمل میں مصروف تھی میں اس کو غور غور سے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی خوبصورت اور جوان تھی۔ بالوں کا رنگ کالا تھا۔ خد و خال سے اٹالین لگتی تھی۔ کیونکہ یہ کنٹون اٹالین ہے اس لیئے یہاں اٹالین امیگرنٹس کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس کے ناک نقشہ تو پیارا تھا ہی اس کے ہاتھ بھی بہت خوبصورت تھے۔اس نے گورے گورے ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں ہائیلائیٹر پکڑا ہوا تھا اور جن ریلوے سٹشینوں پے مجھے اترنا تھا ان کوپیلے رنگ کے ہائیلائٹر سے ہائی لائٹ کر رہی تھی تانکہ مجھے سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ اس کے انگلیوں میں دبا ہوا ہائی لائیٹر بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ اس نے ناخنوں پے لال رنگ کی نیل پا لش لگا رکھی تھی۔
میں نے فاہرپلان یعنی سفر کی تفصیلات ہاتھ میں لیں اور اس کا شکریہ ادا۔ اب مجھے لوگانوں سے زیورک اور زیورک سے ونٹر تھور اور وہاں سے کرائس لنگن جانا تھا۔ میرے ٹرین کے آنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھی۔ میں نے سوچا کیوں نا ایک دو فون کرلوں۔ میں نے آس پاس نظر دوڑائی۔ قریب ہی ایک کیبن بنا ہوا تھا۔ جہاں ٹیلی فون بوتھ اور انٹر نیٹ پوائنٹ تھا۔ میں اندر چلا گیا۔ فون بوتھ کی سلوٹ میں پانچ سوس فرانک کا سکہ ڈالا اور نیائش کا نمبر ملا دیا۔ دوسری طرف سے جواب آیا ، ’’کی اے ، یعنی کون ہے‘‘۔ میں نے جواب میں کہا، ’’میں ہوں نیائش بھائی۔ میں لوگانوں سے بول رہا ہوں۔ یہاں سے تھوڑی دیر میں میں زیورک چلا جاؤں گا۔ وہاں سے پھر آگے جانا ہے‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’فرشتہ سب ٹھیک ٹھاک ہے نا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ واپس آجاؤ لیکن تم نہ مانے ۔ خیر وہاں پہنچ کر اطلاع دینا‘‘۔ میں نے کہا، ’’اچھا نیائش بھائی‘‘ ۔یہ کہہ کر میں نے فون بند کردیا۔
اس کے بعد میں نے اپنے موبائیل فون سے سوزی کا نمبر نکالا۔ موبائیل فون کو سامنے رکھ کے سوزی کا نمبر ڈائیل کیا۔ دوسری طرف سے جرمن میں کسی نے کچھ کہا۔ میں نے انگریزی میں اپنا مدعا بیان کیا کہ میں ہوں۔ فون سوزی نے ہی اٹھایا تھا۔ جب اس کو پتا چلا کہ میں فرشتہ بول رہا ہوں تو وہ بڑی خوش ہوئی۔ کہنے لگیِ ،’’کہاں سے بو ل رہے ہو‘‘۔ میں نے کہا، ’’میں لوگانوں ریلوے سٹیشن سے بول رہا ہوں۔ میں قریباًدس ساڑھے دس بجے زیورک پہنچوں گا‘‘۔ سوزی زیورک میں کسی دفتر میں کام کرتی تھی اور وہ اورلیکون(orlekon) کے پاس کہیں رہتی تھی۔ میرا سوس آنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ زیورک سوزی سے مل کر یہاں رہنے کا انتظام کروں گا اور سوزی کی مدد سے کوئی کام وغیرہ ڈھونڈوں گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری لیئے کچھ نا کچھ ضرور کردے گی۔ فون پے اِدھر اْدھر کی باتیں ہونے لگی۔ پھر اس نے کہا ، ’’ٹھیک ہے تم سے زیورک ریلوے سٹیشن پے ملاقات ہوگی‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
میں خوش تھا کہ میں جس مقصد کے لیئے سوس آیا تھا وہ پورا ہونے جارہا تھا۔ مجھے امید تو نہیں تھی کہ سوزی اتنی اچھی طرح پیش آئے گی۔ میں سوزی کے بارے میں نیائش کو بھی نہیں بتایا تھا۔میرا خیال تھا سارا کام ہوجانے کے بعد بتاؤں گا۔ ہم پاکستانی لوگ بڑے جذباتی ہوتے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا دکھ دل میں بٹھا لیتے ہیں۔ یہ بات میں نے کیوں کی ہے اس کے بارے میں آپ کو آگے چل کے پتا چلے گا۔
ٹرین آکے پلیٹ فارم پے رکی۔ اٹالین لوگ پلیٹ فارم کو بناریو(binario) کہتے ہیں اور سوس جرمن میں اس کو گلائس(gleis) بھی کہتے ہیں۔ میں ٹرین میں سوار ہوا۔ ویسے تو میری ٹکٹ پے سیٹ نمبر لکھا ہوا تھا لیکن ٹرین میں زیادہ لوگ نہیں تھے اس لیئے میں کھڑکی والی سیٹ پے بیٹھ گیا۔ میں ٹرین میں بیٹھ کے اٹلی اور سوس کی ٹرینوں کا موازنہ کرنے لگا۔ سوس ٹرینوں کی سیٹیں بھی اچھی تھیں اور یہ
کافی صاف ستھری تھیں۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متا ثر کیا وہ یہ کہ سوس ٹرینیں وقت کی بہت پابند تھیں۔ جس ٹرین پے میں سوار ہوا تھا اور مجھے زیورک جانا تھا۔ یہ ٹرین بالکل اسی وقت پے آئی جو وقت اس کاغذ پے لکھا ہوا جو اس لڑکی نے مجھے پرنٹ کرکے دیا تھا ۔ اس کے برعکس اٹلی کی ٹرینیں کم آرام دہ، صفائی کم کم اور وقت کی پابندی کی تو بات ہی نہ کریں۔ کبھی وقت پے نہیں آتیں۔ جتنا وقت میں نے اٹلی میں گزارہ اس دوران اگر کبھی ٹرین پے سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو ایسا کئی دفعہ ہوا کہ کسی اٹالین سے بحث ہوگئی کہ تمہارے ملک کی ٹرینین وقت کی پابند کیوں نہیں تو وہ اس کا جواب یہ دیا کرتے کہ تمہارے ملک پاکستان میں ٹرینیں وقت کی پابندی کرتی ہیں ۔میں ان سے ہمیشہ کہا کرتا کہ تم ہماری ٹرینوں کا اپنے ملک کی ٹرینوں سے موازنہ نہ کرو ۔ ہمیں جو ٹرینیں اور ریل ٹریک انگریز دے کر گئے تھے ابھی تک وہی چل رہا ہے۔ جبکہ اٹلی ایک ایسا ملک ہے جو یوریپیئن یونین میں ہے۔ میں اٹلی کی ٹرینوں کا موازنہ دیگر یورپیئن ملکوں سے کرتا ہوں۔ میں انہی تقابلی جائزوں میں مصروف تھا کہ ٹرین کسی سٹاپ پے رکی۔ میں کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو باہر بیلن زونا(belenzona) کا بورڈ نظر آیا۔ لوگانوں سے بیلن زونا تک قدرتی مناظر بالکل اٹلی کی طرح تھے۔ راستے میںآنے والی عمارتیں بھی اطالوی انداز کی تھیں۔ یہاں بیلن زونا جب ٹرین رکی تو میں نے احتیاطً وہ کاغذ دیکھا جس پے تمام سٹیشنوں پے جہاں جہاں ٹرین نے رکنا تھا کا نام اور وقت لکھا ہوا تھا۔ جو وقت بیلن زونا پہنچنے کے لیئے لکھا ہوا تھا ٹرین اسی وقت پے پہنچی تھی۔ یہاں بیلن زونا سے ایک نوجوان لڑکا ٹرین میں سوار ہوا میرا مطلب ہے جس ڈبے میں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی عمر قریباً پچیس سال ہوگی یا اس سے بھی کم۔ موٹا تازہ۔ اس نے جو ٹی شرٹ پہنی ہوئی اس پے عربی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ سفید رنگ کی ٹی شرٹ پے عربی میں کالے رنگ سے لکھا ہوا بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کی جینز پہنی ہوئی تھی۔ جوتے اس کے جوگر ٹائپ کے تھے۔ قد کاٹھ ٹھیک تھا میرے خیال میں مجھ سے کچھ لمبا تھا۔ چہرہ گول ،چھوٹی چھوٹی آنکھیں، ناک نہ تیکھی نہ موٹی ، درمیانی سی تھی۔ داڑھی بڑھی ہوئی اور اس کے بال سنہرے تھے جبکہ سر کے بالوں کا رنگ سنہرہ لیکن گہرا تھا۔ وہ آکے میرے سامنے والی سیٹ پے بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی جرمن میں کچھ کہا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ میں نے انگریزی میں کہا مجھے جرمن زبان نہیں آتی تو اس نے انگریزی میں جواب دیا کوئی بات نہیں ۔میں نے صرف یہ پوچھا تھا کہ تم کہا جارہے ہو۔ میں نے اسے جواب دیا کہ میں زیورگ جارہا ہوں۔ میں نے پوچھا تم کہا جارہے ہے تو کہنے لگا میں ونٹر تھور جارہا ہوں۔ اس طرح بات چیت کا سلسلہ چل نکلا۔
میں نے اس سے کہا کہ تم نے یہ ٹی شرٹ جو پہنی ہوئی اس پے عربی زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے۔ تو کہنے لگا تم عربی پڑھ سکتے ہو۔ تو میں نے جوب دیا کہ صرف پڑھ سکتا ہوں لیکن مجھے اس کا مطلب نہیں پتا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ میں عربی پڑھ سکتا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی۔ خیر اس نے مجھے مطلب بتایا ۔ پھر اس نے مجھ سے وہی گھسا پٹا سوال کیا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہوں ۔ میں نے جواب دیا کہ میں پاکستا ن کا رہنے والا ہوں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ تم عربی کیسے جانتے ہوں۔ میں نے اسی تفصیل سمجھائی۔ کہ میں مسلمان ہوں۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی زبانیں بھی ہیں جن میں پنجابی، پشتو، بلوچی اور سندھی صوبائی زبانیں ہیں۔ انگریزی ہماری دفتری زبان ہے۔ عربی ہماری مذہبی زبان سمجھ لو۔ پرانے لوگ عربی لکھنی پڑھنی جانتے تھے اور سمجھتے بھی تھے اس کے علاوہ فارسی بھی لوگوں میں عام تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی توجہ فارسی اور عربی کی طرف کم ہوگئی۔ اب لوگ اردو اور انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرا جواب سن کر وہ زور ہنسا اور کہنے لگا۔ تمہاری کم از کم قومی زبان تو ہے ۔ہماری قومی زبان ہی کوئی نہیں۔ ہر کنٹون اور علاقے کی اپنی زبان ہے۔ علاقوں کے حساب سے زبان تقسیم کی ہوئی ہے۔ پورے سوس میں ساٹھ فیصد آبادی جرمن زبان بولنے والوں کی ہے پچیس فیصد لوگ فرنچ بولتے ہیں اس کے علاوہ باقی آبادی اٹالین اور ریترو رومانوں(retro romano) بولتی ہے۔ میں نے کہا، تین زبانیں تو مجھے بھی سمجھ آرہی تھیں لیکن چوتھی زبان کا مجھے نہیں پتا چلا وہ کیا لکھا ہوا تھا ۔ابھی تم نے کوئی نام لیا ہے مجھے سمجھ نہیں آیا۔ وہ کہنے لگا کیا تمہیں اٹالین، فرنچ اور جرمن آتی ہے۔ میں نے کہا، اٹالین اور فرنچ تو مجھے آتی ہے۔ جرمن کا مجھے پتا چلا جاتا ہے کہ جرمن لکھی ہوئی ہے لیکن سمجھ نہیں سکتا۔ کچھ لفظ سمجھ بھی لیتا ہوں کیوں کہ اس کے کئی لفظ انگریزی سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ میں اٹالین اور فرنچ جانتا ہوں ۔اس نے مجھ سے سوال کیا ،تم نے فرنچ اور اٹالین زبان کہاں سے سیکھی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ دونوں زبانیں میں پاکستان میں سیکھی ہیں۔
اس نے پھر سوا ل کیا ، کیوں؟ تو میں نے جواب دیا۔ پہلے بات تو یہ ہے کہ مجھے زبانیں سیکھنے شوق تھا ۔ پھر اسے میں نے اپنے دادا کا فلسفہ بتایا۔ پھر اسے میں نے یہ بھی بتایا کہ میں پاکستان میں ٹورسٹ گائید کا کام کرتا تھا ۔ یہ سن کے وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی پاکستان دیکھنے کا شوق ہے کیونکہ میں نے پڑھا بھی ہے اور سنا بھی ہے کہ وہاں کے پہاڑ بہت مشہور ہیں۔ میں نے پوچھا تم ان ملکوں میں سے کسی ملک میں گئے ہو۔ تو کہنے لگا میں ابھی ابھی نیپال سے آرہا ہوں۔ میں نے پوچھا وہاں سیر کرنے گئے تھے ۔ تو کہنے لگا نہیں ،
وہاں ایک سوس این جی او نے بچوں کے لیئے سکول کھول رکھا ہے۔ وہاں چھ مہینے بچوں کو پڑھا کر آرہا ہوں۔ سوس دو ماہ رہ کر واپس نیپال چلا جاؤں گا۔ میں نے پوچھا کہ یہ تمہاری اپنی مرضی تھی یا سوس گورنمنٹ نے تمہیں بھیجا ہے۔ تو کہنے لگا، یہ لمبی کہانی ہے۔ میں تمہیں مختصراً سناتا ہوں۔ ہوا کچھ اس طرح کے میں نشے کا عادی ہوگیا تھا۔ اتنا زیادہ کہ مجھے ہسپتال داخل کردیا گیا۔ جب میں تھوڑا بہتر ہونے لگا تو انہیں نے مجھے ر ی ہیبلیٹیشن سنٹر (rehabilitation centre) میں بھیج دیا۔ وہاں انہوں نے مجھے ڈیٹوکسیکیٹ (detoxicate)کیا۔ اس کے بعد جب میں کافی بہتر ہوا تو انہوں نے مجھے کام پے بھیج دیا تانکہ میرا دماغ مصروف رہے۔ اس دوران مجھے اس سوس این جی او نے نیپال میں کام کی آفر کی۔ میں نے ان کی آفر تسلیم کرلی اور وہاں چلا گیا۔
میں نے کہا، تمہاری کہانی کافی دلچسپ ہے۔
وہ کہنے لگا ، یہ تو میری کہانی ہے لیکن تم یہاں کیا کررہے ہو۔ تو میں نے کہا، میں یہاں ٹورزم کے حوالے سے آیا ہوں۔ یہ سن کے وہ کہنے لگا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اگر ہوسکے تو مجھے پاکستان کے بارے میں بتاؤں کہ وہاں کون سا مہینہ سیر کے لیئے بہتر ہے ۔کون سے علاقے زیادہ خوبصورت ہیں۔ میں نے کہا، پاکستان ویسے تو سارا ہی خوبصورت ہے لیکن پاکستان کے شمالی علاقاجات بہت خوبصورت ہیں۔ جیسا کہ تم جانتے ہوں کہ وہاں کے پہاڑ خوبصورت ہیں۔
یہ جان کہ وہ کہنے لگا پہاڑ تو ہمارے بھی خوبصورت ہیں۔
میں نے کہا ، مثلاً
تو کہنے لگا، جْنگ فراؤ ،(junge frau) یہ پہاڑ سوس کا سب سے خوبصورت پہاڑ ہے۔
میں کہا، اس کی اونچائی کتنی ہے۔
تو کہنے لگا ، چار ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہے۔
میں نے پوچھا ، جْنگ فراؤ کا کیا مطلب ہے۔
تو کہنے لگا، اس کا مطلب ہے جوان لڑکی۔ ویسے اس کے علاوہ یورپ کی سب سے اونچی چوٹی مونتے بیانکو (monte bianco)ہے ۔ یہ چار ہزار آٹھ سو سات میٹر بلند ہے۔ یہ اٹلی اور فرانس کے درمیان واقع ہے۔ سوس کی سب سے اونچی پہاڑی پْنتا دو فور(punta dufore) ہے ۔یہ چار ہزار چھ سو چونتیس میٹر اونچی ہے۔ پھر زرمیت(zarmet) کا نمبر آتا ہے یہ چار ہزار چار سو اٹھتر میٹر اونچی ہے۔
تو میں نے کہا، پاکستان میں ایک درہ ہے جسے درہ خنجراب کہتے ہیں۔ وہ چار ہزار میٹر کی بلندی پے ہے ۔ یہاں سے سال کے چھ مہینے پاکستان سے چین کے لیئے گاڑیوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ یہاں آکسیجن کی بھی کمی ہوتی ہے۔ جْنگ فراؤ پے تم براستہ سڑک جاسکتے ہو۔
وہ یہ سن کر بڑا حیران ہوا۔ کہنے لگا، یہ واقعی حیران کن بات ہے۔
میں نے اسے مزید بتایا کہ پوری دنیا میں دس پہاڑ ایسے ہیں جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ ان میں سے آٹھ پہاڑ پاکستان میں ہیں۔ دو نیپال میں ہیں۔ کے ٹو کی بلندی ۸۶۱۱ (آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر ہے) اس کے علاوہ ناگا پربت، کے تھری، کے فور ، راکاپوشی، اور التر۔ یہ پہاڑ آٹھ اور سات ہزار میٹر کی بلندی پے ہیں۔ تمہیں یہ جان کر شاید حیرت ہوگی کہ دنیا کا سب سے اونچا پولو گراؤنڈ ’’شندور پاس پے واقع ہے۔ میں ایک دفعہ ایک گروپ کے ساتھ تھا۔ اس میں بوٹنسٹ اور جیالوجسٹ تھے۔ ایک بوٹنسٹ اور جیالوجسٹ جب شندور پاس پہنچے تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔ میں ان سے پوچھا کہ تم لوگ رو کیوں رہے ہو ۔ تو بوٹنسٹ کہنے لگا، میں نے اپنی پوری زندگی میں اس طرح کی جڑی بوٹیاں نہیں دیکھیں۔ میرے علم کے مطابق ایک خاص بلندی پے پودے نشوؤنماں نہیں پاتے۔ لیکن میرا یہ نظریہ غلط ثابت ہوا کیوں یہاں پے اس موسم میں ، اتنی بلندی پے ان پودوں کا اگنا اور ان جڑی بوٹیوں کا پھلنا پھولنا اس بات کی ثبوت ہے کہ کئی دفعہ ہم لوگ جو کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ سہی نہیں ہوتا۔ اس نے کئی ایک جڑی بوٹیوں کے نمونے بھی لیئے۔ اس کے علاوہ جیالوجسٹ اس لیئے رویا تھا کیوں کہ اس نے کتابوں میں پڑھا تھا پوری دنیا میں کوئی بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ وہ پتھروں کی تہوں کو گنتا جاتا اور سالوں کا اندازہ لگاتا جاتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ تم کیا کررہے ہو ۔ تو کہنے لگا ، میں اس زمین کی عمر گن رہا ہوں۔ ان پتھروں میں تم یہ جو لکیریں دیکھ رہے ہو ۔ ایک ایک لکیر ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ میں اس کی اس بات پے بہت ہنسا تھا لیکن وہ کہنے لگا یہ جو تم ان پتھروں پے نیلے، پیلے، اور لال چھوٹے چھوٹے پھول دیکھ رہے یہ اس بات کی ضمانت ہیں کہ زمین کا یہ حصہ کئی ہزار سال تک پانی میں رہا ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچنے لگا شاید زیادہ پڑھنے سے کا دماغ چل گیا۔ یہ تو تھی شندور پاس کی کہانی ۔ اس کے علاوہ دنیا کے بڑے گلیشیئرز بھی پاکستان میں ہیں۔
وہ مجھے کہنے لگا، تمہیں اگر برا نہ لگے تو مجھے یہ تمام نام لکھ دو گے۔ میں اگر پاکستان گیا تو ان جگہوں پے ضرور جاؤں گا۔
میں نے اس سے کاغذ اور پین لیا اور اسے ان تمام جگہوں کے نام لکھ دیئے ۔
میرا تجسس ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا۔ میں اس کی ٹی شرٹ کے بارے میں جانا چاہتا تھا کہ اس نے یہ ٹی شرٹ کہاں سے لی ہے۔ آخر کار میں نے اس پوچھ ہی لیا کہ تم نے یہ ٹی شرٹ کہاں سے لی ہے
تو کہنے لگا، میں نیپال گیا تھا۔ راستے میں رکا تھا۔ میرا ٹکٹ ایمیریٹس ایئر لائن کا تھا۔ ہم لوگ راستے میں دوبئی رکے ۔ دوبئی ایئرپورٹ پے جو شاپنگ آرکیڈ ہے۔ میں وہاں گھوم رہا تھا۔ مجھے یہ ٹی شرٹ پسند آئی اور میں نے خرید لی۔ بہت سے لوگ مجھے عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ کسی ٹی شرٹ پے عربی لکھے ہونے سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا نا کہ وہ بندا دہشت گرد ہے۔
میں نے کہا میں تم سے اتفاق کرتا ہوں لیکن دنیا میں کچھ اس طرح کا پراپوگنڈا کردیا گیا ہے کہ عربی زبان ، داڑھی اور محمود، حسین ، علی، محمد، ابنِ جیسے نام والوں کو لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
وہ کہنے لگا ،تم بالکل ٹھیک کہتے ہو لیکن یہ دور انٹر نیٹ کا دور ہے۔ ایسے کئی بلوگ(blog) بن گئے ہیں۔ بیشمار سائیٹس بن چکی ہیں جو لوگوں کو حقائق سے بہرہ مند کردیتی ہیں۔
ہمیں گفتگو کے دوران پتا ہی نہ چلا کہ ٹرین کئی سٹیشنوں پے رکی۔ جب ٹرین زگ (zug)ریلوے سٹیشن پے رکی تو اس نے مجھے کہا کہ اب ایک سٹاپ رہ گیا اس کے بعد ہم دونوں جدا ہوجائیں گے۔ میں زیورگ اتر کے اگلی ٹرین پے ونٹر تھور چلا جاؤں گا اور تم شاید زیورک ہی رکو گے۔
میں نے کہا، ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ نہ جانے کیوں میں اس سے چھپا رہا تھا کہ اگر سوزی نہ ملی تو میں کرائس لنگن ہی جاؤں گا۔ میں نے ٹکٹ بھی کرائس لنگن تک کی ہی خریدی تھی۔
اس نے مجھے اپنا کارڈ دیا، موبائیل نمبر دیا اور تاکید کی کہ اگر ونٹر تھور آنا ہوا تو اسے فون ضرور کرے۔ لیکن میں اپنی منزل کے بارے میں جانتا ہی نہیں تھا اسے کیسے کہتا کہ میں آؤں گا۔ اسے میں پاکستان کی سیر کے لیئے کئی آئیٹنریزبنا کے دیں۔ وہ بڑا خوش ہوا ۔ کہنے لگا کہ پہلے میرا پاکستان کی سیر کا کوئی خاص ارادہ نہیں تھا لیکن اب تم نے میرے تجسس میں اضافہ کردیا ہے ۔ اب جب میں نیپال جاؤں گا تو وہاں سے پاکستان بھی جاؤں گا۔
میں نے پوچھا ،تم کب تک جاؤگے ۔ تو کہنے لگا، ابھی تو جون کا مہینہ ہے۔ ستمبر کے مہینے شاید دوبارہ نیپال جاؤں ۔ اگست کا مہینہ کیسا رہے گا۔
میں نے کہا، یہ مہینہ بہت زیادہ مصروف ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں جگہ ہی نہیں ملتی ۔ میرا مشورہ ہے نومبر میں جاؤ ۔ اگر نومبر میں نہیں تو اکتوبر میں جانا ۔
وہ کہنے لگا، میں دیکھتا ہوں کیا پروگرام بنتا ہے۔ ٹرین زیورک ریلوے سٹیشن کے آخری پلیٹ فارم کی طرف جارہی تھی۔ جیسے ہی ٹرین رکی ۔اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔ اس نے میرا نام تک نہ پوچھا ۔میرے پاس اس کا کارڈ تھا ۔میں نے بھی اس کا نام دیکھنا گوارہ نہ کیا۔ میں ٹرین سے باہر نکلا۔ زیورگ ریلوے سٹیشن پے کافی چہل پہل تھی۔ جرمنی ، آسٹریاء اور سوس میں سٹیشنوں کو ہاپٹ باہن ہوف(hapt bahn hauf) کہتے ہیں اور شون باہن ہوف (shon bahn hauf)کہتے ہیں۔ زیورک ریلوے سٹیشن ہاپٹ باہن ہوف ہے۔ میں پلیٹ فارم پے چلتا چلتا سٹیشن کی اس جگہ آگیا
جہاں بہت سارے الیکٹرانک ڈسپلے لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف آنے والی ٹرینوں کا لکھا ہوا تھا اور دوسری طرف جانے والی ٹرینوں کا لکھا ہوا تھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ابھی کہیں دور سے آواز آئے گی ۔ فرشتہ میں آگئی لیکن مجھے اس طرح کی کوئی آواز نہ آئی۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ہم پاکستانی بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ کسی لڑکی کے ساتھ ایک دو راتیں گزار لیں۔جسمانی تعلق قائم کرلیں تو اس کو اپنا
سمجھنے لگتے ہیں۔ میر ی ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں سوزی کے معاملے میں تھوڑا پوزیسف (possessive)سا ہوگیاتھا۔ میرا خیال تھا میں جیسے ہی اسے فون کروں گا وہ تڑپ جائے گی اور اسی وقت گاڑی سٹارٹ کرے گی اور میرے پاس آجائے گی۔ کچھ کچھ اندازہ مجھے لوگانوں ریلوے سٹیشن پے ہی ہوگیا تھا جب میں نے اس سے فون پے بات کی تھی لیکن میں نے سوچا ٹیلی فون بڑا حساس آلہ ہے اس پے گفتگو کرتے ہوئے انسان کبھی کبھی کسی کے بارے میں غلط رائے بھی قائم کرلیتا ہے۔ میرے سارے ندازے غلط نکلے۔ وہ نہ آئی نہ ہی میں نے دوبارہ اسے ٹیلی فون کرنا مناسب سمجھا۔میں ان بڑے بڑے ڈسپلیز پے دیکھنے لگا کہ ونٹرتھور جانے والی ٹرین کس پلیٹ فارم پے آئے۔ پلیٹ فارم نمبر دیکھ کے میں نے اس کی طرف چلنا شروع کردیا۔ میں نے احتیاطً ایک دو بندوں سے پوچھ بھی لیا تھا۔ ٹرین کے جانے میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔ میرے پاس کچھ پیسے تھے میں نے سوچا آگے چل کے نہ جانے کچھ کھانے کو ملے نہ ملے، کیوں ناکوئی سینڈوچ وغیرہ کھا لوں۔ پلیٹ فارمز کے پاس کئی جگہوں پے چھوٹے چھوٹے دکانوں نماں کیبن بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک پے میں گیا۔ وہاں پے ایک لڑکا کھڑا تھا۔ شکل و صورت سے فلیپینی (fillipino)لگتا تھا لیکن مجھے اس کی نیشنیلٹی کاصحیح پتا نہ چلا۔ میں نے اس سے انگریزی میں کہا کہ مجھے ایک سینڈوچ چاہیئے اور ایک کوک کا کین ۔ اس نے کہا مجھے شیلف میں لگے ہوئے سارے سینڈوچ باری باری بتائے کہ ان کے نام کیا ہیں اور ان کے اندر کیا ہے۔ میں نے کہا، میں سبزی یا پنیر والا کوئی سینڈوچ لونگا کیوں کہ مجھے گوشت سے الرجی ہے۔ خاص طور پے
میں سؤر کا گوشت بالکل نہیں کھا تا۔ اس نے میری بات پے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ میرے ہاتھ میں کوک کا ایک کین اور ایک عدد سینڈوچ تھما دیا، جس میں ٹماٹر، سلاد کے پتے، ایک ٹکڑا پنیر کاپڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے مطلوبہ رقم ادا کی اور چل کے پلیٹ فارم کی طرف آیا جہاں ٹرین کھڑی تھی۔ میں نے ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ ٹرین میں ملنے والے لڑکے کا کارڈ میں نے پاس ہی پڑے ہوئے گند کے ڈبے میں پھینک دیا۔ تھوڑی دیر کے لیئے سوچا کہ موبائیل فون پھینک دو پھر خیال آیا کہ کرائس لنگن جاکر پھینک دوں گا۔ میں نے اپنی جیب سے تمام اٹالین سکے، ایک دو چابیاں اور ایک دو چھوٹے چھوٹے کاغذوں پے لوگوں کے پتے ، ٹیلی فون نمبر اور ای میل لکھے ہوئے تھے وہ بھی پھینک دیئے۔ ان کاموں سے فارغ ہونے کے بعد میں ٹرین میں سوار ہوگیا۔ اس وقت رات کے ساڑھے دس بجے ہوں گے۔ یہ ٹرین اس ٹرین کی طرح نہیں تھی جس طرح کی ٹرین پے میں لوگانوں سے زیورک آیا تھا لیکن اٹلی کو ریجنل ٹرینوں سے لاکھ درجے بہتر تھی۔ اب ٹرین میں سوار ہوتے ہی مجھے یہ فکر لاحق ہونے لگی اگر وہ لڑکا جس نے اسے کارڈ دیا اگر وہ دوبارہ مل گیا تو کیا ہوگا کیونکہ اس نے بھی ونٹرتھور جانا تھا۔ آخر کار میں نے خود کو ذہنی طور پے تیار کرلیا کہ اگر مل گیا تو بتا دوں گا کہ اصل کہانی کیا۔ میں سوس سوزی سے ملنے آیا تھا۔ میں خوابوں اور خیالوں میں کئی محل کھڑے کرلیئے تھے۔ وہ سارے چکنا چور ہوگئے اب کرائس لنگن جارہا ہوں ۔ وہاں جاکر سیاسی پناہ کی درخواست دوں گا۔ میں نے خود کو خیالوں کے اس بھنور سے نکالا اور کاغذ کے بیگ سے نکال کر سینڈوچ کھانے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کوک بھی پی رہا تھا۔ جب سیندوچ ختم ہوگیا اور کوک کا کین بھی ختم ہوگیا تو میں نے کین اور کاغذ بن کی نظر کردیا۔ ٹشو پیپر سے ہاتھ اور منہ صاف کیا۔ سینڈوچ کھانے کے بعد میں نے سوچا چلو اس سے تھوڑی دیر سہارا مل جائے گا۔ میرا یہ سفر زیادہ لمبا نہ تھا۔ قریباً چالیس سے پینتالیس منٹ کا سفر تھا۔ زیورگ ریلوے سٹیشن سے جب ٹرین چلی تھی تو اس کے آس پاس پہلے بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ اِکا اْکا عمارتیں آئیں۔ پھر یہ سلسلہ بندہوگیا۔ ٹرین ایک دو چھوٹے چھوٹے ریلوے سٹیشنوں پے رکی۔ ٹھیک وقت پے ٹرین ونٹر تھور ریلوے سٹیشن پے پہنچ گئی۔ یہاں سے میری اگلی ٹرین کا وقت بہت تھوڑا تھا۔ میرا مطلب ہے۔ اگلے ٹرین جس پے مجھے کرائس لنگن جانا تھا وہ ٹھیک پانچ منٹ بعد تھی۔ خوش قسمتی سے سوس ٹرینیں وقت کی پابندی کرتی ہیں ورنہ اگر میں اٹلی میں ہوتا تو مجھے رات ونٹرتھور ریلوے سٹیشن پے گزارنی پڑتی۔ جیسے ہی
ٹرین پلیٹ فارم پے رکی میں آگے پیچھے مڑکے نہ دیکھا۔ آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ پلیٹ فارم پے لگے ہوئے مونیٹر پے اپنی ٹرین کا ٹائم اور پلیٹ فارم نمبر دیکھا۔ بالکل ساتھ والا پلیٹ فارم تھا ۔ یہ لوکل ٹرین تھی ۔ اس کا آخری سٹاپ کرائس لنگن تھا۔ میں ٹرین میں سوار ہوگیا۔ ٹرین تقریباً خالی تھی۔ یہ ٹرین جب ونٹرتھور سے چلی تو اس نے پہلا سٹاپ فرائن فیلڈ کیا۔ یہاں سے ٹرین میں بہت آدمی سوا ہوئے۔ انہوں نے فوجیوں جیسے وردی پہنی ہوئی تھی۔ مجھے تھوڑا ڈر لگا پھر میں نے سوچا اگر انہوں نے پوچھا بھی تو میں کہوں گا کہ میں تمہارے ملک میں سیاسی پناہ لینے آیا ہوں۔ ٹرین چلتی رہی اور آخر کار کرائس لنگن ریلوے سٹیشن آگیا۔ میں جلدی سے ٹرین سے اترا اور بنا سوچے سمجھے نیچے سیڑھیوں پے اتر گیا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ میری کوشش یہی تھی کہ ان فوجیوں کی آنکھوں کے سامنے سے جتنی جلدی ہوسکے اوجھل ہوجاؤں۔ سیڑھیاں اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک راستہ تو دوسرے پلیٹ فارم کی طرف جاتا اور ایک طرف سرنگ تھی۔ اس طرح کی جگہ کو سب وے بھی کہتے ہیں۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور اس سب وے پے چلنے لگا۔ چلتے چلتے میں باہر سڑک کی طرف آگیا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میں کہا جارہا
ہوں لیکن میں چلا جارہا تھا۔ جب سب وے سے باہر نکلا تو ہر طرف اندھیرا۔ دور سے ریلوے سٹیشن کے کلاک پے نظر ڈالی ۔اس پے اس وقت رات کے۴۵؛۱۱ گیارہ بج کے پینتالیس منٹ ہوئے تھے۔اس وقت میرا دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کس طرف جاؤں۔ کبھی سوچتا سیدھے ہاتھ پے چلتا چلا جاؤں کبھی سوچتا الٹے ہاتھ پے چلتا چلا جاؤں ۔ آخر کار میں نے ریلوے سٹیشن کے سیدھے ہاتھ پے چلنا شروع کر دیا۔ اس روڈ کا نام ’’باہن ہوف سترازے‘‘(Bahnhauf Strasse) تھاجیسے پاکستان میں ریلوے روڈ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی تھا یعنی ریلوے سٹیشن روڈ۔ میں نے سوچا اگر پاس ہی کوئی پولیس سٹیشن نظر آیا تو خود کو ان کے حوالے کرودں گا اور وہ خود ہی مجھے مہاجرین کے کیمپ میں چھوڑ آئیں گے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے ازیل ہائم یعنی سیاسی پناہ گاہ کا پتا بتا دیں۔ مجھے مغل صاحب کے دوست جعفر نے بتایا تھا کہ ازیل ہائم ڈھونڈنا بہت آسان ہے یہ سٹیشن کے بالکل پاس ہے۔ میں نے چند ایک ٹیکسی ڈرائیورز سے پوچھا لیکن وہ انگریزی زبان سے ناواقف تھے اور میں جرمن زبان سے۔ مجھے تھوڑی دیر کے لیئے ایسا لگا جیسا میں دنیا کے اس کونے میں گم ہوگیا ہوں۔ میں تھکا ہوا تھا، مجھے نیند بھی آنے لگی تھی، مجھے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ میرا سارا جسم ایسے درد کررہا تھا جیسے مجھے کسی نے بیدردی پیٹا ہو۔ مجھے ایسا لگنے لگا جیسا میرا پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ چیز جو تنگ کررہی تھی وہ یہ کہ میں نے ابھی تک اپنے دانت صاف نہیں کیئے تھے۔ حالانکہ راستے میں کئی ایک جگہ میں رکا۔ وہاں سے ایسا چیونگ گم لے سکتا تھا جس سے اس طرح محسوس ہونا کم ہوجاتا ہے لیکن میراذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ پھر میرے سر میں ہلکا ہلکا درد بھی شروع ہوگیا تھا۔ کیونکہ میرے جسم میں نکوٹین اور کیفین کی کمی مجھے تنگ کررہی تھی۔ اس وقت میں نے خود کو بہت بے بس محسوس کیا۔ کبھی کبھی انسان کی ترجیحات اور ہوتی ہیں اور ضروریات اور۔ میری ترجیحات میری ضروریات پے غا لب آگئیں اور میں لگا پناہ گاہ ڈھونڈنے۔ جہاں مجھے رات گزارنی تھی۔ میں باہن ہوف سترازے پے چلتا چلا جارہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک آئی نیٹ کیفے پے پڑی۔ یہ اس کیفے کا نام تھا۔ اتفاق سے رات کے بارہ بجے یہ کھلی ہوئی تھی۔ میں بہت حیران ہوا۔ خیر میں انٹرنیٹ کیفے کے اندر داخل ہوا اور اس شخص سے انگریزی میں پوچھا ، ’’یہ نیٹ کیفے کھلی ہے ‘‘
اس نے جواب دیا، ’’ہاں‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’ایک گھنٹا انٹرنیٹ استعمال کرنے کے کتنے پیسے‘‘
اس نے جواب دیا، ’’ایک گھنٹے کے آٹھ سوس فرانک اور آدھے گھنٹے کے چار سوس فرانک‘‘۔
میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔میرا پاس آخری دس فرانک کا نوٹ بچا تھا۔
کیفے میں ایک دو لوگ موجود تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی انٹرنیٹ کیفے تھی۔ چار کمپیوٹر پڑے ہوئے تھے۔ اس نیٹ کیفے کا مالک انگریزی جانتا تھا اس لیئے اس سے بات چیت کرنے میں مجھے کوئی دقت نہ پیش آئی۔ یہ شخص نہ زیادہ لمبا تھا نہ ہی چھوٹے قد کا تھا۔ درمیانے قد کا مالک تھا۔ اس کی عمر قریباًپینتالیس سال یا شاید اس سے زیادہ ہوگی۔ اس نے کا چہرہ گول تھا اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی۔ پتلے پتلے ہونٹ لیکن اس نے بہت ہلکی ہلکی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اوپر والا ہونٹ کم کم نظر آرہا تھا۔ میں جب اس کے چہرے کا معانہ کررہا تھا اس وقت وہ کمپیوٹر میں پاس ورڈ لکھ رہا تھا ۔اس نے جیسے ہی پاس ورڈ لکھا۔ کمپیوٹر کا انٹر نیٹ قابلِ استعمال ہوگیا۔
میں نے ایڈریس والی بارمیں www.hotmail.com لکھا اور کلک کردیا۔تھوڑی سی سرچ کے بعد ہاٹ میل کی سائٹ کھل گئی۔میں نے اپنا ای میل ایڈریس لکھا۔ پھر پاس ورڈ لکھا۔ چند لمحوں میں میرا میل بوکس کھل گیا۔ میں نے ان بوکس میں اپنی میلز دیکھیں۔ کوئی خاص میلزز نہی تھیں۔ زیادہ تر جَنک میل تھی۔ وہ میں نے کینسل کردی۔ اس کے بعد میں نے یاہو سرچ انجن کھلا۔ اب تک گوگل سرچ انجن اتنا مشہور نہیں تھا۔ میں نے کرائس لنگن ازیل ہائم لکھا اور سکرین پے ازیل ہائم کے کئی آپشنز آگئے۔ مجھے جو ایڈریس چاہیئے تھا وہ مجھے مل گیا تھا۔ اس دوران میں نے کوک کا گلاس آرڈر کیا۔ اس شخص سے کاغذ اور قلم مانگا۔ ازیل ہائم کا ایڈریس لکھا ۔ اس دوران آدھا گھنٹا گزر چکا تھا۔ میں نے اسے آدھے گھنٹا انٹرنیٹ استعمال کرنے کے پیسے دیئے اور کوک کے بھی۔ اس کام کے بعد میں انٹرنیٹ کیفے سے باہر آگیا لیکن اچانک نہ جانے مجھے کیا خیال آیا اور میں دوبارہ انٹرنیٹ کیفے میں چلا گیا۔ وہ آدمی مجھے
دوبار ہ دیکھ کے بڑا حیران ہوا ۔کہنے لگا اب تو میں بند کرنے لگا ہوں۔ میں نے کہا، ’’میں انٹر نیٹ استعمال کرنے نہیں آیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اگر تمہیں برا نہ لگے تو میرا موبائیل فون رکھ لو۔ میں صبح آکے لے لوں گا‘‘۔اس نے نہایت مہذب انداز میں کہا، ’’ہاں کیوں نہیں۔ یہ یہاں پڑا رہے گا۔ تمہاری امانت ہے۔ تم صبح آکے لے جانا‘‘۔میں نے کہا، ’’بہت شکریہ‘‘۔ یہ کہہ کر میں انٹرنیٹ کیفے سے باہر آگیا اور دوبارہ باہن ہوف سترازے پے چلنا شروع کردیا۔ میں نے باہر روڈ پے آکے لکھا ہوا
ایڈریس ایک دو لوگوں کو دکھایا۔ ایڈریس دیکھ کے مجھے انہوں نے یہی بتایا کہ یہ ریلوے سٹیشن کے دوسری طرف جو کوستانز سترازے (Costanze strasse)ہے وہاں ہے۔ میں باہن ہوف سترازے پے چلتا چلتا دوبارہ سب وے کی طرف آیا۔ میں قریباًآدھے منٹ میں کوستانزر سترازے (constanze strasse)پے تھا۔ جیسے ہی سڑک پے آیا۔ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ڈونرکباب کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ اس پے لکھا ہوا ڈونرکباب امبس(imbiss)۔ اس کے ساتھ ایک بلیئرڈ کلب تھا اور پب تھا۔ میں ابھی تک جان نہیں پایا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے کوستانزر سترازے پے چلنا شروع کردیا۔ میں اس بات سے ناواقاف تھا یہاں سے دوسو قدم کے فاصلے پے جرمن بارڈر ہے یا شاید اس سے بھی کم۔ میں نے سامنے سے دو آدمیوں کو آتے ہوئے دیکھا۔ دونوں کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ لگتی تھی لیکن ان کی صحت بہت اچھی تھی۔ اونچے لمبے گورے چٹے گپیں لگاتے چلے جارہے تھے۔ دونوں نے ٹی شرٹس اور شارٹس پہنے ہوئے تھے اور پاؤں میں ٹرینرز پہنے ہوئے تھے۔ میں نے ان کو کاغذ پے لکھا ہوا پتا دکھایا۔ انہوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے سمجھایا کہ اس روڈ پے واپس جاؤں۔ پھر ان میں سے ایک نے مجھے انگریزی میں بتایا کہ پیچھے جو بلیئرڈ کلب اور ڈونر کباب انبس(imbiss) ہے بالکل اس کے ساتھ ایک روڈ جاتی ہے اس کا نام ہے ڈوبل لس سترازے(doubless strasse)۔ اس روڈ پے تھوڑا ہی چلنا پڑے گا۔ تمہیں ازیل ہاہم کی عمارت دکھائی دے گی۔ یہ تیرہ نمبر
پے واقع ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور جس طرح انہوں نے سمجھایا تھا بالکل اسی طرح ہی کیا۔ اسی روڈ پے واپس چلنا شروع کردیا جہا ں سے میں چل کے آیا تھا۔ ڈونر کباب انبس کے بالکل ساتھ مجھے ایک چھوٹا سا روڈ نظر آیا۔ میں نے اس روڈ پے چلنا شروع کردیا۔ اس روڈ کا نام تھا ڈوبل لس سترازے۔ اس روڈ کے بالکل ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہ رہی تھی۔ یا یوں کہہ لیجئے گندا نالا تھا کیونکہ اس سے کافی بری بو آرہی تھی۔ میں جس روڈ پے چل رہا تھا اس کے ایک طرف تو یہ بدبو دار گندا نالا تھا اور دوسری طرف چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ میں گھروں نمبر دیکھتا گیا۔ جب گھر ختم ہوئے تو ایک عجیب سی عمارت آگئی۔ بالکل ایسا لگتا تھا جیسے فوجیوں کی بیرکس ہوں۔ یا ریڈ کراس کا کوئی ہسپتال ۔ میں نے اس عمارت کے آس پاس دیکھا شاید کوئی نمبر لکھا لیکن مجھے کہیں بھی تیرہ لکھا ہوا نہ نظر آیا۔ میں اسی روڈ پے آگے چلتا چلا گیا۔ آگے ایک نئی تعمیر شدہ عمارت نظر آئی۔ میں نے اس عمارت کا تقریباً چکر کاٹا جیسے کوئی طواف کرتاہے لیکن مجھے اس کا داخلی دروازہ کہیں نظر نہ آیا۔ آخر کار مجھے ایک کونے میں ایک جنگلہ لگا ہوا نظر آیا۔ اس کے جنگلے پے چھوٹا چھوٹا لکھا ہوا تھا
’’۱۳‘‘۔ میں نے اس جنگلے پے لگی ہوئی گھنٹی پے ہاتھ رکھا۔ دو تیں دفعہ گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔













No comments:

Post a Comment