Monday, June 17, 2013

نراں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG



۹
ْ ََْْْْْْْْْْْْْْْْ جب ہم ثقلین کے گھر سے نکلے تو نیائش مجھے گھر اتارکے نہ جانے کہاں چلا گیا۔ میں نے سارا دن گھر پے لکھنے میں گزار دیا۔ نہ تو ٹی وی دیکھنے کا دل کیا نہ ہی کچھ پڑھنے کو دل چاہا۔ نیائش کبھی کبھی ایسے غائب ہوجایا کرتا۔ اس کے علاوہ ثقلین کو بھی کہیں جانا تھا۔ میں رات کا کھانا کھا کے سوگیا۔ صبح جب آنکھ کھلی تو نیائش گھر پے موجود نہیں تھا۔ نہ ہی میرے پاس موبائیل تھا کہ وہ مجھے فون کرکے بتاتا۔ مجھے فون کرنے کے لیئے باہر جانا پڑتا اس لیئے میں نے ضرورت محسوس نہ کی۔ ناشتہ کرکے میں پھر لکھنے بیٹھ گیا۔ ابھی میں لکھ ہی رہا تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ میرے سامنے تین چار بندے کھڑے تھے۔ میں نے ان کو اندر آنے کو کہا۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے ۔ان میں سے ایک بولا، ’’نیائش بھائی کدھرہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ تو گھر پے نہیں ہیں۔ مجھے بتائیں میں اگر کسی کام آسکوں تو‘‘۔
’’نہیں ہمیں انہی سے کام تھا۔ ہم منہاج القران کی طرف سے آئے ہیں ۔ہم مسجد کے لیئے چندہ اکھٹا کررہے ہیں۔ وہاں سکول بن رہا ہے۔ بچوں کے لیئے درس کی جگہ بن رہی ہے۔اس کے علاوہ عورتوں کے لیئے علیحدہ انتظام کیا جارہا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو آپ کو وہی بتائیں گے‘‘۔
’’آپ بھی تشریف لائیئے گا۔ وہاں ذکر کی محفل ہے۔ قائد کا پیغام بھی سنایا جائے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اللہ اور اس کے رسول ﷺکا پیغام نہیں ہوگا‘‘۔
میری اس بات سے ان سب کی شکل ایسی ہوگئی جیسے ان کے منہ میں کڑوا بادام آگیا ہو‘‘۔
وہ سب مجھے سلام کیئے بغیر ہی چلے گئے۔
میں بڑا حیران ہوا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو ان کو برا لگا۔ اب میرا لکھنے کو بالکل جی نہ چاہا۔ میں جاکے پی سی او پے کھڑا ہوگیا۔ وہاں گپ شپ کے لیئے کوئی نا کوئی مل جاتا۔ کچھ لوگ تو مجھ سے اجتناب فرماتے، کچھ میری باتوں سے محظوظ ہوتے۔ میرے دماغ کے لیئے یہ بہت بڑی ریفریشمنٹ ہوتی۔ میں اس طرح اپنا کتھارسس کرکے دوبارہ لکھنے کے لیئے تیار ہوجاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو نیائش آیا تو اس کے ساتھ ثقلین بھی تھا۔ دونوں کسی موضوع پے بحث کررہے تھے ۔میں کھانا کھا چکا تھا اور وہ بھی کھانا کھا کے آئے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی نیائش نے کہا، ’’ماڑا میں شام کو سانسے پولکرو(Sansepolcro) چلاگیا تھا۔ وہاں بنوں سے میرا ایک دوست آیا ہوا تھا اس کے پاس رک گیا۔ اسے میں نے بڑا کہا کہ اریزو چلو لیکن وہ نہ مانا اس لیئے مجھے رات رکنا پڑا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں۔آپ مجھے سب کچھ بتانے کے پابند تو نہیں‘‘۔
’’ماڑا تم موبائیل فون بھی تو استعمال نہیں کرتے۔ ورنہ میں تمہیں اطلاع دے دیتا‘‘۔
ثقلین بولا، ’’ہاں فرشتہ صاحب آپ موبائیل فون کیوں نہیں استعمال کرتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے ہی‘‘۔
’’کوئی تو وجہ ہوگی‘‘۔
’’آپ چھوڑٰیں اس بات کو اگلا باب چاہیئے ‘‘۔
’’ہاں چاہیئے‘‘۔
میں نے نواں باب ثقلین پری پیکر کے ہاتھ میں تھمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین اور کوریا کا میچ بڑا کانٹے دار تھا ۔ہم لوگ سوچ بھی نہیں تھے کہ سپین کو شکست ہوگی۔ ساؤتھ کوریا ء نے سپین کو ہرا دیا۔ اب سینیگال اور ترکی کا میچ تھا۔ مجھے تو کھانے کے بعد دوگھنٹے کے لیئے باہر جانے کی آزادی تھی لیکن سالواتورے اور رضا کو ابھی اس کی اجازت
نہیں تھی۔ میں نے ان دونوں کو گپ شپ کے لیئے چھوڑا اور خودتازہ ہوا لینے کے لیئے باہر چلا گیا۔ میں اس گندے نالے کے کنارے چلا جا رہا تھا اور سوچتا جارہا تھا کہ آج کہاں جانا چاہیئے۔ میں سٹیشن کے پلیٹ فارمز سے ہوتا ہوا اس سڑک کی طرف چل پڑا جو جھیل کی طرف جاتی تھی۔ یہ ایک شارٹ کٹ تھا۔ آج ۲۱ جون ۲۰۰۲ کو کچھ زیادہ ہی گرمی بھی۔ گرمی کی وجہ سے حبس میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے سانس روک دی ہو یا کسی نے فضاء میں کچھ ایسا مادہ چھوڑا ہو کہ جس کی وجہ سے آکسیجن کم ہوگئی ہو۔ میں نے راستے میں چلتے ہوئے پکا
ارادہ کرلیا کہ آج میں بھی نہاؤں گا۔ میرے پاس سوئمنگ کوسٹیوم تو تھا نہیں اس لیئے یا تو میں کپڑوں سمیت نہاتا یا فطرتی لباس میں۔ میرا لیئے فطرتی لباس میں نہانا تھوڑا مشکل تھا۔ میں مقصود کے بارے
میں سوچنے لگا کہ اس نے جھیل کے کنارے اس عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں۔مجھے یاد ہے میں جب سوزی کے ساتھ سفر کررہا تھا تو میں نے کبھی بھولے سے بھی اس کا ہاتھ نہیں پکڑا تھا۔ شاید پاکستان
میں ایسا کرنا مشکل تھا لیکن یہاں پر اس طرح کی کوئی پابندی نہیں تھی۔پھر بھی ایک انجانہ سا خوف ،ایک
عجیب سی شرم و حیاء تھی میرے اندر تھی۔ دیکھنے کے حد تک تو ٹھیک تھا لیکن عملی طور پے ایسا کرنا مشکل لگتا تھا۔ خیر میں جب جھیل کے کنارے پہنچا ۔تو دور دور تک پہلے نظر دوڑائی کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا حالانکہ میں جب سے یہاں آیا تھا میں کتنے ہی سوس لوگوں کو فطری لباس میں دیکھ چکا تھا۔ ان میں بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد ،جوان سبھی تھے۔ پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے یا ہم لوگوں کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ایک جگہ چند افریقن فطری لباس میں نہارہے تھے اور کنارے پے ان کے کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ میں اور آگے چل دیا۔ ایک جگہ مجھے ایسی نظر آئی جہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے بہت مشکل سے خود کو راضی کیا۔ میرے جوتے ایسے تھے جو سینڈل نماں تھے میں نے پہلے جوتے اتارے، اس کے بعد کپڑے اتارے۔ میں نے خود کو غورسے دیکھا بھی نہیں کہ میں کیسالگ رہا ہوں اور پانی میں اتر گیا۔ مجھے تیرنا نہیں آتا اس لیئے میں بالکل کنارے پے ہی رہا۔ میرا آدھا دھڑ پانی میں تھا اور باقی جسم باہرتھا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں نیچے بڑے بڑے پتھر تھے۔ پانی صاف شفاف تھا اس لیئے پانی کے اندر نیچے تک نظر آرہا تھا۔ میرا جسم بھی نظر آرہا تھا ۔فرق صرف اتنا تھا کہ میرا جسم پانی میں تھوڑا ٹیڑھا نظر آرہا تھا۔ میں گرمی کی شدت سے تنگ آکر پانی میں فطری لباس میں اترا تھا ۔پانی بہت ٹھنڈا تھا اس لیئے میں تھوڑی دیرپانی میں رہنے کے بعد فرحت محسوس کرنے لگا۔ میں نے تین چار دفعہ پانی میں ڈْبکی
بھی لگائی لیکن بہت احتیاط سے کہ کہیں ڈوب ہی نہ جاؤں۔ ڈْبکی لگانے سے میری منہ میں بھی پانی چلا گیا لیکن پانی اتنا صاف تھا کہ مجھے بالکل بھی الجھن نہ ہوئی۔ عام طور ٹھہرا ہوا پانی منہ میں نہیں جانا چاہیئے کیونکہ صاف نہیں ہوتا لیکن یہ پانی بہت صاف تھا۔ کافی دیر پانی میں رہنے کے بعد میں جھیل سے باہر نکل
آیا ۔میرا جسم گیلا تھا لیکن مجھے اتنی شرم آرہی تھی کہ میں نے گیلے جسم پے جلدی سے جینز چڑھا لی،مجھے یہی ڈر تھا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے۔ پھر ٹی شرٹ پہنی ۔اس کے بعد میں نے اپنے سینڈل نماں جوتے پہنے۔ میں جھیل کے کنارے بیٹھ کے رنگ برنگی بادبانوں والی کشتیوں کو دیکھنے لگا جو پانی کے بہاؤ پے آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔ مجھے پانی کے درمیان ان گیندوں سے حد بندی عجیب سی لگی جو رسی میں پروئے ہوئے تھے ۔ آدھی جھیل جرمنی میں تھی اور آدھی سوئٹزلینڈ میں تھی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ہی جھیل سے ایک کتا نکلا ۔ا س نے پانی سے نکلتے ہی اپنے کانوں کو زور سے جھٹکا دیا۔ اس کے بعد اس نے ایک جھرجھری لی۔ جسم سے پانی کوصاف کیا۔ مجھے یہ سوچ کے کراہت آنے لگی کہ میرے منہ میں جھیل کا پانی گیا ہے اور اس میں کتا بھی نہایا ہے۔ یورپیئن لوگوں کے لیئے کتا گھر کے فرد کی طرح ہوتا ہے لیکن مجھے کتے سے ڈر بھی لگتا ہے اور جس پانی میں کتا نہاں کے نکلے وہ پانی میرے منہ میں گیا ہو تو مجھے قے آجانی چاہیئے۔ میرا دل خراب ہونے لگا۔ خود کو کوسنے لگا کہ میں نے جھیل میں تیراکی کا رسک کیوں لیا۔اب میرا جھیل کے کنارے پے بیٹھنے کو بالکل جی نہ چاہا۔ اس لیئے میں نے واپسی کی راہ ۔ راستے میں اسی عمارت کے پاس سے گزرا جہاں’’ آگا تھو‘‘ کا دفتر تھا۔ میں اس عمارت کی پچھلی طرف گیا۔ لوہے کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا تیسری منزل پے پہنچا جہاں ان کا دفتر تھا۔ میں نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ دروازہ کھٹ سے کھل گیا۔ یہاں آج بھی بہت سارے لوگ مہاجر کیمپ سے آئے ہوئے تھے۔ جن میں بچے ،عورتیں اور مرد تھے۔ پچھلی دفعہ جب میں یہاں آیا تھا تو یہاں ایک عورت تھی۔ لیکن آج دو عورتیں تھیں۔ ایک جوان تھی دوسری وہی تھی جس سے میں پہلے ملا تھا ۔انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ مجھ سے انہوں نے
چائے کا پوچھا تو میں نے کہا، میں خودبناؤں گا۔ میں نے خوشی خوشی چائے بنائی۔ اپنے لیئے دودھ بھی ڈالا لیکن انہوں نے کہا ہمارے لیئے اس پاکستانی چائے کا قہوہ ہی ٹھیک ہے۔ میں نے سِنک میں رکھے برتن دھوئے اور اپنی چائے لے کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میں نے اس جوان لڑکی سے پوچھا کہ اگر
انگریزی میں کوئی کتاب مل جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ وہ کہنے لگی ،ہمارے پاس نیشنل جوگرافکس ہیں۔ میں نے کہا، وہ تو میں پہلے بھی لے کر گیا تھا۔ تو کہنے لگی اس کے علاوہ ہمارے پاس انگریزی میں کوئی چیز
نہیں۔ میں نے یہاں پڑی ہوئی مختلف کتابیں الٹ پلٹ کے دیکھتا رہا۔ کچھ میگزین تھے۔ کچھ نقشے
تھے۔ میرے پاس پڑھنے کو کچھ نہ تھا اس لیئے میں اکتا گیا اور یہاں سے چلاآیا۔
میں ازیل ہائم جب واپس پہنچا تو یہاں کھانے کے تیاریاں ہورہی تھیں۔ کتنی عجیب بات تھی مجھے یہاں رہتے ہوئے پورا ہفتہ ہوچکا تھا لیکن میرا ذہن اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ رات کو کھانا کھانے کا وقت چھہ بجے بھی ہوسکتا ہے حالانکہ مجھے اب تکعادی ہوجانا چاہیئے تھا لیکن میں خود کو قائل ہی نہ کرسکا۔
یہاں آکے پتا چلا کہ ترکی میچ جیت گیا ہے۔ مجھے سینیگال کے ہارنے کا بہت افسوس تھا لیکن ترکی سیمی فائینل میں آگیا تھا اس کی خوشی بھی تھی ۔مجھے ایسا لگنے لگاورلڈ کپ کی انتظامیہ نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا ۔ اب چار ٹیمیں بچی تھیں۔ برازیل جس کے فائینل جیتنے کے امکانات بہت زیادہ تھے ۔اس کے علاوہ جرمنی، ساؤتھ کوریاء اور ترکی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جرمنی اور برازیل کا فائینل ہوگا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے میچزکیسے آتے ہیں۔
کھانے کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھ جہاں غریب ملکوں کے لوگ تھے وہاں قطار میں ایک جرمن بھی تھا، ایک اٹالین بھی تھا ۔ہم سب لوگ بھکاریوں کے طرح قطار میں کھڑے ہوگئے۔ جب جرمن نے اپنی پلیٹ اس عورت کے سامنے کی جو سب کی پلیٹ میں کھانا ڈال رہی تھی تو مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔ اس کے بعد اٹالین تھا۔ میرے پیچھے رضا بہقی تھا ۔وہ مجھے کہنے لگا، ’’فرشتہ یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں قانوناًٹھیک نہیں۔ یہ انسانیت کی تضحیک ہے۔ ہم کوئی دوسری جنگِ عظیم کے قیدی نہیں ۔ مجھے تو اپنا آپ دوسری جنگِ عظیم کے یہودیوں کی طرح محسوس ہوتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے بھی پہلے دن ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔ اب کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ بس ایک ہی بات عجیب لگتی ہے کہ یہ لوگ رات کا کھانا دن کے چھ بجے دیتے ہیں۔ سردیوں میں رات جلدی ہوجاتی ہے اس لیئے محسوس نہیں ہوتا لیکن جون کے مہینے میں سورج شام کے نوبجے بلکہ یہاں تو ساڑھے نو بجے غروب ہوتا ہے۔ رات کا تصور تو اندھیرے کے ساتھ ہے۔ یہاں کھانے کے لیئے تو رات چھ بجے ہی ہوجاتی ہے لیکن باہر سورج چمک رہا ہوتا ہے‘‘۔
بہقی بولا، ’’میں ا س کے خلاف لکھوں گا‘‘۔
سالواتورے جومیرے آگے کھڑا تھا وہ کہنے لگا، ’’میں بھی لکھوں گا۔ یہاں کی ساری کارستانی لکھوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’پہلے تو اپنی پلیٹ میں کھانا لو اس کے بعد لکھنا‘‘۔ اس نے اپنی پلیٹ کھانے کے لیئے اس عورت کو پیش کی‘‘۔ سالواتورے نے اٹالین زبان میں گالی دی۔ وہ عورت جو پلیٹ میں کھانا ڈال رہی تھی کہنے لگی، ’’گالی کیوں دیتے ہو‘‘‘۔ سالواتورے کو بہت غصہ آیا۔کہنے لگا، ’’اٹالین ہراس جگہ ہوتے ہیں جہاں آلو اور پیاز ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے مزید کہا، ’’اور ٹماٹر بھی‘‘۔
ا س کے بعد میری باری آئی پھر رضا کی۔ ہم تینوں اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا لے کر میز پے آگئے۔ رضا پوچھنے لگا، ’’تم کہاں غائب ہوگئے تھے‘‘۔ میں نے کہا، ’’میں جھیل کے کنارے گیاتھا۔ یہاں کرائس لنگن میں ایک جھیل ہے جو آدھی جرمنی میں ہے اور آدھی سوس میں ہے۔ اس کانام ہے بودن سے۔اس کو لاگو دی کوستانسا بھی کہتے ہیں یعنی کوستانسا جھیل‘‘۔
’’میں نے اور سالوارتورے خوب گپ شپ لگائی۔ یہ ادب کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’جھیل، جس کا تم ذکر کررہے ہو۔ اس میں نہانے کی بھی اجازت ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہاں لوگ نہاتے ہیں۔ میں بھی آج نہایا ہوں لیکن آئندہ کبھی نہیں نہاؤں گا‘‘۔
رضا بولا، ’’کیوں‘‘۔
’’کیونکہ اس میں کتے بھی نہاتے ہیں‘‘۔
سالواتورے بولا ، ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’تمہاری تہذیب میں کتا گھر کے فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم مسلمانوں میں کتا گھر کی حفاظت کے لیئے تو رکھا جاسکتا وہ بھی مجبوری کی حالت میں لیکن یہ اگرآپ کے جسم کو چھو جائے تو جسم ناپاک ہوجاتا ہے‘‘۔
سالواتورے بڑا حیران ہوا۔ کہنے لگا، ’’میں نے یہ پہلی دفعہ سنا ہے کہ کتے کے چھونے سے جسم ناپاک ہوجاتا ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’ہمارے ساتھ رہو گے تو بہت کچھ نیا سننے کو ملے گا۔ ہم تمہیں وہ نہیں بتائیں گے جو تم اٹالین ٹی وی میں ہمارے بارے میں دیکھتے ہو بلکہ ایران اور پاکستان اصل میں کیسے ہیں ،ہم اس بارے میں تمہیں بتائیں گے‘‘۔ میری طرف منہ کرکے کہنے لگا، ’’کیوں فرشتہ، میں ٹھیک کہہ رہاہوں نا‘‘۔
میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور پھر پوچھا، ’’اچھا یہ بتاؤ ،ادب کے بارے میں کیا موضوع تھا‘‘۔
’’کچھ نہیں یہ دانتے کی تعریف کرتا رہا اور میں فردوسی، رودکی، خیام ،سعدی اور رومی کی تعریفیں کرتا رہا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایرانی ادب میں اتنے بڑے بڑے قلمکار اور شاعر گزرے ہیں‘‘۔
ہم لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو سیکیورٹی گارڈ نے آکر بتایا کہ سب لوگوں کو گارنیگے ہوٹل جانا ہے۔ جلدی سے تیار ہوجائیں۔ پھر وہی ٹیوٹا وین تھی اور ہم تھے۔ ہماری باری آتے آتے شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔ آج گرمی کافی تھی ۔اس لیئے ہم لوگ جیسے ہی ہوٹل میں پہنچے تو سب نے باری باری شاور کیا۔ گو کہ اب بھی بہت سے لوگ باتھ کے باہر ہوتے لیکن ان سات دنوں میں باتھ میں جانے کے طریقے سیکھ گیا تھا۔ اس عمارت میں ایک باتھ تہہ خانے میں بھی تھا۔ وہاں کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس لیئے میں نے رضا اور سالواتورے کو بھی یہ گْر سکھا دیا۔ جب ہم نہا دھوکے فارغ ہوچکے تو ہم تینوں گارنیگے ہوٹل کے ٹیرس کے ایک کونے میں کرسیاں لے کر بیٹھ گئے۔
میں نے سالواتورے سے کہا، ’’تم نے بتایا نہیں تم کیا کام کرتے تھے یا ہو‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں نے ویسے تو ادب میں ڈگری کہ ہے لیکن میں فری لانس جرنلسٹ ہوں۔ میں اٹلی کے کئی اخباروں کے مضامین لکھا کرتا تھا۔ اور اب بھی لکھوں گا‘‘
’’لیکن اس کا سیاسی پناہ سے کیا تعلق ہے‘‘۔
’’تعلق ہے۔ تم نے دنیا کی سب سے بڑی ڈرگ مارکیٹ کا نام سنا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’شاید پاکستان یا افغانستان میں ہے‘‘۔
’’نہیں دنیا کی سب سے بڑی ڈرگ مارکیٹ اٹلی میں ہے۔ وہا ں ایک شہر ہے ناپولی ۔ناپولی میں ایک علاقہ ہے سکامپیئا(Scampia)۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ڈرگ مارکیٹ ہے۔ میں شروع میں تو چھوٹے موٹے مضامین لکھتا تھا لیکن بعد میں میں اس علاقے کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔ایک دن اڈیٹر کو دھمکی ملی کہ تم نے اگر اس علاقے کے بارے میں لکھنا بند نہ کیا تو تمہارا دفتر غائب ہوجائے گا اور تم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔ یہ دھمکی نہیں تھی بلکہ یہ انہوں نے کرنا تھا۔ انہوں کردیا ۔اڈیٹر جان بچا کے ڈنمارک چلا گیا اور میں یہاں آگیا‘‘۔
رضا بولا، ’’تمہیں اٹلی کی پولیس تحفظ فراہم نہیں کرسکتی‘‘۔
’’اٹلی کے دوسرے علاقوں میں انتظام و انصرام بہت اچھا ہے لیکن جیسے ہی روم سے آگے جائیں تو حکومت کی گرفت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پورے یورپ میں اٹلی واحد ملک ہے جہاں اس طرح کا سلسلہ ہے ۔باقی یورپیئن ملک بہت سکو ن سے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ان چیزوں کے خلاف لکھے یا ان کوتنقید کا نشانہ بنائے یا ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے تو وہ خود ختم ہوجاتا ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرسکتا ‘‘۔
رضا بولا ،’’چلو چھوڑو ان باتوں کو کوئی اورموضوع شروع کرتے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’کیا موضوع ہونا چاہیئے‘‘
تو رضا بولا، ’’ادب پے بات کرتے ہیں۔ میری اور سالواتورے کی ادب پے بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی ہے، جب تم باہر گئے ہوئے تھے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’تم نے دانتے کو پڑھا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیا مطلب۔ دانتے کو پڑھا ہے‘‘۔
’’مطلب یہی کہ تم نے دیوینا کومیدیاء پڑھی ہے‘‘۔
’’میں نے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔ اس میں جنت دوزخ اور برزخ کا ذکر ہے‘‘۔
’’اگر دیوینا کومیدیاء کا صحیح مزہ لینا ہے تو اسے اٹالین میں پڑھو۔ بلکہ لنگوا ولگارے (lingua vulgare)میں پڑھو‘‘۔
رضا بولا، ’’دانتے کا جن لوگوں نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ان میں ایک ترجمہ تو ڈوروتھی سیئر(Dorothy Sayer and Barbara Reynold) اور باربرا رینالڈ کا ہے اور دوسرا مشہور ترجمہ جو کہ عام فہم ہے وہ مارک موسیٰ (Mark Musa)کا ہے۔مارک موسیٰ کا ترجمہ مجھے پسند آیا ہے ۔اس نے بڑی تحقیق کرکے ترجمہ کیا ہے۔ ‘‘
سلواتورے بولا ،’’لیکن اٹالین میں اس کا قافیہ اور ردیف ہے ۔جس کو پڑھ کے مزہ آتا ہے ۔اس کے علاوہ ہر شعر کے ساتھ تاریخی حوالے ہیں، سائنس سے متعلق چیزیں ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے بھی مارک موسیٰ کا ترجمہ پڑھا ہے۔ اس نے تاریخی حوالوں کا بڑی خوبصورتی سے ذکر کیا ہے ۔ آپ کو گبلینی(Ghibellini) اور گویلفی(guelphi) کی تاریخ کا پتا چلتا ہے ۔اس نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ گبلینی اور گویلفی دو جرمن قبیلے تھے جو جرمنی سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ چونکہ اطالوی لوگوں کے لیئے زویلف(zwelf) اور زیولینی(Zuellini) کہنا مشکل تھا اس لیئے ’’ز‘‘ کو ’’گ‘‘ کہنے لگے اور اس طرح زویلف ،گویلف بن گیا‘‘‘۔
سالواتورے میری شکل دیکھنے لگا۔ کہنے لگا، ’’یہ مجھے نہیں پتا تھا‘‘۔
رضا نے کہا، ’’اس نے تو تاریخی شخصیات کا بھی ذکر کیا ہے جن کا دیوینا کومیدیاء میں ذکر آیا ہے۔جیسا کہ فلپو آرجینتی(Fillipo Argentini)۔ مارک موسیٰ نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے‘‘۔
سلواتورے بولا، ’’ویسے دانتے کی دیوینا کومیدیاء کے ایک ایک شعر پے ایک ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے‘‘
رضا بولا ،’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’ویسے سالواتورے ،دیوینا کومیدیا ء کا مرکزی خیال کہا ں سے آیا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’یہ دانتے کے دماغ کی تخلیق ہے۔ کچھ اس نے بائیبل سے لیا ہے۔ کچھ دوسری الہامی کتابوں سے‘‘۔
رضا بولا، ’’جنت، دوزخ اور برزخ کا وجود اسلام میں بھی ہے۔ ہندوؤ اس کو سؤرگ اور نرگ کہتے ہیں۔ ہر مذہب میں جنت دوزخ کا نظریہء پایا جاتا ہے ۔اس لیئے دانتے اس بات سے واقف تھا کہ وہ جس چیزکے بارے میں لکھنے جارہا ہے وہ کوئی نئی نہیں لیکن اس نے اس کو ایک دیو مالائی کہانی بنا کر پیش کیا ہے‘‘
میں بولا، ’’ویسے میں پاکستان میں جب ٹورسٹ گائیڈ تھا تو ان دنوں میں بدھ ازم پے بہت سی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ مجھے بہت ساری خانقاہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں ٹورسٹ کو بتایا بھی کرتا۔ پاکستان
میں ایک جگہ ہے ٹیکسلاجو میرے شہرراولپنڈی جہاں میں پیدا ہوا ہوں سے پینتیس کلومیٹر دور ہے۔ وہاں ایک انگریز آثارِ قدیمہ کے ماہر سر جان مارشل نے ایک خانقاہ دریافت کی ہے۔ یہ بد ھ مت پیروکاروں کی درسگاہ تھی۔ یہاں سے ایک سٹوپا نکلا ہے ۔ اس کی سات چھتریاں تو ٹوٹ گئی ہیں لیکن نیچے کا حصہ سلامت ہے۔ اس سٹوپے میں جنت دوزخ کا منظر دکھایا گیا ہے۔ اس میں دیوینا کومیدیاء کی طرح دوزخ کے مختلف مراحل دکھائے گئے ہیں۔یہ سٹوپا جولیاں میں ہے۔ اس کی ہر تہہ میں سزا پانے والوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ گناہ کے حساب سے ان کو تکلیف میں دکھایا گیا۔ اس کے اوپر بدھا کی عبادت کی مختلف مْدرائیں ہیں۔جب میں نے دیوینا کومیدیاء پڑھی تو میرا خیال اس کی طرف گیا‘‘۔
سالواتورے کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کہنے لگا، ’’میں بدھ ازم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن یہ واقعی حیران کن بات ہے۔ اس کا مطلب ہے دانتے نے اپنی دیوینا کومیدیاء کا مرکزی خیال کہیں اور سے لیا کیونکہ دانتے بدھ ازم کے بارے میں کچھ نہیں جانتاتھا۔ اگر جانتا ہوتا تو دوزخ کے کسی خانے میں سدھارتا گوتما بدھا کو بھی پھینک دیتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ دانتے کے بارے میں بتاؤ‘‘۔
رضا بولا ،’’میں بتاتا ہوں۔
دانتے ۱۲۶۵ میں اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا۔ دانتے نے دیوینا کومیدیاء میں اپنے اجداد کو رومن بتاتا ہے ۔ وہ فلورنس کی ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوا جو گویلف کے حامی تھے۔ گویلف پاپا کے حق میں تھے اور گبیلینی پاپا کے خلاف تھے ۔اس لیئے ان دونوں جماعتوں میں اکثر لڑائی رہتی۔ اس لیئے دانتے نے گویلف کے لیئے گبلینی کے خلاف ایک جنگ میں بھی حصہ لیا۔ اس عظیم اطالوی شاعر کی ماں اسے دس سال کی عمر میں چھوڑ کے اس دنیا سے چلی گئی۔ دانتے کی عمر جب بارہ سال ہوئی تو اس کی شادی ایک امیر خاندان میں طے پا گئی ۔ان دنوں چھوٹی عمر میں شادیوں کا رواج تھا ۔جبکہ دانتے اس دوران ایک لڑکی بیائتریشے (Beatrice)کی عشق میں بری طرح گرفتا ر ہوگیا۔ دانتے کی شادی جیما (Gemma)سے ہوئے کافی عرصہ گزر گیا۔ اس دوران اس کی ملاقات دوبارہ بیائتریشے سے ہوئی۔دانتے نے بیائتریشے کی یاد میں پیار بھری نظمیں لکھنی شروع کیں۔ اس نے اس بارے میں اپنی بیوی جیما کو کبھی نہ بتایا۔
دانتے نے ابتدائی تعلیم گھر پے ہی حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے سسلی کے ادبی سکول کو پڑھا ۔جب پورا یورپ علم و ادب میں پسماندہ تھا۔ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت سسلی علم و ادب میں بامِ عروج پے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سسلی مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔
دانتے نے لاطینی زبان پے عبور حاصل کیا۔ دانتے نے ابتدائی شاعری لاطینی زبان میں کی۔ جب اس کی عمر نو سال تھی تو اس وقت اس کی ملاقات بیائتریشے پونتی ناری (Beatrice Pontinari)سے ہوئی۔ اس کے عشق نے دانتے کو شاعری کرنے پے مجبور کردیا۔ اس نے شروع میں ڈولچے سٹل نووو(dolce stil nuovo) اپنایا۔ جب دانتے کی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو اس کی ملاقات گوئیدو کاولکانتی(Guido cavalcanti)، چینو دی پستویا (Cino di Pistioa)اور برونو لیتینی(Bruno lettini) سے ہوئی اور ان سے متاثر ہوکر اس نے شاعری کے انداز میں کمال حاصل گیا اور اپنے استادوں کو پیچھے چھوڑ گیا۔
جب گویلف نے گبلینی کو شکست دی تو گویلف دو حصوں میں بٹ گئے۔ سفید گویلف اور کالے گویلف۔ دانتے سفید گویلف کے ساتھ تھا اور یہ پاپا کے خلاف تھے۔ بعد میں کالے گویلف نے فرانس کے بادشاہ کے ساتھ مل کے فلورنس کو قبضے میں لے لیا۔ دانتے کو فلورنس سے جلاوطن کردیا
گیا۔ دانتے یہاں سے ویرونا(Verona) گیا۔دانتے نے اٹھارہ سال جلاوطنیی میں گزارے اور جب وہ پارادیزو(Paradiso) لکھ رہا تھا تو ان دنوں وہ راوینا (Ravenna)میں تھا۔ اس نے جیسے ہی پارادیزو مکمل کی دانتے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ دانتے نے اٹھاون سال کی عمر میں راوینا میں وفات پائی اور اسی شہر میں اس کا مقبرہ ہے‘‘۔
سالواتورے سر کھجانے لگا۔ سر کھجاتے کھجاتے بولا ،’’رضا تم دانتے کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو۔ اتنا کچھ تو اٹالین بھی نہیں جانتے‘‘۔
رضا بولا، ’’شوق کی بات ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے مجھے بتایا تھا کہ تم میٹریل انجینیئر ہو لیکن تم تو ادب کے طالب علم لگتے ہو‘‘۔
اب میں نے رضا کو آپ کے بجائے تم کہنا شروع کردیا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا اس سے انسان کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہوجاتی ہے اور انسان ادب و احترام میں کے چکر میں کھل کے بات نہیں کرسکتا۔ انگریز نے تو خود کو اس مصیبت سے آزاد کرلیا۔ انگریزی میں آپ ہوتا ہی نہیں ۔سب تو ہوتے ہیں۔
رضا کہنے لگا، ’’اصل میں میری بیوی رویمہ ادب کی پروفیسر ہے ۔اسے ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ یہ سارا علم اسی کی وجہ سے ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’تمہاری بیوی کہاں ہے‘‘۔
’’وہ بچوں کے ساتھ ایران میں رہتی ہے۔ مجھے جیسے ہی موقع ملے گا میں ان کو بلالوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہم دانتے کے بارے میں بات کررہے تھے ۔تم نے اس کے مرکزی خیال کے بارے میں کچھ نہیں بتایا‘‘۔
رضا بولا،’’اس بارے میں سالواتورے سے پوچھنا چاہیئے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’تمہاری موجودگی میں میرا علم کچھ بھی نہیں۔ تم بتاؤ،دانتے نے دیوینا کومیدیاء کا مرکزی خیال کہاں سے لیا‘‘۔
رضا بولا، ’’اجازت ہے‘‘۔
ہم دونوں نے یک زبان ہوکرکہا، ’’اجازت ہے‘‘۔
رضا نے بولنا شروع کیا، ’’دانتے کے بارے میں تو تم تھوڑا بہت جان ہی چکے ہو۔ انگریزی میں اس کو ڈیوائن کومیڈی (Divine Commedy)کہتے ہیں اور اٹالین میں اس کانام لا دیوینا
کومیدیاء (La Divina Commedia)ہے۔ دانتے نے دیوینا کومیدیاء ۱۳۰۸ میں لکھنی شروع کی اور ۱۳۲۱ میں مکمل کی۔ یعنی اسے دیوینا کومیدیاء لکھنے میں تیرہ سال لگے۔ یہ ایک دیو مالائی طرز کی نظم لکھی گئی ہے اور یہ اطالوی ادب کا شاہکارمانی جاتی ہے ۔ جو کام فردوسی نے شاہنامہ لکھ کر کیا۔ یعنی اس نے شاہنامہ فردوسی لکھ کر فارسی زبان کو آج تک زندہ رکھا کیونکہ ایران میں شاہنامہ سے پہلے ژندہ اور پہلوی زبان رائج تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ فارسی زبان کی موجودہ شکل آج بھی نوے فیصد ویسی ہی ہے جو آج سے ہزار سال پہلے تھی۔ شاہنامہ فردوسی ،دانتے کی دیوینا کومیدیاء سے تین سو سال پہلے لکھی گئی۔ دانتے نے دیوینا کومیدیاء لاطینی زبان میں لکھنے کے بجائے لنگوا ولگارے میں لکھی جو کو عام لوگوں کی زبان تھی جبکہ شرفاء اور امراء لنگواولگارے بولنا پسند نہیں کرتے تھے۔ دانتے نے جس لنگوا ولگارے میں دیوینا کومیدیاء لکھی اٹلی کے ریجن توسکانہ(Regione Toscana) میں آج بھی اسی فیصد وہی زبان رائج ہے۔ یعنی سات سو سال پہلے لکھی جانے والی شاعری کی کتاب آج بھی اسی فیصد لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے۔ جبکہ جوفرے چوسر(Goeffery Chaucer) نے کینٹبری ٹیلز (Cantbery Tales) آج سے سات سو سال پہلے لکھی تھی آج اس کا بیس فیصد حصہ بھی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ انگریزی زبان بہت زیادہ بدل چکی ہے‘‘۔
میں رضا کی بات میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن میں بول پڑا، ’’رضا برصغیر پاک و ہند کے مشہور شاعر مرزا غالب نے بھی تو یہی کیا ہے۔ اس نے مشکل اردو کو ختم کرکے عام فہم اردو رائج کی‘‘۔
رضا بولا، ’’تم بالکل درست کہتے ہو۔ میں نے غالب کا کلام فارسی میں پڑھا ہے۔ وہ خود بھی فارسی شعراء سے بہت متاثر تھا۔ تو بات ہورہی تھی دانتے کی دیوینا کومیدیاء کی۔ دانتے مذہبی نقطہ نگاہ سے کیتھولک تھا۔وہ تھومس ایکویناس(Thomas Aquinos) کی تعلیمات سے متاثر تھا۔ اس نے تشبیہہ اور استعارے کے انداز میں جنت دوزخ اور برزخ کے منظر کو پیش کیا۔
پہلے دانتے کی کتاب دیوینا کومیدیاء کا اصل نام کومیدیاء تھا ۔بعد جب جووانی بوکاچو(Giovanni Boccaccio) نے اس کتاب کو پڑھ کے اس کی اہمیت کو سمجھا تو اس کانام دیوینا کومیدیاء کردیا۔ اس نام کے ساتھ پہلی دفعہ یہ کتاب ایک وینییٹین مزاح نگار لودوکوڈولچے (Lodovico Dolce)کے کہنے پر گبریئل جولیتو(Gabrielle Guilietto) نے ۱۵۵۵ میں چھاپی۔
دانتے کی دیوینا کومیدیاء چودہ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ جس کو اس نے تین حصوں میں تقسیم کیاہے۔ پہلاحصہ دوزخ کا ہے ۔اس کے تینتیس کانتو(Canto) ہیں ۔ہر کانتو میں ایک سو پیتیس سے ایک سو پینتالیس اشعار ہیں ۔اشعار کی تعداد طاق ہے۔ تین تین اشعار کا بند ہے۔ اس دور میں شاعری کا یہ نیا انداز شروع ہوا تھا۔ جو گوئیدو کالولکانتی (Guido Cavalcanti)اور چینو دی پستویاء (Cino di Pistioa)نے شروع کیا تھا لیکن دانتے نے اس میں ملکہء حاصل کیا۔ دوزخ کے بعد برزخ ہے اس کے بھی تینتیس
کانتو ہیں۔ جنت آخری حصہ ہے ۔اس کے چونتیس کانتو ہیں‘‘۔ سالواتورے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’فرشتہ کو تو پتا ہے کہ مسلمانوں میں تسبیہ نماز میں ۳۳،۳۳،۳۴ کی ترتیب ہوتی ہے۔ لیکن سالواتورے تمہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دیوینا کومیدیاء میں علم العداد کا بڑا عمل دخل ہے‘‘۔
دانتے دوزخ میں اپنے استاد روجل (Virgil)کے ساتھ نکلتا ہے۔
Nel mezzo del cammin di nostra vita
mi ritrovai per una
selva oscura ch233 la diritta via era smarrita
یہ دیوینا کومیدیاء کے ابتدائی تین شعر ہیں۔ مارک موسیٰ کا خیال ہے
کہ دانتے نے اپنی کومیدیاء کا آغاز ماریما (Maremma)کے جنگل کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھا ہے۔ یہ تینوں دوزخ سے گزرتے ہوئے تین جانوروں سے ملتے ہیں جو کہ شیر،تیندوے اور بھیڑیئے کی مونث کی صورت میں ہوتے ہیں۔ تقریباًٍتمام ناقدوں کا خیال ہے کہ یہ جانور تشبیہی انداز میں پیش کیئے گئے ہیں۔ یہ تین جنگلی جانور انسان کے اندر پائی جانی والی برائی کی تشبیہ ہیں۔ جو کہ ذاتی مفاد، تشدد اور حسد ہے۔ ان تینوں برائیوں کو دانتے تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے ۔اس طرح دوزخ کی تین منازل بن جاتی ہیں۔ پہلی منزل کو وہ پانچ دائروں میں تقسیم کرتا ہے یہ دوزخ کی اوپر والی منزل ہے۔ دوسری منزل پے دو دائرے ہیں چھ اور سات ۔ یہ دوزخ کی نچلی منزل ہے ۔تیسری اور سب سے نیچی منزل میں دو دائر ے ہیں جو کہ آٹھ اور نو پر مشتمل ہیں۔ دانتے اور ورجل ان تمام مراحل سے اور منازل سے اکھٹے گزرتے ہیں ۔یہ
ساری کہانی دانتے ورجل کو تینیتیس کانتو میں سناتا ہے۔
جب دانتے دوزخ سے برزخ میں داخل ہوتا تو دانتے اور ورجل کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے کیونکہ ورجل کرسچن نہیں تھا۔ اس لیئے وہ یہاں نہیں داخل ہوسکتا ۔اس لیئے برزخ میں دانتے کی معشوقہ بیائتریشے(Beatrice) اس کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ دانتے جب برزخ میں داخل ہوتا ہے تو یہ قطب کے دوسری طرف والی پہاڑی ہے۔ یہاں دانتے قرونِ وسطیٰ کی چیزوں کا ذکر کرتا ہے اس کے ساتھ وہ لکھتا ہے یہ پہاڑی یروشلم کے نیچے ہے۔ اس میں انسان میں پائی جانے والی سات بدترین برائیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے تینتیس کانتو ہیں۔ وہ سورج کے طلو ع اور غروب ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ دانتے نے اپنی دیوینا کومیدیاء میں بوعلی سینا اور ابنِ رشد کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کا
مطلب ہے اس نے ان کی کتابوں سے بھی استفادہ حاصل کیا تھا۔
دیوینا کومیدیاء کا آخری حصہ جنت ہے۔ ا س میں دانتے عیسائیت کے چار مشہور رہنماؤں سے ملتا ہے۔ جن میں تھومس ایکویناس(Thomas Aquinos)، سینٹ بوناوینچورا(Saint Buonaventura)، سینٹ جون (Saint John)اور سینٹ پیٹر(Saint Peter) شامل ہیں۔ جنت کے نو مراحل ہیں۔ جب تمام مراحل سے گزرجاتے ہیں تو ایک مقام پے دانتے کو بیائتریشے بھی چھوڑ جاتی ہے ۔کیونکہ ایک خاص مقام سے آگے وہ بھی نہیں جاسکتی۔ جب دانتے کو خدا کا ظہور ہوتا ہے
تو پڑھنے والا یہی سوچتا ہے کہ وہ ابھی خدا کے بارے میں لکھے گا کہ وہ کیسا ہے لیکن دانتے نے یہاں ٹرینیٹی کو پیش کیا ہے۔ حضرتؑ عیسیٰ کو
اَمر دکھایا ہے ۔جہاں تک خدا کے وجود کا سوال ہے تو وہ خدا کی جگہ لکھتا ہے کہ نور ہی نور ہے۔ روشنی ہی روشنی ہے۔ اس کے بعد دیوینا کومیدیاء کا اختتام ہوجاتا ہے ۔جنت کے چونتیس کانتو ہیں۔ دانتے نے جنت کے منظر میں خدا، بی بی مریم اور حضرتؑ عیسیٰ ان تینوں کو اکھٹا پیش کرکے ٹرینٹی کے نظریئے کو اجاگر کیا ہے۔
دانتے کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیوینا کومیدیاء کا کوئی بھی مخطوطہ یا نمونہ وجود نہیں رکھتا۔ جب بوکاچو نے کومیدیاء کو دیوینا کومیدیاء کا نام دیا تو اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چند نمونے پائے
جاتے ہیں۔ دیوینا کومیدیاء کو پہلی دفعہ کتابی شکل میں فولینیو (Foligno)کے ایک شخص جو کہ جرمن نژاد تھا نے ۱۴۷۲ میں چھاپا۔ دانتے کی دیوینا کومیدیاء کو سائنسی نقطہ ء نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں دیوینا کومیدیاء کی نظریئے کے بارے
میں کہ دانتے نے یہ خیال کہاں سے لیا۔ سپین کے ایک فلاسفر اور پادری نے ۱۹۱۹ میں نے ایک کتاب لکھی ۔پروفیسر میگیل آسن پلاکو(Proffessor Miguel Asanplaco) اپنی کتاب ’’اسلامک ایسکتھالوجی اینڈ دیوینا کومیدیاء میں لکھتا ہے کہ دانتے کے دیوینا کومیدیاء کے بہت سے مناظر ابنِ عربی کی کتاب اسراع اور معراج سے لیئے ہیں۔ ابنِ عربی کی کتاب قصصہ الا سراع ومعراج میں حضرت ﷺکے سات آسمانوں کی سیر کا ذکر کیاہے۔ اس میں حضرت ﷺاپنے کمرے سے جب نکلتے ہیں تو دروازے کی کْنڈی ہل رہی ہوتی ہے اور وہ سات آسمانوں کی سیر کرکے جب واپس آتے ہیں تو وہ کنڈی اسی طرح ہل رہی ہوتی
ہے۔ یعنی بہت مختصر عرصے میں سا ت آسمانوں کی سیر کرکے آجاتے ہیں ۔ اس میں جبریل امین انہیں سارے مناظر دکھاتے ہیں۔ ایک
ایک چیز کی تفصیل بتاتے ہیں اور ایک مقام پے پہنچ کے وہ کہتے ہیں اس سے آگے جاتے ہوئے میرے پَرجلتے ہیں اس طرح وہ آپ ﷺکا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ جب آپ ﷺاللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو نور ہی نور ہوتا ہے ۔ اس واقع معراج کا کتابوں میں ذکر آیا ہے اور احادیث میں ذکر آیا ہے ۔
ابنِ عربی کی یہ کتاب ۱۲۶۴ میں لاطینی میں ترجمہ کی گئی۔ صرف یہی نہیں ایک اور کتاب بھی ہے جس میں جنت ،دوزخ اور برزخ کا ذکر آیا ہے۔ ایک عرب فلاسفر ال ماری نے کتاب لکھی جس کانام ہے رسالہ ۃالغفران۔ دیوینا کومیدیاء کی اس کتاب سے بھی کئی جگہ مماثلت ہے۔

میگیل آسن کا خیال ہے کہ قصصہ المعراج کا ترجمہ
بوناوینچورا دی سینا (Buonaventura di Sienna)نے عربی سے لاطینی میں کیا۔ دانتے کا استاد اور گْرو برونیتو لاطینی(Brunetto Latini) اس کتاب کا ایک نسخہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔اور اس نے ابنِ عربی کی کتاب قصصہ اسراع اور معراج کالاطینی ترجمہ دانتے کو دیا۔ اس طرح دانتے نے مختلف کتابوں کی مدد سے لنگوا ولگارے کا شاہکار لکھنے میں کامیاب ہوگیا‘‘۔
جب رضا دانتے کے بارے میں اور دیوینا کومیدیاء کے بارے تفصیل بیان کرچکا تو سالواتورے نے پوچھا، ’’تم نے یہ ساری معلومات کہاں سے اکھٹی کی ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ تمہیں
سارا کچھ یاد بھی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’جہاں تک دانتے کی بات ہے یہ میری بیوی کو شوق تھا جس کا اثر مجھ پر بھی ہوا۔ ابنِ عربی کے بارے میں فرشتہ بھی جانتا ہے۔
اس کے علاوہ محمدﷺ کے واقع معراج کے بارے میں ہر مسلمان جانتا ہے۔ ایک ہی فرقہ ہے جن کو اس سے اختلاف ہے وہ ہے معتزلہ‘‘۔میں بولا،’’یہ جنت ،دوزخ اور برزخ کا نظریہ ء تو اور مذاہب میں بھی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’ابھی اس طرف بھی آتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ابھی کچھ باقی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’تمہیں پتا ہوگا کہ اسلام کی آمد سے پہلے ایران میں پارسی رہتے تھے۔ انہیں یورپیئن ملکوں میں زرتشتی کہاجاتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق ان کے ہاں سات آسمانوں ،جنت، دوزخ اور
برزخ کا ذکر ہے۔ اس قصے کا نام ہے ’’اردا وراز نامگ‘‘ ہے۔ یہ قصہ واقع معراج سے چار سو سال پہلے لکھا گیا۔ ابنِ مسعودی اور ابنِ وارق نے اپنی کتابوں میں اس ایرانی دیوینا کومیدیاء کا ذکر کیا ہے ‘‘۔
میں اور سالواتورے ،رضا کی شکل دیکھنے لگے۔ جو خود کو مٹیرئل انجینیئر بتاتا تھا اور ادب کے بارے اتنا کچھ جانتا تھا کہ جیسے اس نے مٹیرئل انجنیئرنگ نہیں پڑھی بلکہ ادب میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔
میں نے پوچھا،’’تو تمہارے خیال میں دانتے کی کتاب دیوینا کومیدیاء میں مختلف کتابوں کا عکس نظر آتا ہے‘‘۔
رضا کہنے لگا، ’’کہہ سکتے ہیں‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’لیکن دانتے نے دیوینا کومیدیاء لکھنے میں بڑی محنت کی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’نہیں نہیں میرا مطلب یہ نہیں کہ دانتے کی دیویناکومیدیاء
کی کوئی اہمیت نہیں۔ چودہ سو اشعار لکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ دانتے کا مطالعہ بہت گہرا تھا۔ وہ اتنا پڑھتا تھا کہ آخری دنوں میں اسے کم دکھائی دینے لگا۔ اس کی نظر کمزور ہوگئی تھی۔ لیکن دانتے کی یاداشت بہت اچھی تھی۔ اس کی یاداشت کے بارے میں کئی قصے ہیں۔ چند ایک قصے فرانکو ساکیتی (Franco Sachetti)نے
بھی لکھے ہیں ۔فرانکو ساکیتی اور بوکاچو دونوں دانتے کے بہت بڑے مداح تھے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’لیکن رضا جو کچھ تم نے ہمیں بتایا ہے یہ بہت دلچسپ ہے۔ تمہارا مطالعہ بھی دانتے سے کم نہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’ایسی بات نہیں ہے۔ شوق کی بات ہے‘‘۔
رات کے ساڑھے نو بج چکے تھے۔ اب سیکیورٹی گاردڈ نے ٹیرس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کواٹھانا شروع کردیا تھا کیونکہ دس بجے یہ بتیاں بجھا دیا کرتے تھے۔ ہمارے سونے کا وقت ہوجاتا ۔ ہمیں ہر صورت میں یہاں سے اٹھنا ہوتا۔ رضا کہنے لگا،’’اس کا مطلب ہے اب ہمیں سونا ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں انہی کمروں میں جہاں ایک کمرے میں سولہ اور اٹھارہ بندے سوتے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’اسی بات کا تو غصہ ہے ‘‘۔
سالواتورے نے اٹالین میں گالی دی اور بولا، ’’یہ بہت گھٹیا ہیں‘‘۔ میں ان کے خلاف ضرور لکھوں گا‘‘۔
ہم یہاں سے اٹھ کے اپنے اپنے کمروں میں چل دیئے۔ رضا اور سالواتورے کا کمرا دوسری طرف تھا۔ میں نے ان دونوں کو خدا حافظ کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ میں روز کی طرح اپنے کمرے کے سامنے والے ٹیرس میں کھڑا ہوگیا۔ میرے سامنے جو گھروں کے
پچھلی طرف کے لان تھے وہ خالی پڑے تھے۔ وہاں بچوں کے کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ گھاس کاٹنے کی مشینیں پڑی ہوئی تھیں۔ ہر گھر کی اپنی اپنی مشین تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک ہی طرح کی چھ سات گھر تھے۔ رات کے پونے دس بجے بھی اتنی روشنی تھی کہ سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے سیکیورٹی گارڈ کی آوازسنائی ۔یہ کوئی نیا شخص تھا۔ اس نے مجھ سے مشرف کا نہ پوچھا۔ بس اتنا کہا، ٹیرس سے ہٹ جاؤ۔ سونے کا وقت ہے۔ میں نے اس شخص اور اس کے کتے پے آخری نظر ڈالی اور آکر اپنے بستر پے لیٹ گیا۔ جو دوسری منزل پے تھا۔ اپنے سرہانے وہ کاغذ رکھ دیا جس کو سوس لوگ ہاوس وائس کہتے ہیں اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کسی کو این والی ملتی ہے، کسی کو ایف والی ملتی ہے ۔کسی کو سی والی اور جب بی والی مل جائے تو آپ کے سب مسائل حل
ہوجاتے ہیں۔ وہ موٹا لڑکا اکثر کہتا جس کا چاچا گجرات کے سابقہ ایم پی اے تھاکہ جب مجھے بے مل جائے گی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جرمن زبان میں بی کو بے کہتے ہیں ۔اور میں اس سے ہمیشہ کہتا تمہاری بے نہیں ہے۔ پنجابی زبان میں بے ، ماں کو بھی کہتے ہیں۔ وہ میری اس بات پے گھی گھی کرکے ہنس دیا کرتا۔ جب وہ ہنستا جو اس کا جسم بھی عجیب طرح ہلتا۔ میں لیٹتے ہی سونے کی کوشش کرنے لگا۔ نیند کوسوں دور تھی ۔ میں نے پچھلے ہفتے کی صبح سفر شروع کیا تھا۔ ا س وقت شاید میں ونٹرتھور ریلوے سٹیشن پے تھا۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہ رہا۔ جب میں رات کو کرائس لنگن پہنچا تھا تو میں کتنا تھکا ہوا تھا۔ آج مجھے یہاں آئے ہوئے پورا ہفتہ ہوچلا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کل کی بات ہو لیکن مجھے اس ایک ہفتے کو گزارنے میں صدیاں بیت گئیں۔ ہر دن کتنا لمبا لگتا ۔ میں کتنے لوگوں سے مل چکا تھا۔ کئی ملکوں کے لوگ تھے۔
انگولا، سئیرالیون، نائیجیریا، تیونس، مراکش ،فلسطین، ایران، جرمنی، اٹلی،کوسوا۔ بیشمار ملکوں کے لوگ تھے۔ کتنی ہی بولیاں اور زبانیں تھیں۔ کل اتوار تھا،چھٹی تھی۔ کسی قسم کی کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ نہ کوئی فٹ بال میچ تھا نہ ہی کوئی اور تقریب تھی۔ اتوار کو اگاتھو بھی بند ہوتا ہے۔ میں سوچنے لگا، کل کا دن کیسے گزرے گا۔ رضا اور سالواتورے کے ساتھ بھی اچھا وقت گزرا تھا۔ ایسا ہوسکتا ہے کل کوئی دلچسپ موضوع شروع ہوجائے اور گفتگو کے دوران وقت کا پتا ہی نہ چلے۔ آج مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس لیئے میں کئی چیزوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ میرے بارے میں یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں کون ہوں۔ نہ ہی مجھے کسی کو اپنے بارے میں کچھ بتانے کا شوق تھا۔ میرے آنکھوں کے سامنے میری اب تک گزری ہوئی زندگی فلم کی طرح چلنے لگی۔ میں نے سکول ختم کیا۔ کالج میں پڑھا۔ یونیورسٹی
تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد فرنچ زبان سیکھی۔ ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری کی۔ پاکستان کی سیاحت کی۔ چند ایک یورپیئن ملکوں کی سیاحت کی۔ پھر اٹلی میں رہنے کے بعد یہاں آگیا۔ اس طرح کے یورپ کا کبھی میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ مجھے میرا دادا کی یاد شدت سے ستانے لگی۔ وہ دنیا کی واحد ہستی تھی جو مجھ سے پیارکرتی تھی۔ ورنہ میری شخصیت سے کسی کو کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ میرے دادا نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ یہ شاید انہی کی تربیت تھی کہ میں یہاں اس ازیل ہائم میں رک گیا تھا۔میری جگہ میرا کوئی دوسرا بھائی ہوتا تو وہ کب کا بھاگ گیا ہوتا۔
میں خود پے حیران ہوتا ہوں کہ میں نے کافی حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اٹلی میں کام کرچکا تھا ۔ میری
ٹریننگ ہوچکی تھی۔ اگر میں سیدھا پاکستان سے یہاں آتا تو مجھے کافی
دقت پیش آتی ۔
یہاں میں یادونِ چکوچان سے ملا ۔انگلولا کے لڑکے سے ملا۔ رضا سے ملا۔ سالواتورے سے ملا۔ رضا نے تو ہم سب کو حیران کرکے رکھ دیا تھا۔ میں سوچنے لگا اگر کل ہماری بیٹھک ہوئی تو میں بوکاچو کا ذکر چھیڑوں گا۔ میں نے بوکاچو کی ڈیکیمرون پڑھی ہے۔ شاید وہ اس بارے میں کوئی دلچسپ بات بتائے۔ کل کا پروگرام بناتے بناتے مجھے نیند آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment