اب کے
اب کے دروازے پے دستک ہو
دروازہ جوکھولوں تو سامنے تم ہو
اب کے برس پردیس جو جاؤں
آخری جو ہاتھ ہلے وہ تم ہو
اب کے میں جتنی غزلیں لکھوں
ان کی تشبیہات میں تم ہوں
اب کے میرا تیشہ سنگ مرمر پے چلے
اس کے ہر خدو خال میں تم ہو
اب کے میں تصویر بناؤں جب رنگوں سے
اس کے ہر اک رنگ میں تم ہو
اب کے نیا افسانہ جو لکھوں
اس کا مرکزی خیال تم ہو
اب کے میں جو تاج محل بناؤں
اس کے نقش و نگار میں تم ہو
اب کے میری آنکھ جو نم ہو
میری چشمِ نم ناک میں تم ہو
سرفراز بیگ۔۔۱۹۹۹۔۱۰۔۲۵ راولپنڈی
No comments:
Post a Comment