Sunday, June 9, 2013

زیب النسائ، میرے افسانوی مجموعے سے ایک افسانہ

زیب النساء

زیب النساء کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی گئی۔اس کا میاں کسی آئل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ ایک ماہ رِگ پے کام کرتا اور ایک ماہ کی چھٹی ہوتی لیکن اس کو تنخواہ برابر ملتی۔ زیب النساء کے خاوند کی تنخواہ معقول تھی۔ گھر میں روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔زیب النساء کا خاوند اس پے جان چھڑکتا تھا۔وہ تھی ہی اتنی نازک، اتنی نازک جیسے کوئی پھول کی کلی ہو۔جسے کوئی چھوئے گا تو چٹک جائے گی۔ زیب النساء کی تعلیم واجبی تھی لیکن تمام گھریلو کام اس نے بڑے جی جان سے سیکھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیب النساء کے پردادا افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پھر یہ لوگ راولپنڈی آکر بس گئے۔ان لوگوں نے چھوٹے موٹے کام شروع کیئے اور ترقی کرتے کرتے کاروباری طبقے میں شامل ہوگئے لیکن زیب النساء کے والد، اس کے تایا اور چاچو نے اس کاروبار کے حصے بخرے کردیئے۔ ان کا کاروبار چھوٹی چھوٹی دوکانوں میں بٹ گیا بلکہ میں تو ان کو دوکانچیاں کہوں گا۔زیب النساء کا کوئی بھائی نہیں تھا۔اس کی دو اور بہنیں تھیں ایک بڑی اور ایک چھوٹی۔بڑی نصیب النساء نے جیسے ہی سنِ بلوغت میں قدم رکھا تو اس کی شادی کردی گئی۔نصیب النساء کا میاں امریکہ ہوتا تھا وہ اس کے ساتھ
امریکہ چلی گئی۔اس کے بعد زیب النساء تھی ، اس کا میاں دوبئی ہوتا تھا اور سب سے چھوٹی مہرالنساء تھی۔ وہ ابھی پڑھ رہی تھی۔زیب النساء کے والدین پنڈی صدر کے مشہور علاقے میں رہتے تھے جو کہ بابو محلے کے نام سے مشہور تھا اور ہے۔ زیب النساء کا میاں چونکہ دوبئی ہوتا تھا اس لیئے اس نے ماں باپ کے پاس ہی اسی محلے میں گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔ زیب النساء کے دن بڑے اچھے گزر رہے تھے۔اس کا میاں ایک ماہ کام کرتا اور ایک ماہ آکر اس کے پاس رہتا۔اس کے ناز نخرے اٹھا کر چلا جاتا۔خدا نے ان کی تمنا ابھی پوری نہیں کی تھی۔اس دوران ظہیر میاں کی رغبت ان کی سالی کی طرف بڑھنے لگی۔سب لوگ ظہیر کی نیت پے شق کرنے لگے۔حتیٰ کہ اس کی بیوی زیب النساء بھی اپنے خاوند کو شک کی نظر سے دیکھنے لگی حالانکہ ظہیر صاحب مہرالنساء کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے تھے۔خیر ان کی مہربانیوں اور رغبت کا راز اس وقت کھلا جب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیئے مہرالنساء کا ہاتھ مانگا۔زیب النساء کے والدین کسی طور بھی راضی نہ ہورہے تھے۔وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ ایک گھر میں دو بیٹیاں نہیں بیاہنا چاہتے تھے۔ان کے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں تھا۔حقیقت میں انکار کی دو وجوہات تھیں، ایک تو انہیں ظہیر کی نیت پے شک تھا دوسرا ظہیر کا چھوٹا بھائی شبیر بالکل نکما تھا ۔کوئی کام نہیں کرتا تھا ۔ سارا دن آوارہ گردی کرتا رہتا۔کبھی کبھی بھائی اور بھابھی سے ملنے کے بہانے بابو محلے آتا اور مفت کی روٹیاں توڑتا اور چلا جاتا۔زیب النساء کے والدین نے ظہیر سے کبھی اپنے دل کا حال تو نہ بیان کیا لیکن شبیر کے نکما ہونے کی بات انہوں نے کردی۔ظہیر نے اس بات کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ اس بات کی آپ بالکل فکر نہ کریں۔میں نے اس کا کام اپنی آئل کمپنی میں کردیا ہے۔اب وہ میرے ساتھ دوبئی چلا جائے گا اور رِگ پے میرے ساتھ ہی کام کرے گا۔اس وقت شبیر کی عمر انیس سال تھی اور مہرالنساء کی عمر پندرہ سال تھی۔بڑی کوششوں کے بعد ظہیر اپنی مقصد میں کامیاب ہوگیا۔سارے لوگ اب تک یہی سمجھتے رہے کہ اس میں ظہیر کی کوئی چال ہے۔زیب النساء کے والدین صرف اس ڈر کی وجہ سے مان گئے کہ کہیں وہ زیب النساء کو طلاق نہ دے دے۔ویسے بھی ان کی شادی کو دوسال ہوچکے تھے اور ان کے ہاں ابھی تک اولاد نہیں ہوئی تھی۔انکار کا بہانہ اور زیب النساء کا بانجھ پن ظاہر کرکے ظہیر بڑی آسانی دوسری شادی کرسکتا تھا۔یہ بات ظہیر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ اس کے سسرال اس کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں۔بنیادی طور پے ظہیر ایک پیار کرنے والا انسان تھا۔اپنے والدین کے گزر جانے کے بعد اس نے گھر کو سنبھال رکھا تھا۔بہنوں کی شادیاں کی تھیں اور چھوٹے بھائی کو وہ اپنے بچے کی طرح سمجھتا تھا۔اْسے اس بات کا پورا یقین تھاکہ اس کا بھائی شبیر جب کام شروع کرے گا اور جب اس کی شادی ہوگی تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
شبیر اور مہرالنساء کا نکاح کردیا گیا۔ زیب النساء کے والدین نے یہ شرط رکھی کہ جب شبیر کام شروع کرے گا تو سال دو سال میں رخصتی کردی جائے گی۔اس بات پے ظہیر کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ نکاح کے بعد ظہیر ،شبیر کو اپنے ساتھ دوبئی لے گیا۔وہاں اس کی نوکری پکی ہوگئی۔آئل کمپنی والوں نے سال کا کونٹریکٹ کیا اور وہ بھی کچا۔ وہ جب چاہتے اسے نکال سکتے تھے۔ ایک ہی شرط تھی ، اگر شبیر نے دلجمعی سے کام کیا تو سال بعد اس کا پکا کونٹریکٹ کردیا جائے گا۔یہ کونٹریکٹ بھی غیر معینہ مدت تک ہوگا۔یعنی اس کی کوئی اختتامی مدت نہیں ہوگی۔ظہیر کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ شبیر کے طور طریقوں میں تبدیلی آنے لگی۔اب وہ سدھرنے لگا تھا۔مہینے بعد ظہیر تو پاکستان چلا گیا لیکن شبیر کو اس نے دوبئی چھوڑ دیا تانکہ وہ اکیلا رہنا سیکھ لے۔اب جب ظہیر پاکستان آیا تو اس کا پیار مہرالنساء کی طرف اور زیادہ بڑھ گیا۔ پہلے وہ اس کی سالی تھی اب وہ اس کی بھابھی تھی۔زیب النساء بھی اس بات کو محسوس کرنے لگی تھی لیکن وہ ڈر اور شرم کی وجہ سے اپنے دل کا حال ظہیر پے ظاہر نہیں کرتی تھی۔اس دفعہ زیب النساء نے اپنے میاں سے فرمائش کی کہ وہ اسے اپنے ساتھ دوبئی لے جائے۔ظہیر نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔میں تو خود بھی یہی چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کے چپ رہتا تھا کہ تمہارے ماں باپ اکیلے رہ جائیں گے۔مہرالنساء چھوٹی ہے۔ اگر پھر بھی تمہاری یہی مرضی ہے تو ٹھیک ہے۔ میں جاتے ہی تمہارے کاغذات جمع کروادونگا۔اس دفعہ مہینہ کب گزرا پتا ہی نہ چلا۔ظہیر کا واپسی کا دن آگیا۔وہ جاتے جاتے اپنے ساس سسر سے کہنے لگا، ’’ہوسکتا ہے یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہو‘‘۔ وہ حیرت زدہ ہوکے ظہیر کو دیکھنے لگے۔انہوں نے فوراً یک زبان ہوکر کہا ، ’’اگر تم چاہتے ہو تو ہم اگلے مہینے مہرالنساء کی رخصتی کردیتے ہیں‘‘۔ ظہیر نے کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں بلکہ میں زیب النساء کو دوبئی بلارہا ہوں‘‘۔ زیب النساء کے والدین کی تو جان ہی نکل گئی تھی لیکن یہ سن کر ان کو سکون ملا۔انہوں نے ،’’لیکن مہرالنساء کی شادی پر تو آؤ گے نا‘‘۔ اس نے کہا، ’’جی جی یہ تو میرافرض ہے۔اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو رخصت کرونگا‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے گھر میں کہرام مچ گیا۔زیب النساء ، اس کے ماں باپ اور شبیر ان سب کی تو رو رو کے آنکھیں سوجھ گئیں۔ظہیر جب کام پے واپس گیا تھا۔رِگ پے کام کرتے ہوئے نہ صرف وہ بلکہ دیگر ملازمین بھی کسی زہریلی گیس کے نکلنے سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ظہیر کی موت پے نہ صرف زیب النساء بیوہ ہوگئی تھی بلکہ شبیر بھی خود کو یتیم سمجھنے لگا تھا۔لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔سب لوگ شبیر کو کہتے ، تمہارا بھائی تمہیں زندہ لے کر گیا تھا اور تم اس کی لاش واپس لائے ہو۔شبیر کے دماغ کے نہاں خانوں یہ آواز گونجنے لگی کہ وہ اپنے بھائی کا قاتل ہے۔ یہ اس کی خام خیالی تھی۔ظہیر کے نصیب میں خدا نے اتنی ہی زندگی لکھی تھی۔زیب النساء کو تو اپنے بیوہ ہونے کا دکھ تھا لیکن مہرالنساء کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔اس کی وجہ مہرالنساء کا پیار تھا۔ وہ اپنے بہنوئی کی توجہ اور التفات کو پیار سمجھ بیٹھی تھی حالانکہ وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر تھی کہ وہ شرعاً شبیر کی بیوی تھی۔ اس کا نکاح ہوچکا تھا۔ کچھ لوگوں نے زیب النساء کے والدین کو مشورہ دیا کہ ظہیر تو اب اس دنیا سے چلا گیا اس لیئے شبیر ان کی بیٹی مہرالنساء کو طلاق دے دے اور زیب النساء سے شادی کرلے۔ زیب النساء کے والدین اس موقعے پے کسی کو کیا جواب دیتے۔جس طرح کوئی کہتا سن لیتے۔انہیں تو اس بات کا دکھ تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے داماد پے شک کرتے رہے۔فوتگی کے دوران زیب النساء کا ایک دور کا رشتہ دار بھی آیا ہواتھا۔ اس نے زیب النساء کو دیکھا اور پسند کرلیا۔ وہ ساری صورت حال سے واقف تھا۔ اس نے رشتے کی بات چلائی اور زیب النساء کے والدین مان گئے۔ زیب النساء تھوڑی منت سماجت کے بعد مان گئی۔ سب یہی کہتے تھے کہ پہاڑ سی جوانی کیسے کاٹے گی۔لڑکا خوبصورت تھا اور لاہور انارکلی بازار میں اس کی دوکان تھی۔اس لڑکے کا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا اس لیئے پیسہ گھر بار ہونے کے باوجود کہیں شادی نہ ہوسکی۔زیب النساء کے والدین نے زیب النساء اور معتصم کی شادی کردی اور ساتھ ساتھ انتہائی خاموشی اور سادگی سے مہرالنساء کی بھی رخصتی کردی۔زیب النساء تو اپنے شوہر کے ساتھ لاہور چلی گئی۔شبیر اور مہرالنساء اسی گھر میں رہنے لگے جو ظہیر نے بڑے شوق سے سجایا تھا۔ چند دن رہ کر شبیر اپنے کام پے واپس چلا گیا۔اب کہ اسے دو ماہ کام کرنا تھا کیونکہ بھائی کی اس حادثاتی موت کی وجہ سے اسے بھی ساتھ آنا پڑا تھا۔ بھائی کی اس حادثاتی کی وجہ سے شبیر کو نہ صرف کمپنی والوں بھاری رقم عنایت کی بلکہ اس کا کونٹریکٹ بھی پکا کردیا حالانکہ اسے ابھی مزید آٹھ ماہ کام کرنا تھا۔ شبیر کے ساس ،سسر نے بہت اصرار کیا کہ بیٹا یہ نوکری چھوڑ دو اور کوئی نوکری کرلولیکن شبیر نے ان کی یہ بات نہ مانی۔وہ یہی کہتا کہ بھائی جان کی موت ایک حادثہ تھی اور ویسے بھی ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ موت کا اک دن مقرر ہے۔ اگر میری بھی موت اس طرح لکھی ہوئی تو اسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔وہ شبیر کی باتوں سے اتفاق کرتے تھے لیکن کیا کرتے انہیں بہت ڈر لگتا تھا۔
وقت اسی طرح گزرتا رہا ۔مہرالنساء کو خدا نے بہت خوبصورت بیٹی عطا کی، اس دوران مہرالنساء کے والدین امریکہ چلے گئے۔ان کی بیٹی نصیب النساء نے انہیں اپنے پاس بلا لیا تھا۔ شبیر آتا اور چلا جاتا۔ مہرالنساء ایک ماہ اکیلی ہوتی ۔ اس نے گھر میں ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی جو اس کی تنہائی کی ساتھی تھی۔ اس کے علاوہ مہرالنساء اپنی بیٹی مارلے سے بھی دل بہلاتی۔شبیر جو کہ ایک کھلنڈرا سا نوجوان تھا اب کافی سنجیدہ ہوچکا تھا۔ زندگی سے پیار کرنے لگا تھا۔ اپنی بچی پے جان چھڑکتا تھا۔دو سال بعد مہرالنساء کے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوئی۔اس کا نام انہوں نے رملہ رکھا۔ مہرالنساء کم عمر بھی تھی اور ناسمجھ
بھی۔ اس لیئے اس نے خاوند کی غیرموجودگی میں محلے کے لڑکوں سے روابط بڑھانے شروع کردیئے۔ اس کے بابو محلے میں کئی بھائی بن گئے۔اس کام میں اس کی ملازمہ پیش پیش تھی۔شروع شروع میں یہ بات چند لوگوں کو پتا تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ بات پھیلنے لگی ۔لوگوں کا کیا نقصان تھا اتنی خوبصورت لڑکی ،ہر طرح کی تفریح مہیاء ہوتی اور خاطر توازہ الگ سے۔ اب بات اڑتے اڑتے شبیر کے کانوں تک پہنچی تو اس نے یقین نہ کیا۔ اس نے مہرالنساء کو جانچنے کے لیے صرف اتنا کہا کہ تم میرے ساتھ دبئی چلو۔ لیکن اس نے بڑی معقول وجہ بیان کرکے شبیر کا منہ بند کردیا۔ آپ کے بڑے بھائی جان بھی باجی کوبلانے کا کہہ کر گئے تھے لیکن خود ہی اس دنیا سے چلے گئے اور میری باجی انتظار کرتی رہ گئیں۔میں نہیں چاہتی کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔
***********
مہرالنساء کی خوبصورتی اب ماند پڑنی شرو ع ہوگئی تھی ۔اس کی بڑی بیٹی اب پندرہ سال کی تھی۔ مارلے جب بڑی ہوئی تو اس کا قد کاٹھ بالکل ماں کی طرح تھا اور خوبصورتی میں وہ ماں سے بھی دوہاتھ آگے تھی۔میٹرک پاس کرکے کالج جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔اس کے علاوہ رملہ اور رمدہ بھی سکول جاتی تھیں۔مہرالنساء کے قصے سارا بابو محلہ جانتا تھا لیکن شبیر کی شرافت ،عاجزی اور انکساری تھی کہ وہ اب تک اس کے ساتھ تھی ۔ورنہ شبیر کی جگہ کوئی اور مرد ہوتا تو کب کا اسے طلاق دے چکا ہوتا۔ شبیر نے بابو محلے میں پوری ایک بلڈنگ خرید لی تھی ۔ اس نے اوپر فلیٹ بنائے اور نیچے دوکانیں حتیٰ کہ تہہ خانہ بھی بنایا۔ فلیٹ ،دوکانیں اور تہہ خانہ بہت جلد کرائے پر اٹھ گئے۔اس کی آمدنی معقول تھی لیکن وہ اب بھی آئل کمپنی میں کام کرتا تھا۔
اب یہ لوگ بابو محلہ چھوڑ کر چکلالہ سکیم نمبر ۳ میں منتقل ہوچکے تھے۔ مہرالنساء اب بھی کبھی کبھی اپنی پرانی عادات کی طرف مائل ہوتی۔اس کی ساری زندگی مارلے کے سامنے آئینے کی طرح تھی۔اس نے
اپنی ماں کی تمام حرکات دیکھی تھیں۔اس لیئے اس نے آٹھویں جماعت سے ہی پر پرزے نکالنے شروع کردیئے تھے۔ماں کبھی روکتی ٹوکتی تو پلٹ کے جواب دیتی۔آپ مجھے کیا منع کریں گی، آپ تو اب بھی باہر سے کھانا کھاتی ہیں۔یہ سن کر مہرالنساء اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی۔مہرالنساء کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ صرف اور صرف پینتیس سال لیکن اب وہ خود کو ماند ماند محسوس کرنے لگی تھی۔مہرالنساء کی حرکات کا اس کے ماں باپ کو بھی علم تھا لیکن وہ کیا کرسکتے تھے۔انہوں نے تو شبیر کو اس حد تک اجازت دے دی کہ وہ اس لڑکی کو طلاق دے دے، بھلے وہ ان کی بیٹی تھی۔وہ انہیں یہ کہہ کر تسلی دیا کرتا کہ ہوسکتا ہے میں نے جوانی میں ایسا کوئی گناہ کیا ہو جس کی سزا مجھے اب مل رہی ہے یا ہوسکتا ہے یہ خدا کی طرف سے کوئی امتحان ہو۔ ویسے بھی میری تین بیٹیاں ہیں ۔ان کا کیا ہوگا۔
**********
وقت کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ مہرالنساء کی بہن نصیب النساء عرصہ دراز کے بعد پاکستان آرہی تھی۔ اس کے ساتھ اس کے دو بیٹے بھی تھے۔اس کے علاوہ زیب النساء، نصیب النساء اور مہرالنساء کے امی ابو بھی تشریف لارہے تھے۔گو کہ وہ اب کافی ضعیف ہوچکے تھے لیکن نصیب النساء نے سوچا تھا کہ پاکستان جاکر اپنے بیٹوں کے لیئے رشتے دیکھوں گی کیونکہ امریکہ میں پیدا ہونے والی لڑکیاں یا وہاں پلنے بڑھنے والی لڑکیاں اس کے مطابق ٹھیک لڑکیاں نہیں تھیں۔اس کے برعکس اس کے دونوں لڑکے پڑھے لکھے اور مذہب کی طرف مائل تھے۔امریکہ میں رہتے ہوئے بھی پانچ وقت کے نمازی اور دینی اطوار سے واقف تھے۔ کیف نے ٹشوز اینڈ فائیبرز کے بارے میں تعلیم حاصل کی تھی اور چھوٹے سیف نے پارٹیکل فیزکس میں ڈگری حاصل کی تھی۔ دونوں کی عمر میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ ایک چوبیس سال کا تھا اور دوسرا بائیس سال کا تھا۔باپ کی طرح اونچے لمبے اور ماں کی طرح خوبصورت تھے۔ جیسے ہی ان کے آنے کی خبر ملی تو مہرالنساء اپنی تمام سرگرمیاں پسِ پشت ڈال کے ایک ماں بن کے سوچنے لگی۔ مارلے سولہ سال کی تھی
اور ایف ایس سی کررہی تھی اور رملہ حال ہی میں دسویں جماعت میں گئی تھی۔ رمدہ چھوٹی تھی اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔مہرالنساء نے سوچا اگر کیف کا بیاہ مارلے سے ہوجائے اور رملہ کا بیاہ سیف سے ہوجائے تو بہت بہتر ہوجائے گا۔ اس نے شبیر سے مشورہ کیا تو شبیر نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر انہوں نے بات کی تو ہم ہاں یا نہ میں جواب دیں گے۔ہم لوگ خود سے بات نہیں کریں گے۔ہماری
بیٹیاں ما شا ء اللہ خوبصورت ہیں۔ مہرالنساء نے کہا یہ آپ مجھ پے چھوڑ دیں۔امی ابو بھی آرہے ہیں، ان کو بھی شامل کرلوں گی۔کوئی نا کوئی حل نکل آئے گا۔کم از کم مارلے کی تو ضرور کوشش کروں گی۔ شبیر بڑا حیران ہوا کہ میری بیوی جس کی بدنامی کے قصے سارے شہر میں مشہور ہیں۔آج اتنی عقل سمجھ والی کیسے ہوگئی۔خیر !دیر آید درست آید۔
شبیر نے پاکستان میں بہت بنا لیا تھا اور وہ مالی لحاظ سے کسی سے کم نہیں تھا۔نہ ہی ان لوگوں کو پاکستان میں کسی چیز کی کمی تھی لیکن اس کے باوجود مہرالنساء کو بہت سے دوسرے پاکستانیوں کی طرح امریکہ بہت بھاتا تھا۔
**************
اسلام آباد ایئر پورٹ پے شبیر ، مہرالنساء ، مارلے، رملہ اور رمدہ امریکہ سے آنے والی فلائٹ کا بڑی شدت سے انتظار کررہے تھے فلائٹ لینڈ کرچکی تھی اور لوگ آہستہ آہستہ باہر آنا شروع ہوگئے تھے۔کافی دیر بعد جب قریباً سارے مایوس ہوچکے تھے کہ شاید وہ لوگ کسی وجہ سے رہ گئے ہیں تو مہرالنساء کی نظر اپنے امی ابو پے پڑی اور اس کے پیچھے پیچھے نصیب النساء ، ان کے شوہر جلونی صاحب ، کیف اور سیف آتے دکھائی دیئے۔نصیب النساء ایک طویل مدت کے بعد اپنی بہن سے مل رہی تھی۔زیب النساء کی شادی ، ظہیر کی موت اور زیب النساء کی معتصم سے شادی، اس کے علاوہ شبیر اور مہرالنساء کی شادی اس کی تینوں بچیاں اس کے لیئے یہ تمام چیزیں اور افراد تصویروں تک ہی محدود تھے۔دونوں بہنیں ایئر پورٹ پر
ہی رونے لگیں۔ماں باپ بھی اپنی بیٹی سے مل کر رونے لگے۔زیب النساء کا پوچھا تو مہرالنساء کہنے لگی کہ وہ لوگ بھی کل آجائیں گے۔بد قسمتی سے زیب النساء اور معتصم کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ معتصم صاحب اسی بات پے خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ انہیں اتنی باعصمت اور صبر شکر کرنے والی بیوی ملی تھی۔ شبیر کے پاس بہت بڑی گاڑی تھی۔ یہ سب لوگ لینڈ کروزر میں سوار ہوئے اور کچھ لوگ سوزوکی کار میں جم کر بیٹھ گئے۔کیف اور سیف تو اپنے خالو کے ٹھا ٹھ دیکھ کے حیران رہ گئے۔ان کے والد جلونی صاحب متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے لیکن ان کی آنکھوں میں رشک تھا نہ کہ حسد۔بڑی مشکل سے انہیں ایئر پورٹ سے گھر پہنچنے میں دس منٹ لگے ہونگے۔شبیر کا گھر بہت بڑا تھا۔ ڈبل سٹوری، سامنے بہت بڑا لان پچھلی طرف چھوٹا سا باغیچہ۔ گھر بہترین فرنیچر اور دبیز قالینوں سے مزین تھا۔نصیب النساء نے کہا اتنا اچھا گھر تو امریکہ میں کسی منسٹر کا بھی نہیں ہوتا۔ کیف اور سیف اپنی خالہ کی بیٹیوں سے باتیں کرنے لگے۔مارلے کی کوشش تھی کہ ان سے انگریزی زبان میں بات کرے لیکن کیف اور سیف نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو کو ترجیح دی۔تھوڑی دیر میں سب ایک دوسرے سے ایسے گھل مل گئے جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔
**************
اگلے دن صبح صبح شبیر صاحب اپنی گاڑی لے کر پنڈی ریلوے سٹیشن چلے گئے۔ وہاں زیب النساء اور معتصم تشریف لارہے تھے۔ شبیر وقت مقررہ سے پہلے ہی سٹیشن پے موجود تھا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیئے ٹہلنا شروع کردیا۔ پھر چائے کے سٹال پے چائے چلا گیا۔ابھی وہ چائے پی ہی رہا تھا کہ اعلان ہوا فلاں فلاں ٹرین فلاں فلاں پلیٹ فارم پے آرہی ہے۔کافی انتظار کے بعد گاڑی پلیٹ فارم پے آکے رکی۔ شبیر کی آنکھیں معتصم اور زیب النساء کو ڈھونڈنے لگیں۔انہوں نے شبیر کو دیکھ لیا تھا ۔معتصم نے شبیر کو آواز دی ،شبیر دوڑتا دوڑتا ان کے پاس گیا اور ان کا سامان اٹھانا چاہا لیکن پھر خیال آیا کہ کیوں نا
قلی کی خدمات لی جائیں۔قلی کی مدد سے ان کا سامان گاڑی تک لایا گیا۔ انہوں نے گاڑی سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔
*************
ایک لمبے عرصے کے بعد تینوں بہنیں اور ان کے ماں باپ اکھٹے ہوئے تھے۔گھر میں عید کا سا سماں تھا۔کیف، سیف، مارلے، رملہ اور رمدہ میں گہری دوستی ہوگئی۔ایسا لگنے لگا جیسے ہمیشہ سے اکھٹے رہ رہے ہوں۔خاص کر رمدہ تو سارا دن کیف بھائی، سیف بھائی ،کیف بھائی ،سیف بھائی کرتی رہتی ۔اس دوران تینوں بہنیں اپنے اپنے دکھڑے سنانے لگیں۔ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں پے نقطہ چینی کرنے لگیں۔ تینوں بہنوں میں مہرالنساء سب سے زیادہ خوشحال تھی گو کہ نصیب النساء امریکہ سے آئی تھی لیکن ان کے امریکہ میں وہ ٹھا ٹھ نہیں تھے جس انداز سے مہرالنساء رہ رہی تھی۔مہرالنساء کو رشتے کی بات چلانے کا موقع ہی نہ ملاخود نصیب النساء کے اپنے بیٹے کیف کے لیئے مارلے کا رشتہ مانگ لیا اور مہرالنساء نے مثبت جواب دیا۔ماں باپ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔شبیر اور جلونی صاحب کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔شبیر صاحب نے کہا یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ مناسب ہوگا کہ بچوں سے بھی پوچھ لیا جائے۔ شبیر نے کہا بیگم تم مارلے سے پوچھ لو اور باجی آپ کیف سے پوچھ لیں۔سب نے کہا یہ بہت مناسب رہے گا۔
**************
مہرالنساء نے بڑے پیار سے مارلے کو بلایا اور بیٹا کیا حال ہیں۔ اس نے جواب دیا ممی میں ٹھیک ہوں ۔ تو مہرالنساء نے کہا بیٹا میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔مارلے نے کہا ، کیجئے۔ بیٹا بات دراصل یہ ہے ہم لوگوں نے مل کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمھاری شادی کیف کے ساتھ کردی جائے۔تمہیں کیف کیسا لگتا ہے۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں۔امی لیکن میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں
اور میں اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔مہرالنساء نے حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات میں کہا، کیا کہا کسی اور سے پیار کرتی ہو اور تم اس کے بچے کی ماں بننے والی ہو۔تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔امی آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔یہ تم نے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔اور امی آپ جو غلط کام کرتی رہی ہیں۔میں جو بھی کرتی تھی لیکن تم نے خود پے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔میرا خیال ہے بچہ ضائع کردو اور کیف سے شادی کرلو۔باقی میں سنبھال لوں گی۔لیکن امی میں اپنے بوئے فرینڈ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔کون ہے وہ کتے کا بچہ۔وہ یہیں سکیم میں رہتا ہے۔ کرنل صاحب کا بیٹا ہے۔ فرحان نام ہے اس کا ۔مہرالنساء تو غصے سے پاگل ہوگئی۔اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے مارلے کو مارنا شروع کردیا۔جب تھک گئی تو رونا شروع کردیا۔
دوسری طرف جب کیف سے پوچھا گیا تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔اس نے صرف اتنا کہا کہ جیسے میرے بزرگوں کی مرضی لیکن جب حقائق سامنے آئے تو سب سر جوڑ کے بیٹھ گئے۔ اس کا حل کیا نکالیں۔خوشیوں کا گہوارہ ماتم کدہ بن گیا۔ سب بجھے بجھے سے رہنے لگے۔ آخر کار شبیر نے اپنی بیٹی کو بلایا اور کہا ، بیٹا آپ نے پیار کیا ہے کوئی جرم نہیں لیکن آپ نے جو راستہ اپنایا ہے وہ غلط تھا خیر اگر آپ فرحان سے واقعی ہی پیار کرتی ہیں تو ہم لوگ کرنل صاحب کے گھر جائیں گے۔ مارلے نے کہا آپ لوگوں کو ان کے گھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ وہ لوگ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر خود آئیں گے۔
ایسا ہی ہوا مارلے نے فرحان کو ساری رام کہانی سنائی۔ فرحان نے ڈرتے ڈرتے اپنے گھر والوں ساری کہانی سنائی۔ کرنل صاحب نے پہلے تو اس کی پٹائی کی بعد میں انہوں نے فرحان سے کہاکہ میں اور تمہاری امی تمہارا رشتہ لے کر جائیں گے۔ کچھ بھی ہو تمہاری شادی مارلے سے ہی ہوگی۔مارلے نے ساری کہانی اپنے گھر والوں کو سنائی گو کہ کوئی بھی خوش نہیں تھا لیکن شبیر کے دل کو تسلی تھی۔ اس نے سوچا میں خواہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہوں لیکن اتنا بھی برا نہیں کہ میرے ساتھ ایسا کچھ
ہوگا۔ شبیر کا اندازہ درست نکلا ۔ شام کو کرنل صاحب اور ان کی بیگم فون کرکے ان گھر تشریف لائے۔ تھوڑی دیر گفت و شنید ہوئی۔ انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا اور شبیر نے ہاں کردی۔ فوراً مٹھائی بانٹی گئی۔
************
ایک ہفتے کی مدت میں مارلے اور فرحان میاں بیوی بن چکے تھے۔ اس واقع کے بعد مہرالنساء تو سارا سارا دن جائے نماز بچھا کے بیٹھی رہتی اور نماز کے دوران ،نوافل کے دوران روتی رہتی اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہی۔ ان تینوں بہنوں کے ماں باپ اب مہرالنساء کے ہاں ہی رہنے لگے۔ نصیب النساء بچوں کے رشتے دیکھے بنا ہی امریکہ واپس چلی گئی۔ زیب النساء اور معتصم بھی واپس چلے گئے۔شبیر نے بھی رِگ کی نوکری چھوڑ دی۔پاکستان میں ہی کاروبا ر شروع کردیا۔رملہ اور رمدہ اپنے ماں باپ اور نانی نانا کے سائے میں پرورش پانے لگیں۔ شبیر کا مقام کسی ہیرو سے کم نہیں تھا۔ وہ اپنی بیوی، ساس ،سسر اور سالیوں کی نظر میں ہیرو اور بزرگ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ مارلے اور فرحان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور اس کانام انہوں نے ظہیر رکھا۔

SARFRAZ BAIG VIA CARDINAL MASSAIA 42
AREZZO 52100
baigsarfraz@hotmail.com
11/02/2006


No comments:

Post a Comment