Sunday, June 16, 2013

اریزو، سائیں انٹرنیٹ، ناول، سرفراز بیگ، AREZZO






اریزو

آدم آج تک اسلم گجر کی ہر بات اس لیئے سنتا رہا کیونکہ وہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ شخص دل کا اچھا ہے اور یورپ میں وہ پہلاشخص تھا جس نے ان کی مدد کی تھی۔ لیکن اس دن کی گفتگو سننے کے بعد اس کے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ اس نے سنا تھا کہ لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن عملی طور پے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ اس نے تمام قصہ داؤد کو سنایا۔ دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اب یہاں نہیں رہیں گے۔ انھوں نے محمد نواز سے مشورہ کیا تو اس نے سمجھایا بجھایا کے جب تک دوسرا ٹھکانا اور کام نہیں ملتا یہ جگہ مت چھوڑو۔ دونوں کی عقل میں یہ بات آگئی۔ انھوں نے جگہ چھوڑنے کا ارادہ ترک کردیا،لیکن اب وہ ذرا زیادہ محتاط ہوگئے تھے۔ یہاں رہتے رہتے انھیں سال ہوچلا تھا۔ اس دوران کوئی تبدیلی نہ آئی۔ وہ سنتے تھے کہ یونان کی امیگریشن کھلے گی، کبھی خبر گرم ہوتی کہ اٹلی کی امیگریشن کھلے گی۔ لیکن یہ سب خبریں ایجنٹ پھیلاتے تانکہ وہ نئے لوگوں کو قابو کرسکیں۔ اس طرح یورپ میں رہنے والے اپنے بھائیوں اور عزیزوں کو فون کرتے کہ امیگریشن کھلنے والی ہے۔ جس طرح بھی ہوسکے ،یہاں پہنچ جاؤ، باقی ہم سنبھال لیں گے۔یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہتا۔
اب آدم اور داؤد یہاں کے ماحول سے تھوڑے تھوڑے آشنا ہوگئے تھے۔ عبدالحمید کھگا، محمد نواز اور حسین ،سب لوگ ایک دوسرے کی عادات و خصائل کو کچھ کچھ سمجھنے لگے تھے۔ اِک طرح کی ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی۔ آد م اور داؤد کبھی کبھی مل کر عبد الحمید کھگے کو چھیڑتے پھر وہ انھیں ماں بہن کی گالیاں دیتا۔ داؤد کے لیئے یہ گالیاں ناقابلِ برداشت ہوتیں لیکن آدم کے کان پر جو تک نہ رینگتی۔ وہ کہتا اگر اس کی گالیوں سے ہم چڑ گئے، برا مان گئے تو ہم چھیڑیں گے کسے۔ گالیاں کا تو مقصد ہی لڑائی کرنا یا دوسروں کے جذبات کو بھڑکانا ہوتا ہے۔ اگر آپ بھڑک گئے تو اس کا مقصد پورا ہوگیا۔
داؤد کافی رقم پس انداز کرچکا تھا جبکہ آدم کو اپنے گھر والوں کو ماہوار خرچہ بھیجنا ہوتا۔ اس لیئے وہ خا طر خواہ بچت نہ کرسکتا۔ لیکن وہ اسی میں خوش تھا کیونکہ جس ماحول میں وہ رہ کر آیا تھا ، وہاں کافی گھٹن تھی۔داؤد کو گھر کی یاد بہت ستاتی۔ گھر کی یاد کا تعلق پیار سے ہوتا ہے اور آدم کی زندگی کی لغت میں پیار اور شفقت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس کے برعکس داؤد کی زندگی پیار سے بھرپور تھی۔ جب بھی فون کرتا سارا گھر فون کے پاس اس طرح آجاتا جیسے گڑکو چیونٹیاں چپک جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمیوں کا اختتام تھا اور سردیوں کی آمد آمد ۔سارے یونان میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ اٹلی نے امیگریشن کھول دی ہے۔ ایجنٹوں کا بازار پھر سے گرم ہوگیا۔اسلم گجر بھی ایجنٹ تھا۔اس نے اٹلی بات چیت کی کے کیا حساب کتاب ہے۔ انھوں نے اسے مفصل سمجھایا کہ کیا طریقہ کار ہے۔جو لوگ سن ۱۹۹۰ ؁میں اٹلی گئے تھے اور کاغذات بننے سے پہلے ریلوے سٹیشنوں پے سویا کرتے تھے اْن میں سے کچھ ایجنٹ بن گئے تھے۔ ایجنٹوں کی سب سے بڑی منڈی روم ہے۔ وہاں سارا سال کام چلتا رہتا ہے۔
آدم اور داؤد کی اسلم گجر سے سرد جنگ جاری تھی۔لیکن امیگریشن کھل چکی تھی اور وہ اْس سے بات چیت کرنے پر مجبور تھے۔ انھوں نے پہلے محمد نواز سے بات کی کیونکہ اگر ڈنکی کامیاب نہ ہوئی تو پیسے ڈوب جانے کا ڈر تھا۔ وہ یہ جان چکے تھے کہ اسلم گجر کے پاؤں مضبوط ہیں اور یہ دونوں یونان میں غیرقانونی طور پے رہ رہے ہیں۔محمد نواز نے کہا،’’تم دونونں پیسوں کی بالکل فکر مت کرو۔ تم پیسے مجھے دے جانا۔ جب وہاں پہنچو گے تو فون کردینا۔ میں اسلم کو پیسے دے دونگا۔ اگر اس نے کوئی حیل حجت کی تو میں دیکھ لونگا کیونکہ تمھیں تو پتہ ہے میں فوجی ہوں‘‘۔اسلم گجر کو جب پتا چلا کہ یہ دونوں نئے مرغے بھی اٹلی جانا چاہتے ہیں تو وہ دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا کہ خدا نے ان لوگوں کو پھر اس کے سامنے لا کھڑا کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر اس طرح مسکرایا کہ اِن کی روح تک کو چھلنی کر گیا۔ دونوں اْس کے سامنے ایسے کھڑے تھے جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہو۔ اسلم نے سکوت توڑا،’’ہاں تو جگرو۔ تم میرے بھائی ہو،ایسی کوئی بات نہیں۔تم دونوں کو اٹلی بھیج دونگا۔لیکن پیسے لگیں گے۔ ویسے تو پندرہ سو ڈالر ریٹ چل رہا ہے لیکن تم لوگ چونکہ میرے اپنے آدمی ہو اس لیئے ہزار ڈالر دے دینا۔ اس کے علاوہ گھر کا خرچہ ایڈوانس اور کھانے پینے کا خرچہ الگ کیونکہ تم لوگ تو چلے جاؤ گے ۔ مجھے کرایہ دار ملنے میں شاید مہینے سے زیادہ لگ جائیں۔مجھے کرایہ اپنی جیب سے دیناپڑے گا۔ میں بھی تمھاری طرح غریب آدمی ہوں۔یہ ہزار ڈالر میں نہیں لونگا۔مجھ پر تو تمھارا ایک پیسہ بھی حرام ہے۔ خدا کو جان دینی ہے۔ یہ تو یونانی ایجنٹ پیسے لیتے ہیں۔ مجھے تو صرف سو ڈالر ملیں گے۔ وہ بھی بسوں اور ٹیکسیوں کے کرایوں میں، دوڑ دھوپ میں، ٹیلی فون کالوں پر خرچ ہوجائیں گے۔ میں تو حرام بالکل بھی نہیں کھاتا۔اور اس کام کے لیئے مجھے کام سے چھٹی بھی لینی پڑے گی۔ وہ نقصان الگ ۔لیکن خدا کی مخلوق کا بھلا ہوجائے اس سے بڑھ کے اور کیا چاہیئے مجھے‘‘۔ آدم نے کہا،’’لیکن پیسے ہم پہنچ کر ادا کریں گے‘‘۔ تو وہ بولا،’’ہاں ،ہاں ٹھیک ہے ۔تم یہاں کسی اپنے بندے کو پیسے دے جاؤ۔ جس پے تمھیں اعتبار ہو۔ وہاں پہنچ کر مجھے فون کردینا یا اسے فون کردینا۔ مجھے میرے پیسے مل جائیں گے‘‘۔
آدم اور داؤد سامان باندھنے لگے کیونکہ ہفتے کے اندر اندر ان کو اٹلی جانا تھا۔ داؤد اور آدم نے سوچا کہ کام والوں کو جواب دے دیں۔انھیں محمد نواز نے منع کیا، ’’یہ کام نہ کرو۔ جانے سے دو دن پہلے ان سے دو دنوں کی چھٹی لے لو۔ انھیں بتاؤ کہ ہم لوگ دو دن کے لیئے ایتھنز جارہے ہیں۔ پاسپورٹ بنوانے ہیں۔چند ضروری کام کرنے ہیں‘‘۔ دونوں کو ترکیب پسند آئی۔ اس طرح وہ اگر واپس بھی آگئے تو کام نہیں ختم ہوگا۔
آدم نے اپنے یونانی مالک کو ،جہاں وہ پھول توڑنے کا کام کرتا تھا، بتایا کہ وہ فلاں فلاں دن چھٹی کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے پاسپورٹ کے سلسلے میں ایتھنز جانا ہے تو وہ کہنے لگا،’’یوں کیوں نہیں کہتے کہ اٹلی جارہا ہوں۔ مجھے پتا ہے وہاں کی امیگریشن کھل گئی ہے۔ میں تو کہو نگاجاؤ۔ ضرور جاؤ۔ روز ٹی وی پر بتاتے ہیں آج فلاں بحری جہاز پکڑا گیا۔اتنے غیرملکی پکڑے گئے۔ لیکن قسمت اگر ساتھ دے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔اور ہاں اگر نہ جاسکے تو واپس میرے پاس ہی آنا۔ میں ایماندار اور محنتی آدمیوں کی بہت قدر کرتا ہوں۔ تمھارے اندر وہ کثافتیں اور گندگی نہیں جو دوسروں میں ہوتی ہے۔ نہ ہی تمھاری آنکھوں میں جنسی بھوک اور ننگا پن ہے۔تم کیا سمجھتے ہو ہم یورپیئن بے حیاء اور ننگے ہیں۔بالکل نہیں۔ میں نے یورپ کو بنتے دیکھا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد تمھارے ملکوں کی طرح سارے ملکوں پے جنگ کے بعد غربت اور افلاس ،بھو ک و مفلسی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے دوسرے ملکوں میں جاکر محنت مشقت کی۔ واپس آکر اپنے ملک میں فیکٹریاں لگائیں۔کھیتی باڑی شروع کی۔ ہم نے محنت سے اس ملک کو ترقی دی ہے۔تم بھی ہمارے ساتھ آزاد ہوئے ہولیکن کتنا فرق ہے، تم میں اور ہم میں۔ تم لوگ یہاں کام کرنے آتے ہو۔ اچھا خیر چھوڑو۔میں بھی کن باتوں میں لگ گیا۔چلو کام شروع کریں‘‘۔ اور دونوں معمول کے مطابق کام میں مگن ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم اور داؤد کو آج شام ایتھنز جانا تھا۔ آدم بمشکل مطلوبہ رقم اکھٹی کر پایا،جبکہ کے داؤد کے پاس معقول رقم پس انداز تھی۔ دونوں نے محمد نوازکو پیسے ادا کیئے۔ جن میں ایجنٹ کی رقم،اٹلی جانے کے لیئے، گھر کا خرچہ اور ایڈوانس کرایہ۔ اس کے علاوہ داؤد نے پس انداز کی ہوئی رقم بھی محمد نواز کے پاس چھوڑنا مناسب سمجھا۔آدم نے رقم تھماتے ہوئے کہا،’’نواز صاحب،ہم آپ کو ضامن بنا رہے ہیں‘‘۔ محمد نواز نے رقم تھامتے ہوئے کہا،’’یہ تمھاری امانت ہے۔ جیسے ہی تم لوگ فون کرو گے ۔ یہ پیسے میں اسلم گجر کو دے دونگا‘‘۔اسلم گجر داخل ہوا اور آتے ہی بڑے چالباز انداز میں بولا،’’ہاں تو جوانوں تیا ر ہو۔(ان کے سامان کی طرف دیکھتے ہوئے)یہ کیا ؟ یہ سامان کیا کرو گے۔ تم سیر کرنے جارہے ہو؟سب کچھ چھوڑ جاؤ، تم لوگ ہنستے تھے نا۔۔۔۔غسل خانے میں ایک برش، ایک ریزر اور ایک تولیہ کیوں پڑا ہے۔ اسی لیئے ۔بالکل اسی لیئے۔ کیو نکہ یہ فضول خرچی ہے۔ سب کچھ پھینکنا پڑے گا۔ یہ کپڑے، یہ جوتے اور دوسرے لوازمات۔ رات کو تیا ر رہنا۔ ایک پتلون اور ایک قمیص میں جانا ہوگا اور ہاں ساتھ گرم کپڑے رکھ لینا‘‘۔ جانے کیوں اسے تھوڑا سارحم آگیا تھا۔رحمدلاناانداز میں بولا، ’’اگر تم لوگوں کو زیادہ الجھن ہوتی ہے تو دانتوں کابرش، پیسٹ اور ریزر ساتھ رکھ لو۔ لیکن میرا نہیں خیال ایجنٹ یہ سب چیزیں، تمھیں ساتھ لے جانے دے گا‘‘۔ان دونوں نے اسلم گجر کی بات پر دھیان نہ دیا اور دونوں نے مل کر
ایک بَیگ تیار کرلیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں سلونیکو سے ٹرین میں بیٹھے اور اپنی نئی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ انھیں اس طرح سفر کرتے ہوئے سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔اب تھوڑی تھوڑی یونانی زبان بھی سیکھ گئے تھے۔ ٹرین میں کھانے پینے کی اشیاء خرید کر سکتے تھے۔ٹکٹ چیکر آیا اور دونوں کے ٹکٹ دیکھے اور شکریئے کے ساتھ واپس کردیئے۔ آدم حسبِ معمول سوچوں میں ڈوب گیا۔ کہاں تو وہ یونانی فلسفے پے بلند و بانگ تبصرے کیا کرتا تھا اور کہاں اسے پتا ہی نہ چلا کہ وہ ارسطو،افلاطون،بقراط اور سقراط کے ملک سے جارہا ہے۔ اسے ایسا لگا جیسے کچھ کھو گیا ہو۔سوچتے سوچتے اْسے پتا ہی نہ چلا اور ایتھنز ریلوے سٹیشن پے گاڑی آکر رکی۔
ایتھنز پہنچتے، تو ایک نیا منظر تھا۔سٹیشن پر پہنچتے ہی انھوں نے متعلقہ آدمی کو فون کیا جس کے بارے میں اسلم گجر نے انھیں بتایا تھا۔ اس نے انھیں ریلوے سٹیشن کے پاس کسی بھی McDonald
میں بیٹھنے کو کہا۔ آدم اور داؤد ریلوے سٹیشن کے قریب ہی ایک McDonald (میکڈونلڈ)میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ آدم کاؤنٹر پے جاکے دو fillet fish burger (فی لے فش برگر) کا آڈر دے آیا۔عام طور پے دوسرے بر گر میکڈونلڈ والوں کے پاس تیار ہی ہوتے ہیں لیکن فش فیلے برگر انھیں تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس لیئے آدم ،داؤد کے پاس آکر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد ان کا نمبر پکارا گیا۔آدم جاکے دونوں ٹریز اٹھا لایا۔ ابھی انھیں تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ ایک پاکستانی وضع کا آدمی اندر داخل ہوا اور میکڈونلڈ میں نظر دوڑانے لگا۔جیسے ہی اس کی نظر ان پر پڑی ان کے پاس آگیا۔ان سے مخاطب ہوا،’’پاکستانی‘‘۔دونوں نے کہا،’’جی ہم‘‘۔اس آدمی نے کہا،’’آپ دونوں اسلم گجر کے عزیز ہیں‘‘۔ آدم اور داؤد نے کہا،’’جی ہاں‘‘۔ انھیں بڑی حیرت ہوئی ۔بڑا مہذب ایجنٹ ہے۔ آپ جناب کرکے بلا رہا ہے۔ انھوں نے اسے بھی کھانے پینے کا پوچھا لیکن وہ کہنے لگا، ’’جلدی کرو۔ میں تمھارا انتظار کررہا ہوں ایتھنز شہر میں پارکنگ کا بڑا مسئلہ ہے ۔ میں ڈبل اشارہ لگا کر آیا ہوں۔ اگر ذراسی بھی دیر ہوگئی تو جرمانہ ہوجائے گا‘‘۔ برگر وہ کھا چکے تھے۔ کوک اور فرنچ فرائیز انھوں نے ہاتھ میں پکڑے اور بَیگ لے کر اس کے ساتھ چل دیئے۔ میکڈونلڈ سے لے کر گاڑی تک پہنچنے میں انھیں ایک آدھ منٹ لگا ہوگا لیکن اس دوران ان کی آپس میں کوئی بات چیت نہ ہوئی۔ دونوں چپ کر کے گاری میں بیٹھ گئے۔ بَیگ انھوں پچھلی سیٹ پے پھینک دیا۔ داؤد اس شخص کی لینڈکروزر سے بڑا متاثر ہوا جبکہ آدم نے کوئی توجہ نہ دی۔ اسے کبھی گاڑیاں، گھر، کپڑے، پیسہ متاثر نہ کرسکا۔ وہ تو اندرونی خوبصورتیوں کو دیکھنے کا عادی تھا۔ بیرونی اور ظاہری چیزوں کو نہیں۔ وہ شخص لینڈ کروزر، ایتھنز کی سڑکوں اور گلیوں میں چلاتاہوا نہ جانے انھیں کہاں لے آیا تھا۔ اس نے گا ڑی آکر گیراج میں کھڑی کی اور ان کو ایک بڑے ہی خوبصورت اپارٹمنٹ میں ٹھہرایا۔یہ اپارٹمنٹ بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ اس دوران ایک ایک دو دو کرکے بندے آتے رہے۔ اس نے سب کو مخاطب کرکے کہا،’’اب آپ لوگ آرام کیجئے۔میں اب چلتا ہوں۔ جیسے ہی انتظام مکمل ہوجائے گا میں آپ لوگوں کولینے آجاؤنگا‘‘۔ وہ خداحافظ کہہ کر چلا گیا۔یہ ایجنٹ گزشتہ تمام ایجنٹوں سے مختلف تھا۔ اس کا اپنا ہی انداز تھا۔ داؤد کہنے لگا،’’ویسے آدم کتنی عجیب بات ہے ایجنٹ کو دلال کہو تو برا مان جائے گالیکن کام تو وہی ہے‘‘۔ ’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ہمارے ہاں دلال عام طور پے عورتیں سپلائی کرنے والے کو کہتے ہیں۔ اس لیئے لوگوں کو دلال لفظ برا لگتا ہے۔ویسے داؤد تم نے سوچا ہے ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تو رامائین والا بنواس ہوگیا۔ ہم بھاگتے جا رہے ہیں‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’بنواس نہیں جانگلوس کے دو قیدی‘‘۔ آدم نے کہا،’’جو بھی کہو، لیکن ہم مسلسل گھاگ رہے ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو وہ لینڈ کروزر والا آدمی آیا اور ان سب کو باری باری کر کے لے گیا۔ جہاں وہ انھیں اب لے کے آیا تھا۔یہ بہت بڑی فیکٹری تھی۔ شاید کافی عرصے سے بند تھی۔ خوبصورت اپارٹمنٹ سے اب یہ لوگ ایک کھنڈر نماں فیکٹری میں منتقل ہوچکے تھے۔کافی دیرکے انتظار کے ایک کیری وین آئی اور ان سب کو بٹھا کر لے گئی۔ وین کافی دیر تک چلتی رہی اور ایک ایسے علاقے میں آکر رک گئی جہاں بڑے بڑے بحری جہاز کھڑے تھے۔ وہ آدمی ان کو وین سے اتار کر جانوروں کی طرح ہانکتا ہواایک کمرے میں لے گیا۔ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ یونانی ہے۔اس نے سب کی باری باری تلاشی لی اور آدم کوہاتھ کے اشارے سے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ بَیگ یہیں چھوڑ دو۔آدم نے داؤد سے کہا،’’یار اس میں ہماری چیزیں ہیں‘‘۔ پھر آدم نے اس آدمی سے استفہامیہ انداز میں پوچھا، "why?" (کیوں)تو وہ شخص کہنے لگا، "because i said so,if you want to go to italy.you have to follow my instructions. o.k." (کیوں میں نے کہا ہے۔اگر تم لوگ اٹلی جانا چاہتے ہو تو میری ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔اوکے۔) داؤد نے چپ رہنے کو کہا، ’’یار چپ کرو۔ جیسے کہتا ہے کرتے چلو۔ بعد میں دیکھی جائے گی‘‘۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور اشاروں سے سمجھایا کہ ایسی کوئی چیز پاس نہیں ہونی چاہیئے جس سے پتا چلے کہ تم یونان سے آرہے ہو۔
ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش، شیونگ کریم،یونانی کرنسی، شاپنگ بَیگ۔ ایسی ہر چیز جس پے یونانی زبان لکھی ہو۔اس نے سب کی احتیاطً دوبارہ تلاشی لی اور بعد میں ہر کسی کو اپنی اپنی تلاشی خود کرنے کو کہا۔اس کے بعد سب کو ایک کنٹینر نماں چیز میں بیٹھنے کو کہا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔بچے،عورتیں اور جوان سب اس میں گھستے چلے گئے۔ بعد میں یہ کنٹینر ایک ٹرک کے ساتھ جڑ گیا اور ٹرک ان کو لے کر چل پڑا۔ انھیں کافی دیر تک محسوس ہوتا رہاکہ ٹرک چل رہا ہے۔ پھر انھیں ایسا لگا ٹرک رک گیا ہے۔ سب کا اندازہ سہی تھا کہ ٹرک کو کنٹینر کو کسی بڑے شپ میں چھوڑ کے چلا گیا ہے۔گرمی اور گھٹن سے سب کا برا حال تھا۔لیکن چونکہ سب لوگ غیرقانونی طور پے جارہے تھے اس لیئے یہی ایک راستہ تھا کے بند کرکے لے جائے جاتے۔ یہ کوئی نئے نہیں تھے۔ اس سے پہلے بھی لوگ اسی طرح لائے لے جائے جاتے رہے۔ ان کا جہاز دریا کی موجوں کے ساتھ ہچکولے کھاتا چلتا رہا۔ اندھیرا اتنا زیادہ تھا کے کوئی کسی کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب اور سکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے کہ سانس لینا مشکل تھا۔ایک دوسرے کی گرم سانسیں محسوس کرسکتے تھے۔ ابھی آدم اور داؤد اسی ادھیڑبن میں تھے کہ کیا ہونے والا ہے ۔کسی نے اِن کے کنٹینر کا شٹر اٹھایا اور بتایا کہ جہاز خراب ہوگیا ہے۔ ٹھیک ہونے میں دو تین دن بھی لگ سکتے ہیں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اب ایک ایک کرکے سب کنٹینر ز کے شٹرز اٹھا دیئے گئے۔جہاز کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔اسے خراب ہونا ہی تھا۔
کنٹینرز کے کھلتے ہی لوگوں کو جیسے آزادی مل گئی ہو۔سب جہاز میں دندناتے پھر رہے تھے۔ جہاز کے عملے والے چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے اور ان کو یہ کہہ کر گئے کہ ہم جہاز کو ٹھیک کرنے والوں کو لینے جارہے ہیں۔ ہماری واپسی تک سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔سب بڑے حیران و پریشان ہوئے، کہ وہ سمندر کے درمیان ہیں۔آس پاس پانی ہی پانی ہے۔ اشیاءِ خورد و نوش کی بھی کمی واقع ہوگئی۔ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ ایک دن کی خوراک ہوگی اور یہاں تو پتا ہی نہیں تھا کہ جہاز کب ٹھیک ہوگا اور کب اٹلی پہنچیں گے۔ایک دن گزر گیا۔ جہاز کا عملہ واپس نہ آیا۔ اس طرح دوسرا دن بھی ۔ مَردوں کی حالت تو ٹھیک تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا بچوں اور عورتوں کا براحال ہورہا تھا۔ تیسرے دن کھانے پینے کی اشیاء بالکل ختم ہوگئیں۔ دو بچے بھوک سے بلک بلک کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب آدم کو William Golding (ولیم گولڈنگ )کا ناول The lords of flies (دی لورڈز آف فلائیز)یاد آنے لگا۔ کیا اب ہماری جبلت جاگ جائے گی۔ ہمارا اندر کا حیوان جاگ جائے گا۔ہم
ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیں گے۔
آدم اور داؤد کی زندگی کا یہ واقعہ ناقابلِ فراموش تھا۔ انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن پیاسارہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔سارے لوگ یہی سوچ رہے تھے کہ جہاز کا عملہ جہاز کو ٹھیک کرنے والوں کو جلدی
لے آئے گا۔لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ سب لوگ جو جو دعائیں یاد تھیں کرنے لگے۔ ہندو اپنے بھگوانوں کو، سکھ اپنے گرو کو ،عیسائی اور مسلمان اپنے اپنے انداز میں خدا کو یاد کرنے لگے۔ تیسرا دن بھی گزر گیا ، اس امید پے کے شاید جہاز کا عملہ آجائے۔ اب تو حالت یہ تھی کہ لوگ موت کا انتظار کرنے لگے۔ چوتھے روز ایک بڑا جہاز ان کو اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ سب نے رومال ، کپڑے اور جو بھی ہاتھ میں آیا ہلانا شروع کر دیا۔ چیخنا،چلانا شروع کردیا۔ جہاز بالکل ان کے قریب آگیا۔ انھوں نے باری باری سب مسافروں کو اپنے بحری جہاز میں منتقل کرنا شروع کیا۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے رومال ہلانے سے ،ان کی مدد کو آئے ہیں۔ حالانکہ ان کا جہاز اْن کے راڈار سسٹم میں آگیا تھا۔
تمام مسافر اس بات سے بے خبر تھے کہ مدد کے لیئے آنے والا جہاز کس ملک کا ہے۔ یونان کا ہے یا اٹلی کا۔ سب کا یہی فیصلہ تھا اگر ڈیپورٹ بھی کر دیئے گئے تو کوئی بات نہیں۔ سب سے پہلے ترجیح زندگی ہے۔اور زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ تین چار گھنٹے کے سفر کے دوران انھوں نے تمام مسافروں کو ابتدائی طبی امداد پہنچائی۔ اب تمام مسافروں کو پتہ چل چکا تھا کہ یہ اطالوی جہاز ہے۔ یہ اٹلی کی سمندری پولیس ہے ۔جو اپنے فرائضِ منصبی پانی کے اندر ہی ادا کرتی ہے۔
شام کو ان کا جہاز LECCE (لے چے)آکر رکا۔ سب لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ جیسے ہی جہاز کنارے پے پہنچا۔ لنگر انداز ہوا۔ پولیس والے سب کو گاڑیوں میں بٹھا کر کیمپوں میں لے جانے لگے۔ باقی مسافروں کی طرح آدم اور داؤد کا بھی برا حال تھا۔ ان کے ہونٹ پھٹ چکے تھے۔ بال بالکل چپک گئے تھے۔ کپڑوں سے اس طرح کی بدبو آرہی تھی جیسے کسی مرے ہوئے جانور کے جسم سے آتی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ زندہ بھی بچیں گے کہ نہیں۔پولیس کی اٹالین کسی کو سمجھ نہ آئی۔ انھوں نے پوچھا کسی کو انگریزی آتی ہے ۔ آدم نے ہاتھ کھڑا کیا۔ وہ دونوں یہی سوچ رہے تھے کہ سب کو ڈیپورٹ کر دیں گے۔ لیکن وہ ہر طرح کے حالات کے لیئے تیار تھے۔آدم اور داؤد مترجمہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ راستے میں ملنے والی تمام حسینائیں بھول گئے۔ سر سے پاؤں تک میرؔ کی غزل اور خیام کی رباعی تھی۔ ابھی وہ فریب حسن میں تھے کہ اس محترمہ نے انھیں مخاطب کیا،"Good morning my name is Maya Scariot" (صبح کا سلام ، میرا نام مایا سکاریوت ہے)یہ کہہ کر وہ ہاتھ ملانے کے لیئے آگے بڑھی۔
آدم، "My name is Adam Khan Chughtai" (میرا نام آدم خان چغتائی)یہ کہہ
کر اس نے مایا کا بڑھا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
مایا،"Mr Chughtai, tell me the whole story. Don't hide anything because it's my everyday's job.If you will tell me the truth than i will be able to help you. Otherwise the case will be complicated"
مایا،’’چغتائی صاحب ، مجھے تمام تفصیل بتائیں۔کوئی بات بھی مت چھپائیئے گا۔کیونکہ میرا تو روز کا کام ہے۔ اگر آپ مجھے سچ بتائیں گے تو میں آپ کی مدد کرسکوں گی۔ ورنہ آپ لوگوں کا معاملہ پیچیدہ ہوجائے گا‘‘۔
آدم کو ترکی سے یونان تک بہت غصہ تھا۔ اس نے عہد کرلیا سب کچھ سچ سچ بتائے گا۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ ایجنٹوں نے پیسے بھی لیئے اور بیچ دریا میں ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ آدم نے بتانا شروع کیا،"Okay! I will tell you the whole story. Me and my friend Daowd Ansari and all these people .We are coming from Greece. In Greece, we heard that Italy has openned the immigration. So we have given 1000$each. I mean , I am talking about me and my friend, i don't know about others. while we were on our way,. there was some fault in our ship as they told us. So they left us in the middle of the ocean. than you copped us"
’’ٹھیک ہے میں آپ کو مکمل کہانی سناؤں گا۔میں اور میرا دوست،داؤد انصاری اور یہ سب لوگ ۔ ہم سب یونان سے آرہے ہیں۔ ہم نے یونان میں سنا کہ اٹلی نے امیگریشن کھول دی ہے۔ اس لیئے ہم ہزار ڈالرفی کس ادا کرکے، میرا مطلب ہے میں اپنی اور اپنے دوست کی بات کررہا ہوں۔ ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ بقول ان کے جہاز میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی۔ وہ ہمیں بیچ سمندر چھوڑ کے چلے گئے۔ اس کے بعد آپ لوگوں نے ہمیں گرفتار کرلیا‘‘
مایا، "Tell me tha names of the agents"
’’مجھے ایجنٹوں کے نام بتاؤ‘‘۔
آدم،"Our agent was Aslam Gujar.I don't know about others but the poeple who were bringing us here were Greeks .We don't know their names"
’’ہمارا ایجنٹ اسلم گجر تھا۔ مجھے دوسروں کے بارے میں نہیں پتا، لیکن جو لوگ ہمیں یہاں لارہے تھے،یونانی تھے۔ ہمیں ان کے نام نہیں پتا‘‘۔
مایا،Why you come to these countries. There isn't anything in Italy. you have paid 1000$. it's a lot"
’’آپ لوگ اِن ملکوں میں کیوں آتے ہیں۔یہاں کچھ نہیں رکھا۔ آپ نے ہزار ڈالر دیئے ہیں۔ یہ بہت ہیں‘‘۔
آدم،"In fact untill now we have spent more than that"
’’اصل میں تو ہم اس سے زیادہ خرچ کر چکے ہیں‘‘۔
مایا،"And you think, you will find money in the streets or on the trees"
’’اور آپ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کو پیسے گلیوں میں پڑے ملیں گے یا درختوں پے لگے ملیں گے‘‘۔
آدم،"Will they send us back? We willn't stay here in italy.We will go to either France or Germany"
’’کیا یہ ہمیں واپس بھیج دیں گے؟ہم لوگ اٹلی میں نہیں رکیں گے۔ہم یا فرانس چلے جائیں گے یا جرمنی‘‘
مایا، "Don't you worry about it.They willn't send you back"
’آپ لوگ پریشان مت ہوں۔ یہ آپ کو واپس نہیں بھیجیں گے‘‘
مایا سکاریوتی ان کا انٹرویو لے کر چلی گئی۔ پھر انھوں نے سب کو کافی میں گولیاں ملا کر دیں۔جس سے سب کی طبیعت کافی بہتر ہوگئی۔۔ پھر سب کے باری باری فنگرپڑنٹز لیئے گئے۔ تلاشی کے دوران جس کے پاس جو چیز بھی نکلی اسے واپس کردی گئی۔انھوں نے سب کو پندرہ دن کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ آدم اور داؤد کو بھی انھوں نے foglio di via (ملک بدری کا حکم نامہ)تھما دیا۔پندرہ دن کی مدت میں ملک چھوڑنا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیئے،دو آنکھیں۔ پندرہ دن تو بہت تھے۔ ان دونوں نے اپنے ملک بدری کے حکم نامے اپنی اپنی جیب میں رکھے اور سٹیشن کی طرف چل نکلے۔ اب انھیںیورپ میں رہتے رہتے اتنا پتہ چل گیا تھا کہ سٹیشن کی طرف کیسے جاتے ہیں۔یہ دونوں جب پاکستان میں تھے،انھوں نے صرف روم کا نام سنا تھا۔ اس لیئے جو رقم انھیںLECCE کے centro accoglienza (رفاہی ادارہ)سے ملی تھی۔ اس سے انھوں نے روم تک کی دو ٹکٹیں خریدیں اور لگے ٹرین کا انتظار کرنے۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ان کی ٹرین آگئی۔دونوں ٹرین میں سوار ہوئے۔ ٹرین میں بیٹھتے ہی دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ جب ROMA TERMINI (روما ترمینی)آیا تو ٹرین رکی۔ ان دونوں کو ٹی ٹی نے آکر جگایا۔ دونوں خالی ہاتھ تھے۔ ٹرین سے باہر نکلے ہی تھے کہ
انھیں CARABINIERI (خاص پولیس) نے پکڑ لیا۔اٹلی کی امیگریشن کھلی تھی۔ اس لیئے بڑے بڑے سٹیشنوں پر سختی تھی۔ CARABINIERI (کارابینیئیری،خاص پولیس) والے اٹالین بولتے رہے۔ نہ اْن کو اِن کی انگریزی سمجھ آتی نہ اِنھیں اْن کی اٹالین۔ وہ documenti, documenti (دوکومنتی، دوکومنتی،یعنی کاغذات کاغذات )کرتے رہے اور انھیں اپنے آفس میں لے گئے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں ملک لہراسب اور ملک گستاسب بھی بیٹھیں ہیں۔ پولیس والا انھیں بٹھا کر چلا گیا۔ پھر ترجمان کو بلا کر لائے۔ آدم نے تمام رام کہانی سنائی۔ تو مترجم نے کہا ،’’اگر تم لوگ یہ foglio di via ( فولیو دی وی آیعنی ملک بدری کا حکم نامہ)سٹیشن پر ہی دکھا دیتے تو تمھیں وہیں پر چھوڑ دیا جاتا۔اب جتنی جلدی ہوسکے اٹلی چھوڑ دو کیونکہ تمھارے فنگر پرنٹز ہوچکے ہیں۔ اب تمھیں کاغذات ملنے کے بھی چانس نہیں‘‘۔ آدم نے لہراسب اور گستاسب کا پوچھا تو مترجم کہنے لگا،’’تمھارے والا کیس ہے۔ انھوں نے چاروں کو چھوڑ دیا۔آدم اور داؤد نے لہرو اور گستو سے پوچھا، ’’آپ لوگ ۔۔۔یہاں کب اور کیسے پہنچے؟‘‘دونوں ایک ساتھ ہی بول پڑے، ’’آدم باؤ لمبی کہانی ہے‘‘۔ آدم نے
پوچھا ،’’اب کدھر جاؤ گے؟‘‘انھوں نے کہا، ’’ہم لوگ تو AREZZO (اریزو) جائیں گے۔ ہمیں کسی نے بتا یا ہے وہاں سرگودھے کے بہت لوگ ہیں۔ کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔ہم ڈاکخانہ ملا ہی لیں گے‘‘۔لہراسب نے آدم کو مخاطب کر تے ہوئے پوچھا، ’’تم لوگ کدھر جاؤ گے؟‘‘آدم نے کہا، ’’کوئی پتا نہیں‘‘۔لہراسب نے کہا، ’’تو ہمارے ساتھ چلو۔اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کردیگا‘‘۔ سب نے آدم کو پیسے تھمائے اور وہ چار ٹکٹیں لے کر آ گیا۔
چاروں اریزو جانے والی ٹرین کے دوسرے درجے کے ڈبے میں آکر بیٹھ گئے ۔ روم کے بارے میں آدم نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ قسمت میں کچھ اس طرح لکھا ہوا تھا۔ نہ وہ ترکی میں ہاگیہ صوفیہ دیکھ سکا۔ نہ یونان میں ایتھنز اور نہ ہی وہ اس حالت میں تھا کہ روم دیکھ سکتا۔ حالانکہ ROMAN COLOSSEUM (رومن کلوسیئم)دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ ٹرین چل پڑی۔ آدم نے لہراسب اور گستاسب سے پوچھا، ’’کس ایجنٹ کے ذریعے یہاں پہنچے ہو؟‘‘ تو لہراسب نے کہانی سنانی شروع کی، ’’بھرا جی گل اس طرح ہے کہ ہم لوگ ایتھنز سے لیلوں (بکروں) کے ٹرالے میں بیٹھ کر آئے ہیں۔ بارہ بندے تھے۔ ہم میں سے ایک چھور سینڈو بھی تھا۔ لیکن راستے میں جب اس کو بھوک لگی تو رو پڑا۔ ہم لیلوں کی وجہ سے بیمار پڑگئے۔ ہم نے بڑی دعائیں کیں۔ خدا خدا کر کے ہمارا ٹرک VICENZA (ویچنسا، اٹلی کا ایک شہر) پہنچا۔اس ٹرک والے نے ہمیں وڈی سڑک پے واری واری کر کے اتارنا شروع کر دیا۔ہماری ربوں (خدا کی طرف سے) قسمت چنگی تھی اس نے مجھے اور گشتو کو اکھٹے اتارا۔ ہم لوگوں نے وڈی سڑک پے چلنا شروع کر دیا۔ ہم کافی دیر تک چلتے رہے۔ اچانک پولس کی گڈیاں آکر رکیں اور ہمیں پکڑلیا۔ تھوڑی تفتیش کے بعد چھوڑ دیا۔پولس ٹیشن سے باہر آئے تو پھر اِدھر اْدھر گھومنا شروع کردیا۔ہمیں ایک دفعہ پھر پولس نے پھڑ لیا۔ وہ ہمیں گاڑی میں بٹھا کر VICENZA CENTRO (ویچنسا اندرون شہر) میں لے آئے۔وہاں پہنچنے پر انھوں نے ہمیں ، سب سے پہلے کافی پلائی۔ پھر ایک ایک گولی دی کیونکہ ہمارے جسم سے بد بو آرہی تھی۔ شاید لیلوں کی۔ ہمارے جسم سے خون رِس رہا تھا۔ ہم نہ مْردوں میں تھے نہ زندوں میں۔لیکن کافی پینے کے بعد اور گولی کھانے کے بعد ہماری جان میں جان آئی۔ جیسے ہمیں نئی زندگی مل گئی ہو۔ اس کے بعد انھوں نے ہمارا انٹرویو لیا۔ میں نے ایجنٹو ں کے نام صاف صاف بتادیئے۔ انھوں نے ہمارے فنگر پرنٹ لیئے اور پھر یہ کاغذ (کاغذ دکھاتے ہوئے، یہ ملک بدری کا حکم نامہ تھا جو آدم اور داؤد کے پاس بھی تھا )دیکر چھوڑ دیا۔ وہاں سے اریزو کے ٹکٹ خریدے لیکن ہم لوگ غلط ٹرین پے بیٹھ گئے۔ ٹرین کا آخری سٹیشن روم تھا۔ ہم لوگ یہاں اتر گئے۔ بعد میں پتا چلا اریزو تو راستے میں آتا ہے۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کے پولس نے ہمیں پھر پھڑ لیا۔ وہ ہمیں اٹالین میں پوچھتے رہے اور ہمیں تو آدم باؤ اردو بھی صحیح طرح نہیں آتی۔اس کے بعد تم لوگ آگئے‘‘۔ باتوں باتوں میں پتا ہی نہ چلا کے انھیں ٹرین میں بیٹھے ہوئے ایک گھنٹہ گزر چلا ہے۔ ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔آدم نے
حسبِ عادت سٹیشن کا نام پڑھنے کی کوشش کی ۔"ORVIETO" (اورویئیتو)چند منٹ رکنے کے بعد ٹرین پھر چل پڑی۔CHIUSI کیو زی) آیا،CORTONA (کورتونا) آیا اور آخر کار ان کا سٹاپ بھی آگیا"AREZZO" (اریزو)۔آدم نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔اسے ایسا لگا شاید یہ اس کی آخری منزل ہے۔ اس کے بعد اِن دونوں کی دوڑ ختم ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایجنٹ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو آخری وقت تک پتا ہی نہیں چلنے دیتے کے وہ ایجنٹ ہیں اور دوسرے وہ جو ایک دم سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم اتنے ڈالر میں آپ کا کام کردیں گے۔ وہ ایجنٹ جو کھل کے سامنے آجاتے ہیں، اْن ایجنٹوں سے بہتر ہوتے ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آتے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ شخص ایجنٹ ہے گو کہ ایجنٹ کالفظ استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کے بر عکس جوآخری وقت تک محسوس نہیں ہونے دیتے وہ آپ کی روح تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔آہستہ آہستہ آپ کے اندر سرایت کرجاتے ہیں۔ آپ کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ آپ کو پتا اس وقت چلتا ہے جب آپ نہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ اْدھر کے۔
ہم ایک دوسرے کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ انسان کے لیئے اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے ، کون اس کا بہی خواہ ہے اور کون اس کا بد خواہ۔ ظاہراًایسا لگتا ہے ہم دوسروں کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اصل ماخذ یہی ہوتا ہے ۔اس کے پیسے میرے پاس آجائیں اور وہ چاہتا ہے میرے پیسے اس کے پاس چلے جائیں۔وہی انسانی جبلت۔ نیکی اور بدی ۔ ہر شخص ایک دوسرے کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ نیکی کررہا ہے یااْس کے ساتھ اِسے ہمدردی ہے۔حالانکہ وہ سچ کا سامنا نہیں کرسکتا۔ سچ تو سچ ہے۔ ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ ایک تیسری قسم بھی پائی جاتی ہے۔جو صرف اس لیئے انسانوں کی مدد کرتے ہیں کے لوگ ان کی
تعریف کریں۔ ’’یہ کام فلاں شخص نے کیا‘‘ اپنی تعریف و توصیف سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ بھلے اس کے لیئے انھیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ لالچ تو ہے پیسے کی صورت میں نہ سہی تعریف و توصیف کی صورت میں سہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی یہ چاروں اریزو سٹیشن سے باہر آئے۔ سامنے پولیس گشت کررہی تھی۔ ان کے حلیئے عجیب و غریب تھے۔آدم نے کہا،’’ہم لوگ ایک ایک کر کے جاتے ہیں۔ اگر اکٹھے باہر نکلے تو انھیں شک ہوجائے گا‘‘۔ چھوٹا سا ریلوے سٹیشن تھا۔ تیر کا نشان دیکھتے دیکھتے یہ لوگ ایک ایک کر کے باہر آگئے، لیکن پولیس نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں۔ یہ سب پارکنگ میں پہنچ گئے۔ لہرو نے فون ملایا اور سرگودھے کی خاص زبان میں گفت و شنید کرنے لگا۔ سٹیشن کے باہر تو میلہ لگا ہوا تھا۔ایک کونے میں کسی افریقی ملک کے لوگ کھڑے تھے ایک طرف بنگالیوں کا ٹولہ کھڑا تھا (اب آدم اور دادؤ علم البشریات کے تھوڑے تھوڑے ماہر ہوگئے تھے ۔شکل دیکھ کر اندازہ کر لیتے تھے کہ بندہ کس ملک کا ہے خاص کر بنگالی اور انڈین) پاکستانیوں کا ٹولہ علیحدہ کھڑا تھا۔ ابھی یہ انتظار ہی کر رہے تھے کہ ایک آدمی چل کر ان کے پاس آیا اور سوال کیا،
’’بھائی جی کتھو دے آؤ‘‘
اس سوال کاجواب دے دے کر آدم اور داؤ د تنگ آچکے تھے
آدم نے جواب دیا،’’جی پاکستانی ہیں‘‘۔
وہ شخص تنک کر بولا، ’’او تے مینو وی پتا اے میرا مطلب اے پچھو کتھے دے او‘‘۔
آدم نے کہا،’’ جی راولپنڈی کے ہیں‘‘۔
’’خاص پنڈی دے او یا کسی پنڈ دے او‘‘
’’جی ہم لوگ راولپنڈی کینٹ کے ہیں‘‘۔
’’پر کوئی پنڈ تے ہونڑاں اے‘‘
’’جی نہیں ہمارے والدین شروع سے وہیں رہ رہے ہیں‘‘
’’اے کنویں ہوسکدااے کسی دا کوئی پنڈ ای نہ ہووے‘‘۔
آدم اور داؤد اس شخص کو کیسے سمجھاتے کہ آدم کے اجداد ۱۸۵۷ ؁ کی جنگِ آزادی میں ہندوستان سے بھاگ کر آئے تھے اور داؤد کے دادا ۱۹۴۷ ؁میں۔ تب سے اب تک یہ لوگ راولپنڈی میں ہی مقیم تھے۔ اگر ان کا کوئی گاؤں تھا بھی تو وہ انڈیا میں اور ویسے بھی انھیں کبھی کسی نے بتایا ہی نہیں، نہ ہی انھیں کبھی تجسس ہوا۔یہ تو جب سے انھوں نے اپنے ملک سے باہرقدم رکھا تھا۔ان کا اس سوال سے پالا پڑا تھا۔ ابھی گفتگو کر ہی رہے تھے کے لہراسب اورگستاسب کو انکا آدمی لینے آگیا۔۔ اب سارے پاکستانیوں کا گرو ہ ا ن کے پاس آگیا۔
’’اوے رشید کونڑ نے‘‘۔
’’اے پنڈی دے نے‘‘۔
’’او عباسی دے گرانئیں نے‘‘۔
’’کتھو آئے نے‘‘۔
آدم بول پڑا،’’یونان سے آرہے ہیں‘‘۔
رشید، ’’کنے پیسے دتے جے‘‘۔
آدم،’’ہزار ڈالر‘‘۔
رشید،’’ٹھیک ہے غے نے۔ تانوں کوئی بندا جانڑدااے؟ کنے دسیا آجے اریزو دا‘‘۔
آدم،’’جی ہمارے ساتھ دو لڑکے تھے سرگودھے کے، وہ ہمیں ساتھ لائیں ہیں‘‘ ۔
اتنے میں دور سے عباسی آتا دکھائی دیا۔ مری کے رہنے والوں کو اردو بولنے کا بہت شوق ہوتا ہے بالکل اس طرح ، جس طرح پاکستان میں نوجوان طبقہ انگریزی بول کر فخر محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ زبان ہی تو ہوتی ہے۔ کوئی زبان جاننا قابلِ تعریف تو ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ احساسِ کمتری یا برتری بن جائے تو برائی بن جاتا ہے۔
عباسی نے آکرسب کو سلام و آداب کیا۔ فرداً فرداًسب سے ہاتھ ملایا۔ رشید نے بتا یا۔ یہ آدم اور داؤد ہیں ،کیونکہ اس دوران وہ ان سے نام پوچھ چکا تھا۔
عباسی، ’’پینڈی کیدھر کے ہیں؟ مین بھی اودھر ہی کا ہون۔ صیدر مین رہتے ہیں؟‘‘
آدم،’’جی میں صدر رہتا ہوں اور داؤد لالکرتی ‘‘۔
عباسی، ’’بہر کیف، دیر اصیل مین بھی ایدھر ہی رہتا ہوں۔میرے سسرال ڈھیری حسن آباد رہتے ہیں‘‘۔
رشید،’’یار اِنا دا رہنڑ دا انتظام کرو‘‘۔
عباسی، ’’مین آپ دونون کو اپنے دوست کے گھر چھوڑ آتا ہوں‘‘۔
عبا سی ان کو آڑھی ترچھی گلیوں سے گھماتا ہوا بانڈے کے گھر لے آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزو آنے کے بعد آدم کو ابن انشاء کی بات یاد آگئی۔ فرانس میں فرانسیسی رہتے ہیں، جرمنی میں جرمن رہتے ہیں،لیکن پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان رہتے ہیں ،پاکستانی نہیں۔اگر اابن انشاء کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو اپنی اردو کی آخری کتاب کو دوبارہ مرتب کرتے اور کچھ اس طرح لکھتے کہ پنجاب میں پنڈیوال، سرگودھیئے،سیالکوٹی اور منڈی بہاوالدین کے لوگ رہتے ہیں۔نہ کہ پاکستانی اور پنجابی۔بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ چیمے،کھگے، ٹوانے،پنڈھر، رانے اور ملک رہتے ہیں۔ ان پنڈوں میں شیعے، سنی اور وہابی رہتے ہیں مسلمان نہیں۔
لاکھوں جانے دیکر پایا جانے والا پاکستان ۔اسلام جس کی بنیادی اساس تھا۔ جانے پنجابی، بلوچی، سندھی اور پٹھان میں کیسے بٹ گیا اور مسلمان، شیعہ، سنی اور وہابی میں کیسے بٹ گئے۔ جب ملک آزاد ہوا تھا۔ جب آزادی کی کوششیں جاری تھیں تو اس وقت فرق نہیں تھا۔ سب نے مل کر ملک آزاد کرایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطالوی گورنمنٹ نے درج ذیل شرائط جاری کی تھیں۔جو بھی ان پر پورا اترتا وہ کاغذات جمع کرواسکتا تھا۔
۱)آپ کے پاس ڈومیسائل ہو۔ یعنی گھر کا پتہ جس شہر میں، جس گھر میں آپ مقیم ہیں۔
۲)کم از کم بارہ ماہ سے اٹلی میں رہ رہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہونا چاہیئے۔
۳)کسی بھی اطالوی مالک کے پاس کام کا کانٹریکٹ
یا
CAMERA DI COMMERCIO (CHAMBER OF COMMERCE) (کامرا دی کومرچو، چیمبر آف کومرس) سے دستاویز کہ آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی "autonomo" (آؤتونومو، یعنی ذاتی کاروبار کی )۔
آدم اور داؤد کے پاس نہ تو کوئی کاغذ تھا۔ نہ کوئی پاسپورٹ۔ دونوں نے پاکستان سے اپنے اپنے پاسپورٹوں کی فوٹوں کاپیاں بذریعہ فیکس منگوانے کے لیئے فون کیا۔ یونان کی طرح یہاں بھی ایک پاکستانی نے پبلک کال آفس کھول رکھا تھا۔۔ جہاں انھوں نے پاسپورٹوں کی فوٹو کاپیاں منگوالیں۔ جب انھوں نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیئے تو انھوں نے مشورہ دیا۔ تم لوگ چیک ہوچکے ہو۔تمھارے فنگر پرنٹس بھی ہوچکے ہیں۔ اس لیئے نام اور تاریخ پیدائش بدلنی پڑے گی۔دونوں نے حسبِ منشاء نام اور تاریخ پیدائشیں بدل دیں۔
صبح ملک صاحب نے پرفیتورہ (اٹلی کی پولیس اور منسٹری آف انٹیریئر کے زیرِ اثر کام کرنے والا ادارہ) (prefettura) جانے کے لیئے ایک بندہ ساتھ کردیا۔ وہ دونوں کو prefettura (پریفیتورہ)کے اندر لے گیا۔ وہاں پاکستان میں شادیوں وغیرہ پے بینڈ بجانے والے بینڈ ماسٹر جس طرح کی وردیاں پہنتے ہیں بالکل اسی طرح کی وردی میں(کالی پتلون اور دونوں اطراف پے لال پٹی) ملبوس ایک آدمی کھڑا تھا۔دونوں جھینپ گئے۔ ملک صاحب کے آدمی نے کہا، ’’گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جن دنوں امیگریشن کْھلتی ہے تو سختی کم کر دی جاتی ہے صرف سرحدوں پر سختی کرتے ہیں‘‘۔ دونوں نے اپنے اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں دکھائیں اور ٹوکن لے لیئے۔ جو شخص ان کے ساتھ آیا تھا، کہنے لگا، ’’آدھا کام ختم ہوگیا۔ اب روم جاکر پاسپورٹ بنوانے ہیں‘‘۔
یہاں prefettura (پریفیتورہ) کے باہر بھی ایجنٹ کھڑے تھے۔ جن کا کام صرف اتنا تھا کہ لوگوں کی ٹوکن لینے میں مدد کریں۔کئی ایجنٹوں نے اضافی ٹوکن بھی لے رکھے تھے۔تانکہ جب امیگریشن بند ہونے کے دن قریب آجائیں تو منہ مانگی قیمت پر وہ ٹوکن بیچ سکیں۔افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہوتی ہے۔ آخری وقت تک یقین دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ایجنٹ نہیں بلکہ بے لوث خدمت کررہے
ہیں۔جبکہ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی مطلب کے تحت چلتا ہے اور مکمل طور پے سب کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ خلقِ خدا کی بھلائی کررہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں آدم اور داؤد ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں پہلے ہی سے پندرہ سے زیادہ افراد رہ رہے تھے۔ ہر دوسرے دن آٹے کا تھیلا آتا اور ختم ہوجاتا۔ روزانہ تیس چالیس روٹیاں پکتیں۔ گھر کے اندر جوتیوں کے جوڑے اور کپڑے اس طرح بکھرے پڑے ہوتے جیسے آپ کسی مدرسے میں آگئے ہوں۔
یہاں ترکی اور یونان سے بھی برا حال تھا۔ روزانہ کئی لوگ جرمنی،فرانس،انگلینڈاور یونان سے ڈنکیاں لگا لگا کر آرہے تھے۔ اریزو میں مقیم پاکستانی، بنگالی اور انڈین سب ایک دوسرے کی بھرپور مدد کررہے تھے۔
آدم اور داؤد کاپی کا حساب جانتے تھے۔ انھوں نے آتے ہی تکمیل بانڈے کی کاپی میں اپنا نام لکھوا دیا۔ نہ آدم کواٹلی کی کرنسی کی سمجھ تھی نہ ہی داؤد کو۔ اب تک ڈالر کے حساب سے چلتے آرہے تھے۔ پہلے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرتے پھر ڈالر وں میں حساب کتاب کرتے۔ پھر جاکے انھیں سمجھ آتی کہ کس طرح خرید و فروخت کرنی ہے۔
نہ صرف prefettura (پریفیتورہ)کے ٹوکن بکتے بلکہ پاکستان ایمبیسی کے ٹوکن بھی بک رہے تھے۔ اِنھوں نے دو ٹوکن خریدے اور صبح سویرے والی ٹرین سے روم (ROMA) پہنچ
گئے۔ پھر وہی ریلوے سٹیشن تھا۔ROMA TERMINI (روما ترمینی) ۔جہاں وہ پکڑے گئے تھے۔پچھلی دفعہ تو انھیں ترمینی کے باہر جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تھا۔ اب کے بار انھوں نے ترمینی کے باہر قدم جو رکھا توکیا دیکھتے ہیں باہر تو میلے کا سا سماں ہے۔لوگوں کا جمِ غفیر ہے۔ انڈین ،بنگالی، پاکستانی، ایرانی، ہر ملک و قوم کے لوگ کاغذات جمع کروانے آئے ہوئے ہیں۔ اٹلی کاغذات جمع کروانے والوں
کی جنت بنا ہوا ہے۔ آدم کا سارا فلسفہ بھاپ بن کراڑ گیا۔ ایک نئے رنگ کی دنیا تھی۔وہ لوگوں سے پوچھتے پوچھتے متعلقہ بس سٹاپ تک پہنچے۔ ایک بہت ہی خوبصورت فوارے کے پاس بس نمبر ۹۱۰کا سٹاپ تھا۔
بس میں سوار ہوتے ہی آدم سوچنے لگا ۔ یہ وہی روم ہے جس کے بارے میں وہ کتابوں میں پڑھا کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ( BRUCE LEE ،بروس لی ایک فلم جو COLOSSEUM کولوسیئم)میں فلمائی گئی تھی )اس کا وہ سین دوڑنے لگا۔ جس میں وہ مدِ مقابل کو COLOSSEUM (کولوسیئم)میں شکست دیتا ہے۔ آدم کے دل میں COLOSSEUM (کولوسیئم) دیکھنے کی خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوئی۔لیکن جس شدت سے پیدا ہوئی اسی شدت سے ختم بھی ہوگئی۔اس نے داؤد سے ذکر نہ کیا۔ وہ خود جانتا تھاکہ وہ کس کام کے لیئے جارہا تھا۔بس آڑھے ترچھے راستوں سے ہوتی ہوئی PIAZZA MANCINI(پیاتسا مانچینی) پہنچی۔یہاں سے انھیں بس بدلنا تھی۔ یہ دونوں بہت سارے اور پاکستانیوں کے ساتھ بس نمبر ۹۱۱ میں بیٹھ گئے۔بس پھر چل پڑی۔ بس میں شلوار قمیص میں ملبوس ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ آدم اور داؤد سمجھے انڈین یا سری لنکن ہے۔ وہ اس کے بارے میں باتیں کررہے تھے کہ وہ بول پڑی ،’’میں پاکستانی ہوں۔ پاکستان ایمبیسی کے بالکل سامنے ہمارا ادارہ ہے۔ میں وہاں پڑھتی ہوں‘‘۔ آدم نے خفت مٹانے کے لیئے کہا،’’جی ہم سمجھے شاید آپ سری لنکن یا انڈین ہیں۔ یہاں کیا پڑھ رہی ہیں‘‘۔ ’’جی میں نن بننے آئی ہوں‘‘۔ داؤد نے حیران ہوکر پوچھا، ’’نن‘‘۔آدم نے چپ کرایا اور لڑکی کی وکالت کرتے ہوئے بولا، ’’ہاں ۔۔۔نن۔کرسچن عورتیں جو اپنی زندگی مذھب کے لیئے وقف کردیتی ہیں۔ نن کہلاتی ہیں اور جو مرد اپنی زندگی مذھب کے لیئے وقف کردیتے ہیں، وہ راہب کہلاتے ہیں‘‘۔ داؤد نے کہا ’’اچھا، اچھا‘‘ جیسے سب کچھ سمجھ آگیا ہو۔ آدم اس محترمہ سے مخاطب ہوا، ’’ویسے مجھے یہ سوال پوچھتے ہوئے خود بھی برا محسوس ہوتا ہے، اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم کہاں کے ہو ، لیکن اگر آپ کو برا نہ لگے تو بتانا پسند کیجئے گا کہ آپ کس شہر سے تعلق رکھتی ہیں‘‘۔
نن، ’’جی میں ساہیوال کی ہوں‘‘۔
آدم،’’میرا نام آدم خان چغتائی ہے ۔داؤد نے بھی اپنا تعارف کروایا، ’’جی مجھے داؤد انصاری کہتے ہیں۔آپ کا نام‘‘؟
نن، ’’جی ریٹا بینجمن‘‘۔
آدم، ’’آپ کو گھر واولوں کی یاد تو آتی ہوگی‘‘۔
ریٹا، ’’جی آتی تو بہت ہے۔ ویسے میرا کورس ختم ہونے والا ہے اور جلدی ہی واپس چلی جاؤنگی‘‘۔
آدم،’’آپ سے ایک درخواست ہے۔ جب پاکستان ایمبیسی آئے تو ہمیں بتا دیجئے گا‘‘۔
ریٹا، ’’آپ فکر مت کیجئے۔ مجھے بھی وہیں اترنا ہے۔میرا تقریباًروز ہی اپنے بھائیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔جیسے ہی بس VIA CAMILLUCCIA (وی آ کامولیچی آ) میں داخل ہوئی سب لوگ محتاط ہوگئے۔ ریٹا بنجمن نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہاں اترنا ہے۔ جیسے ہی بس رکی ریٹابنجمن، آدم ،داؤد اور دیگر پاکستانی بس سے اترنے لگے۔ سڑک کے ایک طرف ریٹا کا ادارہ تھا اور دوسری طرف پاکستان ایمبیسی ۔دونوں نے ریٹا کو خدا حافظ کہا اور سڑک پارکرکے ایمبیسی میں داخل ہوگئے۔
داخل ہوتے ہی ایسا لگا جیسے چھوٹا سا پاکستا ن ہے۔ ایک لمبی قطار تھی۔ بالکل ایسا لگتا تھا جیسے لوگ رات کو ہی آگئے تھے۔ انھوں نے ایک آدمی کو ٹوکن دکھایا، وہ کہنے لگا، ’’ٹوکن کا کوئی چکر نہیں۔ یہ پاکستان ایمبیسی نہیں،چھوٹا سا پاکستان ہے۔ جس کے پاس رقعہ ہے وہ پہلے جائے گا اور رقعے سے بڑھ کر یہاں چالاکی کام آتی ہے۔ جو چالاک ہے وہ بِنا رقعے کے بھی جاسکتا ہے‘‘۔ ا س بات میں کتنی سچائی تھی۔ آدم اور داؤد اس بات سے نابلد تھے۔سردیوں کے دن تھے۔ لوگ ایمبیسی کے صحن میں قطار بنائے کھڑے تھے۔ جہاں ایمبیسی کا عملہ بیٹھا پاسپورٹ جمع کررہا تھا وہ صاف دِکھتا تھا۔ کیونکہ قد آدم شیشے لگے ہوئے تھے۔ آدم نے جھانک کر دیکھا تو اندر بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔ دونوں پریشان ہوگئے۔ پتا نہیں پاسپورٹ جمع بھی کروا پائیں گے کہ نہیں۔ اتنے میں یہاں بھی ایک ایجنٹ آگیا۔ ایجنٹوں کی چالاکی یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کے پاس آکے مختلف موضوعات پے گفتگو شروع کردیں گیا اور گفتگو کے دوران ہی بھانپ لیں گے کہ آدمی کس قسم کا ہے۔اس کے مطابق لین دین کی بات کریں ہیں۔آدم اور داؤد نے بڑ ی مشکل سے اس سے جان چھڑائی اور اللہ کا نام لے کر قطار میں کھڑے ہوگئے۔
پاکستانی قوم کو خدا نے ایک خوبی سے نوازا ہے۔جب سفید چمڑی والے بندے دیکھیں گے تو قطار میں کھڑے ہونے میں انھیں قباحت محسوس نہیں ہوگی۔ خواہ وہ بس کی قطار ہو،QUESTURA (کستورا ،یعنی اطالوی پولیس سٹیشن)کے لیئے یا PREFETTURA (پریفیتورہ) کے لیئے۔ لیکن جیسے ہی پاکستان ایمبیسی میں داخل ہونگے ، سب کچھ بھول کر پاکستانی بن جائیں گے۔
آدم ابھی انھی سوچوں میں گم تھا کہ دھکم پیل کی وجہ سے کئی دفعہ قطار ٹوٹی ۔ہر دفعہ جب قطار ٹوٹتی تو ایمبیسی کے عملے کا ایک آدمی آتا اور کہتا،’’جناب مہربانی کرکے قطار مت توڑیئے، اگر آپ لوگ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو آپ کا کام کرنے میں ہمیں دقت ہوگی۔ ہم لوگ رات کو دیر تک بیٹھ کر آپ لوگوں کا کام کررہے ہیں۔ آپ جاکے پوچھیں انڈین اور بنگالیوں سے۔ ان کو کتنی دقت ہورہی ہے اپنے ملک کا پاسپورٹ بنوانے میں۔ اس لیئے مہربانی کر کے قطار بنائیں اور ٹوکن پے جو نمبر لکھا ہے ۔اس کے حساب سے اندر آئیں‘‘۔ ابھی وہ لوگوں کو سمجھا ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک دھکا لگا۔آدم اور داؤد کمرے کے اندر تھے۔ دونوں نے چالاکی کامظاہرہ کیا اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ اب جو اندر آئے تو کیا دیکھتے ہیں، نرالا ہی منظر ہے۔۔ لوگ جلدی جلدی کاغذات پْر کر رہے تھے اور کئی ایک جو صبح سے آئے ہوئے تھے۔ صرف کاغذات کی فوٹو کاپی نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ لائن میں لگے ہوئے تھے۔
سارے لوگ مختلف شہروں سے آئے ہوئے تھے۔ کوئی MILANO(MILAN)(میلانو) سے تو کوئی BOLZANO (بولزانو) سے۔کوئی NAPOLI (NAPLES)(ناپولی) سے تو کوئی PRATO (پراتو)سے۔ روم سے کم ہی لوگ آئے ہوئے تھے۔ اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے انھیں شام ہو چلی تھی۔آدم اور داؤد کو بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سینمامیں فلم کا ٹکٹ لینے کے لیئے قطار میں لگے ہوئے ہوں اور آدھی فلم نکل چکی ہو۔
آدم اور داؤد اکٹھے ہی کھڑے تھے۔پہلے آدم کی باری آئی۔ آدم نے اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی کاؤنٹر پے رکھی۔ اس نے حسبِ عادت بْڑ بْڑ کی، کہنے لگا،’’تمھاری ہی ہے نا؟کہیں انڈین تو نہیں ہو‘‘۔ آدم نے دھڑکتے ہوئے دل سے جواب دیا، ’’جی نہیں‘‘۔ تو وہ سنتے ہی کہنے لگا، ’’تمھاری نہیں ہے‘‘آدم نے کہا، ’’نہیں، نہیں۔ میرا مطلب ہے ، میں انڈین نہیں ہوں۔لیکن یہ پاسپورٹ کی فوٹو کاپی میری ہی ہے‘‘۔ وہ اپنی تسلی کرچکا تھا۔اس نے مطلوبہ رقم وصول کرکے رسید کاٹ دی۔رسید پر ہفتے بعد کی تاریخ تھی۔ اس کے بعد داؤد کو بھی بالکل ویسی ہی رسید مل گئی،جیسی آدم کے پاس تھی۔ دونوں کو ایسا لگا جیسے اطالوی کاغذات مل گئے ہوں۔ پاسپورٹ کے کاغذات جمع کرنے والا سب کو گھور کے دیکھتا اور ساتھ بْڑ بْڑ کرتا جاتا۔ کسی کو سمجھ نہ آئی وہ اس طرح کیوں کررہا ہے۔ لیکن وہ شخص ان کی ہاں اور نہ ہی سے سمجھ جاتا کہ پاکستانی ہے یا کسی اور ملک کا ہے۔
آدم اور داؤد رسیدیں ہاتھ میں لیئے خوشی خوشی باہر آگئے۔ دونوں کو چائے کہ طلب ہوئی۔ایمبیسی کے باغ والی طرف چل دیئے۔ وہاں ایک نیا ہی منظر تھا۔ لوگ لکڑی کے بینچوں پے بیٹھے نان چھولے کھا رہے تھے۔ چائے بھی تھی۔ دونوں نے چائے کے لیئے کہا۔ وہ آدمی اسی میلی سی کیتلی میں بار بار چائے بنا رہا تھا۔ آدم کو بالکل ایسا لگا جیسے وہ پپو کے ہوٹل پے بیٹھا دودھ پتی پی رہا ہو۔ چائے پیتے ہوئے کئی لوگ ان سے پوچھ رہے تھے۔ پاسپورٹ کیسے جمع کروایا۔ زیادہ سوال تو نہیں کیئے۔ دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔ اب یہ دونوں اس سوال کے لیئے تیار تھے کہ کوئی بھی پوچھ لے گا، ’’پچھوں کتھے دے او‘‘۔لیکن ایسا کوئی واقع نہ پیش آیا۔چائے پینے کے بعد انھوں نے اخلاقاًسب کو خدا حافظ کہااور پاکستان ایمبیسی کے باہر آکے کھڑے ہوگئے۔ جہاں بس کا سٹاپ تھا۔۔ چند لمحوں میں بس نمبر ۹۱۱ آگئی اور یہ لوگ بس میں سوار ہوئے۔ بس آکر کے PIAZZA MANCINI (پیاتسا مانچینی) رکی۔یہاں سے
انھوں نے بس بدلی اور روما ترمینی آگئے۔اریزو جانے والی ٹرین میں ابھی بہت وقت تھا۔ انھوں نے میکڈونلڈ کی راہ لی۔وہاں کھانا وغیرہ کھا کے فارغ ہوئے تو اریزو کی ٹرین تیار کھڑ ی تھی۔دونوں ٹرین میں سوار ہوئے اور اریزو پہنچ گئے۔جیسے ہی انھوں نے گھر کے اندر قدم رکھا۔تکمیل بانڈے نے انھیں مبارک باد دی۔ ’’شکر خدا کا تمھارے پاسپورٹ جمع ہوگئے۔ ورنہ ایمبیسی والے چاہیں تو کوئی بھی شق لگا کر رَد کر سکتے ہیں۔وہ لوگ بادشاہ ہیں۔ لیکن سنا ہے۔پاکستانی حکومت نے خاص طور پے احکامات جاری کیئے ہیں کہ کسی آدمی کو پاسپورٹ کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے۔
پاسپورٹ تو انھیں ہفتے کے اندر اندر ملنے ہی والے تھے۔ اب مسئلہ کانٹریکٹ کا تھا۔رہائش کے سرٹیفیکیٹ کے لیئے تکمیل بانڈے نے پہلے ہی کہہ دیا تھاکہ چار سو ڈالر لے گا۔ کیونکہ میونسپل کمیٹی (COMMUNE) (کمونے) میں جاکر اندراج کروانا ہوگا۔ اس کے لیئے کاغذات پر ٹکٹیں لگیں گی۔ وہ خود ایک پیسہ بھی نہیں لے گا۔ اس پر ایجنٹی کی رقم حرام ہے۔سب لوگ اسے دیوتا سمجھتے رہے کہ کتنا نیک آدمی ہے۔ اب مسئلہ تھا ثبوت کا۔ وہ کیسے ثابت کرتے کہ وہ اٹلی ایک سال پہلے داخل ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل بانڈے کے تعلقات اریزو کے مضافات میں تمام کسانوں سے تھے۔ اور جو بھی کوئی نیا لڑکا آتا، اسے وہ کام پے بیھج دیتا۔لیکن مسئلہ یہ تھاامیگریشن سردیوں کے دنوں میں کھلی تھی۔ ان دنوں کھیتوں میں کام نہیں ہوتا ۔جو تھوڑا بہت ہوتا ہے ،وہ کسان لوگ خود کرلیا کرتے ہیں۔
تکمیل بانڈے نے من پریت چانکریہ سے بات کی۔ وہ اریزو میں دو تین چاندی کی فیکٹریوں کا مالک تھا۔بلکہ سونے کاکام بھی کرتاتھا۔ اریزو میں ایک ہی شعبہ تھا جہاں کام ملنے کی امید تھی،کیونکہ یہاں سونے چاندی کی کم و بیش ساڑھے تین ہزار چھوٹی بڑی فیکٹریاں ہیں۔ چانکریہ نے بانڈے سے کہا، وہ زیادہ تنخواہ تو نہیں دے سکتا لیکن اگر کام چل گیا پھر بات بن جائے گی۔ویسے آجکل میرا کام زیادہ اچھا نہیں۔ جیسے ہی کوئی کام کی امید ہوئی،تمھارا موبائیل نمبر میرے پاس ہے ۔ میں تمھیں فون کردوں گا۔
تکمیل بانڈے ہر پاکستانی کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اب اسے آدم اور داؤد کی فکر تھی ان کے contratto di lavoro (کام کا کانٹریکٹ) کا کہیں سے انتظام ہوجائے۔ وہ سب سے کہتا ،ان کا یورپ میں کوئی نہیں۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے۔اور تمھیں تو پتا ہے ۔خدا ہر کسی کی مدد کرنے ،زمین پر نہیں آتا۔ اس نے دنیا میں اپنے بندے مقرر کیئے ہوئے ہیں۔اس کام کے لیئے اس نے مجھے چنا ہے۔یہ بانڈے کا فلسفہ تھا۔ سب اس کی باتیں سن کر بڑے متاثر ہوتے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد اس نے SAN ZENO (سان زینو)کے علاقے میں ایک اٹالین کو راضی کرلیا۔ اس نے کہا ، میں دونوں کا کانٹریکٹ کر دونگا۔ تکمیل بانڈے بہت خوش تھا۔ اس نے آدم اور داؤد کو گھر آکر خوش خبری سنائی کہ کانٹریکٹ کا انتظام ہوگیا ہے۔ لیکن مالک نے دو شرطیں رکھی ہیں۔ نمبر ایک تم دونوں کو تین تین ملین لیروں کا انتظام کرنا ہوگا اور دوسری شرط یہ ہے کہ تمھیں اس کی فیکٹری میں مونتارے (montare) (مونتارے، یعنی جوڑنا یا پرونا)کا کام بھی کرنا ہوگا۔ آدم اور داؤد پوچھنے لگے، ’’یہ مونتارے کیا ہوتا ہے‘‘ تو بانڈے نے جواب دیا، ’’جوڑنا یا پرونا۔آپ لوگ کبھی بھی مت سوچیئے گا کہ یہ پیسے میں لونگا۔ مجھ پر آپ کا ایک پیسہ بھی حرام ہے۔ اللہ کو جان دینی ہے۔ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیںیہ پیسے ، وہ آپ لوگوں کی چھ چھ مہینے کی official contribution (آفیشل کوتریبیوتی)جمع کروائے گا۔آپ لوگ اکاؤنٹنٹ کے پاس ، اس کے ساتھ جائیں گے۔ آپ کے سامنے سارا کام ہوگا۔ کام اس لیئے کرنا ہوگا کیونکہ inspettore di lavoro (کام کودوران مزدوروں کو چیک کرنے والی پولیس یا عملہ)آپ کو آکر چیک کرے گا۔جس آدمی نے آپ کا کانٹریکٹ بھرا ہے۔ آیا کہ
آپ اس کے لیئے کام بھی کررہے ہیں کے نہیں۔کیونکہ اٹالین بے وقوف نہیں ہیں۔ اٹلی میں رہنے کی اجازت اس لیئے نہیں دیتے کہ پرمیسو دی سجورنو (permet of stay with work permission) (رہنے کا اجازت کا نامہ اور کام کا اجازت نامہ)لے کر آپ جرمنی یا فرانس جا کر کام کریں۔ میں تو اپنی جیب سے خرچہ کرتا ہوں۔ آپ یقین کریں گے میں جتنی دفعہ بھی RAFFEALLO ARTIGIANO (رافیلو آرتیجانو)کے پاس گیا ہوں اس کی گاڑی میں پٹرول میں نے اپنی جیب سے ڈلوایا ہے۔ میں تو صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کے کاغذ بن جائیں کیونکہ کاغذ بہت بڑی نعمت ہوتیں ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن دونوں تکمیل بانڈے کے ساتھ ہولیئے۔ ٹھیک سات بجے یہ تینو سان زینوتھے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد RAFFEALLO ARTIGIANO (رافیلو آرتیجانو)آیا۔ یہ چاروں لوگ گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی دوبارہ اریزو کے سنٹر کی طرف آگئی۔ اور ایک جدید قسم کی عمارت
کے پاس آکر رک گئی۔ تکمیل بانڈے نے ان دونوں کو گاڑی میں بیٹھے رہنے کو کہا۔ یہ دونوں چپ سادھے ، گاڑی میں بیٹھے رہے۔رافیلو اور بانڈے اس عمارت کی بھول بھلیوں میں کھو گئے۔کافی دیر بعد واپس آئے اور بانڈے نے دونوں کو بتایا کہ اکاؤنٹنٹ سے بات ہوچکی ہے۔اب prefettura (پرفیتورہ)جانا ہوگا۔ دونوں ڈر رہے تھے کہ prefettura (پرفیتورہ)میں کیا ہوگا۔وہاں پہنچے تو
بھیڑ لگی ہوئی تھی۔کئی لوگ اٹالین کاروباری حضرات کے ساتھ prefettura (پرفیتورہ)میں کھڑے ہوئے تھے۔ رافیلو دونوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔دونوں کا contratto di lavoro (کونتراتو دی لاوورو، یعنی کام کا کانٹریکٹ) بھر دیا۔ایک آدمی نے ان کے دستخط لیئے اور پھر وہاں بیٹھی ایک محترمہ نے انھیں عارضی libereto di lavoro (کام کی کاپی جس پے اندراج ہوتا ہے کہ
آپ نے کب اور کس کس کے پاس کام کیا اوریہ آپ کی ساری زندگی کا ریکارڈ ہوتا ہے۔لیکن ان کی کام کرنے والی کتاب عارضی تھی اس لیئے ایک خاکی صفحے پے ٹائپ کیا ہوا تھا )دے دی۔جیسے ہی دونوں باہر آئے تو بانڈے نے دونوں کو مبارک باد دی،’’ اب آپ لوگوں کو کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ان سے مل ملیں‘‘ تعارف کرواتے ہوئے،’’من پریت چانکریہ۔ میرے بہت اچھے دوست ،اریزو میں جتنے بھی غیر ملکی رہتے ہیں ان میں سب سے امیر آدمی ہیں، اور یہ ان کی دھرم پتنی ہیں‘‘۔ دونوں نے نمستے کیا اور ایک کونے میں آکے کھڑے ہوگئے۔ کب تکمیل بامڈے فارغ ہو گھر کی راہ لیں۔ تکمیل بانڈے نے من پریت چانکریہ سے کہا، ’’بھابھی صاحبہ کو prefettura (پرفیتورہ)کیوں لائے ہیں۔ انھیں خواہ مخوا ہ تکلیف دی‘‘۔ چانکریہ بولا،’’یا ر تمھیں تو پتا ہے میری تمام فیکٹریاں میری دھرم پتنی کے نام ہیں اور اٹالین قانون کے مطابق مالک کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میں تو صرف سلیپنگ پارٹنر ہوں‘‘۔ بانڈے، ’’یہ آپ نے بہت ٹھیک کیا مہاراج، کیونکہ بھگوان نہ کرے اگر کوئی مسئلہ ہوجاتا ہے تو آپ کمپنی بند کرکے بھابھی کو انڈیا بھیج دینا۔ جب معاملہ ٹھنڈا ہوجائے تو واپس بلا لینا‘‘۔ چانکریہ نے بانڈے
سے سوال کیا، ’’آپ بانڈے صاحب prefettura (پرفیتورہ)میں کیا کررہے ہیں۔ آپ تو ان کاموں سے دور بھاگتے ہیں‘‘۔بانڈے، ’’بس جی ہم خدا کی مخلوق کی مدد کر رہے ہیں۔ میں آجکل ملاتی (بیماری کی چھٹی)پر ہوں۔ ویسے بھی اس دنیا سے کیا لے جانا ہے۔ دنیا سے تو خالی ہاتھ ہی جائیں گے۔کیوں نا دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔ان لڑکوں کو جب کاغذ مل جائیں گے تو بعد میں گالیاں ہی دیں گے۔ لیکن نیکی کر کے پھل کی امید کبھی نہیں کرنی چاہیئے (دونوں ہاتھ کانوں کو لگاتے ہوئے) توبہ تونہ میں تو حرام کا کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ چانکریہ، ’’کتنے لوگوں کے کاغذات جمع کروانے کا ارادہ ہے‘‘۔ بانڈے،’’جتنے ہوسکے‘‘۔بانڈے نے چانکریہ اور اس کی بیوی کو نمستے کیا اور دونوں کو ساتھ لے گھر کی راہ لی۔ رافیلو کب کا جا چکا تھا۔بانڈے نے راستے میں دونوں کو کہا، ’’تم دونوں اب پیسوں کا انتظام کرو، کیونکہ میں نے رافیلو کو پیسے اپنی جیب سے دیئے ہیں۔ میں تم لوگوں سے کبھی پیسے نہ مانگتا۔میں جانتا ہوں ابھی تمھارے پاس کام وغیرہ نہیں ہے۔لیکن بجلی کا بِل،گیس کا بِل گھر کا کرایہ،اور اس کے علاوہ مجھے سالانہ ٹیکس آگیا ہے۔اگر نہ دیا تو اگلے سال دْگنا ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بینک سے قرضہ بھی لے رکھا ہے۔ اس کی بھی قسط ادا کرنی ہوتی ہے۔اور گھر میں جو ٹی وی ،فرج اور VCR (وی سی آر)ہے، ان چیزوں کی بھی قسط ادا کرنی ہوتی ہے۔اب تم خود ہی بتاؤ یہ سارے اخراجات میں کہا سے پورے کروں۔ میری تنخواہ بھی اتنی زیادہ نہیں۔ ڈیڑھ ملین لیرے ہے۔ جو کٹ کٹا کے ایک ملین رہ جاتی ہے‘‘۔ داؤد اور آدم کو ایک لفظ بھی سمجھ نہ آیا۔انھوں نے کہا، ’’ہم پیسو کا انتظام کردیں گے‘‘۔ دونوں نے محمد نواز کو یونان فون کیا ، ’’جوپیسے ہم نے تمھیں ڈنکی کے لیئے دیئے تھے اور جو امانت اس کے علاوہ چھوڑی تھی۔ تمام رقم western union(ویسٹرن یونین) کے ذریعے بھیج دو، کیونکہ ایجنٹ ہمیں راستے میں ہی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے‘‘۔ محمد نواز نے کہا، ’’جو رقم تم نے ڈنکی کے لیئے دی تھی وہ تو میں نے ہفتے بعد ہی اسلم گجر کو دے دی تھی۔ہاں اس کے علاوہ جو تھاری امانت ہے وہ میں پہلی فرصت
میں تمھیں بھیج دیتا ہوں‘‘۔داؤد کی پس انداز کردہ رقم اسے چند دنوں میں محمد نواز نے western union (ویسٹرن یونین)کے ذریعے بھیج دی،لیکن رقم پھر بھی کم تھی۔ آدم پریشان ہوگیا ،’’اب کیا ہوگا‘‘۔ داؤد نے ڈھارس بندھائی اور کہا، ’’میں کچھ انتظام کرتا ہوں‘‘۔ اس نے بانڈے سے بات کی ،’’اگر وہ پاکستان سے پیسے دالوادے تو کیسا رہے گا کیونکہ کچھ پیسے کم پڑ رہے ہیں‘‘۔ بانڈے نے کہا،
’’کوئی مسئلہ نہیں۔میرے والد صاحب آپ کے گھر سے جاکر لے آئیں گے۔آپ فون نمبر دے دیں‘‘۔ داؤد کو ساری بات سمجھ آ گئی۔داؤد تھوڑے تیکھے لہجے میں بولا، ’’گھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔راولپنڈی صدر کے علاقے میں جی پی او (جنرل پوسٹ آفس)ہے۔وہاں آپ کے والد صاحب آجائیں۔ میں ابا سے کہہ دونگا۔وہ مطلوبہ رقم لے کر آجائیں گے‘‘۔
داؤد نے والد صاحب کو فون کیا، ’’ابا بات کچھ اس طرح ہے مجھے رقم کی ضرورت ہے۔ فلاں دن فلاں آدمی آپ کو فون کرے گا۔ آپ رقم لے کر راولپنڈی جی پی او پہنچ جائیئے گا اور ساتھ کسی ناکسی کو ضرور لے کر جائیئے گا تانکہ اس بات کی گواہی دے سکے کہ آپ نے رقم ادا کردی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا،’’بیٹا فکر مت کرو۔جو رقم تم بھیجتے رہے ہو۔ ایک ایک پیسہ سنبھال کر رکھا ہوا ہے (حالانکہ داؤد جانتا تھا اس نے کوئی خاص رقم نہیں بھیجی تھی)۔ تمھارے ہی رقم ہے اگر تمھارے کا م آجائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو اس سے بڑی اور کیا بات ہوگی۔ پیسے تو پھر بھی کمائے جاسکتے ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز رات کو تکمیل بانڈے کے گھر کاغذات کی پڑتال ہوتی۔ کس کس کی فائل میں کیا کیا کم ہے۔سب لوگ اس فرشتہ سیرت انسان کی دن رات کی بھاگ دوڑ پے حیران ہوتے۔ آدم اور داؤد اس کی اصلیت جانتے تھے۔ لیکن وقت کا تقاضہ تھا کہ چپ رہتے۔
تکمیل بانڈے نے دونوں کو ڈومیسائل (یعنی یہ دونوں اس کے ساتھ رہتے ۔گھر کا پتہ استعمال کر سکتے ہیں اور ان کی اس پتے پر ڈاک آسکتی ہے)بھی دے دیا۔کام کے کانٹریکٹ کا بھی مسئلہ حل ہوگیاتھا۔ اب ان کو ثبوت کی ضرورت تھی۔ بانڈے نے مکمل تحقیق کی کہ کون سے ثبوت منظور کیئے جارہے ہیں۔ جن دنوں بانڈے وغیرہ آئے تھے ان دنوں پرانے خط کے لفافے بھی چل جاتے تھے۔لیکن اب کے بار ثابت کرنا تھاکہ یہ لوگ امیگریشن کھلنے سے بارہ مہینے پہلے یہاں موجود تھے۔ان دونوں کو نہ زبان آتی ۔ زبان تو دور کی بات ایک کپ کافی بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ دونوں کے نام اتنے مختلف تھے کہ اس نام کوئی بھی شخص اریزو میں نہیں تھا۔لیکن ایک بات ان کے حق میں جاتی تھی کہ اریزو کے کستورے والے فنگر پرنٹ نہیں لے رہے تھے۔لیکن اس کے باوجود بانڈے کے پاس اس کا حل تھا۔ اس نے پرونتو سکورسو (فرسٹ ایڈ، ابتدائی طبی امداد) (pronto scorso)یعنی ابتدائی طبی امداد کے ادارے کے جعلی ثبوت بھی بنا لیئے۔ آدم اور داؤد کی فائل مکمل کردی۔ اب صرف روم سے پاسپورٹ لاکر اپنے نمبر پے کاغذات جمع کروانے تھے۔بانڈے نے رشید کے ذریعے دونوں کے پاسپورٹ بھی منگوالیئے۔بانڈے صرف ان دونوں کی مدد نہیں کررہا تھا، بلکہ گھر میں جتنے بھی لوگ رہ رہے تھے سب کے لیئے بھاگ دور کررہا تھا۔آدم اور داؤد کے کیس تیار تھے۔اب صرف جمع کروانے تھے۔ روز بانڈے کے آدمی آکر رپورٹ دیتے کہ آج prefettura (پرفیتورہ)میں کیا ہوا۔۔ویسے بھی اریزو ریلوے سٹیشن کے باہر سب پاکستانیوں کی ملاقاتیں ہوتیں اور سب ایک دوسرے کو اپنی اپنی روئیداد سناتے۔
بانڈے روز کہتا وہ دونوں کے ساتھ جائے گا۔ کل prefettura (پرفیتورہ)جائے گا۔پرسوں جائے گا۔ اس کے ٹالنے کی وجہ دونوں کی سمجھ میں نہ آئی۔دونوں تنگ آگئے۔ایک دن داؤد پھٹ پڑا،’’بانڈے صاحب، آپ ہمیں prefettura (پرفیتورہ)کیوں نہیں لے کر جاتے‘‘۔اس نے
جواب دیا، ’’میں ٹھیک وقت کا انتظار کررہا ہوں اور ویسے بھی تم لوگوں کا ابھی نمبر نہیں آیا‘‘۔بانڈے ٹھنڈے مزاج کا ایجنٹ تھا۔ وہ کسی کی بات کا برا نہ مناتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ prefettura (پرفیتورہ) زیادہ جائے گا تو پولیس کو اس پے شک ہوجائے گا۔۔ویسے بھی وہ پولیس کو یہی طاہر کرتا کہ وہ ان پاکستانیوں کا ترجمان ہے۔ ان لوگوں کو زبان نہیں آتی ۔بات بھی درست تھی۔ کیونکہ وہ جب ان لوگوں
سے اردو یا پنجابی میں بات کرتا تو ااطالویوں کو سمجھ نہ آتی اور جب اطالویوں سے اطالوی میں بات کرتا تو پاکستانیوں کو سمجھ نہ آتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن داؤد اور آدم صبح صبح اٹھے اور اللہ کا نام لے کر خود ہی prefettura (پرفیتورہ) چلے
گئے۔تمام کاغذات کی فوٹوکاپیاں، اپنے پاسپورٹوں کے تمام صفحات کی فوٹو کاپیاں اور تمام اصل دستاویزات کے ساتھ ہال میں موجود تھے۔ہال میں پہلے ہی سے کئی لوگ جمع تھے۔ بنگالی، پاکستانی،انڈین، سومالین، سری لنکن وغیرہ۔ابھی آدم اور داؤد بمشکل آکے بیٹھے ہی ہوں گے ایک آدمی بینڈ ماسٹروں جیسی وردی میں آیا اور اس نے اٹالین میں کچھ کہا۔ آدم کو اتنی سمجھ آئی۔" primo, secondo" ( یعنی اول دوئم)۔اس نے داؤد کی بازو کھینچی اور اس کے پاس چلا گیا،"i,primo he secondo" (آئی پریمو، ہی سیکوندو، یعنی میرا پہلا نمبر ہے اور اس کا دوسرا) اس نے دونوں سے پرانے ٹوکن لے لیئے اور نئے ٹوکن دے دیئے۔ ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔ ان کی دیکھا دیکھی تمام لوگ اس آدمی کے پاس جمع ہوگئے۔ اس کے پاس کل پچیس ٹوکن تھے۔ وہ پچیس ٹوکن بانٹ کر چلا گیا۔باقی سب منہ لٹکائے واپس چلے گئے۔یقیناًدل میں گالیاں دے رہے ہوں گے۔
دیوار پے الیکٹرونک مشین لگی ہوئی تھی۔جس پے اٹلین میں مختلف پیغامات آرہے تھے۔ اچانک
اس پر نمبر ایک آیا۔ آدم سمجھ گیا کہ اب اسے کاغذات جمع کروانے جانا ہوگا۔ اس کا اندازہ صحیح نکلا۔ ٹوکن دینے والا آدمی آیا اور اسے ساتھ لے گیا۔ آدم نے اندر داخل ہوتے ہی کہا،"buon giorno" (بون جورنو، یعنی اچھا دن مبارک ہو)لیکن بڑا گھبرایاہوا تھا۔ سامنے پولیس یونیفارم میں ایک محترمہ بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے آدم کو بیٹھنے کو کہا۔آدم نے کہا، "grazie" گراسیئے، یعنی شکریہ) اس محترمہ نے ایک ہلکے سبز رنگ کا کاغذ اٹھایا اور بولی،
محترمہ،"nome" (نام)
آدم، "ADAM" (ایڈم)
محترمہ، "cognome" (کونی اومے،یعنی خاندان کا نام)
آدم، "KHAN CHUGTAI"(خان چغتائی)
اس محترمہ نے پاسپورٹ پر دونوں نام دیکھ کر اس ہلکے سبز رنگ کے فارم پر لکھ دیئے۔پھر کچھ پوچھا۔آدم نے اندازے سے بتایا، "ventimiglia" ( وینتی ملی آ) اٹلی کا بارڈر کا وہ حصہ جو فرانس کے ساتھ لگتا ہے) ۔ آدم نے ساتھ ہی اٹلی میں داخل ہونے کی تاریخ بھی بتا دی۔ ان چیزوں کی تیاری تکمیل بانڈے نے سب کو کروارکھی تھی۔ جتنے بھی لوگ اٹلی میں داخل ہوئے۔ بھلے وہ کہیں سے بھی آئے تھے)۔
سب نے سرحد کا نام،جس سے داخل ہوئے تھے ventimiglia (وینتی ملی آ) ہی بتایا۔آدم نے پھر تمام کاغذات کی فوٹو کاپیاں دیں۔اس محترمہ نے سب کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد پرونتو سکورسو (ابتدائی طبی امداد) (pronto scorso) کے ثبوت کی تاریخ کوہائی لائیٹر (high lighter) (نمایا کرنے کے لیئے ایک مارکر ہوتا ہے خاص کر شوخ رنگوں والا)سے نشان لگا دیا۔اپنی تسلی کرنے ے بعد ایک تصویر اس سبز رنگ کے فارم کے اوپر stapler (سٹیپلر )سے staple (سٹیپل) کر دی اور دوسری نیچے والے حصے پر۔تصویر والا حصہ علیحدہ کرکے اپنے پاس رکھ لیا اور نیچے والا آدم کو تھما دیا۔ آدم کو ایسا لگا جیسے اسے اٹلی کی شہریت مل گئی ہو۔ اس کے بعد داؤد کی باری تھی۔ وہ بھی تمام مراحل سے بخیر و خوبی گزر گیا۔دونوں کے ہاتھ میں اپنی اپنی رسیدیں تھیں۔ باہر جب آئے تو سب لوگ مبارک باد دے رہے تھے۔ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہو۔دونوں خوش تھے۔ ابھی وہ prefettura (پرفیتورہ) کی سیڑھیاں اتر ہی رہے تھے کہ سامنے سے بانڈے آتا دکھائی دیا۔آتے ہی کہنے
لگا،’’مبارک ہو، مبارک ہو۔ میں اپنے خدا کا شکر کیسے ادا کروں۔ میں اپنے کام میں سرخرو ہوا۔ اب یہ recevute ( ریچی ووتے،یعنی رسیدیں) سنبھال کر رکھنا۔ جب سب لوگوں کے کاغذات جمع ہوجائیں گے تو پھر فہرستیں لگے گیں۔ آج میں تم لوگوں کے ساتھ آنے ہی والا تھا۔ لیکن کوئی بات نہیں۔میں نے اندر بات کی ہوئی تھی۔ اس لیئے تمھیں ٹوکن پہلے مل گئے۔
تکمیل بانڈے کو ان کے کاغذات جمع کروانے کی مکمل رپورٹ پہلے ہی سے مل چکی تھی۔
آدم اور داؤد دل ہی دل میں ہنسنے لگے۔یہ آدمی ہمیں جتنا بے وقوف سمجھتا ہے اتنے ہم ہیں تو نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment