غزل
حسرتیں لے کے چلے جائیں گے
ہر جگہ اندھیرے ہی پائیں گے
کیسے گزریں گے شب و روز جانم
کیا تھا وعدہ سپنے میں آئیں گے
اس راہ سے گزرتے ہیں روز
کبھی تو ادھر سے گزر کے جائیں گے
کھایا ہے رحم ہم پر طیور نے
آپ کی ہنسی چرا کے لائیں گے
ہر کھٹکے پے مڑ کے دیکھتے تھے ہم
کہنا بادِ صبا اب نہ دھوکا کھائیں گے
سرفراز بیگ ۱۹۹۲۔۰۵۔۰۲ راولپنڈی
No comments:
Post a Comment