غزل
زرق برق لباسوں میں عیب چھپائے پھرتے ہیں
چھوٹے موٹے لوگوں سے دامن کو بچائے پھرتے ہیں
گلیوں میں بازاروں میں، باغوں میں دالانوں میں
کتنے عاشق کتنے شاعر غم کو سجائے پھرتے ہیں
غربت اوڑھ کے سوجاتے ہیں راہوں میں مزدور
ایسے میں سرمایہ دار ناز اٹھوائے پھرتے ہیں
پیسے اور بے ایمانی سے بن جاتے ہیں ایم این اے
اپنے وطن کی عورت کو ننگا نچوائے پھرتے ہیں
لے کر اسلام کا نام کریں حکومت لوگوں پر
فرقوں اور قوموں میں لوگوں کو بٹوائے پھرتے ہیں
No comments:
Post a Comment