Sunday, June 9, 2013

ڈولچے ویتا، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ

ڈولچے ویتا

عبدالشکور کی عمر چالیس سال ہوگی۔ رنگ گورا تھا لیکن زندگی کے کئی رنگ دیکھنے کے بعد سنولا گیا تھا۔ قد لمبا تھا، سر سے گنجا کشمیریوں کی طرح۔ معاف کیجئے گا میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ عبدالشکور کشمیری ہی تھا۔ چہرے کے خط و خال خوبصورت تھے۔اب بھی کھینچ کے یعنی دبا کے داڑھی بناتا تو چھبیس ،ستائیس سال کا جوان نظر آتا تھا۔ کشمیر کے چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کرکے راولپنڈی آگیا تھا۔ اُسے کشمیر چھوڑے ہوئے بھی بیس پچیس سال ہوچلے تھے۔ چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی۔ جب اس کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو کام کی تلاش میں راولپنڈی آگیا۔ یہاں اس نے گھڑیاں ٹھیک کرنے کا کام سیکھا۔بینک روڈ پے ایک گھڑیوں کی دوکان پے اسے ایسا کام ملا کہ اسے یہاں کام کرتے ہوئے بیس سال ہوچلے تھے۔ ہاتھی چوک پے جہاں آجکل اعظم ہوٹل ہے پہلے یہاں کچھ کچے مکان ہوا کرتے تھے۔ انہیں مکانوں میں سے ایک کمرے کا مکان عبدالشکور کے پاس بھی تھا۔ کام کا اور گھر کا انتظام کرنے کے بعد اس نے
اپنی بیوی اور بیٹی کو بھی کشمیر سے یہیں بلا لیا تھا۔ بیوی اس کی گوری چٹی لیکن ایک تو پہاڑن تھی اور دوسرا وہ ان پڑھ تھی۔ اس لیئے اسے اپنا خیال رکھنا نہیں آتا تھا لیکن پنڈی رہتے رہتے اس نے آس پاس کے لوگوں سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ اس عرصے میں عبدالشکور کے پانچ بچے ہوچکے تھے۔ اُسے دوکان سے تنخواہ ملتی اس کے علاوہ بھی کچھ نا کچھ مل جاتا تھا۔ وہ کبھی کبھی لوگوں کی گھڑیاں بھی ٹھیک کردیا کرتا۔ اس سے بھی کچھ آمدنی ہوجاتی۔ بہت اچھی تو نہیں لیکن ٹھیک گزر بسر ہوجاتی تھی۔ عبدالشکور بڑی بیٹی کی شادی کرچکا تھا۔ اب دو چھوٹی تھیں۔ ایک سولہ سال کی تھی اور دوسری تیرہ سال کی۔ دو چھوٹے بیٹے ، ایک نو سال کا اور دوسرا سات سال کا۔ سب کہتے تھے یہ آخری نمونہ ہے لیکن عبدالشکور کہتا ،ہوسکتا ہے اور بھی ماڈل آئیں۔
**************
ان کا ایک ہی کمرہ تھا ۔کمرے کے سامنے چھوٹا سا برآمدہ تھا۔ جہاں چکیں لگا کر کمرہ نماں جگہ بنائی گئی تھی۔ایک طرف برتن دھونے والا ٹین کا ڈرم تھا جسے عرفِ عام میں حمام بھی کہتے ہیں۔دوسری طرف باورچی خانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ کمرے میں دو بڑی چارپائیاں تھیں۔ ایک طرف الماری تھی۔ ایک کونے میں رنگین ٹی وی اور وی سی آر رکھا ہوا تھا۔یہ سب فلموں کے شوقین تھے۔خاص کر عبدالشکور کی بیٹیاں تو فلمیں دیکھ دیکھ کر فلمی اداکارائیں بننے کے خواب دیکھنے لگی تھیں۔ حمیدہ نے آٹھویں جماعت تک پڑھ کے سکول کو خیرباد کہہ دیا تھا لیکن حمیدہ کا خیال کالج تک پڑھنے کا تھا۔ ریاض ،فیاض ابھی چھوٹے تھے لیکن پابندی سے سکول جاتے تھے۔ ان کے کمرے کی الماری ،کھڑکی، برآمدے میں پڑے ٹین کے ڈرم(حمام)، جہاں جہاں جگہ موجود تھی اخباروں اور رسالوں سے کاٹ کاٹ کر بیشمار فلمی اداکاراؤں کے پوسٹرز لگائے گئے تھے۔ یہ شوق حمیدہ کو تھا اس کے ساتھ ساتھ فہمیدہ کے اندر بھی شوق پیدا ہوگیا تھا۔ دونوں بہنیں شکل و صورت کی اچھی تھیں۔اس لیئے سارا سارا دن شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر تصور ہی تصور میں خود کو انڈین اور پاکستانی فلموں کے فلمی ہیروز کے ساتھ دیکھتیں۔ فلموں کی وجہ سے ان کی تراش خراش میں بھی کافی تبدیلی آچکی تھی۔بال کٹواتیں، نئے نئے انداز کے کپڑے پہنتیں۔ عبدالشکور کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ سارا دن دوکان پے ہوتا ، گرمیوں میں دوپہر کے وقت کبھی کبھی آجاتا۔جب وہ گھر ہوتا اس کا مطلب ہوتا کہ سب بچے سوجائیں کیونکہ اس نے اپنی بیوی سے پیار کرنا ہوتا تھا۔ بیٹے باہر کھیلنے چلے جاتے، بچیاں چارپائی کے نیچے سوجاتیں اور عبدالشکور دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں لگ جاتے۔اِن کی اِن سرگرمیوں کا حمیدہ پے شدید اثر ہوا۔ اس نے سوچنا شروع کردیا کہ اس کام میں ایسا کیا مزہ ہے کہ میرے ماں باپ اکثر رات کو اور کبھی کبھی دن میں بھی اس کام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
****************
حمیدہ نے آس پاس کے لڑکوں سے دوستیاں شروع کردیں۔ اس کے پاس نئے نئے کپڑے ، قیمتی پرفیومز اور زیورات آنے لگے۔لیکن وہ اپنی ان تمام سرگرمیوں کو انتہائی راز میں رکھتی۔حتیٰ کہ فہمیدہ کو بھی نہ پتا چلنے دیتی۔ایک لڑکا تو سپیئر پارٹس کی دوکان پے کام کرتا تھا۔دوسرا سرکاری دفتر میں ملازم تھا۔ یہ دونوں اس کے پکے عاشق تھے اس کے علاوہ کبھی کبھی ،کوئی نا کوئی نیا مہمان بھی آجاتا۔ حمیدہ نے اپنی اس طرح کی سرگرمیوں پے پردہ ڈالنے کے لیئے نماز اور مذھب کا سہارا لیا ہوا تھا۔ کبھی وہ زیارت پے جاتی، کبھی بیبیوں کی کہانی پڑھنے جاتی(یہ سات بیبیوں کی کہانی بھی بڑی عجیب چیز ہے۔اگر آپ کسی بھی کتابوں کی دوکان پے جائیں تو ان سے بیبیوں کی کہانی طلب کریں ۔زیادہ تر آپ کو یہ مذہبی کتب خانے سے مل جائے گی۔ یہ ایک اخباری صفحے پے چھپی ہوئی کہانی ہے ۔عورتوں کا خیال ہے کہ اس کہانی کو اگر چُھپ کر پڑھا جائے تو تمام مشکلیں آسان ہوجاتی ہے۔اس کے پڑھنے اور سننے کے بعد سوجی کے لڈو بنائے جاتے ہیں ۔ان لڈوؤں کو کسی مرد کو کھانے کی اجازت نہیں ہوتی)۔ نماز وہ پانچ وقت کی پابندی سے پڑھا کرتی، حالانکہ وہ نہ تو نماز کا طریقہ جانتی تھی۔نہ ہی وہ اس بات سے باخبر تھی کہ کون سی نماز میں کتنی رکعتیں ہوتی ہیں۔ قریباً نماز کے تمام آداب سے ناواقف تھی۔ اس کے علاوہ وہ قرآن پاک کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتی تھی۔اس کے باوجود وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب تھی۔ اس کی دیکھا دیکھی فہمیدہ پر بھی اثر ہوا لیکن وہ اپنی سرگرمیاں صرف دوستی تک ہی محدود رکھتی۔
**************
حمیدہ کی اس طرح کی سرگرمیوں کے قصوروار کسی حد تک گھر والے بھی تھے، یعنی گھر کا ماحول۔یہ لوگ اتنے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے کہ کسی سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی تھی۔ جہاں عبدالشکور صاحب کام کرتے تھے ، انہوں نے تحفے کے طور پے انہیں ایک عدد ٹی وی دے رکھا تھا۔ پھر ان کے داماد نے انہیں وی سی آر تحفتاً دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمسایوں سے ڈش انٹینا کا کنکشن بھی لے رکھا تھا۔ نہ تو اس میں ٹی وی ، وی سی آر کا قصور تھا نہ ہی ڈش انٹینے کا۔ قصور تھا تو ذہنی نشوؤنماں کا۔ یہ لوگ تمام قسم کی فلمیں، ڈرامے، گانے اور دیگر پروگرامز اکھٹے بیٹھ کر دیکھا کرتے۔ کبھی کسی نے چینل نہ بدلا اور نہ ہی کبھی کوئی اٹھ کے گیا۔ ان چیزوں نے حمیدہ کے دماغ پے گہرا اثر چھوڑا۔ اسے پیسے کا لالچ تو نہ تھا لیکن نئے نئے انداز کے پیراہن ، زیورات (خواہ وہ نقلی ہی کیوں نہ ہوں) کا بہت شوق تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیوں کی خبریں اس کے باپ تک پہنچیں۔اس نے سوچنا شروع کردیا کہ اگر کوئی اچھا لڑکا مل جائے تو اس کے بھی ہاتھ پیلے کردوں۔ حمیدہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے گاؤں کے کسی لڑکے سے شادی نہیں کرے گی۔ اس دوران جو لڑکا دفتر میں کام کرتا تھا وہ تو ایک طرف ہوگیا، اب بچا تھا سپیئر پارٹس کی دوکان پے کام کرنے والا لڑکا۔، جسے عرفِ عام میں سیلز میں کہتے ہیں۔وہ اس کا پکا عاشق تھا اور سچ پوچھیئے توحمیدہ بھی اسے اپنا دل دے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی تمام دیگر سرگرمیاں ترک کردی تھیں۔ ان دونوں کے میل ملاپ میں کوئی بھی ناخوشگوار واقع پیش نہ آیا کیونکہ دونوں پوری طرح احتیاط برتا کرتے تھے۔
**************
سہیل نے حمیدہ سے کہا،’’ حمیدہ اب اور انتظار مشکل ہے‘‘۔ حمیدہ کہنے لگی، ’’تم اپنے ماں باپ کو بھیجو‘‘۔ سہیل کہنے لگا، ’وہ نہیں مانیں گے‘‘۔ حمیدہ کہنے لگی، ’’تو پھر ہم بھاگ جاتے ہیں اور کورٹ میرج کر لیتے ہیں‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہم شادی کرکے ماں باپ کو بتا دیں گے‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’اگر انہوں نے ہمیں پھر بھی تسلیم نہ کیا تو‘‘؟ حمیدہ کہنے لگی، ’’تھوڑی مدت بعد خودہی مان جائیں گے۔فلموں میں ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’لیکن حمیدہ فلموں میں اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے‘‘حمیدہ نے کہا، ’’میں مانتی ہوں ، لیکن فلمیں بھی تو سچی کہانیوں سے ہی اخذ کی گئی ہوتی ہیں‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’میں کوشش کروں گا۔ میں تم سے پیار تو بہت کرتا ہوں لیکن ڈرتا ہوتا کوئی ناخوشگوار واقع نہ پیش آجائے۔تم بھی اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھو اور میں بھی راستہ بھٹک جاؤں‘‘۔ حمیدہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، ’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتی ہوں۔ ایک بات بتادوں، اگر میرے ماں باپ نے میری شادی کہیں کردی میں پھر بھی تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔ہم نے ایک دوسرے کے لیئے جنم لیا ہے‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’تم فکر نہ کرو میں اپنے گھر والوں کو راضی کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ یہ سن کر حمیدہ کو کچھ تسلی ہوئی۔
**************
حمیدہ ، سہیل کے گھر والوں کا انتظار کرتی رہی اور وہ نہ آئے۔ اس دوران سہیل بھی پردہ سکرین سے غائب ہوگیا۔ حمیدہ نے ، جس دوکان پے سہیل کام کرتا تھا وہاں کئی دفعہ فون کیا ۔ وہ لوگ یہی بتاتے تھے کے سہیل بِنا بتائے کہیں چلا گیا ہے۔وہ اسی اُدھیڑ بُن میں تھی کہ حمیدہ کا رشتہ آیا ۔ عبدالشکور صاحب اور اس کی ماں نے ہاں کردی۔ اُن کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ ان کی بیٹی کسی کے پیار کی آگ میں جل رہی ہے۔ فہمیدہ اس راز سے واقف تھی لیکن وہ اپنی بہن کی کوئی مدد نہیں کرسکتی تھی کیونکہ سہیل غائب تھا۔شکور صاحب غریب آدمی تھے ۔ وہ اپنے انداز میں سوچتے تھے کہ حمیدہ کی جب شادی ہوجائے گی تو فہمیدہ کا نمبر آجائے گا۔ ان کا خیال تھا بیٹیوں کی جتنی جلدی ہوسکے رخصت کردوں۔ ویسے بھی کشمیری لڑکی کی عمر پندرہ سال سے لیکر اٹھارہ سال کی عمر تک کردیتے ہیں۔جبکہ لڑکوں کی بھی عمر پچیس سال سے زیادہ نہیں ہونے دیتے۔ حمیدہ کی شادی چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات تھی لیکن بارات والے دن ایک ناخوشگوار واقع پیش آیا ، کسی شخص نے حمیدہ کے خاوند لطیف احمد کو ہاتھ میں ایک لفافہ تھمادیا۔انہوں نے بہت سے دوسرے لفافوں کی طرح یہ لفافہ بھی جیب میں رکھ لیا۔لطیف صاحب اجابت خانے کا بہانہ کرکے خلوت میں چلے گئے۔وہاں انہوں نے لفافہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی بیوی جس سے ان کا نکاح پہلے ہی کردیا گیا تھا ، کی انتہائی نازیبہ تصاویر وہ بھی کسی لڑکے کے ساتھ۔ ان تصاویر کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا، جس میں کچھ اس طرح لکھا ہوا تھا،
’’میرا نام سہیل ہے ۔ میں حمیدہ کا عاشق ہوں۔ میری مجبوری تھی کہ میں اس کے ساتھ شادی نہ کرسکا لیکن اس کے باوجود وہ میری ہے اور تمہیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ کنواری بھی نہیں۔ میں اس کے جسم کے ایک ایک حصے سے واقف ہوں۔ کون سی جگہ بال ہیں، کہاں کہاں تل ہیں۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم نے کتنی دلفریب راتیں گزاری ہیں۔ کیسے کیسے انداز میں ہم نے پیار کیا ہے۔ آخر میں ایک بات کہوں حمیدہ بڑی سیکسی ہے۔ تمہیں بڑا مزہ آئے گا‘‘
لطیف صاحب نے تصاویر پھاڑ دیں اور خط کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔یہی سوچنے لگے کہ اس معصوم لڑکی کے ساتھ کسی نے شرارت کی ہے۔ میرے ماں باپ نے میری شادی بڑی دیکھ بھال کے کی ہے۔ ابھی وہ اسی ذہنی خلفشار کا شکار تھے کہ دور سے ان کی بہن آتی دکھائی دیں۔ آتے ہی کہنے لگیں، ’’کچھ پتا چلا ہے لڑکی کی شہرت اچھی نہیں‘‘۔ لطیف صاحب شریف آدمی تھے کہنے لگے، ’’باجی اب کیا ہوسکتا ہے۔ اب تو نکاح ہوچکا ہے‘‘۔ تمام معاملہ رفع دفع ہوگیا اور اس طرح حمیدہ ،لطیف صاحب کی دلہن بن کر ان کے گھر آگئی۔ سہاگ رات کو ہی لطیف صاحب پے یہ بات آشکارہ ہوگئی کہ لڑکی کنواری نہیں لیکن وہ کیا کرسکتے تھے۔شریف آدمی تھے۔ماں باپ اور خاندان کی عزت کی خاطر چپ رہے۔ ان کا یہی خیال تھا کہ اس طرح کی غلطی اگر لڑکا کرے تو یہ عیب تصور نہیں کیا جاتا، اگر یہی غلطی لڑکی سے سرزد ہوجائے تو سب کہتے ہیں بد چلن ہے۔ کسی فلمی ہیرو کی طرح انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ انہیں حمیدہ کے کسی عمل سے بھی ایسا نہ لگا کہ یہ لڑکی بدچلن ہے یا برے اطوار کی مالک ہے۔
لطیف صاحب کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو کام پے واپس چلے گئے۔ لطیف صاحب ایک ٹریڈنگ کمپنی میں آفس کلرک تھے۔ اس کے علاوہ ان کے اکاؤنٹس بھی دیکھتے تھے۔ بی اے پاس تھے۔ کسی اچھی نوکری کی تلاش میں تھے۔ اس دوران انہیں یہ کام ملا تو فارغ رہنے سے بہتر سمجھا اور ’’سم تھنگ از بیٹر دین نتھنگ ‘‘
(something is better than nothing)
والے کلیئے پے عمل کرتے ہوئے یہاں کام شروع کردیا۔ ان کی تنخواہ بھی اچھی تھی۔ قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ شادی کے چند ماہ بعد کمپنی والوں انہیں ساؤتھ افریقہ جانے کو کہا۔ انہوں نے یہ شرط رکھی کہ وہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔کمپنی والوں نے ان کی یہ شرط مان لی۔ اس طرح لطیف اور حمیدہ شادی کے چند ماہ بعد ساؤتھ افریقہ چلے گئے۔ لطیف صاحب کو چھ ماہ کا ویزہ ملا۔ کمپنی والوں نے کہا اگر آپ مزید رہنا چاہیں تو ویزے کی مدت بڑھوادی جائے گی لیکن حمیدہ کے پُر زور اسرار پے آپ واپس آگئے۔ اس دوران انہیں کبھی بھی ایسا نہ لگا کہ حمیدہ بد چلن ہے۔
**************
یہ لوگ جیسے ہی واپس آئے تو حمیدہ نے لطیف کو خبر سنائی کہ وہ امید سے ہے۔ لطیف صاحب کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ وہ باپ بننے والا ہے۔ لطیف نے کچھ رقم پس انداز کر رکھی تھی۔ اس نے سوچا ٹریڈنگ کمپنی کی نوکری چھوڑ کے اپنا کاروبار کرنا چاہیئے۔پہلے تو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا لیکن اب اس نے کوہِ نور مل کے پاس اپنا گھر خرید لیا تھا۔آخرکار اس نے فیصلہ کر ہی لیا ۔ اس کا ایک دوست کراچی میں غیر ممالک سے آئے استعمال شدہ کپڑوں کی گانٹھیں خریدا کرتا تھا اور دوسرے کاروباری حضرات کو بیچ دیا کرتا۔ اس نے لطیف کو مشورہ دیا کہ تم بھی لنڈے کا کاروبار کرو۔ اس میں بڑا فائدہ
ہے۔تقریباً سو فیصد بچت ہوتی ہے۔ لطیف کو اس کا مشورہ پسند آیا ۔ اس نے حمیدہ کو اس کے ماں باپ کے ہاں چھوڑا اور خود کراچی چلا گیا۔
***************
حمیدہ جیسے ہی اپنے ماں باپ کے گھر آئی ۔یہاں تو ایسا ہوگیا ،جیسے سب کی عید ہوگئی ہو۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ماں بننے والی ہے۔ یہ تو اور بھی خوشی کی بات تھی۔ فہمیدہ اب کافی بڑی بڑی لگنے لگی تھی۔ حالانکہ حمیدہ کوگئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ یہی کوئی آٹھ ماہ یا اس سے بھی کم۔فہمیدہ نے حمیدہ کو انتہائی راز داری سے بتایا کہ سہیل نے تمہیں ڈوھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن جب اسے پتا چلا کہ تمہاری شادی ہوگئی ہے تو بڑا اداس ہوا۔ خیر جو بھی ہے وہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔ یہ اس کا ٹیلی فون نمبر ہے۔ حمیدہ نے ٹیلی فون نمبر ہاتھ میں تھام لیا۔
**********
ہاتھی چوک میں ،جہاں یہ لوگ رہتے تھے ۔تمام کرائے داروں کو کہا گیا تھا کہ اپنے اپنے مکان خالی کردیں کیونکہ اس جگہ کا مالک یہاں پے ہوٹل بنانا چاہتا ہے۔ اب عبدالشکور صاحب بھی کرائے کے گھر کی تلاش میں تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد انہیں لال کرتی میں ایک گھر مل گیا لیکن بچوں کا دل بالکل نہیں کرتا تھا کہ صدر کے اس علاقے کو چھوڑ کے جائیں۔ آس پاس گھروں کے کرائے بہت زیادہ تھے۔یہاں حمیدہ نے چند دن رہنا تھا پھر ان لوگوں نے لالکرتی منتقل ہوجانا تھا۔ حمیدہ کے چہرے پے شادی کے بعد مزید نکھار آگیا تھا لیکن اب وہ برقعہ اوڑھتی تھی۔لوگ اسے احترام کی نظر سے دیکھتے تھے کیونکہ اب اس کی شادی ہوچکی تھی۔سب کا یہی خیال تھا عنفوانِ شباب میں انسان سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔اب تو شادی شدہ ہے۔راہِ راست پے آگئی ہوگی۔ حمیدہ اپنے کسی فعل سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ پہلے جیسی ہے۔ شادی سے پہلے بھی کوئی شخص وثوق س نہیں کہہ سکتا تھا بس اِدھر اُدھر سے
سن کے ہی لوگ اسے شک کی نظر سے دیکھا کرتے تھے حالانکہ اس وقت بھی حمیدہ بہت احتیاط برتتی تھی۔ سب کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آتی۔ نماز، روزہ اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتی تھی۔
حمیدہ کو فہمیدہ ساتھ لیا اور سہیل کو فون کرنے چلی گئی۔ سہیل کے ساتھ کامران کیفی میں پروگرام بنایالیکن پھر سوچا ،صدر میں سب لوگ جانتے ہیں اس لیئے سہیل کو ایوب پارک بلالیا۔ دونوں بہنیں مقررہ وقت پے ایوب پارک پہنچ گئیں۔ وہاں کافی رونق تھی۔ سہیل اپنی گاڑی میں بیٹھا ان کا انتظار کررہا تھا۔ حمیدہ کی شخصیت میں یہ کمال تھا کہ کبھی کوئی جان پہچان والا مل بھی جائے تو بندہ ، لڑکا یا آدمی اس کے ساتھ ہو اسے بھائی بنالیا کرتی۔لوگ بہن بھائی کے رشتے کے تقدس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، ذہن میں آئے ہوئے غلط خیال کو جھٹک دیا کرتے۔ویسے بھی حمیدہ ،سہیل کو سہیل بھائی کہہ کر ہی بلایا کرتی۔حمیدہ اور فہمیدہ نے برقعہ اوڑھ رکھا تھا۔ سہیل گاڑی سے اتر کے ان کے ساتھ ہولیا۔ اب ان کو کوئی بھی شک کی نگاہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ حمیدہ نے فہمیدہ کو تو ایک طرف کیا اور خود دونوں گلے شکوے کرنے لگے۔اس نے سہیل سے پوچھا ،’’ تم نے اپنے ماں باپ کو کیوں نہیں بھیجا۔ میں انتظار کرتی رہی‘‘۔سہیل نے کہا، ’’میرے امی ابو آئے تھے لیکن انہوں نے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا تو کسی نے بھی ٹھیک جواب نہیں دیا‘‘۔ حمیدہ نے کہا، ’’خیر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔خیر تم سناؤں تم نے شادی کی یا اب تک کنوارے ہی ہو‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’بدقسمتی سے میری بھی شادی ہوچکی ہے لیکن یقین کرو رات دن تمہارا ہی خیال رہتا ہے۔ حمیدہ بڑا دل چاہ رہا ہے۔اگر ایک دفعہ‘‘۔ حمیدہ نے کہا، ’’میرا بھی بڑا دل چاہ رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں ماں بننے والی ہوں‘‘۔ ’’کتنے ماہ ہوئے ہیں‘‘۔’’یہی کوئی دو ماہ‘‘۔ سہیل نے کہا ،’’پھر تو کوئی مسئلہ نہیں۔میں بہت احتیاط کروں گا‘‘۔ حمیدہ نے کہا، ’’چلو جیسے تمہاری مرضی۔ہوٹل دی مال میں کمرہ بک کرواؤ اور وہیں چلتے ہیں‘‘۔ ’’اور فہمیدہ‘‘۔ ’’اس کو میں گھر بھیج
دیتی ہوں‘‘۔ انہوں نے فہمیدہ کو انتہائی خوبصورتی سے ٹال دیا اور خود ہوٹل دی مال میں آگئے۔ سہیل کی یہاں اچھی واقفیت تھی اس لیئے کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ دونوں نے جی بھر کی تفریح منائی۔اب کافی دیر ہوچلی تھی اس لیئے حمیدہ نے کہا، ’’اب میں چلتی ہوں‘‘۔ سہیل نے کہا، ’’میں تمہیں چھوڑ دوں گا‘‘۔ تو کہنے لگی،’’نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ تم مجھے اوڈین سینما کے پاس اتار دو۔ وہاں سے میں پیدل چلی جاؤں گی۔وہاں میری ایک سہیلی رہتی ہے ۔اس سے ملتی ہوئی جاؤں گی۔سہیل نے اس کے بتائے مشورے یا حکم پے عمل کیا۔ اس نے حمیدہ کو اپنا نیا فون نمبر بھی دیا۔حمیدہ کو وہ اوڈین سنیما کے پاس اتار کے چلا گیا۔حمیدہ نے مال روڈ کے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اوڈین اور پلازہ سنیما سے ملحق ایک گلی میں مُڑ گئی۔ یہاں اس کی ایک سہیلی رہتی تھی، سلمیٰ۔ یہ محظ اتفاق تھا کہ سلمیٰ کے گھر پہنچی تو وہ گھر پے موجود تھی۔ اتنے عرصے بعد اپنی سہیلی کو دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔ اس نے اس کی خوب خاطر تواضع کی۔ دونوں نے اِدھراُدھر کی خوب باتیں کیں۔ حمیدہ نے شادی کی کہانی سے لیکر ساؤتھ افریقہ اور لطیف صاحب کے نئے کاروبار تک ساری کہانی سنا ڈالی۔ پھر سلمیٰ سے اجازت طلب کی۔اس نے کہا میں ٹیکسی منگوادیتی ہوں۔لیکن حمیدہ نے کہا، میں آجکل امی کے ہاں آئی ہوئی اس لیئے یہاں سے پیدل ہی چلی جاؤں گی۔ویسے ہم لوگ کچھ دنوں تک لالکرتی منتقل ہوجائیں گے۔ جہاں ہم لوگ رہتے تھے اور ہیں ۔اس جگہہ کو گرا کر ہوٹل بنایا جارہا ہے۔ ابھی تو سال کی مدت ہے لیکن ہم لوگ پہلے ہی چھوڑ دیں گے۔ہمیں لال کرتی میں گھر مل گیا ہے۔تمام تفاصیل بتا کر اس کو خدا حافظ کہا اور گھر کی راہ لی۔
***************
حمیدہ کو کوہِ نور مل کے پاس رہتے ہوئے دوسال ہوچلے تھے۔اب وہ ایک بچی کی ماں تھی۔ لطیف صاحب کا کام خوب چلا۔ لاکھوں کی آمدن ہوئی لیکن آہستہ آہستہ کاروبار مندا ہونے لگا۔ایک دو دفعہ
کراچی ضرور جاتے۔ اس دوران حمیدہ بالکل آزاد ہوتی۔ ننھی رابعہ کو کبھی ماں کے ہاں چھوڑ جاتی ،کبھی
فہمیدہ کے پاس لیکن اب فہمیدہ کی بھی بات پکی ہوچکی تھی اس لیئے لے دے ماں ہی بچی تھی۔
حمیدہ کا چکر ان دنوں ایک گوالے کے ساتھ چل رہا تھا۔ہوا کچھ اس طرح کہ ایک دن وہ دودھ لینے خود چلی گئی۔ جن لوگوں نے بھینسیں رکھی ہوئی تھیں۔ان کا ایک ملازم تھا، جس کا کام دودھ دھونا اور اس کو بیچنا۔ایک دو بندے بھینسوں کی دیکھ بھال کے لیئے تھے۔ان لوگوں کا کاروبار تھا۔ حمیدہ جب دودھ لینے پہنچتی، تو بالا گجر دودھ رہا ہوتاتھا۔ اس نے سلوکا(ایک قسم کی بنیان جو ململ کے کپڑے کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی سامنے چار جیبیں ہوتی ہیں اور کچھ چور جیبیں ہوتی ہیں)پہنا ہوا تھااس لیئے اس کے بازوؤں کے خوبصورت پٹھے ، حمیدہ کو دودھ دھوتے ہوئے بہت بھلے لگے۔ اس نے اپنے تئیں سوچا یہ مرد بڑا قوی ہیکل اور مضبوط جسم کا مالک ہے۔ اس کے ساتھ دوستی کرنے میں بڑا مزہ آئے گا۔ اس طرح بالا گجر ، حمیدہ کا دوست بن گیا۔ پہلے وہ خود دودھ لینے جاتی تھی ، اب وہ گھر پے دودھ دینے آتا تھا۔ کسی نے بھی شک کی نظر سے نہ دیکھا کیونکہ بالا گجر چند اور گھروں میں دودھ دینے جاتا تھا۔شک نہ ہونے دوسری وجہ یہ تھی کہ حمیدہ کے گھر میں بیبیوں کی کہانی، سورۃ ےٰس کا ختم اور قرآن خوانی اکثر ہوا کرتی۔ اس کے علاوہ، محرم، شبِ قدر،عید، بقر عید ، اس طرح کے تمام مذہبی تہواروں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ حمیدہ کس قماش کی لڑکی ہے۔ اس کے شوہر لطیف کو تو لوگوں پے غصہ آتا تھا جو اس کی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ حالانکہ وہ بالا گجر ،سہیل اور نا جانے کس کس سے ملتی تھی۔ حمیدہ کو نئے نئے مردوں کے ساتھ تفریح کا مزہ آتا تھا۔ اُسے پیسوں کا لالچ کبھی نہ ہوا۔بس کبھی کسی نے تحفہ دے دیا تو قبول کرلیا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
**************
حمیدہ اب دو بچوں کی ماں تھی۔رابعہ تو پانچ سال کی ہوچلی تھی اور فاطمہ بھی دو سال کی ہوچکی تھی۔ رابعہ سکو ل جاتی تھی۔لطیف کا کاروبار اب بہت مندا جارہا تھا۔ اس دوران حمیدہ نے اپنی سرگرمیاں
جاری رکھیں۔وہ سہیل کے علاوہ کئی مردوں سے میل ملاپ رکھتی۔اب تو جس علاقے میں یہ لوگ رہتے تھے وہاں بھی آس پاس کے لوگوں کو پتا چلنا شروع ہوچکا تھا۔ لطیف کے والدین کبھی کبھی اپنے بیٹے سے ملنے آتے۔ انہیں اپنے بیٹے کی حالت پے رحم آتا۔لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے لیکن کیا کرسکتے تھے۔ان کا بیٹا اپنی بیوی کو کسی طرح بھی چھوڑنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ کہتا ،آپ لوگ سارے مل کر خواہ مخواہ میریبیوی کو بدنام کرتے ہیں۔وہ تو نمازی اور پرہیز گار ہے۔ نفلی روزے بھی رکھتے ہے۔جب بھی موقع ملے ، جمعرات کو کسی ناکسی بزرگ کی زیارت پے بھی جاتی ہے۔ میں جب بھی گھر آؤں قرآن کی تلاوت کررہی ہوتی ہے۔سب سے بڑھ کے اس نے رابعہ کو قرآن حفظ کرانے کے لیئے مدرسے بھی بٹھا دیا ہے۔ وہ صبح سکول جاتی ہے اور شام کو مدرسے جاتی ہے۔ لطیف کے والدین ، اس کی یہ لمبی چوڑی تقریر سن کے چپ ہوجاتے۔اور تو اور لطیف کے بڑے بھائی بھی لطیف کی طرف داری کرتے۔ اس راز سے کوئی نہیں واقف تھا ۔ نہ جانے حمیدہ نے انہیں کیا گھول کے پلا دیا تھا۔اس طرح کی عورت سے کیا بعید، اپنے جیٹھ کے ساتھ بھی ناجائز تعلقات قائم کیئے ہوئے ہوں۔
**************
حمیدہ اتنے اچھے اخلاق کی مالک تھی کہ دنیا کا تیز سے تیز اور کائیاں شخص بھی اس کے قریب آجاتا ، حتیٰ کہ اس کے ساس سسر بھی، جنہیں اس پر شک نہیں یقین تھا۔ وہ اپنی سرگرمیاں اس صفائی سے انجام دیتی کہ شک کی گنجائش ہی نہ باقی رہتی۔وہ خود تو ان کاموں میں ملوث رہتی ،اپنے ساتھ ساتھ دوسری لڑکیوں کو بھی شامل کرلیتی۔ خاص کر سکول اور کالج جانے والی لڑکیوں کو ۔ آجکل اس نے ایک معصوم لڑکی کو اپنے جال میں پھنسایا ہوا تھا۔وہ اس کے اشاروں پے ناچتی تھی۔اس کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ عورت کو خدا نے مرد کو لُبھانے کے لیئے پیدا کیا ہے۔ عورت کو مرد کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ پھر مرد اس کی انگلیوں کے اشارے پے ناچتا ہے۔
************
بیمنی یوں تو سادہ سی لڑکی تھی۔ دسویں جماعت میں پڑھتی تھی لیکن حمیدہ کے ساتھ اس کی دوستی نے اس کی زندگی کے رنگ ہی بدل کے رکھ دیئے۔ پہلے سکول جاتے ہوئے کوئی لڑکا جب اس کی طرف دیکھتا تو دھیان ہی نہ دیا کرتی لیکن اب وہ پوری طرح محظوظ ہوا کرتی۔ ایسا سمجھیئے کہ اس کی آنکھیں ایسا جامِ جم بن گئیں تھیں کہ وہ سب کچھ دیکھ لیتی تھی۔لڑکے، لڑکیوں کو بار بار کیوں دیکھتے ہیں۔اونچی آواز میں باتیں کیوں کرتے ہیں۔کسی لڑکی کو دیکھ کے گانا کیوں گاتے ہیں۔کبھی کبھی اونچی آواز میں گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔آوازیں کستے ہیں۔ذومعنی گفت و شنید کرتے ہیں۔ وہ سارا کچھ سمجھنے لگی تھی۔ بیمنی میں بس اتنی جرآت نہیں تھی کہ وہ کسی سے دوستی کرسکے۔ اس کے دل میں لڑکوں سے قربت حاصل کرنے کی شمع روشن ہوچکی تھی۔وہ جب بھی حمیدہ سے ملتی ،بس یہی کہتی کہ میرے اندر لڑکوں کے ساتھ بات کرنے کا حوصلہ نہیں پیدا ہوتا۔ یہ مسئلہ حمیدہ نے حل کردیا۔وہ ایک ایسے لڑکے کو جانتی تھی جو ان کے ہاں اکثر آیا جایا کرتا تھا۔ وہ ایک کوریئر کمپنی میں ان کا اکاؤنٹس افیسر تھا۔حقیقت میں حمیدہ خود بھی اسے بڑا پسند کرتی تھی لیکن وہ کبھی بھی اس کے جال میں نہ پھنسا کیونکہ وہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ عورت میرے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔وہ لطیف صاحب کا رشتہ دار تھا اور ویسے بھی وہ لطیف صاحب اسے اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔ رودکی کی عمر بمشکل بیس سال ہوگی۔ایف اے کرکے اس کاجی پڑھائی سے اچاٹ ہوگیا اس لیئے اس نے چھوٹی موٹی کئی نوکریاں کیں اور آخرکار ایک کوریئر کمپنی میں اکاؤنٹس کا کام کرنے لگا۔لطیف صاحب کاچونکہ کوئی آفس نہیں تھا اس لیئے ان کا اکاؤنٹنٹ بھی نہیں تھا۔ خود ان کے پاس بھی وقت نہیں تھا۔ اس لیئے رودکی سے کبھی کبھی مدد لیا کرتے۔رودکی کی حمیدہ سے خوب دوستی تھی لیکن جو حمیدہ سمجھتی تھی وہ بات نہیں تھی۔ حمیدہ نے رودکی کو پھانسنے کے لیئے انوکھی ترکیب سوچی۔ سب سے پہلے اس نے بیمنی سے تعلقات پیدا کیئے۔ اس کے دل میں مردوں کے لیئے پیار کی شمع
جلائی۔ پھر اسے کوئی نا کوئی بوئے فرینڈ بنانے کو کہا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کام بیمنی سے نہ ہوگا۔ اس لیئے اس نے رودکی کے بارے میں سوچا۔اب وہ ، جب بھی رودکی ان کے گھر آتا ،بیمنی کو کسی نا کسی بہانے بلالیا کرتی۔ دونوں کو مل بیٹھنے کا موقع دیا کرتی۔ آخر کار وہ ان دونوں کو قریب لانے میں کامیا ب ہوگئی۔ رودکی اور بیمنی دونوں ایک دوسرے کے عشق میں بری طرح گرفتار ہوگئے۔ پہلے پہل تو دونوں کی ملاقاتیں حمیدہ کے گھر پے ہوتیں لیکن رفتہ رفتہ بیمنی اور رودکی نے باہر بھی ملنا شروع کردیا۔ رودکی کا ایک دوست تھا فضولی۔ فضولی خود بھی کسی کے عشق میں گرفتار تھا۔ اس لیئے وہ رودکی کے درد کو سمجھ سکتا تھا۔ اس لیئے وہ دونوں کو ملاقات کے لیئے جگہ فراہم کیا کرتا۔ حمیدہ کو کسی طرح پتا چل گیا کہ بیمنی اور رودکی اس کے گھر پے ملنے سے اجتناب فرماتے ہیں۔ اسے یہ بھی پتا چل چکا تھا وہ باہر کہیں ملتے ہیں۔ اس بات کا اسے گہرا رنج ہوا۔ جس شکار کو وہ خود پھانسنے چلی تھی۔ جس کے لیئے اس نے اتنے پاپڑ بیلے تھے وہ پکے آم کی طرح کسی اور کی جھولی میں جاگرا تھا۔ اب اس کی پوری کوشش تھی کہ بیمنی اور رودکی کو ایک دوسرے خلاف اکسائے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ دونوں گوڈے گوڈے ایک دوسرے کے عشق میں گرفتا ر تھے۔ بات اب اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے۔ حمیدہ یہی تو نہیں چاہتی تھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ اس کی بنائی ہوئی ترکیب ناکام ہورہی تھی۔ اب وہ اُوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔ جس طرح پاکستان کے سیاستدان کرتے ہیں۔ اس نے رودکی کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ رودکی کو اس بات کا ڈر تھا کہیں اس کے ماں باپ کو نہ پتا چل جائے۔ اسی بات کا فائدہ حمیدہ اٹھا رہی تھی۔ ایک دن اس نے رودکی کو گھر بلایا اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی۔ پھر نا جانے حمیدہ کے دل میں کیا آئی، اٹھ کے کمرے میں چلی گئی۔ جب واپس آئی تو اس کے بدن پے کوئی کپڑا نہیں تھا۔ بالکل ننگی تھی۔ اس نے یہ روپ اس لیئے دھارا تھا کہ شاید رودکی کے جذبات کو وہ برانگیختہ کرسکے۔ نہ صرف وہ اس حالت میں رودکی کے سامنے آگئی بلکہ اُسے کہنے لگی، ’’آؤ اب کس بات کا انتظار ہے‘‘۔ رودکی کے
تن بدن میں سوئیاں چبھنے لگیں۔ کانوں کی لوئیں گرم ہوگئیں۔ دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوگئی جیسے کسی لمحے بھی پھٹ جائے گا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود پے قابو پایا اور باہر بھاگ گیا۔ حمیدہ سے اپنی تذلیل برداشت نہ ہوئی ۔اس نے جلدی کپڑے پہنے اور باہر کی طرف بھاگی۔ وہ کیا دیکھتی ہے کہ رودکی رو رہا ہے۔ اس نے رودکی کو گلے لگایا اور اُسے چپ کرایا۔اُسے کہنے لگی، ’’میں تو تمہیں آزما رہی تھی۔تم امتحان میں پورے اترے ہو۔ تم حقیقت میں بیمنی سے بہت پیار کرتے ہو۔ یہ سن کے رودکی کی جان میں جان آئی۔
***************
دن اسی طرح گزرتے رہے۔ بیمنی اور رودکی کا عشق تیزی سے پروان چڑھتا رہا۔ حمیدہ نے بالے گجر سے عشق لڑاتے لڑاتے اس کے مالکان سے روابط بڑھا لیئے۔ اس دوران اُسے خدا نے ایک بیٹی عطا کی۔ اس کانام اس نے عائشہ رکھا۔ سارے محلے کا خیال تھا یہ لڑکی گجروں کی ہے۔ لیکن کوئی کیسے ثابت کرسکتا تھا۔رودکی ، حمیدہ کی اصلیت جان چکا تھا لیکن اسے اپنے راز کے افشاں ہونے کا ڈر تھا۔ یہ سبھی جانتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے(ویسے تو کھنگ تے کھرک بھی نہیں چھپائے جاسکتے)۔رودکی کے والدین اور بیمنی کے گھر والوں کو بھی پتا چل چکا تھا۔ یہ دونوں ڈر رہے تھے نا جانے راز افشاں ہوگا تو کیا ہوگا لیکن جیسے ہی ان لوگوں کو پتا چلا ،بیمنی اور رودکی کی منگنی کردی گئی۔ حمیدہ تو جیسے ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے آگری ہو۔ اس نے دونوں اطراف کو بدظن کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ چند ماہ منگنی کو گزرے تو بیمنی اور رودکی رشتہء ازدواج سے منسلک ہوگئے۔ حمیدہ کی مذہبی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اب تک اس کی بیٹی رابعہ قرآن پاک بھی حفظ کرچکی تھی۔ لطیف صاحب کا کاروبار بالکل ختم ہوچکا تھا۔ اب انہوں نے کوہِ نور مل کے پاس ایک چھوٹی سی سبزی کی دوکان کھول لی تھی۔ بمشکل گزر اوقات ہوتی۔ گھر ان کا اپنا تھا لیکن دیگر اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ ان کو
پوراکرنے کے لیئے انہیں ادھار لینا پڑتا تھا۔ وہ زندگی کی گاڑی کو کھینچتے رہے۔ لطیف صاحب کے ماں باپ بھی کبھی کبھی مدد کردیتے لیکن آخر کب تک۔ اس کے علاوہ گجروں کی بھی غائبانہ امداد جاری تھی۔ آپ حمیدہ کو جسم بیچنے والی عورت تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ یہ کام پیسوں کے لیئے نہیں کرتی تھی بلکہ اپنی جنسی تسکین کے لیئے کرتی تھی۔ جو شاید اس کا خاوند پوری نہیں کرسکتا تھا۔یا یوں کہنا چاہیئے کہ اس کے لیئے ناکافی تھا۔ جب سے لطیف صاحب نے گھر کے قریب کاروبار شروع کیا تھا انہیں پھر لوگوں سے باتیں سننے کو ملتیں۔وہ کہا کرتے ، ’’انسان اولاد کے ہاتھوں کبھی کبھی بڑا مجبور ہوجاتا ہے‘‘۔ وہ اب بھی یہی تصور کرتے تھے کہ یہ تمام باتیں چھوٹی ہیں۔
****************
بیمنی اور رودکی ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے اس دوران ایک ناخوشگوار واقع پیش آیا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ حمیدہ کی رودکی کے گھر تک رسائی ہوگئی اور یہ تعلقات بڑھتے بڑھتے اتنے بڑھے کہ اُس کا اِن کے ہاں اکثر آنا جانا ہوگیا۔ رودکی تمام باتیں بھول کر حمیدہ کے ساتھ اُسی طرح پیش آنے لگا جس طرح وہ شادی سے پہلے اس سے ملا جلا کرتا تھا۔ یہ بات رودکی جانتا تھا کہ اس کے دل میں کوئی بھی نازیبہ ا ور گندا خیال نہیں لیکن بیمنی کو شک نہیں یقین ہوچلا تھا کہ حمیدہ کے رودکی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ دونوں میں حمیدہ کی وجہ سے جھگڑے ہونے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حمیدہ نے ایک دن بیمنی کے سامنے رودکی کو گلے لگا لیا اور اس کے ساتھ چوما چاٹی شروع کردی۔بیمنی سے برداشت نہ ہوا اور وہ رونے لگی۔ رودکی نے خود کو حمیدہ کی گرفت سے آزاد کروایا اور اس کے گال پے کھینچ کے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ حمیدہ کے چودہ کیا سولہ طبق روشن ہوگئے لیکن تھپڑ کھا کے وہ زور زور سے چلانے لگی۔ رودکی میں تم سے پیار کرتی ہوں۔اس رنڈی کو چھوڑ دو۔ یہ تم سے پہلے بھی کئی لڑکوں سے عشق لڑا چکی ہے۔ میں تم سے پیار کرتی ہوں اور سچے دل سے پیار کرتی ہوں۔ میں اپنے بچے چھوڑ دوں گی۔ اپنے خاوند کو چھوڑ
دوں گی۔بس ایک دفعہ مجھے اپنا لو۔ اسے طلاق دے دو۔ رودکی بھاگ کر ڈنڈا اٹھا لایا۔ اس سے پہلے کہ ڈنڈا حمیدہ کے سر پے پڑتا رودکی کے والد صاحب نے ڈنڈا روک لیا۔ حمیدہ نے موقعے کی مناسبت سے پینترا بدلا اور سارا الزام رودکی کے سر تھوپ دیا۔ رودکی کے والد صاحب زمانہ شناس آدمی تھے ۔ انہوں نے موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حمیدہ سے کہا، ’’تم فوراً یہاں سے چلی جاؤ۔باقی سب میں دیکھ لوں گا‘‘۔ حمیدہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہاں سے چلتی بنی۔ وہ کافی حد تک آگ لگا چکی تھی۔ ا س واقعے کی وجہ سے بیمنی ناراض ہوکر اپنے ماں باپ کے ہاں چلی گئی۔ رودکی کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔اس کے امی ابو نے اپنے لاڈلے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر سوچا کہ بہو کو راضی کرلائیں حالانکہ اصولاً یہ غلط تھا۔ یہ دونوں ضرورت سے زیادہ ہی عاجز و انکسار تھے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بہو کو منا کر لے آئے۔
**************
حمیدہ کی بڑی بیٹی نے میٹرک کرلیا ۔اب وہ کالج جانے کا سوچنے لگی لیکن ان کے مالی حالات اتنے اچھے نہ تھے کہ وہ کالج کی فیس اور دیگر لوازمات پورے کرسکتی۔ آہستہ آہستہ گجروں کی غائیبانہ امدا کم ہوگئی۔ سبزی کی دوکان بھی کم چلنے لگی۔ رابعہ قرآن پاک حفظ کرچکی تھی اور میٹرک بھی کرچکی تھی۔ ذہین تھی۔اس نے سوچا کوئی نوکری کرے ۔اس کی عمر بھی کم تھی اور قرآن حفظ کرنا ایسا تو نہیں کہ کوئی کمپیوٹر کورس ہو ،جس کی وجہ سے آسانی سے نوکری مل جائے گی۔وہ ایک کام کرسکتی تھی، یا تو بچوں کو بغدادی قاعدہ پڑھائے اور قرآن پڑھنا سکھلائے۔ لیکن یہ کام ایسا نہیں تھا کہ جس سے گھر چل سکے۔دوسری طرف لطیف صاحب کا خیال تھا کہ کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر رابعہ کی شادی کردیں۔ سب کی اپنی اپنی رائے تھی۔ آخرکار رابعہ نے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پہ ایف اے کی تیاری بھی کرنے لگی۔ رابعہ اپنی ماں کے چال چلن سے واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے ذرا سا بھی غلط قدم اٹھا یا تو ایسی دلدل میں جاگرے گی کہ واپس نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا چاہتی
تھی جس کی شرافت کی وہ قائل تھی۔ رابعہ کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی رنگ لائی اور وہ ایف اے کے امتحان میں بڑے اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی۔ اس نے بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا،اس کے ساتھ ساتھ گھر کے پاس ہی ایک بچوں کے سکول میں ملازمت بھی اختیار کرلی۔ لطیف صاحب اپنی بیٹی کی ہمت کی داد دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان حالات تک پہنچنے میں جہاں ان کی بیوی کا قصور ہے وہاں خود ان کا اپنا بھی قصور ہے۔ اگر وہ ذرا سی سمجھداری سے کام لیتے تو آج انہیں یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ رابعہ کے ساتھ فاطمہ اور عائشہ بھی اس کے نقشے قدم پے چل رہی تھیں۔ رابعہ کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ اب وہ بی اے کی تیاری بھی کررہی تھی۔ رابعہ کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ قرآن پاک کی تعلیم دینے میں زیادہ محنت صرف ہوتی ہے اور لوگ دس بیس روپے ماہوار سے زیادہ نہیں دیتے جبکہ سکول کی ٹیوشن میں فی بچہ اسے دو سو روپے ماہوار ملتے۔ اس لیئے اس نے قرآن کی تعلیم دینی بند کردی۔
****************
حمیدہ کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی کیونکہ آج تک کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکا تھا کہ وہ بدچلن ہے۔ حمیدہ کے سسر کو یقین تھا لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ حمیدہ کو زیادہ چڑ بھی اپنے سسر سے ہی تھی۔ وہ موقعے کی تلاش میں تھی کہ کس طرح اپنے سسر کو بدنام کرے۔ ایک دن اُسے یہ موقع مل گیا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ تینوں بچیاں کسی کام کی غرض سے گئی ہوئی تھیں۔ حمیدہ نے گجروں کے بڑے بیٹے کو تفریح کے لیئے گھر بلالیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ حمیدہ کے سسر بھی اسی وقت تشریف لائے۔ گرمی بہت زیادہ تھی۔ حمیدہ نے ان کے جوتے اتارے، اور کہا کہ آپ غسل کرلیں۔ میں غسل خانے میں صاف تولیہ رکھ دیا ہے۔ وہ حمیدہ کی چاپلوسی کو نہ سمجھ سکے اور غسل خانے میں غسل کرنے چلے گئے۔ اس دوران حمیدہ گجروں کے بیٹے کے ساتھ تفریح منانے لگی۔ جب اُسے یقین ہوچلا کہ سسر
صاحب غسل کرچکے ہوں گے۔ وہ آئی ۔ اس نے اپنے سسر سے کہا، ’’آپ قمیص اتار کے رُوکنگ چیئر پے بیٹھیں۔ میں پنکھا لگاتی ہوں اور آپ کے لیئے لسی بنا کر لاتی ہوں‘‘۔ وہ بہت حیران ہوئے انہیں لوگوں سے سنی ہوئی تمام باتیں جھوٹ لگنے لگیں۔ انہوں نے حمیدہ کے سر پے ہاتھ پھیراا ور دعا دی ، جیتی رہو۔ سسر صاحب قمیص اتار کے رُوکنگ چیئر پے جھولے لیئے جارہے تھے اور پنکھے کی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز بھی ہورہے تھے۔اس دوران حمیدہ لسی بھی لے آئی، ساتھ ایک مولی کا پراٹھا بھی تھا۔ انہوں نے پراٹھا کھایا اور لسی غٹاغٹ پے گئے۔ حمیدہ کا خیال تھا کہ اب سوجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔چند لمحوں کے لیئے اُن کی آنکھ لگی لیکن پھر اُن کی آنکھ کھلی تو اپنی کسی ضرورت کے تحت وہ غسل خانے کی طرف جانے کے لیئے اٹھے۔ راستے میں حمیدہ کا کمرہ تھا، جو کہ اندر سے بند تھا لیکن اندر سے صاف آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایسی آواز جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے دروازے کو دھکیلا تو کیا دیکھتے ہیں کہ حمیدہ اور کوئی شخص نازیبا حالت میں تھے۔حمیدہ نے چادر سے جسم کوڈھانپا اور اپنے سسر کے پاس آکے کہنے لگی ۔اگر آپ نے لطیف کو بتایا تو میں کہوں گی آپ نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے، اور یہ شخص مجھے بچانے آیا ہے۔ حمیدہ کے سسر نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ عورت نے اپنے جسم اور جنس کے سہارے پیغمبروں کا بدنام کیا ہے ،میں کیا چیز ہوں۔ انہوں نے جلدی سے جاکے قمیص پہنی، الٹے سیدھے جوتے پہنے اور گھر کی راہ لی۔ اس واقعے کے بعد وہ اپنے بیٹے کے ہاں کبھی تشریف نہ لائے۔ حمیدہ اپنی اس طرح کی ترکیبوں پے دل ہیدل میں بڑا مسکرایا کرتی۔ جہاں اُسے رودکی سے شکست کا افسوس تھا وہاں اس فتح کی خوشی بھی تھی۔
***************
رابعہ بی اے کرچکی تھی اور ایم اے کی تیاری کررہی تھی۔ رابعہ خوبصورت تھی، پڑھی لکھی تھی اور قرآن حافظہ بھی تھی۔ اس کے کئی رشتے آئے لیکن اس نے ٹال دیا۔ ایک ہی بہانہ ہوتا کہ میں تعلیم مکمل
کرکے شادی کروں گی۔ حالانکہ اس نے شادی کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ رابعہ کے نقشِ قدم پے چلتے ہوئے اس کی چھوٹی بہنیں بھی پڑھ رہی تھیں۔ لطیف صاحب اپنی بیٹی رابعہ سے بڑے خوش تھے۔اتنے حوادث گزرنے کے بعد یہ ان کے لیئے ایک خوش کن بات تھی۔ انہیں یہ بھی فکر تھی کہ اپنی اس اتنی سمجھدار بیٹی کا کہیں رشتہ بھی کرنا ہے۔ اس کی شادی کے لیئے بڑے فکر مند تھے۔ انہوں نے ایک دو جاننے والوں سے بات بھی کی ہوئی تھی۔ رابعہ سے انہوں نے شارے کنائے میں ذکر بھی کیا تھا لیکن رابعہ اپنی سوچی ہوئی منزل پے پہنچنا چاہتی تھی۔
***************
حمیدہ جیسی بھی تھی لیکن گھر کا بہت خیال رکھتی۔ خاص کر صفائی ستھرائی کا، کھانا پکانا، سینا پرونا، بچوں کا خیال رکھنا، خاوند کی خدمت کرنا، اس کی تابعداری کرنا۔یہ وہ تمام عوامل تھے جوتمام شکوک کو رفع کردیتے تھے۔ آج بھی اس نے وقت مقررہ سے پہلے ہی گھر کو اس قرینے سے سجایا تھا کہ زمین پے ایک تنکا بھی نظر نہیں آرہا تھا۔چائے کا سامان بھی تیار تھا، سموسے، پکوڑے، مٹھائی۔ مختلف اقسام کے پھل۔صاف ستھرے میزپوش، پتھر کے پھولوں والا خوبصورت ٹی سیٹ۔ آج رابعہ کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے تھے۔ فاطمہ اور عائشہ بھی ماں کے ساتھ کام میں مگن تھیں۔رابعہ آج بھی کچھ پڑھ رہی تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی شادی ہو لیکن اپنے والد صاحب کے پرزور اسرار پے وہ مان گئی۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ چائے کی ٹرالی لے کر نہیں جائے گی۔ نہ ہی وہ کسی قسم کا میک آپ کرے گی۔ جس نے مجھے پسند کرنا ہے وہ ایسے ہی پسند کرے گا۔ اس کی تمام شرائط مان لی گئیں۔
وقت مقررہ پے وہ لوگ آگئے۔لڑکا بھی ساتھ تھا۔لڑکے نے سر پے سبز رنگ کا عمامہ کَسا ہوا تھا(باندھا ہوا میں اس لیئے نہیں لکھتا کیونکہ وہ بڑی مضبوطی سے کس کر باندھا گیا تھا)۔سفید شلوار قمیص، کالے رنگ کی اچھے طریقے سے پالش کے ساتھ چمکائی ہوئی پشاوری چپل اور چہرے پے کالی سیاہ
داڑھی، رنگ گورا چٹا تھا۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔لطیف صاحب اپنی بیٹی پسند کے مطابق اس کے لیئے رشتہ ڈھونڈ کر لائے تھے۔ لڑکا کسی پرائیویٹ فرم میں کمپیوٹر پروگریمر تھا ۔تنخواہ بہت اچھی تھی۔ طلال نے رابعہ کو پسند کیا۔اس نے ماں کے کان میں کچھ کہا۔ا س کی ماں نے حمیدہ کے کان میں کچھ کہا۔حمیدہ نے کہا ،’’ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔حمیدہ نے رابعہ سے کہا، ’’بیٹالڑکا علیحدگی میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے، اسلام عورت اور مرد کو ایک دوسرے کو پسند کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیئے میں رابعہ سے علیحدگی میں اس کی مر ضی پوچھنا چاہتا ہوں رابعہ نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ رابعہ اور طلال کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں وارد ہوئے۔ دونوں کے چہروں پے ایک عجیب قسم کی خوشی تھی۔اس طرح رابعہ کی بات پکی ہوگئی۔ لڑکے نے کہا کہ نکاح بہت سادگی سے کریں گے۔ جہیز، مہندی، ڈھول تاشے یہ سب غیراسلامی رسومات ہیں۔ البتہ ولیمہ ہم پرتکلف کریں گے۔ آپ جتنے لوگ چاہیں لاسکتے ہیں۔ لطیف صاحب کو ان کسی بات پے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
**************
رابعہ کی شادی پے لطیف صاحب کے خاندان سے کوئی نہ آیا البتہ حمیدہ کے گھر سے سب لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ رابعہ کی رخصتی کے وقت حمیدہ نے کہا، کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ جائے گی۔طلال اور اس کے گھر والوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض لیکن اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ ویسے بھی کل آپ لوگ ولیمے پے آہی رہے ہیں۔ حمیدہ کو ایسا لگا جیسے انکار کردیا گیا ہو۔لطیف صاحب نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور حمیدہ کو کہا کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں کل ہم جا، ہی رہے ہیں۔ پھر بھی تم اگر جانے پے مُصر ہو تو جاسکتی ہو۔حمیدہ کو بہت غصہ آیا لیکن وہ موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ غصے اور دکھ کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس نے بیٹی کو رخصت کیا۔
***************
حمیدہ نے اپنی بیٹی کی شادی تو کردی تھی لیکن اسے اپنا داماد طلال بڑا پسند تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح وہ اس کے جام میں پھنس جائے۔طلال گو کہ جوان لڑکا تھا، پڑھا لکھا تھا لیکن وہ مذہب کی طرف بہت مائل تھا۔ وہ تمام کاموں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد بہت زیادہ پڑھائی کیا کرتا۔ قرآن کی تلاوت، نماز، ورد۔اس لیئے اس کے چہرے پے نور برستا تھا۔وہ یہ جان گیا تھا کہ اس کی ساس کس قماش کی عورت ہے اور اس کی بیوی رابعہ ، اپنی ماں کے برعکس ہے۔ اس پے ماں کا ذرا سا بھی پَر تو نہیں پڑا۔ اس نے رابعہ کو بتایا کہ تمہاری ماں کالے جادو کے زور سے لوگوں کو قابو کرتی ہے۔ اس لیئے اس کے تمام کالے کارناموں پے پردہ پڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکے گا۔ میں کوشش کرونگا کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گو کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ اس نے رابعہ کو یہ بھی بتایا کہ ناری علم کا توڑ نوری علم سے ہوتا ہے۔ ناری علم کا اثر مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا لیکن نوری علم کے زور سے انسان ناری علم کی آفات سے بچا رہتا ہے۔
***************
رابعہ جب طلال کے ساتھ ماں کے گھر پہنچی تو گھر پے تمام لوگ موجود تھے۔عائشہ، فاطمہ، حمیدہ اور لطیف صاحب ۔رابعہ تو عائشہ، اور فاطمہ کو ساتھ لے کر بازار چلی گئی اور لطیف صاحب بھی کسی کام کے سلسلے میں باہر چلے گئے۔ اب حمیدہ کے لیئے میدان صاف تھا ۔طلال اپنی ساس کی دل کی کیفیت جانتا تھا۔ حمیدہ نے طلال کے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ طلال ،خماری کی حالت میں تھوڑانرم پڑ جائے گا۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا داماد مذہب کی طرف بہت زیادہ مائل ہے لیکن حمیدہ کی جنسی شہوت نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کردیں۔آخرکار حمیدہ نے اپنا وار کر ہی ڈالا۔ جیسے ہی حمیدہ کے ہاتھ طلال کے جسم پے رینگنے، طلال بہت تیزی سے اٹھا اور اس نے زناٹے دار تھپڑ اپنی ساس کے منہ پے مارا۔وہ تو اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھی۔ زبان گُنگ ہوگئی۔ جیسے ہی تھپڑ کی آواز آئی،
دوسرے کمرے سے رابعہ، عائشہ، اور فاطمہ نکلیں اور اسی لمحے لطیف صاحب بھی وارد ہوئے۔ سب نے حمیدہ کو بڑی حقارت بھری نظروں سے دیکھا۔ لطیف صاحب کہنے اب میں اس عورت کو نہیں رکھوں گا۔ انہوں نے اسے وہیں کھڑے کھڑے طلاق دے دی۔حمیدہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوجائے گا۔ اس نے لطیف صاحب کے پاؤں پکڑ لیئے لیکن اب تو طلاق ہوچکی تھی۔ طلال نے گرج دار آواز میں کہا، ’’یہ ساری غلطی آپ کی ہے انکل۔ یہ عورت جو آپ کے سامنے کھڑی ہے ،جب ماں باپ کے گھر سے آئی تھی تو آپ نے بہت زیادہ نرمی اختیار کی ۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ دیتے تو آج حالات اتنے خراب نہہوتے۔ اس عورت نے رود کی زندگی تباہ کرنے کی کوشش کی۔ پھر اپنے سسر کو بدنام کرکے گھر سے نکالا۔ اس کا اگلہ شکار میں تھا۔ اگر میں اسے تھپڑ رسید نہ کرتا تو اب تک حالات ویسے ہی رہتے۔ اس طرح کی عورت کے سامنے اپنے نفس پے قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حمیدہ گم سم ، گونگی بنی طلال کی باتیں سن رہی تھی۔ طلال نے مزید کہا، جب میں پہلی دفعہ اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ کے گھر آیا تھا تو میں اسی وقت ہی بھانپ گیا تھا۔ لطیف صاحب نے حمیدہ کو کہا اب کیا چاہتی ہو۔ اپنے ماں باپ کے گھر چلتی بنو۔ اس نے کہا مجھے آپ ان کے گھر چھوڑ آئیں۔ لطیف صاحب نے کہا ، اب میں تمہارے لیئے نامحرم ہوں۔ حمیدہ اپنے کمرے میں گئی ، بیگ میں چند چیزیں رکھیں۔اپنی بیٹیوں کو پیار کرنے کے لیئے آگے بڑھی لیکن انہوں نے پیار نہ کرنے دیا۔ وہ روتی روتی باہر نکل گئی۔ اسے یہی امید تھی کہ لطیف صاحب اسے واپس بلالیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ سیدھی گجروں کے گھر گئی۔ اس نے گجروں کے سب سے چھوٹے بیٹے کو اپنی داستان سنائی اور اسے کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ رکھ لے۔ اس نے صاف انکار کردیا۔ پھر اس سے درخواست کی کہ مجھے میری ماں کے گھر چھوڑ آؤ۔ اس نے کہا، ہاں یہ میں کرسکتا ہوں۔ ا س نے موٹرسائیکل سٹار ٹ کی اور یہ لوگ جی ٹی روڈ پے آگئے۔ اچانک موٹر سائیکل تھوڑا سا ڈول گیا کیونکہ وہ لڑکا موٹرسائیکل بڑی تیز چلا رہا تھا۔ موٹر سائیکل کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ گجروں کا لڑکا تو
زخموں کی تاب نہ لاکر اسی وقت اللہ کو پیارا ہو گیا۔ لیکن حمیدہ کا منہ بری طرح زخمی ہوا۔ اس کا چہرہ اس بری طرح مسخ ہوچکا تھاکہ پہچانا نہیں جارہا تھا۔ تھوڑی دوڑدھوپ کے بعد اس کے گھر والوں کو خبردی گئی۔ لطیف صاحب تو اسے طلاق دے چکے تھے لیکن انسانی ہمدردی کے تحت چلے آئے۔ رابعہ، عائشہ ، فاطمہ اور طلال بھی موجود تھے۔ حمیدہ کے ماں باپ ، بہنیں اور بھائی بھی موجود تھے۔ جب لطیف صاحب نے تمام صورت حال ان کو سمجھائی تو انہوں نے کہا ہم اسے گھر لے چلتے ہیں۔ طلال نے کہا، ان کے علاج کا تمام خرچ میں اٹھاؤں گا اور یہ میرے ساتھ گھر جائیں گی۔ بڑی مشکل سے حمیدہ کے ماں باپ مان گئے۔
**************
لطیف صاحب نے اپنی سبزی کی دوکان بند کردی اور اپنے داماد کے ساتھ کام شروع کردیا۔ بی اے پاس تھے۔وہ یہ بات بھول ہی گئے تھے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں۔ خیر اب حالات اچھے ہونے لگے تھے۔ حمیدہ کا چہرہ اس بری طرح مسخ تھا کہ وہ منہ پے کپڑا لپیٹ کے باہر نکلا کرتی۔ اُسے اپنی شکل سے نفرت ہوچکی تھی۔ آہستہ آہستہ حمیدہ کو دورے پڑنے لگے۔ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ وہ کئی دفعہ گھر سے بھاگ جاتی۔ کبھی کسی چوک میں کپڑے اتار کے کھڑی ہوجاتی تو کبھی کس چوک میں۔ جب لوگ اسے چادر میں لپیٹ کے ایک طرف کرنے کی کوشش کرتے تو کہتی ، ’’بڑا مزہ آرہا تھا۔ میرے جسم کو ہاتھ لگاؤ نا۔ میری شکل مت دیکھو۔میرا جسم ویسا ہی خوبصورت ہے‘‘۔ لوگ اسے پاگل سمجھ کے چھوڑ دیتے۔
آپ کا کبھی مری روڈ سے گزر ہو تو آپ دیکھیں گے، کمیٹی چوک سے ذرا سا آگے فریسکو سویٹ ہے۔ اس کے بالکل سامنے آپ کو ایک بالکل برہنہ عورت نظر آئے گی۔اس کے بالوں میں جوئیں پڑی ہوئی ہیں سارے جسم پے خارش کرتی رہتی ہے۔جسم کو ننگا رکھتی ہے۔ لیکن کوئی نا کوئی اس کے
جسم کو ڈھانپ دیتا ہے جو بھی اس کے پاس سے گزرتا ہے ۔ کہتی ہے، ’’آؤ نا میرے پاس، بڑا مزہ آئے گا۔آؤ نا میرے پاس بڑا مزہ آئے گا‘‘۔
SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)
05/10/2006 AREZZO

No comments:

Post a Comment