Monday, June 17, 2013

گیارہواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG



۱۱
منگل کا دن بھی اسی طرح گزرا جیسے سوموار کا دن گزرا تھا۔ اب میری عادت سی ہوگئی تھی کہ میں ناشتہ کرکے اریزو کی لائبریری چلا جایا کرتا۔ وہاں سے کوئی نا کوئی کتاب دیکھ لیا کرتا۔ کسی اخبار سے کچھ نا کچھ دیکھ لیا کرتا۔ لائبریری میں کام کرنے والا عملے سے میری جان پہچان بھی ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ یہاں میں انٹرنیٹ بھی استعمال کرلیا کرتا۔یہاں پے صرف فوٹو کاپی کرنے کے پیسے لیتے وہ بھی بازار سے کم ۔ میرے ہاتھ میں ہمیشہ لکھنے کے لیئے سفید کاغذ اور پین
ہوتا۔ کبھی کبھی میں ایک تھیلا نماں بیگ میں چیزیں ڈال کے لے جایا کرتا۔ لائبریری میں کام کرنے والے یہ جانتے تھے کہ میں پاکستانی ہوں لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ میں کیا کرتا ہوں۔ کیا لکھتا ہوں۔ ایک دن وہاں کام کرنے والی ایک عورت نے مجھ سے پوچھ لیا کہ تم کیا کرتے ہو۔ تو میں نے اسے بتایا کہ میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ اس کے
لیئے لائبریری سے اچھی جگہ کوئی نہیں۔وہ پوچھنے لگی ،اٹالین میں لکھ رہے ہو تو میں نے کہا، نہیں میں اردو میں لکھ رہاہوں۔ وہ بڑی متجسس ہوئی۔ کہنے لگی، یہاں چھپواؤ گے۔ میں نے کہا، یہ میں نہیں جانتا۔ لیکن لکھتا چلا جارہا ہوں۔
شام کو کھا ناوغیرہ کھا کر جب میں اور نیائش فارغ ہوئے تو نیائش کہنے لگا، ’’ماڑا وہ پری پیکر نہیں آیا۔ ایسا تو نہیں کہ وہ ناراض ہوگیاہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں نیائش بھائی۔ رات کو آیا تھا ۔اس وقت آپ سو چکے تھے‘‘۔
’’ماڑا اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اس سے معافی مانگ لیتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نہیں خیال کہ اس طرح کی کوئی بات ہے‘‘۔
میں تو کھانے کے بعد چائے ضرور پیتا تھا لیکن نیائش چائے کم ہی پیا کرتا اورخاص کر جب اس نے کام پے جانا ہو تو پھر رات کو چائے بالکل نہ پیا کرتا۔میں چائے بنا رہا تھا۔ ہماری گھر کی گھنٹی بجی۔ نیائش نے دروازہ کھولا۔ ثقلین سامنے کھڑا تھا۔
نیائش نے آتے ہی کہا، ’’ماڑا ناراض ہوگئے ہو۔ کل دیرسے آئے‘‘۔
وہ بولا، ’’نہیں نیائش بھائی،آج کل کام بہت زیادہ ہے ۔بہت بڑا آرڈر آیا ہوا ہے۔ سب لڑکے اوور ٹائم لگا رہے ہیں۔ دیر سے فارغ ہوتا ہوں۔اس لیئے دیر سے آتا ہوں‘‘۔
نیائش بولا، ’’شکر ہے، میں سمجھا شاید تمہیں ہماری کوئی بات بری لگی ہے‘‘۔
ثقلین ہنس دیا۔
میں نے پوچھا، ’’چائے چلے گی‘‘۔
کہنے لگا، چلے گی نہیں بلکہ دوڑے گی۔ بہت تھکا ہوا ہوں۔یہ سارا ہفتہ ایسے ہی گزرے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کھانا‘‘۔
ثقلین بولا، ’’کھانا میں نے ونہی سے کھایا ہے۔ فیکٹری کا مالک اچھا آدمی ہے ۔کھانے کے لیئے کچھ نا کچھ منگوا لیتاہے‘‘۔
اب میں مزید تفصیل میں جانانہیں چاہتا تھا۔ میں نے چائے کی کیتلی میں پانی، دوددھ،پتی اور چینی میں اضافہ کردیا۔میں اور ثقلین بیٹھ کے چائے پینے لگے اور نیائش اپنے کمرے سونے چلا گیا۔
مجھے ثقلین کہنے لگا، ’’فرشتہ صاحب ،وہ بوکاچو کی ڈیکیمرون کی کہانی تو بہت دلچسپ ہے۔ اور رضا کا کردار کمال کا ہے‘‘َ
میں نے کہا، ’’اگلا باب تیار ہے‘‘۔
ثقلین نے دسواں باب میرے ہاتھ میں تھمایا اور گیارہواں باب لیتے ہوئے کہنے لگا، ’’اگر میں چائے پی کے چلا جاؤ تو کوئی اعتراض تونہیں ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں کوئی مسئلہ نہیں ۔آپ تھکے ہوئے ہیں ۔آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ اگر برا نہ لگے تو میں آپ کے گھر آکے دے جایا کرونگا‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’اگر یہ تین چار دن ایسا ہوجائے تو کیا ہی بات ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔
وہ بولا، ’’تو ٹھیک ہے کل ملاقات ہوگی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح چھ بجے ہمیں سیکیورٹی گارڈ ہمیشہ جگانے آیا کرتا تھا۔ اب تو عادت سی ہوچلی تھی ۔ صبح ساڑھے پانچ بجے خود بخود ہی آنکھ کھل جاتی۔ جب وہ جگانے آتا تو میں جاگ رہا ہوتا۔ چند ایک کروٹیں لے کر میں اٹھ جایا کرتا ۔پہلا کام باتھ میں جانا ہوتا۔ دانت صاف کرنا، نہانا،دیگر حاجات سے فارغ ہونا یہ میرا روز کا معمول تھا۔آج صبح بھی سیکیورٹی گارڈ ہمیں جگانے آیا۔ آج صبح صبح اس بیرک نماں عمارت میں جانا تھا۔ مجھے ناشتہ بھی وہاں کرنا تھا۔ میرا ٹرانسفر کا وقت ایسا تھا کہ اس وقت ناشتہ اس ہال میں دیا جاتا تھا۔ اگر یہاں ناشتہ کرنا ہوتا تو میری ٹرانسفر کا وقت اور ہوتا۔ میں جلدی جلدی تیار ہوکے نیچے آگیا۔ نیچے وہی ٹیوٹا وین تیار کھڑی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پے وہی موٹا آدمی بیٹھا تھا جو مجھے پہلے دفعہ اس جگہ بٹھا کے لایا تھا جہاں کتے کو
بٹھانے کی جگہ تھی۔ میں جلدی سے جاکے فرنٹ سیٹ پے بیٹھ گیا۔ اب وہ ابتدائی عاجزی و انکساری ختم ہوچکی تھی۔ ویسے بھی میں اب سینیئر تھا۔ بہت سارے نئے لوگ آگئے تھے۔ میرے ساتھ کے تقریباًً زیادہ لوگ چلے گئے تھے۔ ڈرائیور نے میری طرف گھور کے دیکھا۔ مجھے جرمن میں کچھ کہنے لگا۔ لیکن میں اس کی بات پے اتنی توجہ نہ دی۔ نہ ہی مجھے سمجھ آئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب وین بھر گئی تو اس نے وین سٹارٹ کی اور دس یا پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ ہمیں اس بیرک نماں عمارت میں لے آیا۔
دوسرے پھیرے میں سالواتورے ،رضا اور مقصود بھی آگئے۔ہم لوگوں کو ہال میں پہنچایا گیا ۔ناشتے میں وہی سوس بروڈ تھی، قہوہ تھا، مکھن اور جیم کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں تھیں۔ سالواتورے کھانے کے دوران ہمیشہ سوس حکومت کے گالیا دیا کرتا ۔ کیونکہ ناشتے
میں کافی نہ ہوتی۔جب ہم لوگ ناشتہ کرکے فارغ ہوگئے تو مجھے اور مقصود کو ایک طرف کردیا گیا اور سالواتورے اور رضا کو ایک طرف ۔ میرا اور مقصود کا میڈیکل تھا ۔ ہمیں پیشاب اور خون کی ریپورٹس ملنی تھیں۔ اس کے علاوہ ایپی ٹائیٹس سی اور بی کا چیک اپ تھا۔ ایڈز کا چیک اپ تھا۔ میرے خیال ہمارے پھیپھڑوں کا ایکسرے بھی ہونا تھا ،یہ دیکھنے کے لیئے کہ ہمیں ٹی بی یا دمہ تو نہیں۔ رضا اور سالواتورے کے آج فنگر پرنٹس ہونے تھے۔ تصاویر اتاری جانی تھیں۔ ایک عورت رضا ، سالواتورے اور چند دوسرے مہاجرین کو اپنے ساتھ لے گئی۔ مجھے اور مقصود کو وہی عورت اپنے ساتھ لے گئی جو بہت غصے میں بولا کرتی۔ جو مجھے اپنے ساتھ نئی عمارت میں کپڑے رکھنے کے لیئے گئی تھی۔ جس نے مجھے اپنی رام کہانی سنائی تھی۔ اب مجھے یہ عورت مظلوم لگنے لگی تھی۔ خیر ہم دونوں اس کے سا تھ ہولیئے۔ وہ میرے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتی چلی جارہی رہی تھی اور مقصود گونگوں بہروں کی طرح ہمارے ساتھ چل رہا تھا۔ میں دل میں سوچنے لگا۔ میری بھی دوستی یا بات چیت زبانی جمع خرچ ہی ہے ۔اس کا حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔مقصود جو میرے ساتھ گونگو ں بہروں کی طرح چل رہا ہے ،تفریح تو یہ منارہا ہے۔
ہم تینوں اس نئی عمارت کے پاس پہنچے ۔ اب مجھے ا س عمارت سے تھوڑی سی شناسائی ہو گئی تھی۔ اس عورت نے اپنا کارڈ مشین کے سامنے کیا اور وہ چھوٹا سا لوہے کا دروازہ کھل گیا۔ہم دونوں اس کے پیچھے پیچھے ہولیئے۔ اس عمارت میں لفٹ بھی تھی لیکن وہ ہمیں سیڑھیو ں کے ذریعے لے کر گئی۔ پہلی منزل تو وہ تھی جہاں ہمارا خون اور پیشاب ٹیسٹ ہوا تھا۔ ہمیں آج اس کا جواب بھی ملنا تھا۔ وہ ہمیں دوسری منزل پے لے آئی۔ اس عمارت کے جس کمرے میں وہ ہمیں
لے کر آئی تھی وہ بالکل ویسا ہی تھاجیسا نیچے تھا۔ اس کمرے میں بڑی بڑی جدید انداز کی کھڑکیاں تھیں۔ اس طرح کی نہیں جس طرح کی اس ہال میں تھیں جس میں ہم کھانا کھاتے تھے۔ وہ عورت ہمیں چھوڑ کے چلی گئی۔ کہنے لگی شاید اور لوگوں کو بھی لانا پڑے ۔
میں اور مقصود دونوں انتظارمیں بیٹھے تھے۔ مقصود بالکل خوش نہیں تھا۔ میں نہ خوش تھا نہ ہی اداس تھا۔ مقصود کو سو فیصد یقین تھا کہ اسے کل کچی کرائس میں بھیج دیں گے۔ ہم دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی۔ اس دوران ایک نرس آئی ۔ وہ ہمیں ایک اور کمرے میں لے گئی۔ یہ کمرہ جدید میڈیکل انسٹرومنٹس سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں ایک کمپیوٹرائزڈ ایکس رے مشین تھی۔ اس کے علاوہ دیگر مشینیں تھیں ۔یہاں تین عورتیں کام میں مصروف تھیں۔ پہلے میرا نام بلایا گیا۔
میں اس سفید کوٹ والی نرس کے پاس گیا۔ یہ گوری چٹی سی پتلی ناک
والی لڑکی ۔اس کی عمر بیس سال ہوگی ۔اس کے سفید کوٹ کی جیب کے پاس اس کا نام لکھا ہوا تھا،’’لاورا‘‘۔میں نے دل میں سوچا اس کا مطلب ہے یہ لڑکی اٹالین ہے یا اس کے ماں باپ اٹلی سے ہجرت کرکے آئے ہوں گے۔ اس نے ایک ڈسپوزایبل سرنج نکالی۔ اس کو روئی سے صاف کیا۔ پھر اس نے اسے ایک چھوٹی بوتل میں ڈال کے بھر لیا۔ جب سرنج بھر چکی تو اس کو نکال کے ہوا میں کردیا۔ اس نے سرنج کو تھوڑا سا دبا کے چند قطرے نکالے ۔اس کے بعد مجھے انگریزی میں کہا، ’’اپنا بازو سامنے کرو‘‘۔
میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ اس نے میری بازو کو پکڑا ۔میں ہمیشہ یہ چیز نوٹ کیا کرتا ہوں جب مجھے کوئی عورت یا لڑکی چھوئے تو اس کے ہاتھ گرم ہوتے ہیں یا ٹھنڈے۔ اس لڑکی کے ہاتھ نرم اور ٹھنڈے تھے۔ حالانکہ جون کا مہینہ تھا۔ ایسا ہوسکتا ہے اس عمارت
میں ایئر کنڈیشنر چل رہا ہویا یہ ساری عمارت سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ تھی۔ اس نے بہت آرام سے میرا بازو دبایا۔ اس کے بعد روئی پے کچھ لگاکے میرے بازو پے ملا۔ اس کے بعد مجھے وہ ٹیکہ لگا دیا جو اس نے اس چھوٹی سی بوتل سے بھرا تھا۔ اس نے جیسے ہی سوئی میرے بازو میں کھبوئی ،میری منہ سے سی کی آواز نکلی۔ لیکن اس کے بعد اس نے سرنج کو پیچھے سے دبا کے ساری دوائی میرے بازو میں داخل کردی۔ یہ ٹیکہ ایپی ٹائیٹس بی اور سی کے بچاؤ کے لیئے تھا۔اس کے بعداس نے سوئی میرے بازو سے نکالی اور وہی روئی میرے بازو پے مل دی ۔ پھر کہنے لگی، ’’اس کو پکڑ کے رکھو‘‘۔
میں نے ایک مہذب بچے کی طرح اس کی ہدایت پے عمل کیا۔ اس کے بعد مقصود کو بھی اس عمل سے گزرنا تھا۔ اس نے مقصود کو انگریزی میں کہا۔ ’’اپنا بازو آگے کرو‘‘۔ مقصود کو کچھ نہ سمجھ آئی۔ وہ کہنے لگا کہ کیا
کہہ رہی ہے۔ میں نے کہا، ’’وہ بازو آگے کرنے کو کہہ رہی ہے۔ ٹیکہ لگائے گی‘‘۔
مقصود نے پورے بازوؤں والی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ اس نے سارا بازو اوپر کو موڑ دیا اور منہ دوسری طرف کر لیا۔ اس نرس نے ٹیکہ لگایا اس کے بعد سوئی نکا ل کے اس کے بازو کو روئی سے صاف کیا اور اس سے بھی یہی کہا اس کو پکڑ کے رکھو۔
اب ہم دونوں اپنے بازو پے روئی کے اس ٹکڑے کو پکڑ کے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہمارا ایکسرے ہونا تھا یہ دیکھنے کے لیئے ہمیں ٹی بی یا دمہ تو نہیں۔ ہمارے پھیپھڑے ٹھیک ہیں کہ نہیں۔
ہم دونوں انتظار کررہے تھے ۔اس دوران اور بھی مہاجرین آرہے تھے ۔
وہ دبلی پتلی لڑکی ان آنے والے مہاجرین کو بھی ٹیکہ لگا رہی تھی۔ اب
ہماری تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔
اس دوران ایک اور نرس آئی۔ اس نے بھی سفید رنگ کا لمبا کوٹ پہن رکھا تھا۔یہ تھوڑی دراز قد تھی۔ میری نظر اس کی ٹانگوں پڑی ۔اس نے پاؤں میں وہی خاص قسم کے جوتے پہن رکھے تھے جو ہسپتالوں میں پہنتے ہیں۔ اس کے ٹانگیں بہت سڈول تھی۔ کوٹ لمبا تھا جس کی وجہ سے ا س کی سکرٹ نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے نیچے کچھ نہیں پہنا ہوا۔ چہرہ مہرے سے پچیس یا تیس سال کی ہوگی۔ بہت خوبصورت نین نقش والی نرس تھی۔ ناک اتنی مناسب تھی جیسے کسی مجسمہ ساز نے تراشی ہو۔ اس کے کوٹ کی جیب کے پاس بھی اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ کیتھرین ۔مجھے یہ نرس فرنچ لگی۔ اس نے جب انگریزی بولی تو اس کے تلفظ سے صاف لگا کہ یہ فرنچ ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بورڈ اٹھایا ہوا تھا اس پے سفید کاغذ چپکا ہوا تھا۔ اس نے اس پے پڑھ
کے مجھ سے کہا، ’’سب سے پہلے تمہاری باری ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم مجھے فرنچ لگتی ہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’کیوں تمہیں فرنچ آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں مجھے فرنچ آتی ہے۔مجھے اٹالین بھی آتی ہے‘‘۔
اس نے لاورا کو آواز دی اوراسے کہا، ’’لاورا تم اس سے اٹالین میں بات کرسکتی ہو۔ یہ اٹالین میں بات کرسکتا ہے‘‘۔
مجھے سے کہنے لگی، ’’ویسے تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پاکستانی ہوں‘‘۔
وہ حیرت سے بولی ، ’’تم پاکستانی ہو اور انگریزی کے علاوہ فرنچ اور اٹالین بھی جانتے ہو۔ بڑی حیرت کی بات ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ بہت سے یورپیئن ہماری زبان سیکھ لیتے ہیں‘‘۔
کہنے لگی، ’’نہیں مجھے حیرت اس لیئے ہوئی ہے کیونکہ ہمیں یہاں ایسے کئی لوگوں سے پالا پڑتا ہے جو اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں جانتے۔ ہم لوگ ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے کام چلا لیتے ہیں یا ان کو اشاروں سے سمجھاتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے زبانیں سیکھنے کا شوق ہے ‘‘۔
وہ کہنے لگی ،’’خیر یہ باتیں تو بعد میں ہونگی۔ پہلے تم سارے کپڑے اتار کے یہ یہ لوہے کی جیکٹ پہن لو ۔اس کے علاوہ اپنے نیچے والے حصے پے بھی یہ باندھ لو‘‘۔
میں نے کہا ، ’’یہ کس لیئے ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’جب ہم لوگ ایکسرے کرتے ہیں تو اس کی شعاعیں جسم کے دیگر حصوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ یہ شعاعیں اگر جسم کے نازک اعضاء پرپڑ جائیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت
ان کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے یا بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیئے ہم جسم کے ان تمام نازک حصوں کو اس جیکٹ اور یہ جو تم نیچے باندھو گے اس ڈھک دیتے ہیں تانکہ ان چیزوں کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں یہ چیز پہلی دفعہ دیکھ رہاہوں اور سن بھی پہلی دفعہ رہا ہوں ‘‘۔
کہنے لگی، ’’ویسے تو ایکس ریز ،ڈاکٹرز کو پہلے سے معلوم تھا کہ جسم کے لیئے نقصان دہ ہوتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے مزید دریافت کیا کہ کن کن چیزوں کے لیئے نقصان ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کو ئی شخص کئی دفعہ ایکسرے کے عمل سے گزرے تو ایک خاص عرصے کے بعد اس کا ایکس رے نہیں کیا جاتا‘‘۔
میں حیرت سے اس کی شکل دیکھنے لگا۔ کیتھرین جتنی خوبصورت تھی اتنی
ہی اس کی آواز بھی سریلی تھی۔ دل کرتا تھا اس باتیں کرتا رہوں ۔لیکن اس نے نہ جانے کتنے لوگوں کے ایکس رے کرنے تھے۔ میں نے اس کی ہدایت پے عمل کرتے ہوئے ساتھ والے کمرے میں جاکے کپڑے اتارے اور جسم پے وہ لوہے کے کپڑے پہن لیئے جو اس نے مجھے دیئے تھے۔ مجھے ایسے لگنے لگا جیسے میں پرانے دور کو کوئی فوجی
ہوں۔پھر اس نے ایک بستر پے پردہ تان دیا اور مجھے اس پے لٹا دیا۔ ایک عجیب و غریب سی مشین
میرے اوپر لائی ۔ اس کی خیرہ کرنے والی روشنی میرے اوپر پڑتی رہی ۔وہ اس بستر سے ملحق لگے ہوئے مونیٹر پے میری جسم کی تصویریں دیکھتی رہی۔ پھر مجھے کہنے لگی، ’’اب تم کپڑے پہن سکتے ہو‘‘۔
میں نے پوچھا،’’سب ٹھیک ہے‘‘۔
کہنے لگی ، ’’تم بالکل ٹھیک ٹھاک ہو۔بس تمہارے ایک چیز رہ گئی ہے۔
اگر تمہارے بازو پے جو ٹیکہ لگا ہے اس کا نشان لال ہوگیا اور تمہیں بخار ہوگیا تو مسئلہ ہوگا۔ باقی تم ٹھیک ٹھاک ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہمارا خون اور پیشاپ ٹیسٹ ہوا تھا اس کا کیا بنا‘‘۔
کہنے لگی ،’’وہ سب ٹھیک ہے ورنہ تمہیں ایکسرے کے لیئے نہ بلاتے۔تمہیں ایڈز بھی نہیں ٹی بی بھی نہیں نہ ہی دمہ ہے۔ آخری ٹیکہ جو تمہیں لگا ہے یہ اس لیئے لگایا ہے کہ تمہیں اگر ایپی ٹائیٹس سی یا بی نہیں ہوا تو اس کی حفاظت کے لیئے لگایا کہ تمہیں کبھی نہ ہو۔ ویسے تمہارے بلڈ ٹیسٹ میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہیں اس طرح کی کسی بیماری کا کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہو‘‘۔
کہنے لگی ،’’کیونکہ میرے پا س تمہاری ریپورٹ ہے‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’مجھے یہاں کتنی دیر انتظارکرنا ہوگا‘‘۔
کہنے لگی ،’’ویسے تو آدھے گھنٹے میں پتا چل جاتا ہے لیکن تمہیں دو گھنٹے انتظا رکرنا ہوگا۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہوا تو کل تمہیں دوسری جگہ بھیج دیا جائے گا‘‘۔
میں سمجھ گیا کہ مجھے کچی کرائس بھیج دیا جائے گا۔ جہاں مجھے ہفتے کے ہفتے پیسے بھی ملا کریں گے اور ہر جگہ جانے کی آزادی بھی ہوگی۔
کہنے لگی، ’’کیا سوچ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ نہیں‘‘۔
کہنے لگی، ’’وہ دوسرا لڑکا بھی میری خیال میں پاکستانی ہے ۔اس سے کہو۔ کپڑے اتار کے یہ کپڑے پہن لے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اچھا میں اسے کہتا ہوں‘‘۔
میں مقصود کے پاس آیا ۔وہ گھبرایا ہوا تھا۔ پریشان بھی تھا۔ وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا لیکن میرے خیال میں اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے وہ یہاں رک جائے۔میں نے کہا، ’’مقصود ۔اب تمہارا ایکسرے ہوگا۔ وہاں چلے جاؤ۔ کمرے میں جاکے کے کپڑے اتارو اور وہ نرس جو چیز دے گی وہ پہن لینا‘‘۔
کہنے لگا ، ’’میرے ساتھ آؤ ۔مجھے سمجھ نہیں آئے گی‘‘۔
میں اس کے ساتھ ہولیا۔ میں نے کیتھرین کو بتایا کہ میں ا س کی مدد کرنے آیا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہاں ہاں۔مجھے آسانی ہوجائے گی۔کئی دفعہ تو ہمیں کافی دیر ہوجاتی ہے لوگوں کو بیان کرنے میں کہ کیا کرنا ہے‘‘۔
میں مقصود کو اس چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔ میرے پاس وہ لوہے کی جیکٹ بھی تھی۔ اور نیچے باندھنے والا بھی تھا۔ میں منہ دوسری طرف کرکے بیٹھ گیا۔ اس نے سارے کپڑے اتارے۔ میں نے منہ موڑے ہی کہا، ’’انڈر ویئر نہ اتارنا باقی سب کچھ اتاردو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں نے انڈر ویئر تو پہنا ہی نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’جو بھی ہو۔ پہلے یہ جیکٹ پہن لو۔ اس کے بعد اپنے نیچے والے حصے پے یہ چیز باندھ لو ‘‘۔
اس نے میری ہدایت پے عمل کرتے ہوئے جیکٹ بھی پہن لی اور وہ چیز نیچے بھی باندھ لی۔ کہنے لگا، ’’اس کا بڑا وزن ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ظاہر ہے ۔اس کے اندر لوہا ہے،وزن تو ہوگا‘‘۔
میں نے کیتھرین کو فرنچ میں مقصود کی حالت بتائی۔وہ کہنے لگی میری لیئے کوئی نئی بات نہیں۔ اسے کہو کے جلدی سے اس بستر پے لیٹ جائے۔ مقصود کے بستر پے لیٹنے سے پہلے اس نے بستر پے ایک نئی کاغذ کی بنی چادر بچھا دی۔ مقصود اس پے لیٹ گیا۔ اس نے جلدی جلدی مقصود کا ایکسرے کیا۔ پھر مجھے کہنے لگی، ’’اسے بتاؤ کہ اس کا شگر لیول ہائی ہے۔اس کی عمر اتنی نہیں لیکن یہ چیز اس عمر میں نہیں ہونی
چاہیئے‘‘۔
میں نے مقصود کو بتایا، ’’تمہارا شگر لیول ہائی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’اس سے کیا ہوگا۔اب میں یہاں رک سکتا ہوں‘‘۔
میں نے کیتھرین سے پوچھا، ’’اس کو یہاں رکنا ہوگایا اسے کچی کرائس بھیج دیں گے‘‘۔
کہنے لگی، ’’نہیں ہم اسے گولیاں دے رہے ہیں ۔تم اسے استعمال کا طریقہ بتا دینا۔ اس کا علاج ونہی ہوگا جہاں یہ جارہا ہے۔ عین ممکن ہے اس کو زیورک بھیج دیں‘‘۔
میں نے مقصود کو یہ بری خبر سنائی، ’’تمہیں یہاں سے جانا ہوگا۔ یہ تمہیں دوائی دیں گے۔ استعمال کا طریقہ میں بتا دوں گا‘‘۔
مقصود کی شکل رونے والی ہوگئی۔ میں نے کہا، ’’کیا مسئلہ ہے۔ لوگ شکر کرتے ہیں کہ انہیں اس جیل سے نجات ملے اور تم یہاں سے جانا
نہیں چاہتے‘‘۔
کہنے لگا، ’’تم نے وہ عورت دیکھی ہے جس کے ساتھ میں نے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں مجھے پتا ہے تم اس سے روز ملتے ہوں‘‘۔
مقصود بولا، ’’میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بھی راضی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو مسئلہ کیا‘‘۔
وہ بولا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ وہ جرمن ہے۔ مجھے اس کے ساتھ جرمنی جانا ہوگا۔بڑا لمبا کام ہوجائے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم کچی کرائس چلے جاؤ۔ وہاں سے اس کو فون کردینا ۔اس کے بعد جو بھی کرنا ہوا کرلینا‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے ڈر لگتا ہے اگر میں چلا گیا تو میں اس کو کھو دوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر وہ تم سے پیار کرتی ہے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے
گی‘‘۔
مقصود بولا، ’’پیار کیا خاک کرتی ہے۔ بس اسے ایک ہی کام کا شوق ہے۔اب تو میری ٹانگو ں اور کمر بھی درد ہونے لگاہے‘‘۔
کیتھرین بولی، ’’تم نے اسے بتا دیا ہے کہ اس کا شگر لیول ہائی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں میں نے بتا دیا‘‘۔
کیتھرین بولی، ایک بات پوچھو‘‘۔
میں نے کہا، ’’پوچھو‘‘۔
وہ بولی، ’’تم یہاں کیا کررہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ میں بھی نہیں جانتا‘‘۔
ہمارا سارے ٹیسٹ ہوچکے تھے۔ مجھے اور مقصود کو فارغ کردیا گیا۔کیتھرین کہنے لگی، ’’اب شام کو تمہارا آخری چیک اپ ہوگا۔ پھر تمہیں کچی کرائس بھیج دیا جائے۔ میرا خیال کل تمہیں جانا ہوگا‘‘۔
میں نے اور مقصود نے لاورا اور کیتھرین کو خدا حافظ کہا۔ ا س کے بعد وہی عورت جو ہمیں یہاں لے کر آئی تھی وہ ہم دونوں کو اس ہال میں چھوڑ آئی ۔وہاں کھانے کی تیاری ہورہی تھی۔ رضا اور سالواتورے مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔میں نے انہیں اپنا بازو دکھایا ۔رضا بولا، ’’یہ کیا ہے‘‘؟
میں نے کہا، ’’یہ ایپی ٹائیٹس کے بچاؤ کے لیئے ٹیکہ ہے۔ ایسا عین ممکن ہے کہ کل مجھے یہاں سے بھیج دیا جائے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’تمہیں اس جہنم سے نجات مل جائے گی‘‘۔
رضا کہنے لگا، ’’یہ تو بہت بری خبر ہے۔ اب تو بہت بوریت ہوگی‘‘۔
میں نے کہا، ’’جلدی تم لوگوں کا بھی نمبر آجائے گا۔اب جلدی ہی سارا دفتر یہاں سے شفٹ ہونے والا ہے‘‘۔
رضابولا، ’’جتنی جلدی ہوجائے اچھا ہے۔یہاں تو دوزخ کی طرح
لگتا ہے‘‘۔
کھانا تقسیم کرنے والا عملہ آگیا ۔ ہم لوگوں نے میزکھول کھول کے رکھنے شروع کردیئے۔ پھر بہت سے لوگ ۔بچے، عورتیں، مرد ۔برتنوں کی آواز، چمچوں کی کھنکھناہٹ ۔لوگوں کے کھانا کھانے کی آواز۔ پانی کے گلاس اور جگ ٹکرانے کی آواز۔ کھانا کھاتے ہوئے رضا بولا، ’’تمہیں کہاں بھیج رہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ، ’’یہ تو کل پتا چلے گا۔ شام کو ڈاکٹر یا نرس چیک کرنے آئے گی‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’اس کا مطلب ہے تم رک بھی سکتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔
کھانا کھاکے ہم سب نے جلدی جلدی برتن اکھٹے کیئے۔ پلیٹیں ،گلاس ،سب چیزیں اکھٹی کیں۔ میں ہمیشہ کی طرح کچن میں چلا گیا ۔کچن
کے عملے کی مدد کی۔ برتن دھوئے۔ برتن سکھانے میں ان کی مدد کی۔ پھر اس عورت نے مجھے ہمیشہ کی طرح کچھ کھانے کو دیا۔ میں نے سالواتورے کے لیئے کافی کی فرمائش کی۔ اب ایک ہفتے میں میری اتنی جان پہچان ہوگئی تھی کہ کچن کا عملہ میری کوئی بات بھی رد نہیں کرتا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکی نے کافی بنا کے دی۔ میں نے کافی کا کپ اٹھایا اور سالواتورے کے پاس آگیا۔ سالواتورے نے مجھے تشکر امیز انداز میں دیکھا۔ پھر کہنے لگا، ’’اگر کل تم چلے گئے تو مجھے کافی کون لاکر دیا کرے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ بہت آسان ہے۔ تم کچن میں ان کی مدد کروادیا کرنا ۔اس کے بدلے وہ تمہیں کافی دے دیا کریں گے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں کوشش کروں گا لیکن یہ تھوڑا مشکل کام ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر کافی پینی ہے تو قربانی تو دینی پڑے گی‘‘۔
رضا بولا، ’’ویسے فرشتہ تمہاری بڑی ہمت ہے۔تم خود کو مصروف رکھنے کے لیئے کیسے کیسے کام کرتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں پے انسان کیا کرے۔ سارا دن بندہ باتیں بھی تو نہیں کرسکتا‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ تو ہے‘‘۔
میں ان دونوں سے باتیں کررہا تھا۔ میرے پاس مقصود آیا۔کہنے لگا، ’’تم میرے ساتھ جھیل پے جاسکتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’مسئلہ کیاہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں تمہاری ملاقات اس عورت سے کروانا چاہتا ہوں۔ تم اسے سمجھانا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ میں تمہاری کوئی مدد کرسکوں گا‘‘۔ میں نے رضا اور
سالواتورے سے اجازت لی اور مقصود کے ساتھ ہولیا۔ ہم دونوں نے اپنا اپنا کارڈ سیکیورٹی گارڈ کو دکھایا اور اس ہال سے باہر نکل آئے۔ ہم اس گند ے نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ پھر سٹیشن آیا۔ اسکے بعدآگا تھو والوں کا دفتر آیا۔ پھر ہم لوگ جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ ہم لو گ جھیل کے کنارے چلنے لگے۔ آج یہا ں زیادہ رش نہیں تھا۔ دور ایک کونے میں درخت کے نیچے ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے اور مقصود کو آتے دیکھا تو کھڑی ہوگئی۔ مقصود اس کے پاس پہنچا تو اسے گلے لگا لیا۔ پھر اسے اپنا بازو دکھایا۔ ا س نے جرمن میں کچھ کہا۔ میں ان کے پاس چلا گیا۔ میں نے انگریزی میں اپنا تعارف کروایا۔ پھر مجھے جس طرح مقصود نے بتایا تھا ۔اس کو تفصیل سے بتا دیا۔ وہ رونے لگی۔ کہنے لگی، ’’میں مقصود کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔یہ میرے ساتھ جرمنی بھاگ جائے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ اس کا کیس بگڑ جائے گا‘‘۔ تم اپنا موبائیل نمبر دے دو ۔یہ جہاں بھی جائے گا تمہیں اپنا پتا دے دے گا۔ تم اس سے رابطہ قائم کرلینا‘‘۔
کہنے لگی ،’’جانا کب ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’شاید کل‘‘۔
’’کتنے بجے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو کل ہی پتا چلے گا‘‘۔
کہنے لگی، ’’کل میں صبح آٹھ بجے کرائس لنگن کے ریلوے سٹیشن پے آجاؤں گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت ہے ۔اگر بہت بھی جلدی ہوا تو ہم لوگ گیارہ بجے نکلے گیں‘‘۔
وہ کہنے لگی ،’’یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے یہا ں رہتے ہوئے دس دن ہوچلے ہیں ۔روز کوئی نا کوئی جاتا۔ ہمیشہ اسی وقت جاتے ہیں ۔ اس لیئے مجھے پکا یقین ہے یہی وقت ہوگا‘‘۔
کہنے لگی، ’’تو ٹھیک ہے میں ٹھیک دس بجے سٹیشن پے آجاؤں گی‘‘۔
میں نے مقصود سے کہا، ’’میں نے سب سمجھا دیا۔ کل یہ دس بجے ریلوے سٹیشن پے آجائے گی‘‘۔
اس کے بعد میں نے ان دونوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔ انہوں نے مجھے جاتے ہوئے دیکھا تو اسی درخت کی اوٹ میں چلے گئے جہاں وہ عورت پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ میں جھیل کے کنارے کنارے چلتا رہا۔ اب میرا اس جھیل میں نہانے کو بالکل دل نہ کرتا تھا۔ جب سے میں نے اس سے کتے کو نکلتے دیکھا تھا۔ ہمیشہ کی
طرح میں جھیل میں پانی کی روانی پے چلتے ہوئی کشتیوں کے دیکھتا ر
ہا۔ ان کے رنگ برنگی بادبان بہت ہی بھلے لگتے تھے۔ آج مجھے وہ سفید سوانز نہ نظر آئیں جن کو دیکھ کے مجھے کھچورا جھیل کی کالی سوانز یاد آگئی تھیں۔ آسمان کا رنگ بھی نیلا تھا اورنیچے جھیل کے پانی کا رنگ بھی نیلا نظر آرہا تھا۔ آسمان پے اکا دکا بادل کے ٹکڑے اِدھر اْدھر منڈلا رہے تھے۔ مجھے مناظر فطرت بہت بھلے لگتے ہیں اور اس وقت بھی یہ سارا منظر مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں یہاں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ جب میں ہفتے کے دن رات کو ساڑھے گیارہ بجے کرائس لنگن ریلوے سٹیشن پہنچا تھا تو اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اس چھوٹے سے شہر کے بارے میں اتنا کچھ جان لوں گا۔ اس وقت تو مجھے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔ میرے سامنے سارا منظر فلم کی طرح چلنے لگا۔ میں کس طرح سٹیشن کے ایک طرف چلا گیا تھا پھر دوسری طرف۔ اس کے بعد ٹیکسی ڈرائیوروں سے ازیل
ہائم کا پتا پوچھا تھا۔ پھر میں انٹرنیٹ کیفے میں چلا گیا تھا۔ میں نے اپنا موبائیل فون بھی وہاں چھوڑا ہوا تھا۔ پتا نہیں اس نے اپنے پاس رکھا ہوگا یا پھینک دیا ہوگا۔ موبائیل اتنا قیمتی نہیں تھا بس اس میں چند ضروری ٹیلی فون نمبر تھے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ میں انٹرنیٹ کیفے سے پھر سٹیشن کی دوسری طرف آگیا تھا۔ گندے نالے کے پاس۔ پہلے دو دن، ہفتے اور اتوار کی رات تو بہت مشکل سے کٹی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی وقت بھی میرا دم گھٹ جائے گا اور مر جاؤں گا۔ پھر فنگر پرنٹس ہوئے، تصاویر اتاری گئیں۔ انٹر ویو ہوا، پیشاب اور خون کا ٹیسٹ ہوا۔ آج ایکسرے ہوا، ایپی ٹائیٹس سی اور بی سے بچاؤ کا ٹیکہ بھی لگ گیا تھا۔ اب کچھ نہیں بچا تھا۔ ہمارا یہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بس شام کو نرس نے آکے ہمارے بازو دیکھنے تھے۔ میں ان نو دنوں میں کتنے لوگو ں سے مل چکا تھا۔ مجھے جادونِ
چکوچان بھی یاد آیا۔ وہ انگولا کا لڑکا بھی یاد آیا ۔میری آنکھوں کے سامنے اس کا جامنی رنگ کے نشانوں کا چہرہ آگیا۔ اس کو نہ جانے سوس پولیس نے کتنا مارا تھا۔ بیچارہ جب واپس آیا تھا تو چل بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر وہ جرمن موٹر میکینک، اٹالین اخبار نویس۔ سب سے کمال کی شخصیت جس سے میں اب تک ملا تھا وہ رضا تھا۔ اس نے مجھے اس بات کا احساس دلایا تھا کہ میں جو خود کو بہت زیادہ صاحبِ علم سمجھتا ہوں ،کچھ بھی نہیں ہوں۔ رضا کے علم کے سامنے میرا علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ اتنا کچھ جانتا تھا مجھے ایسے لگنے لگا جیسے وہ چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیاء ہو بلکہ وہ تو مائیکروپیڈیاء تھا۔ بات کو اتنی باریکی سے بتاتا کہ کچھ پوچھنے اور بولنے کی گنجائش ہی نہ رہتی ۔اب مجھے کل کون سی کنٹون میں بھیجیں گے یہ میں نہیں جانتا تھا لیکن میں یہ ضرور جانتا تھا آج کی رات میری آخری رات ہے ۔میرا مطلب ہے
کرائس لنگن میں۔
کسی نے میرے کندھے کو زور زور سے ہلایا۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو مقصود کھڑا تھا۔ کہنے لگا، ’’واپس نہیں چلنا۔ دو گھنٹے پورے ہونے والے ہیں ۔ دس پندرہ منٹ تو پہنچنے میں لگ ہی جائیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے اپنا کام کرلیا‘‘۔
’’ہاں کرلیا۔ کل ریلوے سٹیشن پے آئے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سی کنٹون ہوگی‘‘۔
مقصود بولا، ’’میری زیورک ہی ہوگی کیونکہ جو لوگ کرئس لنگن ازیل ہائم میں آتے ہیں ان کو ایسی کنٹون میں بھیجا جاتا ہے جہاں جرمن بولی جاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ مجھے اس موٹے لڑکے نے بتایا جس کا چاچا گجرات کا
سابقہ ایم پی اے تھا‘‘‘۔
میں نے کہا، ’’چلو دیکھتے ہیں‘‘۔
ہم دونوں تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ازیل ہائم پہنچے۔ وہاں پہنچے تو سیکیورٹی گارڈ شور کررہا تھا۔ کہنے لگا۔ تم دونوں کہاں چلے گئے تھے۔ نرس دو دفعہ تمہارا پوچھ چکی ہے۔
ہم دونوں سرجھکائے اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اتنی دیر میں کیتھرین نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں وہی نیلے رنگ کا بورڈ تھا جس پے کچھ کاغذ لگے ہوئے تھے۔ آتے ہی اس نے ہم دونوں کے بازو دیکھے۔ نہ میرے بازو پے لال نشان تھا نہ ہی مقصود کے بازو پے کسی قسم کا نشان تھا۔ وہ کہنے لگی، ’’تم دونوں کو متلی تو نہیں ہوئی یا ہورہی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نہیں خیال ‘‘۔
کہنے لگی، ’’اس کا مطلب ہے کل تم دونوں کنٹون جارہے ہو‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’کون سی کنٹون بھیجیں گے‘‘۔
کہنے لگی ، ’’یہ تو میں نہیں جانتی لیکن میرے خیال ہے زیورک کے آس پاس ہی بھیجیں گے‘‘۔
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا۔ اس کا مطلب ہے مقصود کا اندازہ ٹھیک تھا۔
میں نے معلومات میں اضافہ کرنے کے لیئے پوچھا، ’’ویسے کیتھرین کسی کی ریپورٹ میں کوئی مسئلہ بھی آیا ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہاں ،دو افریقن لڑکوں کا ایچ آئی وی پوزیٹو (HIV positive)نکلا ہے۔ ایک کو ایپی ٹائیٹس سی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا،’’اب کیا ہوگا‘‘۔
کیتھرین دکھ بھرے انداز میں بولی، ’’ایڈز والوں کا کوئی حل نہیں البتہ
ایپی ٹائیٹس والا لڑکا ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
اپنی تسلی کرکے کیتھرین چلی گئی۔ مقصود کہنے لگا، ’’کیا کہتی ہے‘‘۔
’’یہی کہتی ہے کہ کل ہمیں یہاں سے جانا ہے ۔ہماری تمام ریپورٹس اوکے ہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’کہاں بھیجیں گے‘‘۔
’’وہی جو تم نے کہا تھا۔ زیورک کے آس پاس ‘‘۔
ہم دونوں ہال میں داخل ہوئے۔شام کے کھانے کی تیاری ہورہی تھی۔ رضا اور سالواتورے ایک کونے میں سرجوڑے بیٹھے تھے۔ اب دونوں کے رویئے میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔ جب کھانا تقسیم ہونے کا اعلان ہوا تو دونوں ایک دم اٹھے اور میزیں کھولنے لگے لمبے لمبے بینچ سیدھے کرنے لگے۔ مجھے دیکھتے ہی رضا بولا، ’’کہاں چلے گئے تھے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں جھیل کے کنارے گیا ہوا تھا۔تمہارا کیا بنا۔ فنگر پرنٹس ہوگئے ۔تصاویر بنوالیں‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’ہاں ایک کام تو ہوا۔ اب انٹر ویو باقی ہے ۔اس کے بعد ہمیں بھی دو گھنٹے صبح دو گھنٹے شام کو باہر جانے کی آزادی ہوگی‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن میں تو کل جارہا ہوں‘‘۔
رضا کہنے لگا، ’’سچ مچ جارہے ہو یا مذاق کررہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کل جارہا ہو۔ تم دونوں کو اپنا ای میل ایڈریس دے کر جاؤں گا۔ رابطے میں آسانی رہے گی‘‘۔
رضا بولا، ’’ٹھیک ہے۔ آج کھانے کے بعد جب ہمیں گارنیگے ہوٹل ٹرانسفر کریں گے تو وہاں جاکے ٹیرس میں خوب گپ شپ لگائیں گے۔ پتا نہیں بعد میں ملاقات ہو نا ہو‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’ہاں آج بھی کوئی ادبی موضوع رکھے گیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’چھوڑو یار ادب کو۔ کوئی اور بات کرے گے‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ سب تو بعد میں دیکھا جائے گا۔ اب قطار میں کھڑے ہوجاؤ۔ کھانا تقسیم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ہم تینوں بھکاریوں کی طرح قطار میں کھانا لینے کے لیئے کھڑے ہوگئے۔ اب رضا اور سالواتورے کو بالکل بھی عجیب نہ لگتا۔ دونوں نے کوئی بات نہ کی۔ جو لڑکی کھانا تقسیم کررہی تھی اس کے سامنے اپنی اپنی پلیٹ کردی۔ ہم تینوں کھانا لیکر ان لمبی لمبی میزوں پے آگئے جن کو ہم نے چند لمحے پہلے کھولا تھا۔ کھانے کے دوران رضا بولا، ’’ایک بات پوچھوں اگر برا نہ لگے‘‘۔
میں نے کہا، ’’پوچھو‘‘۔
’’تم اس لڑکے کے ساتھ جھیل پے گئے تھے۔ وہ شکل سے بڑا پریشان
لگ رہا تھا ۔کوئی خاص مسئلہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں پیار کا مسئلہ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کاغذات کا مسئلہ ہے‘‘۔
رضابولا، ’’او میں اب سمجھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ کل ہم جارہے ہیں ۔نرس نے اوکے کی ریپورٹ دے دی ہے۔ ابھی جب ہم گارنیگے ہوٹل جائیں گے تو وہاں جن لوگوں کو کچی کرائس بھیجا جائے گا ان کی لسٹ لگی ہوئی ہوگی یا شام تک لگا دیں گے۔ اب اس لڑکے کا مسئلہ یہ ہے کہ جس لڑکی سے یہ جھیل کے کنارے ملا ہے وہ جرمن ہے اور یہ محترم کوئی بھی زبان نہیں جانتے ۔اشاروں کی زبان سے گزارا چلاتے ہیں اس کے علاوہ اپنی جنسی طاقت استعمال کرتے ہیں جو بقول ان کے کم ہوتی جارہی ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میری مدد کی ضرورت ہے تو میں تیار ہوں‘‘۔
ہم تینوں زور سے قہقہا لگایا۔ آس پاس بیٹھے لوگ ہمیں دیکھنے لگے۔ مقصود اور وہ موٹا لڑکا جس کا چاچا گجرات کا سابقہ ایم پی اے تھا وہ مقصود کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ہم لوگوں نے کھانا ختم کیا اس کے بعد وہی پیلے رنگ کا قہوہ جس میں میں چینی کے چار پانچ چمچ ڈال کے پی لیا کرتا۔ رضا اور میں تو پی لیا کرتے لیکن سالواتورے کے لیئے مسئلہ ہوتا۔ اس کے لیئے میں آج بھی کچن سے جاکے کافی لے آیا ۔وہ بہت حیران ہوتا جب میں اس کے لیئے کافی لے کر آتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک ہوتی جیسے کسی بچے کو کھلونا مل جائے یا اس کی خواہش پوری ہوجائے۔ اس کے بعد ہم تینوں جاکے باغ میں بیٹھ گئے جو کہ اس گندے نالے کے کنارے تھا ۔جس سے اب بو نہیں آتی تھی۔ ان دس دنوں میں نے نوٹ کیا کہ گھاس کافی حد تک
جل چکی تھی۔ ہمیں یہاں بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی ہو گی کہ سیکیورتی گارڈ نے آکے اعلان کیا کہ سب کو گارنیگے ہوٹل منتقل کیا جارہا ہے۔ پھر وہی ٹیوٹا وین تھی جس میں ہم روز جاتے تھے۔ آج اس وین کا ڈرائیور وہی موٹا آدمی تھا جس نے مجھے پہلے دن اس جگہ بٹھایا تھا جہا ں وہ کتے کو بٹھایا کرتا تھا۔ آج بھی جب وین بھر گئی تو اس نے رضا کو کتے والی جگہ بیٹھنے کو کہا۔ میں نے رضا کو پکڑ کے ایک طرف کردیا اور کہا، ’’یہاں مت بیٹھنا ۔یہ جگہ کتے کے بیٹھنے کی ہے۔ ویسے بھی اسے اس کام کے پیسے ملتے ہیں۔ یہ ایک چکر زیادہ لگا لے گا‘‘۔
اس موٹے کو میری بات سمجھ نہ آئی لیکن وہ یہ جان گیا کہ میں نے رضا کو منع کیا۔ اس دوران سیکیورٹی گارڈ قریب آگیا تو۔وہ کہنے لگا۔ کیا مسئلہ ہے ۔میں نے اس کوساری تفصیل بتائی۔ اس نے ڈرائیور کو کہا۔ یہ ٹھیک کہتا ہے۔ ڈرائیور کو بہت غصہ آیا۔ مجھے گھو ر گھور کے دیکھنے لگا۔
ٹیوٹا وین سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ میں رضا اور سالواتورے ہم اگلے اور آخری پھیرے کا انتظار کرنے لگے۔ کافی دیر بعد وہ موٹا ڈرائیور ٹیوٹا وین لے کر آیا ہم تینوں مزے سے پچھلی سیٹوں پے بیٹھ گئے ۔وہ ڈرائیور اتنے غصے میں تھا کہ اس نے ہم تینوں کو جرمن زبان میں بے شمار گالیاں دیں۔ مجھے ایک ہی بات سمجھ آئی۔ شائیزے، آشلوکھ۔ان دس دنوں میں جرمن زبان کی یہ دو گالیاں سیکھی تھیں۔میں نے رضا اور سالواتورے کو نہ بتایا ورنہ ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتا۔ قانوناًتو ہم اس پے گالیاں دینے کا مقدمہ کرسکتے تھے لیکن آج جو کچھ اس کے ساتھ ہوگیا تھا کافی تھا۔ میرے خیال میں یہ موٹا بہت زیادہ تعصب پسند تھا۔ وہ غصے سے وین کا سٹیئرنگ موڑتا ہوا ہمیں گارنیگے ہوٹل لے آیا۔ جب اس نے انجن سوئچ آف کیا اور وین سے اتر کے کھڑا ہوگیا۔ اب وہ ہمارا انتظار کررہا تھا کہ ہم اتریں
تو وہ جائے۔ ہم لوگ شرارتاًوین میں بیٹھے رہے اس نے تھوڑا سا انتظار کیا اس کے بعد وین کا سلائیڈنگ ڈور کھولا اور غصے سے کہنے لگا، ’’بتے‘‘۔ اس نے بتے اس انداز میں کہا جیسے کہہ رہا ہو،شائزے۔ ہم تینوں مسکراتے ہوئے وین سے اترے اور اس کہا، ’’فیلن دانک یعنی بہت شکریہ‘‘۔ اس نے بنا جواب دیئے وین کا سلائیڈنگ ڈور بند کیا ۔ڈرائیونگ سیٹ پے بیٹھا اور وین لے کے چلا گیا۔ مجھے اس بات کا تجسس تھا کہ میں جلدی سے ڈائیننگ ہال میں جاؤں۔ جہاں ٹرانسفر کی لسٹیں لگتی ہیں وہ جا کے دیکھوں۔یہاں سیکیورٹی گارڈ نے ہمیشہ کی طرح ہمیں چیک کیا اس کے بعد ہم ایک ایک کرکے سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ راستے میں کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سب سے پہلے اپنی مخصوص جگہ جاکے شاور لیا۔ میرے نقشے قدم پے چلتے ہوئے رضا اور سالواتورے نے بھی شاور لیا۔ نہا دھو
کے جب ہم فارغ ہوئے تو میں نے کہا، ’’چلو ٹیرس پے چلتے ہیں‘‘۔ ابھی شام کے ساڑھے سات بجے ہوں گے لیکن باہر دن کی طرح کا سماں تھا۔
رضا بولا، ’’تم نے یہ دیکھنا ہوگا کہ تمہارا لسٹ میں نام ہے کہ نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کہہ سکتے ہیں‘‘۔
ہم تینوں اندر کی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے ٹیرس پے آگئے۔ میں نے نوٹس بورڈ پے جاکے لسٹیں دیکھیں۔کچی کرائس والی لسٹ میں میرا بھی نام تھا۔ لیکن یہاں یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ کرائس کون سی ہے۔ میں نے آکے رضا اور سالواتورے کو بتایا، ’’میرا نام لگ گیا ہے۔ کل میں جارہا ہوں‘‘۔
میں جب لسٹ میں اپنا نام دیکھ رہا تھا مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے امتحانات کا نتیجہ نکل آیا ہو اور میں یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ میں پاس ہوں
یا فیل۔ رضا کہنے لگا، ’’تم ہمیں چھوڑ کے جارہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم لوگ بھی یہاں تھوڑی ہی رکو گے۔ چند دنوں میں تمہیں بھی یہاں سے جانا ہوگا‘‘۔
سالوارتورے بولا، ’’میں تو شکر کروں گا اس جہنم سے جان چھوٹے گی‘‘۔
رضا بولا، ’’تم کہا جارہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’بس وہاں کنٹو ن ٹرانسفر لکھا ہوا ہے۔ جگہ کا نام نہیں لکھا ہوا‘‘۔
مقصود ہانپتا ہوا آیا، ’’تم نے دیکھا ہے میرا نام بھی لسٹ میں ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے غور نہیں کیا‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے تو لگتا تھا کہ مجھے یہاں روک لیں گے۔ اور انہوں نے جگہ کا نام بھی نہیں لکھا۔ تم ان سے پوچھ کے بتاؤ کہ ہم لوگ کہاں
جارہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم کہتے ہو تو میں پوچھ لیتا ہوں لیکن سیکیورٹی گارڈ کو کچھ نہیں پتا ہوتا‘‘۔
میں نے رضا اور سالواتورے سے اجازت لی اور سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا کہ کل ہمیں یہاں سے ٹرانسفر کررہے لیکن اس پے لکھا نہیں کہ کہاں بھجیں گے‘‘۔
کہنے لگا ،’’میں یہ تو نہیں جانتا کہ کہاں بھیجیں گے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تم لوگوں کو زیورک کنٹون میں ہی رکھا جائے گا۔ اس کے آس پاس ونٹرتھور(Winterthure)، اوربیول(Ohrbuhl) اور اورلیکون (Orlekon)ہیں ۔ اس کے علاوہ اور چھوٹی چھوٹی جگہیں ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تم کیسے جانتے ہوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہم جس ایجنسی کے لیئے کام کرتے ہے سیکیورتاس ۔تم نے نا م پڑھا ہوگا۔ ان کا ہیڈ آفس زیورک میں ہے۔ ہماری ڈیوٹی ان تمام جگہوں پے لگتی رہتی ہے۔ اس لیئے مجھے پتا ہے کہ کون کو ن سی جگہیں ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت شکریہ‘‘۔
میں نے آکے مقصود کو بتایا، ’’وہ کہتا ہے اسے نہیں پتا لیکن اس کا ندازہ ہے کہ ہمیں زیورک بھیجا جائے گا‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں اس لڑکی کو کیسے بتاؤں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارے پاس اس کا موبائیل نمبر ہے‘‘۔
کہنے لگا،’’ہاں ہے‘‘۔
’’ جب ہم ازیل ہائم سے نکلے گیں تو اس کو فون کردیں گے‘‘۔
وہ کہنے لگا ،’’مجھے تو زبان نہیں آتی ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بات کروں گا۔ اس کو سمجھا دوں گا‘‘۔
وہ تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا، ’’کل ملتے ہیں‘‘۔
وہ چلا گیا اور ہم تینوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔ آج ٹیرس کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کافی گرمی تھی اس لیئے سارے لوگ ٹیرس کا رخ کررہے تھے۔ مجھے لوگ آکر مبارک دے رہے تھے کہ میں کچی کرائس میں جارہا ہوں۔ ایک شخص جو کسی ایسٹرن یورپیئن ملک کا تھا مجھے کہنے لگا۔ تمہیں اگر زیورک بھیجا گیا تو تم بڑی جلدی کوئی نا کوئی لڑکی پھنسا لو گے۔ میری رائے ہے وہاں ڈسکو تھیک ضرور جانا ۔اگر تمہیں ڈانس آتا ہے تو لڑکیاں تمہارے آگے پیچھے ہوں گی۔تم چند دنوں میں کابریو (ایک قسم کی کار)میں گھوموں گے۔ وہ مجھے بیٹھے بیٹھے بڑے بڑے سپنے دکھا رہا تھا۔ رضا اور سالواتورے بولے ،’’تم تو یہاں کافی مشہور
ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ان میں سے چند مجھے دس دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ جان گئے ہیں کہ میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتا نہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تم تین یورپیئن زبانیں جانتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’شاید یہ وجہ ہوسکتی ہے‘‘۔
رضا کہنے لگا ، ’’دل تو چاہتا ہے کہ ساری رات بیٹھ کے باتیں کرتے رہیں لیکن ابھی سیکیورٹی گارڈ آجائے گا اور کہے گا کہ ٹیرس خالی کردو‘‘۔
رضا کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ سیکیورٹی گارڈ آگیا اور کہنے لگا، ’’ٹیرس خالی کردو‘‘۔
میں نے کہا، ’’رضا لگتا ہے اس نے تمہاری آواز سن لی ہے‘‘۔
ہم سب نے آہستہ آہستہ اٹھنا شروع کیا۔
رضا اور سالواتورے یک زبان ہوکر بولے، ’’صبح ملاقات ہوگی یا ایسے ہی چلے جاؤ گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ظاہر ہے۔ ہم لوگ ناشتہ اکھٹے کریں گے۔ اس کے بعد جانا ہوگا۔ میرا خیال ہے دس بجے نکلے گیں‘‘۔
سیکیورٹی گارڈ نے شور کرنا شروع کردیا۔ جلدی جلدی کرو۔ہم سب نے مل کے کرسیاں اکھٹی کیں اور ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے جہاں ایک ایک کمرے سولہ سولہ بندے سوتے ہیں۔ میں اپنے کمرے میں پہنچتے ہی دوسری منزل پے اپنے بستر پے پہنچ گیا۔ میری پوری کوشش تھی کہ مجھے جلدی نیند آجائے لیکن نیند کوسوں دور تھی۔ مجھے یہاں سے جانا تھا ایسا لگتا تھا جیسے میں کسی جنت میں چلا جاؤں گا۔ میری دنیا بدل جائے گی ۔مجھے نہیں پتا تھا کہ
مجھے کہاں بھیجا جائے گا۔ یہ کل پتا چلنا تھا۔ میں اس انٹرنیٹ کیفے کے بارے میں سوچنے لگا جہاں میں اپنا موبائیل فون چھوڑ کے آیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کل جب میں جاؤں گا تو سٹیشن پے جانے سے پہلے میں اس نیٹ کیفے سے اپنا موبائیل بھی لے لوں ۔پتا نہیں کتنے بندے میرے ساتھ ہوں گے۔ پتا نہیں جاسکوں گا کہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment