Sunday, June 9, 2013

عبدل حمید شیخ، میرےافسانوی مجموعے سے ایک افسانہ

عبدالحمید شیخ

عبدالحمید شیخ کی دوکان بڑے ٹھاٹھ سے چلتی تھی،کیوں نہ چلتی، دوکان جو انارکلی کے بیچوبیچ تھی۔ ان کا سارا مال فیصل آباد سے آتا اور کپڑا سارا اچھا اور معیاری ہوتا۔ ان کی دوکان کے دام اتنے مناسب ہوتے کہ کم کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جو دام رکھ دیا جاتا اسی دام پے کپڑا بیچا جاتا۔ کئی دفعہ گاہک حسبِ عادت دس بارہ دوکانیں گھوم کے آتے اور آخر کار انہیں سے کپڑا خریدتے۔ حمید صاحب بڑے محنتی آدمی تھے۔اس دوکان کو چلانے کے لیئے انہوں نے دن رات ایک کردیا تب جاکر کے وہ اس مقام پر پہنچے تھے۔ انہوں نے اسی دوکان سے ماڈل ٹاون میں بہترین گھر بنایا ۔ان کے پاس نئے ماڈل کی گاڑی تھی۔ حمید صاحب غلے (گلے) پے بیٹھے بیٹھے ،کبھی کبھی اپنا گنج (جہاں ٹاواں ٹاواں یعنی چھ سات بال تھے جو اکیلے پن کی وجہ سے اداس رہتے تھے لیکن سر کے ارد گرد جھالر ضرور تھی) کھجاتے کھجاتے ماضی کے نہاں خانوں میں چلے جاتے۔جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے والد صاحب چل بسے۔یہ لوگ فیصل آباد سے آگے ایک جگہ ہے ڈجکوت،وہاں کے رہنے والے تھے لیکن ان کا کاروبار فیصل آباد میں تھا۔ اس وقت بھی یہ لوگ کپڑے کا ہی کاروبار کرتے تھے۔حمید صاحب کے دادا نے چھوٹی سی دوکان سے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ اللہ نے کرم کیا اور کاروبار چل نکلا۔ حمید صاحب کے دادا کا کاروبار چلانے میں ان کے والد صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔جب کہ دو چھوٹے چچا بالکل مدد نہیں کرتے تھے۔ سب مل جل کے رہتے تھے اس لیئے پتا نہ چلتا اور گزارا بہت اچھا ہوتا تھا۔ عبدالحمید شیخ اور عبدالمجید شیخ یہ دونوں بھائی اس وقت بہت چھوٹے تھے جب ان کے والد اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔ کاروبار کا سارا دارومدار انہی سے سر تھا۔ ان کے اس طرح اچانک چلے جانے سے نہ صرف کاروبار کو دہچکا لگا بلکہ بچوں کو بھی تکلیف اٹھانی پڑی کیونکہ دونوں چچاؤں نے کاروبار میں دخل درمعقولات شروع کردیں۔ حالانکہ ان کے دادا جی بڑا خیال تھا حمید اور مجید کو بھی کاروبار کی طرف مائل کریں گے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ دونوں تعلیم بھی حاصل کرتے رہیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا کیونکہ دادا جان بھی دنیا سے جلد پردہ فرماگئے۔ اب یہ دونوں بھائی حمید اور مجید اپنے چچاؤں کے رحم و کرم پے تھے۔ ان کے بچے تو سکول جاتے تھے لیکن انہوں نے حمید اور مجید کو سکول چھڑوا کے گھر کے چھوٹے موٹے کاموں پے لگا دیا۔ کبھی دوکان پے ضرورت پڑتی تو وہاں بلالیتے اور کبھی گھر میں ملازموں کی طرح کام لیتے۔ ان کی ماں تو یہ تکالیف برداشت نہ کرسکی اور اپنے بچوں کو چھوڑ کے ماں باپ کے ہاں چلی گئی۔ وہاں اس کی انہوں نے دوسری شادی کردی۔ کبھی کبھی بچوں سے ملنے آجاتی۔ وہ ان کو کیسے لے کر جاتی چچاؤں نے زبردستی ان دونوں کو پاس رکھا ہوا تھا۔ مجید بڑا تیز نکلا اور جلد ہی اپنے چچاؤ ں کے چنگل سے نجات حاصل کرلی اور لاہور بھاگ گیا۔ وہاں محنت مزدوری کرتا رہا۔ ہر طرح کا چھوٹا موٹا کام کرتا رہا اور اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے جلد ہی حمید کو بھی اپنے پاس بلالیا۔ چچاؤں نے بڑی کوشش کی کہ ان دونوں کو راضی کرکے واپس لے آئیں لیکن مجید بڑا ڈھیٹ تھا وہ نہ مانا۔ اس نے عدالت میں مقدمہ کردیا اور دوکان ،مکان ملاکے انہیں ایک معقول رقم مل گئی۔ اب اس رقم پے بظاہر تو دونوں کا حق تھا لیکن مجید ساری رقم کا مالک بن بیٹھا۔ انہوں نے اس رقم سے انارکلی میں ایک چھوٹی دوکان خرید لی اور کپڑے کے کاروبار کا آغاز کیا۔ان کا کام چل نکلا کیونکہ یہ ان کا خاندانی کام تھا اس لیئے یہ اس کام کی اونچ نیچ کو سمجھتے تھے۔ اس دوران یہ دونوں گلبرگ کے پاس ایک گھر خریدنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس گھر پے مجید کا قبضہ تھا حمید کو صرف اتنا حق تھا کہ وہ اس میں رہ سکتا تھا۔ دونوں بھائیوں کے رشتہ داروں نے جب ان دونوں کے ٹھاٹھ دیکھے تو سب کو ان کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ اس طرح مجید جو کہ بڑا تھا اس کی شادی
ہوگئی۔ مجید خود تو تیز تھا ہی اس کی بیوی اور سسرال والے اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے۔ مجید نے اندر ہی اندر نہ جانے کیا چکر چلایا کہ وہ دوکان کے ساتھ ساتھ کپڑے کی مل کا بھی مالک بن گیا۔ اس کے ساتھ خدا نے اسے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا اور یکے بعد دیگرے تین بیٹے پیدا ہوئے۔ اب وہ دوکان پر کم ہی دکھائی دیتا۔ دوکان حمید ہی چلاتا۔انارکلی بازار میں سب لوگ یہی جانتے تھے کہ دوکان کا اصل مالک حمید ہی ہے۔ حالانکہ اس دوکان کا اصل مالک اس کا بڑا بھائی مجید تھا۔ مجید کا کاروبار اتنا پھیل چکا تھا کہ اس کی توجہ اس چھوٹی دوکان طرف کم ہوگئی تھی۔ اب تو حمید کا بڑا بھائی مجید یورپ اور امریکہ بھی جانا لگے تھا۔
اسی طرح وقت گزرتا رہا اور حمید کی بھی شادی ہوگئی۔ حمید کی بیوی بالکل اس کی طرح نرم مزاج اور نہایت شریف تھی۔ حمید کو اللہ نے شادی کے دس سال بعد اولاد کی نعمت سے نوازا اور نوازا بھی اپنی رحمت سے یعنی اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ دوسری دفعہ بھی بیٹی پیدا ہوئی۔ حمید صاحب چاہتے تھے کہ بیٹا ہو لیکن اس بات کا ذکر وہ لوگوں سے کبھی نہ کرتے۔ جب بھی کوئی پوچھتا کہتے مجھے تو لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ خدا ایک اور بیٹی دے دے۔ اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوئی کہ بیٹا پیدا ہو۔ حمید صاحب کی دوکان پے ایک لڑکا پچپن سے کام کرتا تھا اور وہ ان کے بارے میں ہر بات جانتا تھا۔ وہ بھی رشید سے بڑا پیار کرتے تھے۔ وہ اس کو گھر کے فرد کی طرح سمجھتے تھے۔ حمید صاحب اس پے بہت اعتماد کرتے تھے۔ یہ واحد لڑکا تھا جو غلے پے بھی بیٹھ جاتا۔ دوکان کا حساب کتاب بھی دیکھ لیا کرتا۔ حتی ٰ کہ مجید صاحب بھی رشید کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے حالانکہ وہ کبھی بھی کسی کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا کرتے تھے۔ ان کے تینوں بچے امریکہ میں پڑھتے تھے۔ انہوں آہستہ آہستہ اپنا کاروبار وہیں منتقل کرلیا تھا۔ ان دنوں وہ دوکان پے زیادہ آنے لگے تھے۔ انارکلی بازار میں سب یہی سمجھتے تھے کہ چند دنوں کے لیئے آئیں ہیں پھر چلے جائیں گے۔ان کے آنے کی اصل وجہ
سے تھی کہ وہ دوکان کو بیچنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں پتا چلا تھا کہ دوکان کے حساب کتاب میں کافی گھپلا کیا گیا ہے۔ بات بھی سچ تھی حمید صاحب نے دوکان کے کھاتے سے ماڈل ٹاؤن میں اپنا گھر بنایا تھا۔ عبدالمجید شیخ صاحب چاہتے تھے کے عبدالحمید شیخ اپنا ماڈل ٹاؤن والا گھر اور یہ دوکان بیچ دے اور ان کے ساتھ کینیڈا چلے۔ وہاں کی شہریت لے لے لیکن وہ نہ مانے کیونکہ انہیں پاکستان سے بہت پیار تھا۔ روز دونوں بھائیوں میں تکرار ہوتی۔
آج صبح جب مجید صاحب وارد ہوئے تو ان کا چھوٹا بھائی حمید کسی کام سے گیا ہوا تھا۔وہ آتے ہی برس پڑے۔ رشید نے کہا، ’’شیخ صاحب بیٹھے ،پانی پیءں، چائے منگواؤں‘‘۔ انہوں نے کہا،’’نہیں ، آج میں فیصلہ کرکے ہی جاؤں گا۔ حمید خود کو کیا سمجھتا ہے۔آج اس کے پاس جو کچھ بھی ہے سب میرا دیا ہوا ہے۔ رشید نے بات اچک لی، ’’جی سوائے بچوں کے‘‘۔انہوں نے کہا، ’’نہیں سوائے مکان کے‘‘۔

SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)
arezzo 12/12/2006

No comments:

Post a Comment