Sunday, June 9, 2013

آزادیِ نسواں، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ


آزادی ءِ نسواں

’’ہیلو فرینڈز
(hello friends)
، کیا حال ہیں‘‘۔ ’’چلو بھئی روہیل آگیا اب خوب محفل جمے گی۔کیونکہ روہیل بحث میں ماہر ہے۔ کسی بھی بات کے میرٹس
(merits)
اور ڈی میرٹس
(demerits)
بڑے اچھے طریقے سے ایکسپلین
(explain) کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں خود کو منوالیتا ہے۔ امجدنے کہا ہم لوگوں نے صرف ایم اے
(M.A.)
کا امتحان دیا ہے اور کورس کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا لیکن موصوف نے اپنے ادبی ذوق کو اتنا جواں رکھا ہے کہ کسی بھی موضوع پر بات کرو جناب بڑی خوبی سے گہرائی میں چلے جاتے ہیں‘‘۔
’’روہیل اپنے خاص انداز میں بولا ، ’’بکواس بند کرواور میری بات سنو تم لوگ تو شاید نوکریاں تلاش کررہے ہوگے لیکن میرے پیرنٹس
(parents)
میری شادی کررہے ہیں۔امیر ہونا بھی ایک عذاب ہے۔ والد صاحب اپنا کاروبار بڑھانا چاہتے ہیں اور مجھے ان کے بزنس پارٹنر
(business partner)
کی بیٹی سے شادی کرنی ہوگی‘‘
روہیل کے سب دوست یک زبان ہوکر بولے، ’’ارے تم تو یونیورسٹی کے تمام مباحثوں میں شادی کے خلاف بولا کرتے تھے۔یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔‘‘۔امجد بولا، ’’ارے لڑکی دیکھی بھی ہے کہ نہیں‘‘۔ روہیل جیسے انتظار میں تھا بول پڑا، ’’لڑکی بڑی خوبصورت ہے اور ہمارے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی رہی ہے۔ وہ محترمہ انگلش لٹریچر پڑھتی رہی ہیں اور ہم فلاسفی،لیکن ایک خرابی ہے ۔لڑکی بڑی مذھبی قسم کی ہے اور نماز روزے کی پابند ہے اور میں ٹھہرا کارل مارکس
(karl marx)
اور برٹرینڈ رسل
(bertrend russel)
کا شاگرد۔روسو
(rosseau)
نے ٹھیک ہی کہا، انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے لیکن وہ معاشرتی زنجیروں میں جکڑاہوا ہے۔اب میں اپنے والد صاحب کے کاروبار کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں‘‘
فیض سب کی گفتگو سن رہا تھا بیچ میں بول پڑا،’’یار وہ فریحہ کا کیا کرو گے روہیل‘‘۔ ’’ارے یار کچھ نہیں بس ہم پڑھے لکھے لوگوں کا یہی تو فائدہ ہے سب باتیں خود ہی سمجھ جاتے ہیں۔وہ بھی سمجھدار لڑکی ہے۔ اس
نے ابورشن
(abortion)
کروالیا، حالانکہ حفاظتی تدابیر بھی استعمال کی تھیں۔اینی وے
(anyway)
یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں‘‘
فیض چونکہ بات سے بات نکالنے کا عادی تھا۔عادتاً روہیل سے پوچھ بیٹھا، ’’ارے اگر تمھاری ہونے والی بیوی بھی ایسی ہی ہوئی، یعنی ابورشن
(abortion)
کرواچکی ہوئی تو کیا کرو گے‘‘روہیل نے جواب دیا، ’’ارے کچھ بھی نہیں،تم تو جانتے ہو میرے گْرو سعادت حسن منٹو کو ان کی افسانہ نگاری نے مجھے اتنا بولڈ
(bold)
کردیا ہے۔یعنی عورت کی عزت کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ میں پروسٹیٹیوٹ
(prostitute)
کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک عزت کا پردے سے کوئی تعلق نہیں اور تم تو جانتے ہی ہو کہ ہر بری عورت کے پیچھے کسی مرد کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘۔’’یہ موپاساں
(maupassant)
نے کہاہے شاید‘‘ فیض بول پڑا۔’’ہاں بالکل درست ہے‘‘۔ وہ تھوڑی دیر کے لیئے رکا پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا، ’’میں تو عورت کو دبانے کے حق میں نہیں ہوں۔ عورت کو دبانا ایک ذہن کو دبانا یعنی دنیا کو ایک برِین
(brain)
سے محروم کرنا ہے اور سیکس
(sex)
تو ویسے بھی نیچرل
(natural)
ہے اس بات کو فرائڈ
(freud)
نے اور بعد میں کامل پالیہ
(camille paglia)
نے تسلیم کیا ہے۔چونکہ پاکستان میں لِٹرِیسی ریٹ لو
(litracy rate low)
ہے اس لیئے لوگ اس بات کو بڑے عرصے بعد سمجھیں گے۔شاید نہ ہی سمجھ سکیں‘‘۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ امجد بول پڑا، ’’ارے آجکل کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض ویمن لبرل ازم
(women liberalism)
پہ کافی کام کر رہی ہیں‘‘۔ روہیل نے جواب میں کہا، ’’اگر عورتوں کی تحریک میں مردوں نے حصہ لیا تو میں اس کا سرگرم رکن ہوں گا۔کتنی عورتیں مردوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔حالانکہ یہی کام میوچل انڈرسٹینڈنگ
(mutual understanding)
سے کرلیں تو نہ انہیں خود کشی کرنی پڑی اور نہ ہی اخباروں کی ہیڈلائنز
(headlines)
بنیں‘‘۔۔۔۔۔’’ارے یار آج کی محفل برخاست کرتے ہیں‘‘ روہیل نے کہا اور اپنے دوستوں کو شادی کے انویٹیشن کارڈز
(invitation cards)
دے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہیل نے بڑی مشکل سے اپنے دوستوں سے جان چھڑائی اور حجلہءِ عروسی میں داخل ہوا۔ اس کی بیوی فرح نے جو کہ عام لڑکیوں کی طرح شرمائی لجائی تو نہیں لیکن بناوٹی سا گھونگھٹ نکالے بیٹھی رہی۔روہیل نے سکوت توڑا، ’’جیسا کہ فرح میں تمہیں جانتا ہوں۔تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو اور ہم یونیورسٹی میں اکھٹے پڑھتے رہے ہیں۔گو کہ مضامین الگ الگ تھے لیکن یونیورسٹی ایک ہی تھی۔تم میں اور مجھ میں صرف اتنا فرق ہے کہ تم مونث ہو اور میں مذکر ہوں۔تم ذرا مذھبی خیالات کی مالک ہو اور میں کومیونسٹ
(communist)
قسم کا ہوں۔میرے بارے میں تمہیں سب کچھ معلوم ہے کہ میں شادی کرنا نہیں چاہتا تھا نہ ہی میں اس قید کا قائل ہوں خیر عورت اور مرد کے ملاپ یعنی سیکس
(sex)
کو بالکل نیچرل
(natural)
سمجھتا ہوں اور چونکہ یہ نیچرل
(natural)
ہے اس لیئے یہ جر م نہیں ہے۔ جس طرح مرد کو حق ہے اس طرح عورت کو بھی حق ہے کہ وہ جنسی تسکین کے لیئے دیگر ذرائع استعمال کرے۔تم نے منٹو کو تو پڑھا ہی ہے۔ ‘‘۔ جب روہیل بول چکا، شادی کا تحفہ پہنا چکا تو فرح بولی، ’’چونکہ آپ کافی لبرل
(liberal)
ہیں اور ویمن لبرل ازم
(women liberalism)
پہ آپ کافی کچھ بول چکے ہیں اس لیئے میں کچھ اپنے بارے میں بتانا پسند کروں گی۔آپ کے نزدیک تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی لیکن میرے نزدیک ایک جرم ہے۔ میں کسی کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔اگر آپ چاہیں تو
ابورشن
(abortion)
کروالوں گی۔ چلیئے اب دو نفل پڑھ لیں اور اس کے بعد۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکن کی وجہ سے فرح کی آنکھ دیر سے کھلی کیونکہ رات دیر سے سوئی تھی۔لیکن بستر پر نہ تو سلوٹیں تھیں اور نہ ہی کوئی ایسے آثار تھے۔گلاس میں دودھ اسی طرح پڑا ہوا تھا اور گلاس کے ساتھ ایک خاکی لفافہ پڑا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرفراز بیگ ۱۹۹۵؍۰۹؍۲۰ لنڈن
SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)


 

No comments:

Post a Comment