اندازے
ہم جسے وفا کی دیوی سمجھتے رہے
وہ پتھر کی مورت نکلی
ہم جسے زندگی کی امید سمجھتے رہے
وہ امید مایوس کن نکلی
ہم جسے اپنی شاعری سمجھتے رہے
وہ کسی اور کی غزل نکلی
ہم اس کے خطوں کو سچ سمجھتے رہے
وہ تحریروں سے مختلف نکلی
سرفراز بیگ ۔۱۹۹۹۔۱۲۔۱۳ راولپنڈی
No comments:
Post a Comment