Sunday, May 26, 2013

اھمد مرجان، میرے افسنانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ



                                                                       احمد مرجان       



اس نے چند جملے انگریزی کے بولے اور گاہک کو چلتا کیا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ گاہک زیادہ انگریزی نہیں جانتا تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اگر جان لیتا یا جانتا ہوتاتو بنی بنائی بات بگڑ جاتی کیونکہ احمد مرجان اس سے زیادہ انگریزی جانتا ہی نہیں تھا۔ وہی رٹے رٹائے جملے جو اُس نے اِدھر اُدھر سے سن لیے تھے یا یوں کہنا چاہیے یاد کرلیے تھے۔ احمد مرجان کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن قسمت نے کچھ ایسا پلٹا کھایاکہ معیارِ زندگی اوپر جانے کے بجائے نیچے ہی آتا گیا۔ جب حالات اچھے تھے اور اس کے والد صاحب زندہ تھے (جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹرتھے) یہ سب مرجان کے دادا کی ورثے میں چھوڑی ہوئی کوٹھی میں رہتے تھے۔ مرجان ایک شاندار زندگی بسر کررہا تھا۔ رنگ رنگ کی گاڑیا ں، نت نئے انداز کے کپڑے، مرجان کے دماغ کے نہاں خانوں میں بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ یہ دن دیکھے گا۔ بڑے بہن بھائی تو والد صاحب کے اچھے دنوں میں پڑھ لکھ کر کامیاب ہوچکے تھے لیکن مرجان ایف ایس سی میں کئی بار فیل ہونے کے بعد آخرکار تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوگیا۔ خاندانی اثرو رسوخ کی وجہ سے بی ایس سی میں داخلہ بھی مل گیالیکن مرجان زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ پھر اس نے بی اے کرنے کا سوچا۔ ابھی وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ والد صاحب اس دنیا سے اگلے جہان سدھار گئے۔ والد صاحب نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں، بڑے بھائیوں نے منہ پھیر لیا۔ اب بہنیں تھیں لیکن مرجان کیغیرت گوارہ نہ کرتی کہ ان کی مدد لے۔ اس طرح مرجان بی اے نہ کرسکا اور اس پر ایف ایس سی تھرڈڈویژن پاس کا لیبل لگ گیا۔ پرانے تعلقات اور خاندانی ساکھ کی وجہ سے مرجان کی شادی بھی کردی گئی لیکن مرجان کے لیے شادی کوئی خوش بختی نہ لائی۔ امارت کے دنوں کی جو عادات پڑچکی تھیں وہ کیسے جاتیں۔ گولڈ لیف پینا، ہمیشہ اچھی گاڑی رکھنا، اچھے کپڑے پہننا اور مہنگے درزی سے سوٹ سلوانا۔ اس وقت راولپنڈی شہر کا جانا مانا ٹیلر چراغ دین تھا۔ احمد مرجان، جینز ہمیشہ انگلینڈ سے منگوایا کرتا تھا۔ اب حالات بدل چکے تھے۔ شادی کے بعد اِدھر اُدھر سے اپنے اور بیوی کے اخراجات اٹھانا مرجان کو پسند نہ تھا۔ اس نے کام ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے لیکن ایف ایس سی تھرڈ ڈویژن پاس کو کون نوکری دیتا۔ ابھی وہ کام ڈھونڈنے کی کوششوں میں تھا کہ ایک اور حادثہ پیش آگیا جس میں اس کی ایک آنکھ جاتی رہی۔ سب بہن بھائیوں نے مل کر ہسپتال کا بِل چکایا اور مرجان ایک آنکھ کے ساتھ ہسپتال سے گھر آگیا کیونکہ دوسری آنکھ انہوں نے پتھر کی لگادی تھی۔ اب وہ ساری دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھتا تھا لیکن آنکھوں پر ہر وقت ایسا چشمہ لگائے رکھتا جس سے یہ پتا چلے کہ وہ دھوپ کا چشمہ لگائے ہوئے ہے۔ یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ مرجان کی ایک آنکھ پتھر کی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے قریبی رشتہ دار تھے۔ قدرت کبھی کبھی انسان کا بڑا سخت امتحان لیتی ہے۔ احمد کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس حادثے کے بعد خدا نے اسے ایک عدد بیٹے سے نوازا اور دوسری طرف اس کی آخری خیرخواہ، اس کی والدہ کو چھین لیا، جن کی وجہ اس کا گھر آباد تھا اور اس کے گھر کی دال روٹی چل رہی تھی۔ جیسے ہی والدہ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی، جس مکان میں رہتا تھا اس کو بیچنا پڑ گیاکیونکہ سب بہن بھائیوں کو ان کا حصہ چاہیے تھا۔ احمد کے حصے میں اتنی رقم آئی کہ اس نے چھوٹا سا مکان خرید لیا اور کچھ رقم بچی، اس سے اس نے چھوٹی سے دوکان کھول لی۔ اس کا معیارِ زندگی تو والد صاحب کی فوتگی کے بعد، پہلے ہی گر چکا تھا، اب مزید گر گیا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ احمد مرجان کے بڑے بھائی، جن میں ایک تو بریگیڈیئر تھے، دوسرے ڈپٹی کمشنر تھے اور دو بہنیں ڈاکٹر تھیں، اب اس کے اور ان کے سٹیٹس میں اتنا بڑا خلاء پیدا ہوچکا تھاکہ وہاس سے ملنے سے بھی اجتناب فرماتے تھے اور یہ اُن سے۔ اس طرح زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ احمد مرجان کے اب ٹھاٹھ کچھ اس طرح تھے کہ وہ لنڈے سے چھانٹ چھانٹ کے اچھی اچھی قمیصیں اور جینزلاتا۔ اس طرح وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتا۔ سگرٹ اب بھی گولڈ لیف کے پیتا لیکن روزانہ دو سگرٹ خرید کے گولڈ لیف کی ڈبیاء میں رکھ لیتا۔ جب ڈبیا تھوڑی میلی ہوجاتی یا پرانی ہوجاتی تو بدل لیا کرتا۔ اس نے کباڑی سے ایک پرانی سی گاڑی بھی خرید رکھی تھی جو بڑی مشکل سے اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ صبح سویرے اس کی بیوی ناشتہ تیار کرتی۔ وہ اچھے دنوں کے سے انداز میں غسل خانے میں بالٹی رکھ کر نہاتا۔ اس نے سلور کا ایک کٹورارکھا ہوا تھا جس سے وہ سر پر پانی بہاتااور شاور کے مزے لیتا۔ غسل خانے سے نکل کر وہ کپڑے بدلتا۔ پھر ناشتہ کرتا۔ کبھی کبھی وہ مکھن اور جیم بھی لاتا۔ کبھی کبھی انڈا بھی کھا لیا کرتا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ جوتے پہنتا جو کئی دفعہ پالش کرنے سے اب بہت خراب ہوچکے تھے۔ وہ بریف کیس میں گولڈ لیف کی ڈبیاء رکھتا، اس کے علاوہ اس بریف کیس میں کچھ نہ ہوتا۔ جب کبھی گاڑی خراب ہوجاتی وہ مستری کے پاس جاتا، بڑے ٹھاٹھ سے ایک پاؤں سٹول پر رکھتا، پھر اپنے تھائی پر بریف کیس رکھتا اور ٹھک سے اسے کھولتا۔ اس انداز سے کہ اسے کوئی دوسرا نہ دیکھ لے۔ اس میں سے گولڈ لیف کی ڈبیاء نکالتا، اس سے سگرٹ نکالتا اور بڑے ترنگ سے ڈبیاء ایک کونے میں پھینک دیا کرتا۔ اس بات کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ آخری سگرٹ تھا، حالانکہ وہ صبح دو سگرٹ خریدتا تھا۔ ایک وہ نکال کے پی لیتا اور دوسرا اس میں رہ جاتا جو ڈبیاء وہ مستری کو دکھانے کے لیے پھینکا کرتا۔ وہ مستری سے نظر بچا کے ڈبیاء دوبارہ بریف کیس میں رکھ لیا کرتا۔ مستری کو اس کی اس چالاکی کا کبھی پتا نہ چلا۔ جس محلے میں اس نے گھر خریدا ہوا تھا، سب لوگ اسے بڑی توپ چیز سمجھتے تھے۔ اور جہاں اس کی دوکان تھی آس پاس کے دوکاندار اسے اپنا سب کچھ ہی سمجھتے تھے۔ احمد اپنے تئیں اپنی ایک علیحدہ دنیا بسا چکا تھا۔ لیکن تنہائی میں اُسے اس بات کا احساس بڑی شدت سے ہوتا کہ اگر وہ والد صاحب کی زندگی میں تعلیم کی طرف توجہ دیتا تو وہ اس طرح سب سے کٹ کر نہ رہ جاتا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔
ژ
زندگی بڑی آہستگی سے گزر رہی تھی۔ احمد مرجان جیسا بھی تھا دل کا بڑا صاف تھا۔ چھوٹے چھوٹے جھوٹ اور کچھ منافقت اس میں تھی۔ لیکن اس سے کسی کی ذات کو نقصان نہ پہنچتا۔ وہ روز صبح آٹھ بجے دوکان پر جاتا اور شام کو گھر واپس آجاتا۔ اس کی بیوی اس سے زیادہ خوش نہیں تھی لیکن اس نے اپنے خاوند کی خودداری کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دی۔ اس دوران ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کا نام انہوں نے مریم رکھا۔ ان کے اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔ مکان اپنا تھا اس لیے بمشکل گزارا ہوجاتا تھا لیکن مرجان کی بیوی جب بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی تو اس کی روح کانپ جاتی۔ کبھی کبھی وہ مرجان سے شکایت بھی کرتی لیکن وہ کیا کرتا، لگی بندھی کمائی تھی۔ وہ اسے یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ ہمارے آس پاس جو لوگ رہتے ہیں وہ ہم سے بھی زیادہ غریب ہیں۔ وہ یہ جواب سن کر چپ کرجاتی۔
ژ
روز کی طرح آج بھی مرجان کام کے لیے گھر سے نکلالیکن راستے میں گاڑی خراب ہوگئی۔ اس کے موٹر میکینک کا گیراج پاس ہی تھا۔ وہ وہاں پہنچا۔ وہ کسی کی گاڑی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا۔ گاڑی بہت قیمتی تھی۔ میکینک کو زیادہ پیسے ملنے کی امید تھی اس لیے اس نے مرجان کی آمد کا اتنا خیال نہ کیا۔ مرجان کو بہت غصہ آیا لیکن کیا کرتا، انتظار کرنے لگا۔ اس نے سگرٹ سلگانا چاہا لیکن لائٹر کی گیس ختم ہوچکی تھی۔ وہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے پاس گیا جو سوٹ بوٹ میں ملبوس تھا۔ جیسے ہی پاس پہنچا تو حیران رہ گیا۔ وہ اس کے ابو کے بہترین دوست مرزا صاحب تھے۔ انہوں نے فوراً پہچان لیا۔ انہوں نے لائٹر پیش کیا تو مرجان نے احتراماًسگرٹ ڈبیاء میں واپس رکھ لیا۔
انھوں نے پوچھا، ’’ کیسے آنا ہوا‘‘؟
تو اس نے بتایا کہ،
’’گاڑی خراب ہوگئی ہے کام پر جارہا تھالیکن لگتا ہے آج دیر ہوجائے گی‘‘۔
انہوں نے کہا،
’’تم فکر نہ کرو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ یہ بتاؤ کرتے کیا ہو‘‘۔
’’انکل چھوٹی سی دوکان ہے‘‘۔ انہوں نے مرجان کی گاڑی دیکھی اور چھوٹی سی دوکان کا سنا۔ بڑے حیران ہوئے کیونکہ مرجان بڑے لاڈ و پیار میں پلا بڑھا تھا۔
انہوں نے کہا،
’’مرجان بیٹا سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے‘‘۔
مرجان نے کہا،
’’انکل کوئی بات نہیں۔ اپنا گھر ہے، کاروبار ہے، گاڑی ہے۔ سب کچھ ہے۔ دوبچے ہیں،سلیقہ شعار بیوی ہے‘‘۔
’’لیکن بیٹا! تمہارے بڑے بھائی تو بڑے ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ تمہارے بڑے بھائی جان کا نام تو جنرل بننے کے لیے پیش کیا گیا ہے‘‘۔
’’جی میں جانتا ہوں، میں نے اخبار میں پڑھا تھا‘‘۔
’’مرجان مجھے سچ بتاؤ، اتنا بڑا تضاد کیسے‘‘۔ مرجان نے تھوڑا تھوڑا انہیں بتایا لیکن ایسے کہ کسی کی عزت پر آنچ نہ آئے۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں، انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا،
’’بیٹا تمہارا پاسپورٹ بنا ہوا ہے‘‘۔
مرجان نے کہا،
’’جی ہاں‘‘۔
’’اور تمہارے بیوی بچوں کا‘‘۔
’’جی ان کا نہیں بنا ہوا‘‘۔
ابھی وہ باتوں میں مصروف تھے کہ میکینک نے آواز دی، جناب آپ کی گاڑی ٹھیک ہوگئی ہے۔ مرزا صاحب نے اس کو پیسے ادا کئے اور مرجان کو کہا،
’’چلو میں تمہیں تمہاری دوکان تک چھوڑ دوں‘‘۔ میکینک بڑا حیران ہوا۔
اس نے بلند آواز میں پوچھا،
’’مرجان صاحب آپ کی گاڑی‘‘۔
اس نے جواب دیا،
’’ٹھیک کردو، شام کو لے جاؤں گا‘‘۔
ژ
مرزا صاحب اور مرجان کی گاڑی میں تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اُسے مشورہ دیاکہ انگلینڈ کا ویزہ اپلائی کرے کیونکہ ان کا جاننے والا ایمبیسی میں کام کرتا ہے۔ احمد مرجان نے اپنے سُسر سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، کوشش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن میرا مشورہ ہے نہ دوکان بیچ کر جاؤ نہ ہی مکان اور ویزہ اپلائی کردو۔ مرزا صاحب نے فون کردیا تھااس لیے بنا کسی رکاوٹ کے ان کا ویزہ لگ گیا۔
مرجان مکان اور دوکان کی چابیاں اپنے سُسر کے حوالے کرکے انگلینڈ چلا گیا۔ وہاں وہ اپنے کالج کے دنوں کے ایک دوست کے ہاں ٹھہرا۔ اس کے کہنے پر سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے دی۔ برطانوی سرکار نے اسے گھر دیا۔ علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کیں۔ ہر ہفتے سوشل سیکیورٹی ملتی۔ بچے سکول جانے لگے۔ چھ ماہ کے عرصے میں مرجان اور اس کی بیوی، راحت ،کے چہروں پر نکھار آگیا۔ بچے بھی زیادہ گورے چٹے لگنے لگے۔ اس کی بیوی کو ٹیچر کی نوکری مل گئی اور مرجان نے ڈرائیونگ لائسنس پاس کرکے ٹیکسی چلانی شروع کردی۔ ان کے حالات بہت اچھے ہوگئے۔ مرجان نے بچت بھی شروع کردی۔
ژ
آج چھ سال ہوچلے تھے۔ مرجان کو ہوم آفس والوں کا خط آیا کہ تمہاری درخواست برائے سیاسی پناہ منظورکرلی گئی ہے۔ مرجان بڑا حیران تھاکہ یہ کیسے ہوگیا۔ حالانکہ ننانوے فیصد درخواستیں مسترد کردی جاتی ہیں۔ اب وہ سوائے پاکستا ن کے پوری دنیا گھوم سکتاتھا۔ مرجان کو تو پاکستان جانے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن اس کی بیوی اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے ملنے کو بہت تڑپا کرتی، لیکن جب وہ بچوں کی بہتر تعلیم کی طرف دیکھتی تو دل کو ڈھارس بندھ جاتی۔ انہوں نے ایک گھر اپنے رہنے کے لیے خرید لیا اور دوسرا انہوں نیکرائے پر اٹھا دیا۔ دو گاڑیاں تھیں، ایک راحت کے پاس اور ایک مرجان کے پاس۔ دنیا کی تمام
ژ
مرجان کا اپنا منی کیب آفس تھا۔ وہاں کئی لوگ کام کرتے تھے۔ اس نے اپنے بڑے بھائی کو یعنی بریگیڈیئر صاحب کو بھی کام پر لگا دیا۔ انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ کچھ عرصہ پاکستانی لائسنس کے ساتھ اور بعد میں برٹش لائسنس کے ساتھ کام کرتے رہے جو کہ انہوں نے جلد ہی پاس
کرلیا۔ پاکستانی بریگیڈیئر، انگلستان میں ٹیکسی چلانے لگا۔ وہ حقیقت پسند انسان تھے۔ آہستہ آہستہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔ اب مرجان، جو کہ ایف ایس سی تھرڈ ڈویژن پاس تھا اور اس کے بڑے بھائی جوکہ بریگیڈیئر تھے، دونوں کے سٹیٹس میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں ٹیکسی چلاتے تھے اور اچھے پیسے کماتیتھے۔ کچھ عرصے بعد بریگیڈیئر صاحب نے اپنے بچوں کو بھی بلا لیا۔ ان میں اِن کے دونوں آوارہ لڑکے بھی شامل تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہنے لگے۔ ان کے بیٹے مزید بگڑ گئے جبکہ دانیال اور مریم آکسفورڈ یونیورسٹی کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے۔ مرجان کو اس بات کا احساس تھا کہ تعلیم کتنی ضروری چیز ہے جبکہ بریگیڈیئر صاحب نے اپنے بچوں کی نہ تو تعلیم اور نہ ہی تربیت پر توجہ دی۔ یہ دونوں میاں بیوی تو راہِ راست پر آچکے تھے لیکن ان کے بیٹے مزید بگڑتے جارہے تھے۔ وہ یہی سوچتے تھے کہ شاید انہیں مرجان کی بددعا لگی ہے۔ حالانکہ مرجان تو خود ہی ان کے راستے سے ہٹ گیا تھا۔ علیحدہ رہنے لگا تھا۔ ان سے کسی چیز کا تقاضہ بھی نہ کیا، نہ ہی انہوں نے کبھی اس سے پوچھا کہ تم کس حال میں ہو۔
اب تو مرجان کے دوبھانجے بھی آچکے تھے۔ پاکستان سے جو بھی آتااس کے پاس مرجان کا فون نمبر اور ایڈریس ضرور ہوتا۔ وہ بڑا حیران ہوتاکہ جب ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو سب غائب ہوگئے۔ اب برٹش سرکار کا سایہ سر پر آیا ہے تو سب کو مرجان کی یاد آگئی ہے۔ لیکن مرجان صرف نام کا ہی مرجان نہیں تھا، بلکہ وہ تھا بھی یاقوت اور مرجان کی طرح۔

No comments:

Post a Comment