غزل
زلفِ برہم رْخِ زیبا کو چومتی ہے
سہل و ممتنع تھی کتابِ چہرہ
اِک عجب رنگ و نور تھا چتون میں
بندہ چنگ و رباب سے تھا بے بہرہ
کیسے برجستہ و فلبدیہ کہہ دیا تھا
ناچیز انگار کے ہاتھوں ناچار ٹھہرا
سرفراز بیگ ۱۹۹۳۔۰۳۔۱۱ راولپنڈی
اک شعر
قبروں کی کرو پوجا،شرک کرو دن رات
توحید ہے کیا چیز ،اس کی نہ کرو تم بات
۱۹۹۳۔۰۳۔۱۱ راولپنڈی سرفراز بیگ
No comments:
Post a Comment