Sunday, June 16, 2013

سائیں انٹرنیٹ، سائیں انٹر نیٹ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG



سائیں انٹرنیٹ

آدم اور داؤد تقریباً دو سال بعد ملے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں بعد ملے ہوں۔داؤد بڑے ٹھاٹھ کے ساتھ LA FAYETTE (لا فائیت، پیرس کا ایک مصروف ترین علاقہ) کے بالکل قریب ایک LUXURIOUS FLAT (سامانِ عیش و عشرت سے آراستہ فلیٹ یا مکان) میں رہ رہا تھا۔ داؤد کے ساتھ اس کی فرنچ معشوقہ JOSEPHINE (جوزفین) بھی تھی۔ داؤد کے پاس دنیا کی ہر چیز تھی۔ گاڑی، پیسہ،اپنا کاروبار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے ببلی کو حاصل کرلیا تھا۔ اس نے انوار کیفے پے بیٹھ کر جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوچکا تھا۔ لیکن مزید دولت کمانے کی خواہش اب بھی تھی۔ قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ داؤد نے پیسے دیکر پیپر میرج کی تھی۔ اب وہ جس فرنچ لڑکی سے چاہتا دوستی کرلیتا۔ لیکن یہ سب ہونے کے باوجود ، داؤد کی زندگی میں سکون نہیں تھا۔ وہ رات کو سو نہ سکتا۔ اسے پرسکون نیند کے لیئے ڈرگز، یعنی نشہ آور اشیاء کا سہارالینا پڑتا۔ اس کے علاوہ کوکین کا تو وہ مکمل طور پے عادی ہوچکا تھا۔ بقول داؤد کے انسان کو نشہ بھی اپنی اوقات کے مطابق کرنا چاہیئے اور اسکے نزدیک کوکین امیروں کا نشہ تھا۔
اس کے برعکس آدم اتنے حادثات سے گزرنے کے باوجود بھی پرسکون نیند سے لطف اندوز ہوتا۔ لیکن اب آدم اپنی پرسکون نیند کھونا چاہتا تھا۔ لوگوں کو دھوکا دیناچاہتا تھا۔ خود کو دھوکا دینا چاہتا تھا۔
آدم نے داؤد کو اپنی مکمل کہانی سنائی۔جو جو اس کے ساتھ بیت چکی تھی۔ اس نے آخر میں پاسپورٹ والی بات بتائی تو داؤد نے پوچھا، ’’اب کیا ارادہ ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’سب سے پہلے کاغذات بناؤ ں گا۔اس کے لیئے بھلے مجھے سیاسی پناہ کی درخواست ہی کیوں نہ دینی پڑے یا پیپر میرج کرنی پڑے‘‘۔دادؤ نے کہا،’’لیکن تم تو ان تمام چیزوں کے خلاف تھے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اب نہیں ہوں۔میں اب پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا‘‘۔ داؤد نے مزید کریدا، ’’کیوں‘‘؟ آدم نے کہا، ’’یہ مجھے نہیں پتا لیکن میرا دل بجھ سا گیا ہے‘‘۔ داؤد نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ میں ٹاؤن ہال جاکر پتا کروں گا۔ اس پاسپورٹ پے تمھیں پانچ سال کا CARTE SEJOUR (کارخت سجوغ، یعنی رہنے کا اجازت نامہ) مل جائے گا۔ میری کمپنی کے تم ڈائیرکٹر بن جانا‘‘۔ آدم کو ان تمام باتوں سے سخت نفرت تھی لیکن اب وہ خود چاہتا تھا کہ کسی بھی طریقے سے کم وقت میں بہت سا پیسہ کمایا جائے۔
آدم نے حقیقت پسندانہ انداز میں کہا، ’’تنخواہ وغیرہ کا کیا حساب کتاب ہوگا‘‘۔ داؤد نے دوسرا ترپ کا پتا پھینکا، ’’ارے یار تم ڈائیرکٹر بن جاؤ گے۔سب حساب کتاب تم دیکھنا۔منافع آدھا آدھا کرلیں گے‘‘۔آدم نے متجسس ہوکر پوچھا، ’’میں کچھ سمجھا نہیں۔کیا مطلب منافع آدھا آدھاکرلیں گے‘‘۔داؤد نے کہا، ’’میں تمھیں سمجھاتا ہوں۔میں اور تم اکاؤنٹنٹ کے پاس جائیں گے۔ وہ میرا اچھا دوست ہے۔ وہ یہ پاسپورٹ اچھی طرح دیکھے گا۔ اگر اس کے معیار کے مطابق ہوا تو ٹھیک ہے۔ پھر میں کمپنی تمھارے نام کر دوں گا۔ اس دوران ، میں ،میرا اکاؤنٹنٹ اور بینک منیجر جو کہ میرا دوست ہے۔مل کر کمپنی کو اس طریقے سے دیوالیہ ظاہر کریں گے۔ جس سے ہمیں کروڑوں کا فائدہ ہوگا۔ جو بھی پیسہ ملے گا ہم چاروں میں برابر تقسیم ہوگا۔ سارا کچھ تم پر منحصر ہے۔ اگر تمھیں منظور ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر تم نہ چاہو تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’مجھے منظور ہے‘‘۔ دادؤ نے خوشی سے کہا،کیوں کہ اس کا تیر نشانے پے بیٹھا تھا، ’’تو طے ہوگیا۔کل ہم اکاؤنٹنٹ کے پاس چلیں گے‘‘۔ آدم کے ضمیر نے پھر آواز دی، ’’ویسے کچھ بھی کہو داؤد یہ پیسہ ہوگا حرام کا‘‘۔داؤد نے کہا، ’’بالکل نہیں۔ یہ ہماری عقل کا کمال ہے۔ یہ جو پیرس میں دیکھتے ہونا۔آئے دن نئے نئے ریستوران کھلتے ہیں۔دوسال بعد بند ہوجاتے ہیں اور نئے ناموں کے ساتھ کھل جاتے ہیں۔ یہ سب ایسے ہی کرتے ہیں۔ریستورانوں والے تو بدنام ہیں بڑی بڑی کمپنیوں والے بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ہم لوگ اس کام میں نئے ہیں۔یہودی یہ کام ہم سے بہت پہلے کرچکے ہیں۔ وہ بہت بڑے پیمانے پر یہ کام کرتے ہیں۔آدم تم تو پڑھے لکھے ہو۔ جانتے ہو کہ بینکوں میں عوام کا پیسہ ہوتا ہے۔ اگر بینک میں ڈاکہ پڑجائے تو بینک یہ نہیں کہتا کہ وہ عوام کا پیسہ نہیں دے گا۔میں پاکستان کی بات نہیں کرتا لیکن یہاں کے بینکوں کی انشورنس ہوئی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پے ہم بینک سے قرضہ لینے کے بعد کمپنی کو دیوالیہ ظاہر کردہتے ہیں اور کسی رسید سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم فائدے میں جارہے ہیں۔ بلکہ نقصان ہی نقصان ظاہر کرتے ہیں۔بعد میں وہ ریستوران ، مکان یا کمپنی کی نیلامی کا پروانہ جاری کرتے ہیں۔انھیں وہاں دیوار و در کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آپ سارا قرضہ کسی اور کام میں استعمال کردیتے ہیں۔ اور حفظِ ماتقدم ساری رقم کسی اور کے
اکاؤنٹ میں منتقل کردیتے ہیں۔ بینک کے پیسے کی چونکہ انشورنس ہوئی ہوتی ہے۔اس لیئے انھیں انشورنس کمپنی نقصان سے زیادہ رقم ادا کردیتی ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اور پیسے سے پیسہ بنتا رہتا ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور چھوٹے پیمانے پر بھی۔ آپ کریڈٹ کارڈوں کاکام بھی شروع کر سکتے ہیں۔ویسے میرا ارادہ prepaid phone card (پری پیڈ فون کارڈ، یعنی جن کی قیمت ادا کردی جاتی ہے اور آپ ان پے دیئے گئے پن نمبر کو ملا کر اپنا مطلوبہ نمبر ملا سکتے ہیں) شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ تمھارا کیا خیال ہے‘‘۔ آدم، داؤد کی باتیں سن کر دنگ رہ گیا۔ دوسال میں داؤد اتنا ذہین اور عقل مند ہوگیا ہے۔پورا معاشیات دان بن گیا ہے۔
آدم نے داؤد کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے تمھارا آئیڈیا پسند ہے‘‘۔داؤد نے آدم سے کہا، ’’تم ضمیر کی پرواہ مت کرو۔ سب کرتے ہیں اور تم نے دیکھا پیسے میں کتنی طاقت ہے۔ میں جب پساج میں داخل ہوا تو کتنے لوگ سلام کرنے کے خواہش مند تھے۔ میں اسی پساج میں برتن دھویا کرتا تھا۔ تم خود سوچو،ہمارے ساتھ کیا ہوا۔پاکستان سے لے کر فرانس تک ہم دونوں لوگوں کو پیسے ہی دیتے آئے ہیں۔ہر ایجنٹ کو ڈنکی کی قیمت ادا کرتے آئے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا۔تمھیں پاکستان ڈیپورٹ ہونا پڑا۔بٹ صاحب میری محنت سے کمائی ہوئی رقم سے عیاشی کرتے رہے۔ میں نے بھی وہ کی ہے کہ بٹ صاحب ساری زندگی یاد کریں گے‘‘۔ آدم نے داؤد کی تائید کرتے ہوئے کہا، ’’تم درست کہتے ہو۔پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ انگلستان میں OXFAM (اوکس فیم) کا مالک کروڑ پتی بلکہ عرب پتی آدمی ہے۔ اور BIG ISSUES (بگ اشوز) کا مالک بھی بہت امیر آدمی ہے۔ حالانکہ OXFAM (اوکس فیم) غریبوں میں کپڑے اور جوتے سستے داموں بیچنے کا ادارہ ہے۔ اور BIG ISSUES (بگ اشوز) بے روزگار اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا ہفتہ وار رسالہ ہے۔ ان کے مالکان کو غربت کا پتا ہی
نہیں۔ بس انھوں نے دماغ کا استعمال کیا اور آج دولت سے کھیل رہے ہیں‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’شکر ہے تمہیں میری باتیں سمجھ آنی شروع ہوگئی ہیں۔ اس دنیا میں ہر شخص ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔اسے استعمال کرتا ہے۔ کئی دفعہ ایک دوسرے کو استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ اور دونوں اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اچھا آدم اب تم بھی آرام کرو اور میں بھی۔ JOSEPHINE (جوزفین ) کمرے میں میرا انتظار کررہی ہوگی۔BONNE NUIT (بون نووئی،یعنی رات کا سلام)‘‘۔ آدم کو بڑی حیرت ہوئی ۔کہاں تو داؤد ببلی کی خوبصورتی کے گن گایا کرتا تھا۔ اب JOSEPHINE (جوزفین) کی بانہوں میں آرام و سکون تلاش کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ،حاصل کرنے کی حد تک عشق ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داؤد اور آدم اکاؤنٹنٹ سے فارغ ہوکر OPERA (اوپیرا ) کی طرف آرہے تھے۔ آدم نے کہا، ’’یار مجھے RUE DI RIVOLI (غیو دی غیوولی) اتار دو۔ کسی سے ملنا ہے۔ ‘‘۔ داؤد نے گاڑی اس طرف موڑ دی اور RUE DI RIVOLI (غیو دی غیوولی) کے برآمدوں کے پاس آدم کو اتار کے چلا گیا۔
آدم برآمدوں میں چلتے چلتے دوکانوں کی تختیاں پڑھ رہا تھا۔ اس کی مطلوبہ دوکان مل گئی۔ آرین ز،جہاں اس نے جعلی تصاویر بیچی تھیں۔ آنا نے کاؤنٹر پے رکھی ٹی وی سکرین پے آدم کو دوکان کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیاتھا۔ وہ تیزی سے آئی اور آدم سے لپٹ گئی۔ آدم کو چومنے لگی اور ساتھ ساتھ کہہ رہی تھی، ’’کہاں چلے گئے تھے۔میں نے اتنے فون کیئے۔ اس نمبر پے کوئی اور بولتا تھا۔ جب بھی فون کرتی کہتا، یہاں اس نام کا کوئی آدمی نہیں رہتا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’میرے ساتھ چلو۔OPERA (اوپیرا) میں میرے دوست کا ریستوران ہے۔ وہاں کھانا بھی کھائیں گے اور تمہیں کہانی بھی سناؤں گا‘‘۔ آنا ملازمین کو تفصیلات سمجھا کر آدم کے ساتھ چل دی۔گاڑی میں اس نے نصرت فتح علی خان کی غزلوں کی سی ڈی چلا دی،
’’تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی
محبت کی راہوں میں آکر تو دیکھو‘‘
آدم نے پوچھا، ’’آنا تمہیں پتا ہے یہ کون ہے‘‘۔ آنا نے کہا، ’’ہاں جانتی ہوں،پاکستانی ہے۔ چند سال ہوئے فوت ہوگیا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’تمہیں سمجھ آتی ہے یہ کیا کہتا ہے‘‘۔ آنا نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’بالکل نہیں۔ لیکن اس کا میوزک اور آواز مجھے بہت بھلی لگتی ہے‘‘۔
دونوں تھوڑی ہی دیر میں OPERA (اوپیرا ) کے علاقے میں موجود تھے۔ ۔ آنا نے گاڑی پارک کی اور آدم کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ داؤد نے آدم کو محترمہ کے ساتھ آتے دیکھا تو بڑا حیران ہوا۔وہ سوچنے لگا اتنی جلدی اس نے پیپر میرج کے لیئے لڑکی بھی ڈھونڈ لی۔ آدم نے ریستوران میں داخل ہوتے ہی کہہ دیا،’’یہ میری دوست ہے۔ ہم دونوں اکٹھے کھانا کھانا چاہتے ہیں‘‘۔ دؤاد نے دونوں کو بہترین میز پر بٹھایااور سارا کھانا اپنے ہاتھوں سے چنا، کیونکہ آدم نے اکاؤنٹنٹ کے ہاں تمام ضروری کاغذات پے دستخط کردیئے تھے۔ آدم نے کھانا کھانے کے دوران آنا کو اپنی تمام کہانی سنائی۔ آنا کہنے لگی، ’’بیوقوف آدمی،تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔میں تم سے شادی کر لیتی۔کم از کم تمہارے کاغذ تو بن جاتے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ان دنوں میں اپنے اصولوں کا غلام تھا‘‘۔ آنا نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے ، اصول ہونے چاہیئیں لیکن انسان کی زندگی میں تھوڑی سی لچک بھی ہونی چاہیئے۔کبھی کبھی مسئلہ زندگی اور موت کا بن جاتا ہے۔ اب دیکھو نا میرے والدین اپنی یہودی اقدار کے پیچھے بھاگتے رہے۔ اور میں ان کے اصولوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں۔تکلیف تو میں نے اٹھائی ہے۔ دل تو میرا ٹوٹاہے۔میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں۔ بس کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے سچا پیار، وہ میں کب کا کھو چکی ہوں‘‘۔آدم نے کہا، ’’ایساتو اب بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ آنا متجسس ہوکر پوچھا، ’’کیا؟ ۔۔۔۔اب بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’تمھاری اور میری شادی، پیپر میرج‘‘۔ آنا نے کہا، ’’اب دیر ہوچکی ہے۔میں نے مراکش کے ایک FOTO MODEL (فوٹو ماڈل) سے شادی کرلی ہے۔وہ YVES SAINT LAURENT YSL (ئیو ساں لوغاں، وائے، ایس ایل) کے لیئے ماڈلنگ کرتا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تمہاری مدد نہیں کروں گی۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد کروں گی‘‘۔ آدم کو آنا پے اعتماد سا ہوچلا تھا۔ اس نے دیوالیہ ظاہر کرنے کا پلان اور کمپنی اپنے نام کروانے والی بات بھی آنا کو بتا دی۔ آنا کو جھٹکا سا لگا، اس نے جلدی جلدی بل ادا کیا اور آدم کو ساتھ چلنے کو کہاکیونکہ وہ آدم کو سمجھانا چاہتی تھی اور ریستوران اس بات کے لیئے مناسب جگہ نہیں تھی۔ داؤد دور کھڑایہی سوچ رہا تھا کہ کھانا کھا چکے ہیں اب اسے گھر لے جائے گی اور۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آد م کو آنا نے مکمل طور پے سمجھا دیا تھا۔ کہ جو کام وہ کرنے جارہا ہے اس میں نقصا ن بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی ساری زندگی جیل میں گزارنی پڑے۔ اس کے کاغذات بھی جعلی ہیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ فائدہ کوئی اور اٹھائے اور آدم ساری زندگی اقساطبیباک کرتا رہے۔
آدم عجیب شش وپنج میں پڑ گیااب وہ کاغذات پے دستخط بھی کرچکا تھا۔ ۔آدم نے زندگی کا سب سے بڑا خطرہ مول لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لیئے خطرہ ہی تو تھا۔ جوئے کی طرح آر یاپار۔ دو ماہ تک کاغذی کاروائی چلتی رہی۔ آدم رنگ رنگ کے کاغذات پے دستخط کرتا رہا۔ جب قرضہ منظور ہوکے آدم کے اکاؤنٹ میں آگیا۔انھوں نے تمام رقم ایک اور بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردی۔ آدم نے مکمل طور پے اپنے ہاتھ کاٹ کر داؤد کے ہاتھ میں دے دیئے۔ اس کا کروڑ پتی بننے کا خواب دل ہی میں رہ گیا۔ جس بات کا آنا کوخدشہ ظاہر کیا تھا،وہی ہوا۔ ساری رقم اکاؤنٹنٹ، بینک افسر اور داؤد کے ہاتھ لگی اور آدم ہاتھ ملتا رہ گیا۔
جیسے ہی یہ سلسلہ ختم ہواداؤد کے تیور بدل گئے۔وہ آدم کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ پیسہ سارا اکاؤنٹنٹ اور بینک آفیسر کے ہاتھ میں گیا ہے۔ اس کا نقصان ہوا ہے۔ اس کی جمع پونجی ، اس کا OPERA (اوپیرا) والا ریستوران بھی نیلام ہوجائے گا۔ آدم سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کام کے دفتر جاکر سب کے SHOMAGE (شوماج، یعنی سرکاری امداد، کام نہ ہونے کی صورت میںیا کام چھوٹ جانے کی صورت میں) کے کاغذات پے خود دستخط کرکے آیا۔ حالانکہ وہ جس پاسپورٹ کے ساتھ فرانس رہ رہا تھا۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ یہ سارا کاغذی کاروائی کا کمال تھا۔ جو اکاؤنٹنٹ اور بینک آفیسر نے مل کے کی تھی۔ داؤد نے آدم کو یہی بتایا کہ ملازمین کے تمام ٹیکس اور دیگر کاروباری ٹیکس اس نے کسی سے ادھار لے کر فرانسیسی سرکار کو ادا کیئے ہیں۔ آدم نے داؤد سے پوچھا، ’’اب کیا کرنا ہے‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’کرنا کیا ہے۔ تمہارا پیرس میں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔تم انگلینڈ چلے جاؤ۔ میں تمہاری اتنی مدد کرسکتا ہوں، تمہیں یورو سٹار کا ٹکٹ خرید کردے سکتا ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ٹھیک ہے آخری نیکی کر ڈالو‘‘۔ آدم کو اسیEURO TUNNEL (یورو ٹن نل) سے گزر کر جانا تھا جہاں سے وہ غیرقانونی طور پے سمگل ہوکر گیا تھا۔ کتنا مشکل سفر تھا۔ اب بھی یاد آتا تو جسم کانپ جاتا تھا۔ پکڑے جانے کا ڈر اب بھی تھا لیکن اْس سفر میں اور اِس سفر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ داؤد نے اپنے ماسٹر کارڈ سے آدم کی ٹکٹ ریزروکروائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم اپنا سامان لیئے GARE DU NORD (گاغ دو ناغد، یعنی شمالی ریلوے سٹیشن) پے بیٹھاتھا۔ یوروسٹار گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے وقفے سے جاتی تھی۔ سٹیشن پے کئی قسم کی ٹرینیں کھڑی تھیں۔ آدم نے بجلی کی سیڑھیوں پے اپنا سامان رکھا اور بیشمار مسافروں کے ساتھ وہ بھی یوروسٹار کی انتظار میں جا بیٹھا۔ رنگ رنگ کے مسافر تھے۔ سامنے سکرین پے آدم کی ٹرین کا نمبر آگیا۔ تمام مسافر امیگریشن کاؤنٹر کی طرف چل دیئے۔ آدم جانے کس سوچ میں گم تھا۔ امیگریشن آفیسر نے کچھ کہا۔ آدم کو اتنی سمجھ آئی۔ ’’پاسپورٹ‘‘۔آدم نے پاسپورٹ اور ٹکٹ امیگریشن آفیسر کو تھما دیا۔ اس نے اپنی تسلی کر کے آدم کو پاسپورٹ واپس کردیا۔ آدم اپنا سامان گھسیٹتا گھسیٹتا لاؤنج میں جا بیٹھا۔ نہ اس کا دل کتابوں کی دوکان پے جانے کو چاہ رہا تھا۔ نہ ہی SOUVENIRS (تحائف، سوونیئر) دیکھنے کو ۔ اور نہ ہی پرفیوموں کی دوکان پے رنگ رنگ کی بوتلیں دیکھنے کو چاہ رہا تھا۔ وہ تو اس طرح ٹوٹ چکا تھا۔جیسے اسے کسی نے ہزار منزلہ عمارت سے نیچے گرا دیا ہو۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ داؤد اس کے ساتھ اس طرح کا دھوکہ کرے گا۔ وہ جیسے جیسے سوچتا اس کا فشارِ خون بلند ہوتا جاتا۔ تمام مسافر قطار میں لگ گئے اور سیڑھیاں اتر کے نیچے کھڑی یوروسٹار کی طرف جانے لگے۔ آدم بھی بوجھل قدموں کے ساتھ قطار میں شامل ہوگیا۔ یوروسٹار کی میزبان خواتین(ہوسٹ سس) نے اسے بتایا کہ اس کا سیٹ نمبر ٹرین کے آخری ڈبے میں ہے۔ آدم نے نمبر پڑھا۔ وہ اپنا ڈبہ(بوگی) ڈھونڈتا ہوا اس کے پاس جا پہنچا۔ ٹرین میں سوار ہوتے ہی اس نے سامان والی جگہ اپنا سامان رکھا اور آکر اپنا سیٹ نمبر ڈھونڈنے لگا۔آدم کی سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی۔ وہ شیشے سے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔ ابھی ٹرین نے پلیٹ فارم نہیں چھوڑا تھا۔ اچانک اس کی نظر داؤد پر پڑی۔آدم کے دل میں خیال آیا۔ تو اس کا مطلب ہے داؤد کا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ صرف دولت کے لالچ نے اسے اندھا کردیا تھا۔ آدم کسی پر انگلی کیسے اٹھا سکتا تھا۔ وہ خود اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ یوروسٹار کے عملے نے ٹرین چلنے سے پہلے فرانسیسی اور انگریزی دونوں زبانوں میں اعلان کیا اور ٹرین چل پڑی ۔ شروع میں ٹرین کی رفتار آہستہ تھی۔ آدم کھڑکی سے باہرکے مناظر دیکھ سکتا تھا لیکن ٹرین کی رفتار اتنی تیز تھی کہ مناظر پہچانا مشکل ہوگئے تھے۔ ٹرین نے تین گھنٹے میں لندن کے ریلوے سٹیشن ،واٹر لو پہنچنا تھا۔ چونکہ انگلینڈ اور فرانس کے درمیان وقت کا فرق ہے۔ تقریباً ایک گھنٹہ فرانس آگے ہے۔ اس لیئے ایسا لگتا ہے کہ ٹرین دو گھنٹے میں پہنچتی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ آدم ابھی اسی ادھیڑ
بن میں تھا۔ ایک دفعہ پھر اعلان ہوا کہ ٹرین TUNNEL ( ٹن نل) میں داخل ہونے لگی ہے۔ ٹرین کو TUNNEL(ٹن نل) کے اندر بیس سے پچیس منٹ لگیں گے۔ یہ یادگار TUNNEL( ٹن نل) فرانس اور انگلینڈ کے باہمی اشتراک سے بنی ہے۔ اس کے بارے میں گفت و شنید تو کافی عرصے سے چل رہی تھی لیکن اس کا بھرپور کام FRANCOIS MITRAND (فغانسوا متغاں) کے دور
میں شروع ہوا۔ ۱۹۹۴ میں اس TUNNEL ( ٹن نل) کا افتتاح کیا گیا۔ اس TUNNEL (ٹن نل) نے کئی ملکوں کا فاصلہ کم کردیا۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مسافر گزرتے ہیں۔ یورپ کی ترقی اور تعمیر میں اس TUNNEL (ٹن نل) نے اہم کردار ادا کیاہے۔
جیسے ہی ٹرین TUNNEL(ٹن نل) سے نکلی۔چشمِ زدن میں منظر ہی بدل گیا۔ فرانس میں ٹرین کی رفتار بہت تیز تھی۔ انگلینڈ میں داخل ہوتے ہی اس کی رفتار کم ہوگئی۔ آدم ہاتھ میں کتاب اٹھائے اس طرح ظاہر کررہا تھا جیسے وہ کتاب پڑھ رہا ہو۔لیکن اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔
کیونکہ وہ اگر پکڑا گیا تو ایسا عین ممکن ہے کہ پیرس واپس بھیج دیا جائے۔ اگر واپس بھیج دیا گیا تو اس کے کارنامے کھل کر سامنے آجائیں گے۔ سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے سکتا تھا۔ اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ اس کا گلہ بالکل سوکھ چکا تھا۔ جیسے کئی دنوں کا پیاسا ہو۔لیکن اپنے سوکھے ہوئے ہونٹو ں کو زبان سے تر اس لیئے نہیں کررہا تھا کہ کسی کو شک نہ ہوجائے کہ آدم پریشان ہے۔ آس پاس کے مسافروں کے فرشتوں کو بھی نہیں خبر تھی کہ آدم پے کیا گزر رہی ہے۔ جس ڈبے (بوگی) میں آدم بیٹھا تھا اس کے آخری کونے سے امیگریشن آفیسر آتا دکھائی دیا۔ وہ باری باری سب کے کاغذات دیکھ رہا تھا۔ کوئی IDENTITY CARD (شناختی کارڈ) دکھا رہا تھا۔ کوئی پاسپورٹ اور جو یورپیئن یونین سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ EMBARCATION CARD (ایمبارکیشن کارڈ) اور اپنے ملک کا پاسپورٹ جس پے یا تو انگلینڈ کا ویزا یا LEAVE TO ENTER (لیو ٹو اینٹر، یعنی چھوڑ کر دوبارہ داخل ہونے کا اجازت نامہ)کی مہر لگی ہوئی تھی۔ کوئی نہ کوئی ایسی دستاویز تھی جس سے ظاہر ہو کہ وہ قانونی طور پے سفر کررہے ہیں۔ آدم ایک دم چونک گیا۔"PASSPORT PLEASE" (پاسپورٹ ، مہربانی فرما کر)۔امیگریشن افسر کو آدم نے بالکل اس طرح ظاہر کیاجیسے اس نے دیکھا ہی نہیں۔ اس کے ہاتھ میں پاسپورٹ تھما کر کتاب دیکھنے لگا۔ اگر امیگریشن آفیسر آدم کے دل کی دھڑکن سن لیتا جو ڈر اور خوف کے مارے تیزی سے چل رہی تھی۔ تو شاید آدم کو دھر لیتا۔ لیکن آدم کے چہرے سے بالکل پتا نہیں چلتا تھا کیونکہ وہ خود کو کتاب میں محو کیئے ہوئے تھا۔ افسر نے آدم کوشکریئے کے ساتھ پاسپورٹ واپس کردیا۔
آدم کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔اب اس نے کتاب بند کی اور اپنی منزل کا انتظار کرنے لگا۔ ٹرین کھلے علاقے سے نکل کر آبادی میں داخل ہوگئی۔ آہستہ آہستہ منظر بدلنے لگا۔ گھروں کے بعد عمارات ، گلیاں اور بازار نظر آنے لگے۔ اور ٹرین WATERLOO (واٹرلو) ریلوے سٹیشن پر اپنے پلیٹ فارم پے جا کھڑی ہوئی۔ تمام مسافروں نے جلدی جلدی اترنا شروع کیا۔ آدم کو کوئی جلدی نہ تھی۔ آگے ایک اور امیگریشن کاؤنٹرتھا۔ دو مختلف قطاروں میں لوگ چلے جارہے تھے۔ ایک یورپیئن یونین والوں کی قطار تھی۔ اور دوسری نان یوورپیئین یونین اور دیگر ممالک کے لوگوں قطار تھی۔ آدم کو اب تک کافی ٹریننگ ہوچکی تھی۔ وہ مسافروں کو دیکھ کر بالکل انہیں کی طرح کرتا۔ اس دفعہ بھی اس نے پاسپورٹ کا وہ صفحہ کھول کر ہاتھ میں تھام لیا،جہاں تصویر لگی ہوئی تھی۔ اس نے کاؤنٹرپے بیٹھے ہوئے امیگریشن آفیسر کو دور ہی سے وہ تصویر والا صفحہ دکھایا اور آگے چل دیا۔ یہ سب کچھ اتنا آسان ہوگا وہ کبھی سو چ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے ٹرالی پے اپنا سامان رکھا اور ٹرالی دھکیلتا ہوا باہر آگیا، اسے عدم ؔ صاحب کا شعر یاد آگیا،
’’محفل سے مجھے نکال کر پچھتا رہے ہوں آپ
یہ سوچ کر محفل میں پھر آگیا ہوں میں‘‘
عبدل حمید عدمؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالکلام باجوہ، رضوان شیخ،ندیم کاظمی اور واحد شیرازی۔سب آدم سے مل کر بہت خوش ہوئے۔کہنے لگے، ’’ہم نے تمہیں بہت یاد کیا۔ ہمارا دل کہتا تھا کہ تم سے ضرور ملاقات ہوگی‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’یار وہ عامر سہارنپوری نظر آرہا‘‘۔ کاظمی نے کہا، ’’چغتائی صاحب اس کی شادی ہوگئی ہے۔ آج کل وہ تَھلے لگا ہوا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کیامطلب ، تَھلے لگا ہوا ہے۔ یعنی کے تَھلے لگا ہوا ہے۔ مطلب نیچے ،یعنی بیوی نے دبا کے رکھا ہوا ہے۔لیکن شادی ہوئی کس کے ساتھ‘‘۔ باجوہ نے کہا، ’’وہیں ،جہاں تم اور وہ رشتہ دیکھنے گئے تھے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’یار وہ تو بڑے عجیب لوگ تھے۔ عامر کا مزاج بھی بگڑ گیا تھا‘‘۔ شیرازی نے کہا، ’’اب تو بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ رات کو کیبنگ (انگلینڈ میں پرائیویٹ ٹیکسی چلانے والے کو منی کیب ڈرائیور کہتے ہیں اور ٹیکسی چلانے کو کیبنگ کہتے ہیں)کرتا ہے۔ صبح بیوی کو دفتر چھوڑ کے آتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیئے سوتا ہے۔ پھر گھر کی صفائی، برت دھونا، جھاڑو پوچا۔ جب تک LEAVE TO ENTER (رہنے کا مستقل اجازت نامہ) مہر نہیں لگتی۔اسے یہ سزا تو بھگتنی پڑے گی۔ indefinite stay (انڈیفینیٹ س ٹے) کے بعد ہوسکتا ہے پر پرزے نکالے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اچھا ہے۔سزا کے بعد بری ہوجائے گا۔پاکستان میں بہت برا حال ہے۔یہاں کی تکلیف قابلِ برداشت ہے۔وہاں کی نہیں۔ وہاں انسانوں کو جانچنے کا معیار پیسہ بن چکا ہے۔ میں لاکھوں کی بات کرتا تھا تو لوگ کروڑوں کی بات کرتے تھے‘‘۔ باجوہ نے کہا، ’’اب کیا سوچا ہے‘‘۔ آدم نے بڑے وثوق سے کہا، ’’اب تو سیاسی پناہ کی درخواست دوں گا۔اگر موقع ملا پیپر میرج تو کیا اصلی شادی بھی کر لوں گا۔ بھلے ہی مجھے تَھلے لگنا پڑے۔ مجھے تَھلے لگنا منطور ہے لیکن پاکستان واپس جانا منظور نہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر گھر کی صفائی کرنے سے اور کھانا بنانے سے ۔ میرا مستقبل تو بن جائے گا‘‘۔ باجوہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا، ’’اور تمھارے اصول ،ضمیر، آرٹ اور فلسفے کا کیا ہوا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اب سب کی موت واقع ہوچکی ہے۔اب پیسے کو اپنا مرکز مانتے ہوئے انگلینڈ میں قیام کرنے کا ارادہ ہے‘۔ باجوہ نے پوچھا، ’’آئے کیسے ہو‘‘؟ آدم نے باجوہ کا ہاتھ دباتے ہوئے آہستگی سے کہا، ’’بعد میں بتاؤں گا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو لندن میں دوبارہ کام مل گیا۔ اس نے شادی کے لیئے اخبار میں اشتہار بھی دے دیا۔ لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ نہ ہی پیپر میرج کی کوئی صورت نکلی۔ آدم کو باجوہ نے مشورہ دیا کہ ، ’’سیاسی پناہ کی درخواست دے دے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’وہ سیاسی پناہ کی درخواست دے تو دے لیکن اس کا انگلستان میں داخل ہونے کا کوئی ثبوت تو ہونا چاہیئے۔کیونکہ وہ یہاں سے ڈیپورٹ ہوچکا ہے۔ جیسے ہی شادی کی کوئی صورت بنے،وہ سیاسی پناہ کی درخواست دے دے گا۔ جس وقت اس کی درخواست دفتری مراحل سے گزر رہی ہوگی، وہ شادی کر لے گا۔اس طرح اسے کاغذات جمع کروانے اور وصول کرنے میں آسانی ہوگی‘‘۔ یہ باتیں صرف گفت و شنید تک ہی رہیں۔ایسا کچھ نہ ہوا۔ باجوہ جان چکا تھا کہ آدم کے پاس برٹش پاسپورٹ ہے۔ اس لیئے اس نے ،اسے مشورہ دیا کہ وہ یہاں لندن میں وقت برباد کرنے کے بجائیکینیڈا چلا جائے ۔ اگر وہ کینیڈا میں تین سال گزار دے تو وہاں کے قانون کے مطابق اسے کینیڈا کے کاغذات مل جائیں گے۔
آدم کی بھرپور کوشش تھی کہ کسی طرح بھی کاغذ بن جائیں۔ لندن میں کوئی صورت نہیں بن رہی تھی۔ اس نے آخر کار کینیڈا جانے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے سوچا پہلے وہ سٹیٹس(یعنی امریکہ) جائے گا اور وہاں سے بائی روڈ(براستہ سڑک) کینیڈا چلا جائے گا کیونکہ کینیڈین امیگریشن بہت سخت ہے۔ وہ جہاز میں،دورانِ سفر بھی کاغذات چیک کرتے ہیں۔بلکہ ہیتھرو ایئر پورٹ سے کینیڈا جانے والی پروازوں کے دوران کینیڈین امیگریشن کا عملہ موجود ہوتا ہے۔آدم کا خیال تھا کینیڈا پہنچتے ہی وہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دے گا۔ باجوہ کا دوست اس سے پہلے اسی طریقے سے کینیڈا جاچکا تھا۔ اس کے پاس بھی انگلینڈ کا جعلی پاسپورٹ تھا۔ یعنی تصویر تبدیل کیا ہوا۔ باجوہ نے اسے کہاتھا، تمہیں وہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی چند عمارات اپنی اونچائی ی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان میں نیویارک میں تعمیر کی گئی EMPIRE STATE BUILDING (ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ ) بھی ہے۔ جس کی اونچائی۴۴۳ میٹر ہے۔ اس کی ۱۰۲ منزلیں ہیں۔اس کے ایک طرف sixth avenue (سسکتھ ایوینیو) ہے اور دونوں اطراف میں 34th street (گلی نمبر چونتیس) اور 33 rd street (گلی نمبر تینتیس) ہیں۔ نیویارک کی دوسری مشہور چیز STATUE OF LIBERTY (سٹیچو آف لبرٹی، یعنی آزادی کا مجسمہ) ہے ۔ اس کا تخلیق کار فرانسیسی مجسمہ سازFREDERIC AUGUSTE BARHTOLDI (فغیدغک اوغست باغتولدی) تھا۔ BARTHOLDI (باغتولدی نے آزادی کے مجسمے کے لیئے جس عورت کا چہرہ موڈل کے لیئے استعمال کیا وہ BARTHOLDI (باغتولدی ) کی ماں تھی۔ دھات کا یہ مجسمہ ۲۱ سال میں تیار ہوا۔ اس کا افتتاح امریکہ کے صدر GROVER CLEVELAND (گروور کلیولینڈ) نے ۲۸ اکتوبر ۱۸۸۶ میں کیا۔ ۱۹۸۶ میں اس کی صد سالہ تقریبات منائی گئیں۔ یہ ۹۳ میٹر اونچا،آزادی کا مجسمہ آج امریکہ کا سرکاری نشان بن گیا ہے۔ اس مجسمے کے سر پے جو تاج ہے اس کے سات کنگرے ہیں۔ جو سات سمندروں اور سات برِاعظموں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لیکن پورے دنیا کے لوگ اس کا مطلب یہی لیتے ہیں کہ سات کے سات برِ اعظموں کے لوگ یہاں آکر رہ سکتے ہیں۔ خواہ وہ خشکی کے راستے سے آئیں، خواہ وہ بحری جہاز یا ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ۔ ان میں سے ایک کنگرے کا رخ آدم کی طرف تھا۔ جو اسے اپنی قسمت آزمانے کے لیئے امریکہ بلا رہا تھا۔
اس نے جب سے اے۔ بی۔سی۔ صاحب سے برٹش پاسپورٹ خریدا تھا اسے کامیابی ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آرہی تھی۔ روزانہ کئی پروازیں نیویارک کے لیئے جاتی ہیں۔ آدم نے بھی اپنا ٹکٹ ریزرو کروادیا۔ اسے کامیابی ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آرہی تھی۔ روزانہ کئی پروازیں نیویارک کے لیئے جاتی ہیں۔ آدم نے بھی اپنا ٹکٹ ریزرو کروایا۔ اسے J.F.K. (جے ایف کے) ایئر پورٹ پے اترنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم وقتِ مقررہ سے دو گھنٹے پہلے ہیتھرو ایئرپورٹ پے موجود تھا۔ اسے ابولکلام باجوہ، رضوان شیخ، ندیم کاظمی اور واحدشیرازی،سب ایئر پورٹ پے چھوڑنے آئے۔ آدم نے سب کو خدا حافظ کہا اور لاؤنج میں داخل ہوگیا۔
آدم امیگریشن سے لے کر جہاز میں بیٹھنے تک، تمام مراحل سے بخیرو عافیت گزر گیا۔ وہ اب تکبر کی حد تک خود اعتمادی کا شکار ہوچکا تھا۔ اسے اپنی منزل سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ اسے بالکل ایسا لگا جیسے اسے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ اپنے اس فیصلے کو اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ تصور کرنے لگا۔ دورانِ سفر وہ مختلف تخیلاتی پیکر تخلیق کرتا رہا۔ وہ ایسے کرے گایا ویسے کرے گا،۔ جیسے ہی جہاز نے J.F.K. (جے ایف کے) ایئر پورٹ کی زمین کو چھوا،آدم کو جیسے سکون مل گیا ہو۔اسے عجیب سا قرار محسوس ہونے لگا۔ وہ چاہتا تھا جتنی جلدی ہوسکے امیگریشن کے مرحلے سے گزر جائے تانکہ وہ ڈومیسٹک فلائٹ سے کینیڈا رفیع کے پاس پہنچ جائے۔ یہ بات اس کے ذہن سے بالکل نکل گئی کہ ایئر پورٹ پے جابجا کیمرے نصب ہیں۔ ایئر پورٹ کا عملہ آنے جانے والے مسافروں کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھ رہا ہے۔ تمام لوگ ایک ایک کرکے امیگریشن کے کاؤنٹر سے اپنا اپنا پاسپورٹ دکھا کر گزر رہے تھے۔ آدم کا پاسپورٹ دیکھتے ہی اسے علیحدہ کھڑے رہنے کو کہاگیا۔ آدم کو یقین ہوگیا کہ انہیں شک ہوگیا ہے کہ اس کا پاسپورٹ جعلی ہے۔ ۔ اس کو علیحدہ کمرے میں لے جایا گیا۔ اس کا سامان بھی منگوایا گیا۔ اس پر منشیات کی سمگلنگ کا شبہ کیا گیا۔ امیگریشن آفیسر نے کہا ، ہم نے تمھارا پاسپورٹ چیک کریں گے اگر تم بے قصور ہوئے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ آدم کے پاسپورٹ پے جو نام تھا اس کی وجہ سے انہیں شک ہوا تھا۔ کیونکہ ان کے کمپیوٹر میں اس پاسپورٹ کے تمام کوائف پہلے سے موجود تھے۔ جانچ پڑتال کرنے کے بعد پتا چلا کہ یہ پاسپورٹ آدم کا نہیں بلکہ اس کی تصویر بدل دی گئی ہے۔ کیونکہ ا س پاسپورٹ کا اصلی مالک پچھلے سال پاکستان سے ہیروئن سمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ سارا معاملہ ایئر پورٹ کی انتظامیہ کی سمجھ آگیا۔ کیونکہ یہ پہلا کیس نہیں تھا۔ آدم بہت زیادہ گھبرا گیا۔ اس نے خود اعتمادی کا دامن چھوڑ دیا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا اگر سچ سچ نہ بتایا تو منشیات سمگل کرنے کے جرم میں ساری زندگی جیل میں گزارنی پڑے گی اور اسے زیادہ ڈر پیرس والی بات کا تھاکہ اگر انھوں نے مزید کریدا اور تحقیق کی تو پیرس میں کیا ہوافراڈ بھی سامنے آجائے گا۔ اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ یہی سو چ رہا تھا ،زیادہ سے زیادہ انگلینڈ بیھج دیں گے۔ لیکن اس کا خیال غلط نکلا۔ انھوں نے اسے J.F.K. (جے ایف کے ) ایئر پورٹ سے دوبارہ پاکستان بیھج دیا۔ اب اسے لاہور ایئر پورٹ دیکھنا نصیب ہوا۔ جہاز سے اترتے ہی اسے حراست میں لے لیا گیا۔ جیسے وہ کوئی بہت بڑا مجرم ہو۔ آدم کے جانے کے بعد پاکستان میں ایک دفعہ پھر مارشل لاء نماں حکومت قائم ہوچکی تھی۔ تمام سرکاری اداروں میں فوج نے دخل درمعقولات شروع کردی تھیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ بلکہ جب سے پاکستان دنیا کے نقشے پے آیا تھا۔پچاس سال سے کچھ تھوڑا ہی زیادہ عرصہ گزرا ہوگا۔ تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جمہوریت سے زیادہ مارشل لاء دیکھنا نصیب ہوا ۔ اگر اسے اسلامی مارشل لاء پاکستان یا مارشل لاء پاکستان کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
تمام ایئر پورٹوں پے فوج کا عمل دخل پہلے بھی تھا۔ اب حکوت کی موجودگی میں آرمی کے میجر کی حیثیت ایئر پورٹ پر ایف آئی اے کے ڈائیرکٹر جنرل سے زیادہ تھی ۔ پہلے جو لوگ ڈیپورٹ ہو کر آتے یا جعلی پاسپورٹ کے چکر میں پکڑے جاتے ۔انہیں پیسے لے سے کر چھوڑ دیا جاتا لیکن اب انہیں جاسوس تصور کیا جاتا تھا۔ ایئر پورٹ کا عملہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکتا۔ لوگ بھاری رشوت دیکر
اپنی تبدیلی ایئر پورٹ پے کروایا کرتے تھے۔ اب سفارش کے ذریعے ایئر پورٹ سے اپنی تبدیلی کروالیتے۔
آدم پے جاسوسی کا الزام لگایا گیا ۔ اس کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کیئے گئے۔ وہ پاکستان میں کیا کرتا تھا۔ کہاں پڑھتا تھا۔ پہلی دفعہ کیسے ملک چھوڑا پھر انگلینڈ سے ڈیپورٹ کیا گیا۔ پھر جعلی پاسپورٹ پے امریکن ایئر پورٹ پے پکڑا گیا اور ڈیپورٹ کردیا گیا۔ آرمی والوں نے اس کے کھاتے میں نہ جانے کون کون سے کیس ڈال دیئے۔
آدم پے بہت زیادہ تشدد کیا گیا۔ لیکن اس نے نہ تو اے ۔بی۔سی۔صاحب کا نام بتایا نہ ہی کسی اور آدمی کا نام لیا۔ بے سود تھا۔ آدم کو جاسوس تو ٹھہرایا ہی گیا لیکن ساتھ ساتھ دہشت گرد ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔ آدم کی آنکھوں پے پٹی باندھ کر نہ جانے اسے کہاں لے آئے تھے۔ کال کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔ چار دیواری اور چھت ، یہی آدم کے دوست تھے۔
روز اس کے بالوں کو رسی سے باندھ کر چھت پے لگے پنکھے کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور تفتیش کی جاتی کہ بتاؤ تم کون ہو۔ کس کے لیئے کام کرتے ہو۔ روزانہ ایک آدمی آتااس کے منہ پے پانی کے چھینٹے مارتا۔ پھر بے شمار ٹھڈے مارے جاتے۔ پوچھا جاتا، ’’تم کون ہوجو نام بدل بدل کر مختلف ملکوں میں جاتے ہو‘‘۔ آدم کیا بتاتا، وہ تو صرف اپنا مستقبل سنوارنے پردیس گیا تھا۔ وہاں بھی کئی دفعہ پکڑا گیا۔ انھوں نے کبھی اتنا تشدد نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ان کا مجرم تھا۔ یہ لوگ اس کے اپنے تھے۔ ہم زبان ،ہم مذھب، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے تھے۔ نہ سونے دیتے،نہ ٹھیک سے کھانا دیتے۔ کبھی بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے۔ کبھی جسم کے مختلف حصوں سے بال نوچے جاتے۔انہیں شک تھا، کہ آدم کسی خطرناک دہشت گرد گروپ سے منسلک ہے۔ کیونکہ انھوں نے پتا لگایا تھا آدم کئی زبانیں جانتا ہے اور فلسفے کا طالب علم بھی رہا ہے۔ بے شمار معلومات رکھتا ہے۔ اس کے کمرے کی بتی رات کو جلا دی جاتی ۔اس لیئے نہیں کہ وہ کتابیں پڑھے،اس لیئے کہ وہ سو نہ سکے۔ یہاں رہتے رہتے آدم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ ایک دن ا س پے اتنا تشدد کیا گیا کہ آدم بیہوش ہوگیا۔ ایسا کئی دفعہ ہوا لیکن اب کے بار بات تھوڑی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے جانچ پڑتال کرنے کے بعد بتایا کہ اس کے دماغ کو گہرا صدمہ پہنچا ہے یا دورانِ تشدد کوئی ایسی چوٹ لگی ہے کہ یہ اپنی یادداشت کھو چکا ہے۔ اسے اب کچھ بھی یاد نہیں۔آدم کو ذہنی امراض کے ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں رہتے ہوئے اس کی صحت کافی بہتر ہوگئی۔ بظاہر بالکل ٹھیک لگتا لیکن کبھی کبھی دورہ پڑتا۔ سب کو کہتا میں آنا سے ملنے جا رہا ہوں۔EIFFEL TOWER (آئیفل ٹاور ) جو ریستوران ہے نا،JULES VERNES (یولز ویغن) وہاں میری دعوت ہے۔ تمہیں پتا ہے JULES VERNES (یولز ویغن) کون ہے۔ اس نے AROUND THE WORLD IN EIGHTY DAYS (دنیا کے گرد چکر اسی، ۸۰ دن میں)جیسا ناول لکھا ہے۔ اس نے اور بھی کئی مشہور ناول لکھے ہیں۔ تمہیں تپا ہے EIFFEL TOWER (آئیفل ٹاور ) کس نے بنایا ہے۔ GUSTAUVE EIFFEL (گستو آئیفل) نے۔ اس کے بعد میں PISA TOWER (پیسا ٹاور ) دیکھنے جاؤں گا۔ ہاگیہ صوفیہ بھی دیکھنا ہے۔ STATUE OF LIBERTY (آزادی کا مجسمہ) بھی دیکھنا ہے۔ تم سب جلتے ہو۔
آدم کے عزیز و اقارب کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جس پتے پر وہ رہ چکا تھا، وہاں اب کوئی اور لوگ رہتے تھے۔ نہ رتہ امرال سے پتا چلا،نہ ہی سرور روڈ والے گھر سے کچھ پتا چلا
ذہنی امراض کے ہسپتال میں آدم کو دس سال گزر چکے تھے۔لیکن وہ باتیں اسے دور کی کرتا ، جب وہ لاہور ایئر پورٹ پے پکڑا گیا تھا۔ جیسے اس کی سوئی اٹک گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہنی امراض کے ہسپتال میں ستر ۷۰سے اسی۸۰ فیصد لوگ ذہنی طور پے بالکل ٹھیک تھے۔ کچھ کا پْرسانِ حال ہی کوئی نہیں تھا۔ اور کچھ کو بچے اپنے والدین کے بڑھاپے تنگ آکر چھوڑ گئے تھے۔ اگر وہ انہیں OLD HOMES (اولڈ ہومز یعنی بوڑھوں کی نگہداشت کی جگہ)وہاں چھوڑ آئیں تو ان کی بدنامی ہوتی ہے۔ معاشرے میں ان کی ناک کٹ جاتی ہے۔ ایسے بھی بچے ہیں جو اپنے والدین سے بھیک منگواتے ہیں۔ اس ذہنی امراض کے ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق یہاں جتنے بھی مریض ہیں ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں لیکن اس کے باوجود کوئی مریض دوسرے مریض نقصان نہیں پہنچاتا۔ اگر کسی مریض کو ٹھیک ہونے کااجازت نامہ دیا جاتا تانکہ وہ دوبارہ نئی زندگی شروع کرسکے۔ یا جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا دوبارہ شروع کردیں۔ تو ان میں سے اکثر گھر جانے سے انکار کردیتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے۔ماں باپ مل کر اپنی اولاد کو پالتے ہیں اور سارے بچے مل کر بھی اپنے ماں باپ کو نہیں پال سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحم چاچا ذہنی طور پے بالکل ٹھیک تھے۔ کسی سرکاری ادارے میں کلرک بھرتی ہوئے تھے۔ بڑی چاپلوسیوں اور سفارشوں کے بعد سترھیوں گریڈ تک پہنچے تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی۔ انھوں نے خوب رشوت لی۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی۔ان کی دھوم دھام سے شادیاں کیں۔ جب ریٹائر ہوئے تو گھر پے ہی رہنے لگے۔ ان کی بہوؤں کو رحیم صاحب کا وجود برا لگنے لگا۔تمام زمین و جائیداد بچوں نے اپنے نام کروالی۔ اور ایک دن ان کے بچے انہیں ذہنی امراض کے ہسپتال چھوڑ گئے۔ جو ڈاکٹر یہاں کا انچارج تھا وہ رحیم چاچا کے ایک بیٹے کا جاننے والا تھا۔ ڈاکٹر کو رقم کی ضرورت تھی اور رحیم چاچا کے بچوں کو سکون کی ضرورت تھی۔ اس طرح کے کئی مریض تھے۔
آدم اور رحیم چاچا میں بڑی دوستی تھی۔ دونوں اکٹھے رہتے۔ آدم یہی تصور کرتا کہ وہ بہت جوان ہے اور رحیم چاچا بہت بوڑھے ہیں۔ لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔ آدم کے سارے بال سفید ہوچکے تھے۔ا س کی ذہنی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر بدخشانی نے کہا تھاایساہوسکتا ہے کہ آدم خان چغتائی کو ہسپتال سے فارغ کردیا جائے کیونکہ آرمی کی عدالت نے اسے سزا سنا کر بھیجا تھا۔ ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔اور اس کی مالی اعانت بھی بند کر دی ہے۔ نئی آنے والی حکومت نے اس پر لگائے گئے الزامات سے اسے بری کردیا ہے۔ ویسے بھی وہ سزا بھگت چکا تھا۔ دفعہ ۳۰۲ کی سزا پھانسی یا عمر قید ہوتی ہے۔ آدم کوئی قاتل تو تھا نہیں۔ اسے زیادہ سے زیادہ سزا ہونے بھی چاہیئے تھی تو چھ ماہ اور ضمانت بھی ہوسکتی تھی۔ بھلے کیس چلتا رہتا۔ لیکن دہشت گردی اور جاسوسی کے الزام میں اسے کال کوٹھڑی میں وقت گزارنا پڑا۔
آخرکار ایک دن ڈاکٹر بد خشانی نے آدم کو ذہنی حالت ٹھیک ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ کچھ رقم بھی۔ ذہنی امراض کے اس ادارے کے تمام لوگوں کو بڑادکھ ہوا۔ لیکن وہ کیا کرتے۔آدم اب قانوناً یہاں رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ نہ ہی ہسپتال والے اسے یہاں رہنے کی اجازت دے سکتے تھے۔ حالانکہ کتنے ہی مریض انھوں نے رشوت لے کر ہسپتال میں بھرتی کر لیئے تھے۔ جو نہ تو بیمار تھے نہ ہی ذہنی مریض تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم نے راولپنڈی پہنچتے ہی گھر کی راہ لی۔دروازے پے دستک دی تو اندر سے چوڑے چکلے سینے والا آدمی نکلا،نکلتے ہی کہنے لگا، ’’کس سے ملنا ہے۔ روبی بی بی صبح مریضوں کو نہیں دیکھتیں‘‘۔ آدم بات کو سمجھ نہ پایا۔ ویسے بھی آدم شکل سے بہت بوڑھا لگتا تھا۔ اس لیئے اْس آدمی نے دروازہ بند کردیا تھا۔ وہ محلے کے کریانہ سٹور پے گیا جو اب بہت بڑاجنرل سٹور بن چکا تھا۔ وہاں ایک گورا چٹا لڑکا بیٹھاہوا تھا۔ آدم کو دیکھتے ہی مشکوک انداز میں کہنے لگا، ’’بابا کس سے ملنا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’بیٹا تمھارے والد صاحب کہاں ہیں‘‘۔ اس لڑکے نے جان چھڑاتے ہوئے کہا، ’’جی وہ تو اسلام آباد والی دوکان پے ہوتے ہیں‘‘۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ دور سے گورے چٹے بچے کا والد آتا دکھائی دیا۔آدم نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھالیکن اس نے آدم کو بالکل نہ پہچانا۔ آدم نے پوچھا، ’’جناب یہاں خاقان خان چغتائی صاحب رہا کرتے تھے‘‘۔ دوکان کے مالک نے کہا، ’’جی وہ تو کب کے فوت ہوگئے ہیں۔ان کی بیٹی بیٹے نے ان کا بڑا خیال رکھا۔ ان کی بیوی تو انہیں چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’ اِ نَّا لِلّٰہِ وَ اِناَّاِلیہِ رَا جِیعْوں۔اپنے ضبط پے قابو پاتے ہوئے کہنے لگا، ’’خاقان صاحب میرے والد صاحب کے دوست تھے‘‘۔ دوکان کے مالک نے کہا، ’’اچھا اچھا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ان کا ایک بیٹا بھی تو تھا۔آدم خان چغتائی‘‘۔ دوکان کے مالک نے کہا، ’’وہ بڑا اچھا انسان تھا۔کبھی کبھی میرے پاس آیا کرتا تھا۔ پھر پردیس چلا گیا۔پھر چند ماہ رہ کر دوبارہ واپس چلا گیاتھا۔ میرا خیال ہے اس نے وہیں کسی گوری سے شادی کرلی ہے۔ کیوں نہ کرتا اس کی معشوقہ نے اسے دھوکا جو دیا تھا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ہوسکتا ہے مجبور ہو‘‘۔دوکان کے مالک نے طنز بھرے لہجے میں کہا، ’’بزرگو کوئی مجبور وجبور نہیں ہوتا۔ یہ امیر زادیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔یار الگ رکھتی ہیں اور شادی کسی اور سے کرتی ہیں‘‘۔ آدم نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، ’’خاقان صاحب کے مکان میں اب کون رہتا ہے‘‘۔ دوکان کے مالک نے سرگوشی والے انداز میں کہا، ’’بزرگو ! ۔۔۔آپ کو پتا ہے خاقان صاحب نے ساری زندگی کرائے کے مکا ن میں گزاردی۔ کرائے کا مکان تھا۔نئے کرائے دار آگئے۔اب روبی بی بی آگئی ہیں۔روز رات کو اپنے مریضوں کا علاج کرتی ہیں‘‘۔ آدم نے مستعجب و متحیر ہوکر پوچھا، ’’گھر پے ہی کلینک بنا رکھا ہے۔‘‘۔ دوکان دار نے کہا، ’’بزرگو! ۔۔۔وہ والے مریض نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ دوسرے مریضوں کا علاج کرتی ہیں۔وہی والے مریض‘‘۔ آدم سمجھ گیا کہ یہ شخص کن مریضوں کی بات کررہا ہے۔ دوکان دارنے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’یہ تو صرف گھر پے مریض دیکھتی ہیں۔بڑے ڈاکخانے کے باہر اور مری روڈ پر بھی لیڈی ڈاکٹریں کھڑی ہوتی ہیں بلکہ اب تو ڈاکٹر بھی کھڑے ہوتے ہیں‘‘۔
گفتگو کا رنگ بدلتا جارہا تھا اس لیئے آدم نے کہا، ’’اچھا اب میں چلتا ہوں۔خاقان صاحب کا سن کر بڑا افسوس ہوا۔ ایک آخری بات پوچھنا تھی‘‘۔ دوکان کے مالک نے پوچھا، ’’جی پوچھئے‘‘۔ آدم نے پوچھا ،’’خاقان صاحب کا ایک چھوٹا بیٹا بھی تو تھا‘‘۔ دوکان دار نے استہزائیہ انداز میں کہا لیکن اس میں طنز اور جلن کی آمیزش زیادہ تھی، ’’وہ پوڈری ، جہاز،ہیروئن پینے والا۔ اس کی قسمت ہی بدل گئی ۔ وہ پڑھ لکھ کر اب بڑا آدمی بن گیا ہے۔ روزانہ میں اسے ٹی وی پر دیکھتا ہوں۔ وہ کیا کہتے ہیں صافی بن گیا ہے۔ سیاست دانوں سے اتنے مشکل سوال کرتا ہے کے مت پوچھئے۔ کبھی کبھی یہاں آتا ہے۔ خدا کے کھیل نرالے ہیں۔کِسے پتا تھا کہ دیوار کے ساتھ لگ کے ہیروئن پینے والا ایک دن اتنا بڑا صافی بن جائے گا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی بالکل صحیح کہتے ہیں آپ۔ خدا جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ یہ کہہ کر آدم وہاں سے چل دیا۔ آدم چلتا چلتا نجمہ بیگم کے مکان کے پاس آیا۔ وہاں پے قدوس کے بجائے کسی اور نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ وہ چلتا چلتا گلی کی نکڑ والی کوٹھی پے آگیا۔ یہاں اب جدید طرز کی سنگِ مرمر سے مزین کوٹھی بن چکی تھی۔ آدم تو بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ سارا منظر ہی بدل چکا تھا۔ اس نے سوچا اپنی بہن اور بہنوئی سے ملنا چاہیئے۔ سڑک پار کر کے وہ تیز تیز قدموں سے سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگا۔ اور چلتے چلتے کافی آگے نکل آیا تھا۔ شاید راستہ بھول گیا تھا۔ اس نے راہ چلتے ہوئے ایک آدمی سے پوچھا، ’’بھائی صاحب یہاں سرونٹ کواٹر ہوا کرتے تھے‘‘۔اس نے کہا، ’’کب کی بات کرتے ہیں۔سب گرادیئے گئے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اور جو لوگ یہاں رہتے تھے‘‘۔ اس آدمی نے کہا،جس سے آدم پوچھ رہا تھا، ’’مجھے کیا پتا‘‘۔ آدم نے مزید پوچھا، ’’یہاں ایک محترم رہا کرتے تھے عباسی۔ کچہری میں چٹھیاں لکھا کرتے تھے‘‘۔عباسی صاحب کا نام سنتے ہی وہ شخص چونکا اور کہنے لگا، ’’ارے عباسی صاحب ۔وہ تو بڑے امیر آدمی بن گئے ہیں۔ انھوں نے کچہری میں درخواستیں لکھنے کے ساتھ ساتھ زمینوں کے خسرے اور کھتونیاں بھی لکھنی شروع کردی تھیں۔ اسلام آباد کی بہت سی زمین مل ملا کر انھوں نے اپنے نام کرالی۔اب اس پے عباسی ٹاؤن بنا رہے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا،’’ان کے بال بچے بھی ہیں‘‘۔ اس شخص نے کہا، ’’جی دو بچے ہیں ۔ایک بیٹا اور ایک بیٹی‘‘۔
آدم دل ہی دل میں مسکرایہ کہ وہ ماموں بن چکا ہے۔ اسے ابھی یہ نہیں پتا تھا کہ وہ تایا بھی بن چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لال کرتی بازار میں بہت بھیڑ تھی۔ پہلے یہ کھلا بازار ہوا کرتا تھا۔ آدم ٹھیک انصاری صاحب کے ریستوران کے پاس کھڑا تھالیکن وہ پہچان نہ پایا کیونکہ یہاں اب بہت بڑاسٹور بن چکا تھا۔ لیکن اس کے ماتھے پے اب بھی لکھا ہوا تھا، ’’انصاری منزل‘‘۔سٹور پے بیٹھے ایک بزرگ نے پوچھا، ’’صاحب کسے تلاش کررہے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہاں انصاری صاحب کا ریستوران ہوا کرتا تھا‘‘۔ باریش بزرگ نے کہا، ’’صاحب ،انصاری صاحب تو فوت ہوچکے ہیں۔ان کا بیٹا دادؤ، جسے لوگ اب سیٹھ دادؤ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ اب اسلام آباد منتقل ہوگیا ہے۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی انصاری صاحب میرے بزرگ اور محسن تھے۔(خیر اب تو وہ خود بھی بزرگ ہوچکا تھا)۔میں کافی عرصہ غیر ممالک میں تھا۔ اب آیا ہوں‘‘۔ باریش بزرگ نے آدم کو سر سے پاؤں تک بغور دیکھا۔انہیں بالکل یقین نہ آیا کہ آدم سچ بول رہا ہے۔ آدم پھر مخاطب ہوا، ’’جی سیٹھ داؤد کا پتہ یا فون نمبر ‘‘۔ باریش بزرگ نے کہا، ’’صاحب فون نمبر تو نہیں ہے میرے پاس ،لیکن اتنا جانتا ہوں کہ F-10 (ایف ۔۱۰) سیکٹر میں رہتے ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا پیرس سے سارا کاروبار سمیٹ کر مستقل پاکستان واپس آگئے ہیں۔ اب بلیو ایریئے میں پلازہ بنا رہے ہیں‘‘۔ آدم دل ہی دل میں ہنسنے لگا۔ خودکلامی کرتے ہوئے لیکن بہت آہستگی سے،’’آخرکار داؤدنے اپنا مقصد پا ہی لیا۔پہلے یورپ جانے کا،پھر کاغذات بنانے ،پھر ببلی،پھر بہت سا پیسہ، اسلام آباد میں گھر، گاڑیاں۔بہت خوب،بہت خوب‘‘۔ آدم نے محترم سے پوچھا، ’’لال کرتی والے گھر میں کون رہتا ہے‘‘۔ ان محترم نے کہا، ’’داؤد کے چچا رہتے ہیں۔بیچارے بڑے بیمار رہتے ہیں‘‘۔ آدم نے سوالیہ انداز میں پوچھا، ’’داؤد خیال نہیں رکھتا‘‘۔ ان محترم نے افسوس بھرے لہجے میں کہا، ’’وہ تو ہر ماہ اپنے چچا سے باقاعدہ کرایہ وصول کرتا ہے اور سارا لال کرتی بازار میں لٹا کے چلا جاتا ہے‘‘۔ آدم نے خدا حافظ کہا اور چلتا بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیو ایریئے کی درمیانی پٹی میں بہت سارے پلازے بن چکے تھے۔ چند ایک زیرِ تعمیر تھے۔ ان میں سے ایک داؤد پلازہ بھی تھا۔ آدم کو کسی نے اندرجانے نہ دیا۔ کیونکہ ا س کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔کپڑے پھٹے پرانے تھے۔ سیٹھ داؤد چیختا چلاتا باہر آیا۔آتے ہی ملازموں پے چلانے لگا،’’کیا شور مچا رکھا ہے‘‘۔ آدم کو بنا دیکھے ہی کہنے لگا، ’’معاف کرو بابا‘‘۔ آدم ،داؤد کی ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ وہ داؤد ہے جسے وہ پچیس سال پہلے انوار کیفے پے ملا تھا۔ دبلا پتلا سا ۔۔۔۔۔اور اب ۔۔۔۔کتنا فربہ ہوگیا تھا۔ آدم نے دفتر سے نکلتے ہوئے چوکیدار سے کہا، ’’تمھارا سیٹھ بڑا امیر آدمی ہے۔ غریبوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا‘‘۔ چوکیدار نے آہستگی سے کہا، ’بزرگو کس کام کا یہ پیسہ۔سیٹھ داؤد کا بیٹا کار کے حادثے میں مارا گیا اور بیٹی معذور ہے۔جو بچے گوری سے پیدا ہوئے ہیں وہ یہاں رہنا پسند نہیں کرتے‘۔ آدم نے پوچھا، ’’سیٹھ صاحب کی والدہ اور بہن بھائی‘‘۔ چوکیدار نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا، ’’بزرگو قیامت قریب آگئی ہے۔ سیٹھ صاحب کے والد صاحب نے ایک لڑکے کو اپنے گھر میں پناہ دی۔پڑھایا لکھایا۔ آج وہ اسلام آباد کا مشہور صحافی ہے ۔سب اسے گھر کا فرد ہی تصور کرتے تھے۔ سیٹھ صاحب کی بہن کا چکر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کردیا‘‘۔ آدم نے مزید پوچھا، ’’اور اب ‘‘۔ چوکیدار نے کہا، ’’سیٹھ صاحب کے والد انصاری صاحب نے دونوں کو ایک دن رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور مولوی صاحب کو بلوا کر نکاح پڑھوادیا۔ دونوں کی شادی کردی۔ انصاری صاحب بڑے اچھے انسان تھے۔ سیٹھ صاحب جب پیرس سے واپس آئے۔انھوں نے اپنے بہنوئی اور بہن کو گھر سے نکال دیا۔اس شرط پے وہ اپنی بہن کو تسلیم کرنے کے لیئے تیار تھے اگر لڑکا ان کی بہن کو طلاق دے دیتا لیکن دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ لڑکا تیز تھا۔ قانون جانتا تھا۔ آجکل صدر کے کسی علاقے میں رہتے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اب کچھ نہیں کہتے سیٹھ صاحب ،اپنے بہنوئی کو‘‘۔ چوکیدار نے کہا، ’’بزرگو اب کیا کہنا۔ اب تو ان کے بچے جوان ہوگئے ہیں‘‘۔ آدم نے مزیدکریدتے ہوئے پوچھا، ’’تمھارے سیٹھ صاحب تو بڑی پرسکون زندگی گزار رہے ہوں گے‘‘۔ چوکیدار نے کہا، ’’کدھر جی۔روزانہ رات کو نشہ کرتے ہیں۔ گولیاں کھاتے ہیں۔تب جا کے نیندآتی ہے۔ نشے کے بغیر تو وہ ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے‘‘۔ آدم کو بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ داؤد پلازہ، جو کہ ابھی نامکمل تھا کے دفتر سے نکلا اور سڑک کے کنارے چلنے لگا۔ نہ جانے آدم کے دل میں کیا آئی کہ وہ راولپنڈی واپس آگیا اور شاہ بلوط باغ کے پتھر کے بینچ پے بیٹھ گیا۔ اسے یہاں آکر بڑا سکون ملا۔ وہ اسی بینچ پے اپنی کپڑوں کی پوٹلی کو تکیہ بناکر اس پے سر رکھ کے لیٹ گیا اور نیلے آسمان کو دیکھنے لگا جس پے مختلف وقفوں سے بادلوں کے ،روئی کے گالوں کی طرح کے ٹکڑے آوارہ گردی کر رہے تھے۔ بادلوں کی اٹکھیلیاں دیکھتے دیکھتے آدم کی آنکھ
لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو اندھیرا ہوچکا تھا۔اس نے کپڑوں کی پوٹلی اٹھائی اور ایک کونے میں جاکر ڈیرا لگالیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابرِنیساں نے کار کی چابی میز پے رکھی اور ڈرائینگ روم میں رکھے ہوئے COUCH (کاوچ) میں دھنس گئی۔ اس نے کپڑے تبدیل کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اسے افراسیاب پے سخت غصہ تھا لیکن خود ابرِ نیساں کی بھی غلطی تھی۔ اس کا تجسس اسے لے کر گیا تھا۔ بات ہی اتنی عجیب اور غصے والی تھی۔ آج تک اس سے اِس لہجے میں کسی نے گفتگو کی ہی نہ تھی۔
’’بیٹا بات کیا ہے۔آپ بڑی ناراض دکھائی دے رہی ہیں‘‘۔ ابرِ نیساں نے مڑ کے دیکھا تو پیچھے اس کی والدہ کھڑی تھیں۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’کچھ نہیں ممی، افراسیاب کے ساتھ ایک سائیں بابا سے ملنے گئی تھی۔ انھوں نے مجھے بہت بری طرح ڈانٹا اور افراسیاب کو مجھسے ملنے سے منع کیا‘‘۔ اس کی ممی نے کہا، ’’بیٹا مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔تفصیل سے اور آہستہ آہستہ بتاؤ‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’ممی، افراسیاب اور میں ALLIANCE FRANCIASE (آلیانس فغانسیز) میں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ بہت ہی COOL GUY (کول گائے) ہے۔ HE IS REALY NICE DOD (وہ حقیقت میں بہت اچھا ہے) ‘‘۔ اس کی ممی ، نادیہ بہرام کھرل نے کہا، ’’مزید کچھ بتائیں گی یا اس کی تعریف ہی کیئے جائیں گی‘‘۔ ابرِ نیساں نے بتانا شروع کیا، ’’ممی، میں اور افراسیاب ایک سائیں بابا سے ملنے گئے تھے‘‘۔ اس کی ممی نے کہا، ’’بیٹا تعویذ لینے گئے تھے‘‘۔ ابرِ نیساں نے برھم ہوتے ہوئے کہا، ’’نہیں ممی ۔پوری بات تو سنیں۔ وہ اس طرح کے سائیں بابا نہیں ہیں۔ وہ دوسری طرح کے سائیں بابا ہیں۔ افراسیاب کے سارے دوست انہیں سائیں انٹرنیٹ کہتے ہیں۔ میں اور افراسیاب جب شاہ بلوط باغ پہنچے تو وہ اپنی جھونپڑی میں تھے۔ افراسیاب نے مجھے باہر رکنے کو کہا اورخود اندر چلا گیا۔ میں ان کی ساری باتین سن رہی تھی۔ وہ بڑے بڑے PHILOSPHER (فلاسفروں) اور GENETICISTS (جیناں دانوں) کے نام لے رہے تھے۔ جیسے ہی میں ان کی جھونپڑی میں داخل ہوئی نہ جانے انہیں میری شکل میں کیا نظر آیا۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے، ’’اب آئی ہو۔ اب آئی ہو۔ میری زندگی تباہ کرنے کے بعد۔ مجھے UTOPIAN (یوٹوپیئن) اور SELF CENTERED (سیلف سینٹرڈ) بھی کہا اور افراسیاب سے کہنے لگے۔ ’’بیٹا اس سے دور رہو۔ یہ آگ ہے‘‘۔ اس کی ممی نے پوچھا، ’’بیٹا یہ شاہ بلوط باغ وہی ہے نا، جہاں دو سینماز ہیں۔اوڈین اور پلازہ‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’جی ممی‘‘۔ نادیہ ، ابرِ نیساں کی ممی تھوڑے متکبرانہ انداز میں کہا، ’’بیٹا میں افراسیاب اور سائیں بابا سے ملنا چاہتی ہوں ۔ جو شخص تمہیں ڈانٹ سکتا ہے ۔وہ کوئی عام آدمی نہیں ہوسکتا۔ تم راولپنڈی شہر کی ڈپٹی کمشنر کی بیٹی ہو۔ بھلے اسے پتا ہو یا نہ ہو۔ لیکن افراسیاب کو تو پتا ہے‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’ممی، افراسیاب بھی بڑا پریشان ہوا۔ وہ مجھے بتا رہا تھا۔سائیں انٹرنیٹ کو دنیا کی ہر چیز کی معلومات ہیں ۔LEXICOGRAPHY, ANTHROPOLOGY,SCULPTURE, PAINTINGS (لیگزیکوگرافی، مصوری،مجسمہ سازی، علم الابشریات) اور جانے کیاکیا۔ وہ ہمیشہ نوجوانوں کو اچھی باتیں بتاتے ہیں۔ ایک ہی نشہ کرتے ہیں۔وہ بھی چائے کا‘‘۔ اس کی ممی نے زور دیتے ہوئے کہا، ’’افراسیاب سے کہو،مجھ سے ملے‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’جی ممی‘‘۔ اس کی ممی نے کہا، ’’اور زیادہ پریشان نہیں ہونا‘‘۔ ابرِنیساں نے کہا، ’’او کے ممی، ۔۔۔۔۔۔۔۔ممی پاپا کدھر ہیں‘‘؟ نادیہ نے کندھے اْچکاتے ہوئے کہا، ’’as usual (ہمیشہ کی طرح) پیسے کمانے میں مصروف ہیں۔ آجکل تو جمشید صاحب کے گاہک دوسرے ممالک سے بھی آ رہے ہیں‘‘۔
ابرِ نیساں جانتی تھی کہ ممی پاپا میں سرد جنگ چل رہی ہے۔ اس لیئے وہ اس موضوع پے مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتی تھی۔اپنی ممی کو خدا حافظ کہا اور اپنے کمرے چلی گئی۔اپنا P.C.(PERSONAL COMPUTER) (پی سی، اپنا ذاتی کمپیوٹر) آن کر کے اپنی E MAILS (ای میلز) دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افراسیاب نے ڈرتے ڈرتے ابرِنیساں کے گھر قدم رکھا اور کہنے لگا، ’’ابرِ نیساں تمھاری امی ڈانٹے گی تو نہیں۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ابرِ نیساں نے کہا،’’ارے کچھ نہیں ہوتا۔ تم بالکل مت گھبراؤ۔ SHE IS VERY SWEET (وہ بڑی اچھی ہیں)۔ افراسیاب نے کہا، ’’ارے بھئی ڈر تو لگنا ہی چاہیئے۔آخر ڈپٹی کمشنر ہیں۔ پورے شہر کی مالکن ہیں‘‘۔ ابرِ نیساں نے آدم کے مزاح کو سمجھتے ہوئے کہا، ’’تم پھر شروع ہوگئے‘‘۔ افراسیاب نے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’تمھارے پاپا بھی تو دلوں کے حال جانتے ہیں‘‘۔ ابرِ نیساں نے آدم کا جملہ درست کرتے ہوئے کہا، ’’وہ دلوں کے حال نہیں جانتے بلکہ دلوں کی جانچ کرتے ہیں‘‘۔ افراسیاب نے کہا، ’’اچھا تو تمہیں اردو کے مشکل لفظ بھی استعمال کرنے آگئے ہیں‘‘۔ ۔۔۔۔آدم نے لفظ جانچ پے زور دیتے ہوئے کہا، ’’جا ۔۔۔۔نچ‘‘۔ ابرِ نیساں نے چڑتے ہوئے کہا، ’’تم جو ہر وقت ٹوکتے رہتے ہو کہ اردو بولو تو اردو ہی بولو۔ ۔FRANGLAIS (فغانگلے، یعنی جب کوئی فرنچ زبان میں انگریزی کی آمیزش کردے تو فرنچ کہتے ہیں یہ فرنچ نہیں بلکہ فرنچ اور انگریزی کو ملا کر بولا رہا ہے۔ اس لیئے وہ اسے فغانگلے کہتے ہیں) مت بولو‘‘۔ افراسیاب نے کہا، ’’FRANGLAIS (فغانگلے) نہیں URDANGLAIS (یعنی اردو بولتے ہوئے انگریزی کے الفاظ و تراکیب کی گفتگو میں آمیزش کرنا)‘‘۔ ابرِ نیساں نے شکست مانتے ہوئے کہا، ’’اچھا جو بھی ہے۔ اب یہ بحث بند کرو۔ امی آرہی ہیں‘‘۔
نادیہ بہرام کھرل ، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی۔مٹیالے رنگ کے شلوار قمیص میں ملبوس اوپر کی منزل سے سیڑھیاں اترتی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں۔ تیوریاں چڑھائے، انتہائی جاہ و جلال، شکل وصورت بالکل ابرِنیساں جیسی۔ بس دونوں میں فرق صرف اتنا تھا۔ ابرِ نیساں تھوڑی لمبی اور دبلی پتلی تھی۔ اس کے برعکس نادیہ بہرام کھرل کا جسم بھرا بھرا اور قد میانہ تھا۔افراسیاب ان کے احترام میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا، ’’السلامْ و علیکم آنٹی‘‘۔ انھوں نے جواب دیا، ’’وعلیکم السلام بیٹا۔ بیٹھو بیٹا کھڑے کیوں ہو۔تو آپ ہیں افراسیاب ‘‘ اتنا کہنے کے بعد وہ صوفے میں دھنس گئیں۔ افراسیاب نے انتہائی عاجزی و انکساری سے کہا، ’’جی خاکسار کو افراسیاب خان چغتائی کہتے ہیں‘‘۔ نادیہ بہرام ، ابرِ نیساں کی امی نے کہا، ’’آپ تو بڑی نستعلیق اردو بولتے ہیں۔کہاں رہتے ہیں آپ‘‘؟ افراسیاب نے بڑے بھول پن سے کہا، ’’جی راولپنڈی ‘‘۔ نادیہ بہرام نے پوچھا، ’’راولپنڈی کس جگہ۔ پنڈی تو کافی بڑا ہے‘‘۔ افراسیاب نے کہا، ’’جی مال روڈ کے پاس جو کسٹمر سروسسز ہے ۔اس کے قریب ہی رہتا ہوں‘‘۔ نادیہ نے مزید کریدا، ’’آپ کے والد صاحب کیا کام کرتے ہیں‘‘؟ افراسیاب نے کہا، ’’جی وہ صحافی ہیں۔آپ نے نام تو سنا ہوگا۔چغتائی، اے کے چغتائی‘‘۔ نادیہ نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’ویسے تو ہمیں اسلام آباد میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ لیکن میں چغتائی صاحب کو جانتی ہوں۔ بڑے ذہین آدمی ہیں‘‘۔ انھوں نے گفتگو کا رخ بدلنے کی خاطر آدم سے سوال کیا کیونکہ وہ اصل موضوع کی طرف آنا چاہتی تھیں، ’’ویسے بیٹا آپ کو فرنچ سیکھنے کا خیال کیسے آیا‘‘۔ افراسیاب نے جواب دیا، ’’ویسے تو آنٹی میں COGNITIVE SCIENCE (کوگنیٹو سائنس، یعنی علم الگیان و وقوف) پڑھ رہا ہوں۔لیکن ادب سے بھی مجھے گہرا لگاؤ ہے۔ فرنچ ادب ، خاص کر بیسویں صدی کے آغاز سے اختتام تک فرنچ ادب اپنی معراج پر تھا‘‘۔ نادیہ بہرام نے گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا، ’’بیٹاMAUPASSANT (موپاساں) اور ZOLA (زولا) کے بارے میں کیا خیال ہے‘‘۔ افراسیاب نے کہا، ’’دونوں میرے پسندیدہ ہیں۔ لیکن سائیں انٹرنیٹ کہتے ہیں،GARCIA MARQUEZ,CALVINO (گارسیا مارقے،کل وینو) اور GUNTER GRASS (گنٹر گراس) بہت اچھے ہیں‘‘۔نادیہ سائیں انٹرنیٹ کے نام پے چونک پڑی۔کہنے لگی، ’’ہاں بیٹایاد آیا۔جس مقصد کے لیئے تمہیں بلایا تھا وہ تو میں بھول ہی گئی۔ یہ سائیں انٹر نیٹ کون ہیں۔ اس دن میری بیٹی بہت پریشان تھی۔کیا کہا تھا اس سائیں نے۔ میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ شاید میں اس کی کوئی مدد کرسکوں۔اگر وہ حقیقت میںINTELLECTUAL (انٹلیکچوئل) ہے‘‘۔ افراسیاب نے متحیر و مستعجب ہوتے ہوئے کہا، ’’آپ آنٹی‘‘۔ نادیہ نے افراسیاب کے تجسس کو جائز سمجھتے ہوئے کہا، ’’ہاں میں۔۔۔۔۔میں کیوں نہیں‘‘؟ افراسیاب نے کہا، ’’آپ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ ابھی وہ بات مکمل بھی نہ کرپایاتھا کہ نادیہ بہرام بولی، ’’میں کیا۔میں ڈپٹی کمشنر ہوں۔ میں کسی سے مل بھی نہیں سکتی۔میں بھی تم لوگوں کی طرح ایک عام انسان ہوں‘‘۔ افرسیاب نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا، ’’سوری آنٹی۔۔۔میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘۔ نادیہ بہرام نے کہا، ’’خیر یہ تکلفات چھوڑیئے، بتائیں کہ ہم کب چلیں‘‘۔ افراسیا ب نے موضوع بدلنے کی کوشش کی، ’’آنٹی یہاں ایف۔۱۰ سیکٹر میں میرے ماموں بھی رہتے ہیں۔ بلیو ایریئے میں ان کا پلازہ ہے داؤد پلازہ۔ ابھی مکمل نہیں ہوا‘‘۔ نادیہ بہرام نے کہا، ’’میں نے کبھی غور نہیں کیا‘‘۔ افراسیاب نے کہا، ’’خیر کوئی اتنی ضروری بات بھی نہیں۔ہمارے سفارتی تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں‘‘۔ نادیہ نے حیرت سے پوچھا، ’’کس کے ساتھ بیٹا‘‘۔ افراسیاب نے بڑی سادگی سے کہا، ’’اپنے ماموں کے ساتھ‘‘۔ نادیہ نے پوچھا، ’’وہ کیوں بیٹا‘‘؟افراسیاب نے کہا، ’’اس کی کئی وجوہات ہیں،لیکن مجھے دو ہی سمجھ آتی ہیں۔نمبر ایک میرے ابو نے ان کی بہن سے شادی کی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے والدصاحب سچ لکھتے ہیں‘‘۔ نادیہ نے کہا،’’اچھا بیٹا بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر ۔میں چلتی ہوں۔ مجھے عشائیئے پے جانا ہے۔ آپ اور ابرِ نیساں گپ شپ لگائیں اور چائے ضرور پی کر جائیئے گا۔ ورنہ میں ناراض ہوجاؤں گی‘‘۔ اور وہ چلتی بنی۔
افراسیاب تو جیسے اسی انتظار میں تھا کہ وہ جائیں کیونکہ اس کی حسِ ظرافت پھڑک رہی تھی۔ ان کے جاتے ہی اس نے ابرِ نیساں کو مخاطب کیا، ’’ابرِ نیساں تمھاری امی کی اور تمھاری شکل بہت ملتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سائیں انٹرنیٹ تمہیں دیکھ کر کچھ اور سمجھ رہا ہو۔ میرا مطلب ہے ، تمھاری امی بھی بڑی دلچسپی لے رہی تھیں۔میں نے موضوع بدل دیا‘‘۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ابرِ نیساں،افراسیاب کو مارنے کو دوڑی۔افراسیاب چکما دے کر نکل گیا۔ اور اپنا جملہ مکمل کیا، ’’ارے بھئی میں تو خیال کا اظہار کررہا تھا۔تم خواہ مخواہ ناراض ہورہی ہو‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’افرسیاب تم لگتا ہے، آجکل جاسوسی ناول زیادہ پڑھ رہے ہو۔کسی خفیہ ایجنسی میں جانے کا ارادہ تو نہیں‘‘۔ افراسیاب نے کہا، ’’خیر ایسی کوئی بات نہیں لیکن ایساہوسکتا ہے کہ پنڈی کی ڈپٹی کمشنر کا سائیں انٹر نیٹ کے ساتھ‘‘۔ وہ ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ابرِ نیساں نے اس کے منہ پے ہاتھ رکھ دیااور کہنے لگی، ’’STUPID, FOOL (سٹوپڈ، فول) تم بہت بدتمیز ہو۔ وہ گندا، غلیظ، آوارہ گرد‘‘۔افراسیاب ہارماننے والا نہیں تھا۔اس نے کہا، ’’اور آنٹی صاف ستھری اور شہر کی مالکن‘‘۔ ابرِ نیساں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، ’’اچھا چھوڑو یہ طنز بھری گفتگو۔بتاؤ ممی کو سائیں کے پاس کب لے کر چلنا ہے‘‘۔ افرسیاب نے سوچا کافی مذاق ہوگیا۔سادگی سے کہنے لگا، ’’یہ تو تم بتاؤ گی۔ جب خالہ جان میرا مطلب ہے آنٹی کے پاس فرصت ہوگی‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’چلو میں ان سے پوچھ لوں گی‘‘۔ افرسیاب نے کہا، ’’اچھا، ابرِ نیساں بہرام خان صاحبہ، محترمہ، عزیزہ،جمیلہ،فرزانہ میں چلتا ہوں کیونکہ اس کلرکوں اور افسرِشاہاں،میرا مطلب ہے BUREAUCRATES (بیوروکریٹز) کے شہر میں میرا دم گھٹتا ہے‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا،’’ارے چائے تو پیتے جاؤ‘‘۔افراسیاب نے کہا، ’’ارے بھئی مجھے تمھاری یہ سکرٹ والی چائے نہیں پینی۔میں تو شلوار قمیص اور دھوتی والی چائے پیتا ہوں‘‘۔ ابرِ نیساں نے حیرت سے پوچھا، ’’یہ سکرٹ والی چائے اور شلوار قمیص والی چائے میں کیا فرق ہوتا ہے‘‘۔ افراسیاب نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا، ’’سکرٹ والی چائے ۔جو تم لوگ پیتے ہو۔ SEPERATE (سیپرٹ)۔پہلے قہوہ بناؤ۔پھر دودھ ،پھر چینی اور چائے بنتے بنتے ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ شلوار قمیص والی چائے mix tea (مکس ٹی) پانی، دودھ پتی اور چینی سے ایک ساتھ پکی ہوئی ،بلکہ سہی جوش دی ہوئی۔اچھا اب بہت دیر ہوگئی ہے ۔میں چلتا ہوں‘‘۔ ابرِ نیساں نے کہا، ’’میں تمہیں ڈراپ (چھوڑآتی ہوں) کردیتی ہوں‘‘۔ افرسیاب نے کہا، ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں۔میں اپنے ابا کی کھٹارا لایا ہوں۔AUREVOIR ,ABIENTOT (آغوآ،آبی آنتو، فرنچ میں پھر ملیں گے اور جلدی ہی کو کہتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادیہ بہرام کھرل نے عشایئے کا بہانہ کیا تھا۔ اس نے ڈرائیور سے کہا، ’’گاڑی راولپنڈی لے چلو‘‘۔ ڈرائیور حکم کا غلام تھا اس نے گاڑی راولپنڈی جانے والی سڑک کی طرف موڑ ی دی۔ سارا راستہ نادیہ نے ابتری میں کاٹا۔ کچہری کی طرف سے مال روڈ پے داخل ہوتے ہی ڈرائیور نے پوچھا، ’’میڈم کہاں جانا ہے‘‘۔ تو نادیہ نے جواب دیا، ’’وہ جو دو سینماز نہیں ہیں۔ اوڈین اور پلازہ۔۔۔۔وہاں لے چلو‘‘۔
ڈرائیور سمجھا میڈم چھاپا مارنے جارہی ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں سینماز اکثر مادر زادننگی فلمیں دکھاتے ہیں۔ جیسی ہی گاڑی پارکنگ میں جاکر کھڑی ہوئی۔ نادیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ڈرائیور نے اتر کر دروازہ کھولا اور پوچھنے لگا، ’’میں۔۔۔۔میڈم‘‘۔تم یہیں رکو‘‘۔ نادیہ نے جواب دیا۔
نادیہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی شاہ بلوط باغ میں داخل ہوئی۔ ٹیڈی مالشیاء ایک آدمی کی مالش کررہا تھا۔ نادیہ نے ایک شخص سے پوچھا، ’’سائیں انٹرنیٹ کی جھونپڑ ی کون سی ہے‘‘۔ وہ ہاتھ کا اشارہ کرکے کہنے لگا، ’’وہ والی ہے‘‘۔ نادیہ دبے قدموں سے چلتی جھونپڑی کے پاس آئی اور ہلکی سی آواز دی ،’’سائیں جی میں آپ سے ملنے آئی ہوں‘‘۔ سائیں انٹرنیٹ اندر سے بڑبڑاتا ہوا نکلا،’’کی اے، کونڑ اے‘‘۔باہر آتے ہی ساکت ہوگیا۔جیسے پتھر کا بت ہو۔
’’نادیہ تم‘‘۔
’’آدم تم‘‘۔
’’نادیہ نے حیرت و استعجاب سے کہا،’’یہ کیا حلیہ بنا رکھاہے‘‘۔
آدم نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’دیکھ لو اکیسویں صدی کے رانجھے کو ۔تم نے بیوفائی کی‘‘۔
نادیہ نے کہا، ’’اور تم نے جانے کے بعد ایک خط تک نہیں لکھا۔فون تک نہیں کیا‘‘۔
آدم گنگنایا،
’’غضب کیا تیرے وعدے پے اعتبار کیا
تمام عمر قیامت کا انتظار کیا‘‘۔مرزاغالبؔ
نادیہ نے کہا، ’’تمھاری طنز کرنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ تمہیں پتا ہے میں اس شہر کی ڈپٹی کمشنر ہوں۔لیکن تمھاری داسی ہوں۔تمھاری چرنوں میں جگہ چاہتی ہوں‘‘
آدم نے کٹیلی ہنسی ہنستے ہوئے کہا، ’’تمھاری بھی جھوٹے وعدے کرنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ پہلے خواب دکھلاتی ہو ۔ پھر ان کو توڑ دیتی ہو۔ مجھے اتنا مان مت دو۔ میں اب کسی چیز پے اعتبار نہیں کرتا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی نئی دنیا بسالی ہے‘‘۔
نادیہ نے کہا، ’’جب مجھے میری بیٹی نے آکر بتایا کہ کسی سائیں نے اس کی بے عزتی کی ہے تو میں سمجھ گئی کے تم ہو۔ کسی اور شخص میں اتنی جرأت نہیں جو میری بیٹی سے اس لہجے میں بات کرسکے۔ اور جب افراسیاب نے GUNTER GRASS (گنٹر گراس) اور GARCIA MARQUEZ (گارسیا مارقے) کاذکر کیا تو مجھے پکا یقین ہوگیا کہ یہ کوئی اور نہیں آدم خان چغتائی ہے‘‘۔
آدم نے بڑی حیرت سے کہا، ’’تو تمہیں میرا پورا نام ابھی تک یاد ہے۔ لوگ تو مجھے سائیں انٹرنیٹ کہتے ہیں‘‘۔ آدم نے بڑی اپنائیت سے کہا، ’’ایک بات پوچھوں نادیہ ،برا تو نہیں مناؤ گی‘‘
نادیہ نے بڑے پیار سے کہا، ’’ہاں پوچھو‘‘۔
آدم نے کہا، ’’یہ افراسیاب تمھاری بیٹی کا BOY FRIEND (بوئے فرینڈ) ہے‘‘۔
نادیہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’یہ مجھے نہیں پتا لیکن دونوں اکٹھے فرنچ سیکھتے ہیں۔ کسی صحافی کا بیٹا ہے۔ چغتائی نام ہے اس کے والد کا‘‘۔
آدم نے کہا، ’’ابلق خان چغتائی‘‘۔
نادیہ نے کہا، ’’شاید‘‘! ۔۔۔۔۔۔ایک دم چونکی اور کہنے لگی، ’’OH MY GOD (او مائی گوڈ، یعنی اف میرے خدا) تو اس کا مطلب ہے افراسیاب تمھارا nephew (بھتیجا) ہے‘‘۔
آدم نے کہا، ’’میرا چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے اسے پہچان لیا تھا۔چند دن پہلے افراسیاب کو ڈھونڈتا ہواریستوران پے آگیا تھا‘‘۔
نادیہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، ’’بالکل تم پر گیا ہے۔جب اردو بولتا ہے تو ایسے لگتا ہے ،بابائے اردو ہے۔ انگریزی بولتا ہے تو RUSSELL (رسل) کا سا انداز اپنا لیتا ہے‘‘۔
آدم نے کہا، ’’اچھا چھوڑو ان باتوں کو ۔تمھاری ازدواجی زندگی کیسی چل رہی ہے۔ کیسے ہیں تمھارے شوہر، میرا رقیب جو تمہیں مجھ سے چھین کر لے گیا‘‘۔
نادیہ نے کہا، ’’ڈاکٹر ہے ۔دلوں کی مرمت کرتا ہے ۔ جہاں تک ازدواجی زندگی کا تعلق ہے‘‘۔ نادیہ نے روتے ہوئے کہا، ’’بس ٹھیک ہی ہے۔ ایک سمجھوتا تھا۔ قربانی تھی۔ جو ہر لڑکی کرتی ہے۔ میرے ساتھ پڑھتا تھا۔بہت سے لڑکوں کی طرح وہ بھی میرا عاشق تھا‘‘۔ آنسو پونچتے ہوئے کہنے لگی، ’’تم نے شادی کی‘‘۔
آدم نے کہا، ’’ہاں کی نا۔۔۔۔۔حالات کے ساتھ، تکلیفوں کے ساتھ ،مایوسیوں کے ساتھ،تمھارے ساتھ بیتے ہوئے وقت کے ساتھ،ذلت و رسوائی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نادیہ تم نے مجھے کبھی وجہ نہیں بتائی کہ تم نے نہ کیوں کی۔ اب تو بتا دو۔ اب تو زندگی کابھی بھروسہ نہیں‘‘۔
نادیہ نے آدم کے منہ پے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’آدم ایسا نہیں کہتے۔ تم جاننا چاہتے ہو تو سنو، جب میں نے تم سے شادی کے لیئے ہاں کہی تھی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے مالی حالات کیسے جارہے ہیں۔ جس چاند رات کو میں نے تم سے وعدہ کیا تھا ۔ میں وہ چاند رات آج تک نہیں بھولی۔ تمھارے ہونٹوں کا لمس اور مٹھاس میرے ہونٹوں پے آج تک موجود ہے۔ میرے والدصاحب کو پتا چل چکا تھا۔ کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔انھوں نے تمام گھریلو حالات میرے سامنے کھول کر رکھ دیئے۔جن سے میں بے خبر تھی۔ ایک طرف بوڑھا باپ تھا۔ دوسری طرف جوان عاشق۔ فیصلہ انھوں نے مجھ پے چھوڑ دیا۔تم جوان ،پڑھے لکھے، خوش شکل، خوش اخلاق تھے۔ تمہیں کوئی بھی لڑکی مل سکتی تھی۔ تم اس کے ساتھ شادی کرکے گھر بساسکتے تھے۔لیکن میرے باپ کے ساتھ ساری زندگی دھوکے ہوتے آئے ہیں۔میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی۔ موسمی سختیوں کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ مجھے تکلیف پہنچائیں۔گرم ہوا کو بھی اجازت نہیں تھی کہ مجھے چھو کر گزرے۔ میرے باپ نے میرا اتنا خیال رکھا۔ میری خواہش کو کبھی رد نہیں کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ تم خیال کرتے ہو کے میں نے تم سے دھوکا کیا۔ لیکن روزِ قیامت میرا سر فخر سے بلند ہوگا کہ میں نے اپنے پیار کی قربانی دے کر اپنے باپ کی خواہش کا احترام کیا۔ اگر میری وجہ سے میرے باپ کو کچھ ہوجاتا تو میں ساری زندگی خود کو معاف نہ کرسکتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف میرے باپ کا جنازہ اٹھتا اور دوسری طرف میں سہاگ رات مناتی‘‘۔ وہ تھوڑے وقفے کے بعد بولی، ’’آدم مجھ سے بہتر تو تم جانتے ہو۔ یہ دنیا مردوں کی بنائی ہوئی ہے۔ میں اگر تمھارے ساتھ بھاگ بھی جاتی تو ایک دن تم یا ہمارے بچے ہمیں گریبان سے پکڑ لیتے۔ یہ معاشرہ کبھی بھی ایسی عورت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا جو اپنی مرضی سے شادی کرلے۔ بھاگنا تو دور کی بات ہے۔ تم تو جانتے ہو انسان کو خدا
معاف کردیتا ہے لیکن یہ معاشرہ معاف نہیں کرتا۔ جو تمھارے ساتھ ہوااس میں زیادہ قصور تمھاراہے۔ تم نے پہلی دفعہ ملک سے باہر جانے کا فیصلہ خود کیا۔ پھر تمہیں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تم پڑھے لکھے تھے۔ خدا نے تمہیں سیدھا راستہ دکھایا اور ایک موقع دیا۔ لیکن تم پھر غلط راستہ چنا۔ یہ ٹھیک ہے میرے انکار سے تمہیں دکھ ہوالیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ دنیا ہی ختم ہوگئی۔ تم خود ہی کہا کرتے تھے۔پیار زمین و جائیداد کی طرح نہیں ہوتا۔ پیار کا مطلب POSSESSION (پو ۔زیشن، ملکیت) نہیں ہوتا۔ یہ تو ETERNAL (ای ٹرنل، یعنی،یعنی تا ابد) ہوتا ہے۔ ہمیشہ رہتا ہے۔ میں اب بھی تم سے پیار کرتی ہوں۔پیار جسموں کے ملاپ کا نام نہیں۔نہ ہی جنسی تلذذ کا نام ہے۔ یہ تو دو روحوں کے ملاپ کا نام ہے۔ پیار تو خوشبؤ ہے، ہواہے، دکھ ہے، خوشی ہے،پیار تو خدا ہے۔ یہ TANGIBLE (ٹینج ایبل، یعنی جسے چھو سکیں) تھوڑی ہی ہے کہ آپ اسے چھو سکیں۔ یہ تو محسوس کرنے کی چیز ہے۔ اگر میں نے انکار کردیا تھا اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی تھی۔ تمھارے سامنے بہت سے راستے تھے۔ خدا اپنے بندوں کو لمحہ با لمحہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ لیکن ہم ہ نہیں دیکھ سکتے ۔ تمھاری MORAL SUPPORT (مورل سپورٹ،حوصلہ افزائی) اور MOTIVATION (موٹیویشن) کی وجہ سے میں نے سول سروسسز کی طرف مائل ہوئی۔لیکن اپنی عقل و دانش تم اپنی منزل کا تعین کرنے کے لیئے استعمال نہ کرسکے۔ تمہیں پتا ہے میں نے آج تک خود کو اس شہر کا ڈپٹی کمشنر نہیں سمجھا۔ اس شہر کی ڈپٹی کمشنر میں نہیں تم ہو۔آدم تم ہو۔
تم نے مڑ کے خبر ہی نہیں لی۔ تمہیں پتا ہے والدصاحب کی فوتگی کے بعد میں تم سے ملنا چاہتی تھی ۔ خط لکھنا چاہتی تھی۔ فون کرنا چاہتی تھی۔ تمھارے گلے لگ کے رونا چاہتی تھی۔ لیکن تم سے کوئی رابطہ ہی نہ ہوسکا۔ نہ ٹیلیفون نمبر تھا۔نہ ہی تمھارے گھر کا پتہ ۔STOCK EXCHANGE (سٹاک ایکسچینج میں خریدے ہوئے SHARES (شیئرز) کا بھاؤ گرجانے سے والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مجھے دائی ماں کے پاس اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ ساتھ قرض خواہوں کی فہرست بھی۔ اس آڑے وقت میں اگر جمشید خان نہ ہوتے تو آج میں شاید اس مقام پر نہ کھڑی ہوئی‘‘۔
آدم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ شاید اسی لیئے آج تک زندہ تھا۔
نادیہ نے کہا، ’’آدم چلو میرے ساتھ ،۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا‘‘۔ اس نے آدم کا ہاتھ پکڑا لیکن آدم نے ایک دم اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنے دل پے رکھ لیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دل کو تھام کر زمین پر گر گیا۔ اکھڑی اکھڑی سانسیں لینے لگا۔
نادیہ تھوڑی دیر کے بالکل بھول گئی کہ وہ ڈپٹی کمشنر ہے۔ جھونپڑی سے نکل کر چلائی، ’’ارے کوئی ہے۔ میری مدد کرو۔ ایمبولینس کو بلاؤ‘‘۔ ڈرائیور نے جب شور سنا تو بھاگتا بھاگتا آیا اور آتے ہی کہنے لگا، ’’جی میڈم کیا بات ہے‘‘۔ نادیہ چلائی، ’’جی کے بچے جاؤ ایمبولینس کو بلاؤ۔ یہاں ایک آدمی زندگی اور موت سے کھیل رہا ہے‘‘۔سائیں انٹرنیٹ کودل کا دورہ پڑا تھا۔ نادیہ نے اپنے خاوند کو فون کیا۔ آدم خان کو "IL CUORE" (ال کورے یعنی جمشید خان کے دل کے امراض کا پرائیویٹ میڈیکل سنٹر) لے جایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آس پاس سب لوگ پریشان و حیران تھے کہ اس پاگل ، سائیں انٹرنیٹ کے لیئے یہ محترمہ کیوں اتنی پریشان ہوگئی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر جمشید پاکستان کے مشہور CARDIOLOGIST (کارڈی آلوجسٹ، یعنی دل کے امراض کے ماہر) ہونے کے باوجود آدم کو نہ بچاسکے۔ اوپریشن تھیٹر سے باہر نکلے اور ’’سوری‘‘ کہہ کر ایک طرف چل دیئے۔ نادیہ بہرام کھرل خود پے قابو نہ رکھ سکیں،دوڑ کر لاش کے ساتھ لپٹ گئیں۔پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔روتے روتے کہے جارہی تھیں،’’اٹھو آدم، میرے ہاتھوں پے مہندی لگاؤ، مجھے چوڑیاں پہناؤ، کتنی بھلی رات ہے‘‘۔
اس دوران آس پاس چند لوگ آگئے اور نادیہ نے پیچھے مڑ کے دیکھاتو ابرِ نیساں ،افراسیاب اور مشہور صحافی ابلق خان چغتائی کھڑے تھے۔ نادیہ نے خود کو سنبھالا۔ جمشید صاحب ہونقوں کی طرح سارا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ آج انہیں بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے تھے۔ انھوں نے نادیہ کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لے گئے۔کہنے لگے، ’’میں پوچھتا ہوں یہ کیا ڈرامہ ہے۔ اس پاگل کے لیئے اتنا افسوس کیوں کیا جارہا ہے‘‘۔ نادیہ نے بھرائی ہوئی آواز میں بولی، ’’جمشید صاحب آپ نہیں سمجھیں گیں۔عورت کیا چیز ہے۔ آپ دلوں کی مرمت کرتیہیں۔دلوں کے حال نہیں جانتے ۔عورت اپنے اندر کتنے خواب چھپائے ہوئے ہوتی ہے ، آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ عورت اپنی زندگی میں ایک ہی شخص سے پیار کرتی ہے۔اور پیار کبھی مرتا نہیں‘‘۔
آدم خان چغتائی کا جسدِ خاکی اس کے بھائی اور مشہور صحافی ابلق خان چغتائی کے سپرد کردیا گیا۔

نادیہ بہرام کے حکم سے شاہ بلوط باغ کانام بدل کر آدم باغ رکھ دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment