Sunday, June 9, 2013

تا خیر، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ

 
 
تاخیر

رابعہ اور عنبرین روزانہ ایک ہی راستے سے کالج جاتی تھیں۔ ان دونوں کا گھر پنڈی کی نئی تعمیر شدہ آبادی ،ڈھوک چوہدریاں میں تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ دونوں کے گھر افشاں کالونی میں تھے اور دونوں کے گھروں زیادہ فاصلہ بھی نہیں تھا۔رابعہ کا گھر پہلے آتا تھا اس لیئے وہ عنبرین کو ساتھ لے لیا کرتی۔ دونوں کا کالج مغل آباد میں تھا۔ یہ دونوں روزانہ ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے ہوتی ہوئی پیدل ہی کالج جایا کرتیں۔
آج بھی روزانہ کی طرح رابعہ نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور چائے کے آخری گھونٹ پیئے۔کتابیں اٹھائیں اور ماں کو جاتے جاتے اونچی آواز میں کہا، ’’امی میں جارہی ہوں۔مجھے دیر ہورہی ہے‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ کالج کا سکارف سنبھالتی ہوئی عنبرین کے گھر کی طرف چل پڑی۔وہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی عنبرین کے گھر کے پاس پہنچی۔ وہ باہر کھڑی انتظار کررہی تھی۔ اس نے پوچھا اتنی دیر کیوں کردی۔ تو رابعہ کہنے لگی،’’ میرا فولڈر نہیں مل رہا تھا۔شکر خدا کا کہ مل گیا۔جلدی جلدی ناشتہ کیا اور آگئی‘‘۔ عنبریں نے کہا،’’ اچھا چلو ،پہلے ہی دیر ہوچکی ہے‘‘۔ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی چلتی چلی جارہی تھیں۔انہیں یقین تھا کہ میڈم شکیلہ سے ضرور ڈانٹ پڑے گی کیونکہ پہلا پیریڈ انہی کا ہوتا ہے۔ دونوں چلتے چلتے کبھی کتابوں کو، کبھی فولڈر کو، کبھی سکارف کو ٹھیک کرتیں۔ راستے میں دوکانیں بھی آتیں،کالج کے لڑکے بھی اور مختلف قسم کے راہگیربھی۔ سب خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں،لڑکیوں کی طرف ضرور دیکھتے ہیں۔ وہ مختلف گلیوں سے ہوتی ہوئی چلی جارہی تھیں کہ اچانک وہ سامنے آگئے۔ رابعہ کہنے
لگی،’’پہلے ہی دیر ہوچکی ہے اور اب یہ آگئے ہیں‘‘۔ عنبرین کہنے لگی،’’ مجھے تو بہت ڈرلگ رہا ہے۔ ان کے پا س سے کیسے گزریں گے‘‘۔دونوں کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔ وہ ابھی اس بارے میں سوچ ہی رہی تھیں کہ وہ خود ان کے قریب آگئے۔ دونوں کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رکی ہوئی تھی۔ رابعہ نے تھوڑی ہمت کی اور چل پڑی۔ عنبرین اس کے پیچھے پیچھے۔دونوں کا گلہ اس طرح خشک ہوگیا جس طرح کئی دنوں کی پیاسی ہوں وہ بھاگ بھی نہیں سکتی تھیں اور رک بھی نہیں سکتی تھیں۔گلی میں کھڑے سب لوگ ان کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ان دونوں کا شرم کے مارے برا حال تھا،ڈر اور شرم کی وجہ سے ان کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسی اثناء عنبرین کے ہاتھوں سے کتابیں چھوٹ کر زمین پر آگریں۔جیسے ہی کتابیں گریں وہ ان کے اور قریب آگئے۔ وہ کتابیں اٹھانے کے لیئے جھکی تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ عنبرین کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اس نے جلدی سے کتابیں اکھٹی کیں۔رابعہ نے اس کا ہاتھ کھینچااور کہا،’’ جلدی چلو ‘‘اور وہ اسے کھینچ کے آگے لے گئی۔ دونوں نے تیز تیز قدموں سے چلنا شروع کردیا۔ وہ دونوں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔وہ دونوں ان کو کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھیں۔وہ کافی دور تک ان کے پیچھے آتے رہے۔ جب یہ کالج کے پاس پہنچی تو وہ کسی گلی میں مڑ گئے۔
*****************
جب کالج میں داخل ہوئیں تو ان کی کلاس کو شروع ہوئے آدھا گھنٹا گزر چکا تھا۔ مِس شکیلہ کے پیریڈ کے ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔ دونوں نے سوچا کہ اگر پیریڈ چھوڑ دیا تو زیادہ برا ہوگا۔ اس لیئے ڈرتے ڈرتے کلاس میں داخل ہوئیں۔ مس شکیلہ دور ہی سے گرجیں، ’’اب آئیں ہیں شہزادیاں‘‘۔ مِس وہ مِس‘‘۔’’مِس مِس کی بچی، پتا نہیں کہاں سے آوارہ گردی کرتی ہوئی آرہی ہو‘‘۔ رابعہ نے ہمت کرکے کہا، ’’مِس وہ ہمارے پیچھے‘‘۔ مِس شکیلہ پوری بات سنے بنا ہی کہا، ’’ان کا تو کام ہے پیچھے آنا‘‘۔
’’مِس ہم نے بہت کوشش کی لیکن وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے تھے‘‘۔ ’’تم نے گالیاں نہیں دیں‘‘۔ ’’مِس کتوں کو کون گالیاں دے‘‘۔’’میں جانتی ہوں ان کو ۔یہ اسی لائق ہوتے ہیں۔انہیں گالیاں نہیں دینی چاہیئیں بلکہ جوتے مارنے چاہیئیں‘‘۔ ’’لیکن مِس ہم تو ڈر کے مارے ان کے قریب ہی نہیں جارہے تھے‘‘۔’’میں تمہاری جگہ ہوتی تو ان کے قریب جاتی۔ ان کو گالیاں کو خوب گالیاں دیتی اور جوتوں سے مرمت بھی کرتی‘‘۔’’مِس اگر وہ کاٹ لیتے تو‘‘۔ مِس شکیلہ ہنس پڑیں اور ان کے ساتھ ساری کلاس بھی ہنس پڑی۔
SARFRAZ BAIG( baigsarfraz@hotmail.com)
arezzo 30/11/2006

No comments:

Post a Comment