گفت و شنید
رات تصویر سے تمہاری
گفت و شنید ہوتی رہی
شکوے بھی کیئے، گلے بھی کیئے
گفت و شنید ہوتی رہی
تمہاری مجبوریاں سنتا رہا
گفت و شنید ہوتی رہی
تم قیدِ تنہائی میں ہو
گفت و شنید ہوتی رہی
تم اک با حیاء لڑکی ہو
گفت و شنید ہوتی رہی
ہماری آشنائی پاک ہے
گفت و شنید ہوتی رہی
ایک بھول کی اتنی بڑی سزا
گفت و شنید ہوتی رہی
وقت کا سمندر ہے کاٹنا
گفت و شنید ہوتی رہی
رات تصویر سے تمہاری
گفت و شنید ہوتی رہی
پیار اعتماد کا نام ہے
گفت و شنید ہوتی رہی
تمہاری سیرت و صورت اچھی ہے
گفت و شنید ہوتی رہی
موت ہی جدا کرے تو کرے
گفت و شنید ہوتی رہی
تمہاری آنکھیں نم تھیں
گفت و شنید ہوتی رہی
میرا وعدہ ہے میں آؤں گا
گفت و شنید ہوتی رہی
سرفراز بیگ ، ۱۹۹۸۔۰۴۔۲۵ لنڈن
No comments:
Post a Comment