Sunday, June 9, 2013

خواب، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ

خواب

پانچ بجے میری کی آنکھ کھْلی ،گھر کے تمام افراد جاگ رہے تھے۔ نماز کی تیاری ہورہی تھی۔ قرأن کی تلاوت ہورہی تھی۔ مجھے بھی تیار ہوکے مسجد جانا تھا۔ سب سے پہلے ملحق غسل خانے میں گیا۔نہ ٹوتھ برش
(tooth brush)
،نہ ٹوتھ پیسٹ
(tooth paste)
بڑی حیرانگی ہوئی اور تو اور شیونگ کریم
(shaving cream)
،شیونگ برش
(shaving brush)
،سیفٹی ریزر
(safety razor)
، بلیڈماسوائے چند مسواکوں اور ایک عدد قینچی کے کچھ بھی نہ تھا۔ خدا کا نام لیا اور مسواک دانتوں پے رگڑنی شروع کردی۔سارا واش بیسن خون سے بھر گیا۔ کئی سالوں کی غلاظت آج نکل رہی تھی۔ میں باتھ روم (
bathroom)
میں گھر والوں کو کوس رہا تھا اور مسواک کیئے جارہا تھا۔اب باری شیو
(shave)
کی تھی۔شیشے میں دیکھنے پر معلوم ہوا ،شکل ایسی ہورہی تھی جیسے گْڑ پے چیونٹیاں چپکی ہوئی ہوں۔ خیر اس خیال کو ذہن سے نکال کے کہ شیو
(shave)
کرونگا۔ اسی حالت میں رہنے پر اکتفا کیا۔ غسل کرنے کے بعد باہر آگیا اور مسجد کی راہ لی فجر کی نماز پڑھنے کے لیئے۔ بینک روڈ کی جس مسجد میں اکثر نماز پڑھا کرتا تھا۔ آج اس میں اتنا رش تھا کہ تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ سردی میں ٹھٹھرتے، کھانستے، ہلتے ہوئے سب لوگوں نے صفیں سیدھی کیں۔
نماز کے اختتام کے بعد میں گھر آیا۔ ہر طرف صبح بخیر کی آوازیں آنے لگیں۔ہر شخص راستے میں سلام و دعا کر رہا تھا۔ بڑی حیرانگی ہوئی اس شہر کے لوگوں اور گھر والوں کو کیا ہوا ہے۔
گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ باوجود نماز کے میرے چہرے پہ مردنی چھائی ہوئی تھی۔
مجھے کوئی کام نہ ملا تو کتاب اٹھا کے پڑھنے لگا میں بغیر میوزک کے میں کچھ نہیں پڑھ سکتا ۔جیسے لوگ تصوف کی دنیا میں جانے کے لیئے چرس و شراب کا سہارا لیتے ہیں۔اسی طرح یہ میرا نشہ ہے۔ میوزک سسٹم
(music system)
اپنی جگہ موجود نہ تھا۔ حتیٰ کہ ٹیلی ویژن
(television)
،وی سی آر
(V.C.R.)
، آڈیو کسیٹس
(audio cassettes)
، وڈیو کسیٹس
(video cassettes)
سب غائب تھیں۔حیرت کی انتہا نہ رہی اور اسی پریشانی کے عالم میں باہر چلا گیا۔سارا کچھ بدلا بدلا نظر آرہا تھا۔سارے بازار میں ہْو کا عالم تھا۔دوکانیں کھْلنا شروع ہوگئی تھیں۔ صبح سات بجے ،عجب اچمبھے کی بات تھی۔ میں اس سوچ میں گْم تھا، سامنے وڈیو
(video)
اور آڈیو
(audio)
کی دوکان کھلے گی۔لیکن جناب وہاں تو اسلامی کتابوں کی دوکان کھلی ہوئی تھی۔حتیٰ کہ بینک روڈ، کشمیر روڈ،کیننگ روڈ
(canning road)
کہیں بھی وڈیو شاپس
(video shops)
نہ ہی آڈیو شاپس
(audio shops) کھلی ہوئی تھیں۔ٹی وی بیچنے والوں کی دوکانوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔نہ ہی وی سی آر ہیں۔ شام کو شہر یعنی راجہ بازار چلا گیا وہاں امپیرئل مارکیٹ کو تالا لگا ہوا تھا اور پنڈی باڑے
میں نمود و نماش (میک اپ
make up,)
کی تمام اشیاء غائب تھیں۔جو بھی شخص ملتا ہے نہایت ہی سادہ کپڑوں میں ہے۔بڑا ہی با اخلاق اور تمیز دار ہے۔ میں بَنِی مارکیٹ چلا گیا۔جو وڈیو
(audio)
اور آڈیو کیسٹوں
(video cassettes)
کی راولپنڈی شہر کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ وہاں بھی سب دوکانے بند پڑی تھیں
اچانک چلتے چلتے میری نظر اخبار پر پڑی تو یہ جان کر بڑی تشویش ہوئی کہ سارے سنماز(سینمے
cinemas)
)ٹی وی سٹیشن
(T.V. station)
، ریڈیو سٹیشن
(radio station)
، فلم انڈسٹری
(film industry
سب کچھ بند کردیا گیا ہے۔وہاں سے واپس صدر یعنی پنڈی کینٹ کے علاقے آگیا۔ اور لگا سوچنے یہ پاکستان کو کیا ہوگیا ہے۔گھگھڑ پلازہ چلا گیا وہاں سوائے ضرورت کی اشیاء کے سب دوکانیں بند
ہیں۔تمام دوکانداروں کا اخلاق بہت اچھا ہے۔ اور پورے بازار میں کوئی عورت نہیں ،سب مرد حضرات خرید و فروخت کر رہے ہیں۔بڑی مشکل سے اِکا دْکا عورتیں نظر آئیں وہ بستر کی چادروں میں خود کو لپیٹے ہوئے تھیں۔
لاہور، کراچی،فیصل آباد اور پشاور بلکہ تمام بڑے شہروں سے اطلاع ملی کہ ان شہروں کی حالت یہی ہے اور اسلام آباد کا تو نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ اسمبلیوں میں جتنے بھی ممران ہیں مستعفےٰ ہوگئے ہیں۔ان کی جگہ متقی اور پرہیزگار لوگ بیٹھ گئے ہیں۔ جن کی نہ زمین نہ جائیداد نہ بنگلے نہ لمبی لمبی کاریں نہ کوئی وڈیرا نہ کوئی جونیجو، نہ کوئی جتوئی نہ کوئی بھٹو،نہ میاں نہ چودھری۔ہر کوئی با اخلاق ہے اور لوگوں کو سفارش اور رشوت کی کوئی ضرورت نہیں لیکن بدقسمتی سے پورے پاکستان میں عاجز اور صحیح معنوں میں قابل لوگ کم ملے اور جو ملے بس گزارے لائق ہی تھے اور اْس سے بڑھ کر حیرانگی اس وقت ہوئی کہ سب دفتروں میں کام ہورہا ہے۔ کئی دفعہ اپنے آپ کو چٹکی کا ٹ کر دیکھا لیکن خواب نہیں حقیقت تھا۔لیکن کئی دفعہ خواب میں بھی انسان خواب دیکھتا ہے۔
ہر جگہ پردے کا سخت انتظام ہے اور ہنگامی بنیادوں پر فیکٹریاں لگائی گئی کہ عورتوں کو باپردہ کرنے کے لیئے۔ہنگامی بنیادوں پر گھر کے بستروں کی چادریں اور پردے، پردے اور حجاب کے لیئے استعمال ہورہے ہیں۔
ابھی اسی کیفیت کو چند دن ہی گزرے تھے۔ پاکستان خوشحال ہوگیااور ہر شخص کے چہرے پر رونق آگئی۔مردوں کی صحت اچھی ہوگئی عورتوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں کیونکہ پردے کی پابندی ہے۔ مسجدیں آباد۔مولوی پریشان ہیں ۔ یہ کیا ہوگیا ہے۔
اتنے سارے فارغ لوگ کوئی نا کوئی اچھا کام کررہے ہیں۔اتنی لگژریس (luxurious)
زندگی انسان عاجزی و انکساری اور قناعت کی دنیا میں آگیا ہے۔
اب مجھ پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ پاکستان میں اسلامی نظام رائج کردیا گیا ہے اور اس پر سختی سے علمی اور عملی طور پہ کام ہورہا ہے۔ لوگوں کو لڑکیوں کی شادیوں کا مسئلہ نہیں۔ان کی شادیاں سنِ بلوغت کو چھوتے ہی کردی جاتی ہیں۔اور لڑکے تمام برائیوں سے بچے ہوئے ہیں کیونکہ عین جوانی کے زینے پہ قدم رکھتے ہی ان پر ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ ان کے تمام کریز
(craze)
ختم ہوگئے ہیں۔ صرف بیوی بچوں کی فکر ہے۔عبادت اور اپنا کام اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔
اب نہ کوئی لڑکی کسی لڑکے سے چھپ چھپ کے ملتی ہے۔نہ وہ وقت سے پہلے ماں بنتی ہے۔نہ وہ بازاروں کی رونق بنتی ہے۔نہ لڑکے کالجوں کے گرد چکر لگاتے ہیں۔نہ گلیوں، بازاروں، کلبوں میں آوارہ لڑکے ملتے ہیں۔نہ والدین کو کوئی پریشانی ہے۔ نہ بچوں کو۔اس کے باوجود اسلحے کی فیکٹریاں،ملیں،کھانے پینے کی اشیاء اور سب کاروبا ر چل رہا ہے۔دینی و دنیاوی تعلیم مسجدوں میں دی جارہی ہے۔اس میں کیمسٹری،فزکس،میتھس،انگلش اور فرنچ یعنی ہر طبقہءِ فکر کی تعلیم دی جارہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہر نوجوان کو سپہ گری عسکری تعلیم دی جارہی ہے۔
اچانک میری آنکھ کھْلی گئی اور میں پسینے سے شرابور تھا۔ اٹھ کر دیکھا صبح کے دس بج رہے تھے اور میں باتھ کی طرف دوڑا۔برش کیا۔شیو کی اور گلیوں، بازارں کے چکر لگا کر واپس آگیا۔دنیا اپنے معمول پر تھی۔ دنیا کی اس بھیڑ میں اتنا گم ہوگیا کہ یاد ہی نہ رہا ۔لیکن اس خواب نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرفراز بیگ ۱۹۹۲؍۱۱؍۰۳ راولپنڈی

No comments:

Post a Comment