Sunday, June 9, 2013

قوت ارادی، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ


قوتِ ارادی


یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں لندن کی ایک معروف سڑک، جسے فلہم بروڈوے
(Fulham Broadway)
کہتے ہیں، کی ایک دوکان پر کام کرتا تھا۔ دوکان کیا تھی چھوٹا سا سٹور تھا، منی سٹور، جہاں تمام اشیاء دستیاب تھیں۔ میرا مطلب ہے کھانے پینے کی۔ حتیٰ کہ ایک سیکشن کوسمیٹکس کا بھی تھا۔ دوکان کے مالک میرے شہر راولپنڈی کے رہنے والے تھے۔ میں نے جب ان کے پاس کام شروع کیا تو بہت عجیب محسوس ہوتا تھا کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی مزدوری نہیں کی تھی۔ اس لیے کام کے دوران بڑی دقت پیش آتی تھی لیکن جی لگا کے کام کرتا رہا۔ جب ان لوگوں کو پتا چلا کہ پڑھا لکھا لڑکا ہے تو ان کا رویہ بڑا نرم ہوگیا۔ ویسے بھی جاوید صاحب (جن کے پاس میں کام کرتا تھا) بڑے اچھے آدمی تھے اور ان کے بھتیجوں سے بھی میری دوستی ہوگئی۔ انہیں نہ جانے میری شخصیت میں کیا چیز نظر آئی کہ وہ میرے ساتھ کبھی بھی برے طریقے سے پیش نہ آئے حالانکہ وہ کافی بدتمیز تھے۔ ہم لوگ کبھی کبھی اکھٹے ڈسکوتھیک (discotheque)
بھی جایا کرتے۔
میرا کام دوکان کے تہ خانے سے تمام اقسام کے پینے والے مشروبات لاکر خالی شیلوز میں بھرنا ہوتا۔ اس کے علاوہ دوکان میں جو بھی چیز کسی بھی شیلف میں کم ہوتی، نیچے سے لاکر بھر دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوکان کی صفائی اور دیگر کام بھی کرنے پڑتے۔ میرے علاوہ یہاں ایک اور لڑکا بھی کام کرتا تھا۔ خود جاوید صاحب اور اُن کی بیوی کا ایک رشتے کابھائی یہاں مستقل کام کرتا تھا۔
میں صبح نیسڈن
(Neasdon)
ریلوے سٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوتا اور وہاں سے ارلز کورٹ
(Earls court)
اتر کے دوسری ٹرین پر بیٹھتا اور فلہم بروڈوے
(Fulham Broadway)
اتر جایا کرتا۔ کوئی چھ ماہ کا عرصہ اسی طرح گزرا۔ اس دوران میری دوستی دو اشخاص کے ساتھ بڑی گہری ہوگئی۔ ایک تو ندیم فاضل خان تھا جو برمنگھم کا رہنے والا تھا لیکن لندن میں کام کے سلسلے میں مقیم تھا۔ وہ میری دوکان (میرا مطلب ہے جہاں میں کام کرتا تھا) کے ساتھ ایک پٹیل کی دوکان میں بطور فارماسسٹ کام کرتا تھا۔ دوسری شخصیت تھی ایک انڈین، راج نیتی سنگھ۔ وہ گزشتہ ۴۵ سال سے لندن میں مقیم تھے۔ انہیں ہندی کافی حد تک بھول چکی تھی۔ وہ دو چیزیں خریدا کرتے۔ ویٹابیکس
(weetabix)
اور گارڈیئن
(Guardian)
اخبار۔ راج صاحب کہتے تھے کہ گارڈئین ان کے لیے ناشتے کی طرح ہے۔ اگر وہ گارڈیئن نہ پڑھیں تو ان کی صبح نہیں ہوتی۔ وہ ۴۵ سال سے یہ اخبار پڑھ رہے تھے۔ شام کو پڑھ کے مجھے دے دیا کرتے۔ میں یہ باسا اخبار پڑھا کرتا۔ سیاست وغیرہ سے مجھے کوئی خاص لگاؤ نہیں اس لیے میں باقی اخبار پھینک دیا کرتا۔ صرف ادبی و ثقافتی صفحہ پڑھا کرتا۔ وہ بھی وہ چیزیں جو ادب کے متعلق ہوں۔ مجھے چونکہ فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ تھا اور ہے، اس لیے ادب، ثقافت اور فن کے متعلق کوئی بھی بات جو اخبار میں ہو، میں اس کا مطالعہ ضرور کرتا۔ اس کے علاوہ میں فیشن کا صفحہ بھی بڑے غور سے دیکھا کرتا۔ میری تنخواہ زیادہ اچھی تو نہ تھی لیکن اتنی بری بھی نہ تھی۔ میں کچھ رقم بچا کر پاکستان بھیج دیا کرتااور بہت ہی کم بچا لیا کرتا، وہ رقم بھی کسی نا کسی کی ضرورت پوری کرنے کے کام آجایا کرتی۔ میرا دل فلہم بروڈوے کی اس دوکان پر کافی حد تک لگ چکا تھا۔ چھ ماہ کام کرنے کے بعد مجھے ایسا لگنے لگاکہ میں کافی عرصے سے یہاں مقیم ہوں۔ ہفتے میں ایک دفعہ میں اپنے بڑے بھائی کے ہاں چلا جایا کرتا۔ جس دن میری چھٹی ہوا کرتی رات وہیں پر گزار کے اگلے دن وہیں سے کام پر آجایا کرتا۔
مجھے کتابیں پڑھنے اور خریدنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ جب پاکستان میں تھاتو نئی اور پرانی کتابیں، جو بھی مل جائیں خریدا کرتا۔ یہاں آکر بھی یہ شوق ختم نہ ہوا۔ دوکان کے پاس ایک جگہ تھی جارڈن پلیس
(Jardin Place)
۔ یہاں پر ایک دوکان تھی جہاں پر پرانی اشیاء بکا کرتی تھیں۔ یہاں کتابیں بھی ہوا کرتیں۔ میں زیادہ تر کتابیں ہی خریدا کرتا۔ پہلے پہل تو میں ناول، شاعری اور تاریخی ومذاہبِ عالم کے متعلق کتابیں پڑھا کرتا لیکن راج صاحب سے دوستی کرنے کے بعد میں نے پاپولرسائنس کے متعلق کتابیں بھی پڑھنی شروع کردیں۔ جس میں جنیٹکس پیش پیش تھی۔ اب میرے کمرے میں، جو کہ بہت چھوٹا تھا، سائنس سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ اکھٹا ہونا شروع ہوگیا۔ اس کے علاوہ میں ایک ماہ وار رسالہ نیو سائنٹسٹ بھی ضرور خریدا کرتا۔ مجھے جنیٹکس کا اتنا چسکہ ہوگیا تھا کہ سب مجھے ڈی این اے کہنے لگے۔ ندیم کو میرے اس شوق پر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ اس بات پر مزید حیران ہوا کہ مجھے فرنچ زبان بھی آتی ہے۔ وہ زیادہ حیران اس بات پر ہواجب میں نے اسے بتایا کہ میں یہاں اِللیگل رہ رہا ہوں۔ خیر یہ کوئی اتنی بھی بڑی بات نہیں۔ لندن میں غیرملکیوں کی زیادہ تعداد اِللیگل ہی ہے۔
کتابوں کے علاوہ جس چیز سے مجھے گہرا لگاؤ تھا وہ تھا میوزک۔ ۸.۹۵ کیپیٹل ایف ایم ریڈیو (Capital f.m. 95.8 radio)
میرے جینے کی وجہ تھا۔ اس میں سب سے خاص بات سٹیو پینک
(Steve Pank)
کا سیگمنٹ ہوا کرتا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فوکس
(Doctor Fox)
بھی اچھا تھا۔ میں جب ایک بجے دن کو دوکان میں داخل ہوتا تو کیپیٹل ایف ایم ۸.۹۵ سننا شروع کرتا اور رات کو گیارہ بجے جب دوکان بند ہوتی تو ریڈیو بند کیا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ میں جیسے ہی گھر پہنچتا سب سے پہلے ریڈیو کا کان مروڑ دیا کرتا۔ گھر پہنچ کر میں میلوڈی ایف ایم
(melody fm)
، کس ۱۰۰
(kiss 100)
اور جیز ایف ایم
(jazz fm)
سنا کرتا۔ میرے پاس غزلوں کی بہترین کلیکشن تھی۔ میں غزلیات سے بھی لطف اندوز ہوا کرتا۔ جب میں نے نیا نیا کام شروع کیا تو میری چھٹی جمعرات کو ہوا کرتی اس لیے میں بدھ کی رات کام ختم کرنے کے بعد نائٹ کلب جایا کرتا۔ پھر میری چھٹی کا دن بدل گیا اور میری چھٹی ہفتے والے دن کردی گئی۔ اب میں جمعے والے دن نائٹ کلب جانیلگا۔ لندن کا شاید ہی کوئی ڈسکوتھیک ہوگا جو میں نے نہ دیکھاہو۔ میرے پاس ایک مکمل فہرست تھی۔ اس کے علاوہ ہر کلب کے ڈریس کوڈ بھی مجھے پتا ہوتے۔ ان کے ایڈریسس اور اینٹری فیس بھی۔ چونکہ مجھے میوزک اور ڈانس کا بہت شوق تھا اس لیے میں ڈسکوتھیک میں چار پانچ گھنٹے پوری طرح محظوظ ہوا کرتا۔ بہت سے لوگوں کی خواہش ہوتی کہ وہ میرے ساتھ ڈسکوتھیک جائیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہی تھی کہ میں مسلسل ڈانس کرتا تھا اور اچھا ڈانس کرتا تھا۔ کچھ ڈانس میں نے ڈسکوتھیک میں ڈانس کرنے والوں سے سیکھا۔
ژ
اب میں اصل کہانی کی طرف آتا ہوں۔ کچھ عرصے بعد جاوید صاحب نے اپنی بیوی کے رشتے دار کو کام سے فارغ کردیا۔ اس کی وجہ بتانا میں مناسب نہیں سمجھتا، لیکن اس کے بعد دوکان کا کرتا دھرتا مجھے بنا دیا۔ اب میں ہر چیز کا ذمہ دار تھا۔ دوکان میں کوئی چیز کم ہو، خریدنی ہو، تہ خانے میں سٹاک کیا ہوا سامان، دوکان کی صفائی، ہر چیز کی ذمہ داری میری تھی۔ دوکان بند کرنا، اس کے لیے دوکان کی چابیاں بھی میرے پاس ہوا کرتیں۔ اب میں کیشیئر کم منیجر تھا۔ میں صرف کھانا کھانے کے لیے یا چائے پینے کے لیے ٹل کیش سے اترا کرتا۔ اس طرح دوکان میں آنے والے تمام گاہک ایک بجے سے لیکر رات گیارہ بجے تک میرا چہرہ دیکھا کرتے۔ ہاں اگر کبھی فرصت مل جائے تو شراب کے سیکشن کی نوک پلک میں ہی سنوارا کرتا۔ اس منی سٹور میں بیشمار گاہک آیا کرتے اور ہر کوئی اپنے اندر اِک داستان چھپائے بیٹھا تھا لیکن ایک بوڑھی عورت نے مجھے بہت متاثر کیا۔
بوڑھی عورت اس لیے کیونکہ وہ ستّر سال سے زیادہ عمر کی تھی۔ لیکن لندن اور یورپ میں ستّر سال کے انسان کو بوڑھا نہیں کہتے۔ خیر تو بات ہورہی تھی اس بوڑھی عورت کی۔ اس کا قد پانچ فٹ سے بھی کم تھا لیکن ایڑھی والے جوتے پہن کر اس کا قد پانچ فٹ تک پہنچ جاتا۔ بال اس کے کٹے ہوئے تھے شانوں تک۔ لیکن وہ بڑی نفاست سے کنگھی کرتی یا شاید برش استعمال کرتی ہو۔ بالوں کا رنگ نہ سفید تھا نہ کالا بلکہ گرے رنگ کے بال تھے۔ جب دھوپ میں سڑک پر چل رہی ہوتی تو اس کے بالوں میں اِک عجیب سی چمک پیدا ہوتی۔ چہرہاس کا جھریوں سے بھرا ہوا تھا لیکن جھریوں کے باوجود بڑی بارعب نظر آتی۔ ناک نقشہ اچھا تھا اور اس کے چہرے مہرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر آپ ماضی کے نہاں خانوں میں جائیں اور متصور کریں تو آپ کو یقیناًیہ محترمہ کافر ادا حسینہ نظر آئیں گی۔ وہ زیادہ تر سکرٹ ہی پہنتی۔ جس سے اس کی بوڑھی پنڈلیاں نظر آتیں۔ ان پر اس کے بڑھاپے کے آثار صاف دکھائی دیتے۔ جوتی انتہائی نفیس پہنا کرتی، کبھی کبھی جرابیں بھی پہن لیا کرتی لیکن جسم کی رنگت والی، جنہیں سکن کلر سوکس کہتے ہیں۔ اس کاانگریزی بولنے کا انداز بتاتا تھا کہ وہ انگلینڈ کی نہیں بلکہ سکاٹ لینڈ کی ہے یا آئرلینڈ کی ہے۔ کیونکہ لندن میں رہتے ہوئے مجھے مختلف علاقوں کے ایکسنٹ کا اندازہ ہوگیا تھا۔ سکاٹس، آئیرش، ویلش اور لیورپول کا ایکسنٹ مختلف تھا۔ صاف پتا چل جاتا تھا کہ کون کس علاقے کا ہے۔ حتیٰ کہ ساؤتھ افریقہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا بھی ایکسنٹ مختلف ہے۔ امریکی انگریزی تلفظ سے تو سب ہی
واقف ہیں۔ جن دنوں میں کیش کاؤنٹر پر کام نہیں کیا کرتا تھا بلکہ صرف شیلوز بھرا کرتا تھا، ان دنوں بھی یہ بوڑھی آیا کرتی لیکن میری اس سے زیادہ بات چیت نہ ہوا کرتی۔ میرا کام صرف اتنا ہوتا، وہ جیسے ہی دوکان میں قدم رکھتی میں شیلف سے گِنس ڈرافٹ کے آٹھ کین اٹھا کر انہیں پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا کرتااور وہ آٹھ پاؤنڈ ادا کرکے چلی جاتی۔ کبھی کبھی چھوٹی موٹی بات چیت ہوجاتی لیکن مجھے یہی ڈر ہوتا کہ اگر زیادہ بات کی تو جاویدصاحب ناراض ہوجائیں گے۔ میں چونکہ ان کے پاس اِللیگل کام کرتا تھااور میں خود تھا بھی اِللیگل یعنی میرے پاس انگلستان میں رہنے کا اجازت نامہ نہیں تھا اس لیے کوشش یہی ہوتی کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ نہ صرف مجھے بلکہ تمام اشخاص کو، جو اس دوکان میں کام کرتے تھے، بڑی حیرت ہوتی کہ یہ بوڑھی عورت دِکھنے میں تو بڑی مہذب اور باوقار ہے لیکن روزانہ آٹھ کین شراب کے پی جاتی ہے۔ اس وقت تک مجھے اتنا بھی نہیں پتا تھا کہ شراب کی کتنی اقسام ہوتی ہیں۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ بیئر کی کتنی اقسام ہیں۔ بس ہر وہ چیز جس میں الکوحل ہو اسے ہم شراب کہتے ہیں۔
اس بوڑھی عورت کے بارے میں ایک بات بتانا میں بھول گیا، جب وہ بات کرتی تواس کے دانت ہلتے۔ میں یہ سمجھا کرتا شاید اس کے مسوڑھوں میں کچھ گڑبڑ ہے لیکن غور کرنے پر پتا چلا کہ اس کے سارے دانت نقلی تھے۔ مجھے اس عورت کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا لیکن تجسّس بہت زیادہ تھا کیونکہ جاوید صاحب، ان کے بھتیجے اور جو کوئی بھی اُسے شراب خریدتے دیکھتا حیران ہوتا۔ یورپ میں چونکہ شراب پینا، بیچنا اور اس کے علاوہ کچھ بھی کرنا برا نہیں تصور کیا جاتا اس لیے کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ چونکہ یہ عورت کافی بوڑھی تھی اس لیے سب کو حیرت ہوتی تھی۔ ویسے تو انگلینڈ میں ۸۰ اور ۹۰ سال کے بوڑھے وہسکی اور برانڈی کی پوری پوری بوتل پی جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال جیفرسن
(Jefferson)
تھا جو روئل نیوی میں پوری دنیا گھوم چکا تھا۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے انڈیا بھی رہ چکا تھا۔ اُسے انڈیا بہت پسند تھا۔ اس کی عمر پچاسی سال تھی لیکن اس سے پنچا چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ وہ روز ایک بوتل بیلز وہسکی
(Bells Whisky)
(وہسکی کی ایک قسم) پی جاتا اور بیس سگرٹ پیا کرتا۔ وہ کہتا تھا، میری صحت کا راز یہ دونوں چیزیں ہیں، ڈاکٹر بکواس کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ مجھے شراب کے بارے میں علم ہونے لگا۔ اب میں جانتا تھا کہ برانڈی
(brandy)
، کونیئیک
(cognac)
اور وہسکی
(whisky)
میں کیا فرق ہے۔ جِن
(jin)
، رم
(rum)
اور ٹکیلا
(tequilla)
میں کیا فرق ہے۔ اس کے علاوہ اولڈ بیلیز
(old bailays)
، پیغنوڈ
(pernod)
، ریکا
(ricard)
کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرلی تھیں۔ بیئر کا شعبہ بالکل علیحدہ تھا۔ اس میں ڈرافٹ (draught)
، پلسنر
(pilsner)
، بِٹر
(bitter)
اس کے علاوہ کئی اقسام تھیں۔ گنِس ڈرافٹ
(guiness draught)
وہ بیئر ہے جو بہت طاقت سے بھرپور ہوتی ہے۔ پہلے پہلے یہ ہسپتال میں مریضوں کو طاقت فراہم کرنے کے لیے پلائی جاتی تھی کیونکہ اس میں آئیرن بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میں لوہا اس لیے نہیں لکھتا کیونکہ لوگ جسم میں آئیرن کی کمی کو تو باآسانی سمجھ لیتے ہیں لیکن لوہے کی کمی ان کے پلے نہیں پڑتی۔ ہاں اگر فولاد لکھا جائے تو شاید کچھ بات بن جائے۔ اگر میں کسی کو کہوں کہ اس کے جسم میں لوہے کی کمی ہے تو وہ بغلیں جھانکناشروع کردے گا۔ اتنی بات تو میری سمجھ میں بھی آچکی تھی کہ یہ عورت اپنے جسم میں فولاد یا آئیرن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پیتی ہے۔
میں کام کے دوران ہر وقت ہنستا کھیلتا اور ناچتا گاتا رہتا اور اس طرح خود کو کام میں مصروف رکھتا۔ یہ بات گاہکوں کے لیے بڑی عجیب تھی۔ اس لیے وہ سب حیران ہوتے کہ نہ جانے اس شخص کو کیا خوشی ہے کہ یہ ہر وقت ہنستا کھیلتا رہتا ہے۔ میں اگر کسی گاہک سے پوچھتا کہ کیا حال ہے تو جواب ملتا، ’’سروائیونگ‘‘
(surviving)
یعنی جی رہا ہوں۔ وہ جی رہا ہوں ایسے کہتا جیسے ابھی مر جائے گا۔ میں ان سے کہتا، سر پر چھت ہے، جسم پر کپڑا ہے اور کھانے کو روٹی ہے تو سروائیونگ نہیں ہوتا بلکہ ویری گُڈ ہوتا ہے۔ میں اپنے اس مقولے پر یا فلسفے پر اب بھی قائم ہوں۔
اس عورت کو جاننے کا تجسّس اب بھی باقی تھا۔ مجھے اس عورت کے بارے میں مزید جاننے کا موقع اس وقت ملاجب جاوید صاحب نے مجھے کیش پر کھڑا کیا اور دوسرے لڑکے کو، جو کیش پر بیٹھا کرتا تھا، اسے فارغ کردیا۔ اب وہ جب بھی آیا کرتی یا اُسے میں سڑک پر دور سے آتے ہوئے دیکھتا تو میں عاطف کو کہہ دیا کرتا کہ آٹھ کین ڈرافٹ کے لے آؤ۔ ہمارے ہاں ہمیشہ گنِس ڈرافٹ کا کین ۳۳ ملی لیٹر کا ہوا کرتااور وہ بھی ۳۳ فیصد زیادہ والا، اس لیے یہ کین عام کین سے بڑا ہوا کرتا۔ کبھی کبھی عام کین
بھی ہوتے جن پر سپیشل آفر نہ ہوتی۔ اس بات پر وہ عورت بڑی ناخوش ہوا کرتی لیکن طوحاً وکرحاً لے جایا کرتی۔ وہ جب بھی آتی میں اُس سے کوئی نا کوئی بات کیا کرتا۔ کبھی اس کے بالوں کی تعریف کردیا کرتا، کبھی اس کی سکرٹ کی تعریف کردیا کرتا، کبھی ہاتھ کی انگلیوں میں پہنی ہوئی انگوٹھیوں کی۔ وہ جانتی تھی کہ میں اس کے ساتھ مذاق کرتا ہوں۔ اس لیے وہ میری ان باتوں کا بالکل برا نہ منایا کرتی بلکہ محظوظ ہوا کرتی۔ ایک دن میں نے اُسے ازراہِ تفنن شادی کی پیش کش کردی تو وہ ہنستے ہنستے کہنے لگی، ’’میں نے تین شادیاں کی تھیں۔ تینوں کو میں نے خود چھوڑا ہے یعنی انہیں میں نے خود طلاق دی ہے۔ یہ انگوٹھیاں مجھے اس بات کی یاد دلاتی ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ نہیں کیا۔ اس طرح سلسلہ چلتا رہا اور وہ عورت ہر دفعہ مجھے کوئی نا کوئی نئی بات بتا کر چلی جایاکرتی۔ نہ تو میرے اندر اتنی ہمت تھی کہ میں اس سے پوچھتا کہ تم یہ بیئر کیوں لے کرجاتی ہو اورنہ یہ اخلاقی نقطۂ نگاہ سے ٹھیک تھا۔ اور ویسے بھی یورپ میں اس بات کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
مجھے جمعے والے دن جلدی کام پر جانا پڑتا تھا کیونکہ جاوید صاحب کو جمعے کی نماز پڑھنی ہوتی تھی۔ یہ حقیقت مجھ پر بعد میں کھلی کہ جمعے والے دن اکثر دوکانوں والے اکھٹے ہوتے ہیں اور جمعے کی نماز کے بعد اس بات پر گفتگو کرتے ہیں کہ سستی بیئر یا شراب کہاں سے ملتی ہے۔ اسی طرح میں ایک دفعہ جمعے والے دن کام پر جلدی پہنچا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ وہ عورت دور سے بھاگتی بھاگتی دوکان کی طرف آرہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جلدی میں ہے۔ دوکان میں داخل ہوتے کہنے لگی، ’’تم میرے ساتھ ایک نیکی کرسکتے ہو‘‘۔ میں نے کہا، ’’بتاو، میں یہ نیکی ضرور کروں گا اگر میری بس میں ہوا‘‘۔ تو کہنے لگی، ’’یہ میرا ایڈریس ہے۔ میں تین دنوں کے لیے شہر سے باہر جارہی ہوں۔ تم اگر تین دن متواتر اس ایڈریس پر آٹھ کین گنِس ڈرافٹ کے پہنچا دیا کرو‘‘۔ میں نے کہا، ’’کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ میں نے تجسّس بھرے لہجے میں پوچھا، ’’تم شہر سے باہر جارہی ہوتو ڈرافٹ کس کے لیے‘‘۔ تو کہنے لگی، ’’یہ میرے بیٹے کے لیے ہے۔ وہ معذور ہے۔ اس کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں۔ وہ کب تک زندہ رہے گا یہ میں نہیں جانتی لیکن صرف اور صرف وہ اس ڈرافٹ کے سہارے زندہ ہے‘‘۔ میری حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ بالکل بت کی طرح ساکت اُسے دیکھنے لگا۔ وہ کہنے لگی، ’’کیا ہوا، تم یہ نہیں کرسکتے‘‘۔ میں نے کہا، ’’کیوں نہیں‘‘۔ اس نے کہا، ’’اب میں جلدی میں ہوں۔ یہ تم تین دنوں کے یعنی ۲۴ کینز کے پیسے ابھی کاٹ لو۔ جہاں میں جارہی ہوں اگر میں وہاں کسی وجہ سے ایک دن زیادہ رک گئی تو تم مہربانی کرکے وہاں اس دن بھی آٹھ کین پہنچا دینا۔ ان کینز کا حساب کتاب میں واپس آکر بے باک کر دوں گی‘‘۔ میں نے سارے پیسے واپس کردیئے اور کہا، ’’جب تم آؤ گی تو اکھٹا حساب کرلیں گے‘‘۔ اس نے مجھے تشکر آمیز انداز میں دیکھااور چلتی بنی۔ میں نے ایڈریس سنبھالا، عاطف کو کیش پر کھڑا کیا اور آٹھ کین لے کر اس کے بتائے ہوئے پتے پر چل پڑا۔ مجھے گھر ڈھونڈنے میں کافی مشکل پیش آئی کیونکہ جہاں کا اس نے ایڈریس دیا تھا وہاں سارے لوگ معذور ہی تھے۔ میں نے ایک فلیٹ کی گھنٹی بجائی ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ۔ جب میں مایوس ہوکر واپس آنے لگا تو اندر سے آواز آئی، ’’کم اِن‘‘ میں نے جواب میں مختصراً اپنا مدعا بیان کیااور دروازے کو دھکیل کے اندر داخل ہوگیا۔ اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں، منظر ہی الگ ہے۔ ہر چیز اس انداز سے پڑی ہے جسے معذور آدمی باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس شخص نے ایک بڑی سی چھڑی رکھی ہوئی تھی جس کو وہ اپنے استعمال میں لاتا تھا۔ فلیٹ میں دنیا کے تمام لوازمات تھے۔ یہ معذور شخص شکل و صورت سے بالکل اپنی ماں کی طرح تھا اور جسمانی طور پر بالکل صحت مند تھا لیکن اس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک بالکل غائب تھیں۔ مجھے بڑا تجسّس ہواکہ یہ شخص نہاتا کیسے ہوگا، اجابت خانے
تک جا کے اپنی حاجت کیسے رفع کرتا ہوگا۔ نہ جانے کس وجہ سے مجھے اس کے غسل خانے میں جانے کا اتفاق ہوا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس کی بناوٹ ایسی ہے، ایک معذور آدمی اسے باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔ میں نے جب اس شخص سے رخصت طلب کی تو کہنے لگا، ’’افسوس میں تمہیں کھانے کے لیے کچھ نہیں پیش کرسکتااس لیے یہ پانچ پاؤنڈ ٹپ رکھ لو‘‘۔ میں نے انکار کردیا۔ اس کو خدا حافظ کہہ کر دوکان کی راہ لی۔ یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہا اور چوتھے روز وہ عورت خود وارد ہوئی۔ اس نے تمام پیسے بھی ادا کئے اور بہت بہت شکریہ بھی ادا کیا۔ میں نے اس سے کہا، اگر آئندہ اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو تو فون کردیا کرنا۔ میں نے اُسے کاغذ پر دوکان کا فون نمبر لکھ کر دیا۔ اس کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے کو اس نے اپنے چھوٹے سے پرس میں رکھ لیا۔
اب میری اس عورت سے کافی جان پہچان ہوگئی تھی۔ میں اس کے حوصلے کی داد دیتا تھا کہ یہ بوڑھی عورت کتنی مضبوط قوتِ ارادی کی مالک ہے۔ اس کا جوان بیٹا معذور ہے اور یہ اس کی خدمت چھوٹے بچے کی طرح کرتی ہے۔ اب تو میری حالت ایسی تھی کہ جب کبھی وہ نہ آئے تو تجسّس ہوا کرتا کہ کیوں نہیں آئی۔ جب کبھی ملاقات ہوتی تو بتایا کرتی کہ صبح سویرے جاوید صاحب سے لے گئی تھی۔ اب تک دوکان میں کام کرنے والے سبھی لوگجان چکے تھے کہ یہ عورت گنِس ڈرافٹ کے آٹھ کین اپنے معذور بیٹے کے لیے لے کر جاتی ہے۔ میرا مطلب ہے جاوید صاحب، عاطف اور جاوید صاحب کے بھتیجے جو ہفتے میں ایک آدھ دفعہ آیا کرتے تھے۔
وقت اسی طرح گزرتا رہا اور وہ عورت اسی طرح ڈرافٹ لے کرجاتی رہی۔ لیکن اچانک وہ غائب ہوگئی۔ ہم یہ سمجھے کہ وہ اس دنیاسے رخصت فرما گئی ہے۔ کئی دفعہ سوچا کہ اس کے بیٹے کے فلیٹ پر جاکر پوچھوں لیکن مجھے یہ کبھی بھی مناسب نہ لگا۔ اس لیے اپنے آپ کو اس ارادے سے باز رکھا۔ بہت عرصہ گزر ا، میں نے دوکان کے باہر، سڑک کے اُس پار اسے جاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے آواز دی لیکن شاید اس نے سنا نہیں۔ میں نے عاطف کو کیش پر کھڑا کیا اور بھاگ کے اس کے پاس چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔ میں نے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ اس نے بتایا کہ اس کا بیٹااب اس دنیا میں نہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے پوچھا، تم غائب کہاں ہوگئی تھیں۔ تو کہنے لگی، میں یہاں سے چلی گئی ہوں۔ میں ویسے ہی لندن کسی کام سے آئی تھی۔ تو میں نے کہا، دوکان میں کیوں نہ تشریف لائیں۔ تو کہنے لگی، بس گنِس ڈرافٹ کے ساتھ میرے بیٹے کی یاد وابستہ ہے۔ چونکہ تمہیں اس بات کا علم تھا، اس لیے تمہیں دیکھتے ہی مجھے اس کی یاد آجاتی اور مجھ سے ضبط نہ ہوتا، اس لیے میں سڑک کے اس پار جارہی تھی لیکن تمہارے اخلاق کی داد دینی پڑے گی کہ تم نے مجھے روک لیا۔ حالانکہ اس مادہ پرست دنیا میں، خاص کر یورپینز کو کیا لگے کہ کس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔ اتنا کہہ کر وہ چلتی بنی اور میرے دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔

SARFRAZ BAIG
BAIGSARFRAZ@HOTMAIL.COM

No comments:

Post a Comment