غزل
غزل لکھنی ہے تو عشق کرنا ہوگا
آگ کے دریا سے گزرنا ہوگا
عاشق و معشوق کی ضرورت نہیں
سب کچھ تصور کرنا ہوگا
آسماں کے تارے لا نہیں سکتے
سب تشبیہہ و استعارہ کرنا ہوگا
ابتداء و انتہا سب خیال ہے
اور لفظوں سے گزارا کرنا ہوگا
اک جامہ بن جائے گا غزل کا
پھر لفظوں سے کنارا کرنا ہوگا
سرفراز بیگ ۱۹۹۷۔۰۸۔۲۹ لنڈن
No comments:
Post a Comment