لکڑی کو دیمک
جس طرح لکڑی کو دیمک اور غیبت نیکیوں
کو
اسی طرح کھائے جارہی ہے مجھے میری
تنہائی اور تیرا غم
گیلی لکڑی کی طرح دن رات سلگتا
رہتا ہوں
اور اسی طرح سلگتے ہی میرا نکل
جائے گا دم
اپنی صبحیں، شامیں اور کچھ راتیں
جو تیرے نام کردی تھیں
اب ان کو یاد کروں تو آنکھیں ہوجاتی
ہیں نم
اب تک جتنی عمر بتائی اس کا میں نے
حساب کیا
گناہوں کا پلڑا بھاری ہے، نیکیاں ہیں
اس میں کم
اپنی چھوٹی عزت کی خاطر اوروں کو نیچا
دکھلاتے ہیں
چپ ان کی بتلاتی ہے، ان کو نظروں میں
گر جاتے ہیں ہم
مال و متاع کے لالچ میں ساری عمر
گنواں ڈالی
یادِ الہی ،یاد آئی، جب ہاتھ میں
آئی لاٹھی، اور کمر میں آیا خم
تیرے یاد بھلانے کو میں نے مہہ کا
سہارا لیا
ساقی شاید بھول گیا، مہہ کے بدلے
لایا جامِ جم
سرفراز بیگ ۲۰۰۲۔۰۵۔۲۴ اریزو اٹلی
No comments:
Post a Comment