اس کا کیا حال ہے
صبح جب سورج کی پہلی کرن
کھڑی سے داخل ہوئی
کہنے لگی،’’اس کا کیا حال ہے‘‘
صبح جب میں نے آئینہ دیکھا
میری جھلک دیکھتے ہی
کہنے لگا، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘
صبح گھر سے نکلتے ہوئے
در و بام چونکے، حیران ہوئے
کہنے لگے، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘
صبح جب سج بن کے خود کو دیکھنے لگا
میرا دل مجھ پہ حیران ہوا
کہنے لگا، ’’اس کا کیاحال ہے‘‘
اک مترنم غزل سنتے ہی
دل کے تار بج اٹھے اور
کہنے لگے، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘
چمن سے گزرتے ہوئے سارے گل بوٹے
میری سج دھج دیکھ کے چونکے
کہنے لگے، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘
میں نے اپنے کانوں سے
پرندوں کو سرگوشیاں کرتے سنا
کہنے لگے ’’اس کا کیا حال ہے‘‘
ا کے درد کو، کرب کو
کسک کو،جدائی کو،نم آنکھوں میں
دیکھا
کہنے لگیں، ’’اس کا کیا حال ہے‘‘
سرفراز بیگ ۱۹۹۸۔۰۳۔۲۸ لنڈن
No comments:
Post a Comment