Wednesday, June 19, 2013

ہزاروں خواہشیں ایسئ، افسانہ، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG







   ہزاروں خواہشیں ایسی

دونوں نے گاڑی ہوٹل گل نور کے سامنے پارک کی۔ یہ مارکیٹ مری روڈ پے ناز سینما سے تھورا آگے واقع ہے ۔ جہاں ایک طرف تو الیکٹرانک کی دوکانیں ہیں اس کے بالکل سامنے سڑک کے اس پار جیولری کی دوکانیں ہیں۔ یہ جگہ مری روڈ کی مصروف ترین جگہ ہے۔ ماروی نے اجمل کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا نہ جانے وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کیا کہنا چاہ رہی تھی ۔ وہ اجمل بھی ماروی کے دیکھنے کے انداز سے سمجھ گیا تھا کہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں اسے کیا سمجھانا چاہ رہی ہے ۔ اجمل نے آہستگی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بالکل اس کی نقل کرتے ہوئے ماروی نے گاڑی کا دروازہ کھولا ۔ دونوں گاڑی سے باہر آئے اجمل نے الیکٹرک چابی سے دور سے ہی گاڑی بند کی ایک ٹوں ٹوں کی آواز آئی۔ ماروی نے جدید انداز کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ، اونچی ایڑھی کی جوتی، ما روی کا رنگ نہ گورا تھا نہ ہی کالا بلکہ ایک بہت ہی پرکشش رنگت تھی جو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ دبلی پتلی بھی نہیں تھی لیکن آپ اسے موٹی بھی نہیں کہہ سکتے۔ قمیض آدھے بازووں والی تھی اور بانہوں کی گولائیاں بہت ہی بھلی لگ رہی تھیں۔ اس پے جو سب سے زیادہ کمال کی بات تھی وہ اس کے دونوں بازوؤں میں سونے موٹے موٹے کڑے ۔ جب اسے نے اپنا ایک بازو اوپر کی طرف اٹھا یااپنی زلفوں کو سنوارنے کے لیئے تو اس کے
بازوؤں میں سونے کے کنگنوں کی کھنک دور تک سنائی دی۔
دونوں میاں بیوی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے الیکٹرانک کی دوکان میں داخل ہوئے۔ دوکان کے اندر چلتے چلتے وہ اس مقام پرپہنچے جہاں دیوار کے ساتھ بڑے بڑے ایل سی ڈی ٹی وی لگے ہوئے تھے ۔ دونوں دیوار پے لگے ہوئے مختلف کمپنیوں کے ٹی وی دیکھنے لگے ۔ ان کو دیکھ کے ایک سیلز مین ان کے قریب آیا لیکن دوکان کے مالک نے دونوں کو دیکھا تو اندازہ لگایا کہ دونوں میاںؓ ٰبیوی نوجوان ، ماڈرن اور خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباس بھی ہیں۔ وہ ان کے قریب آیا اور سلام دعا کے بعد سیلز مین کو کہنے لگے تم دوسرے گاہکوں کو دیکھا ان کو میں ڈیل کرتا ہوں۔ سیلز میں کیا جو اس کے مالک نے کہا اس پے عمل کرتے ہوئے دوسری طرف چلا گیا حالانکہ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا ایک تو لڑکی بہت خوبصورت تھی دوسرا اس کا کمیشن بھی مارا گیا تھا۔
بیوی جوان خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباس بھی ہیں۔ تو اس نے سیلز میں دوسری طرف بھیج دیا اور اس سے کہا کہ تم دوسرے گاہکوں کو دیکھو۔ سیلز مین منہ بسور کے دوسری طرف چلا گیا حالانکہ اس کا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ لڑکی بہت خوبصورت تھی اور دوسری وجہ اس کا کمیشن بھی مارا گیا۔
خیر دوکان کے مالک ان کے قریب آیا اور پوچھنے لگا کہ میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں تو اجمل نے کہا، ’’آپ میری بیوی سے پوچھے جو بھی ٹی وی یہ پسند کرے وہ ہمیں پیک کردیں ‘‘۔
تو دوکان دار ان کو مختلف قسم کے ٹی وی دکھانے لگا، ایل سی ڈی ،ڈیجیٹل، لیڈ، ایسے بھی ٹی وی موجود تھے جن پے سکائیپ اور فیس بک بھی استعمال ہوسکتا تھا۔ یہ ذرا مہنگے تھے لیکن بہت ہی خوبصورت، سلم اور جدید سہولیات سے مزین تھے
اجمل اور ماوری نے دوکا ن کے مالک سے اجازت لی اور دوکان کا چکر لگانے لگے اور اسے کہا ہم ذرا دیکھ لیں پھر آپ کو بتاتے ہیں۔ دوکان دار کہنے لگا آپ کی اپنی دوکان ہے گھوم پھر لیجئے میری ضرورت پڑے تو میں حاضر ہوں۔ دونوں نے مسکراء کے اس کی طرف دیکھا جس کا مطلب تھا کہ وہ ان دونوں کی جان چھوڑدے ۔ دوکان کے مالک کو یہی امید تھی کہ ڈیڑھ دو لاکھ کا سامان بک جائے گا کیونکہ سکائیپ اور فیس بک والے ٹی وی ایک لاکھ دس ہزار سے کم کے نہیں تھے۔
دونوں میاں بیوی کئی اقسام کے ٹی وی دیکھتے رہے۔ پھر ماروی کو ایک ٹی وی پسند آگیا۔ اس نے اجمل سے کہا ، ’’اجمی یہ ٹی وی ٹھیک ہے ‘‘۔ تو اس نے کہا،’’جیسے تمہاری مرضی لیکن میرے خیال میں یہ والا ٹی وی اچھا ہے ، یہ سستا بھی ہے اور کمپنی کی گارنٹی بھی ہے ‘‘۔ ماروی منہ بسور کے بولی مجھے تو یہی ٹی وی پسند ہے کیونکہ بھائی جان کے گھر بھی یہی ٹی وی ہے‘‘۔
’’بھئی وہ مہنگا ٹی وی خرید سکتے ہیں ان کی رشوت کی کمائی ہے میں حلال روزی کماتا ہوں بڑی مشکل سے کمیٹیاں ڈال کے رقم اکٹھی کی ہے۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘۔
’’آپ تو ہاتھ دھو کے میرے بھائی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ لوگ اس کو گفٹ دیتے ہیں تو رشوت ہوجاتی ہے‘‘۔
’’میں تمہارے بھائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر اس لیئے پڑا ہوا کیونکہ وہ گندا نہ ہوجائے۔ پھرتم کہو گی کہ میرے بھائی کو گندا کردیا‘‘۔ دوکانداز دور کھڑا ان دونوں میاں بیوی کی گفتگو سن رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں مسکراء رہا تھا کہ ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔
ماروی پھر بولی ،’’آپ کو جگت بازی کی سوجھ رہی ہے ۔ آپ بات کوگھما رہے ہیں۔ میں نے یہی ٹی وی لینا ہے ۔میری بچے مامو ں گھر جاتے ہیں تو بڑی حسرت سے اس ٹی وی کو دیکھتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے بچے کسے چیز کو ترسیں‘‘۔
’’ہاں پھر بھائی سے کہہ دو تمہیں یہ مہنگا ٹی وی لے دی‘‘۔
’’آپ بھی کمال کرتے ہیں ابھی حال ہی میں تو میری امی نے مجھے یہ دو سونے کے کڑے بناکے دیئے ہیں ۔ اب میں ان کو ٹی وی فرمائش کردوں‘‘۔
’’اور دو کڑے میں نے بنا کے دیئے ہیں ان کا ذکر ہی نہیں‘‘۔
ماروی نے دونوں ہاتھ اوپر کرکے کہا، ’’دیکھ لیں دونوں سونے کے ہیں لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے۔ آپ والے ہلکے ہیں اور امی نے جو دیئے ہیں بھاری ہیں ۔پورا بیس ہزار کا فر ق ہے‘‘۔
’’اچھا بھئی میں ٹھہرا غریب۔ نہ کرتی مجھ سے شادی‘‘۔
’’مجھے کیا پتا تھا آپ اتنے کنگلے ہیں۔ میری قسمت پھوٹ گئی تھی۔میرے تو کئی رشتے آئے تھے۔ ماموں کا لڑکا تو پاگل تھا۔ اس کا اپنا گھر ہے۔ سی ڈی اے میں ملازم ہے اور اب تو سنا ہے ایک پلاٹ بھی ملا ہے اس کو۔ جب بیچے گا تو ایک کروڑ ملے گا‘‘۔
’’ہاں تو اب کر لو اس سے شادی ۔ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں‘‘۔
’’آپ تو بہانے ڈھونڈتے ہیں مجھے چھوڑنے کے۔ اگر بچے نہ ہوتے تو اس کی نوبت ہی نہ آتی ۔ میں کب کی آپ کو چھوڑ کے چلی گئی ہوتی‘‘۔
’’ہاں اب بھی اندر ہی اندر اس سے عشق میں جل رہی ہو‘‘۔
’’اجمی آپ نے بہت گھٹیا بات کی‘‘۔
’’اور تم نے بڑی ودھیاء بات کی ہے‘‘۔ بھرے بازار میں خاوند کی عزت کا کوئی خیال ہی نہیں‘‘۔
’’میری امی ٹھیک کہتی تھیں۔ انہیں شروع ہی سے آپ پسند نہیں تھے بس ابو کی وجہ سے میری شادی ہوگئی‘‘۔
’’اچھا اب کیا ارادہ ہے ، ٹی وی لینا ہے یا یہی تقابلی جائزہ جاری رہے گا‘‘۔
’’ٹی وی تومیں لے کر جاؤں گی لیکن اپنے پیسوں ‘‘۔
’’ماروی یہ کیا بکواس کررہی ہو۔ یہ گھر نہیں دوکان ہے۔ ڈرامہ نہ کرو‘‘
’’ڈرامہ تو آپ میرے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ میں ہی جانتی ہوں کہ میں آپ کے ساتھ کیسے گزارا کر رہی ہوں‘‘۔
’’مجھ سے بھی تو پوچھو کہ میں تمہارے جیسی بد دماغ لڑکی کے ساتھ کیسے گزارا کررہا ہوں‘‘۔
’’ہاں میں بد دماغ ہوں لیکن آپ بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں‘‘۔
’’اچھا اب ٹی وی لینا ہے ‘‘۔
’’ہاں لینا ہے لیکن میں اپنے پیسوں سے لوں گی‘‘۔
ماروی تم حد سے بڑھ رہی ہو۔ میں بات کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور تم بات کو بڑھا رہی ہو‘‘۔
’’خود تیلی لگاکے ایک طرف ہوجاتے ہیں اور بعد میں معصوم بنے پھرتے ہیں‘‘۔
’’اچھا میں جارہا ہوں میں دیکھتا ہوں تم کیسے ٹی وی لیتی ہو‘‘۔
ماروی کو یہی گا کہہ کہ اجمل مذاق کررہا ہے لیکن وہ واقعی ہی دوکان سے باہر نکل گیا۔ ماروی نے ایک دو دفعہ بلایا بھی لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ دوکان دارقریب آیا تو کہنے لگا، ’’کوئی بات نہیں میاں بیوی میں ایسا چلتا ہے‘‘۔ ماروی نے رونا شروع کردیا۔’’ یہ آدمی بہت گھٹیاء ہے۔ مجھے اس کے ساتھ دس سال ہو گئے ہیں۔ میرے ماں باپ اگر میرے ساتھ نہ ہوں تو میرے بچے بھوکے مر جائیں۔ اس نے مجھے سونے کے یہ دو کڑے کیا بنا دیا ہیں ہر وقت طعنے دیتا رہتا ہے۔ حالانکہ میرے ماں باپ نے مجھے اس سے زیادہ مہنگے کڑے بناکے دیئے ہیں‘‘۔
’’اچھا خیر چھوڑیں ، آپ کا کیا ارادہ ہے‘‘۔
تو ماروی نے کہا، ’’ٹی وی تو میں لے کر جاؤں گی ۔ بچوں سے وعدہ کرکے آئی ہوں‘‘۔ اس نے جھٹ سے دونوں سونے کے کڑے اتارے اور دوکان دار کے ہاتھ میں دیئے۔ کہنے لگی، ’’بھائی سونے کے کڑے میرے بچوں کی خواہش کے آگے کچھ نہیں۔ یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے ہیں۔ مجھے میرے ماں باپ نے بنا کے دیئے ۔ اسے کے کڑے میں اس کے منہ پے مار دوں گی۔ آپ ان کی مالیت لگوا لیں ۔ نہ مت کیجئے گا۔ آج میں اپنے میاں کو بتاؤں گی کہ میں کیا چیز ہوں‘‘۔ دوکاندار پہلے توانکار کرتا رہا لیکن اس عورت کی حالت اور دونوں میاں بیوی تکرار سن کے اسے ایسا لگا کہ اس کا میاں سہی معنوں میں گھٹیاء آدمی ہے۔ اس نے دونوں کڑے ہاتھ میں تھامے لیکن کچھ سوچ کے واپس کردیئے۔
کہنے لگا، ’’میں یہ نہیں کرسکتا‘‘۔
’’چلیں میں کسی اور دوکان پے جا کے بھیک مانگتی ہوں‘‘۔
پھر دوکاندار نے کچھ سوچا اور کہنے لگا لائیں ‘‘۔ یہ کہہ کے اس نے کڑے واپس لے لیئے اور کہنے لگا ،’’ٹھیک ہے میں اپنی تسلی کے لیئے ان کی قیمت لگوا لوں اگر آپ کو برا نہ لگے‘‘۔
تو وہ ماروی بولی ،’’جی ضرور‘‘۔
دوکاندار نے ملازم کو کہا ذرا خیال رکھنا میں ابھی آیا۔ جب وہ چلا گیا تو ماروی دوکان کے اندر مختلف چیزوں دیکھتی رہی۔ اس دوران دوکاندار واپس آیا اور کہنے لگا ،’’آپ کو جو ٹی وی پسند ہے وہ میں پیک کروا دیتا ہوں۔ رقم زیادہ ہے اس لیئے پ کچھ اور بھی پسند کرنے چاہیں تو لی سکتی ہیں‘‘۔
ماروی نے ٹی وی پسند کی اور ساتھ چند اور چیزیں بھی۔ دوکاندار نے ساری چیزیں پیک کروائیں اور ڈیلیوری وین بلا کر اس میں رکھوادیں۔ جب دوکاندار ان کاموں میں مصروف تھا ماروی اس دوران اس کے کاونٹر پے بیٹھ کے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔تھوڑی دیر دوکاندار آیا اس کو سارے سامان کی رسید دی اور کہا، ’’آپ سکون سے گھر جائیں ۔ میں جو کرسکتا تھا کردیا۔ اب گھوڑا گھاس سے دوستی کرلے تو کھائے گا کیا‘‘۔
ماروی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’بھائی آپ نے اتنی بڑی فیور کی ہے ۔میں تو آپ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گی۔ اگر آج یہ کڑے لے کر مجھے ٹی وی نہ دیتے تو میں اپنے بچوں کو کیا منہ دکھاتی‘‘۔
اتنا کہہ کر اس نے رسید اٹھائی اور باہر آکر ڈیلیوری وین والے کو گھر کا پتا سمجھایا اور خوڈ ٹیکسی میں اس کے آگے آگے ہولی۔
اس کے جانے کے بعد دوکاندار دوکاندار کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ شا م کو کلوزنگ کرنی تھی ۔حساب کتاب میں پیسے کم تھے پھر اس کو خیال آیا ہاں وہ سونے کے کڑے بھی لیئے تھے۔ وہ سڑک کے اس پار سنار کی دوکان پے گیا جس کے پاس وہ پہلے گیا تھا اور اس کو کڑے دیئے اور کہا، وہ ان کڑوں کے بدلے اسے پیسے دیدے تانکہ وہ کلوزنگ کرلے۔ سنار نے کڑے ہاتھ میں لیئے اور کہنے لگا ،’’یار کیوں مذاق کرتے ہو، وہ پہلے والے کڑے لاؤ نا جو پہلے لائے تھے‘‘۔
وہ ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگا۔

سرفراز بیگ ، پیرس، فرانس ۶۰۔۶۰۔۲۰۱۳
SARFRAZ BAIG, PARIS, FRANCE
06/06/2013

No comments:

Post a Comment