Sunday, June 9, 2013

لائبہ میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ


لائبہ


لائبہ میریوٹ
(MARRIOTT)
کے سوئمنگ پول سے سوئمنگ کوسٹیوم
(swimming costume)
میں ملبوس باہر نکلی اور پول کے کنارے رکھی لمبی لمبی کرسیوں میں سے ایک پر، جو اِک کونے میں رکھی تھی، پر تولیہ بچھا کر لیٹ گئی۔ اس کے گیلے بال، جن کا اصلی رنگ تو کالا تھا لیکن لائبہ نے انہیں سنہرے رنگ سے اس طرح رنگا تھا کہ وہ بلونڈ
(blonde)
دِکھتے تھے، زمین کو چھو رہے تھے اور اس کا چہرہ اور جسم کی دیگر خوبصورتیاں سورج کی تمازت کا مزہ لے رہی تھیں۔ جسے انگریز سن باتھ
(sun bath)
یعنی غسلِ آفتابی کا نام دیتے ہیں۔ ابھی بمشکل چند ساعتیں ہی گزریں ہوں گی کہ لائبہ کے موبائیل فون
(mobile phone)
کی گھنٹی بجناشروع ہوگئی۔ اُس نے جَھلا کے موبائیل فون اٹھایا۔ نمبر اس کے والد صاحب کا تھا۔ مجبوراً اُسے سننا پڑا۔ اس نے بڑے انداز سے کہا،
’’جی پاپا‘‘
’’بیٹاتم کہاں ہو‘‘
’’جی میں سوئمنگ کے لیے آئی ہوئی تھی لیکن اب گھر کے لیے نکلنے ہی والی ہوں۔ بتائیں کیا کام ہے‘‘ ؟ ’’بس کچھ خاص نہیں۔ تمہاری خیرت دریافت کرنی تھی اور
how do you feel now? ‘‘
’’بس پا پا آپ بھی نا۔ میں کیا اب بچی ہوں۔ بڑی ہوگئی ہوں۔
i am adult now‘‘
’’میں جانتا ہوں لیکن میرے لیے تو تم اب بھی بچی ہی ہو‘‘
’’پاپا، پاپا میری بات سنیں۔ آج میں آپ سے کسی کو ملوانا چاہتی ہوں‘‘۔
’’کون ہے بھئی وہ ۔۔۔ہم بھی تو جانیں‘‘
’’وہ میرا دوست ہے‘‘
’’کیا کرتا ہے‘‘
’’میرے ساتھ پڑھتا ہے۔
he has same subject like me, anthropomorphism‘‘
"ok you can bring him home"
’’پاپا ایسا نہیں لگتا کہ کوئی ٹی وی ڈارمہ چل رہا ہو یا کوئی انڈین فلم، ٹپیکل
(typical)
انداز میں آپ اُسے اِنوائیٹ
(invite)
کررہے ہیں۔ جیسے میں اس سے شادی کرنے جارہی ہوں۔
he is just a friend
اور کبھی آپ سے ملواؤں گی‘‘
’’اُو کے بھئی غلطی ہوگئی۔ جب تمہارا دل چاہے ملوادو، بس مجھے بتادینا، کیونکہ تمہیں پتا ہے کہ میں کاروبار میں کتنا مصروف ہوتا ہوں۔ اچھا بیٹا خدا حافظ! میرے موبائیل کی بیٹری لُو
(battery low)
ہوگئی ہے‘‘َ ۔
اور اس کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔
ژ
لائبہ اور مستنیر محمد علی جناح یونیورسٹی میں اس طرح ساتھ ساتھ دیکھے جاتے جیسے ان کو کوئی جدا نہ کرسکے گا۔ اس پر طرہ یہ کہ دونوں یونیورسٹی کے لائق ترین سٹوڈنٹ تھے۔ اینتھروپومورفزم (
anthropomorphism)
پڑھتے پڑھتے دونوں قریباً اینتھروپوموفسٹ
(anthropomorphist)
بن چکے تھے۔ انسانوں کی جانچ بڑیجلدی کرلیتے تھے۔۔۔ دونوں کو اس بات کا اندازہ نہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے ہیں۔ جھگڑے، دوستی، کھانا پینا، لباس پر تنقید، کتابیں، نوٹس، ای میل
(e,mail)
، چیٹنگ
(chatting)
، موبائیل، ہر چیز نے ان دونوں کو جکڑا ہوا تھا۔ کبھی کبھی ایسا لگتا کہ ان دونوں کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی۔ نہ ہی لائبہ نے کبھی اظہار کیا کہ وہ مستنیر سے پیار کرتی ہے نہ ہی مستنیر نے۔ وہ دونوں شاید اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر اس بندھن کو پیار کا نام دے دیا تو ٹِپیکل
(typical)
سا ہوجائے گا۔ حالانکہ لفظوں کو معنی دینے والے تو ہم ہی ہوتے ہیں۔ ہم پیار کا مطلب نفرت لے لیں اور نفرت کا پیارتو ہمیں جس سے اُنس یا پیارہے اگر پیار کو نفرت اور نفرت کو پیار سمجھ لیں تو ہم کچھ اس طرح کا جملہ دھرائیں گے۔ ’’میں تم سے جنون کی حد تک نفرت کرتا ہوں‘‘۔ جملے کا سیاق و سباق اور کہنے کا انداز بتائے گا کہ بات اچھے پیرائے میں کی گئی ہے اور صوتی اثرات چہرے کے اتار چڑھاؤ اور منہ میں گھلاوٹ کا آنا اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ’’نفرت‘‘ لفظ جو برے معنوں میں تصور کیا جاتا ہے جب ’’پیار‘‘ کا لبادہ اوڑھے لے گا تو اچھا لگنے لگے گا۔ ابھی تک دونوں کسی لفظ کو پیار کا لبادہ اوڑھا کر پیش نہیں کرسکے تھے ورنہ جو کچھ ان میں تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا کہ جسے اچھا کہا جائے۔
ژ
لائبہ کے والد زہاب ہنجرال کا زیادہ حصہ جرمنی میں گزرا تھا۔ وہیں فریکنفرٹ
(Frankfurt)
میں میلان پِتسا
(Milan Pizza)
پر کام کے دوران ان کی آشنائی ایک اطالوی دوشیزہ سے ہوگئی۔ زہاب صاحب کی آشنائی اس حد تک بڑھی کہ سبرینا مارینی
(Sabrina Marini)
سے انھیں شادی کرنا پڑی۔ سبرینا مارینی
(Sabrina Marini)
، اٹلی کے ضلع ریجو کلابریاء
(Reggio Calabria)
کے ایک چھوٹے سے شہر یا قصبہ کہہ لیجئے کاتنزارو لیڈو
(Catanzaro Lido)
کی رہنے والی تھی۔ بالکل انڈین، پاکستانی عورتوں کی طرح کالے بال، گندمی رنگ۔ کبھی کوئی جانچ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ عورت کسی یورپی ملک کی رہنے والی ہے۔
ہوا کچھ اس طرح، زہاب صاحب سبرینا کے ساتھ کبھی کبھی دل بہلالیا کرتے لیکن چونکہ اٹالین رومن کیتھولک عیسائی ہوتے ہیں اس لیے شادی سے پہلے جنسی سرگرمیوں پر پابندی ہے اور اگر جوانی کے نشے میں غلطی ہوبھی جائے تو شادی کرنی پڑتی ہے۔ بچہ ضائع کرنا گناہِ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے۔ زہاب صاحب نے انتہائی نامساعد حالات میں سبرینا
(Sabrina)
سے شادی کی۔ زہاب صاحب نے جو شادی ایک بوجھ سمجھ کر کی تھی اس کا انھیں بہت فائدہ ہوا۔ وہ جرمنی میں قانونی حقوق کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کو خدا نے بہت ہی خوبصورت بیٹی عطا کی۔ اس کا نام انھوں نے لائبہ رکھا۔ زہاب اور سبرینا
(Sabrina)
کے لیے لائبہ خزانے کی چابی کی طرح تھی۔ دونوں نے خوب محنت کرکے پیسہ جمع کیااور پِتسا میلان
(Pizza Milan)
خرید لیا۔ پھر تو سلسلہ چل نکلا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زہاب صاحب، جرمنی میں قیام پذیر غیرملکیوں میں سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن گئے۔
زہاب صاحب کے دل میں نہ جانے کیا آئی، انھوں نے پیسہ پاکستان انویسٹ
(invest)
کرنا شروع کردیا۔ اس میں بھی انھیں کافی کامیابی نصیب ہوئی۔ انھوں نے پِتسا میلان
(Pizza Milan)
کی شاخیں یورپ کے مختلف ملکوں میں کھول دی تھیں۔ دولت ان کے گھر کی باندی بن کے رہ گئی تھی۔ زہاب صاحب کا زیادہ وقت پاکستان میں ہی گزرتا۔ لائبہ کو بھی انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں پاکستان بلا لیا تھا۔ یہاں اس نے اپنی بقیہ تعلیم مکمل کر کے ہائر سٹڈیز(higher studies) کے لیے امریکہ جانا تھا۔ لائبہ کو قریباً پانچ سال ہوچکے تھے۔ لائبہ اُردو، جرمن، اٹالین اور انگریزی بڑی روانی سے بولتی تھی۔ سبرینا مارینی
(Sabrina Marini)
نے یورپ میں پِتسا میلان
(Pizza Milan)
کی ساری شاخوں کی ڈائریکٹر جنرل
(director general)
تھی۔ سبرینا مارینی
(Sabrini Marini)
اٹلی کے جس علاقے کی رہنے والی تھی وہاں ستّر کی دھائی میں کافی غربت تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی امیر ترین عورت بن جائے گی اور یہی حال زہاب صاحب کا تھا۔ لیکن وقت کا رنگ اور دولت کا اثر کافی حد تک تبدیلی لایا۔زہاب صاحب کی تکبر سے گردن کافی اکڑ چکی تھی۔ وہ اس بات کو بھول چکے تھے کہ وہ کبھی پنجاب کے ایک چھوٹے سے دیہات میں چھپڑوں میں نہایا کرتے تھے اور ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے مینڈک ہوا کرتے تھے۔ زہاب صاحب نے اسلام آباد کے سیکٹرE-7 میں اتنا بڑا گھر بنایا تھا جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آج کل وہ سیاست میں شمولیت اختیار کرنے کی سوچ رہے تھے۔ سب لوگ انھیں ہنجرال صاحب کہہ کر پکارتے۔ لائبہ کو پاکستان میں رہنا پسند تھا کیونکہ جتنی آسائش کے ساتھ وہ یہاں رہتی تھی نہ وہ اٹلی میں رہ سکتی تھی نہ ہی جرمنی میں۔
ژ
آج وہ اور مستنیر کسی گہرے بحث و مباحثے میں پڑے ہوئے تھے۔ لائبہ، مستنیر کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہی تھی کہ انسان نے خدا کو تخلیق کیا جبکہ مستنیر اس کے برعکس یہ ثابت کررہا تھا کہ خدا نے انسا ن کو تخلیق کیا ہے۔
’’دیکھو مستنیر انسان نے لفظ بنائے اور لفظوں کو ملا کے خدا بنا دیا‘‘
’’تمہاری بات ٹھیک ہے کہ لفظوں کو ملاکے خدا بنادیا لیکن لفظوں کو ملانے کا سلیقہ اور عقل کس نے دی‘‘
’’مستنیر تم میری بات سمجھ نہیں رہے ہو۔ دیکھو GOD کا مطلب ہے خدا، اللہ، بھگوان، DIEU, DIO
اور ہر زبان میں لفظوں کی تخلیق سے خدا کی تخلیق ہوئی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ثابت ہوا کہ انسان نے خدا کو تخلیق کیا ہے‘‘
’’لیکن خدا لفظ خدا سے پہلے بھی موجود تھا۔ وہ لفظوں کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی ذات کا احاطہ لفظوں سے تو نہیں کیا جاسکتا‘‘
’’میں تمہاری بات فلسفیانہ انداز میں دیکھوں تو ٹھیک ہے لیکن ماڈرن سائنس
(modern science)
اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے‘‘
’’سائنس جہاں ناکام ہوجاتی ہے وہاں خدا کی ذات شروع ہوجاتی ہے‘‘
’’ایک تو میں مسلمانوں کی اس ہٹ دھرمی سے بڑی تنگ ہوں۔ ایک ایسی چیز کوماننے پر مجبور کرتے ہیں جو نظر نہیں آتی‘‘
’’تو اس کا مطلب ہے تم مسلمان نہیں ہو‘‘
’’یہ میں نے کب کہا‘‘
’’لگتا تو ایسا ہی ہے۔ خیر مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے ایک بات بتاؤں، پال ڈیوس (Paul Davies)
اور رچرڈ ڈاکنز
(Richard Dawkins)
بھی بہت سی چیزوں کو اب تک نہیں جان سکے۔ جیسے
"chicken came first or egg"
’’وہی دقیانوسی مثال‘‘
’’بی بی! یہ دقیانوس بڑی دور کی کوڑی لایا ہے‘‘
’’مستنیر! یہ محاورہ میری سمجھ میں نہیںآیا‘‘
’’اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں‘‘
’’اچھا آج میرے گھر آرہے ہو،تمہیں ابو سے ملواؤں گی‘‘
’’ارے نا بابا نا، وہ مجھ قلاش کو گھر سے نکال دیں گے‘‘
’’تم بہت عجیب آدمی، ہر وقت خود کو خول میں بند کئے رکھتے ہو۔ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔ اور مضمون تمہارااینتھروپومورفزم
(anthropomorphism)
ہے‘‘
’’اچھا بابا آجاؤں گا۔لیکن تمہارے گھر کوئی کتا تو نہیں کیونکہ ہر بڑے گھر میں ایک کتا ہوتا ہے۔ اور تمہیں تو پتا ہے کہ مجھے کتوں سے بڑا ڈر لگتا ہے‘‘
’’اچھا اب میں چلتی ہوں‘‘
’’خدا حافظ‘‘
’’خداحافظ‘‘
ژ
مستنیر کا مکمل نام مستنیر سوری تھا۔ اس نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی تھی جہاں رشوت، جھوٹ، سفارش اور بے ایمانی کی کوئی جگہ نہ تھی۔ مستنیر کے والد مستبصر سورینے ساری زندگی اصولوں کے مطابق گزاری تھی۔ مستنیر نے اب تک جو تعلیم حاصل کی تھی وہ اچھے نمبروں کے عوض ملنے والے سکالر شپ کی وجہ سے تھی۔ مستنیر ذہین تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جائے۔ وہ چاہتا تھااینتھروپومورفزم
(anthropomorphism)
میں پی ایچ ڈی
(Ph.D)
کرے۔ لیکن ابھی اس کی منزل بہت دور تھی۔ وہ اپنے اخراجات ٹیوشن
(tuitions)
پڑھا کر پورے کرتا اور جب سے محمد علی جناح یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا، اسے اپنے لباس کا بھی خیال رکھنا پڑتا۔ وہ لنڈے سے چُن چُن کر جینز اور رنگین قمیصیں لایا کرتا۔ لائبہ کو کبھی بھی نہ لگا کہ مستنیر لنڈے کے کپڑے پہنتا ہے۔ اُسے تو پتا ہی نہیں تھا کہ لنڈا کس چیز کا نام ہے۔ خیر اس بات کی کبھی مستنیر نے بھی پرواہ نہیں کی تھی کہ وہ لنڈے کی چیزیں پہنتا ہے۔ اس کے پاس بڑی جائز دلیل تھی ’’لنڈا کون سا مفت آتا ہے‘‘ ۔
اس کے والد صاحب پنڈی کے مشہور کالج میں ریاضی کے پروفیسر تھے۔ ان کی گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتی کیونکہ مستبصر صاحب ٹیوشنز
(tuitions)
پڑھانے کے سخت خلاف تھے۔ وہ کہتے، ’’میں اپنا فرض بخوبی نبھا آتا ہوں اور میرے طُلبا ء کو ٹیوشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انھوں نے ایک پرانا ویسپا
(vespa)
رکھا ہوا تھا جو سٹار ٹ
(start)
ہونے میں آدھا گھنٹہ لگاتا۔ کئی دفعہ ان کا ٹخنہ بھی زخمی ہوا اور اس پر کمال یہ کہ جب کولیج (کالج) کی پارکنگ میں جاکرکے کھڑا کرتے تو طُلباء اس کے دونوں پہیوؤں کی ہوا بھی نکال دیا کرتے اور مستبصر صاحب اپنے اصولوں کا جنازہ نکلتے دیکھتے اور خون کے آنسو روتے۔ لیکن مجال ہے جو ٹس سے مس ہوں۔ سکوٹر کو گھسیٹتے گھسیٹتے دوکان تک لاتے۔ ایسا کئی دفعہ ہوا۔ گھر دیر سے آمد پر بیگم کی ڈانٹ بھی سننی پڑتی۔ وہ تو مستنیر کو بھی سختی سے منع کرتے کہ بیٹاٹیوشنز
(tuitions)
مت پڑھایا کرو۔ طُلباء کو خود پڑھناچاہیے۔ کولیجز
(colleges)
اور مدرسے کس لیے ہوتے ہیں۔ وہ شاید اس بات سے نابلد تھے کہ سارے اساتذہ ان کی طرح نہیں ہوتے۔ مستبصر صاحب کی زندگی تکالیف سے بھرپور ضرور تھی لیکن وہ ذہنی طور پر بڑے پُرسکون تھے۔ ان کا ضمیر کبھی بھی ملامت نہ کرتا۔ سچے اورکھرے آدمی تھے۔
ژ
لائبہ کی ماں اطالوی تھی اور باپ پاکستانی۔ اُس میں دونوں ملکوں کی خوبصورتی کے عناصر اس طرح عیاں تھے جس طرح جینیٹک
(genetics)
میں ڈومیننٹ(dominants)
اور ریسیسو
(reccesives)
کا چکر ہوتا ہے۔ اطالوی اور پاکستانی حُسن دونوں ڈومیننٹ
(dominant)
تھے۔ بال گھَنے کالے اور لمبے، جنھیں اس نے آجکل ڈائی کیا ہوا تھا۔ لیکن اب کچھ کچھ اصلی رنگ کے بال نکلنے شروع ہوگئے تھے۔ بلونڈ
(blonde)
اور بلیک
(black)
کی ایک عجیب آمیزش لگتی تھی۔ بالکل ایسا لگتا تھا جیسے آپ شیور مرغی کے چوزے لاکر پالیں تو شروع میں بہت پیارے لگتے ہیں لیکن جب ان کے نئے پر نکلتے ہیں تو وہ عجیب سے لگنے لگتے ہیں۔ رنگ گندمی، ناک اتنی خوبصورت جیسے کسی سنگ تراش نے خوبصورتی سے تراشی ہو، آنکھیں نیلی، قد درمیانہ، جسامت اتنی متناسب کہ ہر چیز اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھی۔ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی تھی اس کی خوبصورت ہنسی، ایسی تھی جیسے کلیاں کھل اُٹھتی ہوں۔ غصہ تو اس کے چہرے پر جچتا ہی نہیں تھا۔ لائبہ کی عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی لیکن چہرے مہرے سے سولہ سال کی لگتی۔ اسے دوہی شوق تھے، سوئمنگ
(swimming)
اورسکیئنگ
(skiing)
۔ سکیئنگ
(skiing)
کے لیے پاکستان میں دو ہی ریزوٹس
(resorts)
تھے، ایک مالم جبہ اور دوسرا گلگت سے تھوڑا دور نلتر، اس لیے وہ سوئمنگ پر ہی اکتفا کرتی۔ ویسے بھی اُسے چند سالوں میں امریکہ چلے جانا تھا۔ وہاں بیشمارجگہوں پر سکیئنگ
(skiing)
کرسکتی تھی۔ لائبہ کو جرمنی، اٹلی اور حتیٰ کہ پاکستان میں بھی کئی جگہوں سے موڈلنگ
(modeling)
کی آفر ز
(offers)
ہوئیں لیکن اس نے ہمیشہ انکار کردیا۔ حالانکہ یورپین لڑکیاں تو چانس کی تلاش میں رہتی ہیں۔ خاص کر اطالوی لڑکیاں، ہر لڑکی خود کو ماڈل
(model)
ہی تصور کرتی ہے۔
لائبہ جب سے پاکستان آئی تھی بیشمار لڑکے اسے اپروچ
(approach)
کرنیکی کوشش کرتے لیکن کوئی بھی اُسے متاثر نہ کرسکا۔ ایسا بہت کم دیکھنے میںآیا ہے کہ لڑکی خوبصورت، سمارٹ اور سمجھدار ہو۔ یہ تمام خوبیاں ایک ساتھ کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ لائبہ نہ صرف خوبصورت، سمارٹ اور سمجھدار تھی بلکہ بلا کی ذہین بھی تھی۔ اینتھروپومورفزم (
anthropomorphism)
اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایتنھروپولوجی
(anthropology)
سے بھی لگاؤ رکھتی تھی۔
لائبہ کو پاکستان میں ان چند سالوں میں اگر کوئی شخص متاثر کرسکا تو وہ تھا مستنیر۔ ایک ایسا شخص جو کسی کی دولت سے متاثر نہیں ہوتا۔ اور واحد شخص تھا جس کی ذہانت کی لائبہ بھی قائل ہوگئی حالانکہ وہ اتنی جلدی شکست ماننے والی نہ تھی۔ دونوں قریباً ہم عمر ہی ہوں گے۔ مستنیر قد لمبا ہونے کی وجہ سے ذرا عجیب سا لگتا تھا جسے عرفِ عام میں بے ڈھنگا کہہ لیجئے۔ لیکن دِکھنے میں برا نہیں تھا۔ داڑھی اور بال بڑھائے رکھتا۔ داڑھی تو کبھی کبھی مونڈ لیا کرتا لیکن بال کٹوانے کے لیے اس کے پاس فرصت ہی نہیں تھی۔ یونیورسٹی میں ایک ہی شخص تھا جس سے اس کی انڈرسٹینڈنگ
(understanding)
تھی، وہ تھے احمد حسن دانی۔ دانی صاحب کے سامنے مستنیر چپ ہوجاتا ورنہ وہ کسی کو بولنے ہی نہ دیتا۔ اور دوسری شخصیت جس نے مستنیر کو متاثر کیا وہ تھی لائبہ۔ اس کی وجہ لائبہ کی حاضر جوابی، بولڈنیس اور خوبصورتی بھی۔ یونیورسٹی کے تمام لڑکے سینئر
(senior)
، جونیئر
(junior)
حتیٰ کہ پروفیسر حضرات بھی اس تاڑ میں ہوتے کہ کوئی بھی طریقہ ہاتھ آجائے کہ لائبہ سے فلرٹ
(flirt)
کرسکیں۔ لیکن وہ ایسا منہ توڑ جواب دیتی کہ خدا کی پناہ۔ جبکہ مستنیر کے وہ پیچھے پھرتی۔
لائبہ کو مستنیر سے پیار ہوگیا تھا لیکن اظہار نہیں کرسکتی تھی۔ اس لیے نہیں کہ وہ ڈرپوک تھی یا اُس کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی۔ حقیقت میں وہ ٹھیک سے فیصلہ نہیں کرپا رہی تھی کہ جو وہ محسوس کررہی ہے وہ انفیچوئیشن
(infatuation)
ہے، محبت یا عشق۔ دوسری طرف مستنیر کا بھی یہی حال تھا۔ دونوں کا مینٹل لیول
(mental level)
اتناہائی
(high)
تھا کہ وہ بھونڈے انداز سے آئی لو یو
(I love you )
کہنا نہیں چاہتے تھے۔ اس محسوسات عمل میں کافی مدت گزر گئی لیکن ان کا عشق کوئی جامہ زیب تن نہ کرسکا۔ژ
’’تو آپ ہیں مستنیر‘‘،
زہاب ہنجرال نے بڑے تکبرانہ لہجے میں کہا۔
مستنیر اس جملے کے لیے تیا ر نہیں تھا اس لیے اس نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا،
’’جی مجھے ہی مستنیر سوری کہتے ہیں‘‘
ابھی گفتگو کا آغاز ہی ہوا تھا کہ لائبہ نے ایک اور دھماکہ کردیا،
’’پاپا میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور شاید یہ بھی‘‘،
مستنیر کومخاطب کرتے ہوئے،
’’کیوں مستنیر‘‘
’’اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن میں باضابطہ طور پر اپنے والدین کو لاؤں گا۔ وہ بات چیت کریں گے‘‘، مستنیر نے جواب دیا۔
زہاب صاحب کو تو ایسا لگا جیسے کسی بچھو نے ڈس لیاہو۔ چونکہ ان کی بیٹی یورپ میں پیدا ہوئی تھی وہیں پلی بڑھی تھی اس لیے انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے بڑی متانت سے کہا،
’’ٹھیک ہے بیٹا! آپ اپنے والدین کو جب چاہیں لاسکتے ہیں‘‘
’’پاپا اس کی کیا ضرورت ہے۔ شادی میں اور یہ کرنا چاہتے ہیں اور ویسے بھی آئی ایم اُوَّر ایٹین
(I am over eighteen)۔
مجھے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت تو نہیں، میں تو ویسے ہی آپ کو بتا رہی تھی‘‘۔
’’یہ ٹھیک ہے بیٹا کہ آپ بڑی ہوگئی ہیں لیکن ہر چیز کا کوئی قائدہ اور قانون ہوتا ہے۔ ہماری کوئی نورمز
(norms)
اور ٹریڈیشنز
(traditions)
ہیں۔ ہمیں اپنی اقدار کو تو نہیں بھولنا چاہیے‘‘
مستنیر نے لقمہ دیا،
’’لائبہ آپ کے ابو ٹھیک کہتے ہیں‘‘
’’مستنیر تمہارے اندر تو آج تک اتنی جرأت پیدا نہیں ہوئی کہ مجھے اپنے گھر والوں سے ملواسکو یا اس قسم کی کوئی بات کرسکو۔ اس لیے مجھے ہی قدم آگے بڑھانا پڑا‘‘
’’میں جانتا تھا لیکن میں سوچتا تھا شاید میرا وہم ہو‘‘
’’سیم واز دا کیس ود می‘‘
(same was the case with me)
زہاب صاحب نے گفتگو کا رنگ بدلنے کے لیے کہا،
’’بیٹا ماسٹرز
(masters)
کرنے کے بعد کیا ارادہ ہے‘‘
’’جی پی ایچ ڈی
(Ph.D)
کرنے کا ارادہ ہے۔ اگر سکالرشپ
(scholarship)
مل گیا تو‘‘
’’ورنہ‘‘
’’ورنہ کوئی ریسرچ ورک
(research work)
یا کوئی بھی جاب
(job)‘‘
’’میرا بھی خیال ہے لائبہ پی ایچ ڈی
(Ph.D)
کر لے تو پھر کوئی حتمی فیصلہ کریں۔ یہ تو امریکہ چلی جائے گی‘‘
’’اچھا انکل یہ تو امریکہ چلی جائے گی اور میں اگر گھر وقت پر نہ پہنچا تو میری امی جان کی جان نکل جائے گی۔ اس لیے مجھے اجازت دیجئے‘‘
اس نے زہاب صاحب سے ہاتھ ملایا۔ لائبہ اسے دروازے تلک چھوڑنے آئی۔ لائبہ کا گھر بہت خوبصورت تھا لیکن مستنیر کا فلسفہ تھا کہ گھر انسانوں سے خوبصورت ہوتے ہیں جو اُن میں رہتے ہیں۔ گھر خوبصورت نہیں ہوتے اس لیے اسے کروڑ پتی شخص کے اس کروڑ وں روپے کے گھر میں رہنے والی لائبہ پسند تھی نہ کہ اس کا گھر۔
ژ
زہاب صاحب سیاست میں قدم رکھنا چاہتے تھے اور وہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے کہ جس سے ان کی سیاسی زندگی پر (جو انہوں نے شروع کرنے کا ابھی سوچا ہی تھا) کوئی دھبہ لگے۔ ورنہ مستنیر کو تو وہ دو منٹ میں راستے سے ہٹا سکتے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ انفیچوئیشن
(infatuation)
ہے یا ہوسکتا ہے جنسی تلذذ، جو کہ اکثر اسعمر میں ہوجاتا ہے۔ یہ کام انہیں کافی مشکل لگ رہا تھا کیونکہ مستنیر نہ تو ان کی دولت سے مرعوب ہوا تھا نہ گھر سے۔ اس لیے انہیں یقین تھا کہ وہ مستنیر کو دولت سے نہیں خرید سکتے نہ ہی کسی قسم کا لالچ دیکر اُسے بیٹی کے راستے سے ہٹا سکتے ہیں۔ نہ وہ اپنی بیٹی پر زو ر یا زبردستی کرسکتے تھے۔۔۔
اب ان کے پاس ایک ہی صورت بچی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے پیار کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کردیتے۔ اور سیاست تو ایک ایسا نشہ ہے اس کے لیے لوگ بیٹی کے پیار کے آگے ہتھیار پھینکناتو چھوٹی بات ہے اپنی بیٹی کو اغوا کروانے اور اس کی عزت لٹوانے تک کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اب زہاب صاحب اس لَو سٹوری کو قانونی شکل دیکر اپنی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہی ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے کہ وہ تمام انسانی تفرقات سے مبراء اور پاک ہیں۔ مستنیرمالی لحاظ سے کم تر تھا لیکن علم کی دولت سے مالامال تھا۔ آگے چل کے ان کی مدد بھی کرسکتا تھا۔ زہاب صاحب نے اپنے دل کو راضی کرنے کے لیے بے شمار شگفتہ وجوہات ڈھونڈ لی تھیں۔۔۔
مستبصر صاحب اور ان کے گھر والوں کے لیے یہ خبر کسی ایٹم بم
(atom bomb)
سے کم نہ تھی کہ ان کا بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسی لڑکی سے جس کا باپ بزنس ٹائیکون
(business tycoon)
ہے۔
’’بیٹا ایسی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں‘‘
’’ابا! اب دور بدل چکا ہے‘‘
’’بیٹا میں جانتا ہوں کہ تم پڑھے لکھے ہو، اپنا برا بھلا خود سوچ سکتے ہو لیکن زندگی، میتھمیٹک
(mathematic)
اور اینتھروپومورفزم
(anthropomorphism)
جو تم کتابوں میں پڑھتے ہو، اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ مجھے اس بات پر اعتراض نہیں کہ تم شادی کرنا چاہتے ہو اور نہ ہی اس شادی پر اعتراض ہے۔ میں تو تمہیں سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ تمہیں تکلیف میں دیکھ کر ہماری زندگی بھی کرب میں گزرے گی۔ تمہیں سیدھے لفظوں میں بتاتا ہوں کہ یہ شادی بے جوڑ ہے اور ہوگی۔ ایسا تو نہیں تمہیں دولت کالالچ ہے‘‘
’’ابا اگر مجھے دولت کا لالچ ہوتا تو اس کے اور بھی بہت سارے طریقے تھے اور ویسے بھی اگر دولت خوشیاں لاسکتی تھی تو دنیا کے تمام امیر لوگ خوشحال زندگی بسر کررہے ہوتے۔ میں لائبہ کو صرف اس لیے پسند کرتا ہوں کہ اس کی شخصیت میں اس طرح کی کوئی بات نہیں‘‘
’’بیٹا تعلیم مکمل کرنی ہے یا اسے بھی ادھورا چھوڑ دو گے‘‘
’’ابا ہماری حالت لیلیٰ مجنوں جیسی نہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کریں گے‘‘
’’بیٹا میں چاہتا ہوں کہ تم ڈاکٹریٹ کرلو۔ میرے خیال میں انیتھروپومورفزم میں کم ہی لوگوں نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ مجھے خوشی ہوگی اگر تم اس فیلڈ میں آگے جاؤ اور تمہیں مستقبل میں محمد علی جناح یونیورسٹی میں جاب بھی مل جائے‘‘
’’ابا! میرا بھی کچھ ایسا ہی ارادہ ہے۔ دیکھئے خدا کو کیا منظور ہے‘‘
’’بیٹا تم سے کتنی دفعہ کہا کہ خدا فارسی کا لفظ ہے اس لیے اللہ نے چاہا یا اللہ کو جو منظور ہوا کہا کرو‘‘
’’اچھا ابا! لیکن خدا، معاف کیجئے گا اللہ لفظوں کا محتاج نہیں‘‘
’’اچھا بیٹا! اب میں تم سے بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں چلتا ہوں مجھے کام ہے۔ اللہ حاف٭۔۔۔
لائبہ نے گاڑی گلی کی نکڑ پر روکتے ہوئے کہا،
’’مستنیر اگر یہ گلیاں صاف ستھری ہوں تو بالکل ایسا لگتا ہے جیسے آپ ریجو کلابریاء
Reggio Calabria
کے کسی چھوٹے سے شہر میں گھوم رہے ہوں‘‘
مستنیر نے متحیرانہ انداز میں پوچھا،
’’تو کیا آریہ محلے کی گلیاں اٹلی کے گلی محلوں جیسی ہیں۔ یہ تو بڑے فخر کی بات ہے‘‘
لائبہ، مستنیر کے طنز بھرے، متحیرانہ انداز کو بھانتے ہوئے کہنے لگی،
’’مجھے یقین تھا کہ تم میرے اس تقابلی موازنے کو طنزیہ رنگ دوگے‘‘
مستنیر نے خفت مٹاتے ہوئے کہا،
’’ارے بھئی میں تو‘‘
’’بس بس میں تو‘‘،
لائبہ نے یہ کہہ کر بحث کا اختتام کردیا۔ دونوں چلتے چلتے مستنیر کے گھر تک پہنچے۔ لائبہ چلتے چلتے گلی کا معائنہ کررہی تھی۔ کہیں گاڑیاں کھڑ ی تھیں، کہیں بھینسیں بندھی تھیں۔ مستنیر نے دروازہ کھولا۔ گو کہ گھر پرانا تھا لیکن صاف ستھرا۔ مستنیر کی امی پرانے طرز کی خاتون تھیں لیکن انھوں نے لائبہ کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ نہ ہی مستنیر کے ننھیال میں نہ ہی ددھیال میں اتنی خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ تصور ہی تصور میں لائبہ کو بہو کے روپ میں دیکھنے لگیں۔ اسی اثناء باہر سکوٹر کے رکنے کی آواز آئی۔ مستبصر صاحب داخل
ہوئے۔ لائبہ نے جھک کر سلام کیا۔ انھوں نے کہا، ’’جیتی رہو۔ بیٹا کیسا لگا ہمارا محلہ‘‘
’’یہ بہت اچھا ہے‘‘،
لائبہ نے اپنائیت سے جواب دیا۔
’’ارے بھئی بیگم کھانے پینے کا انتظام کرو۔ ہاں تو بیٹا آپ اینتھروپومورفزم anthropomorphism)
پڑھ رہی ہیں‘‘
’’جی انکل‘‘
’’ارے بھئی یہ انکل ونکل مت کہو۔ ہمیں اپنے بڑھاپے کا احساس ہونے لگتا ہے‘‘
’’چلیں میں آپ کو سر
(sir)
کہہ لیتی ہوں‘‘
’’اس سے بھی غلامی کی بو آتی ہے۔ اس سے اچھا تو انکل ہی ہے۔ خیر بیٹا کچھ اپنے بارے میں بتائیں، آپ لوگ کیا شروع سے اسلام آباد میں رہ رہے ہیںیا آپ بھی ہماری طرح ہجرت کرکے آئے ہیں‘‘
’’انکل میرا خیال ہے مستنیر نے حسبِ عادت آپ کو کچھ نہیں بتایا ہوگا، کیونکہ وہ ان چیزوں کو ضروری نہیں سمجھتا‘‘
’’بیٹا ضروری تو میں بھی نہیں سمجھتا لیکن چونکہ آپ پہلی دفعہ گھر پر آئی ہیں، گفت و شنیدتو ہونی چاہیے‘‘
’’انکل میرے والد صاحب پنجاب کے رہنے والے ہیں اور میری امی اٹالین ہیں۔ میری پیدائش جرمنی کی ہے‘‘
’’بیٹا آپ تو بڑی اچھی اُردو بول لیتی ہیں‘‘
’’ابا! یہ جرمن، انگریزی اور اٹالین بھی بڑی روانی سے بولتی ہے‘‘
لائبہ کو مستنیر کی والدہ کا چائے پیش کرنے کا انداز بہت پسند آیا۔ صحن کے وسط میں انھوں نے لکڑی کا بہت خوبصورت میز رکھا۔ اس پر سفید رنگ کا سوتی رنگین دھاگوں سے کڑھا ہوا میزپوش اور چائے کی پیالیاں انھوں نے تانبے کی خوبصورت اور منقش ٹرے، ایک ایک کرکے سب کے سامنے رکھیں۔ پکوڑے، سموسے، شامی کباب، چٹنی۔ یہ سب لوازمات دیکھ کر لائبہ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اسے خود پر رشک آنے لگا کہ اسے کتنی عزت و تکریم دی جارہی ہے۔ وہ اب تک اے کلاس
(a class)
زندگی گزارتی آئی تھی۔ لیکن گھر جسے گھر کہتے ہیں جو اینٹوں سے نہیں بنتا بلکہ انسانوں سے بنتا ہے، وہ صحیح معنوں میں پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔ وہ مستنیر کی والدہ کی دلی کیفیت کا اندازہ تو نہیں لگاسکتی تھی کہ وہ اسے کس نظر سے دیکھ رہی تھیں۔
ابھی وہ اسی طائرانہ جائزے میں مصروف تھی کہ مستنیر کی امی نے سکوت توڑا، ’’بیٹاامی کوساتھ نہیں لائیں‘‘
’’جی وہ یہاں نہیں ہوتیں‘‘
’’تو کہاں ہوتی ہیں‘‘
’’جی جرمنی‘‘
مستنیر نے ماں کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’ماں و ہ وہاں کاروبار کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور اس کے ابو یہاں‘‘
مستنیر کی امی کو بات سمجھ نہ آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی سوال کرتیں لائبہ نے اجازت طلب کی۔ سب نے بہت اصرار کیا کہ کچھ دیر اور رُک جاؤ، لیکن وہ نہ مانی۔ ’’اچھاانکل اور آنٹی! اب اجازت دیجئے۔ آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اب میں چلتی ہوں‘‘
ژ
مستنیر کا سکالرشپ
(scholarship)
منظور نہ ہوا ور لائبہ پی ایچ ڈی
(PHD)
کرنے کے لیے امریکہ چلی گئی۔ اس نے مستنیر کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اس کی بھی فیس ادا کردے گی۔ حتیٰ کہ ہنجرال صاحب نے بھی کئی دفعہ کہا، لیکن وہ نہ مانا۔ وہ مڈ ل کلاس کا ضرور تھا لیکن بہت زیادہ خوددار۔ اگر مستبصر صاحب سفارش کرتے تو شاید کام بن جاتا لیکن مستنیر کو اور نہ ہی مستبصر صاحب کو سفارش پسند تھی۔ مستنیر نے پاکستان میں ہی اینتھروپومورفزم میں ایم فِل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ جبکہ لائبہ کو اس نے انتہائی حوصلہ افزائی کے ساتھ لیکن دکھی دل سے رخصت کردیا تھا۔ دونوں روز ایک دوسرے کو ای میلز
(emails)
کرتے، میسینجر
(messenger)
پر چَیٹ
(chat)
کرتے، خط لکھتے، فون کرتے لیکن باتیں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہوتی تھیں۔ آہستہ آہستہ ای میلز (
emails)
کم ہونے لگیں۔ لائبہ اور مستنیر ایک دوسرے کو کم ہی آون لائن
(on line)
ملتے اور خط و کتابت میں بھی کمی واقع ہوگئی۔ مستنیر ایم فِل
(M.Phil)
میں بھی زیادہ توجہ نہ دے سکا لیکن تین سال میں وہ ایم فِل
(M.Phil)
مکمل کرگیا۔ اسے یونیورسٹی میں جاب کی آفر ہوئی اس نے منظور کرلی۔ اچانک اسے خبر ملی کہ لائبہ واپس آرہی ہے۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھا۔ لیکن سوچتاتھا کہ لائبہ کے ساتھ تھوڑی سی رنجش کیوں پیدا ہوگئی، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ؂
’’تعلق اس طرح سے توڑا نہیں کرتے
کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے‘‘
بات کچھ بھی نہیں تھی۔ بس ضد تھی۔ چونکہ لائبہ نے میلز
(mails)
کے جوابات دیر سے اور بعد میں بالکل ہی کم کردیئے تھے۔ ان باتوں سے مستنیر کا دل کھَٹا ہوگیا تھا۔ وہ اس طرح کا نہیں تھا کہ ؂
قطع نہ کیجئے تعلق ہم سے
کچھ نہیں تو عداوت ہی سہی غالبؔ
اپنے وقار، پریسٹیج
(prestige)
کو گرانا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لیے اس نے بھی کج ادائی اور بے رُخی کا جواب اسی انداز سے دیا جس طرح لائبہ کا رویہ تھا۔ حتیٰ کہ وہ اسے ایئر پورٹ پر ریسیو
(recieve)
کرنے بھی نہ گیا۔ بڑی مشکل سے دل پر پتھر رکھ کے اس نے لائبہ کو فون کیا۔ اس نے بڑی بے تکلّفانہ انداز میں جواب دیا۔ مستنیر سے بات چیت کی۔ اگلے دن وہ یونیورسٹی میں موجود تھی۔ اب مستنیر ایک طالب علم نہیں بلکہ پروفیسر تھا۔ لائبہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ خوبصورتی ماند پڑچکی تھی۔ صحت پہلے سے بہت بری۔ پہلے تو وہ اسے پہچان ہی نہ سکا لیکن آواز سے اس نے پہچان لیا۔ بڑی یاسیت سے دیکھ کر کہنے لگا، ’’لائبہ یہ کیا‘‘
’’تمہاری جدائی برداشت نہ کرسکی اس لیے ایسی ہوگئی ہوں‘‘
’’امریکہ کی یاترا کیسی رہی‘‘
’’اچھی، لیکن جلد ہی جرمنی جارہی ہوں۔ تھوڑی سی زندگی جو باقی بچی ہے وہاں گزاروں گی‘‘
’’کیا مطلب‘‘
’’مجھے بلڈ کینسر
(blood cancer)
ہے‘‘
’’لائبہ تم انتہائی ذلیل اور کمینی ہو۔ تم نے مجھے بتایا تک نہیں۔ تم نے مجھے اتنا گھٹیا سمجھ رکھا تھا کہ تمہاری خوبصورتی یا دولت پر مرتا ہوں‘‘
’کاش تم اس طرح کے ہوتے تو میں تمہیں بتا بھی دیتی۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ تم اس طرح کے نہیں ہو‘‘
’’اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے امریکہ یا جرمنی میں‘‘
’’اگر ہوتا تو میرے والد صاحب اتنے مایوس نہ ہوتے۔ ویسے میں چند دنوں میں جرمنی جارہی ہوں۔ ابو میرے ساتھ جائیں گے‘‘
’’تو پاکستان آنے کی کیا ضرورت تھی۔ امریکہ سے جرمنی چلی جاتیں‘‘
’’مجھے نہ جانے کیا چیز کھینچ لائی۔ مرنے سے پہلے تمہیں دیکھنا چاہتی تھی‘‘
’’اس کا مطلب ہے جینیٹیکلی
(geneticaly)
تم اب بھی ایشیئن
(asian)
ہو‘‘
’’اگر میں پوری نہیں، آدھی تو بائیلوجیکلی ایشیئن
(biologicaly asian)
ہوں‘‘
’’کاش لائبہ میں تمہارے ساتھ امریکہ چلا جاتا۔ ہوسکتا ہے تمہیں بلڈ کینسر
(blood cancer)
نہ ہوتا۔ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں، میں خود اپنے اصولوں کے بلند و بالا قلعے میں مقید ہوگیا‘‘
’’مستنیر جو ہونا ہوتا ہے وہ ہوکے رہتا ہے۔ تم سناؤ، تمہاری پروفیسری کیسی جارہی ہے‘‘
’’ابھی تو لیکچرر ہوں‘‘
’’تمہاری ٹوکنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی‘‘
’’اور تمہاری بھی غلط اُردو بولنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی‘‘ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔۔۔
زہاب ہنجرال اور لائبہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر کھڑے اپنی فلائٹ کا انتظار کررہے تھے۔ ہنجرال صاحب بار بار اپنی جیب سے نکا ل کر اپنا پاسپورٹ دیکھتے۔ شاید سوچ رہے تھے، اس لال پاسپورٹ نے انہیں کتنا دکھ دیااور اب کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو یورپ دفن کرنے جارہے تھے۔ کیونکہ جرمنی میں اُس کی ماں بھی تھی۔
جہاز میں بیٹھتے ہی ہنجرال صاحب کو ایسا لگا جیسے پہلی دفعہ اپنا ملک چھوڑ رہے ہوں۔ اُن کی حالت ایسی تھی نہ زندہ تھے نہ مردہ۔ بار بار اپنی بیٹی کو دیکھتے۔ اب تو لائبہ کے خوبصورت بال بھی جھڑنے شروع ہوگئے تھے۔ اگر غور سے دیکھیں تو گنجی لگتی تھی۔
فرینکفرٹ ایئر پورٹ
(Frankfurt airport)
پے پہنچتے ہی انھوں نے لائبہکے لیے تمام حفاظتی اقدامات کئے اور لائبہ کو جلدی ہی ہسپتال داخل کردیا۔ اب سبرینا اور زہاب زیادہ سے زیادہ وقت لائبہ کے پاس ہی گزارتے۔ دن گزرتے جارہے تھے اور لائبہ کی موت قریب آتی جارہی تھی۔ زہاب ہنجرال اور سبرینا مارینی
(Sabrini Marini)
اتنی دولت کما چکے تھے اور کما رہے تھے کہ ان کی سات نسلیں آرام سے کھا سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کو نہیں بچا سکتے تھے۔ آہستہ آہستہ لائبہ کی حالت اور صحت بہت خراب ہونے لگی۔
ہنجرال صاحب، جن کا سر اور گردن ہر وقت تکبر سے اکڑی رہتی تھی، اب عاجزی و انکساری سے جھک گئی تھی۔ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے، غریبوں کا مال کھانے والے، مزدوروں کا خون نچوڑنے والے ہنجرال صاحب اپنے کریڈٹ کارڈز اور پاسپورٹ کو دیکھتے اور احساس کرتے کہ یہ میں نے کیاکیا۔ جیسے جیسے دن قریب آرہے تھے ہنجرال صاحب کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی۔ جب چند دن رہ گئے تو ہنجرال صاحب دیواروں سے ٹکریں مارنے لگے، رونے لگے، پیٹنے لگے۔ حالت تو سبرینا (
Sabrina)
کی بھی خراب تھی لیکن وہ خود کو سنبھالے ہوئے تھی اور وہ ذہنی طور پر مصروف بھی تھی۔ کیونکہ ہسپتال میں بھی وہ لَیپ ٹوپ
(laptop)
اور موبائیل
(mobile)
کے ذریعے اپنے کاروبار کی پل پل کی خبر لے رہی تھی۔
آخری دن ہنجرال صاحب نے اپنے پاسپورٹ اور کریڈٹ کارڈز
(credit cards)
کو آگ لگا دی اور منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہسپتال سے باہر نکل گئے۔ زہاب ہنجرال صاحب ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے اور سبرینا مارینی
(Sabrina Marini)
پِتسا میلان
(Pizza Milan)
کے نئے پارٹنر
(partner)
کے ساتھ رہنے لگی تھی۔

سرفراز بیگ، اریزو، اٹلی


No comments:

Post a Comment