Monday, June 17, 2013

بیسواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG




۲۰
ہفتے کے دن ثقلین ہمارے گھر منتقل ہوگیا۔ اس کے پاس زیادہ سامان نہیں تھا۔ ایک بیگ میں کپڑے تھے۔ میں نیائش اور ثقلین سارا دن چیزیں ادھر سے ادھر کرتے رہے۔ اس نے سوموار کو آنا تھا لیکن نیائش اور میرے بھرپور اصرار پے وہ ہفتے کو ہی آگیا تھا۔ ہم نے بارہا اس سے کہا کہ کمرے میں اپنا بستر سجا لے لیکن اس نے کمرے میں صرف اپنا سامان رکھا اور ڈرائنگ میں جو صوفہ کم بیڈ تھا اس کو اپنا بستر بنانا پسند کیا۔ وہ انیسواں باب ساتھ لایا تھا ۔میں نے اسے بیسواں باب دیا اور وہ کہنے لگا۔’’ آج رات کو پڑھوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اب تک جو کچھ پڑھا کیسا لگا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’ایک بات سمجھ آئی ہے کہ میں نے صحافت میں جو وقت گزارا اس میں میں نے اتنا کچھ نہیں سیکھا جتنا میں نے ان انیس بابومیں سیکھا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ثقلین تم مجھے بنانے کی کوشش کررہے ہو‘‘۔
’’سچ کہہ رہاں ہوں۔اس کو کتابی شکل دینی چاہیئے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہیں لینے کے دینے نہ پڑجائیں‘‘َ
’’چھوڑو ثقلین ،یہ تو میں نے اپنا کیتھارسس کیا ہے ۔کتابی شکل دینے کا تو میں نے سوچا ہی نہیں‘‘۔
نیائش بیچ میں بولا پڑا، ’’چھوڑوں ماڑا کوئی فلم دیکھتے ہیں ۔سارا دن بور گزرا‘‘۔
نیائش نے فلم لگا دی اور ہم سب فلم دیکھنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے شیفر کہہ کر گیا تھا کہ انیتا سے اپنا پارسل لے لینا۔ شام کو انیتا آئی تو میں نے ا سے اپنے پارسل کے بارے میں پوچھا۔ وہ کہنے لگی، پارسل نہیں ایک رقعہ ہے۔میں تمہیں رقعہ دیتی ہوں ۔تم یہ رقعہ جاکے ڈاکخانے میں دکھانا تو وہاں سے پارسل ملے گا۔ پارسل نہیں بلکہ رجسٹرڈ لیٹر ہے۔
میں نے اس کے ہاتھ سے رسید لی ۔اس پے زیورک کا پتا تھا اور خط کی تفصیل تھی اس کے ساتھ ڈاکخانے کا پتہ تھا۔ میں رقعہ لے کے ڈاکخانے گیا۔ وہاں پے دستخط کرکے اپنا خط لیا۔ اس کو کھولا۔ تو اندر جرمن زبان میں بہت سارے صفحے تھے۔ میں خط لے کے ازیل ہائم
آگیا۔ انیتا کو یہ سارے صفحے دکھائے تو کہنے لگی، سوموار کو تمہارا انٹر ویو ہے۔ صبح ساڑھے سات بجے تمہیں زیورک ہونا چاہیئے۔ میں نے کہا، میرے پاس تو زیورک کا ٹکٹ ہی نہیں۔تو کہنے لگی ٹکٹ ہم دیں گے اور تم نے صبح چھ بجے یہاں سے جانا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ مجھے انیتا شروع سے پسند نہیں تھی لیکن میرا ہمیشہ اسی سے واسطہ پڑتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوموار کے دن صبح ساڑھے پانچ بجے مجھے انیتا ہی جگانے آئی اور غصے سے کہنے لگی ،’’تمہیں پتا نہیں آج تمہارا انٹر ویو ہے اور تم اب تک سو رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’میں نے آلارم تو لگایا تھا لیکن شاید گھڑی کے سیل ختم ہوگئے ہیں اس لیئے الارم بجا ہی نہیں‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’جلدی سے تیار ہوجاؤ۔جو بھی کھانا ہے کھا لو۔ یہاں پاس ہی ایک اور ریلوے سٹیشن ہے وہاں سے تیز رفتار ٹرین گزرتی ہے ۔اگر تم اس پے بیٹھنے پے کامیاب ہوگئے تو تم سات بجے زیورک پہنچ جاؤ گے‘‘۔
میں نے جلدی سے ایک کپ چائے پیا،ساتھ ایک دو بسکٹ کھائے اور سٹیشن کی راہ لی۔ میرے پیچھے پیچھے ایک افریقن لڑکا بھی آرہا تھا ۔ وہ کہنے لگا ،’’مجھے بھی زیورک جانا ہے۔آج میرا بھی انٹرویو ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو چلو ،کون سا میرے کندھوں پے بیٹھ کے جاؤ گے، ٹرین پے جاؤ گے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’میرا مطلب یہ نہیں ،اصل میں مجھے ٹرین سٹیشن نہیں پتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرے ساتھ چلو‘‘۔ریلوے سٹیشن جس سے ٹرین پے بیٹھنا تھا مجھے بھی نہیں پتا تھا لیکن میں لوگوں سے پوچھتا پوچھتا سٹیشن پے پہنچ گیا۔ ہم دونوں جب ریلوے سٹیشن پے پہنچے تو ٹرین کے آنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ میں خوش تھا کہ ہم دونوں ٹھیک وقت پے سٹیشن پہنچ چکے ہیں۔ میں سٹیشن پے پہنچتے ہی ریلوے سٹیشن کا معائنہ کرنے لگا۔ بالکل ویران تھا، گو کہ پلیٹ فارم صاف ستھرے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ کہ نئے بنائے گئے ہیں۔ میرا یہ معائنہ تھوڑی تک ہی جاری رہا کیونکہ کسی ٹرین کے آنے کی اناونسمنٹ ہورہی تھی۔ جرمن، انگریزی،فرنچ اور اٹالین میں کچھ کہا گیا ،مجھے انگریزی والا سمجھ آیا۔میں نے ٹکٹ پے ٹرین کا نمبر دیکھا۔ٹرین آکے پلیٹ فارم پے رکی اور میں نے اس افریقن کو کہا ، ’’چلو چلیں،سوس کی ٹرینیں وقت کی بہت پابند ہوتی ہیں۔اگر ذرا سی بھی دیر کی تو چلی جائے گی‘‘۔ اس نے نائیجرین انداز کی ڈھا ڈھا والی انگریزی میں کہا، ’’اوکے اوکے‘‘۔ ٹرین میں سوار ہوتے ہی میں کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے لگا۔ صبح سویرے باہر کاکچھ اور منظر تھا۔ اگست کے مہینے میں گو کہ بہت گرمی ہوتی ہے لیکن راستے میں درخت ، پھول اور کھیت بہت بھلے لگ رہے تھے۔ یہ ٹرین کسی اور راستے سے زیورک جارہی تھی کیونکہ میں پہلے بھی دو دفعہ زیورک جاچکا تھا لیکن اس طرح کے مناظر دیکھنے کو نہ ملے تھے۔ میرے سامنے بیٹھا نائیجرین لڑکا خراٹے لے رہا تھا۔ میں کبھی کھڑکی کے باہر دیکھتا کبھی اس کی طرف دیکھتا اور اس کے خراٹوں کی ہیبت ناک آواز سنتا جو گھْر گھْر پھس پھس کرکے سنائی دے رہی تھی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گرزی ہوگی کہ بڑی بڑی عمارتیں نظر آنی شروع ہوئیں اور ٹرین زیورک ریلوے سٹیشن پے آکے رکی۔ ٹرین جیسے ہی رکی میں نے اس نائیجرین لڑکے کو کندھے سے پکڑ کے ہلایااور اونچی آوازمیں کہا، ’’اٹھو ‘‘۔ وہ ہڑبڑا کی اٹھا ۔ میں نے کہا، ’’زیورک آگیا ہے‘‘۔ میں سوچنے لگا،انیتا ٹھیک کہتی تھی۔ یہ ٹرین بہت جلدی پہنچے گی۔ ہم دونوں ٹرین سے نکلے ۔زیورک ریلوے سٹیشن پے کام پے جانے والا رش تھا۔ ہم دونوں سٹیشن سے باہر نکلے ۔یہاں سے ہمیں بس پکڑ کے سیاسی پناہ کے دفتر جانا تھا۔ میں سٹیشن کے باہر ایک ٹورسٹ انفارمیشن ڈیسک سے ساری انفارمیشن لی اور مطلوبہ جگہ پے آگیا جہاں سے بس پکڑنی تھی۔ بس سٹاپ پے ہمارے سٹاپ کے لیئے ہر دس منٹ بعد بس بھی۔ ہمیں تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا۔ بس آئی اور میں نے ڈرائیور کو سیاسی پناہ کے دفتر کا پتہ دکھایا اور اسے کہا کہ ہم نے یہا اترنا ہے ۔جب یہ سٹاپ آئے تو ہمیں بتا دے۔ سوس بس ڈرائیور بہت اچھے ہوتے ہیں ۔یہ مسافروں کی بہت مدد کرتے ہیں۔ میں نے بس میں بھی ایک دو بندوں سے باتیں شروع کردیں ۔انہیں اپنے آنے کا مقصد بھی بتا دیا ۔ایک لڑکی جس سے میں نے پوچھا تھا وہ کہنے لگی میں بھی ونہی جارہی ہوں۔ اس لیئے اب کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میری یہی عادت رضا کو بہت پسند تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی لوگوں نے میری اس عادت کو پسند کیا تھا کہ میں لوگوں سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتا نہیں ہوں۔ بس کا تیسرا سٹاپ ہمارا تھا۔ تیسرے سٹاپ پے نہ صرف ڈرائیور نے مجھے اشارے سے بتایا بلکہ وہ لڑکی جس نے ہمارے ساتھ اترنا تھا اس نے بھی میرا ہاتھ کھینچا اور کہنے لگی، ’’چلو‘‘۔ میں بس سے اترا اور ڈرائیور کا شکریہ ادا گیا۔
بس سٹاپ کے پچھلی طرف ایک بہت بڑی عمارت تھی۔ یہ عمارت شیشے کی بنی ہوئی تھی۔ میرے خیال میں یہ عمارت چوکور تھی اور اس کی دو منازل تھیں۔ بڑے بڑے ٹنٹڈ گلاس لگے ہوئے تھے اور ان میں آس پاس کی عمارتوں کا عکس نظر آرہا تھا۔ صبح کے ساڑھے سات بجے ہوں گے۔ ہم لوگ سیڑھیاں چڑھ کے عمارت کے داخلے دروازے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ باہر بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ دروازے پے ایک سیکیورٹی گارڈ کھڑا تھا۔ اس نے وہی یونیفارم پہنا ہوا تھا جو کرائس لنگن میں سیکیورٹی گارڈز پہنتے تھے۔ اس کی قمیض کے پیچھے بھی سیکیوریتاس لکھا ہوا تھا۔ ابھی صرف اندر کام کرنے والے اندر جارہے تھے۔ ہمارے لیئے آٹھ بجے دروازہ کھلا۔ وہ سیکیورٹی گارڈ ہمارے کاغذات دیکھتا اور اندر جانے کو کہتا ۔ اندرداخل ہوئے تو اندر کئی کاونٹر بنے ہوئے تھے۔ ایک کاونٹر کے پیچھے ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور باقی دو کے پیچھے دولڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں ۔جب میری باری آئی تو میں ان دو میں سے ایک لڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ شیشے کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کھڑکی کے اندر بنے ہوئے گول سے سوراخ سے اپنے کاغذات پیش کیئے ۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا،جو بھی کہنا ہے مائیک میں کہو۔ میں نے کیا کہنا تھالیکن باہر کی طرف ایک مائیک بنا ہوا تھا ۔ اسی طرح کا مائیک اندر کی طرف بنا ہواتھا۔ اس نے مجھے ٹوکن دیا اور کہا کے اندر کمرے میں جاکے انتظار کرو۔ اب ہم سب ایک کمرے میں انتظار کررہے تھے۔ وہاں پے تین گول میزیں رکھی تھیں۔ بیٹھنے کے لیئے کوئی کرسی نہیں تھی۔ ایک گول میزکے پاس ایک آدمی کھڑا تھا ۔لباس اور تراش خراش سے پاکستانی یا انڈین لگتا تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ کون ہے اور نہ ہی میں جاننا چاہتا تھا کہ کون ہے۔ میں نے یہاں کھڑے کھڑے گھنٹہ گزار دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں یہاں کئی دنوں سے کھڑا ہوں۔ پھر سیکیورٹی گارڈ نے مجھے کہا کہ تمہارا نمبر آگیا ہے۔ وہ مجھے اس کمرے میں چھوڑ کے آیا جہاں میرا نٹر ویو تھا۔ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ ایک میز، اس پے بہت ساری فائلیں، ایک کونے میں کمپیوٹر اور اس کے ساتھ پرنٹر پڑا ہوا تھا۔ میز کے ایک طرف ایک گھومنے والی کرسی پڑی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک اور کرسی رکھی تھی۔ جس کرسی پے میں بیٹھا تھا وہ میز کے سامنے تھی۔ سامنے دیوار پے گھڑی لگی ہوئی تھی۔ ایک منرل واٹر کی بوتل اور اس کے ساتھ چند پلاسٹک کے گلاس پڑے ہوئے تھے۔ کمرے میں دو بندے داخل ہوئے۔
ایک خاتون تھی اور دوسرا وہی آدمی تھا جو باہر کھڑا تھا اورشکل و صورت سے پاکستانی یا انڈیں لگتا تھا۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ وہ عورت تو انٹرویو کرنے آئی تھی اور یہ موصوف ترجمان کے فرائض انجام دینے آئے تھے۔ پہلے اس عورت نے اپنا تعارف کروایا، پھر اس آدمی نے اپنا تعارف کروایا۔ میں نے کہا، ’’میں انگریزی میں انٹرویو دوں گا‘‘۔
وہ عورت کہنے لگی، ’’تم نے پہلی دفعہ جس زبان میں فارم بھرا ہے وہ اردو زبان میں تھا اس لیئے تمہارا سارا کیس اب اردو میں ہی ہوگا ترجمان کی مدد سے ‘‘۔
مجھے بہت غصہ آیا۔ خیر میں اس عورت کودیکھنے لگا۔ اس چہرہ لمبوترا تھا ،کچھ تھا ایسا کچھ اس نے بالوں کا انداز اس طرح کا بنایا ہوا تھا کہ کچھ زیاد ہ ہی لمبا نظر آرہا تھا۔ بال بالکل چھوٹے تھے۔ اس طرح کٹے ہوئے تھے جیسے پاکستا ن میں بکروں کے بال مونڈھ دیئے جاتے ہیں ۔نیچے سے ان کی کھال نظر آتی ہے اور اوپر کے حصے میں بال رہنے دیئے جاتے ہیں۔ شکل و صورت کی پیاری تھی اور جب اس نے بات کرنے کے لیئے منہ کھولا تھا تو دودھ کی طرح سفید ایک قطارر میں جڑے ہوئے دانت ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے سفید موتی پرودیئے ہوں۔ ہونٹوں پے گہرے رنگ کی لپ سٹک لگائی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ گالوں پے کچھ لگایا ہواتھا جس کی وجہ سے اس کا گالوں رنگ بہت مختلف لگ رہا تھا۔ آنکھوں کے اوپر بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ آئی شیڈ لگایا ہوا تھا ۔اس نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی لیکن ا س کے کالر اور کف سفید تھے۔ سامنے والے تین بٹن کھلے ہوئے تھے اور گلے میں خوبصورت منکوں کا ہار پہناہ ہوا تھا۔ وہ پاکستانی جس نے ترجمان کے فرائض کے انجام دینے تھے اس نے چیک دار قمیض پہنی ہوئی تھی ۔اس طرح قمیضوں کا آج کل فیشن نہیں
تھا لیکن نہ جانے وہ کیوں پہن کے آیا تھا۔ جیسے ہی گھڑی پے دس بجے میرا انٹرویو شروع ہوا۔ وہ عورت سوال کرتی جاتی اور ترجمان اس کی بات سن کے مجھے اردو میں بتاتا اور میرا جواب سن کے اسے جرمن میں بتاتا۔ وہی سوالات دوبارہ کیئے گئے۔ وہ ساتھ ساتھ کمپیوٹر پے لکھتی بھی جارہی تھی۔ پندرہ منٹ بعد میں نے انگریزی میں کہا، ’’مجھے واش روم جانا ہے‘‘۔
وہ کہنے لگی ،’’جب تک انٹرویو ختم نہیں ہوتا تم باہر نہیں جاسکتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں جب تک واش روم نہیں جاؤں گا میں کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا‘‘۔
وہ میر ی شکل دیکھنے لگی۔ پھر بولی، ’’میں تمہار ے ساتھ جاؤں گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
وہ میرے ساتھ واش روم تک آئی۔ میں اپنی حاجت رفع کرنے کے لیئے اندر جانے لگا تو میں نے کہا، ’’اگر اندر آنا چاہو تو اندر بھی آجاؤ‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’میں یہیں ٹھیک ہوں‘‘۔
میں نے جلدی اپنا مسئلہ حل کیا اور باہر آگیا۔ وہ ابھی تک باہر کھڑی تھی میں یہی سمجھ رہا تھا کہ چلی گئی ہوگی۔ مجھے اس کے باہر رہنے کی منطق سمجھ نہ آئی۔ ہم دونوں دوبارہ اسی کمرے میں آگئے جہاں میرا انٹرویو ہورہا تھا۔ وہ پاکستانی ترجمان ونہی بیٹھا ہوا تھا۔ چند سوال اور کیئے گئے ۔ اس کے بعد انٹرویو ختم ہوگیا اور اس عورت مجھ سے میری ہاوس وائس مانگی۔ میں نے اپنی ہاوس وائس اس کے ہاتھ میں تھماد دی۔ اس نے ایک اور ہاوس وائس مجھے دی۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا میرا پاس جو پہلے تھی اس پے ایف لکھا
ہوا تھا اب جو اس نے مجھے دی تھی اس پے این لکھا ہوا تھا۔ اگر میرا کیس پاس ہوجائے تو مجھے سے ملے گی اور اس کے بعد بے ملے گی۔ میں نے ہاوس وائس جیب میں رکھی ۔ وہ عورت کہنے لگی ،’’اب تمہارا انٹرویو مکمل ہوچکا ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں اب جاسکتا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہاں‘‘۔
میں اٹھا ،اس عورت کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اس ترجمان کے ساتھ بھی اور کمرے سے باہر آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست کے مہینے کا اختتام تھا اور نیائش مجھے تقریباًروز فون کرتا تھا ۔وہ روز یہی کہتا تھا کہ امیگریشن بند ہونے والی ہے اس لیئے جلدی آجاؤ ۔یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانا چاہیئے ۔ میرا اٹلی جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لیئے میں ہر دفعہ کوئی نا کوئی بہانہ کردیتا۔ اس دوران میری وازلے اور نواز شریف سے ملتی جلتی شکل کے لڑکے سے کافی دوستی ہوگئی۔ وہ لڑکامیری کوئی بات نہیں سمجھتا تھا کیوں کہ اسے اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان آتی ہی نہیں تھی۔ ہم دونوں اشارے کنائے میں بات کرتے ۔
کبھی کبھی ایرون شاٹسمین بھی آجاتا ۔ اگست کا مہینہ ختم ہواتو نیائش کا فون آنا بھی بند ہوگیا۔ ستمبر کی آمد کے ساتھ فضا میں نمی بڑھ گئی اور جب میں بس پکڑنے کے لیئے بس سٹاب پے جاتا توراستے میں بیشمار سلگز(ایک قسم کا گھونگھا)(slugs) نظر آتے ۔وہ سڑک کے کنارے اپنے دو سینگ اٹھائے رینگتے ہوئے جا رہے ہوتے ۔ جیسے ہی کوئی قریب سے گزرتا وہ اپنے خول میں گْھس جاتے ۔ایسا لگتا جیسے کچھ بھی نہیں ایک چھوٹا سا پتھر پڑا ہوا ہے۔ میں نے اتنی تعداد میں سلگز پہلے کبھی نہیں دیکھتے تھے۔
۴ ستمبر کو ۲۰۰۲ کو جمعرات کا دن تھا۔ ہمیں ہر جمعرات کو پیسے ملتے ۔ وہی پینتالیس سوس فرانک ۔ یہ دن بڑا عجیب و غریب تھا۔ اس دن دو واقعات ہوئے۔ پہلا تو نیائش کا فون تھا ۔جس میں اس نے یہ بتایا کہ امیگریشن کے لیئے ایک مہینے کی مدت بڑھا دی گئی ۔تم اگر آنا چاؤ تو تمہارے پاس ۳۰ ستمبر تک کا وقت ہے۔ دوسرا واقع میری ازیل ہائم کی تبدیلی تھا۔ مجھے ہمیشہ کی طرح یہ خبر بھی انیتا نے سنائی۔ اس نے مجھے ٹرانسفر لیٹر لاکے دیا۔ اور کہنے لگی، ’’آج تمہارا یہاں آخری دن ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ایک دن یہاں رہ سکتا ہوں‘‘۔
انیتا نے انتہائی غصے سے کہا، ’’تم اپنی مرضی کرنے کی کوشش نہ کرو۔یہاں پے سوس حکومت کا قانون چلتا ہے۔ تم خود کو کچھ زیادہ ہی تیز سمجھتے ہو‘‘۔
مجھے انیتا پہلے ہی بری لگتی تھی لیکن اس کا آج کا گفتگو کا انداز بہت ہی برا تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے بڑے سخت لہجے میں جواب دیا اور میری آواز سب نے سنی ۔ حتیٰ کہ شیفر اور شنائیڈر نے بھی سنی۔ میں نے کہا، ’’تم ہوتی کون ہو مجھ سے اس لہجے میں بات کرنی والی۔ تمہارا کام ہے یہاں کی چوکیداری کرنا ۔ لوگوں کو دیکھنا ۔مجھے کیا کرنا ہے یہ مجھے پتا ہے ۔تم مجھے کمانڈ نہ کرو‘‘۔
وہ حیران ہوکے مجھے دیکھنے لگی۔میں نے غصے میں اسے بہت برابھلا کہا۔ مجھے شنائیڈر نے بلایا اور باہر لے گیا۔ ہم دونوں باہر کھڑے تھے۔ شنائیڈر کہنے لگا، ’’تم یہاں تقریباًڈھائی مہینے سے رہ رہے ہو۔ تمہاری فائل بہت شاندار ہے۔ آج کی گفتگو سے تمہارے ریکارڈ میں ایک بری بات شامل ہوجائے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’جو لکھنا ہے لکھو ۔ یہ چند جماعتیں پڑھی ہوئی لڑکی ۔اس کو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں۔ ا س کو حکومت نے نشہ چھوڑنے کے لیئے یہاں کام دیا ہے اور یہ مجھ پے رعب جما رہی ہے‘‘۔
شنائیڈر بولا، ’’یہ درست نہیں ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس کی شکل بتاتی ہے ۔تم مانوں یا نہ مانوں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’تمہیں اورلیکون(Orlekon) بھیجا جارہا ہے ۔کل تم اورلیکون(Orlekon) جاکے اپنی ازیل ہائم دیکھ لینا ۔تم چاہو تو کل
کی رات بھی یہاں رہ سکتے ہو لیکن قانوناً اس کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
میں اندر آیا تو مجھے دو تین بندوں نے کہا،کہ تم نے ٹھیک کیا ہے۔
میں نے وازیلے سے کہا، ’’میں اٹلی جانا چاہتا ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’تمہیں کوستانسو چھوڑ آئے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کتنے پیسے لے گا‘‘۔
وہ کہنے لگا،’’کوئی پیسے نہیں لے گا۔ اس کو میں کہہ دوں گا۔ تم کب جانا چاہتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’آج ہی ‘‘۔
اس نے کوستانسوکو بلایا اور مولدووین زبان میں کچھ کہا۔ ان دونوں کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی ۔کوستانسو مجھے اشارے سے کہنے لگا کہ تم اٹلی کیوں جانا چاہتے ہو۔ لوگ تو انگلینڈ اور کینیڈا کے خواب دیکھتے ہیں۔
میں اسے کیسے سمجھاتا کہ میرا انیتا کے ساتھ گفتگو کے بعد یہاں سے دل بالکل اچاٹ ہوگیا تھا ۔
وازیلے کہنے لگا،’’آج تو نہیں یہ تمہیں کل چھوڑ آئے گااور ہاں ٹرین کا ٹکٹ ضرور لینا کیونکہ راستے میں اگر ٹکٹ چیک ہوا تو وہ تمہیں اسی سٹاپ پے اتار دے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اور کوستانسو کا ٹکٹ ‘‘
وہ بولا،’’اس کے پاس پورے سوس کا فری پاس ہے۔یہ بڑی خاص چیز ہے۔اسے اگر جرمن زبان آگئی تو یہ بہت پیسے کمائے گا‘‘۔
میری ازیل ہائم بدل گئی تھی۔مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میرا گھر اجڑ گیا ہو۔ مجھے وازیلے نے تسلی دی تھی کہ تمہیں کوستانسو چھوڑ آئے گا لیکن مجھے اس بات پے یقین نہیں آرہا تھا ۔میں یہی سمجھ رہا تھا کہ کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔اورلیکون سوزی بھی رہتی تھی۔ اس کو تو میں بھول ہی گیا تھا کیونکہ رضا نے مجھ اتنا کچھ بتایا تھا کہ سوزی کے حوالے سے جو بات ہوئی تھی مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میں بہت ہی بیوقوف ہوں۔ مجھے ا س کا سٹیشن پے نہ آنا اب معمولی سا واقع لگتا تھا۔ لیکن اورلیکون جانا ایسا لگتا تھا جیسے میں اس سے ملنے جارہا ہوں۔
شام کو میں ونٹرتھور گیا ۔وہاں سے ٹرین پے بیٹھ کے اورلیکون چلا گیا۔ سٹیشن سے باہر نکلا اور اپنے نئے گھر کو ڈھونڈنے لگا۔ یہاں کی زبان میں یہ میری دوسری کرائس تھی ۔دوسری ازیل ہائم تھی۔ عجیب و غریب ویران سا ریلوے سٹیشن تھا۔ میں سٹیشن سے باہر نکلا ۔ریلوے لائن پار کی۔ لوگوں سے پوچھتا پوچھتا اپنی ازیل ہائم کے پاس پہنچا۔ سامنے ایک باڑ لگی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی جیل ہے۔ ایک طرف ایک کیراوان کھڑا تھا۔ میں اندر داخل ہوا۔ کیراوان کے سامنے ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ کمرے کے اندر ایک میز پڑی ہوئی تھی۔ چند کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک دیوار پے نوٹس بورڈ تھا جس مختلف لوگوں کی پولورائیڈکیمرے سے کھینچی ہوئی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ میز کی پچھلی طرف ایک موٹی سی عورت اپنی دونو ں کہنیاں میز پے سجائے بیٹھی ہوئی تھی اور وہ کسی کاغذ کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے کاغذ سے نظر ہٹا کے مجھے دیکھا۔ میں نے اسے اپنے آنے کی وجہ بتائی ۔تو کہنے لگی، ’’تم اپنا سامان لائے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’سامان کیسا ۔یہ بیگ ہے اس میں سب کچھ ہے۔ چند کاغذ ہیں۔ایک پین ہے‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’تم نے آج رات یہاں سونا ہے ۔آج سے یہ تمہارے رہنے کی جگہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن مجھے کو کل آنا ہے ۔آج تو میں دیکھنے آیا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’اس پے ستمبر کی پانچ تاریخ لکھی ہوئی ہے اور آج پانچ تاریخ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آج تو چار تاریخ ہے‘‘۔
اس نے مجھے کیلنڈر دکھایا ۔ا س پے پانچ تاریخ تھی اور میں سارا دن یہی سوچتارہا کہ آج چار تاریخ ہے۔ نہ انیتا نے تاریخ پے غور کیا تھا نہ ہی شنائیڈر نے۔میں نے کہا، ’’میں تو ساتھ کچھ نہیں لایا‘‘۔
کہنے لگی، ’’ابھی وقت ہے جاکے اپنا سامان لے آؤ۔لیکن اس سے پہلے یہاں اندراج کروالوں۔ اپنا کمرہ دیکھ لو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
اس نے مجھ سے میری ہاوس وائس لی اور اس پے میرانام ،تاریخ پیدائش اور دیگر چیزیں لکھنے لگی۔ پھر مجھے ہاوسوائس واپس کردی اور کہنے لگی، ’’میرے ساتھ آؤ‘‘۔
میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ وہ مجھے کیراوان میں لے گئی۔ میں سوچ رہا تھا نہ جانے کیا کرنے جارہی ہے ۔ کیراوان کیا تھا کباڑ خانہ تھا۔ مجھے کہنے لگی، ’’تم پاکستانی ہو تم اپنا کھانا علیحدہ پکاو گے کیونکہ تم لوگ کھانے میں مصالحے استعمال کرتے ہو جس سے دوسروں لوگوں کو بو آتی ہے اس لیئے میں تمہیں علیحدہ برتن دی رہی ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
اس نے مجھے ایک پلیٹ ،ایک دیگچی، چمچ،کانٹا اور چھری دی۔ کہنے لگی ،’’تم مجھے ان سب چیزوں کے پانچ سوس فرانک دے دو‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ کیوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’کیونکہ یہ چیزیں مفت نہیں آتیں‘‘۔
میں نے اسے جیب سے پانچ سوس فرانک کا سکا دیا۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ دفتر میں لے آئی۔ پہلے اس نے پولورائیڈ کیمرے سے تصویر اتاری اور سوکھنے کے بعد نوٹس بورڈ پے لگا دی اور اس کے نیچے میرا نام لکھ دیا۔ پھر کہنے لگی،’’تمہیں جرمن زبان آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت کم لیکن سیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’تمہاری سوشل سے ہر مہینے پندرہ سوس فرانک کٹا کریں گیں کیونکہ جو ٹیچر جرمن زبان پڑھانے آتی ہے اس کو فیس دینی پڑتی ہے ۔وہ ہفتے میں تین دن آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں سوچ کر بتاؤں گا‘‘۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئی ۔اس نے مجھے میرا کمرہ دکھایا۔ کہنے لگی، ’’یہاں دو افغانی رہتے ہیں۔ تیسرا بستر تمہارا ۔اگر تمہیں چادر اور تکیہ چاہیئے تو اس کے پیسے علیحدہ سے دینے ہوں گے‘‘۔
میں اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے مجھے ٹی وی والا کمرہ دکھایا۔ باتھ روم دکھایا ۔سارے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد کہنے لگی، ’’تم اپنا سامان لے آؤ۔ دس بجے سے پہلے آجانا ۔اس کے بعد نہ باہر جانے کی اجازت ہے نہ ہی باہر سے اندر آنے کی اجازت ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
میں ازیل ہائم سے نکلا۔ دل میں سوچنے لگا، برے پھنسے۔میں دوبارہ اورلیکون کے ا س ویران ریلوے سٹیشن پے آیا ۔یہاں سے ونٹرتھور کی ٹرین پے بیٹھ کے ونٹرتھور آگیا۔ میں نے ٹرین میں پکا ارادہ کرلیا کہ میں اٹلی جاؤں گا،اورلیکون کی ازیل ہائم میں واپس نہیں جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ میں جب بس پے بیٹھ کے اوربیول پہنچا تو شام کے سات بج چکے تھے۔ میں جیسے ہی ازیل ہائم میں داخل ہوا تو سامنے ایرون شاٹسمین بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی گلے لگا یا اور کہنے لگا، ’’مجھے پتا چلا ہے کہ تمہیں اورلیکون بھیج دیا گیا۔ کل سے تم وہاں رہو گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کل سے نہیں بلکہ آج سے ۔میں آج چار تاریخ سمجھ رہا تھا لیکن آج پانچ تاریخ ہے اور مجھے آج کی رات وہاں ہونا چاہیئے۔ میں اپنا سامان لینے آیاہوں‘‘۔
’’تو اس کا مطلب ہے تم جارہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں آج رات میں یہاں سوؤں گا۔کل میں اٹلی جارہاہوں ۔وہاں کی امیگریشن کھلی ہے ۔اب میں یہاں نہیں رہنا چاہتا‘‘۔
وہ بولا، ’’کیسے جاؤ گے‘‘۔
میں نے کہا ،’’جیسے آیا تھا‘‘۔
’’بارڈر پار کروگے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں ٹرین میں بیٹھ کے چلا جاؤں گا‘‘۔
وہ بولا، ’’میرے لائق کوئی خدمت‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے پچاس سوس فرانک کی ضرورت ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’میں تمہیں پچاس یورو دے سکتا ہوں‘‘۔
جب اس نے یہ کہا تو مجھے ایک دم خیال آیا کہ اس کا مطلب ہے میں اٹلی ضرور جاؤں ۔خد ا نے اسے پچاس یورو دے کر میری مدد کے لیئے بھیجا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے دے دو ۔میں تمہیں اٹلی سے واپس بھیج دوں گا‘‘۔
اس نے اپنے چوغے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس یورو کا نوٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور کہنے لگا، ’’اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا کہ تم مجھے واپس دوگے ۔پہلے تم اٹلی تو پہنچ جاؤ‘‘۔
اس نے مجھے اپنا کارڈبھی دیا جس پے اس کا نام پتا،فون نمبر،موبائیل نمبر، ای میل ایڈریس اور اس کے کام کی ویب سائیٹ لکھی ہوئی تھی۔ کہنے لگا، ’’جب اٹلی پہنچ جاؤ تو مجھے فون کرکے بتانا۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو ضرور بتانا۔ جب تمہیں لگے کہ تم ٹھیک طریقے سے رہ رہے ہو تو مجھے فون کرنا ۔میں تم سے ملنے آؤں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ضرور،کیوں نہیں ‘‘ ۔
وہ کہنے لگا، ’’میں اب چلتا ہوں کیوں کہ کافی دیر ہوگئی ہے۔ ہمیں ایک کام ملا ہوا ہے وہ ختم کرناہے‘‘۔
میں اسے باہر تک چھوڑنے آیا۔
رات کو بلبیر کام سے آیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں اٹلی جارہاہوں۔ کچھ اپنے بارے میں بتایا کہ جو اسے پہلے نہیں بتایا تھا۔ وہ کہنے لگا، ٹھیک ہے اگر کام بن گیا تو میں بھی آجاؤں گا۔ میں نے اسے نیائش کا فون نمبر دیا۔میں نے کہا، ’’آج رات مجھے اورلیکون ہونا چاہیئے تھا لیکن میں یہا ں آگیا ہوں۔ کل کسی وقت بھی چلا جاؤں گا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’جاؤ گے کیسے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں ازیل ہائم میں ایک لڑکا ہے وہ چھوڑ کے آئے گا۔ اسے بارڈر کا پتا ہے‘‘۔
’’پیسے کتنے لے گا‘‘۔
’’کچھ نہیں لے گا‘‘۔
بلبیر نے کہا، ’’میری طرف سے خداحافظ کیونکہ میں نے صبح جلدی اٹھنا ہے‘‘۔
بلبیر جاکے کمرے میں سو گیا اور میں کوستاسو کو ڈھونڈنے لگا لیکن اس کا کوئی پتا نہیں تھا کہ کہاں ہے۔ ایک لڑکے نے بتایا کہ وہ کہیں گیا ہوا ہے۔ میں بڑا پریشان ہواکیونکہ میں ذہنی طور پے تیار تھا۔میں ابھی اس ذہنی خلفشار سے گزر رہا تھا کہ ازیل ہائم کا فون بجنے لگا۔ میں نے کہا،یہ رات کے گیارہ بجے کس کا فون آگیا۔ ا س ایمرجینسی ایگزٹ میں جہاں فون پڑا ہوا تھا جاکے فون اٹھایا تو دوسری طرف نیائش بول رہا تھا ۔کہنے لگا، ’’شکرہے ماڑا تم مل گئے۔ تم جتنی جلدی ہوسکے آجاؤ۔ میں نے سب انتظام کرلیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ہفتے کی شام اریزو پہنچ جاؤں گا‘‘۔
وہ کہنے، ’’یہ بہت اچھی بات ہے۔تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ میں نے اسے تفصیل سمجھائی کہ کیسے آرہا ہوں اس کے بعد فون بندہوگیا۔ کوستانسو موجود نہیں تھا اور میں نے نیائش کو کہہ دیا تھا کہ میں ہفتے کی شام اریزو پہنچ جاؤں گا۔ میں اسی پریشانی کے عالم میں سو گیا۔ صبح جب آنکھ کھلی تو انیتا سے مڈھ بھیڑ ہوگئی ۔اس نے پہلا سوا ل یہی کیا،’’تم یہاں کیا کررہے ہو‘‘۔
میں نے کہا،’’مجھے شنائیڈر نے اجازت دی ہے ۔اس لیئے میں یہاں سو گیا تھا‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’اورلیکون سے فون آیا تھا ۔تمہیں رات کو وہاں ہونا چاہیئے تھا۔ ان کے ریکارڈ میں تمہارے بارے میں پہلا دن بہت برا لکھا گیا ہوگا‘‘۔
میں کوستانسو کی وجہ سے پریشان تھا کیونکہ اس کا کوئی پتا نہیں تھا۔ وازیلے بھی کام پے تھا ۔اس نے شام کو آنا تھا۔ میں کس سے پوچھتا کہ کوستانسو کہاں ہے۔ میں نے اس کے سہارے ساری کشتیاں جلانے کا سوچ لیا تھا۔ ناشتہ زہر مار کیا ۔بڑی مشکل سے دن گزارا۔ دوپہر کو رات کا بچا ہوا سالن اور دو پیتا بریڈ گرم کرکے کھائیں۔ کوستانسو کو کوستا رہا۔ اگر آج کوستانسو نہیں آتا تو مجھے اورلیکون جانا پڑے گا ۔وہاں اس ویرانے میں سونا پڑے گا۔ جہاں میں کسی کو نہیں جانتا۔شام کے چاربجے ہوں گے ۔میں ازیل ہائم کے باہر چھوٹے سے باغیچے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ کوستانسو کو کوس رہا تھا اور ایک مبہم سی امید بھی تھی کہ وہ آجائے گا۔ دور سے نواز شریف کا ہم شکل، گورا چٹا، سر سے گنجا شخص آتا دکھائی دیا۔ میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ کوستانسوآگیا۔ وہ آتے ہی کہنے لگا، ’’تیار ہو‘‘۔
میں اور وہ اشاروں سے بات کرتے تھے کیونکہ اسے اپنی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ اگر وازیلے ہوتا تو وہ ترجمہ کردیا کرتا۔میں نے اسے اشاروں سے سمجھایا کہ میں صبح سے اس کا انتظار کررہا ہوں۔اس نے مجھے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ میرے سلسلے میں ہی گیا ہوا تھا۔
پھر مجھے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ ایک جینز اور ٹی شرٹ رکھ لو۔ میں نے کہا وہ کس لیئے تو مجھے اشارے سے سمجھانے لگا کہ ایک تو تم نے پہنی ہوئی ہے اور دوسری تمہیں راستے میں ضرورت پڑے گی۔ میں نے کہا جانا کب ہے۔تو کہنے لگا، ابھی جانا ہے۔ پہلے ہم ونٹرتھور جائیں گے۔ وہاں سے زیورک اور زیورک سے لوگانوں۔ ہم لوگ زیورک سے شام سات بجے والی ٹرین پے بیٹھیں گے۔ میں نے کہا اور وہ ٹرین ہمیں تین گھنٹے میں لوگانوں پہنچا دے گی ۔وہ کہنے لگا ،تمہیں کیسے پتا ہے۔ میں نے کہا کیونکہ میں پہلے اس ٹرین پے سفر کرچکا ہوں۔وہ کہنے لگا دیر نہ کرو۔ کسی بیگ میں ایک جینز،ٹی شرٹ اور اگر چاہو تو ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش رکھ لو۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں گیا ۔وہاں سے اپنا کالا بیگ اٹھایا ۔ اس میں ایک جینز رکھی، یہ وہی جینز تھی جو میں اریزو سے کرائس لنگن تک پہن کے آیا تھا البتہ میری ٹی شرٹ جو مجھے بہت پسند تھی وہ اس سری لنکن لڑکی کی نظر ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ بیگ میں ٹوٹھ پیسٹ ،ٹوتھ برش اور چند کاغذات رکھے۔ جن میں دیر لانڈ بوٹے میں میرے انٹرویو کی کٹنگ بھی تھی۔ایک نوٹ بک تھی جس پے میں نے چند ایک نظمیں لکھی تھیں۔ یہ سب کچھ لے کے میں باہر آیا۔ ہاوس ماسٹر کو میں نے بتایا کہ میں جارہا ہوں۔ اس نے مجھے چاؤ چْس کہا۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اورلیکون جارہا ہوں۔ میں اور کوستاسو ازیل ہائم سے نکلے ۔میں نے مْڑ کے ازیل ہائم پے ایک نظر ڈالی۔ یہاں میں نے تقریباًڈھائی مہینے گزارے تھے ۔ایک عجیب قسم کا لگاؤ ہوگیا تھا لیکن مجھے جانا تھا۔ مجھے سوس آنے کی بھی بڑی جلدی تھی اور اٹلی واپس جانے کا فیصلہ بھی میں نے ایک دم کیا۔ ہم دونوں بس پے بیٹھ کے ونٹر تھور آئے۔ جمعے کی شام کو ویک اینڈ شروع ہوجاتا ہے اس لیئے سوس میں بڑے شہروں کے لیئے ٹرینیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور ٹکٹ بھی سستا ہوتا
ہے۔ اگر آپ فیملی کے ساتھ سفر کریں تو ٹکٹ کی قیمت میں زیادہ کمی ہوجاتی ہے۔ مجھے کوستانسو نے اشارہ کیا کہ تم ٹکٹ لے لو۔ میں نے کہا ، تمہارا بھی ٹکٹ لے لوں تو کہنے لگا میری پاس پورے سوس کا پاس ہے ۔میں پچیس سال سے کم ہوں ۔ویک اینڈ پے میں مفت سفر کرتا ہوں۔ میں نے کہا ، کہا ں تک ٹکٹ لوں ۔تو کہنے لگا ونٹر تھور سے لوگانوں تک کا ٹکٹ لو اس سے ٹائم کی بچت ہوگی کیونکہ زیورک میں بہت رش ہوتا ہے اور ٹرین کے نکل جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ میں نے کھڑکی پے جا کے لوگانوں تک کا ٹکٹ لیا۔ اس نے ایک ٹکٹ تو مجھے ونٹرتھور سے زیورک تک کا دیا اور دوسرا ٹکٹ زیورک سے لوگانوں تک کا دیا۔ ونٹرتھور سے زیورک کے لیئے کئی ٹرینیں تھیں۔ چند منٹ میں ہماری ٹرین آئی اور ہم دونوں ٹرین میں سوار ہوئے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں واقعی کوستانسو کے ساتھ اٹلی جارہاہوں راستے میں وہ میری طرف مسکرامسکرا کے دیکھتا رہا ۔کبھی کبھی اشارے سے کوئی بات سمجھانے کی کوشش کرتا۔ ہماری ٹرین پینتالیس منٹ میں زیورک پہنچ گئی۔ چار بجے میں اوور بیول ازیل ہائم کے باہر کوستانسو کو کوس رہا تھا اور میری فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ میں شام کے ساڑھے چھ بجے زیورک ریلوے سٹیشن پے لوگانوں جانے والی ٹرین کا انتظار کررہا ہوں گا۔ میں زیورک ریلوے سٹیشن کو غور سے دیکھ رہا تھا۔مجھے کل کی طرح لگ رہا تھا میں پندرہ جون کو رات کے شاید دس بجے یہاں تھا۔ میں یہاں سے ونٹرتھور گیا تھا اور وہاں سے کرائس لنگن ۔مجھے اتنا بھی نہیں پتا تھا کہ میں رات کو سوؤں گا کہاں۔ وہ چھوٹی سی سینڈوچ شاپ ابھی بھی ونہی تھی۔ میں نے وہاں سے دو سینڈوچ اور دو کوک کے ٹن لیئے۔ ایک ٹن اور سینڈوچ کوستانسو کو دیا اور دوسرا خود کھانے لگا۔ کافی سخت تھا ۔ابھی ہم کھا ہی رہے تھے کہ ٹرین آگئی۔ ہم دونوں ٹرین میں سوار ہوئے۔ مجھے اب بھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اٹلی جارہاہوں کیونکہ ابھی تک ہم دونوں سوس میں ہی تھے۔ ٹرین جیسے ہی چلی میرے پاس ایک موٹاساآدمی بیٹھاہواتھامجھے دیکھتے ہی کہنے لگا،’’آج بہت گرمی ہے‘‘۔وہ مجھے ایسے کہہ رہاتھاجیسے گرمی میری وجہ سے ہوئی ہے۔ میں نے جواب دیا،’’ہاں بہت گرمی ہے لیکن جب ٹرین تھوڑی دیر چلے گی توسب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔کوستانسومجھے اوراسکوباتیں کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔اس موٹے آدمی نے مجھے بتایاکہ وہ امریکہ کارہنے والاہے اوروہ بش کے سخت خلاف ہے ۔پھراس نے یہ بھی کہاکہ بش دنیاکاسب سے بڑادہشت گردہے اوراسامہ بن لادن بہت اچھاانسان ہے۔ میں اس سے بہت دیرتک باتیں کرتارہا۔وہ کسی پرائیویٹ ٹی وی چینل کے لیئے سوس کی ڈاکومینٹری بنانے آیا تھا۔وہ میرے سامنے بش کی برائی اوراسامہ بن لادن کی تعریف اس لیئے کررہاتھاکیونکہ میں نے اسے بتادیاتھاکہ میں پاکستانی ہوں۔ میں رضاسے بہت کچھ جان چکاتھااس لیئے اب مجھے اس طرح کی باتوں پے ہنسی آتی تھی۔وہ سارے راستے میرے کان کھاتارہا۔وہ اٹلی جارہاتھااورمجھے لوگانوں اترناتھا۔جاناتومجھے بھی اٹلی تھالیکن میں اس کی طرح امیریکن نہیں تھا۔نہ ہی یورپیئن یونین کارہنے والاتھا۔رات کے سوادس بجے ہماری ٹرین لوگانوں ریلوے سٹیشن پے رکی۔ گو کہ میں اس سٹیشن پے تین مہینے پہلے بھی رکا تھا لیکن پہلے کچھ اور بات ۔ مجھے اپنی منزلِ مقصود کا پتا ہی نہیں تھا۔ اب بھی مجھے پتا نہیں تھا کہ میں اٹلی پہنچ سکوں گا یا مجھے واپس اورلیکون واپس جانے پڑے گا۔ کوستانسو ں نہیں جانتا تھا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں ۔نہ ہی اسے کوئی زبا ن آ تی تھی جو وہ مجھ سے پوچھتا۔ ہم دونوں ریلوے سٹیشن سے باہر نکلے۔ اس نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ ہم اس کے دوست کے گھر جارہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ہم لوگ اٹلی نہیں جارہے تو مجھے اس نے سمجھایا کہ آج رات کو یہاں لوگانوں رکے گیں ۔صبح چھ بجے اٹلی کے لیئے نکلے گیں۔ میں خاموش ہوگیا۔ میں نے دل میں سوچا یاقسمت یا نصیب ۔جدھر بھی لے جائے۔ میں کوستانسو کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ لوگانوں کی گلیاں ،سڑکیں سائن بورڈ ،دوکانیں سب کچھ اٹلی جیسا تھا۔ ایسالگتا تھا اٹلی کا کوئی چھوٹا سا گاؤں ہے۔ دوکانوں اور مکانوں کی تعمیر بھی اٹلی کے سے انداز کی تھی۔ سوس کی یہ کنٹون ٹیشینو(Ticino) کہلاتی ہے۔ لوگانوں ٹیشینوں (Ticino)کنٹون کا ایک شہر ہے۔ یہاں پے اٹالین زبان بولی جاتی ہے۔ میں اپنی خیالوں میں مگن اس کے پیچھے چل رہا تھا اور وہ سر جھکائے مختلف گلیوں سے مجھے ایسے لے کے جارہا تھا جیسے وہ صدیوں سے یہاں کا باسی ہے۔پھر وہ ایک بہت اونچی عمارت کے سامنے رک گیا۔ شاید دس منزلہ ہوگی۔ اس عمارت کی بہت ساری گھنٹیوں میں سے ایک کو دبایا۔ دورازہ کھل گیا۔ ہم دونوں اندر داخل ہوئے۔ اس عمارت کی پہلی منزل پے ایک چھوٹا سا کمرہ بنا ہوا ۔اس میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ کوستانسو نے اسے جاکے بتایا کہ وہ کس سے ملنا آیا ہے۔ اس نے انٹرکام پے اس بندے سے رابطہ کیا کہ تم سے کوئی ملنے آیا ۔اس نے یہی کہا کہ ان کو آنے دو۔ ویک اینڈ پے دوستوں کو ملنے کی اجازت تھی۔ وہ رات بھی رہ سکتے تھے لیکن پہلے کونسیئیرج (Concierge)کو یعنی چوکیدار کو بتانا پڑتا تھا۔ کوستانسو نے مجھے اشارے سے بتایا کہ میں نے پہلے فون کردیا تھا کہ میرے ساتھ مہمان بھی ہے لیکن انہیں یہ نہیں بتایا کہ تم اٹلی جارہے ہو۔ میں نے کہا تم فکر نہ کرو۔ جب چوکیدار نے اوکے کیا تو ہم دونوں لفٹ کے ذریعے تیسرے منزل پے گئے۔ کوستانسو کا دوست دروازے پے انتظار کررہا تھا۔ کوستانسو نے اسے بتایا کہ یہ پاکستانی ہے ۔میرا دوست ہے اور اووربیول ازیل ہائم میں میرے ساتھ ہوتا ہے۔ کوستانسو کے دوست کو اٹالین زبان آتی تھی اس لیئے ہمیں بات چیت میں آسانی ہوئی۔ اسے اٹالین اس لیئے آتی تھی کیونکہ وہ جس کنٹون میں تھا یہاں کی زبان ہی اٹالین تھی۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے ۔یہ ایک کمرے کا گھر تھا۔ یعنی ون بیڈ روم فلیٹ۔ اس میں دو بستر لگے ہوئے تھے۔ درمیاں میں میز پے ٹی وی اور وی سی آر پڑا ہوا تھا اور ایک عدد ڈی وی ڈی پلیئر بھی پڑا ہوا تھا۔ بہت ساری انڈین فلمیں پڑی ہوئی تھیں ۔میں بڑا حیران ہوا ۔ایک کونے میں کچن بنا ہوا تھا اور کچن کے ساتھ باتھ روم تھا۔ کمرے کے ایک کھڑکی تھی جو پوری دیوار جتنی بڑی تھی۔ جہاں سے باہر کا منظر بخوبی نظر آرہا تھا۔ کوستانسو ں کے دوست نے مجھے سے اٹالین میں پوچھا کہ کھانا کھایا ہے تو میں نے کہا ،کچھ نہیں کھایا اور بھوک بھی بہت لگ رہی ہے۔ وہ کہنے لگا میں مرغی پکاتا ہوں لیکن تم مسلمان ہو ۔ہم سٹور سے مرغی لاتے ہیں ۔حلال نہیں ہوتی۔ میں نے کہا، اسلام میں اتنی سختی نہیں۔مجبوری کی حالت میں کھا سکتے ہیں اور جب بھوک بہت زیادہ لگی ہو تو پھر تو ضرور کھا سکتے ہیں۔ اس نے زور قہقہا لگایا۔ پھر میں نے کہا۔ لیکن مرغی میں پکاؤں گا۔ کوستانسو بہت حیران ہوا کہ مجھے یہاں آئے ہوئے چند لمحے ہوئے ہیں اور میں اس کے دوست سے ایسے باتیں کررہا ہوں جیسے میں اسے بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ میری عادت ہی ایسی ہے ۔میں تکلفات کا قائل ہی نہیں ہو۔ خیر اس نے مجھے مرغی کا ایک پیکٹ دیا ۔ اس کی کھال نہیں اتری تھی۔میں نے دیگچی میں پانی ڈال کے اس کو اس میں ڈال دیا اور خود اس سے پیاز اور ٹماٹر لے کے مصالحہ بنانے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم لوگ مصالحے دار کھانا کھا لو گے تو وہ کہنے لگے کیوں نہیں۔ ان کے پاس مصالحے ہی کتنے تھے۔ کالی مرچیں وہ بھی پسی ہوئی اور نمک ۔ میں نے آدھے گھنٹے میں مرغی تیار کرلی۔ اس نے ڈبل روٹی کا ایک پیکٹ نکالا اور ہم تینوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔ اس کے بعد کوستانسو کا دوست کہنے لگا۔ کھانا بہت کھا یا ہے اس لیئے باہر چہل قدمی کے لیئے چلتے ہیں۔ میں نے کہا، ’’کہاں جائیں گے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’یہاں لوگانوں کی جھیل بہت خوبصورت ہے۔ ہم لوگ تو رات دیر تک وہاں بیٹھے رہتے ہیں۔ جھیل کے اس طرف ایک اونچی پہاڑی ہے۔ اس پے لوگوں کے گھروں کی بتیاں جب جلتی بجھتی ہے ۔ان کا عکس جب پانی میں پڑتا ہے تو یہ منظر بہت بھلا لگتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’پھر تو ضرور جانا چاہیئے ‘‘۔ ہم تینوں اس چھوٹے سے ایک کمرے کے فلیٹ سے باہر نکلے ۔لفٹ کے ذریعے نیچے آئے اس لڑکے نے چوکیدار کو دور ہاتھ ہلایا اور ہم تینوں دوبارہ لوگانوں گلیوں میں آوارہ گردی کررہے تھے۔ تھوڑی دیر میں لوگانوں کی جھیل آگئی۔ کوستانسو کے دوست نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ جھیل کا منظر واقعی ہی بڑا دلفریب تھا۔ آج تھی بھی چاند کی چودہویں۔ سفید دودھیاء چاند اپنی پوری آب و تاب کے سا تھ چمک رہا تھا۔ ہم پہلے تو جھیل کے کنارے چہل قدمی کرتے رہے۔ پھر ہم ایک بینچ پے بیٹھ گئے۔ جب ہم دونوں زیورک سے چلے تھے تو کافی گرمی تھی لیکن یہاں جھیل کے کنارے مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ جھیل کے پانی سے جب یہ ہوا ٹکرا کے میرے گالوں کے ساتھ ٹکراتی تو ایک عجیب سی فرحت محسوس ہوتی۔ کوستانسو کا دوست کہنے لگا، ’’کیسا لگ رہا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں تو خوابوں کی دنیا میں چلا گیا ہوں۔ تم نے ٹھیک کہا تھا۔ دور پہاڑی پے لوگوں کے مکانوں کی جلتی بجھتی بتیوں کا عکس پانی میں بہت اچھا لگ رہا ہے‘‘۔
ابھی ہم دونوں اس موضوع پے ہی بات کررہے تھے کہ چاند کا عکس پانی میں دکھائی دیا۔ پورے چاند کا عکس ، چودھویں کے چاند کا عکس، دودھ کی طرح سفید چاند کا عکس ۔چاند کا عکس کبھی دکھائی دیتا کبھی پانی میں چھپ جاتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہمیں دیکھ کے شرمارہا ہے۔ مجھے انڈین فلم لاوارث کا وہ گانا یاد آگیا۔
چاند جب جھیل کے پانی میں نہانے اترے
مجھ کو تیری بانہوں میں دیکھ کے شرماجائے
میں شاعر کی تخیل پے حیران رہ گیا۔ دنیا میں کتنے لوگ جھیل کے پانی میں چاند کے عکس کو دیکھتے ہیں لیکن کسی کا اس طرف دھیان نہیں گیا۔ چاند تو پانی کی لہروں کی وجہ سے چھپ جاتا اور بھی سامنے آجاتا لیکن شاعر کے لیئے یہ آنکھ مچولی ،چاند کا شرمانا ہے۔ وہ بھی محبوب کی بانہوں میں دیکھ کے۔ کوستانسو کا دوست کہنے لگا، ’’تم کیا سوچ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ نہیں ‘‘۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں لوگانوں کی یہ جھیل نہ دیکھتا تو شاید میں میرا سوس آنا بے کار جاتا۔ رات بہت دیر تک ہم جھیل کے کنارے بیٹھے رہے ۔پھر ہم نے واپسی کی راہ لی۔ گھر پہنچے تو میں نے کوستانسو سے پوچھا کہ ہم لوگ لوگانوں سے اٹلی کب جائیں گے تو کہنے لگاصبح۔ اب تھوڑا سا آرام کر لو کیونکہ صبح سویرے نکلنا ہے۔ میں نے کیا کہنا تھا جیسے وہ کہہ رہا تھا ویسا کرتا جارہا تھا۔ ایک چارپائی پے کوستانسو کا دوست لیٹ گیا اور دوسری پے بڑی مشکل سے میں اور کوستانسو لیٹ گئے۔ میں جن کپڑوں میں اووربیول سے چلا تھا انہی میں لیٹ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا سونے سے پہلے دانت صاف کرلوں کوئی پتانہیں موقع ملے نہ ملے۔ میں نے باتھ میں دانت صاف کیئے اور آکے پھر لیٹ گیا اور سونے کوشش کرنے لگا۔
کسی نے میرے کندھے کو زور سے ہلایا۔ میں ہڑبڑا کے اٹھا ۔کوستانسو کہنے لگا صبح کے چھ بج رہے ہیں۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھولو ۔ہمیں ابھی نکلنا ہوگا۔ دیر ہوگئی ہے۔ میں نے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور اپنا کالا بیگ اٹھایا جس میں ایک جینز اورٹی شرٹ تھی ۔چندنظمیں اور سوس اخبار دیر لانڈ بوتے کے انٹرویو کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ ساری چیزیں میں نے کوستانسو کے دوست کو دیں اور اس سے کہا کہ یہ اس پتے پے ڈاک کے ذریعے بھیج دینا۔ اس کو میں نے نیائش کا ایڈریس لکھ کے دیا۔ وہ کاغذات کو غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ان کو ایک کونے میں رکھ دیا اور کہنے لگا، ’’میں انہیں ڈاک کے ذریعے بھیج دوں گا‘‘۔ اس کو میں نے اور کوستانسو ں نے خدا حافظ کہا اور رات کے کھانے کے لیئے شکریہ بھی ادا کیا۔
ہم اس ایک کمرے کے فلیٹ سے نکل کے نیچے آئے۔ اب بھی ایک چوکیدار اس چھوٹے سے کمرے میں اونگھ رہا تھا۔ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سے وہ تھوڑی دیر کے لیئے جاگا پھر اونگھنے لگا۔ مجھے کوستانسو ں کہنے لگا جلدی کرو۔ جتنی جلدی لوگانوں سے کیاسو پہنچ جائیں اچھا ہیں۔ میں نے کہا ،ہم اٹلی نہیں جارہے ۔ وہ کہنے لگا ،کیساسو سے اٹلی جائیں گے۔ ہم دونوں تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے لوگانوں ریلوے سٹیشن پے پہنچے۔ ٹکٹ گھر کھل گیا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے میں چند ماہ پہلے گزرا تھا۔ یہاں سے میں نے نیائش کو فون کیا تھا۔ یہاں سے میں نے سوزی کو فون کیا تھا۔ اس خوبصورت سی لڑکی نے مجھے ٹکٹ دیا تھا اور سارا نقشہ دیا تھا ۔کہ کیسے ٹرین بدلنی ہے ۔کون سا ٹکٹ کس ٹرین کے لیئے ہے۔ اب ٹکٹ گھر میں ایک زیادہ عمر کی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے کیاسو تک کا ٹکٹ لیا۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی خماری تھی۔ میرا بھی یہی حال تھا۔ ٹکٹ لے کے ہم دونوں پلیٹ فارم پے انتظار کرنے لگے۔ سامنے نیلے رنگ سے بڑا بڑا لوگانوں لکھا ہوا تھا۔ ٹرین آئی اور وہ بڑا بڑا لکھا ہوا لوگانوں ٹرین کے پیچھے چھپ گیا۔ ہم دونوں پینتالیس منٹ میں کیساسو پہنچ گئے۔ ٹرین سے جیسے ہی اترے تو ریلوے سٹیشن کی حدود سے باہر آگئے۔ میں نے کوستانسو ں سے پوچھا کہ ہم لوگ اٹلی نہیں جارہے ۔ وہ کہنے یہاں سے ہم پیدل جائیں گے۔ مجھے راستہ پتا ہے۔ صبح صبح لوگ نہیں ہوتے اور پولیس بھی نہیں ہوتی۔ میں اب سمجھا کہ کوستانسو نے مجھے کس طریقے سے اٹلی لے کر جانا تھا۔ ہم دونوں ایک چھوٹے سے محلے سے گزرے ۔پھر ہم کیساسو جو کہ ایک چھوٹا سے گاؤں کی طرح لگ رہا تھا سے باہر نکلے۔ ایک طرف بڑی سڑک جارہی تھی۔ وہ کہنے لگا یہ سڑک اٹلی جاتی ہے لیکن ہم جنگل سے گزر کے جائیں گے۔ ہم دونوں روڈ کے کنارے پے ایک کونے میں چھپ کے کھڑے ہوگئے۔ کیونکہ اکا دکا گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ جیسے ہی یہ گاڑیاں گزریں ہم دونوں نے سڑک پار کی اور جنگل میں گْھس گئے۔
جیسے ہی میں چند قدم چلا درختوں کے جھنڈ میں مجھے پرانی پتلونیں، جرابیں، جوتے، سویٹر،جسم پے پہنے والے کئی قسم کے کپڑے بکھرے نظر آئے۔ مجھے مائیکل جیکسن کا گانا تھرلر یاد آگیا۔ اس میں مْردے زمین سے باہر نکلتے ہیں۔ میں یہ سوچنے لگا کہ ابھی ان کپڑوں میں لوگ داخل ہوجائیں گے اور ڈانس کرنا شروع کردیں گے۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہم دونوں اس جنگل میں چلتے رہے۔ میرا پاس میرا کالا بیگ تھا جس میں ایک جینز اور ٹی شرٹ تھی۔ کوستانسو کہنے لگا جب اٹلی میں داخل ہونے لگو تو یہ پہن لینا ۔یہ بیگ اور یہ کپڑے ونہی پھینک دینا۔ ابھی ہمیں چلتے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کوستانسو کہنے لگا ،مجھے پیٹ میں درر ہورہا ہے۔ میں نے کہا تو اب کیا کریں ۔ کہنے لگا تم ایک کونے میں کھڑے ہوجاؤ میں اپنا مسئلہ حل کرکے آتاہوں ۔وہ جنگل میں ہی اپنی پتلون اتار کے بیٹھ گیا۔ میں نے منہ دوسری طرف کرلیا۔یہ جنگل تمام قسم کی آلائشوں سے پاک تھا لیکن اب کوستانسو ں کے دکھائے ہوئے کام کی وجہ سے فضاء میں ایک عجیب قسم کی بو پھیل گئی تھی۔وہ جلدی سے اٹھا تو اس کی پتلون بھی پھٹ گئی۔ میں نے کہا ۔اب کیاکرو گے۔ وہ کہنے لگا۔ میں کسی طریقے سے کام چلالوں گا۔ تم میرے ساتھ آؤ۔ میں نے کہا۔ اٹلی کب آئے گا۔ وہ کہنے لگا تم سامنے ایک پل دیکھ رہے ہو۔ وہ سیمنٹ کا پل جو اوپر سے گزر رہا یہ اٹلی میں ہے۔ یہ نشانی ہے ۔ میں نے دیکھا دور کافی اونچائی پے ایک سیمنٹ کا پل تھا یا شاید کنکریٹ کا بنا ہوا تھا۔ وہ کہنے لگا ۔تم اس کھیت میں گھس جاؤ ۔اس باڑ کو پار کرو گے تو سامنے اٹلی ہے۔ میں نے کہا اور تم ۔وہ کہنے لگا میں واپس جارہا ہوں۔ اور ہاں اپنی جیب سے ایسی تمام چیزیں جو سوس کی ہیں وہ مجھے دے دو۔ میں نے جیب سے تمام سوس فرانک اور سکے اس کو دے دیئے ۔وہ کہنے لگا ،ہاوس وائس بھی دے دو ۔اگر تم پکڑے گئے تو تمہیں واپس سوس بھیج دیں گے اور تمہارے لیئے بہت مسئلہ ہوگا۔ میں نے ہاوس وائس بھی اس کو دے دی۔ میں نے اس کے ہوتے ہوئے باڑ پار کی، باڑ کیا تھی کنڈے دار تار تھی۔ اس کا ایک کونا میری پیٹھ میں گھسا اور خون کی ایک دھار میری جینز پے بہہ گئی۔ میں نے جیسے تیسے کرکے باڑ پار کی آس پاس دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ میں نے جینزبدلی، ٹی شرٹ بدلی بیگ کو ونہی پھینکا۔ اور اس کھیت کے کنارے پے چلنے لگا۔ چلتے چلتے مجھے نیچے گہرائی میں ایک بندا کام کرتا دکھائی دیا۔ میں اس ڈھلوان سے نیچے اتر گیا۔ میرے بازوؤں پے خراشیں آگئیں لیکن میں گرتا پڑتا سڑک تک آگیا۔ ایک گاڑی کے پیچھے کھڑے ہوکے کپڑے جھاڑے ۔وہاں میں کچھ دیر بیٹھا تانکہ میرے خون رک جائے۔ اسی اثناء اس گاڑی کے پاس دو لڑکے آکے رکے۔ میں نے اٹالین زبان میں ان سے پوچھا یہاں کوئی بار ہے ۔تو وہ کہنے لگے کیا کرنا ہے ۔ میں نے کہا مجھے بس کا ٹکٹ خریدنا ہے۔ مجھے کوستانسو ں نے بتا یا تھا کہ یہاں سے نیچے جو سڑک جاتی ہے وہ اٹلی ہے اس لیئے میں نے بہت زیادہ خود اعتمادی سے پوچھا تھا کیو نکہ مجھے یقین تھا کہ میں اٹلی میں ہو۔ انہوں نے کہا، یہاں پے بار کوئی نہیں نہ ہی کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے تم بس کا ٹکٹ خرید سکو لیکن وہ کونے میں بس سٹاپ ہے وہاں سے کوموں ریلوے سٹیشن کے لیئے بس جاتی ہے۔ میں اللہ کا نام لے کے بس سٹاپ پے جاکے کھڑا ہوگیا۔ وہاں پے ایک عورت آکے رکی میں نے کہا میرے پاس بس کا ٹکٹ نہیں کیا بس کے اندر ٹکٹ مل جائے گا۔ وہ کہنے لگی۔ بس سے تو نہیں ملے گا لیکن میرے پاس ایک ٹکٹ ہے ۔اس نے مجھے ایک ٹکٹ نکال کے دیا ۔میں نے پیسوں کا پوچھا تو کہنے لگی رہنے دو۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ گھاٹی سے نیچے اترنا، ٹکٹ کا مل جانا مجھے معجزے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ مجھے جب ایرون شاٹسمین نے پچاس یورو دیئے تھے مجھے اسی وقت محسو س ہونے لگا تھا کہ اب میں اٹلی چلا جاؤں گا۔ اب اس عورت کے پاس ٹکٹ ہونا ،یہاں سے گزرنا ۔بالکل ایسا لگتا تھا جیسے اسے خدا نے میرے لیئے بھیجا ہے۔ خیربس آئی اور ہم دونوں بس میں سوار ہوئے۔ میں نے بس ڈرائیور سے کہا۔ مجھے کومو ں ریلوے سٹیشن اترنا ہے تو اس نے کہا یہ سٹیشن پے تو نہیں جارہی ہے لیکن ا س کے پاس ضرور گزرے گی۔میں تمہیں بتا دوں گا۔ میں آگے کو چل دیا ۔مجھے ڈرائیور نے بلایا ۔ میں ڈر گیا شاید اس کو شک ہوگیا ہے۔ میں واپس مڑا تو کہنے لگا ٹکٹ تو پنچ کرو۔میں نے جلدی سے ٹکٹ پنچ کیا اور آکے سیٹ پے بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں بس ڈرائیور نے مجھ پھر آواز دی۔ میں نے کہا، اب کیا ہے تو کہنے لگا، تمہارا سٹاپ آگیا ہے ۔وہ سامنے جو سڑک ہے وہ سیدھی کومو ں ریلوے سٹیشن کی طرف جاتی ہے ۔میں نے بس سے اترنے سے پہلے اس عورت کا شکری ادا کیا اور سڑک پے چلنے لگا۔ سامنے کیساسو ریلوے سٹیشن کا بورڈ نظر آرہا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں میں جعفر اور مغل صاحب کے ساتھ آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کوموں سے کیساسوں تک چھوڑنے کے دو سو یورو لیئے تھی۔ صرف ٹرین میں دو تین چکر لگائے تھے۔ وہ کوستانسو میرا کچھ نہیں لگتا تھا اور اپنی جان پے کھیل کے مجھے بارڈر تک چھوڑنے آیا تھا۔ میں بہت زیادہ تھکا ہوا تھا اور نیند بھی آرہی تھی۔ اس کے علاوہ میں جب باڑ پے گرا تھا تو مجھے پیٹھ پے چھوٹا سا زخم بھی آگیا تھا۔ اب درد محسوس ہونے لگا تھا۔ میں ان ساری چیزوں کی پرواہ کیئے بغیر کوموں ریلوے سٹیشن میں
داخل ہوا۔ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جب میں ہفتے کی شام یہاں آیا تھا۔ میرے ساتھ مغل اور جعفر تھے۔ آج بھی ہفتہ ہی تھا۔ میں نے جون کے مہینے میں اٹلی چھوڑا تھا اور ستمبر میں واپس آگیا۔ آج ستمبر ۲۰۰۲ کی سات تاریخ تھی۔ آج سے سال پہلے نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں ٹون ٹاور گرے تھے۔جن کے گرنے کی وجہ سے میں یہاں رک گیا۔ چار دن بعد اس واقعے کو سال ہونے والا تھا۔ میں نے خود کو ان سوچوں سے آزاد کیا اور کوموں ریلوے سٹیشن ٹکٹ لینے کے لیئے قطار میں کھڑا ہوگیا۔دو بندے مجھ سے پہلے کھڑے تھے ۔وہ جلدی فارغ ہوگئے۔ جب میری باری آئی تو میں نے شیشے کے پیچھے جو عجیب غریب سا آدمی بیٹھا تھا اس سے اریزو تک کا ٹکٹ مانگا۔وہ میری شکل دیکھنے لگا ۔کہ یہ شخص کوموں سے اریزو جارہا ہے۔ خیر اس نے مجھے تین ٹکٹ نکال کے دیئے ۔ ایک ٹکٹ ریجنل ٹرین کا تھا جو کوموں سے میلانوں سنٹرل ریلوے سٹیشن
تک تھا۔ دوسرا ٹکٹ میلانوں سنٹرل سے فیرنزے ریلوے سٹیشن (فلورنس ریلوے سٹیشن) تک تھا اور تیسرا ٹکٹ بھی ریجنل ٹرین کا تھا جو فیرنزے (فلورنس) سے اریزو تک تھا۔ میں نے اسے مطلوبہ رقم دی ۔یہ وہی پچاس یورو تھے جو مجھے ایرون شاٹسمین نے دیئے
تھے۔ ایرون شاٹسمین کے پچاس یورو اور اس عورت کا بس کا ٹکٹ دینا میرے لیئے ایسے تھا جیسے خدا نے میری غیبی مدد کی ہے۔ خاص طور پے اس عورت کا اس وقت وہاں سے گزرنا معجزہ تھا۔ میری سر میں درد تھا لیکن میں کوموں سے میلان پہنچ کے کچھ کھانا چاہتا تھا کیونکہ یہ شہر بارڈر کے پاس تھا یہاں پولیس کاکنٹرول بہت تھا۔ میرا حلیہ ء ایسا تھا کہ شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن برے وقت کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔ میں نے کوموں سے میلان کا ٹکٹ پنچ کیا اور جیسی ہی ٹرین آئی اس میں بیٹھا۔ ٹرین کی حالت بہت خراب تھی۔ لوکل ٹرین تھی ۔سیٹیں بہت گندی ۔مجھے زیادہ ہی گندی لگ رہی تھیں کیونکہ میں سوس سے آرہا تھا۔ ٹرین میں کام پے جانے والے لوگ زیادہ تھے۔ یہ ٹرین تمام چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں پے رکی۔ راستے میں دیزیو کا سٹیشن بھی آیا۔ اریزو سے کئی لوگ یہاں کام کی تلاش میں آئے تھے۔ اس لیئے مجھے اس شہر کا نام یاد تھا۔
میلانوں سے پہلے ایک دو سٹیشنوں پے رکی ۔ان کے سائن بورڈ پے بھی میلانوں لکھا ہوا تھا لیکن میلانوں سنٹرال نہیں لکھا ہوا تھا۔ جب میلان سنٹرال آیا تو میں اتر گیا۔ میری اگلی ٹرین انٹر سٹی تھی۔ اس کے جانے میں ابھی وقت تھا۔ میں میلانوں ریلوے سٹیشن کی ایک بار میں گھس گیا۔ بار کے اندر بہت رش تھا۔ میں نے ایک کواساں، کپوچینوں کے پیسے دیئے اور کاونٹر پے آگیا۔ بار میں کافی مشینوں ،پیالیوں، چمچوں کی آواز آرہی تھی ۔ بہت شور تھا۔ میں نے ویٹر کو اپنی رسید دکھائی اور اس سے کواساں اور کپوچینوں کے لیئے کہا۔وہ جانے لگا تو میں نے سر درد کی گولی کے لیئے کہا تو کہنے لگا ایسپرینا ہے۔ میں نے کہا چلے گی۔ اس نے ٹشو پیپر میں لپیٹ کے مجھ ایک کواساں دیا اور جلدی سے ایک کپوچینوں کاونٹر پے رکھی۔ کپوچینوں کی پرچ میں ایک ایسپرین بھی پڑی ہوئی تھی۔ میرا پیٹ خالی تھا۔ پہلے میں نے کواساں کھایا پھر کپوچینوں میں تین چمچ چینی کے ڈال کے پیئے ۔اس کے بعد ویٹرسے پانی کا گلاس مانگا تو کہنے لگا منرل واٹر یا نلکے کا۔ میں کہا منرل واٹر۔ تو اس نے مجھ سے تیس سینٹ اور مانگے۔ میں نے کاونٹر پے پچاس سینٹ رکھ دیئے ۔گولی کے پیسے اس نے نہ لیئے۔ اس کے بعد میں نے ایسپرین کھائی اس کے بعد پانی کا گلاس گلے میں الٹ دیا۔ بار کے اس ویٹر کا شکریہ ادا کیا اور پلیٹ فارم پے آکے اپنی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ صبح کے دس بجے ہوں گے ۔میں نے پلیٹ فارم پے لگے ہوئے ایک فون باکس میں سکے ڈالے اور نیائش کا موبائیل نمبر ڈائل کیا ۔کئی دفعہ گھنٹی بجی لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔اس دوران ٹرین بھی آگئی اور میں ٹرین کی وہ بوگی ڈھونڈنے لگا جہاں میری سیٹ تھی۔ ٹرین کی بوگی ڈھونڈی اندر داخل ہوا۔ میری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی۔ ٹرین میں بہت سارے غیر ملکی تھی۔ میرے پاس ٹرین کے ٹکٹ کے علاوہ دس یورو تھے اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔دماغ میں سوس کی یادیں تھیں۔ ٹرین چلی تو میرے سر کا درد بھی جاتا رہا کیونکہ ایسپرین نے اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے نیند آگئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو بلونیاریلوے سٹیشن تھا۔ یہ وہی ریلوے سٹیشن تھا جس کے بارے میں مجھے رضا نے بتایا تھا اس کے وینٹنگ روم میں کمونسٹ پارٹی کے بندے نے بریف کیس میں بم رکھ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے پچاس بندے ہلاک ہوئے تھے اور متعدد زخمی ہوئے تھے اور اس واقعے کے بعد کمونسٹ پارٹی کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ لوگوں میں جہاں دہشت پہلی تھی وہاں بریگاتے روسے کے بندے فرانس بھاگ گئے تھے ۔انہوں نے وہاں جاکے سیاسی پناہ لے لی تھی۔ پہلے مجھے پتا نہیں تھا ۔اس واقعے کو بائیس سال گزر چکے ہیں لیکن میں ٹرین میں بیٹھے بیٹھے کانپ گیا۔ بلونیاں ریلوے سٹیشن پے ٹرین سے کافی بندے اتر گئے ۔جس کمپارٹمنٹ میں میں بیٹھا تھا وہ قریباً خالی تھا۔ میں نے پاس پڑا ہوا ایک اخبار اٹھایا۔ اتفاق سے یہ اخبار انگریزی میں تھا۔ میں اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ شاید تھوڑا سا وقت گزر جائے۔ میں اندر کے صفحات میں ایک مضمون دیکھ کے حیران رہ گیا۔ گیارہ ستمبر کے حوالے سے تھا۔ مجھے رضا نے اتنا کچھ بتایا تھا کہ ا ب اس بارے میں مزید پڑھنے اور جاننے کو دل نہیں کرتا تھا پھر بھی میں نے اس پے ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ مضمون نگار نے کرونولوجیکل (chronological)انداز میں مضمون لکھا ہوا تھا۔
۱)۱۹۹۸ میں امریکہ کی پورٹ اتھارٹی (Port authority)نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو پرائیوٹائز کرنے کا سوچا۔
۲)۲۰۰۱ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو لیز پے دینے کا سوچا گیا۔ اس کے لیئے دو کمپنیوں نے حصہ لیا۔
۳)۱۵ فروری کو۲۰۰۱ میں پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا کہ وونادوکمپنی (Vornado)کو ورلڈٹریڈ سنٹر ۹۹ سال کی لیز پے دیئے جاتے ہیں۔ اس کے لیئے وورنادو(Vornado) کمپنی نے ۲۵،۳ بلین ڈالر کی بولی لگائی تھی۔ بعد میں پورٹ اتھارٹی نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر وورناڈو کے بجائے دوسری کمپنی کو ۹۹ سال کی لیز پے دے دیا۔
۴) اس طرح ۲۶ اپریل ۲۰۰۱ کو سلورسٹائن کمپنی (Silverstein Company)کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر لیز پے مل گئے۔
۵) ۲۴ جولائی ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر سلورسٹائن کمپنی (Silverstein company)کے حوالے کردیا گیا ۹۹ سال کی لیز پے۔
۶)احمد شاہ مسعود کو ۹ستمبر ۲۰۰۱ کو دو صحافیوں نے مار دیا۔ اس کے بارے میں دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک طرف تو یہ خبر جاری کی گئی کہ اس کو طالبان نے مارا ہے۔ دوسری خبر یہ تھی کہ اس کو مارنے والے دو امریکن صحافی تھے جو طالبان کا روپ دھارے ہوئے تھے۔
۶)۱۱ ستمبر کو ۲۰۰۱ کو یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے یہ دو جڑواں ٹاور دہشت گردوں نے گرادیئے۔ یا کسی اور نے اپنے مقصد کے لیئے گرادیئے
۷)۲۰۰۱ گیارہ ستمبر کو منگل کا دن تھا۔ منگل کا دن ااور صبح کے وقت کو اس لیئے ترجیح دی گئی کیونکہ پوری دنیا میں سوموار کے دن کاروبار اپنے عروج پے ہوتا ہے۔ جمعہ مسلمانوں کے لیئے مقدس دن ہے، ہفتہ یہودیوں کے لیئے مقدس دن ہے اور اتوار عیسائیوں کے لیئے مقدس دن ہے۔ اس لیئے پوری دنیا میں کاروبار ان تین دنوں میں کم ہوتا ہے ۔یعنی ان دنوں میں لوگ چھٹی کرتے ہے۔ منگل کو چونکہ کہ گہماگہمی کم ہوتی ہے اور صبح کے وقت تو ویسے بھی زیادہ رش نہیں ہوتا اس لیئے کم سے کم انسانی جانوں کے نقصان کو ذہن میں رکھ کے کیا گیا۔
میں نے رضا سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں کافی کچھ سنا تھا لیکن لیز والی بات نہ اس نے مجھے بتائی تھی نہ ہی میں پہلے کہیں پڑھا تھا۔ اس کے لیئے احمد شاہ مسعود پنج شیر کا ہیرو ۹ ستمبر کو اس دنیا سے رخصت ہو ا یہ مجھے نہیں پتا تھا۔ اس انگریزی اخبار میں اس صحافی کا نام نہیں لکھا ہوا تھا بس مضمون کے آخر میں (ایف۔ایس ۔ ہوا تھا اور اس کی ای
میل آئی ڈی تھی)۔ اس نے لیز والی بات پے بھی روشنی ڈالتے
ہوئے لکھا تھاکہ لیز پے دینے سے پورٹ اتھارٹی کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ختم ہوجاتی تھی اس لیئے سلورسٹائن کمپنی کو اس عمارت کے لیئے اپنی پرائیویٹ سیکیورٹی کا انتظام کرنا پڑا ہوگا۔ عجیب بات ہے جولائی میں لیز ان کے نام ہوئی اور ستمبر میں یہ عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔
میں ٹرین میں بیٹھے اس ساری کڑیوں کو جوڑنے لگا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میرا سوس جانا ،واپس آنا اور ان سارے واقعات کا ہونا میرے نصیب میں لکھا تھا۔ میں سوس گیا تو سالواتورے مولی تیئیرنو کو میری وجہ سے کافی ملتی۔ گلبدین یہی سمجھتا تھا کہ اس کی آنکھوں کا آپریشن میری وجہ سے ہوا ہے۔ میں جب سوس گیا تھا تو یہی سمجھتا تھا کہ ہم واقعی دہشت گرد ہیں۔اب دل کو سکون تھا اگر کوئی دہشت گرد کہہ بھی دے تو اتنا دکھ نہیں ہوگا۔ پھر اس سوس آدمی کے بارے میں سوچنے لگا جس نے میرا موبائیل فون اتنے دن تک رکھے رکھا اور کیتھرین کے کہنے پے اسے دے دیا اور کیتھرین نے وہ موبائیل مجھے کرائس لنگن سے اووربیول بھیجا تھا۔ مجھے یادونے چکوچان بھی یاد آیا جس نے مجھے موبائیل کے بارے میں بتایا تھا۔ ایرون شاٹسمین کے پچاس یورو میرے بہت کام آئے۔ کوستانسوں کا مجھے جنگل تک چھوڑ کے جانا اور اٹلی کا بارڈر بتانامیں کیسے بھول سکتا تھا۔ کوموں میں اس عورت کابس کا ٹکٹ دینا۔ یہ ساری باتیں ساری زندگی یاد رکھنے والی تھیں۔
پھر میں اپنے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے آج تک کسی کو نہیں بتایا تھا کہ میں کون ہوں۔ گو کہ میرا باپ ایک بہت امیر آدمی ہے لیکن میری پرورش میرے دادا نے کی گو کہ دادی بھی ساتھ ہی ہوتی تھیں لیکن میرے دادا نے میرے علمی و ادبی پرورش کی۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو میرے لیئے کتابیں چھوڑ کر گئے۔ میری ماں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ میری ماں پاکستان کی مشہور ماڈل تھی۔ کسی تقریب میں میرے باپ کو پسند آگئی اور پھر دونوں میں دوستی ہوگئی۔ جب میرے باپ کوپتا چلا کہ وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے تو اس کا منہ پیسوں سے بند کرنے کی کوشش کی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی اس لیئے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیئے میرے باپ کو نکاح کرنا پڑا۔ ا س کاخیال تھا بیٹی ہوگی تو اس کو بھی اسی کام پے لگا دوں گی لیکن لڑکا ہوا۔ میرے والدصاحب مجھے اپنے ساتھ لے آئے اورمجھے اپنے باپ کے حوالے کردیا ۔یعنی میرے دادا کے حوالے کردیا۔ میری ماں مجھ سے ملنے کبھی نہ آئی ،نہ ہی میرا باپ مجھ سے ملنا پسند کرتا تھا۔ ان دونوں کے نزدیک میں ایک بائیلوجیکل عمل کے ذریعے اس دنیا میں آیا تھا۔ پیسے دھیلے کی کمی نہ تھی اس لیئے میری پرورش اچھے طریقے سے کی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے اس میں اس بچے کا تو کوئی قصور نہیں۔وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن میرے بھائیوں نے میری حصے کی ساری جائیداد اپنے نام کروالی ۔وہ ہمارے دادا کے مرنے کا انتظا ر کررہے تھے۔ میں ٹرین میں جب یہ سب کچھ سوچ رہا تھا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن میں جو کچھ دیکھ چکا تھا وہ کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھایا جاتا ،کسی کتاب میں نہیں لکھا ہوا۔
شام کے چار بجے میری ٹرین فیرنزے (فلورنس ) ریلوے سٹیشن پے آکے رکی ۔مجھے تھوڑی تھوڑی بھوک لگ رہی تھی۔ میں ٹرین سے اترااور سیدھا سنتا ماریاء نوویلا (Santa Maria Nouvella)(فلورنس کے سنٹرل ریلوے سٹیشن کا نام ہے) کے اندر پائے جانے میک ڈونلڈ میں چلا گیا۔ وہاں سے ایک برگر، چپس اور کوک لی اور آکے اریزو جانے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ ٹرین کے آنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔ میں نے سولہ نمبر پلیٹ فارم جہاں پے میری ٹرین نے آنا تھا کے پاس ہی لگے ہوئے ایک فون بوتھ میں چند سکے ڈالے اور نیائش کا نمبر ملا دیا۔ ایک دو گھنٹیاں بجنے کے بعد نیائش نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے آواز ،’’پرونتو یعنی ہیلو‘‘۔
میں نے کہا، ’’نیائش بھائی میں فرشتہ بول رہا ہوں۔تقریباًساڑھے پانچ بجے اریزو پہنچ جاؤں گا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’ماڑا مبارک ہو تم خیرخیریت سے پہنچ گئے۔ مجھے بڑی فکر تھی ۔تم نے کہا تھا کہ میں سات تاریخ کو پہنچ جاؤں گا۔مجھے تمہارا شدت سے انتظار تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹرین آگئی ہے میں بیٹھنے لگا‘‘۔
تو وہ بولا، ’’ٹھیک ہے خدا حافظ ، میں سٹیشن پے تمہیں لینے آؤں گا‘‘۔
میں نے فون بند کردیا۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اس ٹرین نے روم جانا تھا۔ میں ٹھیک سوا پانچ بجے اریزو ریلوے سٹیشن پے تھا۔ سٹیشن پے نیائش اپنی گاڑی میں مجھے لینے آیا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
completed 30 may 2011
sarfraz baig

No comments:

Post a Comment