Friday, June 17, 2011

pase ayena 4th chapter

4th chapter

منگل کے دن ہمیں یہی امید تھی کہ آج ثقلین نہیں آئے گا۔ آج نیائش کا کچھ پکانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا پکائیں۔ نیائش کے موبائیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ نیائش کہنے لگا،’’یار اگر کہیں سے کھانا آجائے تو مزہ ہی آجائے‘‘۔
میں نے کہا ،’’نیائش بھائی اس میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ میں ڈونر کباب لے آتا ہوں۔ آپ کو پتا ہے پیاتسا سانت اگوستینوں (
piazza sant agostino)میں کسی پاکستانی نے ڈونر کباب شروع کیا ہے‘‘۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن پیاتسا سانت اگوستینوںیہاں سے کافی دور ہے۔ تمہارے پاس ابھی لائسنس بھی نہیں۔ میں بہت تھکا ہوا ورنہ میں چلا جاتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’فون تو سنو کس کاہے‘‘۔
نیائش نے فون اٹھایا اورفون پے ہاتھ رکھ کے کہا، ’’تمہارے دوست ثقلین کا ہے‘‘۔
پھر نیائش ،ثقلین جسے سارے پری پیکر کہتے ہیں، سے مخاطب ہوا، ’’ہاں بھئی پری پیکر کیا بات ہے‘‘۔
فرشتہ کو نہ پتا چلا کہ ثقلین نے کیا کہا۔
نیائش کی آواز آئی، ’’ماڑا دیر کس بات کی ہے ۔ نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘۔
یہ کہہ کر نیائش نے فون بند کردیا۔
پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’آج میں خدا سے کچھ اور بھی مانگتا تو مل جایا۔ ثقلین آرہا ہے ۔وہ یہ پوچھ رہا تھا کہ کچھ پکایا تو نہیں کیونکہ وہ ڈونر کباب لے کر آرہا ہے۔ اس وقت وہ پیاتسا سانت اگوستینو ں کھڑا ہے‘‘۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ وہ اگر نہ آتا تو میں جاکر لے آتا‘‘۔
’’ماڑا وہ میز پے میونیز، کیچ اپ اور بڑی بوتل سیون اپ کی رکھو‘‘۔
ہم لوگوں نے کھانے کے لیئے میز بالکل تیار کردیا۔ ٹھیک پندرہ منٹ میں ثقلین ہمارے گھر پے موجود تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لیا۔ اس میں سے سلور فوئیل میں لپٹے ہوئے ڈونر کباب نکالے۔ جب میں نے ڈونر گنے دو تو چار تھے۔ میں نے پوچھا، ’’ثقلین صاحب یہ چار کیوں ہیں۔ ہم لوگ تو تین ہیں‘‘۔
تو ثقلین کہنے لگا، ’’مجھے کھانے پینے چیزیں کم اچھی نہیں لگتیں۔ کسی ایک نے بھی پیٹ بھر کے نہ کھایا تو ایک دوسری کی طرف دیکھتا رہے گا‘‘۔
’’آپ کا مشاہدہ بڑا تیز ہے‘‘۔
’’میرا مشاہدہ کیا خاک تیز ہے۔ مشاہدہ تو آپ کا ہے۔ میں نے پاکستان میں کئی سال صحافت میں برباد کیئے ہیں۔ خود کو بڑی توپ چیز سمجھتا تھا لیکن آپ نے تو مجھے حیران کر دیا ہے‘‘۔
دور سے نیائش بولا ، ’’’ماڑا ایک دوسرے کے تعریف بعد میں کرنا مجھے بڑی بھوک لگی ہوئی ہے‘‘۔
یہ سننا تھا کہ ہم سب نے کھانا شروع کیا۔ کھانے کے دوران مختلف موضوعات پے باتیں ہوتی رہیں۔ جب کھانا کھا کے فارغ ہوچکے تو میں نے نیائش اور ثقلین سے پوچھا تم لوگ چائے پیؤ گے۔ ثقلین نے
ہمیشہ کی طرح کہا، ’’آپ کو تو پتا ہے فرشتہ صاحب میں چائے نہیں پیتا‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’لیکن میں پیؤ ں گا‘‘۔
میں چائے بنانے لگا۔ تو ثقلین نے کہا، ’’فرشتہ صاحب آپ کے پاس چوتھا باب ہے‘‘۔
میں کہا، ’’ہاں ہے۔ پہلے والا پڑھ لیا کیا‘‘۔
’’آپ کا کیا خیال ہے میں ایسے ہی یہاں آیا ہوں۔ میرا تجسس مجھے یہاں کھینچ کرلایا ہے‘‘۔
نیائش کہنے لگا، ’’ماڑا ، یہ تم نے کیا لکھا ہے کہ پری پیکر کی راتوں کی نیند حرام کردی ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی آپ راتوں کی نیند کی بات کرتے ہیں ۔میں کام کے دوران سوچتا رہتاہوں کہ کب چھٹی ہو ۔ گھر پہنچوں اور آپ کے ہاں آؤں اور اگلا باب لے کر جاؤں‘‘۔
نیائش مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ماڑا سارا کا سارا ایک ہی دفعہ دے دو۔ جو بھی تم نے لکھا ہے‘‘۔
’’نیائش بھائی، کوئی بھی کام ایک دم نہیں کرنا چاہیئے۔ نشے کا عادی بھی آہستہ آہستہ کیا جاتاہے‘‘۔
’’یہ بات تو درست ہے‘‘۔
ثقلین اصولوں کا بہت پابند تھا۔ وہ جس طرح چیز لے کر جاتا اسی طرح واپس لاتا۔ میں لکھتے ہوئے ہر صفحے کے اوپر نمبر بھی لکھتا اور باب کا عنوان بھی۔ اس طرح صفحے آپس میں گڈ مڈ نہ ہوتے۔ ثقلین اس چیز کا بہت خیال رکھتا۔ میں نے چائے پیالیوں میں ڈال کے میز پے رکھی اور ثقلین نے ہمارا ساتھ دینے کے لیئے تھوڑی سی کو ک گلاس میں ڈال لی۔ میں ان دونوں کو چھوڑ کے کمرے میں گیا اور چوتھا باب اٹھا لایا۔ ثقلین نے مجھے تیسرا باب دیا اور چوتھا باب ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہنے لگا، ’’فرشتہ صاحب میرا خیال اس کو کتابی شکل دینی چاہیئے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس کو چھاپے گا کون، پڑھے گا کون‘‘
ثقلین نے کہا، ’’یہ آپ مجھ پے چھوڑ دیں۔ ویسے کتنے باب ہیں اس کے ‘‘؟
میں نے کہا، ’’تھوڑا سا تجسس بھی ہونا چاہیئے‘‘۔
ثقلین نے کہا، ’’جیسے آپ کی مرضی‘‘۔
جب ہم چائیے پی چکے تو نیائش سونے کے لیئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جب نیائش اٹھا تو ثقلین نے بھی اجازت چاہی لیکن میں نے اسے کہا، ’’اگر آپ جلدی نہیں سوتے تو تھوڑی دیر رک جائیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’آپ کہیں اور میں نہ رکوں۔ مجھے ویسے بھی نیند دیر سے آتی ہے۔ جب سے میں نے یہ پڑھنا شروع کیا ہے میرا کام میں بھی دل نہیں لگتا‘‘۔
میں نے پوچھا،’’ثقلین صاحب ،آپ میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں یا واقعی ہی آپ کو پسند آیا ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’اگر پسند نہ آیا ہوتا تو میں اس طرح روز نہ آتا۔ آپ کو پتا ہے اریزو میں کسی کے گھر دو دفعہ جاؤ تو لوگ پی سی او پے جاکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ بندا روز شام کو کھانے کے وقت ہمارے گھر آجاتا ہے۔ میں آپ کا نہیں کہہ رہا کیوں کہ آپ کا جملہ پورے اریزو میں مشہور ہے ،’’ساڈا کی ۔۔۔۔۔۔کھا جانڑاں اے، اپنڑاں نصیب کھاڑاں اے‘‘ اس لیئے میں آپ کے ہاں آجاتا ہوں۔ ویسے بھی نیائش بھائی کی عادت تھوڑی مختلف ہے‘‘۔
میں ثقلین کی اس بات پے بہت ہنسا۔ اس کا مطلب ہے لوگوں پے میرے کہے کا اثر ہوتا ہے۔ میں نے ثقلین سے پوچھا، ’’ویسے ایک بات پوچھوں آپ سے اگر آپ کوبرا نہ لگے تو‘‘۔
’’ہاں ہاں ضرور‘‘۔
’’آپ چائے کیوں نہیں پیتے‘‘۔
فرشتہ صاحب یہ چائے جو ہے یہ صحافیوں کا پٹرول ہوتی ہے۔ میں نے ہر طرح کی چائے پی ہے۔ دفتروں کی چائے، سڑک کنارے ہوٹلوں کی چائے، گھروں چائے۔ پاکستان میں لوگ کھانے کا وقت بھی ہو تو چائے کا پوچھتے ہیں۔ کلرکوں کی چائے، بیوروکریٹس کی چائے، ٹریول ایجنسیوں کی چائے، ادبی تقریبات کی چائے۔ میں نے پاکستان میں اتنی چائے پی ہے کہ مجھے چائے سے نفرت ہوگئی ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اپنے حصے کی چائے پی چکا ہوں‘‘۔
’’لیکن کبھی کبھی پینے میں تو کوئی حرج نہیں‘‘۔
’’یہ سگرٹ کی طرح تھوڑی تھوڑی ہی شروع ہوتی ہے اور نشے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ فرشتہ صاحب اب اگر اجازت دیں تو میں چلوں گا۔ میں رات سونے سے پہلے چوتھا باب پڑھوں گا‘‘۔
’’ثقلین صاحب مجھے حیرت ہے کہ آپ کو میرا لکھا ہوا پسند آیا ہے‘‘۔
’’پسند اس لیئے آیا ہے کہ آپ جب باب کا اختتام کرتے ہیں تو تجسس چھوڑ جاتے ہیں ۔ پڑھنے والے کے اندر ایک عجیب کھلبلی مچ جاتی ہے کہ آگے کیا ہوا ہوگا‘‘۔
’’بہت شکریہ‘‘۔
ثقلین نے مجھ سے اجازت لی اور چلا گیا۔
ثقلین جب گھر پہنچا تو سارے لڑکے جہاں وہ رہتا تھا، ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ثقلین نے آہستگی سے آداب وغیرہ کہا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ اس نے ٹیبل لیمپ آن کیا اور خاکی لفافے سے اگلا باب نکال کے پڑھنا شروع کیا۔
جب میں مایوس ہوچکا کہ اندر سے کوئی نہیںآئے گا ۔مجھے رات یہیں ویرانے میں گزارنے پڑی گی۔میں نے سوچا واپس ریلوے سٹیشن پے چلا جائے۔ ایسا عین ممکن ہے کہ پولیس گشت کرنے آئے اور مجھے پکڑ کے لے جائے۔میں اس بات سے ناواقف تھا کہ چھپا ہوا کیمرہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ ابھی میں اسی اْدھیڑ بْن میں تھا کہ کسی نے میرے کے کندھے پے ہاتھ رکھا۔ اس نے جرمن زبان میں مجھے کچھ کہا لیکن میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سمجھایا کہ میں اس کے پیچھے پیچھے چلوں۔ چلتے چلتے وہ مجھے ونہی لے آیا جہاں سے میں گزر کے آیا تھا۔ وہی بیرک نماں جگہ جو مجھے ریڈ کراس کا کوئی دفتر یا فوجیوں کی بیرک لگتی تھی۔ جس کے سامنے وہ گندا بدبودار نالہ بہہ رہا تھا۔ جس کی بو کے بھبھوکے میرے ناک کے نتھنوں کے اندر سے گزر کے میرے دماغ کو مجروح کررہے تھے۔
میں اس کے پیچھے پیچھے چلا رہا تھا ۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے سفید رنگ سے سیکیوریتاس(
securitas) لکھا ہوا تھا۔ اس کا قد لمبا تھا اور رنگ گورا۔ اس نے پیچھے جس چیز سے سیکویریتاس لکھا تھا وہ اندھیری میں چمک رہی تھی۔اس آدمی کے پاس تما م ضروری لوازمات تھے۔ اس کے بیلٹ کے ساتھ ہتھ کڑی کی جوڑی بندھی ہوئی تھی۔ ایک طرف لکڑی کا یا شاید لوہے کا چھوٹا سا ڈنڈا چمڑے کے کور میں پڑا ہوا تھا۔ ایک طرف پستول لگی ہوئی تھی۔ اس طرف چابیوں کا گْچھا لٹک رہا تھا۔ اس کی بیلٹ پے ایک طرف وائرلیس ڈیوائس لگی ہوئی تھی۔ جس پے مختلف قسم کے پیغامات جاری ہورہے تھے۔ ایک جگہ پہنچ کے وہ آدمی رکا تو میں بھی رک گیا۔ اس نے لوہے کا گیٹ کھولا۔ میں اس گیٹ کے پاس سے گزر کے گیا تھا لیکن مجھے پتا ہی نہ چلا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ جیسے ہی ہم اس گیٹ سے اندر داخل ہوئے اس نے گیٹ کو تالا لگا دیا۔ مجھے ایسا لگنے لگا جیسے مجھے کسی نے جیل میں بند کردیا۔ مجھے ایک چیز دیکھ کے بڑی حیرت ہوئی ا س نے جب گیٹ کھولنے کے لیئے چابی استعمال کی تو اس کے ساتھ ایک لوہے کی زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ اس نے چابی زنجیر سے علیحدہ کیئے بغر تالا کھولا تھا اور واپس چابی ونہی رکھ لی تھی جہاں سے نکالی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس کی اس بات پے بہت ہنسا۔
اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا، ’’تم کون سی زبان بولتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’انگریزی اور فرنچ‘‘۔
’’میرا مطلب ہے تم کس ملک کے رہنے والے ہو‘‘؟
’’میں پاکستان کا رہنے والا ہوں‘‘۔
’’تم لوگ کون سی زبان بولتے ہو، عربی‘‘
’’نہیں ہم اردو بولتے ہیں‘‘
اس سیکیورٹی گارڈ نے مالٹایا شاید لال رنگ تھا کا کاغذ اٹھایا اور ایک سفید۔ یہ دونوں کاغذ مجھے دیئے اور کہنے لگا ان کو پْر کر کے مجھے دے دو۔ پھر اس کے دماغ نہ جانے کیا آیا اس نے مجھ سے کہا، ’’چھوڑو، تم یہ فارمز صبح پْر کرلینا۔ میں تمہیں تمہارے سونے کی جگہ بتاتا ہوں‘‘۔
اس سکیورٹی گارڈ نے ایک اور دروازہ کھولا اور کہا اس کمرے میں چلے جاؤ۔ میں نے بالکل ویسے ہی کیا جیسے اس نے کہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد سیکویرٹی گارڈ میرے لیئے دو کمبل، ایک سفید چادر اور ایک تکیہ لے آیا۔ یہ چیزیں میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہنا لگا، ’’اس کمرے سے ملحق غسل خانہ ہے۔ اس میں پلاسٹک کے گلاس پڑے ہوئے ہیں۔ اگر تمہیں رات کو پیاس لگے تو وہ پانی پی سکتے ہو۔ وہ پانی پینے لائق ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ باہر سے بند کردیا، بلکہ لاک کردیا اور وہ اپنے کیبن میں چلا گیا۔
اب میں اس کمرے میں بالکل اکیلا تھا۔ یہ کمرہ تو نہیں تھا۔ جہاں سے میں داخل ہوا تھا وہاں لکڑی اور شیشے کے استعمال سے ایک دیوار سی بنائی گئی تھی اور اس کے ساتھ دروازہ بنا ہوا تھا جس کو وہ لاک کرگیا تھا۔ پچھلے دیوار پے چار بڑی بڑی کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں۔ تین کھڑکیاں بند تھیں یا یوں کہنا چاہیئے کہ لاک تھیں۔ ایک کھڑکی تھوڑی سی کھلی ہوئی تھی۔ جس سے ہلکی ہلکی ہوا آرہی تھی۔ ایک طرف سیمنٹ کی پکی دیوار تھی۔ ایک دیوار پیچھے کی طرف تھی۔ جس میں ایک دروازہ تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔ یہ واش روم تھا۔ اس میں ایک طرف پاخانہ کرنے کے لیئے ڈبلیو سی لگی ہوئی تھی اور ایک طرف دیوار کے ساتھ واش بیسن تھا۔ اس کے پاس ہی چند پلاسٹک کے گلاس پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک میں نے اٹھایا اور واش بیسن کی ٹوٹی کھول کے میں نے گلاس میں پانی ڈالا۔ پینے کو دل تو نہیں چارہا تھا کیوں جب سے میں اریزو آیا تھا یہاں سب لوگ منرل واٹر پیتے تھے کیونکہ کمونے دی اریزو سے باقاعدہ گھر گھر پیغام بھیجا تھا کہ اریزو میں گھروں کے استعمال کا پانی پینے لائق نہیں اس لیئے سب لوگ منرل واٹر پیتے
تھے۔ میں نے باتھ کی ٹوٹی کا پانی پیا کیونکہ میرے پاس دوسرا راستہ نہیں تھا۔ میں نے گلاس میں دو تین دفعہ پانی ڈال کر پیاء۔ اس کے بعد میں باتھ سے باہر آگیا۔ جس کمرے میں وہ آدمی مجھے چھوڑ کے گیا تھا اس میں دو مستطیل میز پڑے ہوئے۔ میں نے ایک کمبل ان مستطیل میزوں کے پیچھے زمین پے بچھایا اور اس کے اوپر سفید چادر بچھا دی۔ سر کے نیچے تکیہ رکھا اور لیٹ گیا۔ دوسرا کمبل میں نے سوچا اوپر اوڑ ھ لوں گا لیکن اس چھوٹے سے کمرے میں کافی گرمی تھی۔ گو کہ ان علاقوں میں جون کے مہینے میں بھی اتنی گرمی نہیں ہوتی لیکن
۲۰۰۲ میں کچھ زیادہ ہی گرمی پڑی تھی اور اس کا اثر جہاں پوری دنیا پر پڑا وہاں کرائس لنگن پر پڑا۔ گرمی کی وجہ سے سے فضاء میں عجیب سی چپکن تھی۔ میں نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن نیند تھی کہ کوسوں دور۔ اس کادور دور تک کوئی نشان ہی نہیں تھا۔ حالانکہ میں جتنا تھکا ہوا تھا مجھے ایک دم نیند آجانی چاہیئے تھی۔ میری نظر وال کلاک پے پڑی جو باہر برآمدے میں ٹیلی فون بوکس کے اوپر لگا ہوا تھا۔ اس پر صبح کے دو بج رہے تھے۔ میں نے دوبارہ اپنے بستر پے کروٹ بدلی جو میں نے چند لمحے پہلے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا۔ میں اپنے دماغ کے نہاں خانوں میں ماضی میں گزری ہوئی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ میرے دماغ کے اندر بھی کمپیوٹر کی فائیلوں کی طرح، ہاٹ میل کے ان بوکس کی طرح مختلف فائلیں تھیں۔ جنھیں میں کھول کھول کے دیکھنے لگا۔ میں اس کے بعد سوچنے لگا کہ میں نے زندگی میں کیا کیا، کیا کررہا ہوں ہوں اور آنے والے کل میں میرے ساتھ کیا ہوگا۔
اچانک میں نے کچھ شور سنا۔ ایسا سنائی دے رہا تھا جیسے کوئی وینیٹین بلائنڈ یعنی یورپیئن چکیں اٹھا رہا ہے۔ جیسے ہی بلائنڈز اوپر اٹھی میں نے کیا دیکھا باہر روشنی تھی۔ اس کا مطلب ہے صبح ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب ہے جب میں اپنے دماغ کے ان بوکس میں اپنی زندگی کی فائلین دیکھ رہا تھا اس دوران میری آنکھ لگ گئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ دیر سویا ہوں۔
صبح کے وقت کسی اور نے میرے کمرے کا تالا کھولا اور اس کے بعد دروازہ۔ اس شخص نے بھی وہی یونیفار م پہنا ہوا تھا جیسا رات والے شخص نے پہنا ہوا تھا۔ اس نے مجھے ناشتہ بھی دیا اور وہی کاغذ جو مجھے رات کو دیا گیاتھا وہ مجھے دوبارہ دیا ۔ ناشتہ میں چھوٹی سی ٹکیہ جیم کی تھی، چھوٹی سی ٹکیہ مکھن کی تھی، دو سوس بریڈ کے سلائس تھے۔جسے سوس لوگ بروڈ کہتے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی وہ مجھے دے کر گیا تھا نہ ہونے سے بہتر تھا۔ میں صبح صبح عجیب سا محسوس کررہا تھا کیونکہ میرے منہ کا ذائقہ بہت خرا ب ہورہا تھا۔ میں نے کافی دیر سے دانت صاف نہیں کیئے تھے۔ میں نے بنا دانت صاف کیئے ہی جو کچھ تھا ناشتہ سمجھ کے زہر مار کیا۔ اس کے بعد میں نے وہ فارم جو کہ اردو میں تھا، پر کرکے اس آدمی کو دیا۔ جب میں ان کاموں سے فارغ ہوگیا تو میں دوبارہ جاکے اپنے اسی بستر پے لیٹ گیا جو میں نے خود تیار کیا تھا۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کب میری آنکھ لگی۔ کیونکہ جب دوبارہ میری آنکھ کھلی تو کوئی زور زور سے چلا رہا تھا ’’کھانا کھا لو، کھانا کھا لو‘‘۔ یہ کسی عورت کی آواز تھی۔ میں آنکھیں ملتا ملتا اٹھا۔ اس عورت کا انگریزی بولنے کا انداز بہت عجیب تھا۔ جب میں اٹھ کے بیٹھا تو وہ پھر چلائی، ’’یہ تمہارا دوپہر کا کھانا ہے۔ مجھے اور بھی کام ہے جلدی کرو‘‘۔
آج اتوار کا دن تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
۱۶ جون ۲۰۰۲ کی صبح اس دن سویڈن اور سینیگال کامیچ تھااور سپین اور آئرلینڈ کے درمیان میچ تھا۔ مجھے وقت کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے سامنے گھڑی دیکھی جو ٹیلی فون بوتھ کے اوپر لگی ہوئی تھی۔ اس پے دن کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ آج چونکہ اتوار تھا اس لیئے نہ میرے فنگر پرنٹ لیئے جاسکتے تھے۔ نہ ہی میرا انٹرویر ہوسکتا تھا نہ ہی میرا
میڈیکل ہوسکتا تھا۔جب میں کھانے کھا کے فارغ ہوچکا تو جو کہ پاستے کی ایک پلیٹ اور ساتھ وہی سوس روٹی یعنی بروڈ تھی تو سوچنے لگا کہ اب کیا ہوگا۔ اس دوران کسی نے دروازہ کھولا ، یہ وہی شخص تھا جس نے مجھے فارم پْر کرنے کے لیئے دیا تھا۔ کہنے لگا، ’’تم باہر جاسکتے ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم لوہے کے جنگلے سے باہر جاسکتے ہو۔ وہ جگہ جہاں سے تم داخل ہوئے تھے وہاں جو کھلی جگہ ہے وہاں جاسکتے ہو‘‘۔ میری لیئے اتنا ہی بہت تھا۔ میں دو سیڑھیاں اتر کے اس جگہ آگیا جہاں سے میں داخل ہوا تھا۔ یہاں ایک چھوٹی سی صحن نماں جگہ تھی۔ فرش لال اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ یہ اینٹیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ایک بِیل تھی اور اس کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا۔ درخت بالکل ساتھ ایک دیوار تھی۔ یہ دیوار لکڑی کے تختوں کی بنی ہوئی تھی۔ میں وہاں جاکے بیٹھ گیا۔ میں نے سر اٹھا کے دیکھا نیلا آسمان اور اس پے کہیں کہیں سفید بادل روئی کے گالوں کی طرح ہوا کے دوش پے رواں دواں تھے۔ کبھی کبھی یہ بادل مختلف اشکال میں تبدیل ہوجاتے۔ اچانک کسی نے لوہے کے دروازے کو زور زور سے پیٹا ۔ وہ سیکیورٹی گارڈ اپنے کیبن سے نکلا اور اس نے لوہے کا گیٹ کھولا۔ دو لڑکے اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ وہ سیکیورٹی گارڈ تو اندر چلا گیا کیونکہ یہ دونوں لڑکے انگریزی زبان سے ناواقف تھے۔ وہ شاید کسی ایسے بندے کی تلاش میں گیا تھا جو ان کی زبان سمجھ سکتا ہو۔ پھر وہ واپس آیا اور مجھ سے انگریزی میں کہنے لگا تم ان کی زبان سمجھتے ہو۔ میں نے کہا نہیں۔ وہ پھر چلا گیا۔ مجھے سمجھ نہ آئی ماجرا کیا ہے۔
میں نے ان میں سے ایک سے انگریزی میں پوچھا، ’’تم کہاں کے ہو‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’میں فلسطینی ہوں‘‘۔ میں اسے غور سے دیکھنے لگا۔ میں نے ساری زندگی فلسطینیوں کی کہانیاں سنی تھیں۔ ان کو ٹی وی پے دیکھا تھا ۔ میں نے یہ بھی سنا تھا فلسطینیوں کے لیڈر یاسر عرفات نے اپنی ساری زندگی فلسطینیوں کی آزادی کے لیئے صرف کردی۔
اس نے مجھے سے پوچھا، ’’تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’پاکستان‘‘۔
اس نے میرا نام پوچھا ۔ جب میں اسے اپنا نام بتا چکا تو میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’ہابیل بن آدم‘‘
پھر میں نے اس پوچھا، ’تمہارا دوست بات چیت نہیں کرتا‘‘۔
تو اس نے جواب دیا، ’’یہ انگریزی نہیں جانتا۔ اس کا نام عبداللہ بن خطیب ہے۔ اور ہاں ایک اور بات ان لوگوں کو نہ بتانا کہ مجھے انگریزی آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم بالکل فکر نہ کرو‘‘
میں جس جگہ بیٹھا تھا یہ ساری عمارت لکڑی اور سیمنٹ کے بلاکس سے بنی ہوئی تھی۔ لوگ آجارہے تھے۔ تھوڑی دیر میں مجھے کسی کی آواز سنائی دی۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو سکیورٹی گارڈ نے مجھے اشارہ کیا کہ تمہیں اندر بلایا گیا ہے۔ میں اٹھ کے اندر آگیا ۔ ایک طرف تووہ دیوار تھی جہاں ٹیلی فون بوتھ کے اوپر گھڑی لگی ہوئی تھی۔ ایک طرف کمرہ تھا جہاں میں رات کو سویا تھا اور ایک طرف سیکیورٹی گارڈ کا کمرہ تھا۔ میں سیکیورٹی گارڈ کے کمرے کے سامنے جا کے کھڑا ہوگیا۔ اس سکیورٹی گارڈ نے مجھے اشارہ کیا کہ اس کمرے میں چلے جاؤں۔ جس کمرے میں میں رات کو سویا تھا اس کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا کمرہ تھا۔ میں اس کے اندر چلا گیا۔ چند لمحوں میں اس کمرے میں ایک موٹا تازہ آدمی داخل ہوا۔ اس نے بھی سیکیورٹی گارڈ جیسی وردی پہنی ہوئی تھی ۔اس کے یونیفارم پے بھی سیکیوریتاس لکھا ہوا تھا۔ یہ شخص موٹا بھی تھا اور اس کا چہرہ بھی لال سرخ تھا۔ اس نے چہرے پے فرنچ کٹ انداز کی داڑھی سجا رکھی تھی ۔ اس کے لال اور گول چہرے پے فرنچ کٹ داڑھی عجیب سی لگ رہی تھی۔ جس کمرے میں ہم دونوں کھڑے تھے وہاں بمشکل دو بندے کھڑے ہوسکتے تھے۔ اس نے بہت برے انداز میں میری تلاشی لینی شروع کی۔ پھر اس نے کہا سارے کپڑے اتار دو۔ میں نے پہلے جوتے اتارے۔ یہ اچھا ہوا کہ میں نے موزے نہیں پہنے ہوئے تھے ورنہ جتنی دیر سے میں نے جوتے پہنے ہوئے تھے اتنی دیر تک میں موزے پہنے رکھتا تو یہ سیکیورٹی گارڈ بے ہوش ہوجاتا۔ جوتے اتارنے کے بعد میں نے جینز اتاری، پھر ٹی شرٹ بھی اتار دی۔ میرا وزن گزشتہ کئی سال سے پینسٹھ اور ستر کلو کے درمیان تھا۔ میرا نظامِ ہضم بھی کچھ اس طرح کا تھا کہ میرے جسم پپے چربی ٹکتی ہی نہ تھی۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ میرا میٹابولزم ہی اس طرح کا تھا۔ میں
یہی سوچ رہا تھا کہ اب یہ مجھے کہے گا کہ انڈر ویئر بھی اتار دو۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس نے ہاتھوں پے پلاسٹک کے دستانے پہنے جو بالکل ایسے تھے جیسے غبارے ہوتے ہیں۔دستانے پہنے کے بعد اس نے میرے پورے جسم پے ہاتھ پھیرا۔ جب اس کی تسلی ہوگئی۔ تو اس نے میری جینز کی تمام جیبیں اچھی طرح ٹٹول کر دیکھیں۔ پھر اس نے جوتوں کو توڑ موڑ کر دیکھا۔ آخر میں جینز سے بیلٹ نکالی اور اس کو بھی ٹھیک طرح دیکھا۔ میری جینز سے دو سوس فرانک کا جو سکا نکلا اس کو اس نے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے مجھے کہا تم کپڑے پہن لو۔ میں نے اس کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے دوبارہ کپڑے پہن لیئے۔ پھر جوتے بھی۔اس نے میری تلاشی اس طرح لی تھی جیسے میں کوئی بہت بڑا دڑگ ڈیلر ہوں۔ یا میں اپنے جسم کے مخفی حصوں میں کوئی خفیہ نقشہ لیئے گھوم رہا ہوں ۔ آخرکار اس نے مجھ سے کہا، تم اس کمرے سے باہر جا سکتے ہو۔
اس جامہ تلاشی کے بعد مجھے ایک اور جگہ لایا گیا۔ میں اس جیل نماں جگہ سے باہر نکلا۔ میں نے اس جیل نماں عمارت کے صحن سے کھلا آسمان دیکھا تھا لیکن مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں قیدخانے سے نیلا آسمان دیکھ رہا ہوں لیکن اب جس جگہ یہ مجھے لے کر آئے تھے یہاں کھلی فضا تھی۔ موسم اچھا تھا۔ صبح جو موسم میں چپکن تھی اب وہ نہیں تھی۔میری یہ آزادی تھوڑی دیر کی تھی۔ کیونکہ باہر چلتے چلتے مجھے سیکیورٹی گارڈ ایک سیکیورٹی گارڈ کے حوالے کرکے چلا گیا۔ میں سیکیورٹی گارڈ کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوا۔ یہاں انہوں نے میری دوبارہ تلاشی لی۔ اس کے بعد ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہوا۔ یہاں پے بے شمار لوگ تھے۔ عورتیں مرد، بچے، کالے ،گورے، پیلے انسان۔ اس ہال کی چھت کوئی بیس فٹ اونچی ہوگی۔ کمرے کے اندر جابجا لکڑی کے لمبے لمبے بینچ پڑے ہوئے تھے۔ ایک دیوار پے کافی اونچائی پے ٹیلی وژن لگا ہوا تھا۔ سینیگال اور سویڈن کا میچ ہوچکا تھا اور میں نے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھ بھی لیا تھا کہ کون جیتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ سینیگال نے سویڈن کے دو ایک سے ہرا دیا۔ جب میں اس ہال میں داخل ہوا تو اس وقت سب لوگوں کی نظریں ٹی وی پر تھیں کیوں کہ آئرلینڈ اور سپین کا میچ ہورہا تھا۔
میں نے اس ہال کا معائنہ کرنا شروع کیا۔ جہاں سے میں داخل ہوا تھا اس کے ساتھ ایک راستہ اندر کو جاتا تھا میں نے اندر جھانک کے دیکھا تو یہ باتھ رومز تھے۔ اس کے ساتھ بہت بڑا کچن تھا۔ ہال کے دونوں اطراف پے سکوں سے چلنے والی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ جن میں ڈرنکس اور سنیکس تھے۔ میرے پاس دو سوس فرانک تھے جو سیکیورٹی گارڈ نے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کے نہ جانے کہا رکھ دیئے تھے۔ ہال کے چاروں طرف کھڑکیاں تھیں۔ کچھ کھلی ہوئی تھیں اور کچھ بند۔ کھڑکیاں بہت بڑی اور اونچی تھیں ۔ یورپیئن لوگ انہیں فرنچ ونڈوز کہتے ہیں۔ یعنی فرانسیسی انداز کی کھڑکیاں۔ چھت پے چار پنکھے لگے ہوئے تھے ۔ جن کی آواز سے سے ہال کا ماحول عجیب سا ہوگیا تھا۔ میرے پاس ایک لڑکا کھڑا تھا۔ وہ مجھے غور غور سے دیکھ رہا تھا کہ میں کیا کررہا ہوں۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کہاں کے ہو ۔ تو میں نے جواب دیا پاکستان کا رہنے والا ہوں۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے
ہو ۔ تو اس نے جواب دیا انگلولہ۔ یہ ابتداء تھی۔ میں نے تھوڑی دیر کے لیئے دیوار پے لگے ہوئے ٹی وی پے فٹبال میچ دیکھا ۔ یہ ناک آوٹ راونڈ تھا اس لیئے مجھے اس میچ میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اس لیئے میں دروازے کی طرف چل دیا جو سامنے چھوٹے سے باغ میں جا کے کھلتا تھا۔ میں اس دروازے سے گزر کے باغ میں داخل ہوا۔ باغ کیا تھا چھوٹا سا پنجرہ تھا۔ یعنی زمین پے سبزہ تھا لیکن جڑی بوٹیاں ٹنڈ منڈ تھیں۔ اس جھاڑ پھونس والی جگہ جسے انہوں نے باغ کا نام دیا تھا کے ارد گرد مضبوط جنگلہ لگا ہوا تھا لیکن اس جالی دار جنگلے سے باہر نظر آتا تھا۔ یہاں کھلا آسمان بھی نظر آرہا تھا۔ اس جنگلے کے باہر وہی گندا نالہ بہہ رہا تھا جس کے تعفن اور بدبو سے میری دماغ کے اندر ہلچل مچ گئی تھی۔ اس گندے نالے میں پانی بہتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس میں بیشمار پلاسٹک کے لفافے، خالی بوتلیں اور خالی ڈبے تیر رہے تھے۔ یہاں پر بھی کافی لوگ تھے۔ میں نے اپنے لیئے ایک جگہ پسند کی اور بیٹھ گیا۔ یہاں پے ہر برِاعظم کے لوگ تھے۔ ایشیاء،افریقہ، یورپ کے غریب ممالک کے لوگ، روسی وغیرہ۔ یہاں بیٹھے بیٹھے مجھے مائیکل جیکسن کا گانا یاد آگیا۔
we are the world
we are the children
یہاں جس پنجرے میں میں بیٹھا تھا جسے انہوں نے باغ کا نام دیا تھا۔ یہاں دور سڑک پے لگے ہوئے سائن بورڈ نظر آرہے تھے۔ ایک سڑک اوپر کو جارہی تھی اور اس سے بالکل ملحق ایک چھلا نماں سڑک تھی جسے انگریز لوگ رنگ روڈ کہتے ہیں۔ اس کے اوپر جو سائن بورڈ لگے ہوئے تھے ان میں سے ایک پے لکھا ہوا تھا، ’’فرائن فیلڈ، زیور گ وغیرہ۔ ہمارے پنجرے نماں باغ کے بالکل سامنے ریلوے لائن تھی اور کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے سائن بورڈ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ آج روڈ پے ٹریفک کم تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ فٹبال میچ دیکھنے میں مصروف تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہا آج اتوار تھا۔ اس پنجرہ نماں باغ کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ کھڑا تھا جس کا کام ہماری نقل و حرکت پے نظر رکھنا تھا۔
مجھے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ کسی عورت نے اونچی واز میں کہا، ’’رات کے کھانے وقت ہوگیا۔ اس وقت چھ بج رہے تھے ۔میں نے سوچا اتنی جلدی۔ کیونکہ گرمیوں میں سورج دیر سے غروب ہوتا ہے۔ آج
۱۶ جون تھی۔ بائیس جون تک دن مزید بڑے ہونے تھے اور راتیں چھوٹی۔ ویسے
بھی یورپ کے ان علاقوں میں سورج گرمیوں میں آٹھ ساڑھے آٹھ بجے غروب ہوتا ہے اور رات نو دس بجے تک روشنی رہتی ہے۔ خیر ہمیں تو ان کے حکم کی تعمیل کرنی تھی۔ ہم سارے کھانا کھانے کے لیئے میزوں کی طرف بھاگے۔ وہ عورت جس نے ہمیں بلایا تھا زور سے چلائی سارے لائن میں کھڑے ہوجاؤ اور پہلے اپنی اپنی پلیٹ اٹھاؤ، پھر چھری، کانٹا اور چمچ۔ اس کے بعد لائن میں لگ کے اپنی اپنی پلیٹ
آگے کرو۔ میں سب کو برابر کھانا ڈال کے دوں گی ۔ جب ختم کر چکو گے تو دوبارہ ڈال دوں گی۔ ہم سب نے اس کی ہدایت پے عمل کیا۔ ہم سب ایک لائن میں کھڑے ہوگئے۔ وہ پھر چلائی کہ بچے اور عورتیں ایک طرف اور مرد ایک طرف ۔ ہم نے پھر ویسا ہی کیا۔ میں مردوں کی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ میں سب سے آخر میں کھڑا تھا۔یہاں لوگوں کو کھانا تقسیم کرنے والے تین افراد تھے۔ دو عورتیں اور ایک نوجوان لڑکا تھا۔ وہ عورت جو مجھے صبح ناشتے کے لیئے جگانے آئی تھی اور اسکے بعد میرے لیئے دوپہر کا کھانا لائی تھی وہ ان تینوں میں موجود نہیں تھی۔ ایک عورت کی عمر لگ بھگ پچاس سال ہوگی ۔اس کی آواز کرخت دار تھی۔ اس کے بال سنہرے تھے۔ اس نے کپڑوں کے اوپر ایک ایپرن باندھا ہوا ۔ دوسری لڑکی نوجوان تھی۔ عمر کوئی بائیس سے پچیس سال ہوگی۔ اس کی آواز بہت پتلی تھی۔ وہ ہم سب کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں۔ میں قطار کے آخر میں کھڑا ہوکے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ کرکے لوگ اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا لے کے انہیں لمبے بینچوں پے جاکے بیٹھ گئے جہاں کچھ دیر پہلے انہیں میں سے کچھ لوگ لیٹے ہوئے تھے اور کچھ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں سب سے آخر میں کھڑا تھا۔ اس لیئے میری باری بھی آخر میں آئی۔ اس کرخت آواز والی عورت نے میری پلیٹ میں کوئی چیز ڈال دی۔ پھر تھوڑا سا آگے چلا۔ اس پتلی سی آواز والی لڑکی نے مجھے ایک سیب دیا ور وہی سوس روٹی دی جسے یہ بروڈ کہتے ہیں۔ ایک کونے میں ایک دبلا پتلا سا لڑکا کھڑا تھا۔ اس کے پاس بہت سارے جگ پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ان میں کیا ہے تو کہنے لگا ان میں سبز چائے ہے۔
میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی، اس کے ایک کونے میں سیب رکھا، بروڈ رکھی اور آکر انہیں لمبے لمبے بینچوں میں سے ایک پے بیٹھ گیا۔ کھانا جو میری پلیٹ میں تھا، میں نے اس کا معائنہ کیا۔ یہ بہت ساری چیزوں کا مرکب تھا۔ جب میں نے پہلا چمچ منہ میں ڈالا تو مجھے انڈے کا ذائقہ محسوس ہوا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ میں کیا کھا رہا ہوں نہ ہی میری پاس کوئی دوسرا راستہ تھا۔ فقیروں کے پا س دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ انہیں جو مل جائے کھانا پڑتا ہے۔ میں کھانے کے دوران دوسرے لوگوں کو بھی دیکھ رہا تھا۔ ایک لڑکی اپنی بچی کو کھانا کھلانے کی کوشش کررہی تھی۔ میرے خیال میں وہ کسی اسلامی ملک سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ زبردستی اپنے بچی کے منہ میں کھانا ٹھونس رہی تھی لیکن شاید اس چھوٹی سی بچی کو کھانے کا ذائقہ پسند نہیں آیا تھا اس لیئے وہ نہیں کھا رہی تھی۔ اچانک وہ کرخت آواز والی عورت نمودار ہوئی جو سب کو کھانا تقسیم کررہی تھی۔ اس نے گرجدار آواز میں کہا، ’’ہم سوئٹزر لینڈ میں یہ کھانا کھاتے ہیں ۔اور ہمارے ہاں پلیٹ میں کھانا چھوڑنے کا کوئی رواج نہیں ‘‘۔ اس لڑکی نے جواب دیا، ’’لیکن یہ بچی ہے اس کو نہیں پسند۔ یہ نہیں کھارہی‘‘۔
اس عورت نے کہا، ’’تو تم کھا لو۔ تم پلیٹ کو صاف کردو‘‘۔
اس لڑکی نے جواب دیا، ’’مجھے سمجھ نہیں آئی۔ یہ بچی ہے۔ چھوٹی ہے ،نہیں کھارہی‘‘
آخرکار اس بچی کی ماں کو کھانا پڑا جو پلیٹ میں بچا ہوا تھا۔
وہ عورت جو کھانا تقسیم کررہی تھی۔ اس عورت نے جرمن میں کچھ کہالیکن کسی کو سمجھ نہ آیا۔ ہم سب کو یہی لگا کہ وہ ہمارے بارے میں کچھ برا کہہ رہی ہے۔ ایسا عین ممکن ہے اس نے ایسا نہ کہا۔
میں کھانا نے کھایا یا یوں کہہ لیجئے کہ زہر امار کیا۔ پلیٹ کپڑے سے صاف کرکے ٹرالی میں رکھ دی جہاں دوسری پلیٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ گلاس دوسرے گلاسوں کے ساتھ رکھ دیا اور ٹرے بھی رکھ دی۔ میں نے میز پے پڑی ہوئی سبزچائے پانی کی طرح پی۔ اس میں میں نے کافی ساری چینی حل کی تھی تانکہ منہ کا ذائقہ ٹھیک ہوجائے۔ یہاں سے فارغ ہوا تو میں مشین کی طرح چلا گیا جہاں پیسے ڈالا کے کوفی یادوسری اس طرح کی چیزیں نکلتی تھیں۔ میں مشین کو ندیدو ں کی طرح دیکھنے لگا کیونکہ میری جیب میں ایک آنہ بھی نہیں تھا۔ اس اثناء کسی نے میری کندھے پے ہاتھ رکھا۔ میں ننے مڑکے دیکھا تو وہی انگولا والا لڑکا کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا ، ’’کوفی پیؤ گے‘‘۔ میں نے کہا، ’’میرے پاس پیسے نہیں ‘‘۔ تو کہنے لگا، ’’اس
کی فکر نہ کروں‘‘۔ اس نے اتنا کہااورمشین میں اسی سینٹم ڈالے۔ مشین پے کئی چیزوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اس نے کپوچینوں والے بٹن کو دبایا ۔ چشمِ زدن میں مشین سے ایک سیفد پلاسٹک کا گلاس گرا۔ اس میں اندر سے کوئی محلول گرا ۔اس کے بعد کوئی سفید چیز گری۔ تھوڑی دیر میں مشین کے اوپر لکھا ہوا آگیا کہ کپوچینوں تیار ہے۔ میں نے ہاتھ بڑھا کے کپوچینوں اٹھا لی۔ اس کپوچینوں کا رنگ بہت کالا تھا اور اس کے اندر پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی ڈنڈی تھی جو چینی کو ہلانے کے لیئے تھے۔ میں چینی ہلائی اور لگا کپوچینوں پینے۔ میں کپوچینوں پیتے ہوئے اس انگلولا کے لڑکے کا شکریہ ادا۔ تو وہ کہنے لگا کوئی بات نہیں۔ میں نے کپوچینوں اس لیئے پی تھی کیونکہ میرا دل چائے پینے کو چاہ رہا تھا۔ جب میں کپوچینوں پی چکا تو میں تازہ ہوا کے لیئے اس باغ نماں جگہ دوبارہ چلا گیا جو بالکل جیل کی طرح تھی۔ میں نے کسی سے کوئی بات نہ کی۔ سارے میرے طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک لڑکا جو ڈیل ڈول میں کافی بھاری بھرکم تھا اور قد بھی اونچا لمبا تھا۔ میرے خیال میں افریقہ کے کسی ملک تھا ۔شاید نائیجیرین تھا لیکن مجھے اس بات کا مکمل یقین نہیں تھا کہ وہ نائیجیرین ہے۔ وہ کسی عورت سے باتوں میں محو تھا۔ وہ عورت پچاس سال کی ہوگی یا شاید اس سے کم۔ میری خیال میں وہ عورت سری لنکا کی تھی یا انڈین تھی۔ یہ دونوں بائیبل کے پیدائش کے باب کے بارے میں بات چیت کررہے تھے۔ ایک کونے میں ایک موٹا سا آدمی اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کے کھڑا تھا۔ میرے خیال میں یہ دونوں مشرقی یورپیئن ملک کے تھے۔ ایک لڑکا اور لڑکی گھاس پے لیٹے ہوئے آپس میں باتیں کررہے تھے۔ بہت ساری زبانیں، بہت سارے رنگ۔
ان میں سے کچھ کو کچن میں کام کرنے کے لیئے بلا لیا گیا۔ کچھ کو ہال صاف کرنے کے لیئے کہا گیا، کچھ کو باتھ رومز صاف کرنے کے لیئے کہا گیا، کچھ کو جس جیل نماں باغ میں میں بیٹھا تھا صاف کرنے کے لیئے کہا گیا۔ جب ان تمام کاموں سے سارے فارغ ہوگئے تو اس عمارت کے باہر ایک نیلے رنگ کی وین آکے کھڑی ہوگئی۔ اس دوران سیکیورٹی گارڈ نے سب کے نام اونچی آواز میں بلانے شروع کردیئے۔ اس نیلے رنگ کی ٹوئیوٹا وین میں ایک وقت میں دس سے بارہ بندے بیٹھ سکتے تھے۔ ہماری تعداد تقریباً اسی ہوگی یا نوے۔ اس نے دس بندوں کے نام لیئے۔ وہ لوگ تیزی سے جاکر وین میں بیٹھ گئے۔ میرے اندازے کے مطابق اس وین والے کو دس یا شاید اس سے بھی زیادہ چکر روز لگانے پڑتے ہوں گے جب بھی ان لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہوگا۔ روز کئی لوگ آتے۔ دس سے پندرہ کے قریب۔ ان لوگوں میں تمام ملکوں کے لوگ ہوتے لیکن ان میں کبھی بھی کوئی بھی جاپانی، امریکی، آسٹریلین یا یورپیئن یونین کے کسی ملک کا کوئی بندہ بھی ہوتا۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا اور اس جیل نماں باغ میں چکر لگا رہا تھا۔ وقت گزارنے کا اس سے اچھا طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ نیلے رنگ کی ٹوئیوٹا وین کافی چکر لگا چکی تھی۔ ہال میں اور باغ چند لوگ رہ گئے تھے۔ اچانک ایک گونج دار آواز مجھے سوچوں کے سمندر سے باہر سے باہر لے آئی۔ کوئی اونچی آواز میں چلا رہا تھا ’’سب آجاؤ، وین انتظار کررہی ہے۔ یہ آخری چکر ہوگا‘‘۔ میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وین کی طرف گیا۔ جس جگہ وین کھڑی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں میں رات کو آیا تھا۔ یہ ایک تین یا چار منزلہ عمارت تھی۔ جو ابھی نامکمل تھی۔ اس کے کا ڈھانچہ تو کھڑا تھا لیکن اس پے پلستر ہونا باقی تھا۔ اس کے سامنے وہی لوہے کا گیٹ لگا ہوا تھا جس کے پاس میں رات کو آکے کھڑا ہواگیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سالوہے کا دروازہ تھا ۔ایک کونے میں چھوٹی سا بٹن لگا ہوا تھا۔ اس کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہوا تھا۔ شاید یہی کیمرہ تھا جس نے میری موجودگی کا اس سیکیورٹی گارڈ کو بتایا تھا۔ ۔ سیکیورٹی گارڈ نے سکوت توڑا اور کہا، کوم آلیس، کومن سی بتے ‘‘ )
Kome alles, kommen sie bitte) ۔ سیکیورٹی
گارڈ نے میرا نام پوچھا۔ میں نے اسے اپنا نام بتایا۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بھی اس لسٹ میں شامل ہے۔ پھر اس نے مجھے کہا کہ ایک منٹ رکو ۔ میں ابھی آتا ہوں۔ وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کہنے لگا۔ یہ تمہارا کاغذ ہے۔ اس پے تمہاری تاریخ پیدائش اور نام پتا لکھا ہے ۔جب تک تمہارے فنگر پرنٹ نہیں لیئے جاتے یہ تمہاری شناخت ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ مجھے اس بات کا تجسس تھا کہ یہ وین والا آدمی بندوں کو لے کر کہاں جاتا ہے۔ میرا یہی خیال تھا کہ میں وین میں سب سے آخر میں داخل ہوں گا۔ لوگ جلدی جلدی وین میں داخل ہوگئے۔ کوئی اگلی سیٹوں پے بیٹھ گیا کوئی پیچھے ۔ ساری وین بھر گئی ۔سارے لوگ وین میں اس طرح ٹھونس دیئے گئے جیسے دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ اب وین میں کوئی جگہ نہ بچی تھی۔ اگلی سیٹ پے جو بندے بیٹھے تھے ان کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ڈرائیور کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ وین کے ڈرائیور کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہوگی۔ وہ موٹا بھی تھا اور بھدا بھی۔ اس پے طرہ یہ کہ اس کا قد بھی چھوٹا تھا اس لیئے وہ مزید بھدا لگ رہا تھا۔ اس ڈرائیور کو سوس جرمن (جرمن زبان کئی قسم کی ہے۔ آسٹریاء کی جرمن مختلف ہے، سوس جرمن مختلف ہے اور مغربی و مشرقی جرمنی کی جرمن مختلف ہے) کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ یا شا ید وہ کرائس لنگن کی کوئی مقامی زبان بول رہا تھا۔ میں وین کے باہر کھڑا تھا اب میرے ساتھ کیا ہوگا۔ وہ موٹا اور چھوٹا ڈرائیور وین سے اترا اور اس نے وین کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے کہنے لگا، ’’بتے‘‘
Bitte ۔ میں اس کا بتے سننے کے بعد اس جگہ بیٹھ گیا جو اس نے چند لمحے پہلے کھولی تھی۔ در حقیقت یہ جگہ وین کی پچھلی طرف کتے کو بٹھانے کے لیئے بنی ہوئی تھی ۔ کیونکہ جیسے ہی میں یہاں بیٹھا یہاں سے کتے کے جسم کی بو آنے لگی۔ اس کے علاوہ جب یہ وین آئی تھی اس میں سے ایک کتا بھی نمودار ہوا تھا۔ ا س وقت کتا اگلی سیٹ پے بیٹھا ہوا تھا۔مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ وین والا ہمیں کہا لے کر جا ئے گا۔ ڈرائیور نے وین سٹارٹ کی ۔ ایک چھوٹا سا
چکر کھانے کے بعد وہ اسی گندے نالے کے پاس گزرا جس سے شدید بو آرہی تھی۔ ایک بات میں نے محسوس کی کہ اب بو کی شدت میں کمی واقع ہوگئی تھی یا شاید میں ایک رات میں اس بو کا عادی ہوگیا تھا۔ہماری وین اس بیرک نماں عمارت کے پاس سے گزری۔ ایک طرف تو وہ بدبودار نالا تھا دودسری طرف وہ عمارت تھی جہاں میں نے رات گزاری تھی۔ جو مجھے بالکل ریڈکراس کی عمارت کی طرح لگتی تھی۔ ڈرائیور تھوڑی دیر میں الٹے ہاتھ کی طرف مڑا اب ہم کوستانس سترازے پر تھے۔ چند لمحوں میں ہماری وین ایک رنگ روڈ سے گزر کے کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے پاس تھی۔ اس کے بعد ڈرائیور نے گاڑی سیدھے ہاتھ پے موڑ دی۔ اب ہم جس روڈ پے تھے میں اس کانام نہ پڑھ سکا۔ میں نے چند ایک خوبصورت عمارتیں دیکھیں۔ ان عمارتوں کی عمر بہت کم بھی ہوئی تو تین سو سال ہوگی۔ یعنی یہ تین سوسال پہلے بنائی گئی ہونگی۔ اس بات کا اندازہ مجھے ان کے طرزِ تعمیر سے ہوا تھا کیونکہ یہ اندازِ تعمیر گوتھک طرزِ تعمیر کہلاتا ہے۔ اس کے بعد ڈرائیور نے وین ایک ترچھی روڈ کی طرف موڑ دی جو اوپر کو جاتی تھی۔اس روڈ کا نام گران نیگے سترازے (
granegge strasse)تھا۔ اب تک میں اس بات سے ناواقف تھا کہ ہم لوگ کہاں تھے۔ ڈرائیور نے وین موڑی اور چند لمحوں میں ہماری وین ایک عمارت کے سامنے کھڑی تھی ۔ جیسے ہی وین رکی ڈرائیور نے جرمن زبان میں کہا، سب لوگ نیچے اتر جاؤ۔ سب نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ سارے لوگ اس تین منزلہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ سیکیورٹی گارڈ نے سب لوگوں کو گنا۔ اس کے حساب سے ایک بندہ کم تھا۔ اس نے جرمن زبان میں اونچی آواز میں کہا، ’’وو است فرشتہ‘‘ (wo ist farishta) ۔جب ڈرائیور نے سیکیورٹی گارڈ کو چلاتے ہوئے دیکھا تو اسے خیال آیا کہ ایک شخص پیچھے بھی ہے۔ اسے خیال ہی نہ آیا کہ اس نے ایک شخص کو اس نے اس جگہ بٹھایا تھا جہاں وہ اپنے کتے کو بٹھاتا ہے۔ وہ وین کے پچھلے طرف گیا اور اس نے وین پچھلا دروازہ اٹھایا اور کہا، ’’کومن زی بتے‘‘ kommen sie bitte ڈرائیور کے اس جملے میں بہت زیادہ طنز تھا۔ اب تک سارے لوگ اس عمارت کے اندر داخل ہوچکے تھے سوائے میرے۔ سیکیورٹی گارڈ نے مجھے دیکھتے ہی کہا، ’’کومن سی بتے‘‘۔ اب تک مجھے اس جملے کا مطلب پتا چل چکا تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ میں نے جیسے ہی قدم اندر رکھا۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے دروازہ بند کردیا۔ ایک چھوٹا سا کوریڈور تھا۔ سب سے پہلے سیکیورٹی گارڈ نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بورڈ دکھایا جس پر ہاوس یا گھر میں رہنے کے اصول لکھے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سمجھایا کہ اگر میں اس گھر کے اصولوں کی پابندی کی تو میں یہاں رہ سکتا ہوں دوسری صورت میں مجھے جیل بھیج دیا جائے گا۔ میں نے ہاوس کے قانون اور قاعدے پڑھے۔ اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ نے میرا کاغذ دیکھتے ہوئے، میرے ملک کا نام پڑھتے ہوئے مجھے ہاوس کے قاعدے اور قانون اردو زبان میں دیئے۔ میں انگریزی میں سارا کچھ پڑھ چکا تھا اب اردو میں بھی ان پے ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ نے سب کو باری باری بلانا شروع کیا۔ پھر اس نے مجھے میرے نام سے بلایا۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس نے مجھے دو بستر کی چادریں دیں، ایک کمبل، ایک تکیئے کا غلاف، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش، چھوٹی سی صابن کی ٹکیہ دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سب کو یہ بھی کہتا جاتا کہ جب تم اس ہاوس کو چھوڑو گے تو یہ ساری چیزیں جمع کرواکے جانا ہوگا۔ اس کے بعد اس نے کہا، میرا یہاں انتظار کرو۔ میں تھوڑی دیر میں تمہیں تمہارے کمرے دکھاؤں گا جہاں تم لوگوں نے سونا ہے۔ ہم سب کوریڈور میں اس کا انتظار کرنے لگے۔ میں کوریڈور میں لگے ہوئے نوٹس بورڈ کے لکھی چیزیں دیکھنے لگا۔ اس پے جرمن زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا جو میری سمجھ سے باہر تھی۔
وہ شخص جو ہمیں انتظار کرنے کا کہہ کر گیا تھا وہ آیا اور اشارے سے بتایا کہ ہم اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ مجھے اور دو اور لڑکوں کو وہ دوسری اور آخری منزل پے لے گیا۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا اور مجھے میرے بستر دکھاتے ہوئے کہنے لگا ، ’’یہ تمہارا بستر ہے۔ تم نے یہاں سونا ہے۔ یہ تمہاری شناخت کا کاغذ ہے اسے اپنے بستر کے ساتھ رکھنا۔ میں رات کو دس بجے دوبارہ آؤں گا ۔ یہ دیکھنے کہ یہ کاغذ تمہارے بستر کے ساتھ لٹکا ہوا ہے کہ نہیں‘‘۔
وہ مجھے جس کمرے میں چھوڑ کے گیا تھا ، یہ بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ ایک دیوار کے ساتھ چار بستر لگے ہوئے تھے۔ دوسری دیوار کے ساتھ بھی چار بستر لگے ہوئے تھے۔ اور کمرے کے درمیان میں آٹھ بستر لگے ہوئے تھے۔ یہ بستر دو منزلہ تھے۔ یعنی اس چھوٹے سے کمرے میں آٹھ بستر نیچے لگے ہوئے تھے اور آٹھ اوپر۔ اس کمرے میں ایک کھڑکی تھی۔ کھڑکی کے باہر چھوٹی سی راہداری بنی ہوئی تھی۔
میں جب سے آیا تھا اسی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھا جو میں اریزو سے پہن کر آیا تھا۔ میں ہفتے کی صبح کو چلا تھا اور آج اتوار تھا۔ ایسا لگتا تھا یہ گزرے ہوئے لمحات کئی مہینوں پر محیط ہوں۔ پچھلی رات جب میں کرائس لنگن ریلوے سٹیشن پے پہنچا تھا تو میں اس بات سے ناواقف تھا کہ مجھے اگلی رات کہاں گزارنی ہے اور اب میں اپنے بستر کے پاس کھڑا تھا۔ گوکہ کے کمرے میں بندوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن مجھے اس بات کی فکر نہیں تھی مجھے سونا کہاں ہوگا۔
میں نے سب سے پہلے اپنا وہ کاغذ اپنے بستر کے ساتھ لٹکا دیا جو کہ اب میری شناخت تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک افریقن لڑکے سے انگریزی میں پوچھا کہ مجھے اگر کپڑوں کی ضرورت ہو تو کیا کروں۔ تو اس نے جواب دیا جس کوریڈور سے تم داخل ہوئے ہو۔ وہاں ایک چھوٹا سا کیبن ہے۔ وہاں کوئی نا کوئی ہوگا۔ اس سے کہنا ، وہ تمہیں کپڑے دے دے گا۔ میں سیڑھیاں اتر کے نیچے گیا راستے میں کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ دنیا کے کئی ممالک کے لوگ تھے۔ میں جب کیبن کے پاس پہنچا تو وہ عورت جو اس جیل نماں باغ میں ایک افریقن لڑکے سے بائیبل کے حوالے سے بات کررہی تھی ۔اس نے مجھے بتایا کہ جہاں سے کپڑے ملتے ہیں وہ دفتر بند ہوگیا۔ میں اس کا جواب سن کر واپس آگیا۔ اب میں چاہتا تھا کہ میں نہا لوں کیونکہ میں روز نہانے کا عادی ہوں لیکن میں دو دن سے نہایا نہیں تھا۔ جون کے مہینے میں یورپیئن ملکوں میں بھی گرمی ہوتی ہے۔ یہاں کرائس لنگن میں کچھ زیادہ ہی گرمی تھی کیونکہ کرائس لنگن میں ایک بڑی جھیل ہے جس کی وجہ سے فضاء میں عجیب و غریب بخارات پیدا ہوتے۔ میں جب باتھ روم میں نہانے کے لیئے گیا تو اس کے باہر ایک لمبی قطار تھی۔ میں نے نہانے کا ارادہ ترک کیا اور آکے اس چھوٹی سی راہداری میں کھڑا ہوگیا جو ہماری کمرے کی کھڑکی کے سامنے بنی ہوئی تھی۔ میرے سامنے کھلا آسمان تھا۔ جون میں چونکہ سورج دیر سے غروب ہوتا ہے اس لیئے سب کچھ صاف دکھائی دے رہا
تھا۔ سامنے ایک ہی طرح کے تین چار گھر بنے ہوئے تھے ۔ان گھروں کے پچھلے طرف جو باغ تھے وہاں بچے کھیل رہے تھے۔ انہیں میں ایک بچی کھیل رہی تھی۔ جس کی عمر سولہ یا سترہ سال ہوگی۔ یا شاید وہ تھوڑی موٹی تھی اس لیئے اس کی عمر زیادہ لگ رہی تھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کی عمر اس سے بھی کم ہو۔ جس راہداری میں میں کھڑا تھا میں آس پاس دیکھا تو سارے لڑکے اس لڑکی کھیلتے ہوئے دیکھ رہے ۔ نیچے باغ میں ایک سیکیورٹی گارڈایک کتے کے ساتھ ہم لوگوں کی نگرانی کررہا تھا۔ اس کے پاس جرمن شیفرڈ تھا۔ جو ہمیں دور سے ہی دیکھ کر غرا رہا تھا جیسے وہ ہمارے ذہنیت کے بارے میں جانتا ہو۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے بھی ویسا ہی یونیفار م پہنا ہوا جیسا یونیفارم دوسروں نے پہنا ہوا تھا۔ اس سیکیورٹی گارڈ کا چہرہ بالکل گول مٹول تھا اور رنگ لال سرخ ، ایسا لگتا تھا جیسے اس کا منہ نہیں کوئی بڑا سا ٹماٹر ہو۔ اس پے اس نے منہ پے بڑی بڑی مونچھیں سجائی ہوئی تھیں۔
جب میں اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا میرے ذہن میں ایک لمحے کے لیئے انگریزی کی نظم ایکوؤنگ گرین گونجنے لگی۔ مجھ کالج کے وہ دن یاد آنے لگے جب میں پڑھتا تھا۔ پھر میں اس منظر سے اکتا ء گیا اور اس عمارت کا جائزہ لینے لگا جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت تھی۔ جس میں اس کا تہ خانہ بھی شامل تھا۔ اس بلڈنگ کا پرانا نام ’’گارنیگے ہوٹل اینڈ رریسٹورنٹ ‘‘ (
garnegge hotel and restaurant)تھا۔ اس کا پرانا سائن بورڈ ہٹا دیا گیا تھا اور اس پے رنگ کیا گیا تھا لیکن کافی عرصہ نیوؤن سائن بورڈ لگے رہنے کی وجہ سے اس سائن بورڈ کا عکس اس دیوار سے غائب نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی میں اس بات کو جان گیا کہ یہ عمارت پہلے ہوٹل تھی۔ اس عمارت کے دو پورشن تھے۔ دونوں طرف چار چار کمرے اور دو دو باتھ تھے۔ سب کمروں کے لیئے ایک مشترکہ کچن تھا لیکن اب یہ کچن
پتس روم یعنی صفائی کی چیزوں کا سامان رکھنے کا کمرہ بن گیا تھا۔ لیکن اس میں کھانا پکانے کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ ہر کمرے میں بندوں کی تقسیم اس کی لمبائی اور چوڑائی کے مطابق تھی۔ کسی کمرے میں سولھاں(
۱۶) اور کسی کمرے میں اٹھارہ بندے تھے۔ پہلے فلور پے اسی سے سو کے قریب بندے تھے
اور دوسرے فلور پے بھی اتنے ہی بندے تھے۔ پہلی منزل پے سنگل پیرنٹس (
single parents)اور فیملیز ٹھہری ہوئی تھیں اور دوسرا فلور سنگل یعنی چھڑے لوگوں کے لیئے تھا۔ گراؤنڈ فلور پے ایک طرف تو دفتر اور ابتدائی طبی امداد کے لیئے چھوٹا سا ہسپتال تھا اور دوسری طرف کچن، ٹی وی لاؤنج، ڈائیننگ ہال اور بہت بڑا ٹیرس تھا۔ اس عمارت کے تہہ خانے میں عورتوں کے لیئے ایک بہت بڑا باتھ روم تھا جس میں بچوں کی نیپی وغیرہ بدلنے کی سہولت موجود تھی اس کے علاوہ لانڈری روم بھی یہیں تھا۔ اس عمارت کا بجلی ،پانی اور گیس اور دیگر میکینیکل سسٹم کا کمرہ بھی یہیں تھا۔ میں نے اس عمارت کا بھرپور جائزہ لیا اور واپس اسی ٹیرس میں آگیا۔ وہ لڑکی اب بھی باغ میں کھیل رہی تھی۔ رات کے نو بجے ہوں گے لیکن اب بھی سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں جب اس منظر سے اکتا گیا تو دوبارہ باتھ روم کا رخ کیا۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو اندر کوئی نہیں تھا لیکن باتھ روم کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے یہاں سیلاب آیا ہو۔ باتھ کے اندر غدر مچا ہوا تھا۔ میں نے سب سے پہلے دانت صاف کیئے، پھر نہایا اور اسکے بعد جسم کو تولیئے کے ساتھ پونچ کے باہر آگیا۔ میں اپنے کمرے میں آیا اور اپنے بسترکے ایک کونے میں اپنا تولیہ لٹکا دیا۔ میرے نیچے ایک ٹرکش کا بستر تھا۔ یہ سارے بستر آرمی کے ہاسٹلز کی طرح دومنزلہ تھے۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں اس ہوٹل کے تہ خانے میں چلا گیا۔ ٹی وی لاونج میں جانے کے لیئے یہی ایک راستہ تھا کہ آپ کو تہ خانے میں آنا پڑتا تھا اور اس کے ساتھ ایک کوریڈور تھا اس سے گزر کے آپ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہاں پے زیادہ تر لوگ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ٹی وی لاونج سے گزر کے میں ٹیرس میں آگیا۔ یہاں پر بھی بیشمار لوگ بیٹھے تھے۔ عورتیں، بچے، مرد،گورے، کالے ۔ہر طرح کے لوگ تھے۔ ایک طرف نائیجیرین ، انگولین، اور سینیگالیزی بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک طرف عربی بولنے والے ملکوں کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن میں لبنان اور فلسطین کے لوگ تھے۔ ایک طرف ترکی اور ایران کے لوگ تھے۔ ایک گروپ الجیریہ ، مراکش اور تیونس کے لوگوں کا تھا۔ پاکستانی، انڈین جو کبھی بھی اکھٹے نہ ہوئے تھے یہاں پے اکھٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ آج میرا یہاں پہلا دن تھا میں یہاں کسی کو نہیں جانتا تھا اس لیئے میں ایک کونے میں جاکے اکیلا بیٹھ گیا۔ میں یہاں ٹیرس میں بیٹھا کرائس لنگن جھیل کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو بودن سے بھی کہتے ہیں ۔اٹالین اس کو لاگو دی کوستانساں بھی کہتے ہیں کیونکہ اٹالین زبان میں لاگو ،جھیل کوکہتے ہیں۔ اب تھوڑا تھوڑا اندھیرا ہورہا تھا لیکن جھیل میں کھڑی کئی کشتیوں کے رنگ برنگی بادبان نظر آرہے تھے۔ بظاہر تو میں کرائس لنگن جھیل کے ان رنگ برنگی بادبانوں کو دیکھ رہا تھا لیکن در حقیقت میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ مجھے سوچ کے اس سمندر سے پاس بیٹھے پاکستانیوں کی بات چیت باہر لے آئی۔ وہ میرے بارے میں بات کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کی بالکل پرواہ نہ تھی۔ میں سوچنے لگا۔ ابھی کل شام کو نو بجے میں زیورگ آنے والی ٹرین میں بیٹھا ہوا تھا اور میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میری رات کہاں گزرے گی۔ میں تو سوس یہی سوچ کرآیا تھا کہ سوزی سے ملوں گا۔ شاید وہ میرے لیئے کوئی بہتر انتظام کردے۔ ہم پاکستانی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ میں نے کافی عرصہ ٹورسٹ کمپنی میں کام کیا تھا۔ کئی طرح کے لوگوں سے ملا تھا۔ مختلف ملکوں کے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا۔ کسی حد تک ان کی عادات سے واقف بھی ہوگیا تھا لیکن نہ جانے کیوں میں اپنے اندر سے اپنے پاکستانی انداز کو کبھی ختم نہ کرسکا۔ اگر میں سوزی کی جگہ ہوتا ۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کے میرے پاس آتی اور اپنا دْکھڑا روتی تو میں ہر صورت میں اس کی مدد کرتا۔ میں تو ہزاروں میل کا راستہ طے کرکے اس کے پاس آیا تھا۔ اسے زیورگ پہنچنے سے پہلے فون بھی کیا تھا۔ اس نے آنے کابھی کہا تھا لیکن وہ نہ آئی ،حالانکہ یورپیئن لوگ تو وعدے کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ اگر اس نے نہ ملنا ہوتا تو فون پے ہی نہ کردیتی۔ اتنے کچھ ہونے کے باوجود مجھے رات کو سونے کی جگہ بھی مل گئی تھی اور آج میری سوس میں دوسری رات تھی۔
میری کان میں انگریزی میں کوئی جملہ سنائی دیا۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو ایک افریقن لڑکا کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے لائیٹر مانگا۔ میں نے کہا، میں سگرٹ نہیں پیتا۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہوں ۔ میں نے جواب دیا ،میں پاکستان کا رہنے والا ہو ں اور تم۔
تو اس نے جواب دیا، میں نائیجیریہ کا رہنے ولا ہوں۔ اس کے بعد اس نے تیزی میں دوسرا سوال کر ڈالا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں۔ میں نے جواب میں کہا، مجھے کیا پتا۔ ایسا عین ممکن ہے وہ اس وقت امریکہ میں ہو۔ اس نے کہا، یہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو۔
میں نے کہا، وہ پہلے بھی ان کے لیئے کام کرتا تھا ہوسکتا ہے اب بھی ان کے لیئے کام کررہا ہو۔
کسی نے پیچھے سے آواز دی ،مائیکل لائٹر لے کر آؤ ۔ اس نے مجھے کہا، میں چلتا ہوں ۔وہ مجھے بلا رہے رہے ہیں۔ میں دوبارہ اپنے خیالوں میں کھو گیا۔ میں اس شخص کے بارے میں سوچنے لگا جس کے پاس میں پچھلی رات کو اپنا موبائیل فون چھوڑ آیا تھا۔ موبائیل فون کی زیادہ مالیت تو نہیں تھی لیکن ویسے ہی میں سوچنے لگا اگر میرے پاس ہوتا تو کسی نا کسی مصیبت کا باعث بنتا۔ وہ نیٹ کیفے والا بھی کیا سوچتا ہوگا کہ کیوں چھوڑ گیا اپنا موبائیل فون۔ مجھے تھوڑی دیر کے لیئے نیائش کا خیال آیا لیکن یہاں سے فون کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ پھر ایک لمحے کے لیئے مغل صاحب کے بارے میں سوچنے لگا، جعفر کے بارے میں سوچنے لگا جن لوگوں نے مجھے بارڈر پار کروایا تھا۔ ٹرین میں دو تین چکر لگانے کے دو سو یورو لیئے تھے۔ یہاں میں ان کا کچھ بھی نہیں لگتا تھا۔ مجھے انہوں نے سونے کی جگہ دی تھی، کھانا دیا تھا اور نہ جانے کتنے دن ان کے پاس رکنا تھا۔
آہستہ آہستہ لوگوں نے ٹیرس سے اٹھ کے جانا شروع کردیا۔ کچھ لوگ تو نوٹس بورڈ پے لگی ہوئی لسٹیں دیکھ رہے تھے اور کچھ اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ اتنے میں ایک سیکیورٹی گارڈ آیا۔ اس کی عمر بیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ یہ نوجوان بہت خوبصورت تھا۔ اونچا لمبا قد، گورا چٹا رنگ، سبز آنکھیں۔ اس نے چند لوگوں کو کہا،کہ ٹی وی لاؤنج صاف کرو، کچھ کی ٹیرس صاف کرنے کو کہا، کچھ کو ڈائیننگ ہال صاف کرنے کو کہا۔باقیوں کو اس نے کہا اپنے اپنے کمرے میں چلے جاؤ۔ مجھ سے اس نے کوئی بات نہ کی۔ میں نے سوچا میں یہاں بیٹھ کر کیا کروں گا اس لیئے میں نے بھی اپنے کمرے کی راہ لی۔ میں دوبارہ اپنے کمرے کے سامنے والے کوریڈور میں جاکے کھڑا ہوگیا۔ جو سیکیورٹی گارڈ اپنے جرمن شیفرڈ کتے کے ساتھ باغ میں چوکیداری کا کام انجام دے رہا تھا۔ جب اس نے مجھے نیچے سے دیکھا تو کہنے لگا۔ جاکے سو جاؤ یا اپنے کمرے میں چلے جاؤ کیونکہ دس بجے کے بعد یہاں بیٹھنا منع ہے۔ میں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ اس کی بات مان لوں۔ میں اپنے کمرے میں آیا جہاں اوپر نیچے سولہ بستر لگے ہوئے تھے۔ میں بستر کے ساتھ لگی ہوئی چھوٹی سی سیڑھی سے اوپر چڑھا اور اور اپنے بستر پے جاکے لیٹ گیا۔ میں نے اب تک جتنی بھی زندگی گزاری تھی میں آج تک اتنی جلدی نہیں سویا تھا۔ جن دنوں میں سکول میں پڑھتا تھا اس کے بعد کالج جانا شروع کیا۔ اس کے بعد زبان سیکھنی شروع کی۔ آخر میں گائیڈ کی نوکری کی۔ وہاں ٹورسٹ کے لیئے صبح سویرے اٹھنا پڑتا تھا لیکن اس کام کے دوران بھی میں رات کو بارہ بجے سے پہلے کبھی نہ سویا تھا ۔پچھلی رات حالانکہ میں بہت تھکا ہوا تھا لیکن میں پچھلی رات بھی دیر سے سویا تھا۔ لیکن آج دس بجے بستر پے جانا مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے نظامِ زندگی میں ہلچل مچادی۔ میں نے لیٹتے ہی سوچنا شروع کردیا کہ یہ سوس انڈین فلموں سے کتنا مختلف ہے۔ انڈین فلم میں کاجل(انڈین اداکارہ) سخت سردی میں سوس کے کسی شہر میں لانگ بوٹ پہن کے شاہ رخ خان کے سامنے ڈانس کرتی ہے۔ اسے دو چھینکیں آتی ہیں اور وہ اسے ہوٹل کے کمرے میں لے آیا ہے۔ یہ ہوٹل کا کمرہ دنیا کی تمام آسائشوں سے مزین ہوتا ہے۔ ایک میں تھا سوس کے ایک ایسے کمرے میں تھا جہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں سولہ بستر لگے ہوئے تھے۔ پھر مجھے خیال آیا کس طرح سنی دیول سوس کی گلیوں بازاروں میں جوہی چاؤلہ کے ساتھ ڈانس کرتا ہے اور ڈر فلم کا ولن شاہ رخ خان بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ انڈیاء کی بے شمار فلمیں ہیں جو ساری کی ساری ہندوستان میں بنتی ہیں لیکن اچانک گانے کے وقت لڑکی کو نیند آجاتی ہے اور وہ خواب میں سارا گانا سوس میں فلما کے واپس آجاتی ہے۔ وہ سوس کہاں ہے۔ میں خواب تو نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ میں بذاتِ خود سوس میں موجود تھا۔ جس سوس میں میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران رہ رہا تھا یہ سوس کسی انڈین فلم میں مجھے کبھی نظر نہ آیا۔ انہی خیالوں میں میری آنکھ لگ گئی۔ نیند میں نے کسی کو اونچی آواز میں بولتے سنا۔ میں ہڑبڑا کے اٹھا ۔دو سیکیورٹی گارڈ زور زور سے چلا رہے تھے۔ رول کال ٹائم۔ انہوں نے ہم سب کے نام پکارے ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں دوسری جنگِ عظیم کا قیدی ہوں۔ اٹلی کے ایک اداکار اور فلم میکر نے اس موضوع پے طنز و مزاح سے بھرپور فلم بنائی تھی۔ جس کا اٹالین نام ’’لا ویتا اے بیلا ‘‘(
la vita e b232lla) تھا اور اس کو انگریزی میں دی لائف اس بیوٹی فل کے نام سے پیش کیا تھا ۔ اس کو کئی اکیڈمی ایوارڈ ملے۔ نہ صرف روبیرتو بینینی(roberto begnini) کو بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا تھا بلکہ اس فلم کو بھی بہتریں فلم کا ایوارڈ ملا تھا۔ اس کے کچھ سین بالکل اس کمرے جیسے تھے جہاں میں سو رہا تھا۔ یہ سیکیورٹی گارڈ سارے لوگوں کو دیکھ بھال کرنے کے بعد جانے لگے تو ایک نے کمرے کی واحد کھڑکی بھی بند کردی جہاں سے روشنی آرہی تھی۔
***















No comments:

Post a Comment