Monday, June 27, 2011

shah blot bagh (ist chapter of sanyeen internet by SARFRAZ BAIG

شاہ بلوط باغ
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پتلے سے انسان نکلتا ہے۔
میر تقی میرؔ
جی .ٹی. روڈ، راولپنڈی کینٹ کے علاقے سے جب گزرتا ہے تو مال روڈ کہلاتا ہے۔ اس طرح کے مال روڈ پورے پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فرنگیوں کے ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب ہندوستان(برصغیر پاک و ہند) غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اسی طرح کا مال روڈ راولپنڈی کینٹ کے علاقے میں بھی واقع ہے۔مال روڈ پے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کا دفتر ہے۔ اس سے ملحقLansdown Library(لینزڈاون لائبریری )ہے۔ جس کا نام بدل کر اب کینٹونمنٹ لائبریری رکھ دیا گیا ہے۔ مزید آگے آئیں تو دو cinemas (سینماز)ہیں۔جڑواں۔ اوڈین اور پلازہ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انگریزوں کے بال رومز ہوا کرتے تھے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ
یہاں گھوڑوں کا رقص پیش کیا جایاکرتا تھا۔آجکل یہاں انگریزی فلموں کے ساتھ ڈبل پروگرام چلتا ہے۔ یعنی کبھی کبھی فلموں کے ساتھ مادر زاد ننگی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ کئی دفعہ ان سینماؤں کو بند کیا گیا اور کئی دفعہ کھولا گیا لیکن انداز زندگی میں تھوڑے توقف کے بعد پھر وہی رنگ آجاتا ہے۔ انھیں جڑواں سینماؤں کے سامنے شاہ بلوط باغ واقع ہے۔ اس کا نام شاہ بلوط کے درختوں کی مناسبت سے شاہ بلوط باغ پڑگیا ہے جو کے اب ٹنڈ منڈ ہوچکے ہیں لیکن یہ باغ شاہ بلوط باغ ہی کہلاتا ہے۔
اب باغ کی بھی سنتے چلیئے۔یہ باغ ویسے تو ویران ہی رہتا ہے لیکن اس باغ کی خاص الخاص شخصیت ایک لمبے سفید بالوں والا سائیں بابا ہے۔ جس کی عمر لگ بھگ۹۰ سال ہوگی ۔ اس کی صحت اس کی عمر کے حساب سے بہتر و اچھی ہے۔ وہ تمام کام یہیں سر انجام دیتا ہے جیسا کہ کھانا، پینا حتیٰ کہ عبادت بھی۔لیکن اس نے کبھی بھی اپنے کعبے کا تعین نہیں کیا۔ جس طرف جی میں آئے منہ کرکے نماز پڑھ لیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ باغ مالشیؤں کی بھی آماجگاہ ہے۔ آپ کو یہاں کئی ادھ ننگے مرد لیٹے ہوئے نظر آئیں گے۔ سردی ہو یا گرمی۔ موسم کی پرواہ کیئے بغیر لوگ یہاں جسم کی مالش کروانے آتے ہیں۔
مالشیئے تو کئی ہیں لیکن یہاں کا خاص مالشیاء ٹیڈی ہے (ٹیڈی یا تو انگریزی کے لفظtidy کی بگڑی ہوئی شکل ہے یاteddy کوئی بھی بچوں کا کھلونا جو کہ بھس بھرا ہوا ہو)۔ ٹیڈی
درمیانے قد کا آدمی ہے۔ جس کی جوانی اب ڈھل چکی ہے۔ کبھی سانولا یا شاید گندمی رنگ ہوگا لیکن حالات نے، وقت نے اس کا رنگ سنولا دیا ہے بلکہ کالا کردیا ہے۔ اب تو وہ داڑھی بھی نہیں بناتا کیونکہ اس کا چہرہ اتنا خراب ہوگیاہے،گال اتنے پچک گئے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو ان میں کوئی چیز اٹکا سکتے ہیں۔آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور ہمیشہ پتلون ہی پہنتا ہے اور آدھی بازوؤں والی قمیص۔ کپڑے اس کے انتہائی میلے لیکن پتلون قمیص۔ اس پے طرہ یہ کہ اس کا چا ر بوتلیں رکھنے والا چھنا، جسے وہ چھن چھن کرتا آتا ہے اور ساتھ ساتھ آواز بھی لگاتا جاتا ہے، مالش!مالش!مالش!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجکل اس باغ میں ایک نئی شخصیت آکر آبا د ہوگئی ہے۔ جس کو سارے سائیں انٹرنیٹ کہہ کر پکارتے ہیں سائیں انٹرنیٹ کی وجہ سے باغ میں کافی رونق رہتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، یہ کون ہے۔ پہلے پہل خفیہ ایجنسی والوں کو شک گزرا کہ یہ کوئی جاسوس ہے لیکن BOB MARLEY (بوب مارلے)سائیں طرح سائیں انٹرنیٹ کو بھی انھوں نے تنگ کرنا چھوڑ دیا۔
یہ نام یہاں کے مقامی لوگوں نے رکھے ہیں خاص کر نوجوان طبقے ہے۔BOB MARLEY سائیں اس لیئے کیونکہ اس نوے سالہ بابے نے کبھی اپنے بال نہیں کٹوائے اور اس کے بالوں کی لٹیں بالکل DREAD LOCKERS (ڈریڈ لوکرز)جیسی بن گئی ہیں اور انٹرنیٹ سائیں کا نام اسلیئے انٹرنیٹ سائیں رکھا گیا ہے کیونکہ اسے دنیا بھر کی معلومات رہتی ہیں۔ کبھی کسی کو اپنا اصلی نام نہیں بتاتا۔ کبھی کہے گا میںLEONARDO DA VINCI (لیو ناردو دا ونچی )ہوں، کبھی کہے گا میں شکنتلا کا مہا قوی کالی داس ہوں۔کبھی خود کو MAUPASSANT (موپاساں)کہتا ہے تو کبھی GOETHE (گوئٹے)۔ چونکہ دنیا بھر کی خبر رکھتا ہے اسلیئے لڑکوں بالوں نے اس نام سائیں انٹرنیٹ رکھ دیا ہے۔ یعنی انٹرنیشنل نیٹ ورک۔
سائیں انٹرنیٹ کی عمر لگ بھگ پچاس سال یا اس سے بھی کم ہوگی لیکن وہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا نظر آتا ہے۔درمیانہ قد،پھٹی پرانی شلوار قمیص،رنگ صاف لیکن کئی کئی مہینے نہ نہانے کی وجہ سے میل کے نشان جسم پر اسطرح نمایاں ہوتے ہیں جیسے کپڑے پے جا بجا ٹھپے لگے ہوں۔BOB MARLREY (بوب مارلے)سائیں کی بالکل مخالف سمت میں اس نے اپنی جھگی بنا رکھی ہے۔
وہیں اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔جھگی کے اندر جا بجا رسائل اور کتابیں ہیں جن کو وہ ردی کی ٹوکریوں سے اٹھا کر لاتا ہے۔ ان کتابوں اور رسالوں کو شاید ہی کبھی اس نے پڑھا ہو۔ صبح اٹھ کر باغ میں موجود چھوٹے سے ڈھابے سے چائے پینی اور اس کے بعد سفید کاغذوں پے بنا لکھے اس طرح کا تاثر دینا کہ کچھ لکھ رہا ہے۔ BOB MARLEY (بوب مارلے )سائیں اور انٹرنیٹ سائیں میں کبھی بات
چیت نہیں ہوئی۔ دونوں کا طبقہء فکر الگ الگ ہے۔ سائیں انٹرنیٹ کا وضو کبھی ایک جگہ ٹھہرتاہی نہیں۔کبھی انگریزی تو کبھی فرانسیسی، کبھی اطالوی تو کبھی اردو اور جب بہت غصہ آئے تو پنجابی بلکہ پوٹھواری میں گالیاں دیتا ہے۔ اگر فزکس پے بات کرنی شروع کرے گا تو پورا دن اسی میں گزر جائے گا، اگر GENETICS(جنیٹکس) پے بات کرے گا تو اپنی تمام تر توانائیاں اسی میں صرف کردے گا۔ کوئی بھی موضوع ہو، فنون لطیفہ۔ادب۔علم الزبان یا علم البشریات، بڑی مدبرانہ گفتگو کرے گا۔ سامعین کو بالکل محسوس نہیں ہونے دے گا کہ وہ پاگل ہے۔ شاہ بلوط باغ کے علاوہ انٹرنیٹ سائیں کے ٹھکانے ہر وہ جگہ ہیں جہاں اچھی چائے ملتی ہے۔ نہ وہ سگرٹ پیتا ہے اور نہ ہی وہ کسی دوسری نشہ آور شے کو ہاتھ لگاتا ہے۔ بس اسے لت ہے تو صر ف چائے کی۔ سائیں انٹرنیٹ کے بہترین دوست دو ہیں۔ ایک EINSTEIN (آئنسٹائن )اور دوسرا FREUD (فرائڈ)۔ان دونو ں کے اصل نام سے کوئی نہیں واقف۔ EINSTEIN (آئنسٹائن)کے بارے میں لوگ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس نے فزکس میں ایم ایس سی کر رکھی تھی اور کسی بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھا۔ اس نے اپنے چھوٹے
بھائیوں کو پڑھایا لکھا کر ڈاکٹر اور انجینئر بنایا ۔ ان کے گھر آباد کیئے۔پھر اس کے چھوٹے بھائیوں کی بیویوں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا اور ایک دن اسے نہ جانے کیا پلایا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ سارا دن سگرٹ پیتا ہے اور جھاڑو کے تنکوں سے زمین پے فزکس کے فارمولے لکھتا رہتا ہے اور کبھی کبھی پنجابی میں موٹی موٹی گالیاں دیتا ہے۔
اور FREUD (فرائڈ)،یہ موصوف psychologist (سائیکالوجسٹ )ہیں۔سائیکالوجی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد راولپنڈی کے ممتاز کالج میں سائیکالوجی کے پروفیسر بھرتی ہوگئے۔ ایک دن لیکچر کے دوران طلبہء کو پڑھاتے پڑھاتے کالج سے باہر آگئے اور کہنے لگے میںFREUD (فرائڈ) ہوں میں JUNG (جْنگ )نہیں ہوں۔ڈاکٹروں نے بتایا کسی خاص گھریلو پریشانی کا شکار
تھے جس کی وجہ سے ان کے دماغ کو گہری چوٹ پہنچی ہے۔ گھر والے ان کو کمرے میں بند کر کے رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی موقع دیکھ کر باہر آجاتے ہیں۔FREUD (فرائڈ) اورEINSTEIN (آئنسٹائن)اپنے اپنے مضامین پر دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں، اس کے برعکس سائیں انٹرنیٹ ہر مضمون پر طبع آزمائی کرتا ہے۔سائیں انٹرنیٹ عمر کے لحاظ سے سب سے جواں ہے۔FREUD (فرائڈ)اور EINSTEIN (آئنسٹائن) ستر اور اسی کے پیٹے میں ہونگے جب کہ سائیں انٹرنیٹ پچاس کے لگ بھگ یا اس سے بھی کم ہوگا۔ انقلاب پسند نوجوانوں کی طرح بلند وبانگ تقریریں کرتا ہے اور اتنے دھانسو قسم کے مباحثے کرتا ہے کہ لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔لیکن سائیں کا دماغ ٹھکانے نہیں۔ویسے تو وہ باغ میں ہی رہتا ،لیکن پورے صدر میں ہر جگہ بڑی جلدی مشہور ہوگیا۔جہاں بھی جاتا اسے کھانا اور چائے مل ہی جاتی۔کبھی انوار کیفے تو کبھی تبارک ریسٹورنٹ اور کبھی مہر علی ریسٹورنٹ۔ کوئی دھتکار دیتا تو کوئی پچکار دیتا۔رنگ رنگ کی دنیا تھی۔جب بھی کسی کیفی یا ریسٹورنٹ پے بیٹھا ہوتا نوجوان لڑکے اسے گھیر لیتے اور طرح طرح کے سوالات کرتے۔ آج بھی چند لڑکوں نے اسے گھیر لیا اور ان میں
سے ایک نے سوال کیا،’سائیں جی یہ بتائیں I اور WE کے ساتھ SHALL آتا یا WILL ‘۔سائیں جی نے پھر انہیں لمبا سا خطبہ جھاڑ دیا۔’انگریز چلا گیا لیکن غلامی کے نشان چھوڑ گیا۔ تم لوگ چیز کی اصل صحت جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اب تو انگریز بھی SHALL اورWILL کے چکر سے باہر نکل آئے ہیں۔ ان کے جو جی میں آئے وہ کہتے ہیں۔جانے یہ احساس کمتری کب ختم ہوگا۔ کسی کی تعلیم کو جانچنے کا پیمانہ انگریزی رکھ دیا گیا ہے۔انگریزی زبان نہ ہوئی ترازو ہوگیا۔ انگریزی یا دوسری زبان کو اس وقت استعمال کریں جب آپ کی مادری زبان سمجھنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر زبان کو زبان سمجھ کر سیکھا جائے تو ٹھیک ہے اگر status symbol (سٹیٹس سمبل)بن جائے تو بیماری۔ اب اکثر لوگ لوٹے کا انگریزی ترجمہ پوچھ کر کسی کی تعلیمی استعداد جانچتے ہیں‘۔ ان میں سے ایک لڑکا بول پڑا، ’’پر سائیں جی انگریزی آج کے دور کی ضرورت ہے، ہمیں انگریزی آنی چاہیئے‘۔’او تو چپ کر (بہن کی گالی دیتے ہوئے) مینو وی پتا اے اج کل دی ضرورت اے، لیکن اس کو اپنی کمزوری مت بناؤ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں شرح خواندگی پچیس فیصد ہے اور ان میں پانچ فیصد سے بھی کم لوگ اس زبان سے واقف ہیں اور یہی لوگ ہماری قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہی ہمارا مستقبل لکھتے ہیں۔بس بس اب میں نہیں بولوں گا۔ مجھے چائے پلاؤ ورنہ میں اٹلی چلا جاؤں گا، فرانس چلا جاؤں گا یہ دیکھو‘ اور وہ ان کے سامنے کئی سفید کاغذ رکھ دیتا۔’ یہ دیکھو اٹلی کی permesso di soggiorno, ( پرمیسو دی سجورنو، یعنی اٹلی میں رہنے اور کام کرنے کا اجازت نامہ) اور یہ اٹلی کا carta d'identita(شناختی کارڈ)،یہ فرانس کا carte sejour (کاخت سیوغ، یعنی فرانس میں رہنے کا زجازت نامہ)،یہ جرمنی کی ausweis (آوس وائس،یعنی جرمنی میں رہنے کا اجازت نامہ)‘اور ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا، سب کہنے لگے سائیں جی کو دورہ پڑگیا ہے۔ پھر وہ اسے اس کے حال پے چھوڑ کر چلتے بنے۔ وہ چائے پیتا جاتا اور ساتھ ساتھ منہ سے کچھ بڑبڑاتا جاتا۔ سب یہی سوچتے، شاید سائیں جی کو یورپ جانے شوق
تھا۔جس کو وہ پورا نہ کر سکے اور ان کا دماغ خراب ہوگیا یا زیادہ پڑھ لکھ کر دماغ گھوم گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار کیفے کی باہر والی کرسیوں پر EINSTEIN (آئنسٹائن)سخت گرمی میں، سویٹر پہنے، میز پے چند سگرٹ کی ڈبیاں رکھے (بقول اس کے) theory of relativity (تھیوری آف ریلیٹوٹی) پر غور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے سائیں انٹرنیٹ آرہا تھا۔کالی قمیص،پیلی ٹائی اور کالا سوٹ پہنے۔ آج اسے اٹالین کا دورہ پڑا تھا۔ جیسے ہی اس کی نظر EINSTEIN پر پڑی اس کے قریب آکر کہنے لگا۔
"Buon giorno
signore,come stai?stai bene?che cosa stai facendo? sei occupato? lo sai? Sono da Vinci, Leonardo da Vinci. Oggi ho finito un'altra pittura. La Gioconda 232 gi224 fatta"
(اچھا دن مبارک ہومحترم، کیا حال ہیں؟۔ ٹھیک ہو؟کیا کررہے ہو؟ مصروف ہو؟ تمہیں پتا ہے،میں ونچی ہو،لیوناردو دا ونچی ۔آج میں نے ایک اور تصویر مکمل کرلی۔ جوکوندا، یعنی مونا لیزا پہلے ہی مکمل کرچکا ہوں)
سائیں انٹرنیٹ جب اطالوی زبان بولتا تو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ یہی سمجھتے شاید انگریزی بول رہا ہے۔اس کی باتیں سن کر EINSTEIN (آئنسٹائن)کہنے لگا۔ ’او کی بکواس کر ریا ایں تینو پتا نئی میں ای ایم سی سکویئر(E=mc square) تے کم کر ریاں واں‘ (بہن کی گالی دیتے ہوئے) کہنے لگا،’سمجھ نہیں آتی ان لوگوں کو، ساری تپسیا بھسم کر دی۔ اگر آج میرا تجربہ کامیاب ہوجاتا تو میں انسان کو الیکٹرون میں تبدیل کر کے وقت کی سیر کروا دیتا‘۔ سائیں کہنے لگا،EINSTEIN
(آئنسٹائن)صاحب clonning (کلوننگ )کے بعد انسان نے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی تو آپ کیا تبدیلی لائیں گے‘ ۔EINSTEIN (آئنسٹائن)نے ساری سگرٹ کی خالی ڈبیاں زمین پر پھینک دین۔دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ بلوط باغ میں شام کے وقت بڑی رونق ہوتی ۔خاص کر گرمیوں میں، یہاں لوگ رات کے وقت بھی آتے لیکن سائیں انٹرنیٹ اور BOB MARLEY (بوب مارلے)سائیں کے لیئے بڑی مشکل ہوجاتی۔لوگ انھیں تنگ کرتے، خاص کر نوجواں طبقہ۔ BOB MARLEY(بوب مارلے)سائیں نے تو عرصے سے چپ سادھ لی تھی لیکن سائیں انٹرنیٹ ان کی باتوں سے چڑ
جاتا۔آج پھر اسے لڑکوں نے گھیر لیا۔’سائیں جی اپنے عشق کا کوئی قصہ سنائیں‘۔ سائیں کہنے لگا،’دفعہ ہو جاؤ۔ یہ پیار ویار سب بکواس ہے۔ امیر لوگوں کے چونچلے ہیں۔جب انسان کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تو اس کی جستجو روٹی کی طرف ہوتی ہے۔پھر تن ڈھانپتا ہے۔ پھر سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتا ہے۔ جب ان تمام بنیادی ضرورتوں سے فراغت پا لیتا ہے تو پھر اس کی جبلت جاگ جاتی ہے۔جیسے کتا ہڈی ملنے کے بعد اپنے نفس کو چاٹتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد اپنی جبلتوں کی طرف بھاگتا ہے۔ روٹی کے ہی چکر سے نہ نکلا تو عشق کیا خاک کرے گا۔ یہ جو تم عشق ومحبت کے قصے پڑھتے ہو۔ لیلی مجنوں، ہیر رانجھا،سسی پنو، سوہنی مہینوال یہ ادبی شاہ پارے تو ہوسکتے ہیں لیکن ان سے سبق لینا یا ان پے عمل کرنا سراسر بیوقوفی ہوگی۔ انسان کو بدصورت لڑکی سے پیار کیوں نہیں ہوتا۔کہتے ہیں کہ لیلٰی کالی تھی۔کس نے دیکھا ہے لیلٰی کالی تھی۔ آج کل کی اس مادہ پرست دنیا میں ماں بھی اس بچے سے زیادہ پیار کرتی ہے جو کام کاج میں اچھا ہو۔جس کی کمائی زیادہ ہو۔ جاؤ جا کے RICHARD DAWKINS کی SELFISH GENES پڑھو پھر تمہیں پتا چلے گا عشق کیا ہے۔ اب میں تمہیں NECTUR CUBE (نیکٹر کیوب)تو سمجھانے سے رہا۔جب غربت آکے تمھارا دروازہ کھٹکھٹائے گی تو عشق کھڑکی کے راستے سے باہر نکل جائے گا۔ہم سب اپنی اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ وہ ADAM SMITH ٹھیک ہی کہتا ہے۔ خدا نخواستہ کوئی انڈین فلم دیکھ کر، جو عشق و محبت سے بھرپور ہو، اگر تمھارے اندر عشق کا جذبہ جاگ بھی جائے، تو جانتے ہو اس کا انجام کیا ہوگا۔ صرف
بربادی۔کبھی عاشق ومعشوق کی زندگی شادی کے بعد دیکھی ہے۔جس معشوق کے لیئے وہ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے د عوے کرتا ہے۔ شادی کے بعد وہ اس کے لیئے ایک سیب تک توڑ کر نہیں لاتا۔ اس کا تعلق جنسی تلذذ سے ہے نہ ہی جسمانی ملاپ سے ۔ یہ تو ایک مہلک بیماری ہے جو آج کل کے ہر نوجوان ہے۔ آج کل لوگ اتفاقیہ عشق نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر گھر سے نکلتے ہیں کہ میں عشق کرنے چلا ہوں،شاید کوئی لڑکی میرے جال میں پھنس جائے اور بالکل یہی حال لڑکیوں کا ہوتا ہے۔شاید کوئی لڑکا میرے جال میں پھنس جائے اور جب تک کامیابی نہیں ہوتی چیوگم کی طرح میٹھا میٹھا لگتا ہے۔جب مکمل کامیابی ہوجاتی ہے تو اس عشق کے چیوگم کو بد ذائقہ سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ جیسے اس کی کبھی طلب ہی نہیں تھی۔ عشق کا مطلب کسی چیز کو own (ملکیت) یاpossess (حاصل )کرنا نہیں ہوتا اور اگر آپ اسے own یا possess کر بھی لیں تو آپ پے بعد میں کئی راز افشاں ہوں گے، ’ہوتے کچھ ہیں کواکب اور نظر آتے ہیں کچھ‘۔ کبھی دیکھا ہے کسی ستر ۷۰یا اسی۸۰ سالہ بوڑھے کو کسی کے عشق میں گرفتار۔ اسے تو اپنی واپسی کی پڑی ہوتی ہے ۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ آپ کو کوئی پسند آجائے لیکن پسند ضد یا عشق کی صورت اختیار کر جائے تو یقیناًخرابی ہے۔عشق شادی کے بعد ایسے لگتا ہے جیسے بنا رس کے پھل،پھیکا اور بد ذائقہ۔ انسان اور جانور دونوں ہی خدا کی تخلیق ہیں لیکن ان میں اور ہم فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیئے زبان ہے۔ زبان تو ان کے پاس بھی لیکن وہ کسی لکھی ہوئی حالت میں نہیں۔ وہ بھی ایک سے دو ہوتے ہیں اور ہم بھی۔ان کے پیار کے اپنے
طریقے ہیں اور ہمارے اپنے۔ ہمارے D.N.A.(DIOXIRIBONUCLEACACID) میں،MITOSIS,MEIOSIS کے عمل میں فرق ہے۔ہمارے D.N.A.میں cytosine,adenine,guanine,thymine ہیں ۔ ہمارا cytosine 369-c ہے جبکہ ان کا ہم سے مختلف ہے۔یہی فرق ہمیں ان سے ممتاز کرتا ہے‘۔ سائیں انٹرنیٹ کی باتیں نوجوانوں کو بڑی بھلی لگتیں۔ وہ بالکل اس طرح ان کو خطبہ دیتا جیسے SAINT FRANCIS OF ASSISI (سینٹ گؤفرانسس آف اسیسی)کو نشاۃ ثانیہ کے اطالوی مصوروں نے اپنی مصوری میں دکھایا ہے، پرندوں کو تبلیغ کرتے ہوئے۔ اس دوران چائے کا دور چلتا رہتا ۔سائیں انٹرنیٹ چائے کی ٹینکی تھا۔
بولتے بولتے سائیں ایک دم خاموش ہوجاتا اور کسی سوچ میں گم ہو جاتا۔ جیسے اس کے آس پاس کوئی نہیں، وہ بالکل اکیلا ہے۔نوجوانوں کو اس کی باتیں بھلی تو معلوم ہوتیں لیکن زندگی کی سچائیوں کو جان کر ان کا ذرا بھی دل نہ کرتا کہ اس کے پاس رکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص کو اس بات کا تجسس تھا کہ سائیں انٹرنیٹ کی اصل کہانی کیا ہے۔ اس کی دیوانگی کا اصل ماخذ کیا ہے۔ لیکن یہ راز آج تک کوئی نہ جان سکا۔ لیکن جب بھی کوئی اس کے پاس آکے بیٹھتا وہ ان کو گیان کی باتیں بتاتا۔ اگر کیان کی باتیں نہ بھی ہوں لیکن دل کو چھو لینے والی ضرور ہوتیں۔ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچاتا لیکن اسے جب کوئی جسمانی طور پہ گزند پہنچاتا تو وہ ان کو گالیاں دیتا اور گالیاں بھی دنیا کی ہر زبان میں جو جو زبانیں وہ جانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس والوں کو شک گزرا کہ شاہ بلوط باغ میں منشیات کا دھندا ہوتا ہے اور اس میں سائیں کا بھی ہاتھ ہے۔ اچانک پولیس والوں نے شاہ بلوط باغ میں چھاپا مارا اور سب سے پہلے انھوں نے ان سائیوں کی جھگیوں کی تلاشی لی۔BOB MARLEY سائیں تو چپ کرکے اپنی جھگی سے باہر نکل آیا اور پولیس والوں نے جی بھر کر تسلی کی، سائیں کو گالیاں دینے لگے ،ٹھڈے مارنے لگے۔ جتنی خاطر داری کرسکتے تھے کی۔ لیکن جواب ندارد، وہ تو یگو ں کا چپ تھا۔ اس کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ نہ اس پے مار کا کوئی اثر ہوتا نہ گالیوں کا، نہ ہی پوچھ تاچھ کا۔ اب باری تھی سائیں انٹرنیٹ کی۔’’ہاں بتاؤ بھئی تم جو نوجوانوں کو لمبے لمبے لیکچر دیتے ہو ۔ تم یقیناًکسی خاص ایجنسی کے بندے ہو‘ ‘۔سائیں نے جواب دیا، "You just shut up, you fuck'in arse hole. You know? You are talking to whom. I am Shakespeare, William Shakespeare and don't you dare to touch my manuscripts. This is Merchant of Venice and that is Julius Ceaser and that is my master piece Hamlet --------- to be or not to be--------- what you think inspector-----------it's to be or------------not to be. I think it's better to be. It's not 233tre et rien".
(تم بکواس بند کروتم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں پتا ہے۔تم کس سے بات کررہے ہو۔ میں شیکسپیئر ہوں۔ولیم شیکسپیئر۔اور میرے مسودوں کو چھونے کی جرأت نہ کرنا۔یہ وینس کا سوداگر ہے اور وہ جولیئس سیزر اور یہ ہے میرا بہترین کام ہیملٹ۔ہے یا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمھارا کیا خیال ہے انسپکٹر۔۔۔۔۔یہ ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ہے۔میرا خیال ہے بہتر ہونا ہے۔۔۔۔۔یہ ہونا یا بالکل نہیں نہیں ہے)
اوئے بکواس بند کرو، تلاشی لو اس کی جھگی کی، پتا نہیں انگریزی میں کیا بکواس کر رہا ہے۔گٹ پٹ۔۔۔۔۔گٹ پٹ۔۔۔۔۔۔میری تو کچھ سمجھ میں نہیںآرہا‘ ایک بیچ میں بول پڑا، ’سر جی شیخ صاحب کا ذکر کر رہا تھا‘۔ ’اوئے بتاؤ اوئے یہ شیخ صاحب کون ہیں؟ اسے تھانے لے چلو‘۔سائیں کو انھوں نے گرفتار کرلیا۔ کینٹ تھانے میں اسے لے جاکر بند کردیا گیا۔رات کو پولیس والوں نے اس کی خوب دھلائی کی لیکن سائیں کو کیا ہوتا وہ تو شیدائی تھا۔
’’سر جی آپ اسے ایسے ہی پھڑ لے آئے ایں‘‘ ایک سپاہی نے کہا۔
’’اوئے بکواس بند کرواوئے، اوپر سے آڈر آئیں ہیں۔خانہ پری بھی تو کرنی تھی‘‘ ۔اس نے جواب دیا۔
صبح جب ایس۔ایچ۔او ۔ کے سامنے سائیں کی پیشی ہوئی تو وہ اصلیت بھانپ گئے۔ سمجھدار آدمی تھے۔سائیں جی سے مخاطب ہوئے۔’’سائیں جی کوئی اچھا سا شعر تو سنائیں پھر آپ کو چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔
Quand il fait pluie sur la ville
Il fait pleu dans mon coeur
Paul Verlaine
(جب گلی میں بارش ہوتی ہے
میرے دل میں بارش ہوتی ہے) پال ویغلین ،فرانسیسی شاعر
’سائیں جی یہ تو کسی اور زبان کا شعر ہے ہمیں کوئی اردو یا پنجابی کا شعر سنائیں‘
’’میں کسے کہوں میرے ساتھ چل
یہاں سب کے سر پے صلیب ہے‘ ‘
اس شعر کے ساتھ سائیں جی کی خلاصی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائیں انٹرنیٹ سخت گرمی میں کوٹ پتلون پہنے، ٹائی باندھے، تیز تیز قدموں سے چلتا، مال روڈ پے چلا جارہا تھا۔ہاتھ میں پھٹا پرانا اٹیچی کیس جس کو اس نے رسیوں سے باندھ رکھا تھا۔ راستے میں کسی نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو تو کہنے لگا۔’فرانس جارہا ہوں۔ جلدی اسلیئے جا رہا ہوں کیونکہ بین الاقوامی پرواز ہے تین گھنٹے پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔کسٹم کلیئرنس، بورڈنگ اور ایف۔ائی۔اے۔ کا کاونٹر۔ اب تو آرمی کا کاونٹر بھی بھگتنا پڑتا ہے‘‘۔‘
’ ’سائیں جی پاکستان میں کیوں نہیں رہتے‘‘
’’یہاں کیا رکھا ہے ۔ ہر دوسال بعد تم مارشل لاء لگا دیتے ہو۔ اسلام کے نام پے ملک بنا کر ،اس ملک کو لوٹ رہے ہو۔تم لوگوں نے اس آدمی کی قدر نہیں کی جس نے ملک بنایا تھا۔ یہ ٹھیک ہے اس نے یہ ملک، نہرو سے شرط باندھ کر بنایا تھا۔اس کی نہرو سے ضد تھی۔ نہ وہ پارسی لڑکی سے شادی کرتا نہ وہ پاکستان بناتا۔اس کے باوجود اس نے آخری دنوں میں خلوص دل سے پاکستان کے لیئے جدوجہد کی۔ جب ستر ۷۰سالہ بوڑھے کی ہڈیاں جواب دے گئیں تو جاتے جاتے اس نے پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانے کے لیئے جو کوششیں کیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ لیکن خان صاحب زیارت جب بھی جاتے تو سیب اچھال اچھال کر پوچھتے ،’ ’بابے کا کیا حال ہے‘‘ خود ا س کے ساتھ کیا ہوا۔سائیاں کتھے تے ودھایاں کتھے۔ وعدے روس کے ساتھ کیئے اور چلے گئے امریکہ۔ مروا دیا نا ا س کو باغ میں,روس والوں نے۔ پھر کیا ہوا دھاڑ دھاڑ کرتے فوجی آگئے۔ چند دن جمہوریت رہی پھر مارشل لاء ۔ تم خود ہی بتاؤ اسلام کے نام پے پاکستان بناکر تم لوگوں نے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کے بعد ایک اور خان صاحب آگئے۔ پہلے فوجی بن کے حکومت کرتا رہا جب جی نہ بھرا تو عوامی حکومت بنا کر سامنے آگیا۔ اس نے دارالحکومت بدل کر بڑا معرکتہ الاآرا کام کیا۔ ان فوجیوں کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔ کیا سن پچاس میں آئے، تو اب وقفے وقفے سے آتے ہی رہتے ہیں۔ ان کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کے حکومت چلانا۔اگر فوج ہی کا راج ہے، آمریت ہی کرنی ہے ، تو پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے پاکستان رکھو، جو کہ اب پاکستان، پاک۔۔۔۔استان(استھان) رہا ہی نہیں۔ نہ یہاں جمہوریت ہے نہ اسلام۔فوجیوں کے بعدروٹی کپڑااور مکان والے آگئے۔ ان کی تو پوچھو ہی مت۔ایک طرف اس نے خان صاحب کو کتا کہہ کر ذلیل کیا تو دوسری طرف روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا۔یقیناًاس کی کوئی ادا خدا کو پسند نہیں آئی ۔ اس کو انھوں نے تشدد کر کے مار دیا اور بعد میں لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیئے اسے پھانسی دینے کا رہس رچایا ۔ ارے جو ملک ترقی کرنے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ، تم آگے چل کے کیا امید کرتے ہو۔ جانتے ہو جب خدا کسی کو ذلت و رسوائی دکھانا چاہتا ہے تو
ایسے شخص کے ہاتھوں دکھلاتا ہے جس کو تم حقیر جانتے ہو۔ وہ اس کی نظر میں حقیر ہی تو تھا۔ اس کی مونچھوں کے وہ اپنے جوتوں کے تسمے جو بنانا چاہتا تھا۔کیا شاندار آدمی تھا۔ نوے دن کے لیئے آیا اور گیارہ سال گزار کر چلا گیا۔ اب بھی وہ نہ جاتا اگر افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلاء نہ ہوتا۔ جیسے ہی ان کا مقصد پورا ہوا اڑا دیا۔گدھے کے اوپر مخمل کی کاٹھی ڈالنا تو کوئی امریکہ سے سیکھے۔ اپنے جسم پر چار جیبوں والی جیکٹ اور چمڑے کی پٹی اس طرح باندھے گھومتا تھا جیسے کوئی ڈاکیہ ہوتا ہے۔ چلا تھا اسلامی نظام لانے۔ ارے پاکستان کو اسلامی نظام کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا۔ پہلے ہی سے اسلامی ملک ہے۔ پوری دنیا میں دو ہی تو ملک ہیں جو مذہبی بنیادوں پر معرض وجود میں آئے ہیں۔ ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان۔ ارے اسلام کے نام پے ملک بنانا تو ایک بہانہ تھا، اصل میں تو جن وڈیروں کو انگریزوں نے نوازا تھا۔سارے ہی نچلے طبقے کے تھے۔غدار تھے۔ اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا تو وہ کھل اسے کھا نہیں سکتے تھے۔اسی لیئے تو لوگ جی.ایم.سید، باچا خان(غفار خان) اور ابوء الکلام آزاد کی مخالفت کرتے ہیں ۔ کیا ہندؤستان ہزار سال کئی مذاھب کی آماجگاہ نہیں رہا اور ویسے بھی ہندؤستان ، مسلمانوں کا ملک تو ہے نہیں، ہم لوگ تو باہر سے آئے تھے ۔اور کیا ہندؤستان میں، اب مسلمان نہیں بستے؟ کیا وہاں اذانیں نہیں ہوتیں؟ ہندؤستان میں جس آدمی نے nuclear bomb (نیوکلیئر بونب )بنایا ہے وہ مسلمان ہے۔
تم نے کبھی پاکستان میں فسادات اور جھگڑوں کے اعدادو شمارپڑھے ہیں۔ پاکستان میں ۱۹۴۷کے بعد، فرقہ وارانہ فسادات میں زیادہ لوگ مرے ہیں بہ نسبت ہندو مسلم فسادات کے۔یہاں کون ہیں؟ سب مسلمان ہیں۔ کیوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اسلام تو بھائی چارے اور امن کا سبق دیتا ہے، پھر ہم کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں؟ تمہیں پتا ہے گلگت میں ایک گاؤں صرف اس لیئے جلا دیا گیا کیونکہ انھوں نے صرف ایک دن پہلے عید منائی تھی۔جلنے والے کون
تھے؟مسلمان۔جلانے والے کون تھے؟مسلمان۔ کس کے کہنے پے یہ اقدام ہوا؟ سرمے والی سرکار کے کہنے پے۔ سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ پاک و ہند پے جو افسانے لکھے ہیں انھیں پڑھ کے انسان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔لیکن اگر منٹو آج زندہ ہوتے تو خود کشی کر لیتے کیونکہ وہاں ہندو،سکھ اور مسلمان کی لڑائی تھی اور موردِ الزام انگریز کو ٹھہراتے تھے۔ اب مسلمان ، مسلمان کا گلہ کاٹ رہا ہے اور الزام دہشت گردوں پے آتا ہے۔ کون ہیں دہشت گرد؟پاکستانی۔
تو بات ہو رہی تھی پاکستانی سیاست کی تو پھر اس ملک کی باگ ڈور اتفاق والوں کے پاس آئی اور پھر روٹی کپڑا اور مکان والوں کے پاس۔ بلی چوہے کا یہ کھیل چلتا رہا۔ ایسی نااتفاقی پڑی کہ پوچھو مت۔انھوں نے میرا مطلب ہے اتفاق والوں نے پاکستان کو فونڈری سمجھ لیا تھا۔جس طرح ان کی مل میں یا فیکٹری میں کوئی مزدور جل گیا یا زخمی ہوگیا تو اس کی مالی اعانت کردی۔اسی طرح وہ صاحب ، کسی لڑکی کی عزت لٹ جانے پر اپنی سیاست کو چمکانے کے لیئے، ذرائع ابلاغ کابھرپور سہارا لے کر ان کی مدد کو پہنچ جاتا۔ کسی کو کیا معلوم خود انہی کا کوئی آدمی اس کی عزت لوٹتا ہو یا سرے سے اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہی نہ ہو۔ دیکھا نہیں انھیں خدا نے کیسی دھول چٹوا دی۔ وہی لوگ چہرے بدل بدل کر آتے ہیں۔ اٹلی بھی ۱۹۴۶ میں آزاد ہوا ہے فرق دیکھا ہے ۔ وہاں بھی بدعنوانی ہے لیکن اتنی اندھیر نگری نہیں ہے۔وہاں کے ایوانوں میں بھی کرسیاں چلتی ہیں۔ لیکن جمہوریت کا حال اتنا برا نہیں۔
تمہیں پتا ہے ہم لوگ ترقی کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ ہم لوگ حب الوطن نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی مٹی سے ، زبان سے،معاشرے سے، رہن سہن سے پیار نہیں ۔ خدا جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی مثال اس نے ہمیں کئی دفعہ دکھائی ہے لیکن ہمیں ہی سمجھ نہیںآتی نہ کبھی آئے گی۔ ہمیں لالچ نے اندھا کر دیا ہے۔ہم ہمسائے کے گھر میں جھانکتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی زندگی اچھی لگتی ہے۔ کیا اسلام ہمیں یہی سبق سکھاتا ہے؟ کہ دوسرے کی امارت سے متاثر ہوکرکچھ بھی کر گزرو۔ تمھیں پتا ہے جب باڑ آتی ہے تو اس میں سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی ، یہ چودھر ی کی حویلی ہے اور وہ غریب کی جھگی۔
ارے ہندو،مسلمان کے جھگڑے سے نکل جب پاکستان آئے تو شیعہ،سنی اور وہابی کے چکر میں پڑ گئے۔ اور اس بات کو مزید خوردبینی انداز سے دیکھو تو پھر ہم سندھی،بلوچی پنجابی اور پٹھان کے چکر میں گئے۔ اب میں تمہیں پنجاب کے ایک دیہات میں لیئے چلتا ہوں۔ یہاں سارے سنی رہتے ہیں۔مسلمان ہیں۔ پاکستانی ہیں اور اس ناطے سب بھائی بھائی ہیں۔ لیکن تمہیں پتا ہے اس دیہات میں چودھری،ملک،گجر،مراثی،کمی اور دیگر لوگ رہتے ہیں،مسلمان اور پاکستانی نہیں۔اب چودھری کے گھر میں بھی وہ راج کرتا ہے جو طاقت ور ہوتا ہے۔ وہی انسان کی جبلت۔ ایک دوسرے پر برتری لے جانا۔ بڑی مچھلی چھوٹی کو کھا جاتی ہے۔
ارے ہم انسان کیوں نہیں ہوتے۔ تمھیں پتا ہے خدا نے ہمیں اشرف المخلوقات کیوں بنایا ہے کیونکہ ہم زبان رکھتے ہیں۔ اظہار کے لیئے ، زبان۔ جسے تم language (لینگوج)کہتے ہو۔ ہم ہنستے ہیں، روتے ہیں، دکھ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں۔اس لیئے نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کرتے پھریں۔ اس لیئے نہیں کہ ہم سنی،شیعہ،پنجابی،سندھی یا چودھری بن کر لڑتے پھریں۔ انسانی تعصبات اور تفرقات ساری دنیا میں ہیں لیکن پاکستان میں برے اس لیئے لگتے ہیں کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ جو تمام انسانی تفریقات کی منافی کرتا ہے۔ ’عربی کو عجمی پر،عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں چہ
جائیکہ وہ تقوی اور پرہیزگاری میں تم سے برتر نہ ہو‘‘۔
سائیں کو باتوں باتوں میں پتا ہی نہ چلاکہ اس کی فلائٹ نکل جائے گی۔ وہ اکیلا اپنے آپ سے باتیں کرتا چلا جارہا تھا۔ وہ شخص جس نے سوال کیا تھا وہ کب کا جا چکا تھا۔اس کو گالیاں دینے لگا۔’’ادی ماں دی۔۔۔۔۔ادی پپینڑ دی۔۔۔۔۔۔فلائٹ مس کروادی۔ اب میرا ٹکٹ بھی ضائع ہوگیا۔ میرے carte sejour (کاخت سیوغ ۔فرانس میں رہنے کا اجازت نامہ)کی معیاد بھی ختم ہوگئی ہے‘‘ ۔ چلتے چلتے وہ بڑی دور نکل آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر مہر علی ریسٹورنٹ پر رات گئے تک لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ یہ راولپنڈی ، جی۔پی۔او(جنرل پوسٹ آفس) کے بالکل سامنے ہے۔اس کے سامنے سے جو سڑک گزرتی ہے اس کا نام کشمیر روڈ ہے۔ اس کا ایک سرا تو جاکے مال روڈ پے ملتا ہے اور دوسرا حیدر روڈ،بینک روڈ اور آدم جی روڈ کو کاٹتا ہواگوالمنڈی کی طرف جاتا ہے۔ کسی دور میں ان تمام صغیرہ شاہراہوں کے انگریزی میں نام ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ اب بھی عمر رسیدہ لوگ ان شاہراہوں کے نئے ناموں سے نابلد ہیں۔ انگریز دور کی بنی ہوئی پیر مہر علی ریسٹورنٹ کی عمارت مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی اب ریسٹورنٹ والوں کے پاس آ گئی ہے۔ کافی پہلے یہاں سوزوکی ہاؤس ہوا کرتا تھا۔بعد میں الیکشن آفس ٹائپ کی کوئی چیز بن گئی ۔اس کے ماتھے پے ضیاء الحق،نواز شریف اور شیخ رشید کی بڑی بڑی تصاویر لگا دی گئیں۔ جو بعد میں حکومتوں کی اوپر تلے تبدیلیوں کی وجہ سے اتار دی گئیں۔ اس کے بعد ریسٹورنٹ کا سلسلہ چل نکلا۔ گرمیوں میں یہاں رات گئے تک کافی رونق رہتی ہے۔ ایک تویہاں صدر سے tench bhatta(ٹینچ بھاٹہ)،بکرا منڈی کے لیئے سوزوکیاں چلتی ہیں اور جی۔پی۔او کی دیوار کے ساتھ اسلام آباد جانے والی ویگنوں کا اڈہ بھی یہیں ہے۔اس لیئے یہاں ڈر ائیوروں،کلینروں، کنڈکٹروں اور
سواریوں کا ہجوم رہتا ہے۔اگر حیدر روڈ کی طرف آئیں تو پھلوں کی ریڑھیاں اور گنے کا رس بیچنے والے بھی نظر آئیں گے۔ اگر کسی نے مکھیوں کی جنت دیکھنی ہو تو یہی جگہ ہے۔ مہر علی ریسٹورنٹ میں چوہے اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جس طرح روس اور امریکہ بنا کسی جواز کے دوسرے ملکوں میں دخل درمعقولات کرتے ہیں۔ رات کو سنوکر کلبوں سے فراغت پانے والے نوجوانوں کی آماجگاہ بھی یہی ریسٹورنٹ ہے۔ایک کونا ان نوجوانوں کے لیئے مخصوص ہے۔ ان میں کچھ کام کرتے ہیں ۔کچھ حالات کا رونا روتے ہیں۔کچھ بالکل فارغ تنقید برائے تنقید کے شوقین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیرا : سر کیا لاؤں؟
خالد : یار۔۔ایسا کرو چار چائے لے آؤ۔۔۔اور ہاں پتی تیز اور دودھ کم ۔۔۔۔اور ہاں میٹھا علیحدہ سے لانا۔
امجد: ارے یار سنا ہے سائیں انٹرنیٹ کر کل پولیس پکڑ کر لے گئی تھی۔
طاہر: اب کہاں ہیں؟
خالد : ہوگا انوار کیفے پے یا ڈرائیور ہوٹل پے کسی کے، کان کھا رہا ہوگا۔
امجد: نہیں یار بڑا ہی ذہین آدمی ہے۔ پتا نہیں اسے کیا ہوا ہے، لیکن باتین بڑی دلچسپ کرتا ہے۔صاحب علم آدمی ہے۔ علم والی باتیں کرتا ہے۔
طاہر: یقیناًدلچسپ و صاحب علم آدمی ہے اور باتیں بھی علم والی کرتا ہے ، لیکن ، اگر ہوش میں ایسی باتیں کرتا تو کب کا شاہی قلعے کے تہہ خانے میں پھینک دیا گیا ہوتا۔
خالد: لیکن سنا ہے وہ تو کب کا بند کردیا گیا ہے۔
طاہر: تو کہیں اور بنا دیا گیا ہوگا۔ پاکستان میں ایسے تشدد گھروں کی کمی ہے۔
اسی اثناء بیرا چائے لے آیا۔ اس طرح کے پتلونی بابوؤں سے بیراء بڑی تمیز کے ساتھ پیش آتا اور ویسے بھی نوجوان طبقہء بدتمیزی کا مظاہرہ نہ کرتا اور ان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے ہوٹل والے( پاکستان میں ریسٹورنٹ کو ہوٹل کہا جاتا ہے) کبھی کبھی ادھار بھی کر لیتے۔
امجد: یار انٹرنیٹ سائیں تو intellectual (انٹلیکچوئل) ہے، لیکن پاگل بھی۔پولیس والوں کو اس طرح کے لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیئے۔
طاہر: اگر تمھیں زیادہ ہمدردی ہے تو گھر لے جاؤ اسے۔
امجد: یار بات ہمدردی کی نہیں ہے اور ویسے اگر ہمدردی ہے بھی تو گھر لے جانے کی اس میں کیا بات ہے۔ بات کو طنزیہ رنگ نہیں دینا چاہیئے۔ مجھے تو سائیں حالات کا مارا لگتا ہے۔ پاگل نہیں لگتا۔اتنی سچی اور کھری باتیں کرتا ہے کہ انسان کے اندر انقلاب لانے کا جذبہ جاگ جاتا ہے۔
ابھی وہ ان باتوں میں مصروف ہی تھے کہ دور سے افراسیاب آتا دکھائی دیا۔ سب نے با آواز بلند کہا ’آؤ جی افراسیاب صاحب‘ اس کے لیئے چائے منگوائی گئی ، کیونکہ وہ ہر محفل کی جان ہوتا ہے۔ بال کی اتنی کھال اتارتا ہے کہ لوگوں کی جان کو آجاتا ہے۔ امجد نے آنکھ بچا کے سب کو ہاتھ جوڑے کہ اس کی سبکی نہ کی جائے ، لیکن کسی کے منع کرنے کے بنا ہی وہ خود سے شروع ہو جاتا ۔ محفل میں جو سب سے ماٹھا ہوتا، افراسیاب اس پے ٹوٹ پڑتا۔ بس کسی کی کوئی کمزوری ہاتھ لگنے کی دیر ہے۔ افراسیاب کی سب سے خاص بات ، اس کی سائیں انٹرنیٹ سے دوستی۔
خالد: افراسیاب چائے پیوؤ گے۔
افراسیاب: موتر پیوؤ گا( اس نے غصے سے کہا) کیوں نہیں پیوؤ ں گا چائے۔
خالد: یار پانچ چائے لانا۔ ارے ہاں یاد آیا افراسیاب، سائیں انٹرنیٹ کا کچھ پتا ہے۔
افراسیاب : مجھے راستے میں ملے تھے۔ اسی طرف آرہے ہیں۔
دور سے سائیں انٹرنیٹ آتا دکھائی دیا اور زور زور سے کہہ رہا تھا، ’جے منگلم شری رام ۔بھگوان کی لی لا سے پوتر اگنی کو ساکھشی مان کر پتی پتنی کی رکھشا کرے گا‘ ایک لڑکے نے لقمہ دیا ’بلکہ ٹیکسی کرے گا ویگن کرے گا‘
افراسیاب: سائیں جی ہماری پاس آکر بیٹھیں ناں۔
سائیں انٹرنیٹ: اؤ نئی او نئی! اگے وی میری فلیٹ مس ہوگئی اے۔
افراسیاب : کہاں جارہے تھے آپ۔ ارے یاد آیا کل آپ کو پولیس بھی تو پکڑ کر لے گئی تھی۔
سائیں : ہاں ہاں ۔۔۔۔لیکن تمہیں اس سے کیا؟ میں کون سا منسٹر ہوں ۔ چائے پی کے میں جرمنی جا رہا ہوں۔ میری ausweis (آوس وائس ، یعنی جرمنی میں رہنے کااجازت نامہ) ختم ہوجائے گی۔
اس دوران سارے لڑکے سائیں جی کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ خالد نے پھر آواز لگائی ،’ یار چائے چھ کر دینا۔ ایک سائیں جی کے لیئے بھی‘‘
افراسیاب: سائیں جی بچی کس طرح پھنساتے ہیں کوئی ترکیب تو بتائیں
اس دوران سارے لڑکے بول پڑے،’ ’یار افراسیاب تم بھی سائیں جی سے عجیب سوال کرتے ہو۔ کہیں ان کی بد دعا لگ گئی تو‘‘؟
افراسیاب: ارے یہ سائیں جی وہ والے سائیں تھوڑی ہی ہیں جو ازار بند یا ناڑہ کھلواتے ہیں کے بد دعا لگ جائے گی۔ یہ تو اکیسویں صدی کے سائیں جی ہیں۔ فرنچ،اطالوی،جرمن اور انگلش بولنے والے۔ سائیں جی کو مخاطب کرتے ہوئے ،’’ہاں تو سائیں جی بچی کیسے پھنساتے ہیں‘‘۔
سائیں جی: اس کا بڑا آسان طریقہ ہے، جس چیز کو حاصل کرنا ہے اس کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو، وہ خود تمھارے طرف دوڑتی چلی آئے گی۔
افراسیاب: سائیں جی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔
افراسیاب کو کسی نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا۔ ہر وقت ہنستا اور مسکراتا رہتا۔ مذاق کرنا اس کی عادت تھی وہ کسی بات کو سنجیدہ لیتا ہی نہیں تھا۔
خالد: سائیں جی آپ اسے سمجھاتے کیوں نہیں ہر بات مذاق میں ٹال دیتا ہے۔
سائیں جی:
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
یہ روز کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
افراسیاب:
چھٹی کے دنوں میں کبھی نہا بھی لیا کر
یہ روز کی گندگی تجھے بیما ر نہ کردے
سب زور زور سے ہنسنے لگے۔ شعروں کی پیروڈی، برجستہ و فلبدیہہ وہ بہت اچھی کرتا ۔ یہ تو کچھ مہذب پیروڈی تھی ورنہ وہ مغلظات سے بھرپور پیروڈی کرتا ۔
خالد: مجھے لگتا ہے اس کا حال بھی سائیں جیسا ہوگا، افراسیاب کو مخاطب کرتے ہوئے ،’ ’افراسیاب اب بھی وقت ہے، سدھر جا،ورنہ بعد پچھتائے گا ‘‘۔
ابھی وہ گفتگو میں مصروف تھے کہ دور سے افراسیاب کے والد صاحب اور اس کا چھوٹا بھائی آتے دکھائی دیئے۔
افراسیاب چلایا: ابا آپ کیوں اس طرف آگئے
افراسیاب کے ابو: ارے تم میری ہوائی چپل پہن آئے ہو۔ چلو گھر بہت دیر ہوگئی ہے
افراسیاب: ابھی آتا ہوں
اچانک اس کے والد کی نظر سائیں انٹرنیٹ پر پڑی۔ کچھ پہچاننے کی کوشش کرنے لگے پھر خیال جھٹک دیا لیکن بنا پوچھے ان سے بھی نہ بن آئی۔
افراسیاب کے ابو سرگوشی کے سے انداز میں کہنے لگے: افراسیاب یہ کون ہیں؟
افراسیاب نے آہستگی سے کہا: ابا۔۔۔یہ سائیں انٹرنیٹ ہیں ۔ لوگ انھیں پاگل سمجھتے ہیں لیکن ہم سب ان کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ intellectual (انٹلیکچوئل)ہیں۔بس ان کا ذہنی توازن
ٹھیک نہیں
انھوں نے متجسس ہوکر پوچھا: کہاں سے آئے ہیں ............افراسیاب ........یہ؟
افراسیاب: یہ کوئی نہیں جانتا ۔ نہ کبھی بتاتے ہیں۔ بس بیرون ممالک کا ذکر کرتے رہتے ہیں روز کہتے ہیں۔ آج جرمنی چلا جاؤ گا۔ کل فرانس چلا جاؤ گا اور پرسوں اٹلی۔
افراسیاب کے ابو: بس بچو یہ ضیاء صاحب کے دور میں ایسی نفسانفسی تھی۔ ہر نوجوان پر باہر جانے کا بھوت سوار تھا۔ یہ اسی کے اثرات ہیں۔ اچھے خاصے قابل نوجوان غیر ممالک کو چلے گئے۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں انجینئرز ، ڈاکٹرز اور ہنرمند آدمی باہر جارہے ہیں۔ خیر تم گھر چلو۔
افراسیاب: ابا........ میں آجاؤں گا.......آپ چلیں۔
سائیں انٹرنیٹ نے افراسیاب کے والد صاحب کو پہچان لیا تھا ۔ لیکن اس نے کوئی اظہار نہ کیا بلکہ خاموشی سے سب کی گفتگو سنتا رہا۔
رات گئے تک یہ نوجوان مختلف موضوعات پے بحث کرتے رہے پھر اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ لیکن سائیں انٹرنیٹ وہیں بیٹھا رہا۔ جب وہ ریسٹورنٹ بند کرنے لگے تو سائیں وہیں ساتھ گلی میں ایک میلی اور ٹوٹی پھوٹی چٹائی پر سو گیا۔
.............................................................................
ابرِنیسا بہرام کھرل، راولپنڈی شہر کی نئی ڈپٹی کمشنر محترمہ نادیہ بہرام کھرل کی بیٹی ہے اور دونوں میں اس حد تک مماثلت ہے کہ کئی دفعہ پہچانا مشکل ہوجاتا ہے کہ ماں کون ہے اور بیٹی کون۔ابرِنیسا کا رنگ ذرا صاف اور قد تھوڑا لمبا ہے اور دکھنے میں ذرا زیادہ خوبصورت ہے۔ اس کی وجہ عمر کا فرق بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے والد نہ صرف اسلام آباد کے بلکہ پورے پاکستان کے جانے مانے cardiologist (کارڈی آلوجسٹ))ہیں ۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف۔۱۰ کے مرکز میں ان کا "Il cuore" (ال کورے ،یعنی دل )کے نام سے اپنا میڈیکل سنٹر ہے۔
جمشید صاحب کوہاٹ کے مشہور آدمی خان بہادر کے بیٹے ہیں۔ خان بہادر صاحب خود بھی ڈاکٹر تھے۔ کوہاٹ میں اپنا میڈیکل سنٹر چلاتے تھے۔ اپنے بچوں کو انھوں نے خاندانی چپقلشوں سے بچانے کے لیئے اسلام آباد بھیج دیا تھا۔اس لیئے یہ دونوں بہن بھائی، جمشید خان اور لیل النہار ،اسلام آباد میں ہی پلے بڑھے تھے۔ دونوں ڈاکٹر تھے۔ بہن تو شادی کے بعد اپنے میاں کے ساتھ امریکہ چلی گئی لیکن جمشید صاحب یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
جوانی کے دنوں میں اسلام آباد کے انتہائی مہنگے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پرائیویٹ ٹیوشن کے لیئے جایا کرتے تھے۔ ایسے مہنگے اور جدید قسم کے ٹیوشن سنٹر چند ایک ہی ہیں، جہاں امراء اور نودولتیئے قسم کے لوگ اپنے بچوں کو مہنگی فیسیں ادا کرکے مختلف مضامین کی پرائیویٹ ٹیو شن دلواتے ہیں۔ ان میں چند طلباء و طالبات صرف اسلیئے یہاں پڑھنے آتے ہیں تانکہ انھیں اپنی کلاس کے لوگوں سے ملنے جلنے کا موقع ملے۔خاص کر کچھ نوجوان ، لڑکیوں کے قریب آنے کے چکر میں بھی یہاں آتے ہیں۔ جو اپنے پیسے کی چمک اور ظاہری آن بان سے لڑکیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ چونکہ، یہاں زیادہ تر لڑکیاں ،لڑکے آزاد خیال اور آزاد ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لیئے ان میں مڈل کلاس یعنی درمیانے طبقےء والی بات نہیں ہوتی۔پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہے ۔ یہاں discotheques (ڈسکوتھیک، یعنی ناچ گھر)اور الکوحل کا کوئی تصور نہیں اس لیئے یہ لوگ private parties (ذاتی تقر یبات) میں بالکل اس طرح کا ماحول بنا لیتے ہیں۔ ان کے لیئے شراب تک رسائی کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ یہ صرف درمیانہ اور نچلا طبقہء مشکل سے حاصل کرتا ہے۔ یا کچھ شراب کے شوقین عیسائیوں کا شراب کا پرمٹ استعمال کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے اس نئے پھلتے پھولتے سیکٹر ایف۔۱۰ میں بھی اس طرح کا ایک ادارہ ہے۔ ُٓ "ELYSIUM" (الیزیئم )اپنے نام کی مناسبت سے یہ ادارہ بالکل اس نام کی عکاسی کرتا ہے۔
جمشید خان ان دنوں میڈیکل کا طالب علم تھا۔ اس کی انگریزی اور بائیالوجی کمزور تھی۔ نہ صرف اس کی بلکہ اس کی بہن لیل النہار کی بھی یہی حالت تھی۔دونوں بہن بھائی اپنی اس کمی کوپورا کرنے کے لیئے "ELYSIUM" (الیزیئم)آیا کرتے تھے۔ ادارے کا ماحول کافی آزاد تھا لیکن یہ لوگ قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اس لیئے ان کے ذہن میں وہی عزت اور غیرت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہیں elysium (الیزیئم)میں جمشید خان کی ملاقات نادیہ بہرام کھرل سے ہوئی اور بالکل انڈین اور پاکستانی عشقیہ فلموں کی طرح پہلی ملاقات میں ہی خان صاحب ، اپنا دل دے بیٹھے۔ لیکن ان کے دل دینے سے کیا ہوتا تھا۔ نادیہ تو سب کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتی۔ نادیہ زیادہ خوبصورت تو نہ تھی لیکن اس میں بلا کی کشش تھی، جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ تقریباً سارے elysium (الیزیئم) کے لڑکے اس کے آگے پیچھے گھومتے ۔ لیکن وہ کسی کو منہ نہ لگاتی۔ جمشید کی بہن
لیل النہار نے اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر نادیہ سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی۔ اس وجہ تھی اس کی سادگی۔ نادیہ اس کو دوست تو نہ تصور کرتی لیکن اسے بہت اچھا لگتا کہ کوئی اس کے آگے پیچھے پھرے اور اس کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہے اس کام کے لیئے لیل النہار بالکل مناسب تھی لیکن لیل النہار اس نقطء نگاہ سے نہیں سوچتی تھی ۔
..........................................................
نادیہ بہرام کھرل ، اے .بی.کھرل کی تیسری بیوی سے تھی۔ اس کو کھرل صاحب نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا۔ کھرل صاحب کی دوسری بیویوں سے بھی اولاد تھی۔ پہلی شادی انھوں نے سولہ سال کی عمر میں اپنے گاؤں سے اپنے ماں باپ کی مرضی سی کی تھی۔اس کے بطن سے دو بچے پیدا ہوئے۔ دونوں گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ دوسری شادی انھوں نے اپنی مرضی سے لاہور کے ایک امیر خاندان سے کی۔ جس سے ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ ان کی پہلی بیویوں سے جو اولاد تھی وہ سب کے سب شادی شدہ تھے۔ آخری شادی انھوں نے بڑھاپے میں آکر کی۔ ان کی عمر زیادہ نہ تھی لیکن پاکستان میں پچاس سے اوپر والوں کو بوڑھا تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی بیوی کی عمر بمشکل بیس سال ہوگی۔ ہوا کچھ یوں کہ کھرل صاحب ایک دن سیر کے لیئے چترال گئے۔ وہیں لڑکی کے والدین کو پیسے ادا کیئے اور لڑکی کو اپنی منکوحہ بنا کر لے آئے۔ اسی بیوی کے بطن سے نادیہ پیدا ہوئی۔کھرل صاحب اپنی اس بیٹی کو بہت چاہتے تھے اس کی کوئی خواہش انھوں نے کبھی رد نہ کی۔ تمام کاروبار اور جائیداد پے لاہور والی بیوی اور اس کے بچوں نے قبضہ کرلیا، کیونکہ انھیں ان کی تیسری شادی پر اعتراض تھا۔ ویسے بھی کھرل صاحب حالات کے ساتھ ماٹھے پڑگئے تھے۔ لیکن نادیہ کو انھوں نے کبھی محسوس نہ ہونے دیا کہ ان کی مالی حالت مستحکم نہیں ہے۔اس پے حادثہ یہ گزرا کہ ان کی چہیتی بیوی بھی ایک حادثاتی موت کا شکار ہوگئی۔ اب تو ان کی ساری توجہ کا مرکز نادیہ تھی۔وہ "bella di papa" (باپ کی لاڈلی ،اطالوی زبان میں کہتے ہیں، بیلو دی پاپا)بن گئی تھی۔اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنا سب کچھ اپنے والد صاحب کو ہی پایا تھا۔ اس کی کوئی دوست نہ تھی۔ بچپن کو CONVENT کانونٹ) میں گزرا۔ انگریزی ماحول میں پلی بڑھی ۔ دوست ہوتا بھی کیسے ، وہ جب بھی والد صاحب کے ساتھ کہیں جاتی تو لوگ یہی سمجھتے کہ وہ کھرل صاحب کی پوتی ہے۔کھرل صاحب جھٹ سے پھر لوگوں سے اس کا تعارف کرواتے، ’یہ میری بیٹی
ہے۔ ماشااللہ بہت ذہین ہے۔
...................................................
نادیہ اور جمشید میں کوئی دوستی نہ تھی ۔ وہ سیدھا سادہ پٹھان اور یہ نازوں پلی، نک چڑھی اور مغرور لڑکی تھی۔ مغرور نہ بھی ہولیکن ناک بھوں ایسے چڑھا کے رکھتی جیسے ساری دنیا اس کے پاؤں کی ٹھوکر میں ہو۔لیکن آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہونا شروع ہوگیا ، جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو کچھ ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ یعنی اصل میں جو ہوتا ہے وہ، وہ نہیں ہوتا جو وہ ہوتا ہے بلکہ وہ، وہ ہوتا ہے جو وہ نہیں ہوتا ہے۔
اچانک کھرل صاحب انتقال کر گئے اور نادیہ کا قرعہ جمشید کے نام نکلا۔ جس طرح NEWTON (نیوٹن)کی گود میں سیب گرا تو وہ سوچنے لگا یہ زمین پرکیوں گرا ، آسمان پر کیوں نہ چلا گیا۔اسی طرح جمشید بھی حیران و پریشان تھا کہ نادیہ بہرام کھرل اس کی جھولی میں کیسے آن گری۔
جمشید خان امریکہ سے cardiology (کارڈیالوجی)میں specailisation(سپیشلائیزیشن) کرکے آیا تھا اور نادیہ بہرام سول سروسسز میں ٹاپ کرچکی تھی۔ لیکن اس کے والد صاحب کی وفات کے بعد آج وہ جو کچھ بھی تھی۔جس مقام پر تھی۔ اس میں دو لوگوں کا ہاتھ تھا۔ایک گمنام شخص تھا ۔ جس کی motivation(موٹیویشن، یعنی مائیلیت) اور moral support (مورل سپورٹ، یعنی حوصلہ افزائی) کے ساتھ اورد وسرا جمشید خان جس کی مالی اعانت سے، وہ اس مقام پر پہنچی تھی۔ عبدل بہرام کھرل وفات کے بعد صرف اور صرف قرض خواہوں کی
فہرست چھوڑ کر گئے تھے اور ان تمام مسائل سے مکتی دلانے والا شخص تھا جمشید خان۔ وہ نادیہ سے بہت پیار کرتا تھا ۔اس کے لیئے وہ کچھ بھی کرسکتا تھا اور اس نے کیا۔اس کے باوجود نادیہ اور جمشید کی ازدواجی زندگی اتنی کامیاب نہ تھی، جتنی کے ہونی چاہیئے تھی۔ دونوں کو ایسا لگتا جیسے انھوں نے کوئی بہت بڑا سمجھوتا کیا ہو۔ اسی سمجھوتے سے ابرِنیساں بہرام خان پیدا ہوئی ۔نادیہ نے اپنے باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ رہنے دیا۔خاوند کے نام کے بجائے اپنے باپ کا نام ساتھ رکھنا زیادہ پسند کیا۔ اس کے برعکس ابرِنیساں نے نہ صرف اپنے باپ کا نام ساتھ رکھا بلکہ اپنے نانا کا نام بھی ساتھ شامل رکھا، حالانکہ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔
ابرِ نیساں اسلام آباد کے اسی مہنگے علاقے میں رہتی ہے، جہاں کبھی اس کی ماں پڑھنے آیا کرتی تھی۔ان کے گھر کے داخلی دروازے میں مشہوراطالوی مصور RAFFAELLO (رافیلو)کی "la velata" (لا ویلاتا، یعنی باپردہ عورت )ٹنگی ہوئی ہے۔ ابرِنیساں کی ماں نادیہ بہرام کھرل کے کمرے میں اطالوی mediaeval painters قرونِ وسطیٰ کے مصوروں) کی بنائی ہوئی تصاویر کی imitations (امیٹیشنز، یعنی نقل کی ہوئی )ٹنگی ہوئی ہیں۔ جن میں CIMABUE,GIOTTO,RAFFAELLO,MICHELANGELO اور LEONARDO DA VINCI (چیمابوئے،جوتو، رافیلو، مائیکل اینجلو، لیوناردو دا ونچی )نمایاں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے چند مصوروں کی بھی تصاویر آویزاں ہیں ، جیسے کہVAN GOGH, DALI, CHAGALL,KADINSKY,FRIDA KOEHLO (وین گوغ، دالی، چاگال، کادنسکی، فریدہ کاہلو) وغیرہ۔
..........................................................
ابرِ نیساں قائد اعظم یونیورسٹی میں ANTHROPLOGY (اینتھروپولوجی ،یعنی علم البشریات )کی طالب علم تھی اور شام کو ALLIANCE FRANCAISE (آلیانس فغانسیز،فرانسیسی کلچرل سینٹر) فرنچ زبان سیکھنے کے لیئے جایا کرتی ۔ یہیں اس کی ملاقات افراسیاب سے ہوئی۔ دونوں میں اک قدر مشترک تھی۔ دونوں فرنچ سیکھنے کے شوقین تھے۔ کلاس کا فرق اپنی جگہ تھا۔ وہ صحافی کا بیٹا تھا اور ابرِ نیساں ڈپٹی کمشنر کی بیٹی ۔ دونوں میں دوستی ہوگئی لیکن عشق وشق کا چکر نہیں
تھا۔کیونکہ افراسیاب کوعشقیہ قصوں کو سن کر اور فلموں کو دیکھ کر بخار ہوجاتا تھا۔وہ تو آرٹ فلموں کا شیدائی تھا۔کہاں COGNITIVE SCIENCE(کوگنیٹو سائنس، یعنی گیان اور وقوف کا علم)کہاں عشق و محبت۔ANTHROPOLOGY (اینتھروپولوجی ،یعنی علم البشریات )اور COGNITIVE SCIENCE (کوگنیٹو سائنس، یعنی گیان و وقوف کا علم) کا آپس میں تھوڑا
بہت ربط تھا۔ افراسیاب کا پی.ایچ.ڈی کرنے کا ارادہ تھا اور ابرِنیساں کا بھی ANTHROPOLOGY (اینتھرو پولوجی ،یعنی علم البشریات )میں پی.ایچ.ڈی کرنے کا رادہ تھا۔ افرسیاب کو پنڈی سے عشق تھا اور ابرِنیساں اسلام آباد سے کبھی باہر نہ گئی تھی۔حالانکہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ پورا پاکستان گھوم چکی تھی۔ لیکن وہ مڈل کلاس کی نہ تھی۔ دونوں میں کئی دفعہ بحث ہوجاتی اور ہمیشہ افراسیاب ہی جیتا کرتا ،کیونکہ وہ نام نہاد طالب علم نہیں تھا۔
آج پھر دونوں بھرپور بحث ہوئی اور پھر افراسیاب جیت گیا۔ باتوں باتوں میں سائیں انٹرنیٹ کا ذکر چل نکلا۔
ابرِنیساں کہنے لگی، ’مجھے پیروں فقیروں پر یقین نہیں‘
افراسیاب کہنے لگا، ’ارے وہ جادو ٹونے والے، معجزات دکھانے والے، لعابِ دہن لگا کر زخم ٹھیک کرنے والے سائیں نہیں ہیں۔ ان کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ گزرا ہے ۔ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے وہ سڑکوں پے مارے مارے پھرتے ہیں۔لوگ انھیں پاگل کہتے ہیں لیکن میری نظر میں وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ANTHROPOLOGY,ETYMOLOGY,
LEXICOGRAPHY,ANTHROPOMORPHISM (اینتھروپولوجی،ایٹیمولوجی، لیگزیکوگرافی، اینھتروپومورفزم)
اور ناجانے کیا کیا۔ اس کے علاوہ کئی زبانیں جانتے ہیں۔ تاریخ،فلسفہ اور کیا نہیں جانتے۔ بس ایک نشہ کرتے ہیں۔چائے کا۔ہم لوگوں نے ان کا نام سائیں انٹرنیٹ رکھا ہوا ہے کیونکہ ان کے اصلی نام سے کوئی نہیں واقف۔
ابرِنیساں کہنے لگی،’ ’I would like to see him that will be interesting ‘‘(میں ان سے ملنا چاہوں گی۔ یہ بڑا دلچسپ رہے گا)
’’Oui! c'est bien,‘‘ (ہاں یہ ٹھیک ہے )افراسیاب نے کہا ۔
..................................................................
افراسیاب ، ابرِنیساں کی چمکیلی گاڑی سے، اس کے ساتھ اوڈین سینما کی پارکنگ میں اترا۔ دونوں تیزی سے چلتے ہوئے شاہ بلوط باغ میں داخل ہوئے۔ جس طرف BOB MARLEY(بوب مارلے)سائیں اور سائیں انٹرنیٹ کی جھگیاں تھیں ۔۔۔۔دونوں اس طرف مڑے۔
سائیں انٹرنیٹ پھلوں کے خالی کریٹ کو میز بناکر اس پے اپنے تمام ضروری کاغذات رکھے ان کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ لوگوں کے لیئے وہ کاغذ کے سفید پرزے تھے لیکن سائیں انٹرنیٹ کے لیئے وہ PERMESSO DI SOGGIORNO (پرمیسو دی سجورنو،یعنی اٹلی میں رہنے کا اجازت نامہ),AUSWEIS(ہاوس وائس، یعنی جرمنی میں رہنے کااجازت نامہ), CARTE SEJOUR(کاخت سجوغ، یعنی فرانس میں رہنے کا اجازت نامہ) اور جانے کیا کیا تھے۔اس کی جیسے ہی نظر افراسیاب پر پڑی تو کہنے لگا،
’اوئے تم پھر آگئے‘
’نہیں سائیں جی ،آج میں آپ کو تنگ کرنے نہیں آیا ہوں۔میرے ساتھ میری کلاس فیلو ہے۔ ہم دونوں ALLIANCE FRANCIASE(آلیانس فغانسیز، فرانسیسی کلچرل سنٹر)میں اکٹھے فرنچ پڑھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ANTHROPOLOGY (اینتھروپولوجی ،یعنی علم البشریات )پڑھتی ہے اور اس کی ایک assignment(اسائینمنٹ) رکی ہوئی ہے۔ وہ علم البشریات کے بارے میں چند سوالات پوچھنا چاہتی ہے۔
’تو اسے کسی anthropologist (اینھترو پولوجسٹ )کے پاس لے کر جاؤ‘
’نہیں سائیں جی وہ نصاب سے ہٹ کر لکھنا چاہتی ہے‘
اسے کہو، اس صدی کے مشہور PALEANTOLOGIST ,STEPHEN JAY GOULD کی کتاب WOUNDERFUL LIFE پڑھے۔ اس سے اسے کافی سوالات کے جواب مل جائیں گے اور اگر linguistics بارے میں جاننا چاہتی ہے تو STEVEN PINKER کی THE LANGUAGE INSTINCT پڑھے‘۔

یہ تمام باتیں ابرِنیساں جھگی کے باہر کھڑی سن رہی تھی۔ جھٹ سے جھگی میں داخل ہوئی۔بدبو اور تعفن کی وجہ سے ناک پر رومال رکھ لیا۔ اس نے جیسے ہی جھگی میں قدم رکھا،سائیں کو تو جیسے بجلی چھو گئی ہو۔ وہ تھوڑی دیر کے لیئے ساکت ہوگیا۔ مہبوت ہوکر اسے دیکھنے لگا اور ماضی کے نہاں خانوں میں چلا گیا۔ اچانک سائیں کو نہ جانے کیا ہوا ۔ زور زور سے چلانے لگا،
’اب آئی ہو۔۔۔اب آئی ہو۔ میری زندگی تباہ کرنے کے بعد۔ میری بربادی کا تماشہ دیکھنے۔ نکل جاؤ۔ تم جیسی self centered اور utopian girl کی میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔ سرابوں کے پیچھے بھاگنے والی۔ آگیا ہوش تمہیں اس رنگ و بو کی دنیا سے۔افراسیاب بیٹا یہ آگ ہے۔ تمہیں جلا کر راکھ کر دے گی۔ اس نے کئی لوگوں کی زندگی برباد کی ہے۔ اب تمھیں تباہ و برباد کرے گی‘
افراسیاب اور ابرِنیساں مہبوت ہوکر سائیں کو دیکھ بھی رہے تھے اور سن بھی رہے تھے۔ افراسیاب نے آج تک سائیں کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا۔ابرِنیساں سے آج تک کسی نے اتنی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی، کیونکہ وہ ڈپٹی کمشنر کی بیٹی تھی اور اس کا باپ اسلام آباد بلکہ پاکستان کے مانے ہوئے cardiologists (کارڈیالوجسٹ )میں سے ایک تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ْ ْْ

No comments:

Post a Comment