Sunday, June 9, 2013

مکھی، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ


مکھی ۲۰۰۶؍۰۹؍۲۵

فیصل آباد کو پاکستان کا مانچسٹربھی کہتے ہیں۔اس کا پرانا نام لائل پور ہے۔لائل پور سے پہلے اس کا کیا نام تھا اس کے لیئے مجھے کوئی تاریخی کتاب دیکھنی پڑے گی ۔
"LYLLE"
لائل چونکہ کہ کسی انگریز کا نام تھااس لیئے اس کا نام لائل رکھا گیا اور پور چونکہ سنسکرت کا لفظ ہے اس لیئے اس کا پورا نام لائل پور پڑ گیا۔ اس طرح یہ پاکستان کا مانچسٹر انگریزی اور سنسکرت کے لفظوں کی آمیزش سے لائل پور کہلایا۔ انگریزوں نے اس طرح مخلوط نام کئی شہروں کے رکھے۔ مونٹگمری، ایبٹ آباد، جیکب آباد،لارنس پور وغیرہ۔جب پاکستان آزاد ہوا تو اس طرح کے تمام انگریزی اور ہندی نام اسلامی ناموں کے سے رکھ دیئے اور اس طرح انسانوں کی طرح شہروں کے ناموں کو بھی اسلام قبول کروادیا۔ تانکہ اگر ملک میں اسلامی نظام نہ بھی رائج کرسکیں کم از کم ملک کے شہروں کے نام تو اسلامی ہونے چاہیئیں۔جیسے فیصل آباد، اسلام آباد، ساہیوال، حیدر آباد ، لالہ رخ وغیرہ۔ ملک کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔
اگر آپ فیصل آباد جائیں تو آپ کو گھنٹہ گھر اور اس کے آس پاس آٹھ بازاروں کا ذکر ضرور ملے گا۔گھنٹہ گھر باقاعدہ ایک جگہ کا نام ہے اور یہاں پے ایک مینار کے اوپر بہت بڑا گھنٹہ بھی لگا ہوا ہے جو چاروں طرف سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ گھنٹہ ان آٹھ سڑکوں کے درمیان لگا ہوا ہے جو ساری اس سے آکے ملتی ہیں۔ہر سڑک کا نام ہے۔اس کا نام کسی نا کسی بازار سے منصوب ہے ۔ میں سارے بازاروں کے نام تو نہیں جانتا لیکن چند ایک کے نام یہ ہیں۔ریل بازار، جھنگ بازار، ستیانہ بازار وغیرہ۔جس طرح پیرس میں چارلس ڈیگال آتوال ہے یا اس کو آخ دی تخی آنف بھی کہتے ہیں۔اگر آپ گھنٹہ گھر کو دیکھیں تو بہت اچھا لگے گا لیکن اگر آپ اس کے ارد گرد دیکھیں تو آپ کا جی متلانے لگے گا۔آپ کو یقیناًقے آجائے گی۔جگہ جگہ کان اور ناک صاف کرنے والے، مالش کرنے والے، لنڈے کا مال بیچنے والے آپ کو نظر آئیں گے۔فیصل آباد ایک علیحدہ دنیا ہے اور اس کے آس پاس کے گاؤں فیصل آباد شہر سے بالکل مختلف ہیں۔فیصل آباد شہر کی ایک خاص بات ہے کہ یہ سارا شہر اور اس کے آس پاس کے گاؤں بھی نقشے کہ تحت بنے ہیں۔اس لیئے دیہاتوں کی تقسیم بھی کچھ اس طرح ہے چک نمبر ۲۴۲ گاف بے، چک نمبر ۱۱۴ لام ن وغیرہ۔ شہر اور گاؤں تو نقشے مطابق بن گئے لیکن لوگوں کا نقشہ نہیں بدلا گیا نہ ہی ذہنوں کا نقشہ بدلا گیا۔ آپ ایسے کہہ سکتے ہیں شہر اور گاؤں کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اسی فیصل آباد ہی کے ایک گاؤں سادھاں والا میں عبدالرزاق کا اکثر جانا ہوا کرتا تھا۔ عبدالرزاق پیشے کے اعتبار سے پولسیاء تھا۔ یعنی پولیس کے محکمے میں کام کرتا تھا۔رینک اس کا انسپیکٹر کا تھالیکن اس کی ٹور آئی جی سے کم نہیں تھی۔ پاکستان جیسے ملک میں جو کہ بدعنوانی میں پوری دنیا میں تیسرے نمبر پے آتا ہے وہاں پولیس والے کسی بادشاہ سے کم نہیں ہوتے۔اس ملک کے عوام کو کچھ وڈیروں اور چوہدریوں کے نظام نے دبا کے رکھا تھا اور رہی سہی کسر انگریزوں نے پوری کردی۔ جب پاکستان بنا تو پولیس والے بے قصور اور معصوم انسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔ایک ایسا ملک جس کی فوج اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے دفاع(جو کہ یہ لوگ نہیں کرتے) کے بدلے میں پچاس سال سے ملک کو کھا رہی ہے۔فوجیوں سے نہ صرف سیاست دان اور وڈیرے ڈرتے ہیں بلکہ پولیس والے بھی ان کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ،انگریز ہمیں ایسا نظام دے کر گئے ہیں۔ جس کو عوام نے پسند کیا اور کسی نے بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جو بھی آیا ،وعدے کرکے چلا گیا اور اپنے جیبیں بھر لیں۔یوں کہہ لیجئے ’’اس حمام میں سبھی ننگے ہیں‘‘۔دیکھئے بات میں عبدالرزاق کی کررہا تھا اور باتوں باتوں میں میں کہا چلا گیا ۔
عبدالرزاق کی یاری سادھاں والا کے چوہدری صاحب سے تھی۔وہ خود بھی سادھاں والا کا رہنے والا تھا۔اس نے ابتدائی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کی تھی۔یہیں سے کام شروع کیا تھا اور یہیں اس کی شادی ہوئی تھی۔آجکل اس کی پوسٹنگ راولپنڈی میں تھی۔اس کے بیوی بچے فیصل آباد کی سب سے اچھی کالونی ، پیپلز کالونی میں رہتے تھے۔وہ جب بھی ہفتے دس دن کے لیئے آتا سادھاں والا ضرور جاتااور وہاں چوہدری صاحب کا مہمان ہوتا۔وہ وہاں چند دن رکتا۔چوہدری صاحب کے ہاں رنگ رنگ کی لڑکیاں موجود ہوتیں اور دیسی شراب کا بھی انتظام ہوتا۔ جسے مٹکے والی شراب کہتے ہیں۔عبدالرزاق لڑکیوں کا بڑا شوقین تھا۔چوہدری صاحب خود بھی کسی نا کسی بہانے سے گاؤں کی کوئی نا کوئی لڑکی پھانس لیا کرتے۔ اس کا طریقہ بڑا آسان تھا۔ وہ نکاح کرلیا کرتے۔ چھٹکارا پانے کے لیئے طلاق کا سہارالیا کرتے۔ کسی کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوتا۔چند ایک گھروں میں تو ایسا بھی ہوا کہ جب ان کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی انہیں لگا کہ خوبصورت ہے تو وہ خود ہی اسے زہر دے کر ماردیا کرتے۔
******************
اب کہ عبدالرزاق جب سادھاں والا پہنچا تو اس کے پاس انگریزی شراب تھی۔اس کا کوئی دوست کسی ایمبیسی سے لایا تھا۔وہ چوہدری کی حویلی میں پہنچتے ہی چہکنے لگا۔ اس نے سفید کلف لگا شلوار قمیص پہنا ہوا تھا۔نیچے کڑھائی والے میرون کُھسے پہنے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ اس کے تین چار چیلے ہمیشہ ہوتے۔ چودھدری صاحب اسے دیکھتے ہی اس سے بغل گیر ہوئے اور کہنے لگے ، یار زاقے اب کہ بڑی دیر بعد چکر لگایا ہے۔ بس کیا کروں چودھدری جی بڑا گندا تھانہ ملا ہے۔مجھے اٹھا کے راولپنڈی پھینک دیا ہے۔ پنڈی بھی کوئی شہر ہے رہنے والا۔بس کیا کروں نوکری جو کرنی سرکار کی تو نخرا کیا کرنا۔اُو تمہیں تو کہا ہے ادھر سادھاں والا میرے پاس آجاؤ ۔ دونوں مل کے موج مستی کریں گے۔ نئے نئے میوے بھی چکھیں گے۔ بس چودھدری صاحب مجھے بھی اس نوکری کا کچھ چسکا سا پڑ گیا ہے۔ ویسے آجکل لوگ ہمیں بڑی گالیاں دیتے ہیں لیکن اب بھی ہمارے سامنے کوئی نہیں بول سکتا۔آپ بتائیں چودھدری صاحب کوئی نیا مال آیا ہے۔ میں تو تمہیں نیا مال چکھا ہی دونگا لیکن تم بھی کوئی ولیتی (ولائتی) چیز لائے ہو یا اس دفعہ بھی مٹکے والی شراب پینی پڑے گی۔چودھدری صاحب اب کہ ایسی چیز لایا ہوں کہ آپ کے ہوش ٹھکانے لگا دے گی۔ ہم بھی تو دیکھیں کیا چیز ہے جو ہمارے ہوش ٹھکانے لگا دے گی۔ اس نے بریف کیس سے چار بوتلیں شیواز ریگل کی نکالیں۔چودھدری صاحب نے شیواز ریگل کی بوتلوں کو بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھا جیسے کوئی ننگی لڑکی سامنے کھڑی ہو۔زاقے یہ تو واقعی ہی بڑے کمال کی چیز ہے۔ کافی عرصہ پہلے کمشنر صاحب کے ہاں دعوت تھی وہاں پی تھی۔ آجکل بڑی سختی ہے چودھدری جی۔ بڑی مشکل سے لایا ہوں۔ہر طرف فوجی دندناتے پھرتے ہیں۔ہم لوگوں کو بھی ٹُھڈے مارتے ہیں۔بہن چود کالے انگریز۔ بھئی کیا کریں فوجیوں کے سر پے امریکہ کا ہاتھ ہے۔اب تو یہ فوجی سالے امریکہ سے لین دین کی بات کرتے ہیں۔ایک ہاتھ لے اور ایک ہاتھ دے۔خیر چھوڑو کوئی اور بات کرو۔ اس دفعہ کتنی چھٹی آئے ہو۔بس دس دن کے لیئے۔ اچھا چلو ، رات کو یہ لال پری کھولیں گے۔ اس کے ساتھ ایک چٹی پری بھی ہے۔دیکھو گے تو خوش ہوجاؤ گے۔ چودھدری جی بڑا مزہ آئے گا۔ایک طرف انقلابی رنگ اور دوسری طرف امن کا رنگ۔
**************
صبح سویرے زاقے کی آنکھ کھلی۔ اس نے چہرے سے سفید رنگ کی چادر ہٹائی۔ اپنے ارد گرد دیکھا تو حیران رہ گیا۔وہ حویلی کے صحن میں پڑا ہے۔ اس کے تن پے قمیص نہیں اور دھوتی بھی کھلی ہوئی ہے۔ گو کہ حویلی کی اس طرف کسی کا گزر نہیں ہوتا لیکن ایک کونے میں بھینس بندھی ہوئی تھی اور کوئی لڑکی یا عورت کہہ لیجئے اس کا دودھ دھو رہی تھی۔زاقا بڑا حیران ہوا یہ سب کیاہے۔ اس اثناء وہ لڑکی جو بھینس کا دودھ
دھو رہی تھی ۔اس نے دودھ کی بالٹی کو ایک طرف رکھا ، اسے کسی چیز سے ڈھک دیا اور اپنے پلو سے ماتھے کا پسینہ پونچتے ہوئے اٹھی۔ زاقا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔اس نے پوری زندگی میں اتنی تنومند اور مضبوط جُسے والی لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ زاقے نے قمیص نہیں پہنی ہوئی تھی اس لیئے اس کی چھاتی پے بے شمار کالے اور سفید با ل آپس میں گڈ مڈ ہورہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے چاکلیٹ بٹن ہلکی سی خُنکی ہونے کی وجہ سے تھوڑے سے سخت ہوگئے تھے۔ وہ محسوس کرسکتا تھا کہ اس کے چاکلیٹ بٹن سخت ہوگئے ہیں۔ اس نے سفید چادر سے اپنے سینے کو ڈھک لیا ۔پھر گرجدار آوازمیں بولا، اے لڑکی تو یہاں کیا کررہی ہے۔اس نے پلٹ کر جواب دیا ، اگر یہی سوال میں آپ سے کروں تو کہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔زاقے نے کہا ، مجھے نہیں پتا میں یہاں کیسے آیا ہوں۔ میں بتاتی ہوں ،اس لڑکی نے کہا۔اس دوران وہ زاقے کے قریب آگئی۔آپ نے رات بہت زیادہ پی لی تھی۔وہ لڑکی تو بیہوش ہوگئی ۔آپ نشے کی حالت میں اس طرف آگئے اور اس چارپائی پے ڈھیر ہوگئے۔صبح جب میں اپنے کام کے لیئے ادھر آئی تو میری نظر آپ پے پڑی ۔میں نے جلدی سے آپ کا جسم اس سفید چادر سے ڈھک دیا۔ اس لڑکی کے بارے میں تم کیسے جانتی ہو۔ میں اسے اس لیئے جانتی ہوں کیونکہ میں اُسے اٹھا کے اپنے کمرے میں لے گئی تھی۔ زاقا بڑا حیران ہوا۔یہ لڑکی اتنی پراعتماد اور دلیر ہے کیونکہ اس کے ساتھ اس طرح کوئی بھی بات نہیں کرسکتا تھا۔ وہ سمجھا اسے شاید پتا نہیں کہ میں پولیس میں ہوں۔ زاقے نے کہا ،تمہیں پتا ہے میں کون ہوں۔ جی مجھے پتا ہے آپ پولس میں ہیں۔ تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا،تمہارا نام کیا ہے۔ جی میرا نام شاداں ہے۔ یہاں کیا کرتی ہو۔ چودھدری صاحب کے ہاں کام کرتی ہوں۔تمہارے ماں باپ۔ مجھے نہیں پتا،سب کہتے ہیں میرا کوئی نہیں۔ شادی نہیں کی۔ چودھدری صاحب کے ساتھ کبھی کبھی شادی کرتی ہوں۔زاقا ،شاداں کے جسم کو دیکھ کے دنگ رہ گیا اور جس چیز نے اس کو زیادہ حیران کیا وہ تھی شاداں کی دیدہ دلیری اور اعتماد۔ شاداں نے کالے پھولوں والی قمیص پہنی
ہوئی تھی جو اس کے جسم کے حساب سے کافی بڑی تھی اس کا گلہ بھی کھلا تھا اس لیئے اس کی چھاتیاں قمیص کے گلے سے باہر جھانک رہی تھیں۔اس نے انگیاء بھی نہیں پہنی ہوئی تھی اس لیئے جب بات کرتی تو قمیص کے اندر ہلتے ہوئے نظر آتے۔ زاقے نے اسی لمحے ہی فیصلہ کرلیا کہ وہ اس لڑکی کو پنڈی ساتھ لے کر جائے گا۔ زاقے نے شاداں سے پوچھا میرے ساتھ چلو گی۔اس نے کہا ، کہاں؟ زاقے نے کہا، پنڈی۔ آپ چودھدری صاحب سے پوچھ لیں۔وہ تو میں پوچھوں گا ہی۔
***************
زاقے نے چودھدری صاحب سے شاداں کی بات کی تو چودھدری صاحب کہنے لگے لے جاؤ لیکن بڑی ڈاڈھی عورت ہے۔ ویسے مجھے بھی بڑی پسند ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ میرے ساتھ زیادہ خوش نہیں رہتی۔ ہوسکتا ہے میں بوڑھا ہوگیا ہوں یا میں دوسری لڑکیوں کو لاتا ہوں تو جلتی ہے۔ ہر وقت دھوتی کے ڈب میں تیز دھار چاقو رکھتی ہے۔ میرے علاوہ کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دیتی۔ زاقا کہنے لگا، چودھدری جی میرا پولیس کی نوکری میں بڑے بڑے لوگوں سے پالا پڑا ہے لیکن میں نے آج تک ایسی عورت نہیں دیکھتی۔اِسے کسی چیز کا خوف ہی نہیں۔ اس کا کوئی اتا پتا۔ہماری گھر میں ایک بوڑھی عورت کام کرتی تھی۔ وہ اسے کہیں سے لائی تھی۔جب وہ فوت ہوگئی تو یہ ہمارے ساتھ ہی رہنے لگی۔ چودھدری جی چھوڑیں ان لمبی تفصیلوں کو ، میں اسے پنڈی ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ زاقے تم اس کاکیا کرو گے۔ میں نے سنا ہے پنڈی میں بڑی گوری چٹی کڑیاں ہوتی ہیں۔میموں کی طرح ۔چھوڑیں چودھدری جی پنڈی کی بھی کوئی کڑیاں ہوتی ہیں۔ نہ منہ تے نہ متھا،سُکی سُکی۔ جن گوری چٹی لڑکیوں کی آپ بات کرتے ہیں وہ زیادہ تر فوجیوں کی بیویاں ہوتی ہیں۔ اِن کے تو نخرے ہی نہیں مانڑ کیئے جاتے۔سچ پوچھیں تو چودھدری جی مجھے پنڈی شہر پسند ہی نہیں۔ چھوٹا سا شہر ہے۔ لے دے کے دو بڑی سڑکیں ہیں۔ مری روڈ اور مال روڈ۔میں تو دعا کرتا ہوں جلدی سے کسی دوسرے شہر میں تبدیلی ہو۔
خیر آپ بتائیں اجازت ہے۔ میں شاداں کو ساتھ لے جاسکتا ہوں۔ہاں ہاں لے جاؤ لیکن اس کا خیال رکھنا۔ بڑی سخت مزاج ہے۔ اس کی آپ فکر نہ کریں۔
***************
رزاق نے سادھاں والا سے گاڑی فیصل آباد کی طرف موڑی ، گاڑی میں اس کے ساتھ شاداں بھی تھی اور اس کے وفادار چیلے بھی تھے۔ ایک تو اس کا ڈرائیور تھا جو اس کا پکا رازداں تھا باقیوں کو رام کرنا مشکل نہیں تھا۔زاقے نے اپنی بیوی کو سادھاں والا سے فون کردیاکہ وہ یہاں سے سیدھا پنڈی چلا جائے گا کیونکہ پنڈی کے جس علاقے میں اس کا تھانہ ہے وہاں کرفیو لگ گیا ہے اور اسے چھٹی کینسل کرکے واپس جانا پڑ گیا ہے۔ اس کی بیوی جانتی تھی کہ رزاق اس طرح کے بہانے کرتا رہتا ہے۔ وہ اس کی اس طرح کی سرگرمیوں سے بھی واقف تھی۔ شاداں اور زاقے کی راستے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ لوگ فیصل آباد شہر رکے۔ انہوں نے اچھے سے سٹور سے ریڈی میڈ شلوار قمیص خریدا کیونکہ شاداں اس وقت ڈھیلی ڈھالی قمیص اور دھوتی میں ملبوس تھی۔ پاؤں میں نہ جانے کب کے گھِسے پٹے کھوسے پہنے ہوئے تھے۔ جب شلوار قمیص کا مرحلہ طے ہوگیا تو زاقے نے شاداں سے کہا کہ قمیص کے نیچے بھی ایک چیز پہنتے ہیں وہ بھی لے لو۔ شاداں کہنے لگی مجھے گرمی لگتی ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے جسم کا سانس رک گیا ہے۔ ان بیچاروں کا بھی دم گُھٹتا ہوگا۔ اس کے بعد شاداں کے لیئے خوبصورت سی سینڈل خریدی گئی۔ شاداں کوان چیزوں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ تو چوھدری صاحب کے کہنے پے اس کے ساتھ جارہی تھی۔ انہوں نے دوپہر کا کھانا ایک اچھے سے یسٹورنٹ میں کھایا۔ کتنی عجیب بات ہے ۔انسان نے اگر محنت کرکے پیسہ کمایا ہو تو اس کی قدر ہوتی ہے۔ رزاق کے سارا پیسہ رشوت اور بے ایمانی کا تھا۔ یعنی حرام کی کمائی تھی۔ اس لیئے زاقا اسے بے دریغ خرچ کررہا تھا اور کرتا تھا۔ وہ خود بھی کھاتا تھا اور لوگوں کو بھی کھلاتا تھا۔ کھانا کھا کے انہوں نے پنڈی کی راہ لی۔
************
شاداں جس گھر میں آئی کافی بڑا اور خوبصورت تھا ۔اس میں ضرورت کی تمام چیزیں تھیں۔ زاقے نے آتے ساتھ جو پہلا کام کیا وہ نکاح تھا۔ اس نے مولوی صاحب کو بلایا۔ مولوی صاحب جانتے تھے کہ زاقا پولیس کا آدمی ہے اس لیئے انہوں نے زیادہ سوال نہیں کیئے۔ اس کے علاوہ زاقے نے انہیں دو ہزار روپے بھی دیئے، انہیں اور کیا چاہیئے تھا۔ ورنہ پولیس والے لوگوں سے پیسے لیتے ہیں نہ کہ دیتے ہیں۔ زاقے کو کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔(جس طرح سوسائٹی ہم لوگ رہتے ہیں ۔ہمارے آس پاس اس طرح کے واقعات اکثر و پیشتر ہوتے رہتے ہیں۔) گو کہ گھر میں باورچی موجود تھا لیکن شاداں نے گھر سنبھال لیا ۔ صفائی ستھرائی، سینا پرونا، جھاڑ پونچ۔ کھاناپکانا۔ یہ سارے کام شاداں اپنے ہاتھ سے کرتی۔ زاقا بھی اس کا بھرپور خیال رکھتا اس لیئے شاداں پنڈی کی آب و ہوا میں مزید نکھر گئی تھی۔ اب اس نے قمیص کے نیچے وہ خاص چیز بھی پہنی شروع کردی تھی جس کی وجہ سے اس کی اٹھان اور زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی۔ کام وغیرہ سے فارغ ہوتی تو کوئی نا کوئی فلم دیکھ لیتی۔ اس نے سادھاں والا میں
صرف ایک دفعہ سینما جاکے فلم دیکھی تھی۔ اس کے علاوہ اسے فلموں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اب وہ فلموں اور رسالوں سے سیکھنے لگی تھی۔ گو کہ وہ ان پڑھ تھی لیکن رسالوں میں تصویریں دیکھ کر وہ کافی کچھ سیکھ چکی تھی۔ زاقے کو شاداں کا بڑا چسکا پڑ گیا تھا۔ نہ جانے شاداں کے جسم میں کیا خاص بات تھی کہ رزاق اس کی طرف کچھا چلا آتا۔ وہ زاقے کی مالش کرتی۔ اس کی چھاتی کے کالے اور سفید بالوں سے گھنٹوں کھیلتی رہتی۔ اس کی مونچھوں کو تیل لگا کر مروڑتی رہتی۔ جب وہ اس کی چھاتی پے ہاتھ پھیرتے پھیرتے رک جاتی تو زاقا کہتا ، شاداں خدا کے لیئے اپنا ہاتھ مت روکو، بڑا مزہ آتا ہے۔ شاداں کہتی ایک شرط پے، میرے ساتھ بیوفائی تو نہیں کرے گا۔ اب وہ آپ سے تو کا صیغہ استعمال کرنے لگی تھی۔ زاقے کو بھی اس کا اس طرح بلانا برا نہ لگتا۔ کبھی کبھی شاداں اس کے چاکلیٹ بٹن بھی سہلانے لگتی تو زاقا
بے سدھ ہوجاتا۔ وہ کہتا ، شاداں تم بڑی قیامت عورت ہو۔ تم سونا ہو،چاندی، تانبا قسم کی عورت ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تمہیں کیا نام دوں۔ جب چودھویں کی رات تمہارے ننگے جسم پے، چاند کی دودھیاء روشنی پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے کسی یونانی مجسمہ ساز نے سفید سنگِ مرمر کو بڑی خوبصورتی سے تراشا ہے۔جسم کا ایک ایک حصہ اپنی اپنی جگہ بالکل مناسب ہے۔ شاداں کہتی تمہیں میرے جسم سے پیار ہے میرے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں۔ یقین جانو تو جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا تو مہبوت ہوکر رہ گیا تھا۔ تمہارا جسم تمہاری قمیص سے چھن چھن کر باہر نظر آرہا تھا۔ خاص کر یہ دو۔
*************
صبح صبح دروازے پے دستک ہوئی ۔ شاداں نے دروازہ کھولا۔ اس کے سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ آتے ہی زاقے کا پوچھنے لگا کہ زاقا کدھر ہے۔ شاداں نے کہا مجھے کیا پتا ۔ میرا خیال ہے فیصل آباد اپنی بیوی کے پاس گیا ہوا ہے۔ وہ ایسے ہی کرتا ہے۔ جب بھی جاتا ہے ہفتہ دس دن رہ کر آجاتا ہے۔ لیکن وہ وہاں نہیں ہے۔ میں اس کا چھوٹا بھائی ہوں، اسحق۔تو اندر آجاؤ۔ تم شاداں ہو۔ہاں میں ہی شاداں ہوں۔ تم سادھاں والا کی رہنے والی ہو۔ ہاں لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ میں ایک ہفتے سے اپنے بھائی کی تلاش میں ہوں۔ یہ تو پولیس کا کام ہے اور ویسے بھی وہ کونسا کہیں گم ہوگیا ہے۔ میں پولیس کی طرف سے ہی آیا ہوں۔ شاداں کا ماتھا ٹھنکا لیکن اس نے چہرے کے تاثرات چشمِ زدن میں درست کرلیئے۔ تم نے مجھے پریشان کردیا۔ میں اب تک یہی سمجھ رہی تھی کہ فیصل آباد گیا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتا ہے۔ اس دوران اسحق اندر آچکا تھا۔ شاداں نے اُسے بیٹھک (آپ اسے ڈرائینگ روم کہہ لیجئے) بٹھایا۔ اس کے لیئے چائے کا انتظام کرنے چلی گئی۔ اسحق نے کہا کسی تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاداں نے کہا ، اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔ میں تمہاری بھابھی ہوں اور تم میرے دیور۔ اسحق نے کہا یہ کب ہوا۔ میں نے تو سنا تھا تم دونوں ایسے ہی رہ رہے ہو۔ نہیں ہم دونوں نے نکاح کیا ہے۔ اگر یقین نہیںآتا تو
ثبوت کے طور پہ نکاح نامہ دکھاؤں۔ نہیں نہیں مجھے یقین ہے۔ پولیس والا ہوں اس لیئے شک کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ شاداں نے کہا ، زاقے نے کبھی ذکر نہیں کیا کہ اس کا بھائی بھی پولیس میں کام کرتا ہے۔ اسحق نے کہا، اس نے کبھی ضرورت نہیں محسوس کی ہوگی حالانکہ مجھے پولیس میں زاقے نے ہی بھرتی کروایا ہے۔ تم کون سے تھانے میں ہو۔ میری پوسٹنگ بھی پنڈی ہی ہوئی ہے۔ تھانہ گنج منڈی ۔قانوناً یہ علاقہ میری ہی پاس ہے۔ اسحق نے جلدی جلدی چائے ختم کی ایک دو بسکٹ کھائے اور اجازت طلب کی۔ شاداں اسے دروازے تلک چھوڑنے آئی۔
*************
اسحق نے اگلے دن پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ شاداں نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کو کہا۔ اسحق نے گرجدار آواز میں کہا سچ سچ بتاؤ شاداں، زاقا کدھر ہے۔ شاداں نے اس سے بھی زیادہ گرجدار آواز میں کہا، اگر یہی سوال میں تم سے کروں تو۔ اور ویسے بھی تم بطور مہمان آئے ہو اس لیئے میرے گھر کے اندر آجاتے ہو ورنہ بغیر سرچ وارنٹ کے میں تمہیں کبھی بھی نہ داخل ہونے دوں۔ اسحق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے نرمی سے کہا۔معاف کرنا میں ذرا غصے میں آگیا تھا۔بڑا بھائی کافی دنوں سے غائب ہے اس لیئے پریشان ہوں۔ وہاں فیصل آباد میں اس کے بیوی بچے بھی پریشان ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم مجھ پے رعب جھاڑو۔ ویسے شاداں تمہیں پولیس میں رپورٹ درج کروانی چاہیے تھی۔ میں کیوں رپورٹ درج کرواتی۔ ہاں اب تم نے ذکر کیا ہے تو سوچتی ہوں کہ تھانے جاؤں۔ اس کاپوچھوں۔ تمہیں میرے پاس ہی آنا ہوگاکیونکہ یہ علاقہ تھانہ گنج منڈی میں آتا ہے اور اس کاانچارج میں ہوں۔ لیکن میں تو اس کے بڑے افسروں سے پوچھوں گی۔ کہیں انہوں نے اسے کسی بڑے مشن پے نہ بھیج دیا ہو۔ اسحق سمجھ گیا کہ شاداں اس کے قابو میں آسانی سے نہ آئے گی۔ اسحق کو پکا یقین تھا کہ اس کے بھائی زاقے کو یا تو اس نے قتل کردیا ہے یا کہیں چھپا دیا ہے۔ زاقا کوئی بچہ تو ہے نہیں کہ یہ اسے زیادہ دن چھپا سکے۔اگر قتل
کیا ہے تو اسی نے قتل کیا ہوگا کیونکہ اس کے بھائی کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ وہ رشوت ضرور لیتا تھا لیکن اس کے بدلے لوگوں کے ناجائز کام بھی کیا کرتا تھا۔ اس لیئے دشمنی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسحق نے شاداں کو ہنستے ہوئے کہا، شاداں کہیں تم نے اسے قتل تو نہیں کردیا؟۔شاداں نے منہ بھینچ کر کہا، اسحق زبان سنبھال کے بات کرو۔ تمہیں پتا ہے میں تم پے مقدمہ کرسکتی ہوں۔چھوٹی الزام تراشی کا۔ تم مجھ پے دفعہ ۳۰۲ کا شک کررہے ہو۔ تمہیں پتا ہے بنا ثبوت کے بات کرنا جرم ہے۔ اگر میں تم پے ہتک عزت کا دعویٰ کردوں یا تو تم جیل جاسکتے ہو یا تمہیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ تم یہ مت سمجھو کہ تم پولیس والے ہو تو میں ڈر جاؤں گی۔ جب تمہاری وردی اتر جاتی ہے تو تم بھی عام مردوں بلکہ انسانوں جیسے ہوجاتے ہو۔ سارا کمال وردی کا ہوتا ہے۔ تمہارا بھائی بھی وردی اتار کے میری چرنوں میں بیٹھ جاتاہے۔ اسحق تو سر سے لیکر پاؤں تک کانپ گیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ لوگوں کا وردی کو دیکھ کے پیشاب نکل جاتا ہے اور یہ الٹا مجھ پے رعب جھاڑ رہی ہے۔ شاداں نے مزید کہا ، اگر تم نے سرچ وارنٹ یا وارنٹ گرفتاری کے ساتھ آنے کی کوشش کی تو اس کا انتظام بھی ہے میرے پاس۔ میں رزاق سے بات کروں گی۔ اسحق نے کہا پہلے اس کا پتہ تو چل جائے کہ وہ کہاں ہے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔
*************
اب تو عبدالرزاق کی تلاش سب نے شروع کردی۔ اس کی بیوی جو فیصل آباد میں تھی اور بچے سخت پریشان تھے۔ انہیں جب شاداں کا پتا چلا تو مزید پریشان ہوئے۔ رزاق کی بیوی جانتی تھی کہ اس کا شوہر گھر کے کھانے کے علاوہ باہر سے کھانا کھاتا ہے لیکن وہ شاداں سے باقاعدہ شادی کرچکا تھا اس بات کی انہیں خبر نہیں تھی۔ایک طرف پولیس والے خود رزاق کی تلاش میں تھے اور دوسری طرف اسحق بھی اپنے فرائضِ منصبی انجام دے رہا تھا۔ آخرکار اسحق ، شاداں کے خلاف وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ زنانہ پولیس کے ساتھ اس کے گھر پے حاضر ہوا۔ شاداں کو گرفتار کرکے لے گیا۔ کوئی
ثبوت نہ ملنے پر شاداں کو رہا کردیا گیا۔ اسحق کو پکا یقین تھا کہ شاداں نے ہی اس کے بھائی کو قتل کیا ہے لیکن باقی سب کا خیال تھا اُسے کسی نے اغوا ء کرلیا ہے۔
**************
اب شاداں کا گھر پولیس کی نگرانی میں تھا۔کچھ لوگوں کو پہلی بیوی پے شک تھا لیکن کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اسحق اکثر شاداں کے ہاں جاتا اور اس سے اِدھر اُدھر کی بات چیت کرکے چلا آتا۔ شاداں کو کسی بات کا ڈر نہیں تھا کیونکہ پولیس ثابت ہی نہ کرسکی۔ اس دوماہ کے عرصے میں ایک بات ضرور ہوئی کہ شاداں نے اسحق کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا ۔ وہ جب بھی آتا وہ ہمیشہ ڈرائینگ روم میں ہی بیٹھتا ۔ جہاں وہ بیٹھا کرتا اس سے ملحق ایک کھڑکی تھی۔ جہاں بہت ساری مکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ آہستہ آہستہ مکھیاں کم ہوگئیں۔ اس بات سے شاداں ناواقف تھی کہ رزاق نے اس بات کو نوٹ کیا ہے۔ اب شاداں کو یقین ہوچلا تھا کہ رزاق کا غائب ہونا یا تو اغوا ء تصور کرلیا گیا یا اُسے گمشدہ سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن اسحق واحد آدمی تھا جس کو یقین نہیں آتا تھا ۔ ایک دن اسحق نے شاداں سے کہا مجھ سے شادی کرو گی ۔ شاداں نے کہا جب تک رزاق کا پتا نہیں چلتا میں اس کی بیوی ہوں، اس لیئے اس بات کو ذہن سے نکال دو۔ اسحق کہنے لگا ، میں نے تم پے خواہ مخواہ شک کیا لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا وہ یونہی شک کرتا۔ میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں لیکن نہ جانے کیوں میرا دل کہتا ہے کہ ایک دن زاقا اچانک آجائے گا ۔ اسحق نے کہا اگر زندہ ہوا تو۔ شاداں نے کہا جب تک کوئی ثبوت نہیں ملتا ، خبر نہیں ملتی، میں اُسے زندہ ہی تصور کروں گی۔ گفتگو کے دوران اسحق کھڑکی کے باہر مکھی کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا۔ وہ کئی دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ ایک مکھی ایک خاص مقام پے جاکے بیٹھ جاتی ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوا اس نے جگہ بدلی ہو۔ وہ اُسی مقام کے گرد چکر لگاتی اور آخر کار آکے اس مقام پے بیٹھ جاتی۔ اسحق نے اپنے افسران بالا سے کہا کہ میں اپنے بھائی کی فائل دوبارہ کھولنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا چونکہ رزاق تمہارا بھائی ہے
اس لیئے تم جذباتی ہورہے ہو۔ رزاق نے کہا میں اب ثابت کرسکتا ہوں کہ میرے بھائی کو شاداں نے قتل کیا ہے۔ وہ کیسے ؟ بس سر آپ مجھے ایک موقع دیں ۔ بڑی مشکل سے اسحق کو اجازت مل گئی۔
*************
آج اسحق اپنے ایک دوست کے ساتھ شاداں کے ہاں آیا جو کہ علم الحشرات میں ایم ایس سی کرچکا تھا۔ اس وقت پولیس کے ساتھ مل کر کام کررہا تھا۔ ان دونوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ شاداں نے دروازہ کھولا۔ اسحق نے کہا یہ میرے دوست ہیں۔ادھر سے گزر رہا تھا سوچا تم سے ملتا چلوں۔ شاداں نے کہا یوں کیوں نہیں کہتے مجھ پے اب بھی شک کرتے ہو۔ میرے قریب آنے کے لیئے کبھی شادی کا بہانہ کرتے ہو، کبھی کیا بہانہ کرتے ہو۔ اسحق نے کہا تم جو بھی سمجھو لیکن چائے ضرور پلاؤ۔ شاداں نے ان کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ اسحق کا دوست کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا، جہاں مکھی چکر لگا رہی تھی۔ اس نے اسحق سے کہا کہ اس جگہ یقیناً کوئی چیز ہے جو مکھی کو پسند ہے۔اسحق نے کہا یہ تو مجھے پتا ہے لیکن کیا چیز ہے اس کام کے لیئے تمہیں لایا ہوں۔اُس نے اِس کو مکھیوں پے ایک لمبا لیکچر جھاڑا۔اس دوران شاداں چائے لے کر آگئی۔ دونوں کہ وہ یہاں سے سیدھا پنڈی چلا جائے گا کیونکہ پنڈی کے جس علاقے میں اس کا تھانہ ہے وہاں کرفیو لگ گیا ہے اور اسے چھٹی کینسل کرکے واپس جانا پڑ گیا ہے۔ اس کی بیوی جانتی تھی کہ رزاق اس طرح کے بہانے کرتا رہتا ہے۔ وہ اس کی اس طرح کی سرگرمیوں سے بھی واقف تھی۔ شاداں اور زاقے کی راستے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ لوگ فیصل آباد شہر رکے۔ انہوں نے اچھے سے سٹور سے ریڈی میڈ شلوار قمیص خریدا کیونکہ شاداں اس وقت ڈھیلی ڈھالی قمیص اور دھوتی میں ملبوس تھی۔ پاؤں میں نہ جانے کب کے گھِسے پٹے کھوسے پہنے ہوئے تھے۔ جب شلوار قمیص کا مرحلہ طے ہوگیا تو زاقے نے شاداں سے کہا کہ قمیص کے نیچے بھی ایک چیز پہنتے ہیں وہ بھی لے لو۔ شاداں کہنے لگی مجھے گرمی لگتی ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے جسم کا سانس رک گیا ہے۔ ان بیچاروں کا بھی دم گُھٹتا ہوگا۔ اس
کے بعد شاداں کے لیئے خوبصورت سی سینڈل خریدی گئی۔ شاداں کوان چیزوں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ تو چوھدری صاحب کے کہنے پے اس کے ساتھ جارہی تھی۔ انہوں نے دوپہر کا کھانا ایک اچھے سے یسٹورنٹ میں کھایا۔ کتنی عجیب بات ہے ۔انسان نے اگر محنت کرکے پیسہ کمایا ہو تو اس کی قدر ہوتی ہے۔ رزاق کے سارا پیسہ رشوت اور بے ایمانی کا تھا۔ یعنی حرام کی کمائی تھی۔ اس لیئے زاقا اسے بے دریغ خرچ کررہا تھا اور کرتا تھا۔ وہ خود بھی کھاتا تھا اور لوگوں کو بھی کھلاتا تھا۔ کھانا کھا کے انہوں نے پنڈی کی راہ لی۔
************
شاداں جس گھر میں آئی کافی بڑا اور خوبصورت تھا ۔اس میں ضرورت کی تمام چیزیں تھیں۔ زاقے نے آتے ساتھ جو پہلا کام کیا وہ نکاح تھا۔ اس نے مولوی صاحب کو بلایا۔ مولوی صاحب جانتے تھے کہ زاقا پولیس کا آدمی ہے اس لیئے انہوں نے زیادہ سوال نہیں کیئے۔ اس کے علاوہ زاقے نے انہیں دو ہزار روپے بھی دیئے، انہیں اور کیا چاہیئے تھا۔ ورنہ پولیس والے لوگوں سے پیسے لیتے ہیں نہ کہ دیتے ہیں۔ زاقے کو کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔(جس طرح سوسائٹی ہم لوگ رہتے ہیں ۔ہمارے آس پاس اس طرح کے واقعات اکثر و پیشتر ہوتے رہتے ہیں۔) گو کہ گھر میں باورچی موجود تھا لیکن شاداں نے گھر سنبھال لیا ۔ صفائی ستھرائی، سینا پرونا، جھاڑ پونچ۔ کھاناپکانا۔ یہ سارے کام شاداں اپنے ہاتھ سے کرتی۔ زاقا بھی اس کا بھرپور خیال رکھتا اس لیئے شاداں پنڈی کی آب و ہوا میں مزید نکھر گئی تھی۔ اب اس نے قمیص کے نیچے وہ خاص چیز بھی پہنی شروع کردی تھی جس کی وجہ سے اس کی اٹھان اور زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی۔ کام وغیرہ سے فارغ ہوتی تو کوئی نا کوئی فلم دیکھ لیتی۔ اس نے سادھاں والا میں
صرف ایک دفعہ سینما جاکے فلم دیکھی تھی۔ اس کے علاوہ اسے فلموں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اب وہ فلموں اور رسالوں سے سیکھنے لگی تھی۔ گو کہ وہ ان پڑھ تھی لیکن رسالوں میں تصویریں دیکھ کر وہ کافی کچھ
سیکھ چکی تھی۔ زاقے کو شاداں کا بڑا چسکا پڑ گیا تھا۔ نہ جانے شاداں کے جسم میں کیا خاص بات تھی کہ رزاق اس کی طرف کچھا چلا آتا۔ وہ زاقے کی مالش کرتی۔ اس کی چھاتی کے کالے اور سفید بالوں سے گھنٹوں کھیلتی رہتی۔ اس کی مونچھوں کو تیل لگا کر مروڑتی رہتی۔ جب وہ اس کی چھاتی پے ہاتھ پھیرتے پھیرتے رک جاتی تو زاقا کہتا ، شاداں خدا کے لیئے اپنا ہاتھ مت روکو، بڑا مزہ آتا ہے۔ شاداں کہتی ایک شرط پے، میرے ساتھ بیوفائی تو نہیں کرے گا۔ اب وہ آپ سے تو کا صیغہ استعمال کرنے لگی تھی۔ زاقے کو بھی اس کا اس طرح بلانا برا نہ لگتا۔ کبھی کبھی شاداں اس کے چاکلیٹ بٹن بھی سہلانے لگتی تو زاقا بے سدھ ہوجاتا۔ وہ کہتا ، شاداں تم بڑی قیامت عورت ہو۔ تم سونا ہو،چاندی، تانبا قسم کی عورت ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تمہیں کیا نام دوں۔ جب چودھویں کی رات تمہارے ننگے جسم پے، چاند کی دودھیاء روشنی پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے کسی یونانی مجسمہ ساز نے سفید سنگِ مرمر کو بڑی خوبصورتی سے تراشا ہے۔جسم کا ایک ایک حصہ اپنی اپنی جگہ بالکل مناسب ہے۔ شاداں کہتی تمہیں میرے جسم سے پیار ہے میرے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں۔ یقین جانو تو جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا تو مہبوت ہوکر رہ گیا تھا۔ تمہارا جسم تمہاری قمیص سے چھن چھن کر باہر نظر آرہا تھا۔ خاص کر یہ دو۔
*************
صبح صبح دروازے پے دستک ہوئی ۔ شاداں نے دروازہ کھولا۔ اس کے سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ آتے ہی زاقے کا پوچھنے لگا کہ زاقا کدھر ہے۔ شاداں نے کہا مجھے کیا پتا ۔ میرا خیال ہے فیصل آباد اپنی بیوی کے پاس گیا ہوا ہے۔ وہ ایسے ہی کرتا ہے۔ جب بھی جاتا ہے ہفتہ دس دن رہ کر آجاتا ہے۔ لیکن وہ وہاں نہیں ہے۔ میں اس کا چھوٹا بھائی ہوں، اسحق۔تو اندر آجاؤ۔ تم شاداں ہو۔ہاں میں ہی شاداں ہوں۔ تم سادھاں والا کی رہنے والی ہو۔ ہاں لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ میں ایک ہفتے سے اپنے بھائی کی تلاش میں ہوں۔ یہ تو پولیس کا کام ہے اور ویسے بھی وہ کونسا کہیں گم ہوگیا ہے۔ میں پولیس کی طرف
سے ہی آیا ہوں۔ شاداں کا ماتھا ٹھنکا لیکن اس نے چہرے کے تاثرات چشمِ زدن میں درست کرلیئے۔ تم نے مجھے پریشان کردیا۔ میں اب تک یہی سمجھ رہی تھی کہ فیصل آباد گیا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتا ہے۔ اس دوران اسحق اندر آچکا تھا۔ شاداں نے اُسے بیٹھک (آپ اسے ڈرائینگ روم کہہ لیجئے) بٹھایا۔ اس کے لیئے چائے کا انتظام کرنے چلی گئی۔ اسحق نے کہا کسی تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاداں نے کہا ، اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔ میں تمہاری بھابھی ہوں اور تم میرے دیور۔ اسحق نے کہا یہ کب ہوا۔ میں نے تو سنا تھا تم دونوں ایسے ہی رہ رہے ہو۔ نہیں ہم دونوں نے نکاح کیا ہے۔ اگر یقین نہیںآتا تو ثبوت کے طور پہ نکاح نامہ دکھاؤں۔ نہیں نہیں مجھے یقین ہے۔ پولیس والا ہوں اس لیئے شک کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ شاداں نے کہا ، زاقے نے کبھی ذکر نہیں کیا کہ اس کا بھائی بھی پولیس میں کام کرتا ہے۔ اسحق نے کہا، اس نے کبھی ضرورت نہیں محسوس کی ہوگی حالانکہ مجھے پولیس میں زاقے نے ہی بھرتی کروایا ہے۔ تم کون سے تھانے میں ہو۔ میری پوسٹنگ بھی پنڈی ہی ہوئی ہے۔ تھانہ گنج منڈی ۔قانوناً یہ علاقہ میری ہی پاس ہے۔ اسحق نے جلدی جلدی چائے ختم کی ایک دو بسکٹ کھائے اور اجازت طلب کی۔ شاداں اسے دروازے تلک چھوڑنے آئی۔
*************
اسحق نے اگلے دن پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ شاداں نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کو کہا۔ اسحق نے گرجدار آواز میں کہا سچ سچ بتاؤ شاداں، زاقا کدھر ہے۔ شاداں نے اس سے بھی زیادہ گرجدار آواز میں کہا، اگر یہی سوال میں تم سے کروں تو۔ اور ویسے بھی تم بطور مہمان آئے ہو اس لیئے میرے گھر کے اندر آجاتے ہو ورنہ بغیر سرچ وارنٹ کے میں تمہیں کبھی بھی نہ داخل ہونے دوں۔ اسحق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے نرمی سے کہا۔معاف کرنا میں ذرا غصے میں آگیا تھا۔بڑا بھائی کافی دنوں سے غائب ہے اس لیئے پریشان ہوں۔ وہاں فیصل آباد میں اس کے بیوی بچے بھی پریشان ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں
کہ تم مجھ پے رعب جھاڑو۔ ویسے شاداں تمہیں پولیس میں رپورٹ درج کروانی چاہیے تھی۔ میں کیوں رپورٹ درج کرواتی۔ ہاں اب تم نے ذکر کیا ہے تو سوچتی ہوں کہ تھانے جاؤں۔ اس کاپوچھوں۔ تمہیں میرے پاس ہی آنا ہوگاکیونکہ یہ علاقہ تھانہ گنج منڈی میں آتا ہے اور اس کاانچارج میں ہوں۔ لیکن میں تو اس کے بڑے افسروں سے پوچھوں گی۔ کہیں انہوں نے اسے کسی بڑے مشن پے نہ بھیج دیا ہو۔ اسحق سمجھ گیا کہ شاداں اس کے قابو میں آسانی سے نہ آئے گی۔ اسحق کو پکا یقین تھا کہ اس کے بھائی زاقے کو یا تو اس نے قتل کردیا ہے یا کہیں چھپا دیا ہے۔ زاقا کوئی بچہ تو ہے نہیں کہ یہ اسے زیادہ دن چھپا سکے۔اگر قتل کیا ہے تو اسی نے قتل کیا ہوگا کیونکہ اس کے بھائی کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ وہ رشوت ضرور لیتا تھا لیکن اس کے بدلے لوگوں کے ناجائز کام بھی کیا کرتا تھا۔ اس لیئے دشمنی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسحق نے شاداں کو ہنستے ہوئے کہا، شاداں کہیں تم نے اسے قتل تو نہیں کردیا؟۔شاداں نے منہ بھینچ کر کہا، اسحق زبان سنبھال کے بات کرو۔ تمہیں پتا ہے میں تم پے مقدمہ کرسکتی ہوں۔چھوٹی الزام تراشی کا۔ تم مجھ پے دفعہ ۳۰۲ کا شک کررہے ہو۔ تمہیں پتا ہے بنا ثبوت کے بات کرنا جرم ہے۔ اگر میں تم پے ہتک عزت کا دعویٰ کردوں یا تو تم جیل جاسکتے ہو یا تمہیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ تم یہ مت سمجھو کہ تم پولیس والے ہو تو میں ڈر جاؤں گی۔ جب تمہاری وردی اتر جاتی ہے تو تم بھی عام مردوں بلکہ انسانوں جیسے ہوجاتے ہو۔ سارا کمال وردی کا ہوتا ہے۔ تمہارا بھائی بھی وردی اتار کے میری چرنوں میں بیٹھ جاتاہے۔ اسحق تو سر سے لیکر پاؤں تک کانپ گیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ لوگوں کا وردی کو دیکھ کے پیشاب نکل جاتا ہے اور یہ الٹا مجھ پے رعب جھاڑ رہی ہے۔ شاداں نے مزید کہا ، اگر تم نے سرچ وارنٹ یا وارنٹ گرفتاری کے ساتھ آنے کی کوشش کی تو اس کا انتظام بھی ہے میرے پاس۔ میں رزاق سے بات کروں گی۔ اسحق نے کہا پہلے اس کا پتہ تو چل جائے کہ وہ کہاں ہے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔
*************
اب تو عبدالرزاق کی تلاش سب نے شروع کردی۔ اس کی بیوی جو فیصل آباد میں تھی اور بچے سخت پریشان تھے۔ انہیں جب شاداں کا پتا چلا تو مزید پریشان ہوئے۔ رزاق کی بیوی جانتی تھی کہ اس کا شوہر گھر کے کھانے کے علاوہ باہر سے کھانا کھاتا ہے لیکن وہ شاداں سے باقاعدہ شادی کرچکا تھا اس بات کی انہیں خبر نہیں تھی۔ایک طرف پولیس والے خود رزاق کی تلاش میں تھے اور دوسری طرف اسحق بھی اپنے فرائضِ منصبی انجام دے رہا تھا۔ آخرکار اسحق ، شاداں کے خلاف وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ زنانہ پولیس کے ساتھ اس کے گھر پے حاضر ہوا۔ شاداں کو گرفتار کرکے لے گیا۔ کوئی ثبوت نہ ملنے پر شاداں کو رہا کردیا گیا۔ اسحق کو پکا یقین تھا کہ شاداں نے ہی اس کے بھائی کو قتل کیا ہے لیکن باقی سب کا خیال تھا اُسے کسی نے اغوا ء کرلیا ہے۔
**************
اب شاداں کا گھر پولیس کی نگرانی میں تھا۔کچھ لوگوں کو پہلی بیوی پے شک تھا لیکن کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اسحق اکثر شاداں کے ہاں جاتا اور اس سے اِدھر اُدھر کی بات چیت کرکے چلا آتا۔ شاداں کو کسی بات کا ڈر نہیں تھا کیونکہ پولیس ثابت ہی نہ کرسکی۔ اس دوماہ کے عرصے میں ایک بات ضرور ہوئی کہ شاداں نے اسحق کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا ۔ وہ جب بھی آتا وہ ہمیشہ ڈرائینگ روم میں ہی بیٹھتا ۔ جہاں وہ بیٹھا کرتا اس سے ملحق ایک کھڑکی تھی۔ جہاں بہت ساری مکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ آہستہ آہستہ مکھیاں کم ہوگئیں۔ اس بات سے شاداں ناواقف تھی کہ رزاق نے اس بات کو نوٹ کیا ہے۔ اب شاداں کو یقین ہوچلا تھا کہ رزاق کا غائب ہونا یا تو اغوا ء تصور کرلیا گیا یا اُسے گمشدہ سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن اسحق واحد آدمی تھا جس کو یقین نہیں آتا تھا ۔ ایک دن اسحق نے شاداں سے کہا مجھ سے شادی کرو گی ۔ شاداں نے کہا جب تک رزاق کا پتا نہیں چلتا میں اس کی بیوی ہوں، اس لیئے اس بات کو ذہن سے نکال دو۔ اسحق کہنے لگا ، میں نے تم پے خواہ مخواہ شک کیا لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا وہ
یونہی شک کرتا۔ میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں لیکن نہ جانے کیوں میرا دل کہتا ہے کہ ایک دن زاقا اچانک آجائے گا ۔ اسحق نے کہا اگر زندہ ہوا تو۔ شاداں نے کہا جب تک کوئی ثبوت نہیں ملتا ، خبر نہیں ملتی، میں اُسے زندہ ہی تصور کروں گی۔ گفتگو کے دوران اسحق کھڑکی کے باہر مکھی کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا۔ وہ کئی دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ ایک مکھی ایک خاص مقام پے جاکے بیٹھ جاتی ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوا اس نے جگہ بدلی ہو۔ وہ اُسی مقام کے گرد چکر لگاتی اور آخر کار آکے اس مقام پے بیٹھ جاتی۔ اسحق نے اپنے افسران بالا سے کہا کہ میں اپنے بھائی کی فائل دوبارہ کھولنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا چونکہ رزاق تمہارا بھائی ہے اس لیئے تم جذباتی ہورہے ہو۔ رزاق نے کہا میں اب ثابت کرسکتا ہوں کہ میرے بھائی کو شاداں نے قتل کیا ہے۔ وہ کیسے ؟ بس سر آپ مجھے ایک موقع دیں ۔ بڑی مشکل سے اسحق کو اجازت مل گئی۔
*************
آج اسحق اپنے ایک دوست کے ساتھ شاداں کے ہاں آیا جو کہ علم الحشرات میں ایم ایس سی کرچکا تھا۔ اس وقت پولیس کے ساتھ مل کر کام کررہا تھا۔ ان دونوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ شاداں نے دروازہ کھولا۔ اسحق نے کہا یہ میرے دوست ہیں۔ادھر سے گزر رہا تھا سوچا تم سے ملتا چلوں۔ شاداں نے کہا یوں کیوں نہیں کہتے مجھ پے اب بھی شک کرتے ہو۔ میرے قریب آنے کے لیئے کبھی شادی کا بہانہ کرتے ہو، کبھی کیا بہانہ کرتے ہو۔ اسحق نے کہا تم جو بھی سمجھو لیکن چائے ضرور پلاؤ۔ شاداں نے ان کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ اسحق کا دوست کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا، جہاں مکھی چکر لگا رہی تھی۔ اس نے اسحق سے کہا کہ اس جگہ یقیناً کوئی چیز ہے جو مکھی کو پسند ہے۔اسحق نے کہا یہ تو مجھے پتا ہے لیکن کیا چیز ہے اس کام کے لیئے تمہیں لایا ہوں۔اُس نے اِس کو مکھیوں پے ایک لمبا لیکچر جھاڑا۔اس دوران شاداں چائے لے کر آگئی۔ دونوں نے چائے پی اور اجازت طلب کی۔ شاداں کو یقین ہوچلا تھا کہ رزاق کا معمہ حل ہونے والا ہے۔ اب وہ کسی بات کے لیئے بھی تیا ر تھی۔
************
جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ اسحق ایک دفعہ پھر آیا۔ اس نے قانونی موشگافیوں کے مطابق سارا کام کیا۔ وہ دو مزدور بھی ساتھ لایا۔ اس نے شاداں کو اجازت نامہ دکھایا اور اس جگہ کی کھدائی ہونے لگی جہاں مکھی بار بار بیٹھتی تھی۔ کافی دیر کھدائی کرنے کے بعد رزاق کی لاش نکلی۔ اسحق نے کہا مجھے یقین تھا کہ رزاق کو اس عورت نے قتل کردیا ہے۔ آج ثبوت بھی مل گیا۔ شاداں کو بالکل ڈر نہ محسوس ہوا۔اس نے کہا افسوس رزاق بہت اچھا آدمی تھا اِسے کسی نے قتل کردیا لیکن اس لاش کا میرے صحن سے ملنا یہ ثابت تو نہیں کرتاکہ اِسے میں نے قتل کیا ہے۔ اسحق نے کہا یہ بات ہم منوا لیں گے۔ شاداں کو ایک دفعہ پھر گرفتا کرلیا گیا۔
************
تھانے میں زنانہ پولیس نے شاداں کی خوب مرمت کی لیکن وہ بڑی سخت جان تھی نہ مانی۔ اُسے رنڈی ، دلی اور کنجری کہا گیا۔ جتنا بھی تشدد کیا جاسکتا تھا کیا گیا لیکن وہ نہ مانی۔ آخرکار ریمانڈ کی مدت ختم ہوئی۔ شاداں نے پولیس کی انچارج سے کہا ، تم شہری عورتیں ہو اور میں دیہات کی رہنی والی۔میں جتنی سخت جان ہوں تم اس کا آدھا بھی نہیں ہو۔ اگر واقعی میں نے رزاق جیسے قوی ہیکل مرد کو قتل کیا ہو تو تم میرے آگے کیا چیز ہو۔ عدالت میں شاداں کا جرم ثابت نہ ہوسکا اور اسے ایک بار پھر بری کردیا گیا۔ لاش کااس کے گھر سے ملنا اس بات کو ثابت نہیں کرتا تھا کہ قتل اس نے کیا ہے۔ اس دفعہ اس کا مقدمہ ایک این جی او کی خاتون وکیل نے لڑا۔وہ وکیل عورت شاداں سے کہنے لگی، اگر تم نے رزاق کو قتل نہیں کیا تو کس نے کیا ہے۔ شاداں کہنے لگی یہ میں نہیں جانتی۔یہ معمہ آج تک نہ حل ہوا کہ رزاق کا قتل کس نے کیا ہے۔شاداں آج بھی اُسی گھر میں رہتی ہے جہاں رزاق کی لاش ملی تھی۔ اب وہ گھر بڑا صاف ستھرا رکھتی ہے۔ خاص کر گھر میں مکھیاں نہیں آنے دیتی۔ ہر جگہ جالیاں لگائے رکھتی ہے۔ آس پاس کے لوگ اس
سے ڈرتے ہیں۔لیکن میں جانتا ہوں کہ شاداں نے رزاق کا قتل کیا ہے کیونکہ اس سارے عمل میں اس کے ساتھ تھا۔ میں نے شاداں کو پہلی دفعہ سادھاں والا دیکھا تھا۔ میں اسے پہلی دفعہ دیکھتے ہی ا س کا عاشق ہوگیا تھا۔ جب میں دوسری دفعہ اس کے ساتھ شادی کرنے کے ارادے سے گیا تو شاداں زاقے کے ساتھ جاچکی تھی۔ جب مجھے پتا چلا کہ وہ زاقے کے ساتھ شادی کرچکی ہے تو میں ان کا پیچھا کیا۔ مجھے کسی طرح پتا چلا کہ شاداں نے رزاق کو کہا تھا کہ اگر وہ اس کے ساتھ بیوفائی کرے تو وہ اسے قتل کردے گی۔ میں سادھاں والا گیا ۔وہاں اسی گوری چٹی لڑکی کو ساتھ لایا جس کے ساتھ زاقے چودھدری نے آخری دفعہ رنگ رلیاں منائی تھیں۔ میں نے اسے زاقے کے گھر چھوڑااور خود کسی کام کے بہانے واپس چلا آیا۔ زاقے نے جب ا س لڑکی کو دیکھا تو اس کے منہ میں پانی آگیا۔ اس نے غلطی کردی۔ اس بات کی اطلاع شاداں کو نہیں تھی۔میں شاداں کے ہاں پہنچا اور تمام تفصیلات شاداں کو بتائیں۔ شاداں کہنے لگی تو آخرکار زاقے نے میرے ساتھ بیوفائی کرہی ڈالی۔ میں نے کہا ، تم نے تو کہا تھا کہ اگر زاقے نے تم سے بیوفائی کی تو تم اسے قتل کردوں گی۔ شاداں نے کہا ہاں میں نے کہا تھا اور میں واقعی اس کو قتل کردوں گی۔ میں نے شاداں سے کہا تم اکیلی اسے قتل نہ کرسکو گی۔ میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ تمہیں ترکیب بتاؤں گا۔ شاداں کہنے لگی لیکن تم میری مدد کیوں کرو گے۔ اس لیئے کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ شاداں نے کہا مجھے منظور ہے۔تو ترکیب سنو۔تم رزاق سے کہو کہ نوکری سے ایک مہینے کی چھٹی لے لے۔ اس کے بعد تم اسے اپنے پیار میں مزید گرفتار کرو۔میں تمہیں ایک گولی لاکے دونگا۔تم اسے چائے میں ملا کے اسے پلا دیا کرنا۔ جس سے وہ آہستہ آہستہ اپنی یاداشت کھو بیٹھے گا۔ وہ لاغر اور تھکا تھکا رہنے لگے گا۔ایک ماہ کے بعد وہ اس قابل نہیں رہے گا کہ وہ اپنے پاؤں پے کھڑا ہوسکے۔پھر ہم دونوں مل کے اسے قتل کردیں گے۔ اس کی فیصل آباد والی بیوی کو میں سنبھال لوں گا۔ اس کے بعد اسے اس کھڑکی کے پاس دفن کردیں گے۔ میں مکھی والا ڈرامہ رچاؤں گا آخرکار پولیس تمہیں گرفتار کرلے گے۔ پھر میں ایک
ایسی این جی او جانتا ہوں جن کے پاس عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والی بڑی تیز طرار وکیلنیاں (وکلاء) ہیں ۔وہ تمہیں آزاد کرالیں گے۔سارا کچھ ترکیب کے مطابق ہوا۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ میں کون ہوں اور آپ کو یہ ساری کہانی کیوں سنائی۔ میں اسحق ہوں۔اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیئے میں نے اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ میں اپنے جرم کا اعتراف اس لیئے کررہا ہوں کیوں میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ شاداں نے اب ایک اور آدمی کے ساتھ تعلقات اسطوار کرلیئے ہیں۔

SARFRAZ BAIG 25/09/2006 AND COMPLETED ON 29/09/2007 AREZZO baigsarfraz@hotmail.com

No comments:

Post a Comment