پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ
کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آپ بھی تو کہتے ہیں کہ آپ کو پہلے
بھی کہیں دیکھا ہے
یہ ناز ،یہ انداز، یہ جادو ،یہ
ادائیں، یہ چاند سا چہرہ
اتنے عناصر کو اکھٹا، پہلے بھی
کہیں دیکھا ہے
بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی اور
جوانی پے شباب
عشق کے آتش کو یوں بڑھتے ، پہلے
بھی کہیں دیکھا ہے
کھلتی ہوئی رنگت، آنکھوں میں
شرارت، گالوں پے لالی
ایسا معصوم سا چہرہ پہلے بھی کہیں
دیکھا ہے
زلفیں ہیں کہ ایسے، پھیلائے تو
گھٹا، لہرائے تو ناگن
گھٹاؤں میں چھپا چاند پہلے بھی
کہیں دیکھا ہے
آنکھیں ہیں کہ جیسے،مہہ کے پیالے،
چھلکے کہ ابھی چھلکے
دل کہتا ہے، ان مدبھری آنکھوں کو
پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
ہم ہیں کہ مرے جاتے ہیں اور ان کو
تو پرواہ بھی نہیں
ایسا خود غرض صنم پہلے بھی کہیں
دیکھا ہے
قوموں میں، فرقوں میں، رنگوں
میں،مذاھب میں بٹے لوگ
انسانیت کا اتنا بگڑا ہوا چہرہ
پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
میرے دل سے جو آہ نکلی تو عالمِ
افلاک سے ٹکرائی
درد کے نالے کو یوں اٹھتے ہوئے
پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
سرفراز بیگ ۲۰۰۳؍۰۲؍۰۳ اریزو ، اٹلی
No comments:
Post a Comment