میں اور تم
کس سے کہوں کہ کیا ہے، کیا ہوں
یہ زندگی کا راز کیا، کیا ہوں
تم آسائشوں کے آستاں میں
میں اک پر فریب، پر خطر کیا ہوں
تم سو گئے تم کھو گئے،سپنوں میں
جاگتے میں سو گیا، سوتے میں کیا
ہوں
تم زرق برق لباس میں ملبوس
میں چیتھڑوں میں رْل گیا ، کیاہوں
دل نرم و نازک کی دھڑکنیں
غم کا کرب کہوں ، دکھ کہوں ،کیاہوں
تم خواہشوں میں پل رہے، جی رہے
میں خواہشوں میں کھو گیا ، کیا ہوں
تم وطن کی دھوپ میں چھاؤں میں
میں دیار غیر میں، بہار میں کیا
ہوں
تم خوش بھی، شاد بھی، آزاد بھی
میں خوش اور غمزدہ کہ کیا ہوں
تم مجھے بھلا بھی دو، مٹا بھی دو
میں کیسے بھول جاؤں، کہ کیا ہوں
سرفراز بیگ، ۱۹۹۶۔۱۰۔۱۷ لنڈن
No comments:
Post a Comment